15/10/20

نور جہاں ثروت: منفرد لہجے کی شاعرہ مضمون نگار: ظفر گلزار



خواتین شعرا نے اردو ادب کے ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک میں شاعرات ا پنی نظمیہ شاعری میں نسوانی آزادی کی بات کرتی ہیں۔ جدیدیت کے دور میں اظہارِ آزادی پر اصرار کرتی ہیں تو مابعد جدیدیت میں وہ سماجی قیود‘ رسوم کے خلاف پر زور احتجاج بھی درج کراتی ہیں۔جب ہم ایسی باہمت شاعرات کی بات کرتے ہیں تو کشور ناہید‘ شفیق فاطمہ‘ فہمیدہ ریاض‘ پروین شاکر‘ ادا جعفری‘ زہرہ نگاہ‘ شہناز نبی‘ ترنم ریاض‘ اشرف رفیع‘ صغریٰ عالم‘ ساجدہ زیدی‘ زاہدہ زیدی‘ رفیعہ شبنم عابدی،عذرا پروین، شائستہ یوسف اور نورجہاں ثروت کے نام سامنے آتے ہیں جنھوں نے اپنے زورِ قلم سے خواتین کی آزادی کی صدا بلند کی۔

نورجہاں ثروت کی پیدائش دہلی میں 28نومبر 1949 کو ہوئی۔ ان کی پرورش ان کی نانی کے سائے میں ہوئی۔ جب انہوں نے دہلی کالج میں داخلہ لیا تو شعبۂ اردو کے صدر مشہور شاعر جناب جاوید وششٹ تھے‘ تو ثروت کوبھی شعر کہنے کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ بہت جلد معیاری اشعار کہنے لگیں۔ادب کے مطالعے کا جذبہ بھی بتدریج بڑھتا ہی جا رہا تھا اور وہ معیاری مضامین بھی لکھنے لگیں۔ان کی صحافتی زندگی کا آغاز 1970 میں اردو کے مشہور رسالے ’سیکولر ڈیموکریسی‘ سے ہوا۔ وہ واحد خاتون ہیں جنھیں اردو صحافت کی ’خاتون اول‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔  انھیں کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں لالہ جگت نرائن صحافت ایوارڈ (1985)‘ راجدھانی سوتنتر لیکھک ایوارڈ (1986)‘ نشانِ اردو برائے ادبی خدمات (1989)‘ نئی آواز برائے صحافت ایوارڈ (1994)‘ میر تقی میر ایوارڈ (1995)‘ انٹر نیشنل ایسو سی ایشن آف فار ایجوکیشن فار ورلڈ برائے صحافت (1999)‘ قومی تحفظ و بیداری ایشین اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن ایوارڈ (2000)‘ میڈیا انٹر نیشنل ایوارڈ (2002) اوراردو اکادمی دہلی ایوارڈ(2010) شامل ہیں۔

یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جارحانہ انداز میں زندہ دلی کے ساتھ گزارتی ر ہیں مگر ان کی شاعری میں اس جارحانہ پن اور زندہ دلی کا عنصر کم ہی نظر آتا ہے۔ وہ اپنی بات بہت ہی سبک انداز میں کہنے کی حامل رہی ہیں، ان کی غزلیں اور نظمیں اس طرز کی عکاس ہیں۔ وہ تمام عمر اکیلے پن اور رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں۔ یہی نوحہ وہ اپنے شعری مجموعے ’بے نام شجر‘  میں گاتی نظر آتی ہیں۔یہ مجموعہ1995 میں منظرِ عام پر آیا اور مقبولیت کی بلندیاں حاصل کیں۔

 انہوں نے اپنی غزل اور نظم کے ذریعے عصری مسائل پر خوب لکھا ہے۔ ان کے یہاں عشق و محبت کی باتیں کم ہی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے احساسات اور جذبات کا اس طرح سے اظہار کرتی ہیں جو قاری کو بے حد متاثر کرتا ہے۔ ان کی زبان میں دہلی کے رنگ کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

نورجہاں ثروت کا انتقالِ پر ملال 17 اپریل 2010 کو دہلی میں ہی ہوا۔ ان کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جسے اردو شعر و ادب میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا مگر وہ اپنی شاعری  کے ذریعے ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ نورجہاں ثروت کو بچپن سے لے کر ان کی زندگی کے آخری لمحوں تک تمام طرح کے نامساعد حالات کا سامنا رہا۔انہوں نے زندگی کو قریب سے جینا سیکھا اور یہی سچائی ان کی شاعری میں نظر بھی آتی ہے۔شاید زندگی کی انہی تلخیوں کی وجہ سے وہ اپنی بات کو بے باک انداز میں کہتی چلی گئیں۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ تمام تر انسانی اور سماجی قدریں انسان کی ٹھوکروں میں ہیں اور شاید یہ قدریں آخری سانسیں گن رہی ہیں۔ انسانی رشتے آج اپنا وجود کھو چکے ہیں اور ایسے پر آشوب دور میں اپنی بات کہنا اور سماج سے منوا لینے کا فن بھی نور جہاں ثروت بخوبی جانتی تھیں۔ ان کی ایک نظم ’ہوائوں کا انتظار‘ کا ایک بند اسی کیفیت کا غماز ہے    ؎

آواز کبھی نہیں مرتی

اس کے درمیان

وقت بھی حائل نہیں ہوتا

اگر کبھی میری بات سننے کو جی چاہے

آواز کو کان ترسیں

اور مجھے تم اپنے درمیاں نہ پا سکو

تو تصور کی کھڑکیاں کھول کر

ہوائوں کا انتظار کرنا

 وہ اپنی شعری دنیا میں اپنے آپ کو ایک شجر کی مانند محسوس کرتی ہیں‘ جس کی شاخیں زمین کے اوپر،نیچے اور سبھی جانب دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔اس ملک کی ہوا اور دھوپ نے ان کی بے حد پیار سے پرورش کی ہے حتیٰ کہ وہ ایک تناور درخت بن گئیں۔ اپنی ٹھنڈی چھایا وہ اس دنیاکو دینا چاہتی ہیں ‘ جس سے اس زمین کا قرض ادا ہو جائے۔ مگر حالات کی سختی کی وجہ سے یہ تناور درخت اس زمین سے اکھڑ چکا ہے۔ اس نظم میں شاعرہ اپنی سر زمین کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتی ہے کیونکہ وہ یہیں پیدا ہوئی‘پلی بڑھی اور جب اس سرزمین کے لیے کچھ کرنے کا وقت آیا تو وہ کہیں نہیں تھیں۔

اپنے آپ کو نامساعد حالات میں زندہ رکھنا بے حد مشکل امر ہے اور نورجہاں ثروت نے تو تمام زندگی ہی تنہائی میں گزار دی۔ اس خالق کے سوا ان کا کوئی سہارا نہیں تھااور وہی سخت حالات میں ان کی مدد کرتا تھا۔ اسی لیے وہ کہتی ہیں کہ ہمارے اندر کچھ کرنے کی چاہ اور آرزو تھی اس لیے کوئی بھی طوفان ہماری زندگی کے اس چراغ کو بجھا نہیں سکا۔

وہ جب عورت پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرتی ہیں توان کی شاعری میں متانت‘ سنجیدگی اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ ان کا لہجہ تب بھی شیریں ہی رہتا ہے اور وہ ہلکے پھلکے مگر مؤثر اندازمیں اپنی بات رکھتی ہیں۔ وہ غزل کی لطافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں اور ایسے الفاظ کا استعمال کرتی ہیں جو ترش نہیں ہوتے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے       ؎

کر رہی ہے جو مرے عکس کو دھندلا ثروت

میں نے دنیا کی کوئی بات نہیں مانی ہوگی

(بے نام شجر‘ صفحہ 43)

نورجہاں ثروت اپنی خودداری بے حد عزیز ہے۔ ان کو یہ منظور نہیں کہ ان کی شخصیت یا ذات میں کوئی دوسرا شریک ہوکر ان کے خیالات یا ان کے احساسات پر کوئی پہرا لگائے۔وہ اپنے درد و غم کو خود ہی اٹھا رہی ہیں۔اب ان کے فیصلوں میں کوئی شریک نہیں ہے اس لیے ان تکالیف کو اٹھانے میں بھی انہیں مسرت حاصل رہی ہے۔

وہ سماج کے سیاسی اور معاشرتی حالات پر بھی بے حد سنجیدہ طنز کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ’ نفرت کی آگ تو کبھی بھی بھڑکائی جا سکتی ہے جس سے ملک کا نظام تو درہم برہم ہوجائے گا مگر ہمیں اس آگ کو بھڑکانے کی جگہ بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘ وہ ان یادوں کے سہارے زندگی گزار رہی ہیں جو کبھی ان کی زندگی کا خاصہ تھیں۔ اس جھوٹی اور مکار دنیا میں حق اور انصاف کی بات کرنے والا کوئی نہیں بلکہ حق بات کہنے والے کو سنگسار کر دیا جاتا ہے۔

جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو ان کا لب و لہجہ ہم عصر شاعرات کے مقابلے میں بے حد انفرادیت کا حامل ہے۔ انھوں نے زندگی کے اتارچڑھائو‘ سیاسی‘ سماجی و معاشرتی معاملات کو اپنی غزل میں بے حد سبک اور شیریں انداز میں برتا ہے۔ ذرا ان کی غزلوں کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے      ؎

جو سلسلے رشتوں کے تھے سب ٹوٹ چکے ہیں

بس یادوں کی محراب پہ زنجیر سجی ہے

    )بے نام شجر‘ صفحہ 45(

شریک ذات ہو کوئی یہ کب گوارا تھا

ہمیں خوشی ہے کہ غم اپنا خود اٹھانا پڑا

   )ایضاً‘ صفحہ 29)

آگ نفرت کی تو جب چاہو لگاسکتے ہو

شعلے نفرت کے کسی روز بجھا کر دیکھو

        )ایضاً‘ صفحہ 20(

ہر ایک دور میں سچ کہہ کے سنگسار ہوئے

ہمارے حق میں زمانے کا فیصلہ کب تھا

)ایضاً‘صفحہ 21(

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نورجہاں ثروت کی غزل کا ا ندازِ گفتگو اپنی ہم عصر شاعرات سے یکسر جداگانہ تو ہے ہی ساتھ ہی موضوعات کے تنوع کو بھی محسوس کیا جا سکتاہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں تشبیہیں‘ استعارے اور علامتیں استعمال کی ہیں وہ جدید ذہن کی عکاس ہیں۔ جس طرح غزلیہ شاعری میں انہوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں اسی طرح ان کی نظمیہ شاعری بھی کمالِ کلام رکھتی ہے۔انہوں نے بڑی تعداد میں مختصر اور طویل نظمیں لکھی ہیں‘ خاص طور پر ان کی نثری نظمیں تو اپنے دو رکی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔

وہ اپنی نظم میں کچھ اس انداز سے گفتگو کرتی ہیں کہ ان کے تصور میں ان کا خوبصورت بچپن لوٹ آیا ہے۔ اس بچپن پر وقت کی دھول نظر نہیں آتی اور ان کے بزرگوں کی شفقتیں اور محبتیں بھی ان کو میسر تھیں۔ مگر ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آنے والا وقت بے رحم ثابت ہوگا اورہر انسان ذمے داریوں کے چلتے اپنا وجود کھو دیتا ہے‘ صرف یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔ آج وہی یادیں شاعرہ کو بچپن میں واپس لے جاتی ہیں جہاں کوئی لوری سناکر سلا رہا ہے۔ ہر انسان اپنے بچپن کو ہمیشہ یاد کرتا رہتا ہے‘ روح بے قرار رہتی ہے کہ کسی طرح بچپن کو پھر سے حاصل کرلیا جائے اور شاعرہ نے بھی یادوں کے جھروکوں میں اپنے بچپن کو پا لیا ہے۔وہ اپنے آپ کو ایک ایسا مسافر تصور کر لیتی ہیں جس کی منزل کا انہیں بھی پتہ نہیں ہے اور خیالات کو حقیقت سمجھ کر ان کے پیچھے دوڑتی ہیں کہ شاید ان کے بچپن کے حسین لمحات انہیں حاصل ہو جائیں مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں ان کی نظم کی کچھ سطور ملاحظہ کیجیے     ؎

آج کھویا ہوا بچپن مرا لوٹ آیا ہے

وہی بچپن کہ جو کھیلا تھا

محبت کے حسین آنگن میں

وقت کی دھوپ نے  جھلسایا تھا جس کو

شفقتیں اس پر نچھاور تھیں

محبت قرباں

اس کو معلوم نہ تھا

سخت بھی ہوتی ہے زمیں

اور ہوتا نہیں آنچل بھی کوئی

وقت بے رحم ہے سب کچھ چھین کے لے جاتا ہے

اور رہ جاتے ہیں یادوں کے

نقوشِ مبہم

آج پھر یادوں نے پہنا ہے لباسِ رنگیں

آج پھر بوئے وفا آئی ہے

پھروہی پیار کی لوری

مدتوںذہن ترستا رہا جس کی خاطر

مدتوں روح نے ڈھونڈا

وہی بیتا لمحہ

لے گیا تھا جو کبھی مجھ سے چرا کر مجھ کو

)بے نام شجر‘ صفحہ85-86)

نورجہاں ثروت اپنی زندگی کے حقائق اور تخیلاتی دنیا کے تجربات کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ یہ بھی سچائی ہے کہ انسان کی زندگی میں کچھ خوبصورت لمحات بھی مقدر ہوتے ہیں۔ جب اس کو مشکل راہ سے گزرنا پرتا ہے تو وہ اپنی ان یادوں میں کھو جاتا ہے جو بے حد حسین تھیں۔وہ اس کو تسلی و تشفی عطا کرتی ہیں کہ آج اگر یہ مشکل وقت آیا بھی ہے تو کل پھر وہ خوبصورت لمحات میسر ہو سکتے ہیں۔ یہی حالات ان کی اس نظم میں نظر بھی آتے ہیں۔

ان کی ایک اور شاندار مگر طویل نظم ’اپنے لیے جیو‘ ہے، اس نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے        ؎

زندگی کا مقدر

نئے خواب ہیں

تم بھی درپن کو دل کے اجاگر جان لو

تم آج بھی خود کو پہچان لو

زیست جینا بھی ہے

زیست مرنا بھی ہے

تجربہ زہر ہے

اس کو پینا بھی ہے

دوسروں کے لیے

تم بھلا کیوں جیو

زہر پینا ہے گر

اپنی خاطر پیو             

                  )بے نام شجر‘ صفحہ 125)

اس نظم میں ثروت خواتین کے درد وکرب اس طرح بیان کرتی ہیں کہ اس میں نسوانی حسیت ابھرکر سامنے آتی ہے۔ اس نظم کے ہر لفظ میں ان کے درد اور کرب و الم کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کرب کی ایک داستان ہے جو آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہے۔  وہ استعاراتی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے مرد کے ذریعے ہونے والی زیادتیوں کو عیاں کرتی ہیں۔ دوسری جانب وہ خود سے مخاطب ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ ہی دوسروں کا سہارا بنتی رہی اور ان کی زندگیوں کو روشن کرتی رہیں مگر انہیں کیا ملا؟ـ صرف اندھیرا، اکیلا پن اور آنسو۔ اب چھوڑو ان سب باتوں کو اور اب صرف اپنے لیے جینے کی کوشش کرو۔وہ اس دنیا کے جھوٹ اور فریب کو دیکھ رہی ہیں، ان کو اندازہ ہے کہ وہ پھر دھوکا کھائیں گی مگر انسانوں پر بھروسہ کرنا ہی پڑتا ہے اوروقتی خوشی حاصل کرنے کے لیے ایک شخص کے فریب میں آجاتی ہیں۔

ان کی ایک اور لازوال نظم ہے ’بے چہرہ خیال‘ جس میں وہ دنیا کی بے ثباتی کا احوال پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس دنیا میں جنم لینا بے کار ہے، کیونکہ دنیا کے حالات بہت خراب ہیں۔ یہاں ہر طرف بارود ہے جس کی وجہ سے سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔ اب لوگوں کے پاس خیال یا نظریہ بھی باقی نہیں ہے۔ سبھی کے چہرے غم زدہ ہیں، اب کسی شخصیت کی کوئی شناخت باقی نہیں ہے۔ جہاں تک نظر جاتی ہے بربادی ہی دکھائی دیتی ہے اور انسانیت بھی دم توڑ رہی ہے اور انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ اس کا نظم کاایک بند ملاحظہ کیجیے        ؎

ایک زخمی پرندے کی طرح

بے چہرہ خیال

الجھ گیا ہے اچانک مجھ سے

کیا شکل دوں اسے

کچھ سمجھ نہیں آتا

ہر چہرہ لہولہان، زخمی، ماتم کناں

ہاں

جنم دن کس لمحۂ تعزیز کا عنوان ہے

وہ دن

جب ہم نے دنیا میں آنکھیں کھولیں

اور سب کو چہکتے مہکتے دیکھ کر

بے نام خوف سے چیخ پڑے، چلا اٹھے

یا وہ یومِ اشتیاق

جب جسم میں نازک جذبوں کی انگڑائی نے

رگوں میں بھری تھیں چنگاریاں

یا وہ روزِ حسرت ناک

جب پیار کی موت

روح میں اتر گئی تھی نغمۂ جاوداں کی صورت

)بے نام شجر‘ صفحہ 133-134)

اسی طرح ان کی ایک نظم ’لہو کے ہتھیار‘ ہے جس میں نورجہاں ثروت کہتی ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم و ستم کیوں کر رہاہے؟ یہاں انسان کیوں شیطان بن گیا ہے؟ بڑا ملک چھوٹے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے یادنیا پر اپنا اقتدار جمانے کے لیے انسانیت کا خون بہا رہے ہیں۔ اس نظم کا ایک بند دیکھیے        ؎

وہ جن کے دعوؤں میں شیطانیت ہے

غرور جن کی متاعِ جاں ہے

نحوستوں کے

تباہیوں کے

دلوں میں اپنے ارادے لے کر

وہ ہو کے بے باک سوچتے ہیں

ذرا جو مل جائے اور طاقت

تو ساری دنیا

ہمارے قدموں پہ آ گرے گی

ہمیں ہی سجدے کیا کرے گی

(بے نام شجر‘ صفحہ 130-131(

اس طرح نورجہاں ثروت کی شاعری کے مطالعے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں انسانی رشتوں کے نشیب و فراز اور بکھرتی ہوئی انسانی قدروں کی درد و کرب میں ڈوبی ہوئی آواز ہی سنائی دیتی ہے۔ وہ ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بات کرتی ہیں۔ نئے خواب اور نئی راہیں ہموار کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ ان کے تمام انسانی رشتے ٹوٹ گئے تھے اور ایسی زندگی کے درد و کرب کو بھولنے یا کم کرنے کی خاطر اپنی یادوں، اپنے خواب اور تصورات کا سہارا لے کر زندگی گزار دیتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ذہنی و قلبی سکون کی تلاش میں متحرک رہیں مگر حاصل نہ ہو سکا۔

 



Dr. Zafar Gulzar

Directorate of Translation and  Publications

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli, Hyderabad-500032

M: 9966818593

Email: drzafargulzar@gmail.com

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں