15/10/20

غلام مجتبیٰ انصاری اور ان کا سفرنامۂ ایران مضمون نگار: فیضان حیدر


 

پروفیسرغلام مجتبیٰ انصاری کا تعلق ضلع ویشالی کی ایک مردم خیز بستی عطاء اللہ پور سے ہے۔وہ 18 مئی 1938 کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد نصیر الدین تھاجو لعل گنج کے ایک اسکول میں بحیثیت استاد مامور تھے۔ابتدائی نشو و نمااور تعلیم و تربیت والد کے زیر سایہ ہوئی۔ 1952 میں لعل گنج کے اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد حصول علم کا شوق و ذوق دامن گیر ہوا، چنانچہ انھوں نے پٹنہ کی راہ لی اور پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔یہاں سے 1954 میں آئی اے اور 1956 میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔1958 میں فارسی میں ایم۔اے اور 1960 میں اردو میں ایم اے کیا۔1970 میں ڈاکٹر محمد صدیق کی نگرانی میں ’درویش حسین والہ ہروی کی حیات و خدمات‘ پر وقیع تحقیقی مقالہ لکھ کرڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ’حکیم شیخ حسین شہرت شیرازی کی شخصیت اور علمی کارناموں ‘پر تحقیقی مقالہ لکھا، جس پر پٹنہ یونیورسٹی نے 1977 میں ان کو فارسی میں ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی۔

1900میں یوجی سی کے ذریعہ ایک پروجیکٹ بہ عنوان’ ہندوستان کی فارسی شاعری میں ہندوستانی سماج اور ثقافت کی جھلک‘ کے سلسلے میں مواد کی فراہمی کی غرض سے انگلستان کا سفر بھی کیا۔1994 میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی دعوت پر ایک ماہ کے ریفریشر کورس میں شرکت کے لیے ایران گئے۔وہاں انھوں نے علمی، ادبی اور مذہبی مقامات کی سیر و سیاحت کی اور وہاں کے تاریخی آثار کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔’مشاہدات مجتبیٰ از سفر ایران‘ ان کے اسی سفر کی یادگار ہے۔

ویسے تو ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بہار کو آپریٹوسوسائٹی میں بحیثیت انسپکٹر ہوا،لیکن چونکہ یہ ان کا عملی میدان نہیں تھا اس لیے بہت جلد اس سے کنارہ کش ہوکر درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ 1960 میں سہرسہ کالج سہرسہ میں لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر عمل میں آیا۔اس کے بعد ٹی۔ این۔ بی کالج بھاگل پور چلے گئے جہاں 1982 تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔1982 میں بہار یونیورسٹی مظفرپور کے شعبہ فارسی میں بحیثیت ریڈر منتخب ہوئے اور مجموعی طور پر تقریباً 37 سال تدریسی خدمات کی انجام دہی کے بعددسمبر 1997 میں بحیثیت پروفیسر سبک دوش ہوئے۔

 علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو 15 اگست 2001 کو صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازے جانے کا فیصلہ کیاگیا،چنانچہ6فروری2002کو صدر جمہوریہ کے۔ آر۔ نارائن کے مبارک ہاتھوں سے ان کو ایوارڈتفویض کیا گیا۔انھوں نے کئی کتابیں تصنیف و تالیف کیںجن میں سے بعض کتابیں ان کے گہرے تحقیقی و تنقیدی شعور پر دال ہیں۔ ان کے متعدد مضامین قومی اور بین الاقوامی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

انھیں تصحیح و تدوین سے ذہنی مناسبت تھی۔ اس سلسلے میں ان کا سب سے اہم کارنامہ شیخ حسین شہرت شیرازی کے دیوان کی تصحیح و تدوین ہے جو 2010 میں ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی سے شائع ہوا۔اس کے مطالعے سے ان کی تحقیقی و تدوینی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ان کا انتقال 20ستمبر 2018کوپٹنہ میں 80 سال کی عمر میں ہوا۔

ان کی کتابوں کی فہرست مع جائے اشاعت و سال اشاعت پیش کی جارہی ہے تاکہ ان پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے معاون ثابت ہو:

.1        حکیم شیخ حسین شہرت شیرازی:احوال و آثار، مطبوعہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ 1997

.2        دیوان اشعار حکیم شیخ حسین شہرت شیرازی، ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی، 2010

.3        سید قاسم حاجی پوری:ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ مع غزلیات قاسم،مطبوعہ دی آرٹ پریس، پٹنہ 1977

.4        عبدالقیوم انصاری، مطبوعہ بہار اردو اکادمی، پٹنہ 2006

.5        فخر ملک عبدالقیوم انصاری: احوال و افکار،مطبوعہ عبدالقیوم انصاری ایجوکیشنل فاؤنڈیشن،2002

.6        فرہنگ فارسی جدید با معانی اردو، مطبوعہ بھاگل پور،1981

.7        گنجینہ ادب المعروف (بہ) مقالات مجتبیٰ،مرتبہ ڈاکٹر اعجاز احمد، مطبوعہ ادارہ تحقیقات عربی و فارسی، پٹنہ 2010

.8        مشاہدات مجتبیٰ از سفر ایران ہمراہ با ہشت مقالہ، مطبوعہ ادارہ تحقیقات عربی و فارسی، پٹنہ2012

.9        مولانا محمد نصیر الدین:احوال و آثار،مطبوعہ ادارہ تحقیقات عربی و فارسی، پٹنہ2013

مجتبیٰ انصاری ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک بہترین استاد ہونے کے ساتھ ادیب، محقق، ناقد اور شاعر بھی تھے۔ ایک بہترین استاد کی حیثیت سے ان کی شناخت مسلّم ہے،لیکن انھوں نے گاہے بہ گاہے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی بھی کی ہے۔ اس کی عمدہ مثال ان کا منظوم فارسی سفرنامہ ہے۔ ان کا منظوم ادبی سرمایہ اگرچہ کمیت میں کم ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے قابل لحاظ ہے۔ موصوف نے اپنی فکری صلاحیتوں کے اظہار کا وسیلہ اردو اور فارسی دونوں کو بنایا لیکن ان کا بیشتر منظوم ادبی سرمایہ ضائع ہوگیا جس میں بڑی حد تک ان کی سادہ لوحی اور بے نیازی کا عمل دخل رہا ہے۔

موصوف کا سفر ایران 20مارچ 1994 کو شروع ہوا۔ انھوں نے اس سفر کا آغاز دہلی سے کیا۔ دہلی سے ہوائی جہاز کے ذریعہ بمبئی گئے اور وہاں سے ’ہما ‘نامی جہاز پر سوار ہوکر تہران کے ہوائی اڈے مہرآباد پہنچے۔ ان کا قافلہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔جب یہ قافلہ ایران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر پہنچا تو اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ قافلے کو باشگاہ فرہنگیان میں ٹھہرایا گیااور اس کی رہنمائی کے لیے جناب گیلانی نژاد مقرر کیے گئے۔

مجتبیٰ انصاری نے اپنے اس سفر کی یادداشتوں کو منظوم سفرنامے کی شکل دی اور فارسی میں لکھے گئے اپنے دوسرے تحقیقی و تنقیدی مقالات کے ساتھ 2012 میں ’مشاہدات مجتبیٰ از سفر ایران ہمراہ با ہشت مقالہ‘ کے نام سے شائع کیا۔مقالات سے قطع نظر ان کے منظوم سفرنامے کے حوالے سے چند معروضات پیش کی جارہی ہیں جو تقریباً تیس صفحات پر مشتمل ہے۔انھوں نے اس سفرنامے کو مختلف عنوانات میں تقسیم کیا ہے جو بالترتیب یہ ہیں: مناجات، نعت حضرت محمد مصطفی (ص)، مدح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، و لہ، از ہند تا ایران، باشگاہ فرہنگیان، دیدار از قم، دیدار از مرقد عبد العظیم، رفتن بہ سعد آباد و دیدن قصرہای شاہی، سیاحت مشہد، خانم ہای ایران، شہر تہرانست مثل نو عروس، خطاب بہ آقای گیلانی نژاد، بہ نام آقای سید مجتبیٰ موسوی، تہنیت بہ جناب آقای دکتر سید جعفر شہیدی بہ اہدای دکترای افتخاری من جانب دانش گاہ پکن، گل ہای عقیدت۔

چونکہ مجتبیٰ انصاری کی نشو و نما علمی و ادبی ماحول میں ہوئی تھی اس لیے ان کا ذہنی میلان شروع سے ہی شعرو ادب کی طرف تھا۔ کلاسیکی فارسی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے قدما کے دواوین وکلیات کا مطالعہ کیا تھاخصوصاً ہندوستانی فارسی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے، نیز جدید افکارونظریات اور اسلوبیات و لفظیات سے بھی باخبر تھے۔ ’مشاہدات مجتبیٰ از سفر ایران‘ اس کی جیتی جاگتی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔دیکھیے اس کا آغاز کس انداز سے کرتے ہیں      ؎

خدایا! ببخشا گنہ گار را

نگاہ کرم کن خطاکار را

بسی شرمسارم بہ درگاہ تو

کہ راہی ندارم بہ جز راہ تو

اگر تو نبخشی تبہ می شوم

بہ قعر مذلت تبہ می شوم

بسی ظلم کردم بہ نفس خودم

نبخشی اگر رو سیہ می شوم

(ترجمہ: (1) اے خدا! تو اس گنہگار کو بخش دے، اس خطاکار پر نظر عنایت کردے۔(2) تیری بارگاہ میں بہت شرمندہ ہوں کیوں کہ تیرے سوا تمام راستے مسدود ہیں۔ (3)  اگر تو مجھے معاف نہ کرے تو تباہ و برباد ہوجاؤں گا، ذلت کے کنویں میں[اوندھے منھ گر کر] ہلاک ہوجاؤں گا۔ (4)  میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے، اگر تو معاف نہ کرے تو میں گنہگار ہی رہ جاؤں گا۔)

مناجات کے یہ اشعار ان کے ذہنی و فکری رویے کا پتا دیتے ہیں۔ ایک ایک شعرمیں جس حوصلے، جذبے، دین داری اور دنیا بیزاری کااظہار ہواہے اس سے ہم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ مناجات کے اشعار ہیںجن میں خوف خداکا بیان کھل کرہوا ہے اور یہی گھبرائے ہوئے دلوں کے چین و سکون اور اطمینان کا ساز و سامان بھی ہے۔ ہم اسے محض ان کا تفکر و تخیل قراردیں یا ان کے رگ و ریشے میں پیوست خوف خدا اور دینی غیرت وحمیت۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ مکتب کی کرامت ہی ہے جس نے یہ ابراہیمی جذبہ ان کے سینے میں ڈال دیا۔

موصوف کو طبیعت کی موزونی قدرت نے ودیعت کی تھی، لیکن انھوں نے اس کی مشق و ممارست جاری نہیں رکھی جس کی وجہ سے کہیں کہیں ان کی شاعری پھیکی پڑگئی ہے۔ اس کے باوجود ان کی شاعری معاصر ہندوستانی فارسی شاعری میں اپنامنفرد مقام رکھتی ہے۔وہ دور اخیر کے ہندوستانی فارسی شعرا عبدالقادر بیدل، مرزا غالب اور علامہ اقبال کا تتبع کرتے ہیں۔

گیلانی نژاد ہر سفر میں مجتبیٰ انصاری کے ساتھ ساتھ رہے اور ان سے اتنا شیر و شکر ہوگئے کہ انھیں اپنے گھر کا ایک فرد تصور کرتے تھے۔ ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے اور ان کے ہر حکم کی تعمیل میں لگے رہتے تھے۔ انھیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان غیر ایرانی مہمانوں کی خاطر خواہ مہمان نوازی نہ کرسکیں۔ لیکن یہ خلوص و محبت یک طرفہ نہیں تھا بلکہ مجتبیٰ انصاری بھی گیلانی نژاد کے اخلاق و کردار اور ان کے جذبۂ ایثارسے حد درجہ متاثر تھے۔چنانچہ ان کی رہنمائی کی قدردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں    ؎

فکر او بودہ تمامی مشتمل بر این مراد

تا بیاموزیم درس و ہم زبان گیریم یاد

(ترجمہ: ان کی پوری توجہ اس مقصد پر مرکوز تھی کہ ہم تربیت حاصل کریں اور فارسی سیکھ لیں۔(

ہندوستانیوں کو کسی طرح کی بھی قید و بند میں رہنا قطعاً پسند نہیں ہے۔ جب وہ ایران میں فارسی کے اس تربیتی کورس کے لیے گئے تو ان پر دروس کے نظام الاوقات لاد دئے گئے۔ آزاد فضا میں سانس لینے والے افراد کو قید و بند میں رہنا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ اس سلسلے میں ان کے روسی دوست بھی کچھ کم نہ تھے کیوں کہ انھوں نے ہندوستانیوں سے قبل ہی آزادی کا سویرا دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کے بعض دوستوں نے ان سے شکایت کی کہ ہم خود استاد ہیں اور یہاں شاگردوں کی طرح ہم کو ٹریٹ کیا جارہا ہے۔ ہم کو یہ پابندی دروس کیوں کر برداشت ہوسکتی ہے    ؎

دوستان گفتند سختی ہای پابند دروس

کی روا باشد برای ہندیان و اہل روس

(ترجمہ: دوستوں نے کہا کہ دروس کی یہ پابندی ہم ہندوستانیوں اور روسیوں کے لیے کیوں کر قابل برداشت ہوسکتی ہے۔(

تو انھوں نے اپنے دوستوں کو ماضی کے جھروکے میں جھانک کرد یکھنے کو کہا کہ ہم مشرقی روایات کے پاسدار و امین ہیں۔ ہم استاد کی اُس ضرب و کوب کو اپنے لیے ننگ و عار نہیں سمجھتے جو ادب سکھانے کے لیے ہو    ؎

سیلی استاد می باشد برای بہتری

نی برای دشمنی یا بہر کینہ پروری

(ترجمہ: استاد کا طمانچہ شاگرد کی بھلائی کے لیے ہوتا ہے، دشمنی یا کینہ پروری کی وجہ سے نہیں۔)

باشگاہ فرہنگیان کی لطافت، وہاں کے خوشنما مناظر اورعیش و عشرت کے ساز و سامان نیر عمارت کے حسن و فن کاری سے بہت متاثر تھے۔ اس جنت نظیر باشگاہ کے اندرونی مناظر کا بیان اس طرح کرتے ہیں        ؎

باشگاہ خوشنما در قلب آن تہران شہر

در تمامی راحت و آرام جان عنوان دہر

ہر کہ می آید ز خارج اندرون باشگاہ

جملۂ سامان عشرت درہمی یابد بگاہ

ہر اتاق باشگہ آراستہ مثل نگار

در نظافت بی مثال و در لطافت چون بہار

اندرون ہر اتاقی رختخواب خوب و نرم

مستراح سنگ مرمر، ہست ہم حمام گرم

)ترجمہ:(1) شہر تہران کے مرکز میں ایک خوبصورت، روح پرور اور راحت بخش باشگاہ ہے جو مشہور زمانہ ہے۔ (2)  بیرونی ممالک سے جب کوئی شخص باشگاہ میں آتا ہے تو اسے عیش و عشرت کے تمام ساز و سامان یکجا میسر آتے ہیں۔(3)  باشگاہ کے تمام کمرے معشوق کی طرح آراستہ ہیں، صفائی ستھرائی میں بے مثال اور لطافت میں بہار کی مانند ہیں۔(4)  ہر کمرے میں خوبصورت نرم بستر اور آرام کے لیے سنگ مرمر کی آرام گاہ اور گرم حمام ہے۔)

جب کوئی بھی سیاح کسی بستی سے گزرتا ہے تو وہ چشم دید واقعات کا واحد گواہ بن جاتا ہے۔ جب مجتبیٰ انصاری سعد آبادگئے اور وہاں کے کھنڈرات کا مشاہدہ کیا تو ان کی دوررس نگاہیں تاریخ کے اوراق پارینہ میں گم ہوگئیں اور انھوں نے انھیں اوراق سے شاہ کی شان و شوکت اور اس کی قدرت کا اندازہ لگایا۔ لیکن بہت جلد ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس سرائے فانی کو ثبات نہیں ہے۔ یہاں جو بھی آیا ہے اس کو ایک نہ ایک دن جانا ہے۔کاش یہ افراد اس حقیقت سے آگاہ ہوتے تو اتنے غرور و تکبر کا شکار نہ ہوتے۔ یہاں انھوں نے کسی ایک فرد کی بات نہیں کی ہے بلکہ درس عبرت کے طور پر دنیا کے تمام مکینوں کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ دنیا کی سرشت میں وفاداری نہیں ہے۔ اس لیے دنیاوی ساز و سامان کی فراہمی اور اس کی آسائش و آرائش میں گم ہوجانا سراسر دھوکا ہے بلکہ آخرت کا خیال بھی ہر آن ہونا چاہیے۔ کبھی بھی اپنی قدرت کا استعمال ظلم و جبر و تشدد کے لیے نہیں کرناچاہیے کیوں کہ یہ چیزیں خود بخود انسان کو غیر شعوری طور پر قعر مذلّت میں ڈھکیل دیتی ہیں۔چنانچہ وہ کہتے ہیں      ؎

کاخ ہای شاہ دیدم یاس و حسرت داشتہ

یاد کردم روزہا چون شاہ قدرت داشتہ

بی وفایی در نہاد ماست از روز ازل

کاش آن شہ آگہی از این حقیقت داشتہ

(ترجمہ:(1)بادشاہ کے محلات دیکھے جو یاس و حسرت میں ڈوبے ہوئے تھے تو میں نے ان دنوں کی یاد تازہ کی جب بادشاہ صاحب اقتدار تھا۔(2) ہماری سرشت میں بے وفائی روز ازل سے ہی ڈال دی گئی ہے، کاش وہ بادشاہ اس حقیقت سے واقف ہوتا۔)

یہ بات بھی قابل غورہے کہ مجتبیٰ انصاری کی اپنی ذاتی ترجیحات ہیں۔انھوں نے آزادانہ طور پر سماجی ومعاشرتی مسائل کو اپنے اظہار کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے مناسب و موزوں اسلوب اور تخلیقی وسائل سے بھی کام لیا ہے۔ جب انھوں نے نیشاپور کا دورہ کیا تو انھیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ اپنے وطن میں ہیں۔وہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی،خلوص، محبت، دوستی اور ایثار کو دیکھا تو رطب اللسان ہوئے      ؎

اہل نیشاپور را دیدیم بسِ مہمان نواز

نیک طینت نیک سیرت با مدارا دلنواز

(ترجمہ:اہل نیشاپور کو دیکھا کہ بہت مہمان نواز ہیں۔ اچھی فطرت والے، نیک کردار، مہربان اور مونس و غم خوار ہیں۔)

 سماج کی تعمیر و ترقی میں طبقۂ نسواں کا اہم کردار رہا ہے۔جس سماج کی عورتیں تعلیم یافتہ اور بلند فکر ہوں اس کی اڑان اوج ثریا تک ہوتی ہے۔عورت کی کئی حیثیتیں ہیں،بیٹی، بہن، بیوی، بہو، ماں، ساس، دادی، نانی وغیرہ۔ وہ زندگی کے ہر پڑاؤ میں مردوں کی یار و مددگار رہی ہے۔ ایرانی عورتیں اس کی زندہ مثال ہیں۔شاعر کے بقول وہ شرم و حیا کا پیکر ہونے کے ساتھ شریعت کی پابند بھی ہیں۔عفت اور پاکیزگی ان کے چہرے سے عیاں ہے، ساتھ ہی نرم رفتار وشیریں گفتار بھی ہیں۔جب وہ لب کشا ہوتی ہیں تو آہستگی سے مخاطب کے دلوں کو جیت لیتی ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں       ؎

دختران از زیور شرم و حیا آراستہ

طرز شان نحوی کہ مذہب از زنان درخواستہ

روی شان از چادر مشکی ہویدا ہر کجا

ماہ کامل بود گویی درمیان ابرہا

عزت و پاکیزگی بودہ عیان از روی شان

اندرون چادر مشکی نہفتہ موی شان

چون کنم توصیف از اوصاف خانم گوہری

قدر گوہر شاہ داند یا بداند گوہری

نرم خوی و نرم گوی و نرم رو دلسوزتر

بہرہ ور از علم و دانش فارسی آموز تر

(ترجمہ:(1) بیٹیاں زیور علم و حیا سے آراستہ ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اسلام نے عورتوں کو حکم دیا ہے۔(2) ان کے چہرے کالی چادر کے اندرسے اس طرح دکھائی دے رہے تھے جیسے بدلیوں کے درمیان ماہ کامل۔(3) ان کے چہرے سے عزت و پاکیزگی ظاہر تھی۔ ان کے بال کالی چادر سے ڈھکے ہوئے تھے۔(4)خانم گوہری کے اوصاف کیسے بیان کروں۔ گوہر کی قیمت یاتو بادشاہ جانتا ہے یا جوہری۔(5) نرم خصلت، نرم گفتار، نرم رفتار، مہربان، علم و دانش سے مزین اور میٹھی فارسی بولنے والی۔ )

 اس سفرنامے میں قومی جذبات و احساسا ت کی طرف اشارے بھی موجود ہیں۔ شہر تہران کے خوشنما مناظر،شاہراہوں،لوگوں کے رہن سہن،طورطریقے، اخلاق و عادات اور بات چیت کے انداز کوخوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس سلسلے میںانھوں نے قادرالکلامی کابھی ثبوت پیش کیا ہے       ؎

شہر تہرانست مثل نوعروس

خواستارش مردمان ہند و روس

مردمان شہر خیلی نرم دل

خوش جمال و خوش خصال و گرم دل

فارسی اہل تہران خوب تر

با لب و لہجہ بسی مرغوب تر

احقر ہندی بگوید برملا

شہر تہرانست جان شہرہا

(ترجمہ:(1) شہر تہران نئی نویلی دلہن کی مانند ہے جس کے دیدار کے متمنی اہل ہند و روس ہیں۔(2) شہر کے افراد بہت نرم دل،خوب صورت، خوب سیرت اور مہربان ہیں۔(3) اہل تہران کی فارسی دوسروں کی بہ نسبت بہتر ہے، لب و لہجے کے اعتبار سے بھی شیریں تر ہے۔(4) احقر ہندی علی الاعلان کہتاہے کہ شہر تہران تمام شہروں کی جان ہے۔)

تہران سے محبت کا یہ جذبہ اشعار سے ہوتے ہوئے ان کے دل میں گھر کرگیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تہران کو نوعروس (نئی نویلی دلہن) کہا ہے۔ ایران کی عظمت کو نمایاں کرنے میں تہران اوراصفہان کی عظمت سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ وہاں کے جھرنوں، پرندوں اورپہاڑوں سے حظ اور کیف اٹھانا ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ان کے سفرنامے میں وہ تمام فطری مناظر اپنی تمام تر حسن وخوبی کے ساتھ جلوہ گر ہیں جن کو پڑھتے ہوئے فطرت سے ہم آغوش ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں تہران کی شاہراہوں پر صف باندھے ہوئے چنار کے درختوں کا ایک حسین سماں پیش کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور سلامی دینے کے لیے صف بستہ کھڑے ہوں      ؎

رفتم بہ خیابان دیار تہران

دیدم دو طرف بستہ چناری صف ہا

گفتم کہ چرا صف زدہ ہستید این جا

گفتا خوش آمدید و زدہ بس کف ہا

(ترجمہ:(1) میں شہر تہران کی شاہراہ پر گیا تو دیکھا کہ دونوں طرف چنار کے درخت صف باندھے کھڑے ہیں۔ (2) میں نے ان سے کہا کہ یہاں کیوں صف باندھے کھڑے ہو؟ تو انھوں نے خوش آمدید کہا اور تالیاں بجائیں۔)

اس منظوم سفرنامے میں سلاست و روانی کے ساتھ قدیم وجدید طرز کا حسین امتزاج نظرآتا ہے۔ انھوں نے کلاسیکی روایات کا تتبع کیالیکن قدیم مضامین کو جدید لب و لہجے اور جدید اسلوب کا پیراہن بھی عطاکیا ہے۔

مجتبیٰ انصاری نے بعض مقامات پر مقامی الفاظ بھی دھڑلے سے استعمال کیے ہیںجو اب فارسی میں رائج نہیں ہیں،لیکن یہ ہمارے مشترکہ کلچر، زبان اور تہذیب کا پتا دیتے ہیں۔ ہاں اس بات سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں ہے کہ بعض اشعار تعقید کا شکار نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے مفہوم اور ما فی الضمیر کی ادائیگی صحت و سہولت کے ساتھ نہیں ہوسکی ہے۔ مضمون اور صورت خیال تو ان کے ذہن میں واضح ہے لیکن ان کو مناسب الفاظ اور پیرایۂ اظہار میسر نہ ہوسکا جس کی وجہ سے وہ معروضیت اور صداقت کے ساتھ اپنے ما فی الضمیر کو لفظوں کا لباس عطا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ بعض مقامات پر ان کی نظر فنی رموز و نکات پر مضبوط نہیں رہتی۔ اس کے باوصف ان کا یہ منظوم سفرنامہ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف کے لیے کافی ہے۔



Dr. Faizan Haider

Editor Quarterly Faizan-e-Adab

Purana Pura, Pura Maroof,

Kurthijafarpur, Mau, U. P. - 275305,

Mob.: 7388886628,

E-mail: faizanhaider40@gmail.com

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں