15/10/20

ماہنامہ ’شب خون‘ کی چالیس سالہ ادبی خدمات مضمون نگار: اسلم مصباحی


 


 اردو کی ادبی صحافت میں ’شب خون‘ کی حیثیت ایک رجحان ساز رسالے کی ہے۔

شب خون ‘کا پہلا شمارہ بابت ماہ جون، 18 مئی1966  کو منظر عام پر آیا، مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر سید اعجاز حسین کاانتخاب کیا گیا۔ اداریے کے علاوہ پروفیسر سید احتشام حسین،فراق گورکھپوری،حبیب احمد صدیقی، اپندر ناتھ اشک، رام لعل، خلیل الرحمن اعظمی،مسیح الزماں، سلیمان اریب، اور عمیق حنفی کی تخلیقات اس میںشامل تھیں۔ ماہنامے میں جو کالم بنائے گئے وہ اس طرح تھے :جدید فرانسیسی نظمیں، روسی افسانہ، ہندی افسانہ، بھیانک افسانہ، نفسیات جنسی، کتابیں، کہتی ہے خلق خدا،سوانحی گوشے،اخبارواذکار اور ہندوستانی موسیقی وغیرہ۔ مسلسل چالیس برس تک جاری رہنے والے اس رسالے کے کل 299 شمارے شائع ہوئے، جون 2005 میں شب خون کی اشاعت بند کردی گئی۔مدیر، نائب مدیر اور ترتیب و تہذیب کے حوالے سے قمراحسن،ساقی فاروقی،محمود ہاشمی،عقیلہ شاہین وغیرہ کئی نام شب خون کی پیشانی پر درج ہیںلیکن یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں ہے کہ اس کے روح رواں ازاول تا آخر شمس الرحمن فاروقی ہی رہے،یہ انھیں کا فکری پرتو ہے۔ ’شب خون‘کے اجراکے وقت پاکستان سے رسائل وجرائد کی آمد سیاسی کش مکش کی بنا پر سست پڑ چکی تھی، لکھنے پڑھنے والوں میں کم حوصلگی کا زہر سرایت کرجانے کے سبب حوصلہ افزائی کے راستے محدود ہو رہے تھے۔ ادب کی رہ گذر کو روشن کرنے والے علمی و ادبی رسالوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ پرانے لکھاریوں کی اچھی تخلیقات نا پید ہوتی جا رہی تھیں لہذا تجربہ کار قلمکاروں اورنئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کے لیے رسالے کی کمی محسوس ہورہی تھی،الہ آباد کے کچھ باہمت ادیبوں اور چند دیگر احباب نے ماہنامہ نکالنے کی فکر کی، بوڑھے جوان سبھی محفل میں شریک ہوئے اور اس خیال پر لبیک کہا۔ مالی تعاون کے لیے جمیلہ فاروقی نے ہاتھ بڑھایا جو اس وقت قدوائی گرلس کالج الہ آبادکی پرنسپل تھیں، بالآخر ’شب خون‘ وجود میں آیا۔

1955 کے بعد ہی سے اردو ادب میں نئی آوازیں اٹھنے لگی تھیں،1960 میں اردو شعر و ادب میں ترقی پسندی کے بر خلاف ایک نئے رجحان نے جنم لیا، صنعتی و سائنسی پیش رفت اور مغربی علوم کی ترقی نے انسانی معاشرے میں بحرانی صور ت حال کو جنم دیا۔ایسے میں شعراوادبا نے روایتی شعروادب سے انحراف کرکے اظہار کے لیے نئے وسیلوں کو تلاش کیا تاکہ موجودہ دور کے پیچیدہ مسائل اور نفسیاتی کشمکش کو احاطۂ بیان میں لایا جا سکے۔ چنانچہ 1960 کے بعد نظریاتی و تخلیقی رجحانات میں بدلتی ہوئی فضا دکھائی دینے لگی اور جلد ہی یہ تبدیلی جدیدیت کے غالب رجحان کی صورت اختیار کر گئی۔ مارکسیت کے بعد ادبی افق پر جدیدیت کا رجحان ہی سب سے قوی ثابت ہوا۔ تخلیق کاروں کی نئی نسل نے ہیئت اور موضوع کے نئے نئے تجربات کیے،اظہار کے نئے سانچوں کی تلاش میں لسانی تشکیل کا سہارا لیا۔ ادب میں پیچیدہ مسائل کو موضوع بنانے کے سبب اظہار میں بھی پیچیدگی در آئی جس نے ابہام، علامت، تجرید،استعارہ سازی، داخلیت اور لفظ کی ثنویت کو جنم دیا۔ ادب کی تخلیق کے لیے جدید عناصر کے استعمال کی ایسی فضا بنی کہ روایتی شاعروادیب بھی جدید لفظیات کا سہارا لینے لگے اور جدید معاشرے میں پھیلے ہوئے پیچیدہ مسائل سے بھری پڑی زندگی سے نادر تجربات کی تلاش میں نکل پڑے۔ ’شب خون ‘انھیں تخلیق کاروں کی نئی پود کے لیے اور تازہ تخلیقی رجحان کی ترجمانی کے لیے جاری کیا گیا ایک پلیٹ فارم ہے۔ ڈاکٹر انورسدید شب خون کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’1965 کی جنگ کے بعد سرحدیں بند کر دی گئی تھیں،اور دونوں اطراف کے سیاست دان عوام الناس کے جذبات واحساسات کو یکسر نظر انداز کرکے تنگ نظری کو فروغ دے رہے تھے اور نفرتیں پھیلا رہے تھے۔ اس کشیدہ فضا میں شمس الرحمن فاروقی نے ’شب خون ‘ اور وزیر آغا نے ’اوراق‘ جاری کیا تو بالواسطہ طورپر دونوں نے اردو ادب کی قدیم روایت کے مثبت زاویوں کو قائم رکھتے ہوئے جدید ادب کو متعارف کرانے اور سینئر ادیبوں کے احترام اور وقار میں اضافہ کرنے اور ان سے راہنمائی حاصل کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے ساتھ ہی نئی نسل کے ابھرتے ہوئے نوجوانوں کو ادب کی طرف راغب کرنے اور ان کے مادی باطن سے روحانی شخصیت بازیافت کرنے کی کوشش بھی کی۔‘‘

(سہ ماہی روشنائی [فاروقی نمبر]جولائی تا ستمبر، 2003، ص227،کراچی)

اردو کی ادبی صحافت میں ’شب خون‘ اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔ شب خون ادبی جمود و تخلیقی تعطل کے احیا اور مارکسی نظریات پر شب خون مارنے کی غرض سے جاری کیا گیا۔شب خون نے اولاً ’ادب براے ادب‘ یا ’فن براے فن‘ کا نعرہ بلند کیا، اس کے بعد ادیب وفنکار کی فکری و تخلیقی آزادی کی وکالت کی، سیاسی و سماجی وابستگی،اصول و قوانین کی پابندیوں کو ادیب کے لیے معیوب گردانا تاکہ وہ پوری طرح آزاد رہ کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرسکے۔ ڈاکٹر انیس صدیقی لکھتے ہیں:

’’شب خون نے قلم کاروں کو تعطل،جمود،نظریاتی حصاربندی،فارمولابازی،ازم،مینی فیسٹو کی کال کوٹھری سے نکال کر آزاد فضاؤں میں سانس لینے کے مواقع فراہم کیے۔‘‘

(شب خون کا توضیحی اشاریہ،جلد اول، ص 22،ناشر:قومی اردو کونسل، نئی دہلی2017)

شب خون کے اپنے متعینہ مقاصد تھے جو ادب کے حوالے سے خلوص پر مبنی تھے،تجارتی منفعت،مقابلہ آرائی، خود نمائی یا تقلید سے اس کا تعلق نہیں تھا،شب خون نے ابتدائی دور میں ہی خاصی مقبولیت حاصل کرلی تھی جس کے پیچھے اس کی نادر تخلیقات، فکر انگیز مضامین، بہترین تراجم اور دنیا جہان کی فلسفیانہ ونظریاتی بحثیں کار فرما تھیں جو اردو کے قارئین کے لیے نادر تھیں، اب قارئین کی نظر میں ’شب خون‘ صرف ماہنامہ نہیں بلکہ ایک زاویۂ نگاہ بن گیا تھا جس نے ادب کی تخلیق کے لیے نئے معیارات اور ادب کی تفہیم کے لیے راستے کشادہ کیے، شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:

’’میں نے شب خون کا اجرا کئی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کیا تھا۔ ایک تو یہ کہ نئے ادب کو فروغ دینا تھا اور اس بات کی تردید کرنی تھی کہ ترقی پسندی ادب کے زوال یا اس کے کمزور پڑجانے کے بعد ہمارے ادب میں جمود آگیا تھا۔ چنانچہ اس کا پہلا اشتہار جوپروفیسر احتشام حسین نے بنایا تھا۔ اس کے الفاظ تھے ’کیا ادب میں جمود ہے‘؟ اس کا جواب ہے ’شب خون‘۔ لفظ ’شب خون ‘ کی معنویت آپ پر عیاں ہو گئی، یہ اشتہار ہم لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا اور ڈاک سے بھیجا۔ دوسرا مقصد تھا الہ آباد کے نئے لکھنے والوں کو سامنے آنے کا موقع فراہم کرنا۔ تیسرا مقصد تھا ادب میں نظری مباحث قائم کرنا اور ادب کی نوعیت پر ہر پہلو سے غور وفکر کے لیے میدان مہیا کرنا۔ چوتھا مقصد جو پہلے مقصد ہی کا حصہ کہا جا سکتا ہے، یہ تھا کہ ادب میں نئے تجربات کو فروغ دیا جائے۔ پانچواں مقصد تھا ہندوستان اور غیر ملکوں کی زبانوں کے اچھے ادب کے نمونے تراجم کے ذریعے پیش کرنا۔ چھٹا مقصد تھا ایک ایسا رسالہ جاری کرنا جس میں چھپنے کی وہی توقیر ہو جو بڑے پاکستانی پرچوں مثلاً ’سویرا‘ یا ’نیا دور‘میں چھپنے پر حاصل ہوتی ہے۔‘‘

(بحوالہ:شب خون کا توضیحی اشاریہ،جلد اول،ص23،ناشر :قومی اردو کونسل2017)

 شب خون کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد ادب میں نظری مباحث قائم کرنا اورنئے لکھنے والوں کی تخلیقات کے لیے اشاعت کا موقع فراہم کرنا تھا، ابتدائی دور میں ہی شب خون میں لکھنے والوں اورپڑھنے والوں کا ایک مضبوط حلقہ بن گیا۔ شب خون میں موضوعاتی،فکری اور تخلیقی تنوع ایسا دل چسپ تھا کہ عوام وخواص اس کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ہندوستانی شعروادب،تہذیب و ثقافت،آرٹ اور مصوری کے تعلق سے متنوع مضامین نے علمی وادبی حلقے میں نئی جوت جگادی۔ اورنگ آباد سے قاضی سلیم اپنے خط میں لکھتے ہیں:

’’شب خون نے پانچ شماروں ہی میں ہندوستان کی ادبی فضا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے رسالے کو ابدیت کے چکر میں ڈالنے کے بجائے بدلتے ہوئے وقت کے زندہ مسائل کا آئینہ دار بنایا ہے۔‘‘ (شب خون، شمارہ نمبر7،بابت ماہ دسمبر 1966،ص76)

شب خون کو اس مقبولیت تک پہنچنے اور قارئین کی داد و تحسین جیتنے میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، مالی دشواریوں کے علاوہ ادبی حریفوں کے سخت اختلافات بھی راہ کا روڑا بنے، ترقی پسندوں نے ’شب خون‘ کو زیر کرنے کے لیے رجعت پرستی، سیاسی شعور کے فقدان، اہمال پرستی، سماجیت سے فرار اور قاری کی ضروریات سے بے نیازی جیسے الزامات لگائے۔ شب خون کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے(حوالہ:شب خون، شمارہ 293، ص619) شب خون کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مقابل میں کئی رسائل بھی جاری کیے گئے لیکن ’شب خون‘ نے تمام الزامات سے نہ صرف دامن بچایا بلکہ اپنے نظریۂ ادب کو فروغ دینے کے لیے نہایت جرأت کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ شب خون کی اس بے مثال کامیابی کے پیچھے جتنا شمس الرحمن فاروقی کا حصہ ہے اتنا ہی محترمہ جمیلہ فاروقی[بیگم شمس الرحمن فاروقی]کا حوصلہ اور تعاون بھی کارفرماہے۔

شب خون‘چالیس سال تک پوری آن با ن سے چھپتا رہا، ادبی صحافت کی تاریخ میں 40سال کا طویل عرصہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اردو کے ادبی رسائل کی اوسط عمر دس سال سے زیادہ نہیں ہوتی، ماہانہ ہونے کے سبب چالیس سال کی مدت میں 480شمارے چھپنے چاہیے تھے لیکن 299 ہی چھپ سکے، بیچ میں رسالہ دوماہی اور سہ ماہی کی حیثیت سے بھی چھپا،1973 سے 1994 کے بیچ شب خون کبھی دوماہی تو کبھی سہ ماہی طور پر شائع کیا گیا،جبکہ آخری شمارہ سات ماہ پر مشتمل تھا۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے مالی یا تنظیمی دشواریاں رہی ہیں۔ فی الجملہ شب خون اپنے مزاج و معیار اور نظریاتی موقف پر قائم رہتے ہوئے بلا ناغہ چھپتا رہا۔ شب خون نے کبھی اپنے مضامین و تخلیقات کے انتخاب میں تعصب، مروت، مصلحت یا پھر جانب داری سے کام نہیں لیا بلکہ ہر وہ تحریر جو رسالے کے مزاج و معیار پر کھری اتری اسے شامل اشاعت کرنے میں کسی طرح کا ترددنہیں کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ شب خون کے شروعاتی شماروں اور بعد میں بھی متعدد ایسی تحریریں شامل اشاعت کی گئیں جو جدیدیت پر یا جدید تخلیقی رویے پر کی گئی سخت تنقید پر مشتمل تھیں،لیکن فکری پختگی، خوش سلیقگی اور استدلالی انداز سے بھرپور ہونے کے سبب انھیں شائع کرنے میں کوئی تعصب نہیں برتا گیا۔ شمس الرحمن فاروقی شب خون کے معیار کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ہم نے کسی جگہ اپنے معیاروں کے معاملے میں مصالحت نہ کی اور نہ صدق نیت کے بغیر کوئی کام کیا۔ اردو ادیبوں کاایک جم غفیر ہے جس کی شناخت ’شب خون‘ سے بنی۔  ذرا سوچیے کہ اگر شب خون نہ نکلتا اور قائم نہ رہتا تو کیا جدید ادب کی تاریخ وہی ہوتی جو آج ہے۔ وہ نئی، زندہ طاقت ور تخلیقی سرگرمی جو شب خون نے پیدا کی،وہ تنقیدی ونظریاتی مسائل جو شب خون نے اٹھائے، وہ بحثیں اور معرکے جو ’شب خون‘ کے صفحات پرآراستہ ہوئے، ان کے بغیر آج ہمارا ادب کس قدر پسماندہ اور تنگ دامن ہوتا؟‘‘

)’بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں‘شب خون،شمارہ ۱۹۵، بابت ماہ جو ن 1996،ص 1(

شب خون کی تحریروں کا معیارومنہج اتنا بلند تھا کہ قلمکار اس میں چھپ جانے کو سند امتیاز تصورکرتے تھے، اور یہ کچھ غلط بھی نہ تھا کہ شب خون نے جو معیار متعین کیا تھا ان پر کھرا اترنا جدید ذہنی اپج،تازہ کاری اور شدید مشق کے بغیر ممکن نہ تھا۔ شب خون سے قبل ہی ایسی تخلیقات منظر عام پر آنے لگی تھیں جو جدید نظریۂ ادب سے بے حد قریب تھیں لیکن شب خون میں چھپنے والی تمام تحریروں کو اعتبار نظر صرف اس لیے حاصل تھا کیوں کہ شب خون جدیدیت کا فکری استعارہ بن چکا تھا۔ شب خون کے معیار کے حوالے سے پروفیسر احمد محفوظ لکھتے ہیں:

’’شب خون کی اہمیت اور اس کے اعتبار کا یہ عالم رہا ہے کہ اس میں کسی تحریر کا چھپ جانا اس کے معیاری ہونے پر دلالت کرتا ہے اور کسی ادیب کا شب خون میں مسلسل چھپنا اس ادیب کے معتبر ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فاروقی صاحب نے شب خون کے معیار سے کبھی مفاہمت نہیں کی۔ انھوں نے بسا اوقات اہم ادیبوں کی بھی بعض ایسی تحریروں کو ناقابل اشاعت قرار دیا جو ’شب خون‘ کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھیں۔‘‘

(مہمان اداریہ،ماہنامہ سبق اردو،شمارہ نمبر7،بابت ماہ جنوری 2005، ص4،بھدوہی(

نئے تجربات پر مشتمل تحریریں او ر ادیب کی فکری آزادی کا انعکاس کرنے والی تخلیقات فاروقی کے انتخابی عمل میں پہلے جگہ پاتیں۔شب خون میں شائع شدہ تخلیقات پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ فاروقی تخلیقات کی اشاعت کے سلسلے میں نہایت کفایت شعاررہے ہیں، مثلاًبعض شعرا کے صرف دو-دو یاتین-تین اشعار ہی شائع کیے ہیں۔ لیکن معیاری تخلیقات کو شائع کرنے میں فراخدلی بھی دکھائی ہے۔ بلا شبہ شب خون نے مثبت انداز فکرونظر، نئے رجحانات کا فروغ اور تخلیقی معروضیت کو اپنے معیار ومزاج کا حصہ بنایا اور آخری دن تک اس پر قائم بھی رہا۔ شب خون نے ادبی تاریخ کو نیا موڑ دیا اور ساری فرسودہ روایتوں کو ادب سے یکلخت خارج کرنے کے لیے نہایت جرأت آمیز اور مستحکم اقدامات بھی کیے۔ اسد ثنائی ’الانصار‘ کے اداریے میں لکھتے ہیں:

’’شمس الرحمن فاروقی نے بہت سے ذہنوں کو صیقل کیا اور ان کی سوچ اور فکر کے دھاروں کو نئی شکل عطاکی۔ انھوں نے پہلے منزل کا تعین کیا پھر چالیس برس تک پورے استحکام کے ساتھ کہیں بھی لڑکھڑائے بغیر اس منزل تک ان ادیبوں کی رہنمائی کی جن کی نگاہوں کے سامنے صرف پامال راستے تھے۔‘‘

(الانصار،جلد3،شمارہ3،ص5-6،ادارہ الانصار، حیدرآباد2005)

شب خون‘کی آبیاری میں فاروقی کی علمی بصیرت اور ادب شناسی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر شب خون کی ترتیب و تہذیب اور اس کے مزاج و معیارکے تعین میں فاروقی کی کدوکاوش نہ ہوتیں تو ہر گز یہ اردو ادب کے دیگر رسائل میں ممتاز شناخت کا حامل نہ ہوتا۔ سنجیدہ حلقوں میں شب خون کی مقبولیت کے پیچھے فاروقی کا تبحر علمی اور پیش کش کا نیا انداز پوشیدہ ہے۔ شب خون کی مقبولیت میں فاروقی کے علاوہ جدیدیت کے رجحان کی مقبولیت بھی دوسرا بڑا فیکٹر ہے۔ اگر قارئین جدید نظریۂ علم و ادب میں دل چسپی نہ لیتے تو شب خون کی اہمیت کسی ترجمے کی کتاب سے زیادہ نہ ہوتی۔ جدیدیت کی ترجمانی اور اس کی علمی سر پرستی خود فاروقی فرما رہے تھے اسی لیے فاروقی، جدیدیت اور شب خون ایسی دل چسپ تثلیث بن کر ابھری جس کا تصور ایک دوسرے کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ شب خون کے مشمولات (جن میں بیسویں صدی کے نصف آخرکے علمی،ادبی،تہذیبی اور سماجی رجحانات کی روح جھلکتی ہے) کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کا معیار مدیر کی اخلاقی جرأت اور انتخاب کے سنجیدہ رویے سے بنا ہے۔ شب خون نے ایک پوری نسل کی تربیت کی ہے،اسی وجہ سے وارث علوی نے کہا تھا کہ اگر شب خون نہ ہوتا تو میں شاید ادب میں آتا ہی نہیں، نقاد بنتا ہی نہیں[حوالہ: شب خون،شمارہ 293،ص 581]۔بلا شبہ شب خون کو اردو ادب کی تاریخ میں ایک عہد سے تعبیر کریںتو غلط نہ ہوگا۔

شب خون کے اوراق ظاہری اور باطنی دونوں سطح پرمعنویت سے لبریز نظر آتے ہیں،سر ورق کے بیرونی حصے پر چھپی تصاویر اور خاکے در اصل تجریدی آرٹ کا بہترین نمونہ ہیں جو فنون لطیفہ کو فروغ دینے کی غرض سے مسلسل شائع کئے گئے۔جبکہ شب خون نے سر ورق کے اندورنی حصے پر اداریہ چھاپنے کی جو روایت قائم کی ہے وہ اردودنیا میں بے مثال ہے۔اردو رسائل میں پہلا ورق اداریے کے لیے مختص ہوتا ہے لیکن شب خون نے اداریہ نہ چھاپ کرکسی مغربی ادیب،ناقد یا فلسفی کی تحریر یا تحریر کا ایک ٹکڑا چھاپنے کی روایت قائم کی جس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ چنانچہ شب خون کے تمام شماروں میں خالص علمی و ادبی نوعیت کے تمام اداریے (بہ استثناے چند)مغربی ادیبوں،مفکروں اور دانشوروں کی تحریروں پر مبنی ہیں جنھیں ترجمہ کرکے چھاپا گیا ہے۔ ان متفرق اداریوں کامزاج کسی نہ کسی طرح شعروادب کے عصری میلانا ت سے میل کھاتا ہے۔ شب خون کے سر ورق پر چھپی یہ نادر تحریریں جہاں رسالے کے مزاج کا پتہ دیتی ہیں وہیں جدیدیت کے غالب رجحان اور اس کے تخلیقی رویوں کا تعارف بھی پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ ان تحریروں نے اردو شعر وادب میں مغربی طرز فکر اور نئی تنقیدی سوچ کو جنم دیاہے۔ ان تحریروں کی اہمیت بہر حال ’اداریے‘ کی ہے گرچہ اداریے کا عنوان نہیں ہے۔غالب صدی،سید احتشام حسین،ن م راشد، زکی انور، اختر الایمان، علی سردار جعفری، خلیل الرحمن اعظمی، افتخار جالب، آل احمد سرور، عرفان صدیقی، جگن ناتھ آزاد،پرویز شاہدی کے وصال اوراندراگاندھی کے قتل پر،قرۃالعین حیدر کو گیان پیٹھ انعام سے نوازا جانے پر یہ صفحہ ان حضرات کے نام مخصوص کیا گیا۔ مذکورہ مواقع کے علاوہ متذکرہ اداریہ تمام شماروں میںپابندی سے شائع ہوا۔ یعنی شب خون میں ایسے 276 اداریے موجود ہیں جوقاری کو علمی بصیرت اور ذہنی بالیدگی عطاکرتے ہیں۔

مضامین و مقالات:

شب خون کا سب سے زیادہ مقبول کالم مضامین کا ہے جس میںبیحد علمی،فکری اور تنقیدی مضامین،سمپوزیم اورانٹرویوکو جگہ دی جاتی تھی۔ چنانچہ شب خون میں کل 212 قلمکاروں کے 635 مضامین موجودہیں،جن میں شمس الرحمن فاروقی کے 105،شمیم حنفی کے 15، وارث علوی کے 15، اور گوپی چند نارنگ کے 13مضامین ہیں۔ دیگر حضرات نے بھی جامع قسم کے مضامین لکھے ہیں۔ مضامین اور تخلیقات کے رد عمل میں مضمون نما مراسلات بھی بے حد فکری،معلومات افزااور عملی تنقید کے نمونے ہیں۔ جدیدیت نے موضوعات اور اظہار کے اسلوب کی تبدیلی کے ساتھ تنقید کے میدان میں بھی نئے انداز اور جدید نقطۂ نظر کو متعارف کرایا۔ حالی سے لیکر آخری مارکسی نقاد تک کا نہ صرف پوسٹ مارٹم کیا بلکہ کلاسیکی ادب سے لے کر جدید ادب تک تمام تنقیدی نظریات کو موضوع بحث بنایا۔نئے تنقیدی نظریات میں ہیئتی تنقید، ساختیاتی تنقید، اسلوبیاتی تنقیداور معروضی تنقید خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان تنقیدی مسلکوں سے وابستہ ناقدین کی خاصی تعداد شب خون کے توسط سے ہی منظر عام پر آئی۔ چنانچہ جدیدیت کے رجحان کے تحت وجودیت، علامت نگاری، تجریدیت،ساختیات،پس ساختیات اور فن کی جمالیات پر جو معرکۃ الآرا بحثیں ہوئیں وہ شب خون کے علاوہ اردو کے دوسرے رسائل میں نہیں ملتیں۔ مشرق و مغرب کے تمام فلسفوں کے ہرہر گوشے پر صحتمند اور استدلالی بحث کی گئی ہے۔ تمام مشرقی و مغربی فلسفیوں،دانشوروں اور مفکروں کے نظریات اور فن پاروں پر بھی جامع مضامین شائع کرکے شب خون نے اردو ادب کو سر سبز کیا۔

44سوانحی مضامین بھی مختلف شماروں کی زینت بنے ہیں، جن میں اقبال،فیض،محمد حسن عسکری، محروم، اخترالایمان، فرائڈ، آغا حیدر حسن دہلوی، اختر انصاری، ڈاکٹر مسیح الزماں، علی عباس حسینی، جوگیندر پال، بلراج کومل،  الیاس احمد گدی، مخدوم محی الدین، سید مسعود حسین رضوی، مجتبیٰ حسین، عزیز احمد، جذبی اور کافکا کے احوال و کوائف بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ شب خون میں 20 انٹرویو شائع ہوئے ہیں جو نئے ادب کی فکری و فنی ترجیحات اور تخلیقی رجحانات کی تفصیل پر مشتمل ہیں،یہ انٹرویو انتظار حسین،سریندر پرکاش، انور سجاد، ساقی فاروقی،  عامر حسین،محمد عمر میمن، رام لعل،اخترالایمان، الیاس احمد گدی، شمس الرحمن فاروقی،اوپندر ناتھ اشک،بلونت سنگھ، فراق گورکھپوری،احمد ہمیش،نیر مسعود، ضمیر نیازی، جمیل جالبی، قاضی سلیم، ل۔ احمد اکبرآبادی اور عرفان صدیقی جیسی ہستیوں کے ساتھ گفتگو پر مشتمل ہیں۔ 9 تعزیتی تحریریں بھی شامل ہیں جو سید احتشام حسین، خلیل الرحمن اعظمی، مجروح سلطانپوری، بانی منچندہ، خواجہ احمد فاروقی، حکیم عبدالحمید، ڈاکٹر اعجاز حسین، صلاح الدین محمود اور ڈاکٹر مسیح الزماں کی وفیات پر لکھی گئی ہیں۔اس کے علاوہ 15سمپوزیم اور 13رپورتاژبھی شب خون میں شائع ہوئے ہیں جو اپنے موضوع، مواد اور جامع گفتگو کی وجہ سے ادب کے قارئین کے لیے بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔

شب خون میں نثری تخلیقات کے مقابل شاعری کو زیادہ جگہ ملی ہے یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جدیدیت کے رجحان اور اس کے تخلیقی رویوں کا اظہار زیادہ تر شاعری میں ہوا ہے،شب خون میں نظم اور غزل دونوں طرح کی شاعری جگہ پاتی رہی ہے۔شب خون میں 659 شعرا کی کل 8047غزلیں شائع ہوئی ہیں جن میں سب سے زیادہ یعنی 230 غزلیں ظفر اقبال کی ہیںاور مظفر حنفی کی 165غزلیں ہیں۔نظموں کی تعداد غزلوں کے مقابلے کم ہے۔528 شعرا کی کل 4835نظمیں چھپی ہیں، سب سے زیادہ یعنی 127نظمیں مصطفی ارباب کی،بلراج کومل کی 105،اور حمید الماس کی 103نظمیں شائع ہوئی ہیں۔ شب خون  میں شائع ہونے والی اردو کی جدید شاعری فرد کی ذات اور اس کے تجربات کے اظہار کے گرد گھومتی ہے، جدید شاعری ابہام، علامت، استعارہ، رمز، کنایہ اور لفظ کے فنکارانہ استعمال سے عبارت ہے، جدید شاعری میں سماجی یا افادی عناصر کے ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے، جدید شاعری ایک ایسے بحران کا اور بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کا اظہار کرتی ہے جس نے انسان کی زندگی کو بے معنی بنادیاہے۔ اسی بحران اور نئے سیاسی نظام نے انسان کی ذات کے فنا ہوجانے کا خوف اور غیر محفوظ ہونے کی دہشت کو پیدا کیا اور زندگی کو عذاب بنا دیا ہے، زندگی کا یہی خوف اور ذہنی تناؤ جدید شاعری کے پس منظر میں صدائے بازگشت کی طرح سنائی دیتا ہے۔جدید شاعر اپنی شاعری میں اثر پیدا کرنے کے لیے علامت، رمز، کنایہ اور چند تمثالوں کو استعمال کرکے پیکر بنانے کی سعی کرتا ہے تاکہ وہ معانی و مفاہیم کی تہ دار پرتوں کو اجاگر کر سکے، لیکن علامات و پیکر کے استعمال کافن جس قدر احتیاط، تجربہ اور مشاقی کا تقاضا کرتا ہے وہ ہر شاعر کے بس کا روگ نہیں ہے،یہی وجہ ہے بیشتر شعرا کا کلام الفاظ کی شعبدہ بازی بن کر رہ گیا ہے۔صہبا وحید نے جدید شعرا کی اس ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’مصیبت یہ ہے کہ خود جدید شعرا اپنے فن اور اپنی شاعری کی حدود سے پوری طرح واقف نہیں ہیں،پھر جو بات انھیں مطعون کرنے کا سبب بنی ہے،وہ ایسی تخلیقات ہیں جن میں سوائے الفاظ کی شعبدہ بازی،جذبات کی مغلق عکاسی اورژولیدہ و گنجلک عبارت آرائی کے کچھ بھی نہیں۔‘‘ (شب خون، شمارہ نمبر 21، بابت ماہ فروری 1968، ص27)

 ہیئتی سطح پر شاعری میں کیے گئے تجربات اور نئی شعری ہیئتوں کو بھی شب خون میں خوب جگہ ملتی رہی، جدید شاعری میں کوئی مخصوص ہیئت یا فارم تو متعین نہیں ملتی البتہ نظم مقفی اور پابند نظموں سے اعراض برتاگیا، جبکہ آزاد نظم اور نثری نظم کو فروغ دیا گیا۔ جدید شعرا نے موضوعات کے برتنے میں تنوع سے کام لیا اور اپنی تخلیقات کو صرف مادی ضروریات کی تکمیل تک ہی محدود نہ رکھ کر فرد کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور اعصابی کش مکش کے بیان پر بھی توجہ دی ہے۔ جدید شاعری میں اقتصادی، صنعتی، تعمیری اور تخلیقی عوامل پر زور دیا گیا، سیاسی وجماعتی وابستگی سے مکمل انحراف نیز آزادانہ طرزفکر اور علامتی ورمزیاتی اسلوب اظہار کا استعمال لازمی عنصرمانا گیا، جدید شاعری ذاتی تجربات اور انفرادی اظہار کو ترجیح دیتی ہے، اس کے تحت روایتی اسلوب، ہیئت، مروجہ قواعد، محاورہ اور روزمرہ کی پاسداری لازمی عنصر نہیں ہے۔ آزادیٔ اظہار اور ذاتی تجربات کی عکاسی کو جدید شاعری میں مرکزیت حاصل ہے باقی تمام عناصر ثانوی حیثیت کے حامل ہیں،چنانچہ جدید شاعری میں جدیدیت کے مختلف رنگ مختلف شکلوں میں ملتے ہیں،لیکن نیا طرز احساس اور نیا طرز اظہار سب میں مشترک ہے۔فضیل جعفری لکھتے ہیں:

’’کئی لوگ نئی شاعری اور جدیدیت کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے۔ سارا زور،لفظیات میں تبدیلی اور اضافہ، ترتیب نحوی،اوقاف،اعراب اور ہیئت کے انوکھے پن پر صرف کرتے ہیں۔جدیدیت کے سلسلے میں یہ تمام چیزیں بھی بہت اہم ہیں مگر ان کی اہمیت مرکزی نہیں بلکہ ثانوی ہے۔‘‘

)’نئی شاعری اور جدیدیت‘ شب خون،شمارہ نمبر 49،بابت ماہ جون 1970،ص29(

 جن شعرا نے شب خون میں اپنی تخلیقی صلاحیت کی بنا پر نام پیدا کیاان کی تعداد بے شمار ہے۔ لہذا شب خون کے چندنمائندہ شعرا کے نام یہاں درج ہیں جنھوں نے جدیدیت کے تخلیقی رجحان [فرد کی ذات،ذات کا کرب، کرب کا احساس،احساس کا اظہار] کی نمائندگی کی:

وزیر آغا،افتخار جالب،ظفر اقبال،شہزاد احمد، اختر الایمان، ناصر شہزاد،ن م راشد، فضا ابن فیضی، ندا فاضلی، عمیق حنفی، خلیل الرحمن اعظمی، علی سردار جعفری، محمود ایاز، وحید اختر، محمد علوی، بلراج کومل، شہریار، راہی معصوم رضا، مخمور سعیدی، خورشید احمد جامی، عادل منصوری، پرکاش فکری، پرویزشاہدی، شاذ تمکنت، زاہدہ زیدی، قاضی سلیم، علقمہ شبلی، مظفر حنفی،  ظفر صہبائی،  منیب الرحمن، مظہر امام، حامد حسین حامد، زبیر رضوی، منیر نیازی، سلیمان اریب، حمید الماس، بشیر بدر، نازش پرتاپ گڑھی،  اقبال توصیفی، وہاب دانش، ساقی فاروقی، زیب غوری، احمد نیاز قاسمی، عتیق اللہ، کمار پاشی، کرشن موہن، حسن نعیم، مجید امجد، شمس الرحمن فاروقی، مغنی تبسم، محمد صادق، فضا ابن فیضی، امجداسلام امجد، احمد وصی، انور شعور، انیس ناگی، اطہر نفیس، ممتاز راشد، منظر سلیم، حرمت الاکرام، غلام مرتضی راہی، سلام مچھلی شہری، اسلم عمادی، لطف الرحمن، کاوش بدری، قیصر قلندر، حامدی کاشمیری، شاہد کلیم، صلاح الدین پرویز، بانی، شمیم حنفی، حکیم منظور، خورشید الاسلام، علیم اللہ حالی، پرتپال سنگھ بیتاب، پرویز رحمانی، شاہد میر، جیلانی کامران۔

مضامین اور شاعری کے بعد شب خون کا سب سے مقبول گوشہ افسانوں کا ہے۔1960 کے بعد ابھرنے والے فنکاروں کے لیے شب خون نے ہمہ گیر تحریک کا کام کیا، جدیدیت سے دل چسپی رکھنے والے فنکاروں کو شب خون میں ترجیحی بنیادوں پر جگہ ملی،نتیجۃً ایسے بے شمار افسانہ نگار سامنے آئے جو شب خون کے توسط سے ہی قارئین تک پہنچے اور مشہور ہوئے۔ کچھ ادیبوں پر توشب خون میں ہی تنقیدی مضامین شائع کراکے ان کاادبی استحسان ادا کیا گیا۔ جدیدیت کے تخلیقی رویوں کو شب خون نے کھل کر پیش کیا۔ شب خون کے افسانہ نگاروں کی دو بڑی نسلیں منظر عام پر آئی ہیں۔ پہلی وہ کہ جس نے شب خون کے اجرا سے قبل ہی اپنی شناخت قائم کی تھی لیکن شب خون میں نئے رجحان کو فروغ دینے میں پیش پیش رہی۔دوسری وہ کہ جس کو شب خون نے ہی متعارف کرایا اور تربیت بھی کی۔شب خون کے 93 شماروں میں ہی تخلیقی تحریریں ملتی ہیں۔ 285 افسانہ نگاروں کے کل 1121افسانے شائع ہوئے ہیں۔ شب خون میں جن افسانہ نگاروں کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

انتظار حسین، خالدہ حسین، منشایاد، سریندر پرکاش، بلراج مینرا، قمر احسن، چودھری محمد نعیم، غیاث احمد گدی، بلونت سنگھ، عوض سعید، اسد محمد خان، ظفر اوگانوی، فرخندہ لودھی، بلراج کومل، اکرام باگ، احمد ہمیش، رام لعل، نیر مسعود، بدیع الزماں، جیلانی بانو، پریم ناتھ در، انور سجاد، ہرچرن چاولہ، محمد عمر میمن، رشیدامجد، جوگندر پال، مرزا ادیب، رضوان احمد، اقبال مجید،  احمد یوسف،حسین الحق، شوکت حیات،عبد الصمد،سلام بن رزاق،آنند لہر،اعجاز راہی، انیس رفیع، مرزا حامد بیگ، حمید سہروردی، سلیم شہزاد۔

یہ تمام وہ افسانہ نگار ہیں جو جدیدیت کے تخلیقی رجحان کے تحت افسانہ خلق کر رہے تھے، ان کی تخلیقات میں علامت، ابہام،استعارہ، تجرید وغیرہ عناصر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ موضوعاتی سطح پر انسان کا داخلی کرب، تنہائی،خوف،بے چہرگی،بے قدری اور دنیاوی کش مکش کو برتا گیا ہے۔ جدید افسانہ روایتی افسانے کی طرح ٹھوس نہیں ہوتا اوراس میں زمان و مکان کی واقعاتی حسیت بھی نہیں ہوتی،زمان ومکان دونوں ذہنی تجرید کی سطح پر واقع ہوتے ہیں۔ صنفی لحاظ سے بھی ان کے افسانے روایتی افسانے سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں مثلاً کہانی کی جگہ اینٹی کہانی یا تجرید کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے، ٹھوس کرداروں کی جگہ محض پرچھائیاں نظر آتی ہیں، وضاحت اور تفصیل کی جگہ علامتی بیانیہ [ مہابیانیہ]کو برتا گیا ہے۔

شب خون نے اردو ادب کو جدید نظریات سے آشنا کرایا،تمام اصناف ادب کو لفظی ومعنوی سطح پرنہ صرف متاثرکیا بلکہ ان میں اسلوب،ہیئت اور لفظیات سے انحراف کرنے اور نئے اسالیب کو اختیار کرنے کا پیغام عام کیا، روایتی طرز اظہار اور تمام مروجہ عناصر جو ادیب وفنکار کے لیے پابندی کے مماثل تھے ان سے سخت اختلاف کیا،نہ صرف اختلاف بلکہ ان کے مقابل اپنا ایک تخلیقی و تنقیدی نظام بھی متعارف کرایا،فنی وجمالیاتی قدروں پر نظریاتی بحث کی اور تمام ادبی اصناف کی شعریات پر از سر نوغورکرنے کی دعوت دی۔ شب خون نے ادیبوں اور ناقدوں کو نئے ادبی معیارات اور نئے رجحانات کی طرف متوجہ کیا، جدیدیت کا ذکر شب خون کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔’تفہیم غالب‘اور ’شعر شور انگیز‘ کے نام سے دو کالم شمس الرحمن فاروقی نے شب خون سے ہی شروع کیے تھے جو بعد میں ضخیم کتاب کی شکل میں منظر عام پر آئے۔ شب خون کا مراسلے والا کالم بڑا دل چسپ ہے جس میں موافق اور مخالف آرا بغیر کسی تعصب کے شائع کی گئی ہیں۔مراسلوں میں بے باک تنقیدی اظہار اور رنگا رنگ افکارملتے ہیں۔ شب خون نے ادب کی تخلیق پر زور دیتے ہوئے نئے قلمکاروں کو دریافت کیالیکن یہ الزام بھی اس کے سر ہے کہ اس نے زیادہ تر صاحبان علم کی ہی سرپرستی کی۔شب خون صرف ادب تک محدود نہ تھا بلکہ اس نے فنون لطیفہ پر بھی توجہ دی۔ شب خون نے جدیدیت کے رجحان اور اس کے تخلیقی رویوں کو فروغ دینے میں کلیدی رول ادا کیا،عالمی ادب کے فن پاروں کے تراجم، مغربی ادیبوں،دانشوروں اور فلسفیوں کے ادبی وتنقیدی تصورات کو شب خون نے اردو دنیا تک نہ صرف پہنچایا بلکہ اردو ادب کے دامن کو بیل بوٹوں سے مزین کردیا جس کے سبب اردو ادب وتنقید میں معروضیت آئی۔شب خون کے معلومات افزا، فکر انگیز اور بصیرت سے مملو مضامین کی بنا پر کرشن چندر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’لگتا ہی نہیں کہ اردو کا رسالہ ہے اور ہندوستان سے شائع ہو رہا ہے‘‘ (شب خون،شمارہ4،ص 77)شب خون کی ظاہری و باطنی خوبیوں کو سمجھنے کے لیے اس کی جلدوں کا مطالعہ کرناہوگا۔شب خون کی اہمیت پر وارث علوی کا قول ملاحظہ کیجیے:

’’ شب خون ایک ایسا رسالہ ہے جس میں بیسویں صدی کی نصف آخر کی روح جھلکتی ہے۔ کسی ایک رسالے میں پورادور سماجائے، اس کے اہم ترین ادبی اور تہذیبی رجحانات کے ساتھ،اس کے اعلی ترین تخلیقی اور تخیلی کارناموں کے ساتھ یہ کسی بھی رسالے کے لیے بڑے فخر کی بات ہو سکتی ہے۔‘‘

)شب خون،شمارہ نمبر 293 بابت ماہ جون تا دسمبر2005،ص58(


Aslam Misbahi

213, Jhelum Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 9528807078

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں