12/10/20

ہندوستانی ڈراما پر مغربی ڈراما کے اثرات- مضمون نگار لیاقت علی

 



 مغربی ممالک میں ڈرامہ وہاں کی ادبی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم جز سمجھا جاتا ہے بلکہ یوروپ کے تمام ممالک میں اس فن کو ادبی و تہذیبی زندگی کا ایک اہم حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اس بنا پر قیاس کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی دولت اور شہرت کا چرچہ سن کر سب سے پہلے پرتگالی قوم 9 جولائی 1497 میں (Lisbon) سے واسکوڈی گاما کی قیادت میں ہندوستان پہنچی۔ مئی 1497 میں پرتگالی قوم کالی کٹ  کے مغربی ساحل پر اتری،لیکن یہاں کے راجہ نے ان کی ڈٹ کر مزاحمت کی اور دونوں قوموں کے درمیان جنگ ہوئی۔ آخر کار واسکوڈی گاما کو اپنے 160 سیاحوں سمیت جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1499 میں وہ 55 ساتھیوں کے ہمراہ  (Lisbon) لوٹ گیا۔ دوسری مرتبہ واسکوڈی گاما نے فروری 1506 میں ہندوستان پر یلغار کی اور کالی کٹ کے راجہ کو شکست دے کر ہندوستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے اور ھیرے دھیرے پرتگالی قوم تجارت کے بہانے اپنے مقبوضات بنا نے میں کامیاب ہو گئی اور ان کی ایک کثیر تعداد یہاں رہنے لگی۔اس طرح  ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میںپرتگالی قوم کی مستحکم حکومت 1542 میں قائم ہوئی۔ ان لوگوں میں جفا کشی کے ساتھ ساتھ تفریح کی طلب بھی تھی۔ اس بنا پر خیال کیا جاتا ہے کہ وطن سے دور ایک اجنبی ملک میں اس قوم نے سختیوں اور احساس بے وطنی کو بھولنے کے لیے تفریح میں پناہ ڈھونڈنی شروع کی۔چنانچہ انھوں نے تفریح گاہیں قائم کیں،ڈرامے لکھے اور اسٹیج کرنے کا ہنر اپنایا جس سے لوگ اپنا دل بہلا سکیں اور اپنے ملک کی تہذیبی اور ادبی زندگی کی جھلکیاں بھی دیکھ سکیں۔ان ڈراموں کی زبان کیا تھی، یہ طے کرنا تو مشکل ہے لیکن قیاس کیا جاتا ہے کہ غالباً اپنی زبان میں ہی پیش کیے ہوں گے یا ہندوستانی اور پرتگیز زبان کے امتزاج سے بھی پیش کیے ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ پرتگالی زبان کے بہت سارے الفاظ اردو میں ملتے ہیں۔مثلاًبوتام، گودام اور تمباکو وغیرہ۔بعض محققین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے ڈرامے ہندوستانی زبان میں پیش کرتے تھے،بہر حال یہ کہنا درست ہو گا کہ اردو ڈراما نے شعوری طور پرنہ سہی لیکن غیر شعوری طور پر پرتگالی ڈراموں کا بھی اثر قبول کیا ہے۔

ہندوستان کی بساط سیاست پر جب انگریزوں نے دوسری یورپی قوموں کو پست کردیا اور ان کے قدم یہاں مضبوطی سے جم گئے تو ان کی زندگی کے جز کی حیثیت سے ہندوستان میں ڈرامے کیے جانے لگے۔یہ ڈرامے زیادہ تر چھاونیوں یا ایسے مقامات پر ہوتے تھے جہاں انگریزوں کی بڑی تعداد مقیم ہوتی تھی۔ انگریزو ں کے باقاعدہ تھیٹر قائم کرنے کا قدیم ترین ثبوت ڈیگس کی کتاب  (Bombay and Western India) جلد اول، ص121 ہے۔جس کے ساتھ تقریباً 1750 درج ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ممبئی میں 1750 میں ایک تھیٹر موجود تھا۔لیکن ممبئی گزٹ میں وہاں کے سب سے پہلے تھیٹر کی تعمیر کا سال 1770 درج ہے جو عوام سے چندہ لے کر قائم کیا گیا تھا۔ اس تھیٹر میں جسے’ممبئی تھیٹر‘کہا جاتا ہے ڈراموں کے کھیلے جانے کی تفصیل بقول ڈاکٹر نامی 1797 کے پہلے نہیں ملتی۔

22 مارچ 1800 سے یہ تھیٹر نیلام گھر کی حیثیت سے استعمال ہونے لگا مگر 1806 سے اس تھیٹر میں پھر تماشے دکھائے جانے لگے۔ 1818 میں اس تھیٹر کو دوبارہ بنوایا گیااور پہلی جنوری 1819 سے اس میں باقاعدہ ڈرامے کیے جانے لگے۔یہ سب ڈرامے انگریزی کے ہوتے تھے جن میں شوقیہ ڈرامہ کرنے والے حصہ لیتے تھے لیکن اخراجات کے مقابلے میں آمدنی کم ہوتی تھی۔چنانچہ مجبور ہو کر اس کی مجلس منتظمہ نے 1835 میں اس کی عمارت کو نیلام کر دیا۔ 1845 میں کچھ لوگوں کی تحریک پر دوبارہ ایک تھیٹر قائم کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ چنانچہ جگن ناتھ شنکر سیٹھ کی تحریک پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ممبئی تھیٹر کے نیلام سے بچی ہوئی رقم نئے تھیٹر ہال کے لیے دینا منظور کر لی اور گرانٹ روڈ پر نیا تھیٹر ہال تعمیر ہوا جس میں 1846 سے باقاعدہ طور پر انگریزی ڈرامے دکھائے جانے لگے۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بامبے تھیٹر کی ابتدا سے اس کے نیلام ہو کر کھدنے تک یعنی 1835 تک اس میں ہندوستانیوں کے داخل ہونے کی ممانعت تھی۔اس لیے ممبئی تھیٹر میں جو ڈرامے ہوئے تھے ان کا براہ راست اثر ہندوستانیوں کی زندگی پر نہیں پڑ سکا۔ ’گرانٹ روڈ تھیٹر‘ جب تعمیر ہوا تو اس کے لیے جگن ناتھ شنکر سیٹھ نے اپنی زمین معاوضے پردی۔اس کے علاوہ اس میں دوسرے ہندوستانیوں نے بھی چندے دیے تھے۔ چنانچہ مجلس منتظمہ میں جگن ناتھ شنکر سیٹھ کی آواز کافی اہمیت رکھتی تھی۔ان کی خواہش یہ ہوئی کہ نئے بامبے تھیٹر میں مراٹھی ڈرامے بھی اسٹیج لیے جائیں۔اس لیے 1853 میں جگن ناتھ شنکر کی قائم کردہ انجمن نے جس کا نام ’ہندو ڈرامیٹک کور‘ تھا کچھ ڈرامے پیش کیے۔

مالی حیثیت سے ان ڈراموں میں کافی نقصان ہوا۔ اس لیے جگن ناتھ شنکر نے سوچا کہ اردو ڈرامے بھی پیش کیے جائیں تاکہ اس نقصان کی کچھ تلافی ہو سکے، اس لیے انھوں نے بھادو داجی لاڈ سے ’راجہ گوپی چند اور جلندھر‘نام کا ڈرامہ لکھوا کر 6 نومبر 1853 کو پیش کیا اور اس طرح بقول ڈاکٹر عبدالعلیم نامی’بامبے تھیٹر‘ کے اسٹیج پر اردو کا پہلاڈرامہ کھیلا گیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ1871 تک اردو ڈراما دکھانے کی جو کوششیں بمبئی میں ہوتی رہیں۔مگر اس دور کا کوئی ڈراما دستیاب نہیں ہے، ورنہ اس سے ان ڈراموں کے فنی ارتقا کا اندازہ کیا جاسکتا تھا۔ابھی تک بمبئی کے جدید اردو اسٹیج سے جو قدیم ترین اردو ڈراما ملتا ہے وہ ’خورشید‘ ہے اس ڈرامہ کو ’وکٹوریہ ناٹک منڈلی‘نے سب سے پہلے پیش کیا۔ڈرامہ بڑی کامیابی سے کھیلا گیا اور بہت پسند بھی کیا گیا۔ممبئی میں جو ڈرامے لکھے اور کھیلے گئے ان میں ’خورشید ‘ سب سے قدیم بتایا جاتا ہے۔

 

انگریزی ڈراموں کا اثر:

اس سے انکار نہیں کہ ہندوستان کی تہذیبی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں یورپین قوموں کے تسلط کے بعد بہت سے انقلاب برپا ہوئے جن سے ہندوستانیوں کے ذہن میں انگریزی زبان و ادب کے ذریعہ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ہندوستانی زبان و ادب پر انگریزی زبان و ادب کے اثرات مرتب ہوئے، نئے رحجانات اور میلانات  اپنی جگہ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔خوشگوار اور حیات بخش عناصر بھی شامل ہو رہے تھے۔ سید عبد اللطیف نے اپنی کتاب’دی الفلوینس آف انگلش لٹریچر آن اردو لٹریچر‘ میں لکھا ہے کہ :

’’انگریزی کا زبر دست خزانہ جو مغربی زندگی اور تہذیب کے صحت مند عناصر کا آئینہ دار تھا، ہندوستانیوں کے ہاتھ آیا‘‘

ہندوستان بھر میں یہ اثرات نمایاں تھے، چونکہ اس وقت ہندوستان کی عام زبان اردو بن چکی تھی جو ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی تھی انگریزی ادب کی چھاپ اردو ادب کی ہر صنف پر گہری نظر آتی تھی۔صنف شاعری سے لے کر ڈرامہ تک اردو ڈراموں نے مغربی اثرات  سب سے زیادہ قبول کیے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کے بعد ہی اردو ڈرامے کا آغاز ہوا۔اردو ڈرامے کی تاریخ مغربی ڈراموںکے ذکر کے بنا مکمل نہیں ہو سکتی،شیکسپیئر اور دوسرے مصنّفین کے جو ڈرامے اردو کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں ان میں ترجمے کم اور ماخوذات زیادہ ملتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک کی تہذیب و معاشرت کو اپنی زبان میں پیش کرنا بہت مشکل کام ہے۔

دی انڈین تھیٹر میں پروفیسر یاجنک نے ایک جگہ لکھا ہے :

’’وہاں بھی جہاں زندگی کا ایک عام بین الاقوامی معیار ہے جیسے یورپ’ڈرامائی ادب کی کیفیات میں مختلف تبدیلیوں کے بغیر بجنسہٖ منتقل کر دینا اکثر نا ممکن ہو جاتا ہے‘‘

اردو ڈراماکے سلسلے میں یہ بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ انگریزی ڈرامے کو اس کی اوریجنلٹی برقرار رکھ کر ترجمہ کرنا بہت مشکل تھا اور اردو کے ڈرامہ نگاروں کو انگریزی زبان پراتنی دسترس نہیں تھی۔لہٰذا انھوں نے ترجمہ کرنے سے اعراض کیا بلکہ مرکزی خیال اور نفس مضمون کی تلخیص ہندوستانی معاشرت کی خصوصیات سامنے رکھ کر کی۔

اردو میں منتقل مغربی ڈراموں کی تفصیل اور مختلف رائیں ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔زیادہ تر ان مغربی ڈراموں کا ذکر کیا جائے گا جو عرصۂ  دراز تک اسٹیج کی زینت بنتے رہے ہیں:

.1شی اسٹوپس ٹو کانکئیر (She Stoops to Conquer): اولیور گولڈ اسمتھ کے اس مشہور و معروف ڈرامہ کا منشی جے نارائن نے ’تسخیر‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ اسمتھ کا یہ ڈراما شوخی اور ظرافت حسن اور طنز کے امتزاج کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے۔

.2 شلر(Schiller) : اولیور گوکڈ اسمتھ کا یہ ڈراما کئی زبانوں میں منتقل کیا گیاہے۔الگزنڈر ورما نے اس ڈرامے کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسمتھ کے اس ڈرامے کا باقی صاحب نے اردو میں ’مجبور جرمن‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔

.3 ہارٹ لیس آنٹ(Heartless Aunt): گولڈاسمتھ کے اس مشہور اور مقبول ڈراما heartless aunt کو بھی اردو زبان میں منتقل کیا گیا۔آغا حشر کاشمیری نے اپنے اس ترجمے کا نام’دل کی پیاس ‘ رکھا ہے لیکن ترجمے میں وہ بات پیدا نہیں ہو سکی جومتن میں تھی۔

.4 سلور کنگ(Silver King) : اردو میں اس کاترجمہ ’سلور کنگ‘ عرف ’نیک پروین‘ عرف ’اچھوتا دامن‘ کے ناموں سے آغا حشر کاشمیری نے کیا اور ’نیو الفرڈ کمپنی‘بمبئی نے اسٹیج کیا۔ایچ اے جونئیر اور ایچ ہرمن نے مل کر اس ڈرامہ کولکھا تھا۔اس تخلیق کو یورپ اور امریکہ کے بہت سارے ممالک میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔

.5 دی ورجن مارٹیر(The virgin Martyr): میسینجر Messenger اور ڈیکر Dekker اس ڈرامے کو منشی غلام محی الدین نازاں دہلوی نے اردو کے قالب میں ڈھالا تھا،جس کو 1913 میں ’پارسی انپیرل کمپنی‘ نے پیش کیا تھا۔

.6 دی جیوئس (The Jewess): یہ ڈراما ڈبلیو ٹی مان کریف کا لکھا ہوا ہے۔اس ڈرامے کو ہندوستان میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے دوماخوذات منظر عام پر آئے۔ایک منشی طالب کا لکھا ہوا ’کرشمہ قدرت عرف اپنی یا پرائی‘ جس کو’وکٹوریہ کمپنی‘ ممبئی نے 1912 میں اسٹیج کیا۔ دوسرا مشہور و معروف ڈراما ’یہودی کی لڑکی‘ ہے جس کو آغا حشر کاشمیری نے اس کے پلاٹ پر لکھا اور’کھٹاو الفریڈ کمپنی‘ ممبئی نے 1918 میںاسٹیج کیا تھا۔

.7 پزار (Pizarro): شیریڈن کے اس مشہور المیہ (ٹریجڈی)ڈرامے کو آغا حشر نے ’اسیر حرص‘کے نام سے اردو میں پیش کیا اور 1900 میں پارسی کمپنی نے اسٹیج کیااور اسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ڈراما پزار کے ایک اور ماخوذے کا پتہ ڈاکٹر علیم نامی کی کتاب سے چلتا ہے۔جو افسوں شاہجہاں پوری نے ’اول جلول‘ کے نام سے لکھا۔ یہ ڈراما پزار کے بنیادی قصہ پر ہی لکھا گیا تھا۔

.8 دی لیڈی آف لائینز(The lady of Lyons): اردو زبان میں سب سے پہلے لارڈ لٹن کے اس رومانی ڈرامے کا منشی مراد علی نے’دھوپ چھاؤں‘ کے عنوان سے ترجمہ کیااور’نیو پارسی وکٹوریہ کمپنی‘ نے اسے پیش کیا۔ ایک اور ترجمہ ’پیسہ ‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔اخبار لاہور میں ایک ترجمہ ’’شہر لائینز کی بیگم‘‘ کے عنوان سے بھی منظر عام پر آیا۔

.9 نائٹ اینڈ ڈے(Night And Day): طالب بنارسی نے ’نائٹ اینڈ ڈے ‘ کے پلاٹ پر ’لیل و نہار‘ عرف تماشائے خوش گلو‘ ڈراما اردو زبان میں لکھا جسے’ نیو الفریڈ تھیٹر کمپنی‘ نے اسٹیج کی زینت بننے کا موقعہ فراہم کیا۔

.10 دی ٹاور آف نیسل(The Tower Of Nasle): منشی محمد ابراہیم محشر انبالوی نے نیو یارک ڈرامیٹک کمپنی ممبئی کے لیے الگزنڈر ورما کے اس ڈرامے کو1911میں ’خون جگر‘ عرف’شام جوانی‘ کے نام سے اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔

ولیم شیکسپیئر کے پچاس سے زیادہ ڈراموں کے ترجمے اور ماخوذات اردو میں ملتے ہیں۔سارے ڈراموں کا ذکر ممکن نہیں، البتہ ان کے چند اہم ڈراموں کا ذکر مناسب ہے۔

.1 میکبتھ(Macbeth): آغا حشر کاشمیری نے ولیم شیکسپیئر کے اس مقبول ترین ڈرامے کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ ’ڈراما خواب ہستی‘ کا پلاٹ اس ڈرامے سے اخذ کیا ہے۔عنایت اللہ دہلوی نے’میکبتھ‘ کے ہی عنوان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

.2 کنگ جون(King John): بقول ڈاکٹر عبدالعلیم نامی آغا حشر کاشمیری نے ’کنگ جان ‘اور ’ رچرڈ دی تھر ڈ‘ دونوں سے پلاٹ لے کر 1907 میں ’صید ہوس‘ ڈراما لکھاتھا۔

.3 لو لیبر لاسٹ(Love Labour Lost): اس ڈرامے کا ترجمہ اردو میں ’یاروں کی محنت برباد‘ کے عنوان سے محمد سلیمان نے 1899  میں کیا تھا۔

.4 آل ازویل دیٹس اینڈ ویل(All's Well Thats End Well): پروفیسر یاجنک کے خیال کے مطابق ’حسن آرا ‘ کے نام سے اس کا ترجمہ ملتا ہے جو پارسی کمپنی نے 1900 میں اسٹیج کیا تھا۔

.5کنگ ہنری ففتھ(King Henry V): ولیم شیکسپیئر کے اس ڈرامے کا ترجمہ اردو زبان میں دو مرتبہ ہوا ہے۔ پہلی بار ’تسخیر فرانس‘ کے نام سے سید تفصیل حسین ناشر نے اور دوسری بار سعید الحق عاشق دسنوی ایم اے نے ’ہنری پنجم‘ کے عنوان سے کیا ہے۔

.6 پیری کلس(Pericles): منشی کریم الدین نے اپنا اردو ڈراما ’خداداد‘ پیری کلس کے پلاٹ پر لکھا جس کو ممبئی کی پارسی کمپنی نے 1891 میں اسٹیج کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور ماخوذے کا پتہ چلتا ہے جس کا نام ’وادی دریا‘ہے۔

.7 مچ اے ڈو اباؤٹ نتھنگ (Much A Do About Nothing): پروفیسر یاجنک اور ڈاکٹر نامی کے یہاں ایک ہی ترجمے کا پتہ چلتا ہے۔ مترجم کا نام لالہ سیتا رام ہے۔مگر ترجموں کے عنوانات مختلف دیئے ہیں یاجنک کے یہاں ’دام محبت‘ نام دیا ہوا ہے جب کہ ڈاکٹر نامی کے یہاں ’جام الفت ‘ ملتا ہے۔لیکن ان ڈراموں کوکچھ خامیوں کی وجہ سے اتنی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

.8میثر ر فار میثرر(Measure For Measure): آغا حشر کاشمیری نے اس کے پلاٹ پر ’شہید ناز‘ ڈراما 1902 میں لکھا ہے۔ اس ڈرامے کو ہندوستان بھر میں بے حد کامیابی اور شہرت نصیب ہوئی اور بہت پسند کیا گیا۔

.9سمبلین(Cymbeline): اس ڈرامہ کے لگ بھگ تین ترجمے اردو میں ملتے ہیں۔پہلا ترجمہ ’ظلم ناروا‘ کے نام سے ،دوسرا منشی مصطفیٰ سید علی نے کیا اورتیسرا ترجمہ ’سمبلین‘ کے عنوان سے عبدالعزیز نے 1902 میں کیا لیکن سب سے زیادہ شہرت اور کامیابی ’میٹھا زہر‘ کے حصے میں آئی۔جس کی ہندوستان بھرمیں بہت پذیرائی ہوئی

.10 دی ونٹرس ٹیل(The Winter's Tale): پروفیسر یاجنک کے نزدیک منشی حسن نے 1998 میں اور محمد شاہ حشر کاشمیری نے 1900 میں اس پلاٹ پر ڈراما ’مرید شک‘ رقم کیا  اور ڈاکٹر عبدالعلیم نامی کے خیال میں بھی آغاحشر نے اس پلاٹ پر 1992 میں مرید شک تحریر کیا۔

.11 دی کامیڈی آف ایرز  (The Comedy Of Errors): ولیم شیکسپیئر کے اس ڈرامے کے اردو میں دو تراجم اور ایک ماخوذے کا پتہ چلتا ہے۔ 1992 میں فیروز شاہ خان نے بعنوان’بھول بھلیاں‘ ترجمہ کیا۔عبد الکریم نے بھی 1913 میں اسی نام سے ترجمہ کیا تھا۔ بیتاب بنارسی نے اس پلاٹ کی بنیاد پر ’گور کھ دھندا ‘نام سے ڈراما تحریر کیا ہے۔

.12  اوتھیلو(Othelo): ولیم شیکسپیئر کے اس معروف اور دل دہلانے والے حزنیہ کو ہندوستان کے مختلف حصوں میں کافی سراہا گیا ہے۔پروفیسر یاجنک نے اس کے چار تراجم کا ذکر کیا ہے۔ منشی مہدی حسن نے ’شہید وفا‘ کے نام سے، نظر دہلوی نے ’شیر دل‘ کے نام سے اور احمد حسن خان نے 1895 میں ’جعفر‘ کے عنوان سے اردو ترجمہ کیا۔

.13ہیملٹ(Hamlet): ہندوستانی اسٹیج پر ہیملٹ کو جو شہرت نصیب ہوئی وہ ولیم شیکسپیئر کے کسی دوسرے ڈرامے کو نہ مل سکی۔ مشرقی ہندوستان میں اردو اسٹیج پر اس کا خوب بول بالا رہا۔منشی مہدی حسن نے ’خون ناحق‘ کا پلاٹ اسی سے لیا ہے۔ 1895 میں امراؤ علی لکھنوی نے ’جہاں گیر‘ کے نام سے اس کا ترجمہ کیا۔نظیر بیگ نے واقعہ’جہانگیر ناشاد‘ اس ڈرامے سے اخذ کیا ہے۔ 1902 میں افضل خان نے ’ہیملٹ‘ کے نام سے ہی اس کا اردو ترجمہ کیا ان ترجموں میں مہدی حسن خان کا ترجمہ سب سے زیادہ مشہور اور مقبول رہا۔

.14انٹونی اینڈ کلیو پیٹرا(Antony And Cleopatra): پروفیسر یاجنک نے دو ترجموں کا ذکر کیا ہے، دونوں کافی ردو بدل کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔پہلا ’کالی ناگن‘جو جوزف ڈیوڈ نے لکھا اور نیو پارسی وکٹوریہ کمپنی ممبئی نے 1906 میں اسٹیج کیا اوردوسرا ترجمہ ’زن مرید‘ ہے۔ الگزینڈر کمپنی ممبئی نے 1909 میں دکھایا،یہ ڈراما ہندوستان کے مختلف حصوں میں کھیلا گیا مگر کچھ وجوہات کی بنا پراسے زیادہ شہرت نصیب نہ ہو سکی۔

.15کنگ لئیر(King Lear): اس ڈرامے کے بھی اردو میںدو ترجمے ملتے ہیں۔پہلا ترجمہ منشی مراد علی بنام’ہار جیت‘ جو1905 میں وکٹوریہ تھیٹر یکل کمپنی ممبئی نے پیش کیا اوردوسرا ترجمہ ’سفیدخون‘ آغا حشر کا 1960میں پارسی تھیٹر یکل کمپنی نے دکھایا۔

.16رچرڈ تھرڈ(Richard 3rd): پروفیسر یاجنک کا کہنا ہے کہ آغا محمد شاہ کاشمیری نے کنگ جان اور رچرڈ تھرڈ سے پلاٹ اخذ کر کے ’صید ہوس‘ کے عنوان سے ایک ڈراما لکھا۔ جو پارسی تھیٹر یکل کمپنی ممبئی نے 1906 میں پیش کیا۔ ڈاکٹر نامی نے آغا حشر کے ’صید ہوس‘ کی تاریخ 1910 بتائی ہے۔اس کے علاوہ دو ترجموں کا ذکر ان کے یہاں ملتا ہے۔پنڈت بیتاب دہلوی نے ’کنگ رچرڈ سوم‘ کے نام سے کیا۔یہ ترجمہ ماہنامہ شکسپئیر ممبئی میں 1906 اکتوبر سے جون 1907 تک برابر شائع ہوتا رہا۔1907 میں ’کنگ رچرڈ‘ کے نام سے کیقباد پستن نے اس کا ترجمہ کیاتھا۔

.17ایز یو لائک اٹ(As You Like It): کچھ کمیوں کی وجہ سے ولیم شیکسپیئر کا یہ ڈرامہ اردو اسٹیج کی رونق نہ بن سکا۔حالانکہ اس کے کئی ترجمے منظر عام پر آچکے ہیں۔ڈاکٹر یاجنک کے یہاں ایک ترجمہ کا ذکر ملتا ہے جو ’دل پذیر‘ کے عنوان سے چرن داس نے 1990 میں کیا۔ ڈاکٹر عبدالعلیم نامی نے کئی ترجموں کے بارے میں لکھا ہے۔پنڈت دہلوی نے 1907 میں’جو آپ پسند کریں‘ کے نام سے ترجمہ کیا جو ماہنامہ شیکسپیئر ممبئی میں مسلسل شائع ہوتا رہا۔ 1927 میں ولایت حسین نے ’پسند خاطر‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا۔’عالم محبت‘ کے نام سے راجہ رشید احمد نے 1928 میں اس کا ترجمہ پیش کیا۔ ’من کی چاہ‘ کے عنوان سے سعید الحق عاشق دہلوی نے کیا۔ان ترجموں کے علاوہ چرن داس کا ترجمہ ’دل پذیر ‘ کا بھی ذکر ملتا ہے۔

.18 اے مڈ سمر نائٹس ڈریم(A Mid Summer Night's Dream): پروفیسر یاجنک نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر عبداللطیف نے ایک اردو ترجمہ کا ذکر کیا ہے، مگر وہ اسٹیج نہیں ہوا۔ ’علی جام الفت‘کے نام سے محمد اظہر نے 1903 میں اس کا ترجمہ کیا۔ڈاکٹر نامی کے نزدیک اس کے تین ترجمے ہیں ’خواب پریشاں‘ کے عنوان سے امیر احمد دہلوی نے کیا دوسرا ترجمہ احسن لکھنوی 1900 میںاورتیسرا ترجمہ محمد اظہر علی آزاد کا ہے۔جو ’بہارلنسا‘کے نام سے 1902 میں کیا گیاتھا۔

.19مرچنٹ آف وینس(Merchant Of Venice): اردو اسٹیج پر یہ ڈراما بہت مقبول ہوا۔ڈاکٹر یاجنک کا کہنا ہے کہ اردو اسٹیج پر اس تمثیل کو جتنی کامیابی نصیب ہوئی۔اس کی نصف بھی مراٹھی ترجمے کو نہ مل سکی۔یاجنک کے نزدیک آغا حشر کاشمیری نے’دل فریب‘ کے نام سے اس ڈرامے کا پلاٹ اخذ کیاہے۔پروفیسر یاجنک کا یہ قول مستند ثابت نہیں ہوتاکیونکہ آغا محمد شاہ حشر کاشمیری نے ولیم شکسپئیر کے اس ڈرامے کو اردو جامہ نہیں پہنایا۔ اور نہ کسی کتاب میںاس کا ثبوت دستیاب ہے۔عاشق حسین نے 1998 میں ’وینس کے سوداگر‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ کیا اور ایک اور ترجمہ ’ چاند شاہی سود خوار‘ ہے جو 1895 میں کیا گیا۔ڈاکٹر عبدالعلیم نامی نے پانچ ترجموں کا ذکر کیا ہے۔ ڈراما ’دل فروش‘ احسن لکھنوی نے 1900 میں اس کے پلاٹ پر لکھاہے ’ ایک اور ترجمہ ’چاند شاہ سود خوار‘ کے عنوان سے 1895 میں، نذر محمد فتح علی نے 1884  میں ’تاجر وینس‘ کے نام سے لفظی ترجمہ کیا۔ بابو بالیشور پرشاد بی اے ڈپٹی کلکٹر بنارس نے بھی لفظی ترجمہ کیا۔اور افسوں شاہ جہاں پوری نے ’دل فروش عرف یہود ی سوداگر‘ لکھاہے۔ولیم کے اس ڈرامے کے لگ بھگ سب سے زیادہ ترجمے ملتے ہیں۔جو بہت کامیاب اور مقبول بھی رہے۔

ولیم شیکسپیئر اور باقی یورپین ممالک کے کامیڈی اور ٹریجڈی ڈراموں کے علاوہ بھی دوسرے مغربی مصنّفین کے ڈرامے اردو اسٹیج پر کافی مقبول ہوئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں نے نہ صرف ولیم شیکسپیئر بلکہ دوسرے ڈراما نویسوں سے بھی استفادہ کیا ہے اور اردو ڈراما نگاری کو پروان چڑھانے میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔

ان ماخوذات اور تراجم کے علاوہ بھی بہت سارے مغربی ڈرامے اردو کے قالب میں ڈھالے گئے اور اسٹیج کی رونق بنے۔ان کے مطالعے سے یہ تصویر صاف طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ اردو ڈراما نگاری ایک مختلف النوع موضوعات سے روشناس ہوئی ہے بلکہ ڈرامے کی دنیا میں اس نے ایک الگ راہ نکالی ہے جس میں ایک طرف شعوری اور غیر شعوری طور پر مغربی ادب کے نقوش مرتب ہوئے تو دوسری طرف یہ ڈرامے اسٹیج پر شہرت اور مقبولیت حاصل کر کے مالی منفعت کا سبب بھی بنے۔

اگران تراجم پر نظر دوڑائی جائے تویہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اردو کے ادبا و شعرا کی ہمیشہ یہ جدو جہد رہی ہے کہ مغربی ادب کے تمام شاہکاروں کو اردو کا جامہ پہنایا جائے جس سے اردو ادب کے شائقین مغربی ادب سے پورا پورا فائدہ حاصل کر سکیں۔ ڈاکٹر سید عابد حسین، پروفیسر محمد مجیب،عنایت اللہ دہلوی، مجنوں گورکھپوری، محمد حسن، فضل الرحمن، ڈاکٹر منیب الرحمٰن، سردار جعفری، سجاد ظہیر، خلیل صحافی، خواجہ احمد عباس، عزیز احمد، بادشاہ حسین، خادم محی الدین، جاوید دانش، ظہیر انور اور صدیق عالم کے نام ترجمے کے سلسلے میں قابلِ ذکر ہیں۔القاضی کا اسکول آف ڈراما خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے کہ اس نے ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں اور دوسرے مغربی ڈراما نگاروں کے ڈراموں کو اردو میں تمام لوازمات اور مکمل طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

Liaquat Ali

JNU

Delhi - 110067

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں