12/10/20

ذوق کا رنگ سخن: اعجاز و امتیاز - مضمون نگارامتیاز رومی

 




انیسویں صدی کے شعری منظر نامے پر جو نام سب سے روشن و تابندہ ہے وہ شیخ محمد ابراہیم ذو ق (1789-1854) کا ہے۔ ذوق کی ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول  کے مکتب میں ہو ئی۔ وہ خود شاعر تھے اور شوق ان کا تخلص تھا۔ شیخ محمد ابراہیم کے اندر جو ذوق نامی شاعر پوشیدہ تھا اسے شوق نے جلا بخشی۔اپنے استادکی مناسبت سے شیخ ابراہیم نے ذوق تخلص اختیار کیا۔ اس زمانے میں شاہ نصیر کی استاذی کا ہر طرف غلغلہ تھا، کچھ دنوں کے بعدذوق بھی ان کی شاگردی میں داخل ہو گئے۔تاہم زیادہ دنوں تک نہ نبھ سکی اور ذوق نے علاحدگی اختیار کر لی او ر خود مشق سخن میں مصروف رہے۔ پیہم مشق و ممارست نے ذوق کی شاعری کو صیقل کر دیا جس کی تابندگی نے بہادر شاہ ظفر کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا اورانیس سال کی عمر میں ذوق ا’ستاذ شہ‘ کی حیثیت سے ہر طرف ممتاز ہو گئے۔ذوق متعدد علوم و فنون کے ماہر تھے۔علم رمل،علم نجوم اور موسیقی وغیرہ پر کامل دست گاہ رکھتے تھے۔لیکن شاعری ہی عزت و شہرت کا ذریعہ بنی۔ تاہم پھر بھی وہ اپنی قسمت کو کوستے ہوئے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے علم وفن کا اظہاربھی کرتے ہیں       ؎

قسمت ہی سے لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ

ہر فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا

 بہادر شاہ ظفر نے بھی استاد ذوق کی عزت افزائی میں کو ئی کسر نہ چھوڑی اور ملک الشعرا کا اعزاز عطا کیا۔ ذوق کے شاگردوں میں داغ دہلوی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ داغ نے استاذکی روایت کی توسیع کی اور زبان و بیان کے ساتھ ساتھ جذبہ و احساس کو بھی شامل کیا جس سے داغ کی شاعری میں گہرائی و گیرائی پیدا ہو گئی۔ جہاں تک محمد حسین آزاد کی بات ہے تو ان کی شاگردی بھی مختلف فیہ ہے۔ اس تفصیل سے قطع نظر کہ آزاد نے ذوق کو آب حیات کا گھونٹ پلا پلا کر شہرت عام کو بقائے دوام بخشنے کی سعی لاحاصل میں ان کی شخصیت اور شاعری کو مزید مشتبہ بنا دیا۔ جمیل جالبی اس حوالے سے رقم طراز ہیں’’انھو ں نے نا دان دوست کا کردار ادا کرکے ذوق کو الٹا نقصان پہنچایا ہے اور ذوق کی ہر بنیادی بات کو نزاعی بنا دیا ہے۔ نہ صرف ان کے حالات زندگی کو الجھا دیا ہے بلکہ ان کے دیوان کو بھی خراب کر دیا ہے۔‘‘1حالانکہ ذوق اپنے علم و فضل اور فکر و فن میں خود ہی ممتاز اور یکتائے روزگار تھے۔ ان کو شہرت عام اور بقائے دوام کے لیے محمد حسین آزاد کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔بلکہ آزاد نے تو انھیں نقصان ہی پہنچایا۔ بہرحال جب ذوق کا رنگ سخن صیقل ہوکر سامنے آیا تو اس نے عوام و خواص سبھی کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ذوق کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ لوگ ان کے فن کے قدردان ہیں۔ چنانچہ ذوق خود کہتے ہیں        ؎

آیا ہوں نور لے کے میں بزم سخن میں ذوق

آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہل سخن مجھے

ذوق کا یہ شعر ان پر سو فیصد صادق آیا۔ نوائے ذوق یقینا نقارۂ وقت ٹھہرا۔ انھیں عوام و خواص نے اپنی آنکھوں پر بٹھایا، دل میں بسایا اور عظمت و شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ نیز یہ عزت و شہرت محض استاذشہ ہونے کے سبب نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ان کی ذاتی قابلیت اور امتیازی رنگ سخن کار فرما تھا۔ذوق کا رنگ سخن اس عہد کی تہذیبی فضا میں باز گشت کر رہا تھا اور سانسوں کے ذریعہ ہر ایک کے اندر سرایت کر رہا تھا۔ انیسویں صدی کے افق پر ذوق کا رنگ سخن چھایا ہو اتھا۔ہر چہار جانب ذوق کی استادی کا غلغلہ بلندتھا۔غالب و مومن کا دور دور تک نشان نہیں ملتا تھا مگر بیسویں صدی آتے آتے پہلی ترتیب بدل گئی۔اب غالب،مومن اور ذوق کی ترتیب رائج ہوئی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت سخن فہم لوگ نہیں تھے ؟ یا پھر بعد میں لوگ غالب کے طرف دار ہوگئے؟ یا پھر ذوق کا کلا م بعد میں تبدیل ہو گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس عہد کی تہذیبی فضا یکسر تبدیل ہوگئی۔ نیز ذوق کے لیے ناموافق حالات بھی پیدا ہوگئے اور کچھ غالب کے طرف دار بھی ہو گئے۔ہر شاعر کو غالب کے پیمانے سے ناپنے لگے۔ان تینوں کا کلا م آج بھی وہی ہے۔ البتہ انیسویں صدی کا تہذیبی نشان مٹ گیا۔نیز ہمارا مذاق سخن یکسرتبدیل ہو گیا۔ ذوق کی شاعری میں انیسویں صدی کی روح اس قدر رچ بس گئی ہے کہ اس کے بغیر کلام ذوق کی معنویت کم ہو جاتی ہے۔ بقول جمیل جالبی ’’ذوق اس تہذیب کا ترجمان تھا جو تھی اور اب نہیں ہے۔غالب اس تصور حقیقت کا ترجمان تھا جو اس وقت نہیں تھی اور اب ہے۔‘‘2 دراصل غالب اور ذوق میں بنیادی فرق یہی ہے کہ غالب نے اپنے فن کو فکر و فلسفہ کا آئینہ بناکر اس کو مستقبل کے لیے امر کردیا۔ جب کہ ذوق نے عہد رواں کے مزاج و معیارکو اپنے اندر سمیٹ لیا لیکن جب اس تہذیب کی سانس تھم گئی تو ذوق کی شاعری بھی پژمردہ ہو گئی۔

عام طور پر جہاں ذوق کی شاعری پر بات ہوتی ہے وہا ں غالب اور مومن کا ذکر آہی جاتا ہے کیونکہ ناقدین نے ذوق کو غالب اور مومن کی آنکھوں سے ہی پڑھنے کی کوشش کی ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔غالب و مومن کے مقابلے ذوق کی غزل کو حد سے زیا دہ مشق ستم بنا یا گیا۔ کسی نے ’ غالب و مومن کے مقابلے ذوق کا نام لینا ہی گناہ جانا‘ تو کسی نے ذوق کی غزل کو’ بے ذوق‘ بتایا جوکہ محض کج فہمی ہے۔ اول ذوق کا مطالعہ غالب ومومن کے پیمانے سے نہ کر کے اس عہد کے تہذیبی حوالے سے کرنا چاہیے۔ دوم ان کے مابین مقابلہ بے جا ہے۔ ان تینوں کی حیثیت جدا جدا ہے۔غالب فکرو فلسفہ کا شاعر ہے، مومن معاملات عشق میں طاق ہے اور ذوق اس عہد کی تہذیب اور معاشرے کی آواز ہے۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ غالب کو زبان کا علم نہیں،مومن معاملات عشق تک محدود ہے  اور ذوق فکر و احساس سے بالکل عاری ہے۔ ’’ذوق کو مضمون کے ہر پہلو پر جو گرفت حاصل ہے اس کا نشان تک غالب کے پورے کلا م میں نہیں ملتا۔‘‘ 3

محمد حسن عسکری کا یہ قول کلی طور پر جھٹلایا نہیں جا سکتا البتہ مبالغہ آمیز ضرور ہے۔ اس سے غالب کی سبکی ہر گز مقصود نہیں۔ غالب کو بڑا شاعر ماننا غلط نہیں تاہم ذوق کو کمتر ثابت کرنا صحیح نہیں۔ایک اہم بات یہ کہ غالب نے اپنے کلام کا انتخاب شائع کیا نہ کہ اپنا تمام کلام۔ تاہم ذوق نے خود یہ کام نہیں کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ محمد حسین آزاد نے ان کے قد کو بلند کرنے کے زعم میں مزید پست کردیا اور ان کی شاعری کو بھی مشتبہ بنا دیا۔ اگر ذوق بھی اپنا انتخاب کرکے باقی کلام کو دفن کردیتے تو شاید آج حالات کچھ اور ہوتے۔ یہ تو غزل کا معاملہ ہے ورنہ ذوق کی قصیدہ نگاری غالب سے ارفع و اعلی ہے۔ غالب نے جو سہرا لکھا اسی بحر اور ردیف و قافیہ میں اس کا بہترین جواب ذوق نے اپنے سہرے میں دیا۔ ذوق نے تقریبا تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کی۔دیوان ذوق میں غزل، قصیدہ، رباعی اور ایک نا مکمل مثنوی بھی شامل ہے۔تاہم وہ قصیدے  کے امام ثانی اور خاقانی ہند ہیں۔ ان کے قصائد جلالت علمی سے پر ہیں اور فنی اعتبار سے کامل۔ محمدسلیمان نے ’انتخاب غزلیات ذوق ‘میں غالب اور ذوق کے بہت سارے اشعار درج کیے ہیں جو ایک طرح کے ہیں۔ ان دونوں کو ایک ساتھ پڑھنے کے بعد ہی دونوں کے معیار و مرتبے کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ایک ہی زمین میں غالب اور ذوق دونوں نے بہت سی غزلیں کہی  ہیں جن کو آپس میں ملا دیا جائے تو ایک ہی غزل میں شیر و شکر ہوجائیں گے اور ان میں فرق کرپانا تھوڑا مشکل ہوگا۔ ذیل میں ایک نمونہ ملاحظہ کریں         ؎

یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں

واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں

خط دیکھ کر وہ آئے بہت پیچ و تاب میں

کیا جانے لکھ دیا انھیں کیا اضطراب میں

(ذوق)

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

(غالب)

ذوق نازک خیالی اور معنی آفرینی کی تگ و دومیں نہیں رہتے تھے بلکہ اپنے خیالات کو روز مرہ کے محاوروں کا جامہ پہنا دیتے تھے۔ البتہ زبان و بیان کی شگفتگی پر ان کی گہری نظر ہوتی تھی۔ انداز بیان پر شکوہ، پر تاثیراور کلام پر شعرائے لکھنو کا سا زور ہوتا تھا اس لیے سامعین کو فوری طور پر متاثر کرتا تھا۔ مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں بھی ذوق بڑی آسانی سے پوری غزلیں کہہ ڈالتے تھے۔ذوق در اصل لفظوں کے بازی گر ہیں۔ لفظوں کے انتخاب، تراش خراش اور حسن ترکیب پر انھیں کامل عبور ہے۔ وہ محاوروں کوبہ کثرت اور بر محل کام میں لائے ہیں جن سے کلام کا ظاہری حسن دوبالا ہو گیا۔آزاد کے خوب صورت الفاظ میں:

’’کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین ستارے آسمان سے اتارے ہیں۔ مگر اپنے لفظوں کی ترکیب سے انھیں ایسی شان و شکوہ کی کرسیوں پر بٹھادیا ہے کہ پہلے سے بھی اونچے نظرآتے ہیں۔ انھیں قادرالکلامی کے دربار سے ملک سخن پر حکومت مل گئی ہے کہ ہر قسم کے خیال کو جس رنگ سے چاہیے کہہ جاتے ہیں۔کبھی تشبیب کے رنگ سے سجا کر استعارے کی بو سے بسا تے ہیںکبھی بالکل سادے لباس میں جلوہ دکھاتے ہیں۔‘‘4

محمد حسین آزاد کی انشا پردازی اورحد سے زیادہ مبالغہ آرائی نے ذوق کی شخصیت اور شاعری کو مجروح کردیا۔ اس میں ذوق کا اپنا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ نادان دوست کا رول ادا کرنے والے محمد حسین آزاد نے ان کو ڈبویا۔ جب علمی حلقوںمیں آزاد کی حقیقت عیاں ہوئی تو ذوق چوں کہ ان کے ممدوح تھے اس لیے ذوق پر بھی اس کا اثر ہوا اور آزاد کی تعریف تنقیص میں بدل گئی اوراس تعریف کا بدلہ نقادوں نے ذوق سے لیا۔ آزاد نے تاریخ و تنقید میں صحت اور عدم صحت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔ بس ذوق کو اپنا ممدوح بنا یا اور دیگر شعرا کو نظر انداز کردیا اگرچہ آزاد کا بیان مبالغہ آمیز ضرور ہے تاہم دروغ گوئی نہیں۔ مضمون آفرینی، معاملہ بندی،رندمشربی، طنز و مزاح اور بے ثباتی دنیا،غرض کہ ہر قسم کے مضامین نہایت خوب صو رتی کے ساتھ ذوق نے باندھے ہیں۔ ذوق نے محاوروں کا استعمال جس خو بی سے کیا ہے، ا س کی مثال پوری اردو شاعری میں کم یاب ہے۔یہ اشعار دیکھیں       ؎

جس جگہ بیٹھے ہیں بادیدۂ نم اٹھے ہیں

آج کس شخص کا منہ دیکھ کے ہم اٹھے ہیں

ہونا عاشق سوچ کر اس دشمن ایمان کا

دل نہ کر جلدی کہ جلدی کام ہے شیطان کا

گل اس نگہ کے زخم رسیدوں میں مل گیا

یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا

اُس عہد کے تذکرہ نگاروں اور تاریخ نویسوں نے بہت ہی عزت و احترام کے ساتھ ذوق اور ان کی شاعری کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوںنے اپنی قادرالکلامی کے ایسے جوہر دکھائے کہ تمام اہل سخن عش عش کرنے لگے۔ سرسید جو اپنے وقت کے بہت بڑے مفکر و مدبر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ادیب و نقاد بھی تھے۔ انھوں نے ذوق کے بارے میں ’تذکرہ اہل دہلی‘ میں لکھا ہے:

’’مشق سخنوری اس درجہ کو پہنچی ہے کہ کوئی بات اس صاحب سخن کی غالب ہے کہ پیراۂ وزن سے معرا نہ ہوگی۔ پر گو اور خوش گو غزل ویسی ہی اور قصائد ویسے ہی۔ غزل گوئی میں سعدی و حافظ و قصیدہ میں انوری و خاقانی۔ مثنوی میں نظامی کو اگر اس سخن گو کی شاگردی سے فخر ہو تو کچھ عجب نہیں۔ شمار ان کے اشعار گوہر نثار کا بجز عالم الغیب کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اس قدر جامعیت کہ فصاحت عبارت اور متانت تراکیب اور تازگی اور حدت معنی اور غرابت تشبیہ اور حسن استعارہ اور خوش اسلوبی کنایہ اور لطف تلمیح اور پاکی الفاظ اور تنک ورزی کلمات اور بست قافیہ اور نشست ردیف نظم و نسق کلام اور حسن آغاز و انجام ایک جائے میں جمع ہیں۔ متقدمین سے متاخرین تک کسی اور فرد بشر کو حاصل نہیں ہوئی۔ ‘‘5

ذوق کی زبان و بیان پر قلعہ معلی کے اثرات اور زبان دہلوی کے محاوروں کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اشعار سن کر لوگ بے ساختہ مچل جاتے تھے۔ جب قلعے میں مشاعرہ ہوتا تو ذوق مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ چونکہ مشاعرے میں ابلاغ و ترسیل کا مسئلہ ہوتا ہے اسی لیے اس کا اپنا ایک اسلوب اور لب و لہجہ ہوتا ہے جس میں ذوق مکمل طور سے کامیاب تھے تاہم غالب کی مشکل ترکیبات اور عمیق خیالات ابلاغ و ترسیل کی نارسائی کی وجہ سے دقت پیدا کرتے تھے۔ چناں چہ ذوق کو اپنی زندگی میں جتنی شہرت و مقبولیت ملی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ کلا م ذوق کا سب سے گہرا رنگ اردو پن ہے۔اس میں اردو اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ انھوں نے عربی وفارسی کے الفاظ سے ممکنہ حد تک احتراز کیا ہے۔ جس سے ان کے کلا م میں شیرینی پیدا ہو گئی ہے۔ بقول فراق:

’’ذوق کا نام ہم غالب او ر مومن کے پہلے لیں یا بعد میں اتنا تو ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ زبان کی شاعری کا بابا آدم ہے۔‘‘6

تک بندی، معاملہ بندی،مضمون آفرینی اور عام بول چال کی زبان کو ذوق ے بہت عمدگی سے برتا ہے۔ حتیٰ کہ غالب و مومن بھی اس معاملے میںان سے پیچھے رہ گئے۔ فراق کے نزدیک ’ذوق پنچایتی اور رائے عامہ کا شاعر ہے ‘یہی وجہ ہے کہ ان کے بے شمار اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جو بر محل بے اختیار زبان پر آجاتے ہیں       ؎

مجھ سا مشتاق جمال ایک نہ پائوگے کہیں

گرچہ ڈھونڈوگے چراغ رخ زیبا لے کر

گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے میں

اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا

ہر شاعر کے اپنے مزاج، عہد اور حالات ہوتے ہیں۔ جن سے وہ متاثر ہوتا ہے اور شعری اظہار کے پیکر تراشتا ہے۔ چونکہ ذوق کو کبھی ان پریشانیوں کا سامنا نہیں رہا جن سے دیگر شاعر متاثر ہوئے اور نہ ہی زندگی سے گلہ شکوہ، اس لیے ہزار کوشش کے باوجود میر اور درد کی سی داخلیت نہ آسکی جس کا اعتراف خود ذوق نے بھی کیا ہے کہ ’بہت زور آزمائی کے باوجود غزل میں میر کا انداز نصیب نہ ہوا۔‘ ذوق کی زندگی نہایت پرسکون اور خوش حال رہی۔ اعتدال و توازن ان کی زندگی کا عنصر تھا۔ جتنا ملا اسی پر قانع رہے۔ طبعی طور پر وہ سیاست اور سیاسی حالات سے الگ رہے۔ اس لیے بھی ان کی شاعری میں وہ درد پیدا نہ ہوسکا جو میر کے یہاں ہے۔ ا س کے برعکس میر و غالب زندگی بھر پریشان رہے۔ کبھی چین و سکون کی زندگی نصیب نہ ہوئی جس کی چھاپ ان کی شاعری پر بھی دکھائی پڑتی ہے۔ میر کا غم غم دوراں بن گیااور وہ سدا بہار شاعر ہوگئے، غالب نے شاعری کو مستقبل اورفکر و فلسفہ عطا کیا اور ذوق نے حال کی شاعری کی اور اپنے عہد کو اپنے اندر جذب کرلیا۔ بلاشبہ شاعر اپنے عہد کے حالات اور زندگی کی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سرد و گرم، زمانہ اور زندگی کا دکھ سکھ اس کی شاعری میں در آتے ہیں۔تاہم اس کے باوجود اس عہداور حالات کو نظر انداز کرکے بھی اس کی شاعری سے لطف اندوز ہواجاسکتا ہے۔ لیکن ان میں ذوق ایک ایسے شاعر ہیں جن کی اپنے عہد سے وابستگی جزولاینفک کی طرح ہے ’’ذوق کے دیوان کا مطالعہ ذوق کی زندگی کے چوکھٹے میں رہ کر کیا جاسکتا ہے۔ وہی ایک ایسا شاعر ہے کہ جب تک آپ اس کی زندگی کے پیچ و خم سے آگاہ نہ ہوں اس کے اشعار سے لطف نہیں اٹھاسکتے۔‘‘ 7

شمع ساں بزم سخن یوں تو ہے اوروں سے بھی گرم

ذوق پر سب سے نرالا ہے یہ انداز اپنا

صاحب کاشف الحقائق امداد امام اثر نے ذوق کو ممتاز شاعر تسلیم کیا ہے تاہم ان کی خارجیت کے باعث درد اور میر کے نیچے رکھا ہے۔ انھوں نے ذوق کو اہل لکھنؤ سے قریب تر بتایا ہے۔ امداد اثر کے بقول:

’’اگر مومن اور غالب سے ذوق کو ملائیے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوق غزل سرائی میں اپنے ملکی مذاق کے پابند نہ تھے بلکہ ان کا مذاق غزل سرائی کا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جس سے وہ شیخ ناسخ اور خواجہ آتش کے ہم مذاق معلوم ہوتے ہیں۔ قوت شاعری کے اعتبار سے ذوق ایک زور آور شاعر تھے۔ ان کی خلاقی سخن، بلند پروازی، نازک خیالی، نفیس مزاجی وغیرہ وغیرہ میں کسی کو مجال گفتگو نہیں ہے۔ مگر غزل سرائی میں وہ اس روش کے پابند نہیں رہے ہیں جو درد اور میر کی تھی۔ اسی لیے ان کی غزلیں باوجود عالی خیال کے وہ تاثیر قلبی پیدا نہیں کرتی ہیں جس کی متقاضی غزل سرائی ہے۔ ‘‘ 8

امداد امام اثر نے ذوق کو بحیثیت شاعر زور آور، بلند پرواز، نازک خیال اور خلاق سخن مانا ہے۔تاہم ان کی غزل سرائی کو تاثیر قلبی سے خالی بتایا۔ ذوق خارجی معاملات میں طاق ہیں تاہم داخلی واردات بھی جستہ جستہ بکھرے ہوئے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ داخلیت پر مشتمل ان کے اشعار کا انتخاب کرکے شائع کیا جائے۔ ذوق مکمل طور پر خارجیت زدہ بھی نہیں ہیں۔ ان کی خارجی شاعری میں بھی قلبی اور ذہنی واردات ہم آہنگ ہوجاتے ہیں        ؎

ایک دم بھی ہم کو جینا ہجر میں تھا ناگوار

پر امید وصل پر برسوں گوارا ہوگیا

ترے آتے ہی آتے کام آخر ہوگیا میرا

رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا

ہم ہیں اور سایہ ترے کوچے کی دیواروں کا

کام جنت میں ہے کیا ہم سے گنہ گاروں کا

 ذوق کی شاعری جملہ موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کی بہتات ہے۔ خارجی معاملات اور داخلی حالات کے ساتھ ساتھ بے ثباتی دنیا اور مسئلہ جبرو قدر کو بھی انھوں نے موضوع سخن بنا یا ہے جو نظام کائنات اور احوال حیات و ممات کے متعلقات ہیں۔ انسان کی خود غرضی اور موت کے سامنے انسان کی لاچاری و بے بسی اور فلسفہ زندگی کو بھی ذوق نے پیش کیا ہے ــ      ؎

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خو شی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

موت نے کردیا نا چار وگرنہ انساں

ہے وہ خود بیں کہ خد اکا بھی نہ قائل ہوتا

ذوق کی شاعری میں فارسی، اردو اور ہندی کے الفاظ و تراکیب اس خوبی سے ضم ہوگئے کہ ان کو جدا کرنا قبح کا باعث ہوگا۔ ذوق نے بیانیے کے جملہ ممکنات کو قوت اظہار بخش دیا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اردو کے ٹھیٹھ پن کو مستحکم کیا۔سید عابد علی عابد لکھتے ہیں:

’’ذوق نے زبان کی ایک نئی اکائی پیدا کرکے دکھائی۔ یہ اکائی مختلف اجزا سے مل کر وحدت تالیفی کی صورت میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ ذوق نے ٹھیٹھ اردو کی تمام ممکنات کو بے نقاب کردیا ہے اور جدید اردو شاعری کے لیے زمین تیار کی ہے۔‘‘ 9

 ’’آزاد کی مرصع زبان بھی ذوق کی زبان ہے اور حالی کی ’فریاد بیوہ‘ کی مٹھاس اور لوچ بھی ذوق ہی کی زبان کی ایک سطح ہے؛ اس اعتبار سے جدید اردو شاعری کی تاسیس کی جڑیں آخر ذوق کے خانوادہ جلیل سے جاملتی ہیں۔‘‘ 10

ذوق نے اپنے شاگردوں کی تربیت اور اصلاح سخن میں بہت دقت نظر سے کام لیا۔ ان کا اصل منصب یہی تھا، اسی لیے ’استاد ذوق‘ سے مشہور ہوئے۔ شعرو ادب میں استاد شاگرد کا جو رشتہ رہا ہے اور ان کا جو مقتدر اور مضبوط سلسلہ رہا ہے ا س میں ذوق کے پائے کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ ذوق نے اردو شاعری میں زبان وبیان اور فنی التزامات کا جو بیج بویا وہ داغ اور اقبال تک جاپہنچا۔ ان باتوں کی اہمیت آج اس لیے کم ہوگئی کہ استادی اور شاگردی کا وہ سلسلہ نہیں رہ گیا۔ جہاں سے شعرا وابستہ ہوکر فخر کرتے تھے۔خانقاہی سلسلوں کی طرح شعری سلسلے بھی ہوا کرتے تھے لیکن آج یہ سلاسل ناپید اور ان کی معنویت نابود ہوگئی۔ چونکہ زبان و بیان کا علم، قادرالکلامی اور استعاروں، کنایوں اور رموز و علائم ذوق سے داغ نے لیے اور پھر داغ سے اقبال تک منتقل ہوئے اس لیے بلاشبہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ذوق کا سلسلہ تمام سلاسل میں سب سے بلند و بالا اور بافیض ثابت ہوا۔

غرض کہ ذوق کی شاعری کا اعجاز یہ ہے کہ وہ زبان و بیان کو اپنی قدرت کاملہ سے اپنے مصرف میں لائے اور اردو،ہندی اور فارسی کو اس طرح مدغم کردیا کہ ٹھیٹھ اردو زبان کا جامہ پہنا دیا۔ ذوق کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی شاعری تہذیب و ثقافت کی شاعری ہے،  زبان وتہذیب کی شاعری ہے۔تک بندی اور محاورہ بندی کی شاعری ہے۔ ان کا رنگ سخن اپنے عہد کے ذرے ذرے میں عیاں ہے اور اہل فکر و فن کی زبان پر نغمہ سرا ہے۔یوں تو ہر شاعر کی بنیاد اس کے عہد سے وابستہ ہوتی ہے تاہم اس عہد کو پرے رکھ کر بھی ان کی شاعری سے لطف اندوز ہواجاسکتا ہے۔ لیکن ذوق کا عہد ان کی شاعری سے اس طور پر وابستہ ہے کہ دونوں کو علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ بغیر اس عہد کی روح کو سمجھے ہوئے ذوق کی شاعری کو یکسر نہیں سمجھا جاسکتا۔ان کے عہد سے جتنا ارتباط و انسلاک ہوگا، ان کی شاعری اتنی ہی پرلطف اور بلند مرتبہ نظر آئے گی۔ کیونکہ ذوق کی شاعری میں اس عہد کی روح اور قلعہ معلی کی تہذیب رچی بسی ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ذوق کے عہد میں تنقید و تنقیح کے پیمانے الگ تھے اور بعد کے پیمانے الگ ہوگئے، اس لیے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری پر گرد جم گئی جسے صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح وہ متوازن مزاج اور علم و فضل میں بلند قامت شخصیت کے حامل تھے، اسی طرح شاعری میں بھی ان کا اپنا ایک منفرد اور ممتاز مقام و مرتبہ ہے جس کا صحیح تعین کرنے کے لیے اس عہد کے تہذیبی اور سماجی حوالوں کو مد نظر رکھنا ناگزیر ہے۔

حوالہ جات

.1      جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو  جلد چہارم حصہ اول،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی،ص 241

.2      ایضا،ص257

.3      بحوالہ ایضاڈص 256

.4      محمد حسین آزاد: آب حیات،اترپردیش اردواکادمی،چھٹاایڈیشن 2003، ص 455

.5      سرسید احمد خان، تذکرہ اہل دہلی، انجمن ترقی اردو 1965 اشاعت دوم،  ص 245-246

.6      شیخ محمد ابراہیم ذوق، مرتبہ اسلم پرویز،انجمن ترقی اردو ہند، ص293

.7      سیدعابد علی عابد، مقدمہ ذوق سوانح اور انتقاد،مرتبہ تنویر احمد علوی، مجلس ترقی ادب لاہور، 1963، ص 33-34

.8      امداد امام اثر، کاشف الحقائق، ص 429

.9      سیدعابد علی عابد، مقدمہ ذوق سوانح اور انتقاد،مرتبہ تنویر احمد علوی، مجلس ترقی ادب لاہور، 1963ص 56

.10    ایضا، ص 46


Imteyaz Rumi

Room No: 17, Mahi Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 09810945177

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں