28/10/20

اسکولی سطح پر اردو زبان کی تدریس کے مسائل - مضمون نگار: غفرانہ بیگم

 


اردو ایک اہم زبان ہے اور ہندوستان کی درج فہرست قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ عربی اور فارسی سے اردو نے بہت استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں عربی اور فارسی الفاظ کے بہت سے الفاظ ہیں۔ مگر اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہے کہ اردو زبان صرف عربی اور فارسی لفظیات تک ہی محدود ہے بلکہ یہ ایسی زبان ہے کہ جس میں دوسری زبانوں کے بہت سے الفاظ شامل ہیں۔ خاص طور پر ہندی اور سنسکرت کے بہت سے الفاظ اِس زبان میں اس طرح جذب ہوگئے ہیں کہ فرق کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

اردو کی جنم بھومی ہندوستان ہے۔ ہندی کی طرح اس کی پرورش و پرداخت بھی ہندوستان ہی میں ہوئی اور ان دونوں زبانوں کے درمیان بہت سے اشتراکات بھی ہیں۔ خاص طور پر ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی دونوں زبانوں میں بہ خوبی ہوئی ہے۔ صوتیات اور قواعد کے لحاظ سے بھی اردو اور ہندی ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ ان دونوں زبانوں کا نقطہ امتیاز صرف رسم الخط ہے۔ ہندی نے دیوناگری لپی کو اپنایا تو اردو نے فارسی رسم الخط کو۔ رسم الخط کے اختلاف کے باوجود دونوں زبانوں میں بڑی قربتیں ہیں۔ اس کے باوجود اردو اور ہندی میں غیرضروری طور پر تنازعے بھی شروع کیے گئے جس کی وجہ سے بہت سی سطحو ںپر اردو کو بہت سے مسائل کا سامنا بھی ہے۔بولنے والو ںکی تعداد سے لے کر اس کی تعلیم و تدریس کے مسائل بھی بہت اہم ہیں۔خاص طور پر اسکولی سطح پر اردو زبان کی تدریس میں بڑی دقتیں آرہی ہیں۔ میں یہاں صرف بہار کے اسکولوں کے حوالے سے بات کروں گی کہ بہار کی دوسری سرکاری زبان ہوتے ہوئے بھی وہاں بنیادی سطح پر وہ سہولیات نہیںہیں اس لیے ضرورت ہے کہ بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ ایک بات اور بھی ہے کہ آج کے طلبا اردو پڑھنا لکھنا نہیں چاہتے ۔ زیادہ تر طلبا کا ارادہ ہوتا ہے کہ دسویں کے بعد اردو سے ان کا واسطہ نہ رہے۔ اس لیے اردو پڑھنے میں ان لوگوں کا  دھیان نہیں ہوتا۔ طلبا کی اکثریت ریاضی، سائنس، انگریزی یا دیگر مضامین کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ شاید بچو ںکے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ اردو زبان بہت محدود ہے اور اس میں روزگار کے مواقع بھی کم ہیں۔ وہ تکنیکی تعلیم حاصل کرکے روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیںیا دیگر پیشہ ورانہ کورسز میں داخلہ لیتے ہیں۔ اسی لیے اسکولوں میں  تدریسی سطح پر دشواریا ںپیش آرہی ہیں۔ خاص طو رپر بہار جو کبھی اردو کا گہوارہ کہلاتا تھا اور وہاں اس زبان کے شیدائیوں کی ایک بڑی تعداد تھی مگر موجودہ دور میں اب اردو سے تعلق رکھنے والو ںکی تعداد کم ہوتی جارہی ہے جو تشویشناک ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق بہار میں اردو بولنے والوں کی آبادی  87.7  لاکھ ہے لیکن تحقیق کے دوران جب اسکولوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو جو بات سب سے زیادہ کھٹکی وہ یہ کہ اس دور جدید میں طلبا کی اردو زبان پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ان طالب علموں میں زیادہ تر اردو زبان صرف اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ انھیں 3L فارمولے کے تحت پڑھنے کی مجبوری ہے۔ چند طلبا ہی ایسے ہیں جو اس زبان کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور زیادہ تر طلبا دیگر زبانوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیتے ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اردو ایک غیر ضروری زبان بن سکتی ہے۔

زیادہ تر اسکولوں میں اردو زبان کے ایک یا دو معلمین ہی ہیں اور کئی اسکولوں میں تو اردو زبان کا کوئی بھی معلم ملتا نہیں ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ سب سے پہلے اردو زبان کے معلموں کی کمی کو دور کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے یہ قانون بھی بنایا گیا ہے کہ تمام اسکولوں میںمعلمین تربیت یافتہ ہی ہونے چاہئیں کیونکہ ایک تربیت یافتہ معلم ہی طلبا کے سماجی، ثقافتی و نفسیاتی نشوونما میںبہترکردار ادا کرسکتا ہے مگر غور و فکر کی بات یہ ہے کہ تربیت یافتہ معلمین بھی اسکولوں میں اپنے کام کو بہتر طریقے سے انجام نہیں دے پا رہے ہیں؟

تدریس کو معقول،مؤثر اور دلچسپ بنانے کے لیے اساتذہ بہتر سے بہتر طریقۂ تدریس، تدریسی حکمت عملی اور مختلف قسم کے تدریسی اکتسابی آلات کا استعمال کرتے ہیں۔ بیشتر اسکول انتظامیہ کے پاس کسی بھی طرح کا تدریسی اکتسابی آلہ موجود ہی نہیں ہوتا۔ حکومت نے بہار کے تمام اسکولوں میں ایک ہی نصاب پر مبنی ’اسمارٹ کلاسز ‘ شروع کروائی ہیں، تا کہ طلبا بہتر انداز اور خوشگوار ماحول میں سمعی و بصری آلات کے ذریعے تعلیم حاصل کر سکیں۔ مگر بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کی تدریس کو اسمارٹ کلاسز میں شامل نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ اردو زبان کا مواد ابھی تک تیار ہی نہیں کیا گیا ہے کہ شاید انہی اسباب کی وجہ سے طلبا اپنی مادری زبان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

اردو زبان کے سامنے ایک اور مسئلہ درپیش ہے جس کو ماہرین نے جدید ٹکنالوجی سے دوری یا عدم توجہی کے طور پر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اردو زبان پر آئے دن یہ الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں کہ اس زبان نے اپنے آپ کو جدید ٹکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں کیا ہے۔جبکہ آج اردو زبان کو تکنیکی تعلیم سے جوڑنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ طلبا کا رجحان اردو زبان کی طرف  زیادہ سے زیادہ ہو سکے اور اردو زبان ہر ایک طالب علم کی ضرورت بن جائے۔

دور جدید میں طلبا کی ہمہ جہت ترقی کے لیے پراجیکٹ پر مبنی تدریس، مسئلوں کوحل کر کے سیکھنا وغیرہ جیسے طریقۂ تدریس کے ذریعے طلبا کو فن تدریس سے واقف کرایا جاتا ہے۔ لیکن بیشتر اسکولوں میں تدریس کی بنیادی سہولیات کا انتظام کیا ہی نہیں گیا ہے۔ اساتذہ اسی پرانے طریقۂ تدریس پر آج بھی قائم ہیں، جب کہ اسکولوں کے تمام معلم تربیت یافتہ ہوتے ہیں،مگر وہ دوران تدریس کسی خاص مہارت کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ایک اور خاص پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر اسکولوں میں تمام طلبا کو اردو زبان کی کتابیں صحیح وقت پر مہیا ہی نہیں ہو پاتی ہیں۔ چار،چھے مہینے بغیر کتابوں کے ہی نکل جاتے ہیں اور اس کے بعد کتابیں مل بھی جائیں تو طلبا میں وہ رجحان باقی ہی نہیں رہتا کہ بچے اپنی مادری زبان کی کتاب کو صحیح طور پر مکمل بھی کر سکیں۔ ایسے حالات میں اساتذہ کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے تدریسی عمل کو اپنائیں کہ طلبا اردو زبان کو دلچسپی سے پڑھنے لگیں۔

این۔سی۔ایف2005 کا مطالعہ کریں تو کسی بھی زبان کی تدریس کے لیے جورہنما اصول بنائے گئے ہیں، اسکولوں میں ان پر عمل ہی نہیں کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق تمام درجات کے طلبا کی مختلف قسم کے طریقۂ تدریس اور حکمت عملی کے ذریعہ نشوونما کرنی چاہیے۔ مثلاً ابتدائی درجات کے طلبا کو مختصر کہانیاں سنا کر، نظموں کو ترنم میں پڑھانا ہے تا کہ طلبا پہلے تیار ہو جائیں  توپھر وہ اپنے سبق کو دلچسپی سے پڑھیں گے۔ لیکن زیادہ تر اسکولوں میں آج بھی پرانے طریقۂ تدریس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ رہنما اصول کے مطابق طلبا کو کتابیں، گائیڈ، نوٹس وغیرہ فراہم کروانے کی بات کہی گئی ہے۔ مگر  اسکولوں میں جانے کے بعد ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔بہت سے اسکولوں کی لائبریریوں میں اردو کی کتابیں نہیں ہیں اور اگر کسی لائبریری میں کتابیں ہیں بھی تو دیگر زبان کی کتابوں کے مقابلے میں اردو کی کتابیں کم تعداد میں ہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ طلبا کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسکول میں لائبریری بھی ہے اور اس میں اردو زبان کی کتابیں بھی ہیں۔د وران تحقیق مجھے یہ جان کر بہت تعجب ہوا کہ ایسے اسکول جہا ں اردو ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے موجود ہے وہاں پر ثانوی سطح کی تعلیم حاصل کر رہے طلبا میں سے زیادہ تر صحیح اردو پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہیں۔ اسکولوں میں تو صحیح طریقے سے اردو زبان کی کلاس ہی نہیں ہوتی ہیں جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ والدین بچوں کو اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوچنگ، مدرسوں اور مکتبوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔

اردو زبان جو کہ صرف ہماری مادری زبان ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہماری تہذیب و ثقافت سے ہے، خستہ حالی سے دوچار ہے۔ ہر ایک فر د بس تکنیکی تعلیم اور انگریزی کے پیچھے بھاگا جا رہا ہے۔ کوئی بھی اردو زبان کی طرف رجوع نہیں کر رہا ہے۔ اردو زبان کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اسکولی سطح پر ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔

اردو زبان ہمارا سب سے قیمتی ورثہ ہے اور اس زبان سے ہم سبھی جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں کیوں کہ صرف اسی کے ذریعے اپنی مادری زبان کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔لیکن یہ زبان جس طرح کی تدریسی مشکلات میں گھری ہوئی ہے ان کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔تمام اقدامات اور فروغ کی ذمے داری صرف حکومت کی نہیں ہے۔ ہم سبھی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اردو زبان کے تدریسی مسائل کو دور کرنے کے لیے، تدریسی ترقی کے لیے کوشش کریں، کیونکہ اردو زبان کی نشونما اور فروغ کے لیے اب تک جوبھی اسکیمیں پیش کی گئی ہیں ان سے اردو کے حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ آج اردو زبان کو پھر اس کے گھر میں ہی آباد کرنے کی ضرورت ہے۔


Ghufrana Begum C/o Md Aariz Ehkam

(Research Scholar)

Dighalbank Police Station, Dighalbank, Kishanganj - 855101 (Bihar)

Mob.: 8051337759

E-mail.: ghufranazahoor786@gmail.com

 


ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں