29/10/20

روزنامہ ’رہبردکن‘ سے ’رہنمائے دکن‘ کا 100 سالہ صحافتی سفر- مضمون نگار: شیخ عمران

 



آزاد ہندوستان میں حیدرآباد کی ایک مخصوص شناخت ہے۔ دکن کا یہ تاریخی شہر اپنی گنگا جمنی تہذیب اور اردو کے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہے۔ اس شہر کو تاریخ و تہذیب،علم و فن اور زبان و ادب کے معاملے میں ملک کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے جہاں اس شہر نے اردو کو کئی نامور شاعر، ادیب، محقق،  نقاد، مفکر دیے وہیں صحافت کے معاملے میں بھی اس شہر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دور قدیم سے ہی صحافت کی جڑیں اس شہر سے پیوستہ رہی ہیں۔ حیدرآباد میں اردو صحافت کی تاریخ قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔حیدرآباد میں زبان و ادب کے فروغ کے لیے کہیں نہ کہیں صحافت کا بھی نمایاں کردار رہا ہے اگر ایسا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

اس شہر سے اردو کے کئی بڑے اخبارجاری ہوئے اور کچھ عرصہ بعد بند ہوگئے ان اخبارات میں آفتاب دکن، مشیردکن، دکن پنچ، سفیر دکن، نظامی، محبوب گزٹ، صحیفہ، معارف، افسر الاخبار، آصف الاخبار، ہزار داستان، آصفی، گلزار دکن وغیرہ شامل ہیںلیکن ان ہی میں ’رہبر دکن‘ ایک ایسا اخبار ہے جو آزادی ہند سے پہلے جاری ہوا اور آج بھی جاری ہے۔ جنوبی ہند کی اردو صحافت کے لیے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس اخبار نے اپنے 100 برس مکمل کرلیے ہیں۔ یہ حیدرآباد کا واحد اردو اخبار ہے جو اپنے 100 سال مکمل کرنے کے بعد بھی آج بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔یہاں میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس روزنامہ کو دو ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور وہ ہے جب یہ روزنامہ ’رہبر دکن ‘ کے نام سے اگست 1921 میں منظر عام پرآیا اور کئی برس تک جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔ اس کا دوسرا دور ’رہنمائے دکن‘ (موجودہ نام) سے شروع ہوتا ہے جو جولائی 1949 میں جاری ہوا اور آج بھی اسی نام سے جاری ہے۔

رہنمائے دکن‘ حیدرآباد ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی اردو صحافت میں ایک بہترین اور معیار ی اخبار ثابت ہوا۔ رہنمائے دکن روایتی طرز کا اخبار ہے۔ اس اخبار کی خدمات کے پیش نظر اسے جنوبی ہندی اردو کا نمائندہ اخبار کہا جاسکتا ہے۔ادبی سرپرستی میں اس اخبار نے اپنا منفرد رول ادا کیا جو ناقابل فراموش ہے۔  بابائے دکنی محی الدین قادری زور،نصیر الدین ہاشمی، عبدالقادر سروری وغیرہ کی نایاب تحریریں اس روزنامے کا حصہ رہیں۔

 سید احمد محی الدین نے اپنی ادارت میں1 اگست 1921 میں افضل گنج حیدرآبادسے ایک روزنامہ جاری کیا جس کا نام ’رہبردکن‘ تھا۔ ’رہبر دکن‘ جن حالات میں جاری ہوا وہ حالات اردو اور صحافت دونوں کے لیے ناسازگار تھے، اخبار کا جاری ہونا بڑا مشکل کام تھا لیکن سید احمدمحی الدین نے اپنی بے باکانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اخبارکو جاری کیا جو آگے چل کر شہر حیدرآباد کا ایک عظیم اخبار ثابت ہوا۔

’’ رہبر دکن کا شمار جنوبی ہند کے اس دور کے تمام اردو روزناموں میں کثیر الاشاعت روزنامے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔اس اخبار کی اس دور میں تعداد اشاعت آٹھ دس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ’رہبر دکن ‘ کے سالنامے اور خاص نمبر عوام الناس میں اور بالخصوص ادبی حلقوں میں بہ نظر تحسین دیکھے جاتے تھے۔اس اخبار کے اداریوں نے سیاسی افراتفری کے زمانے میں عوام کی صحیح رہنمائی کی۔‘‘

 (حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات: ایک جائزہ،محمد اعجاز الدین حامد، ص  61)

رہبر دکن‘ نے حیدر آباد کی اردو صحافت کو جلا بخشی۔ سید احمد محی الدین نے مدیر کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ انھوںنے اس روزنامے میں کئی اضافے بھی کیے جو اس کی شہرت کا باعث بنے۔

1942 میں سید احمد محی الدین کا انتقال ہوگیا اور حامد محی الدین اس اخبار کے مدیر ہوئے۔صرف ایک سال تک وہ اس اخبار سے وابستہ رہے چونکہ ان کی تقرری حیدر آباد سول سروس میں ہوگئی۔ جس کی وجہ سے ان کو اخبار چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ سید محمود وحید الدین اس اخبار کے مدیر نامزد ہوئے۔

سید محمود وحید الدین نے اس اخبار کی ادارت کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔خاص بات یہ ہے کہ آزادی ہند کے وقت بھی سید محمود وحید الدین اس اخبار کے مدیر تھے۔ آزادی کے بعد جب ملک فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا تو حیدر آباد میں بھی اس کی گونج سنائی دی۔ بلکہ بڑی شدت سے سنائی دی چونکہ اس وقت تک حیدر آباد نظام شاہی کے تحت تھا۔ 1948 میںیہاں ’پولس ایکشن‘ ہوا، جسے ’رہبردکن ‘کے مدیر سید محمودوحید الدین نے ’ملٹری ایکشن‘ سے تعبیر کیا۔ ’رہبر دکن‘ ستمبر 1948 میں حیدرآباد کی سیاسی تبدیلی تک زندہ رہنے کے بعد بند ہوگیا۔

 اب ایک نئے نام سے اخبار کے لیے کسی معتبر شخص کی تلاش شروع ہوئی تو رہبر دکن کے ایک سابق رکن منظور حسن پر نظر گئی جو کہ رہبر دکن کے انتظامی امور کے ذمہ دار تھے اور نئے اخبار کی ادارت کے لیے بہت موزوں بھی تھے۔ لہٰذا اب پرانے اخبار کا نیا نام ’رہنمائے دکن ‘ رکھا گیا۔ جو جولائی 1949 کومنظر عام پر آیا۔مدیر کی حیثیت سے منظور حسن کا انتخاب عمل میں آیا۔ اخبار کے تمام انتظامی امور کی ذمے داری سید محمود نے سنبھالی۔ منظور حسن کی سبکدوشی کے بعد محمود صاحب نے اس کی ادارت کی ذمے داری سید لطیف الدین قادری (وقار الدین قادری کے بڑے بھائی) کے سپرد کی جو سن 1984 تک ’رہنمائے دکن ‘ سے وابستہ رہے۔ سید لطیف الدین قادری ایک اعلٰی درجے کے صحافی تھے انھوں نے ’رہنمائے دکن‘ کو مقبولیت عطا کرنے کی غرض سے کئی اہم کام انجام دیے۔ سید لطیف الدین قادری کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے بھائی سید وقار الدین نے ’رہنمائے دکن‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی۔سید وقار الدین کی ادارت میں اس اخبار کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔

وقارا لدین صاحب کی نگرانی میں ’رہنمائے دکن‘ کو ہمہ گیر شہرت حاصل ہوئی ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وقار الدین صاحب خود ایک اعلیٰ درجے کے صحافی ہیں گزشتہ کئی برسوں سے ادب و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ نے جس وقت اس اخبارکی ذمہ داری بطور مدیر اپنے کندھوں پر لی وہ وقت اور حالات کافی نازک تھے۔ اخبار نکالنا اور اسے جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھالیکن باوجود اس کے وقار الدین نے بہترین انداز میں اس اخبار کو جاری رکھا اور نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس اخبار کو ہندوستان کے دیگر اردو اخبارات کی فہرست میں صف اوّل پر پہنچا دیا۔ مئی 2015 میں سید وقارالدین کو ’ستارۂ فلسطین ‘ جیسے باوقار اعزاز سے نوازا گیا۔ آج ’رہنمائے دکن‘ شہر حیدرآباد سے نکلنے والے بڑے اخبارات میں شامل ہے۔ اداریوں کی حق گوئی و بے باکی،مدیر کا نڈر و بے خوف ہونا یہ ابتدا ہی سے رہنمائے دکن کا شیوہ رہا ہے۔بقول سید وقار الدین (مدیر روزنامہ رہنمائے دکن):

’’ ہم حق بات لکھنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور صحیح معنوں میں اردو صحافت اگر دکن میں نام کمائی ہے تو روزنامہ ’رہبر دکن‘ کی وجہ سے جو آزادی سے قبل بارہ تا چودہ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا اور ہمارے نامہ نگار لندن، واشنگٹن،قاہرہ اور دلّی میں ہوتے تھے۔‘‘

(حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات: سید ممتاز مہدی، ص 390)

غالباً یہ اردو کا پہلا اخبار ہے جس کے نامہ نگار ملک کے تمام بڑے شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی موجود تھے۔ یہ اخبار اس زمانے میں بھی تمام پڑوسی ممالک کے علاوہ افغانستان، مصر،عرب ممالک اور انگلینڈ تک جاتا تھا۔

رہنمائے دکن‘ کی مقبولیت کے لیے کئی عناصر کار فرما رہے ہیں جن میں اس اخبار کے مختلف کالمس کا نمایاں رول رہا ہے جن کا مختصر تعارف درج ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

 پسند اپنی اپنی: رہنمائے دکن کا مستقل ہفتہ واری کالم تھا۔جو سن 1959 میں شروع کیا گیا۔اس کالم کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں قارئین کو ایک عنوان دیا جاتا تھا اور اس عنوان کے تحت ان سے اشعار لکھواکر اسے شائع کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کالم کو قارئین میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل اردو میں رہنمائے دکن کے متعلق ذوق پیدا ہوا۔

ہماری جامعات: ہماری جامعات رہنمائے دکن کے دیگر کالمس کی طرح ایک غیر معمولی کالم تھا۔ اس کالم میں جامعہ عثمانیہ سے وابستہ بلند پایہ شخصیات کا تعارف پیش کیا جاتا تھا،ساتھ ہی جامعہ عثمانیہ کے مختلف شعبہ جات کی سرگرمیوں کا جائزہ بھی اس کالم کے تحت لیا جاتا تھا۔یہ سلسلہ کافی برسوں تک جاری رہا۔اس کالم کو اردو داں طبقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

گلہائے صد رنگ:  یہ روزنامہ رہنمائے دکن کا ایک مستقل کالم تھا۔جو ہر دوشنبہ کو پابندی سے شائع کیا جاتا تھا۔ ’گلہائے صدرنگ‘ کالم کے ذیل میں حید رآباد کے نو مشق شاعروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ یہ کالم سن 1961 میں شروع کیا گیااور تقربیاً دس برس جاری رہا۔ اس کالم میں شاعروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کے کلام پر مختصر رائے بھی پیش کی جاتی تھی۔اس کالم کی بدولت شہر حیدرآباد میں نو مشق اردو شاعروں کا اچھا خاصا گروہ تیار ہوا۔ ان شاعروں میں حمید الدین شاہد،فیض الحسن، صلاح الدین نیر (مدیر ماہنامہ خوشبو کا سفر) رئیس اختر، باقر منظور، رؤف خیر، ابوالفضل محمود، قطب سرشار، ڈاکٹر راہی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں بعد میں یہی شعرا اردو کے بلند پایہ شاعر ثابت ہوئے،اور ادب کے میدان میں اپنا نام کمایا۔

بچوں کا صفحہ: ’رہنمائے دکن‘ میں شائع ہونے والے اس صفحہ کو اہل نظر نے بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا۔ رہنمائے دکن میں یہ صفحہ بڑا مقبول رہا۔ ’بچوں کا صفحہ‘ میں ادب اطفال سے متعلق مختصر کہانیاں،نظمیں،پہیلیاں وغیرہ شائع کی جاتی تھیں۔تخلیق کار بچوں کے نام بھی اس صفحہ میں شائع ہوا کرتے تھے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔یہ اس روزنامے کی ایک نئی پہل تھی جو کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی۔اس صفحہ کے باعث بچوں کا لکھنے پڑھنے کا رجحان بڑھا۔اس صفحہ کے زریعے بچوں کو ادب سے جوڑنے میں یہ روزنامہ کامیاب رہا۔یہ اس دور کا واحد روزنامہ تھا جس میں بچوں کا صفحہ پابندی کے ساتھ شائع ہوا کرتا تھا۔

کچھ عرصہ جاری رہنے کے بعد اس صفحہ کا نام بدل کر ’طلبا اور نوجوانوں کا صفحہ‘کردیا گیا۔

طلبا اور نوجوانوں کا صفحہ:   اس صفحہ میں اردو کے اْبھرتے ہوئے نوجوان قلمکاروں کی تخلیقات کو پیش کیا جاتا تھا۔ دیگر زبانوں کے تراجم بھی اس صفحہ کا حصہ بنتے رہے۔ اس کے علاوہ اس صفحہ میں تنقید و تبصرہ پر بھی بات کی جاتی تھی جس کو بہت پسند کیا گیا۔بہر کیف رہنمائے دکن کے دیگر صفحات کی طرح اس صفحہ کو بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

رہبر و رہرو:  حیدرآباد دکن میں طنز و مزاح کی ایک بہترین روایت رہی ہے۔رہنمائے دکن نے بھی اس روایت کو جاری رکھا۔رہبر و رہرو ایک مزاحیہ کالم تھا جسے بہت شہرت ملی۔اس کالم میں سنجیدہ اور باوقار طنز کا پہلو نمایاں رہا۔ شفیع الدین ناکارہ اس کالم کو ترتیب دیا کرتے تھے۔ ان کے بعد پروفیسر سلیمان اطہر نے اس کالم کو جاری رکھنے میں اہم رول ادا کیا۔

 پروفیسر سلیمان اطہر جاویدکا نام اردو اور حیدرآباد دونوں کے لیے تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ایک اعلٰی ادیب و نقاد تسلیم کیے جاتے ہیں کئی برسوں تک  ’رہنمائے دکن‘ کے ادبی صفحہ’رفتار سیاست ‘ سے وابستہ رہے۔ جب وہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے ایک کہانی لکھ کر اشاعت کی غرض سے ’رہنمائے دکن‘ کو بھیجی جو اس اخبار میں بہت جلدی شائع ہوگئی۔ یہ اس کم سن طالب علم کی پہلی ادبی تحریر تھی جو منظر عام پر آئی۔  اس اشاعت کے بعد اردو کے اس خدمت گار کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سلیمان اطہر جاوید اردو کے بڑے ادیب بن گئے۔ کئی برسوں تک انھوںنے اس روزنامے میں ملازمت بھی کی۔ ’رفتارِ سیاست‘ رہنمائے دکن کا ایک مقبول صفحہ تھا۔ لوگ صرف’رفتار سیاست‘ کی خاطر دوشنبہ کا خاص ایڈیشن خریدا کرتے تھے۔ تروپتی یونیورسٹی میں تدریسی شعبہ سے وابستہ ہوجانے کے بعد رہنمائے دکن کی ملازمت کو انھوں نے خیر اباد کہا لیکن رہنمائے دکن کے لیے کافی عرصہ تک مضامین لکھتے رہے۔

ڈاکٹر مصطفی کمال صاحب (مدیر ماہنامہ شگوفہ )کی رہنمائے دکن سے دلی وابستگی تھی۔وہ اس کے ’شعر و ادب‘ کے صفحہ سے وابستہ رہے۔ڈاکٹر سید مصطفی کمال نے ’شعر و ادب‘ کے صفحہ کے ذریعہ بہت سے ادیبوں اور شاعروں کو ادبی دنیا سے متعارف کرایا۔  تقریباً دس برس وہ اس اخبار سے جڑے رہے۔اخبار کے انتظامی امور میں وہ ایک ذمہ دار شخص تھے۔ وقار الدین اور منظور حسن صاحب سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔وہ جتنا عرصہ اس روزنامہ کا حصہ رہے وہ دور رہنمائے دکن کی خدمات کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔ ادبی صفحہ کی ترتیب کے علاوہ ڈاکٹر مصطفی کمال نے اخبار کے لیے اداریے بھی لکھے جنھیں کافی سراہاگیا۔ دور حاضر میں حیدرآباد کے نامور ماہنامہ ’شگوفہ‘ کے مدیر کی حیثیت سے آپ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اخبار کے عمومی دور ہی سے اردو کی مختلف اصناف کا احاطہ رہنمائے دکن کے ادبی صفحہ میں کیا گیا۔افسانہ،ناول وغیرہ پر توجہ دی گئی لیکن زیادہ زور شاعری پر رہا۔ اس ضمن میں مدیر رہنمائے دکن سید وقار الدین رقمطراز ہیں:

’’ہم نے شاعری کے لیے زیادہ جگہ رکھی ہے چوں کہ اس کا Response بہت ہی اچھا ہے۔ چونکہ ہر اخبار کو اپنے قارئین کی خواہش کے مطابق ہی مواد دینا ہوتا ہے لہذا ہمارے اخبار میں جتنا مواد ادب کے بارے میں شائع ہوتا ہے اس کا بڑا حصہ شعر و شاعری کی نذر ہوتا ہے۔اس کی وجہ عوام کی پسند ہے۔‘‘

(حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات: سید ممتاز مہدی، ص391)

صفحہ’گلستان ‘: اس روزنامہ کے تمام صفحات غیر معمولی ہوتے ہیں جیسے کھیل کود کا صفحہ، فلمی صفحہ، روزگار سے متعلق صفحہ وغیرہ، لیکن جس صفحہ کے باعث اس روزنامہ کو غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی وہ ’گلستان‘ہے۔ یہ صفحہ در اصل خالص ادبی نوعیت کا حامل تھا۔اردو کے مشہور و معروف صحافی، شاعر حسن فرخ یہ صفحہ  ترتیب دیتے تھے۔ ’گلستان‘  نے حیدرآباد کے کئی اہل قلم کی ذہنی و ادبی نشوونما میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو کے کئی نئے قلمکار، ادیب اور شاعر اس صفحہ میں چھپ کر پروان چڑھے۔ اس ادبی صفحہ نے نئے لکھنے والوںکی تربیت کافریضہ انجام دیا۔

گلستان‘ ادبی صفحہ میں اردو کے جن نامور شعرا و ادبا کے نام ہمیشہ جڑے رہے ان میں پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید، مضطر مجاز، محمد حبیب بیدل شاذ تمکنت، احمد قاسمی، قدیرانصاری، حامداکمل، عابد صدیقی، نادراسلوبی، ڈاکٹرمجیدبیدار،بشیر احمد،نادر المسدوسی، ڈاکٹر راہی، انیس احمد انیس، حسن فرخ، کامل حیدرآبادی، حیدر حسین، اقبال شیدائی، حامد رضوی، نسیم اعجاز نسیم، طاہر حسین طاہر، روبینہ نازلی، ضامن علی حسرت، رشید رہبر، شوکت علی درد  وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔                 

ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہ صفحہ ’رہنمائے دکن‘ کی روح کہلاتا تھا۔ بروز پیر پابندی کے ساتھ یہ صفحہ شائع ہوتا تھا۔ ’گلستان‘ میں منتخب نامور شعرا کی غزلیں،نظمیں، رباعیات، حمد، نعت، منقبت، قطعات وغیرہ کو جگہ دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ نثری و تنقیدی مضامین بھی اس ادبی صفحہ کا اہم حصہ تھے۔ہندوستان اور بیرون ملک کے مختلف حصوں سے تخلیق کار اپنی تخلیقات ارسال کرتے تھے۔ ’گلستان‘ کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اس صفحہ میں اردو زبان و ادب سے متعلق منعقد ہونے والے کانفرنس، سمیناراور ادبی مشاعروں کی روداد کو بھی بڑے مؤثر پیرائے میں پیش کیا جاتا تھا۔اس صفحہ میں نئے لکھنے والوں کو بطور خاص ترجیح دی جاتی تھی۔

روزنامہ’رہنمائے دکن‘کا دائرہ صرف ادب اور سیاست تک محدود نہیں ہے۔ اپنے اسلامی مزاج کے باعث بھی اس روزنامے کو بہت قدر و منزلت حاصل ہوئی۔ ’رہنمائے دکن‘ میں محرم اور اعراس وغیرہ کے مواقع پر خراج عقیدت والی تخلیقات کو بھی اس روزنامہ میں جگہ دی گئی۔ میلادالنبیؐ، عیدین، شب معراج، شب برات، شب قدرکے مواقع پر خصوصی اشاعتیں عمل میں لائی گئیں۔ قومی تہوار 26جنوری اور15 اگست جیسے موقعوں پر آزادی ہند سے متعلق تحریریں شائع ہوئی۔ علاوہ ازیں ’رہنمائے دکن‘ نے کئی یاد گار نمبر بھی شائع کیے ہیں جن میں ’غالب نمبر‘،  ’اقبال نمبر‘جامعہ عثمانیہ کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر ’گولڈن جوبلی نمبر‘ آصف سابع نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیںجنھیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔      

رہنمائے دکن‘نے اردو زبان کے فروغ، ترقی و ترویج کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے مفادات کی ترجمانی بڑی بے باکی کے ساتھ کی۔ قومی، بین الاقوامی، ریاستی اور مقامی خبریں معتبر ذرائع سے حاصل کر کے عوام تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی۔یہی نہیں بلکہ رہنمائے دکن، صحافت کو ادب عالیہ بنا کر پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ کئی نوجوانوں کی تربیت کر کے انھیں کامیاب صحافی بنایا۔جس کی وجہ سے آج بھی یہ روزنامہ عوام و خواص میں مقبول ہے اور حیدرآباد کی صحافت میں اس اخبار کو خاص مقام حاصل ہے۔

حوالہ جات:

.1        حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات: ایک جائزہ،محمد اعجاز الدین حامد،ص،12,61

.2         حیدرآباد میں اردو صحافت:طیب انصاری،ص11,48

.3         حیدرآباد کے اردوروزناموں کی ادبی خدمات، سیدممتاز مہدی، ص43,390,391

.4         اردو صحافت آزادی کے بعد: ڈاکٹر افضل مصباحی،ص281

.5         اردو میڈیا:سید فاضل حسین پرویز،ص82


Dr. Shaikh Imran

Asst.Professor, Dept.of Urdu

Vasantrao Naik Govt.Inst.of Arts & Social Sciences,Nagpur 440001

Mob: 09921986904

 

 

ماہنامہ اردو دنیا۔ ستمبر 2020

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں