2/11/20

بلراج مینرا کا افسانہ ’وہ‘ - مضمون نگار: نور فاطمہ

 


 بلراج مینرا کا شمار دورجدید کے اہم اور منفرد افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔مینرا ادبی صحافت کی تاریخ میں بھی ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔رسالہ’شعور‘کی ادارت نے ان کو ادبی صحافت کی تاریخ میں اہم مقام عطا کیا۔ بلراج مینرا کا شمار ایسے افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے کوتاہ قلمی کے باوجود اپنی شناخت نہ صرف علاحدہ قائم کی بلکہ اپنے قلم کے جادو سے ادبی دنیا میں ہلچل مچا دی۔مینرا کاپہلا افسانہ’بھاگوتی‘ ’ساقی‘ کراچی 1953  میں شائع ہوا۔جس نے ہندو پاک میں ان کی ادبی حیثیت کو مسلّم کر دیا۔ا ن کی تمام کہانیاں غوروفکر کا تقاضاتو کرتی ہی ہیں ساتھ ہی قاری کے لیے سوالیہ نشان بھی قائم کرتی ہیں۔ بلراج مینرا کی کہانیوں کی جو خصوصیت قاری کی توجہ اپنی طرف سب سے زیادہ مبذول کراتی ہے وہ اشاریت اور کفایت لفظی ہے۔جس کی وجہ سے ان کے افسانوں کی صرف ظاہری سطح معنی خیزنہیں معلوم ہوتی بلکہ ان کے افسانوں کے بین السطور میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہوتا ہے۔ان کے افسانوں میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس کی وضاحت سے افسانہ نگار دانستہ طور پر گریز کرتا نظر آتا ہے۔مینرا نے تقریباً 37 افسانے لکھے۔ بلراج مینرا نے اپنے مجموعے میں شامل کچھ افسانوںمیں متن در متن کی ٹیکنیک کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کہانیاں اس طرح بھی سفر کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص موضوع یا کسی بندھے ٹکے اصول کو پیش نظر رکھ کر نہیں لکھے گئے ہیں۔لیکن ایک نکتہ جو بار بار اپنی طرف متوجہ کرتا ہے وہ ان کی کہانیوں کا مسلسل سفر ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار ساکت و جامد نہیں ہیں بلکہ کسی تلاش میں گم اور سرگرداں اور ذہنی سفر میں مبتلا ہیں۔اس ضمن میں ان کے افسانے ’واردات‘، ’بس اسٹاپ‘، ’شہر کی رات‘،  ’ماضی کی سڑک‘ اور’ رفتار‘ قابل ذکر ہیں۔مینرا نے کمپوزیشن سیریز کی کہانیاں بھی لکھی ہیں جس کے عنوان نے ہی سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔اردو فکشن میں پہلی بار ایسا ہو ا کہ کسی افسانہ نگار نے کمپوزیشن کا لفظ استعمال کیا ہو۔ یہ پنے آپ میں انوکھا اور چونکا دینے والا انداز تھا۔ کمپوزیشن میں مختلف اجزا کی تنظیم کی جاتی ہے مصوری، بت تراشی، موسیقی،فلم اور شاعری میں تو مختلف اجزا کو مرتب کرنے  کے تجربے تو کافی کیے گئے ہیں لیکن فکشن میں مینرا سے پہلے کسی نے کمپوزیشن کا لفظ استعمال نہیں کیا۔اس کے پیچھے مینرا کا مقصد شاید ادب کے قارئین تک یہ پیغام پہچانا ہو کہ جدید افسانہ آرٹ کی وہ تمام خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے جو مصوری، موسیقی اور فلموں وغیرہ سے عبارت ہے۔

زیرِنظر افسانہ’وہ‘کا شماربلراج مینرا کے نمائندہ افسانوں میں کیا جاتا ہے۔افسانے کا مرکزی کردار ’وہ‘ ایک نوع کی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں گرفتار ہے۔افسانے کاتجزیہ کرنے سے پہلے اس کی مختصر سی تلخیص پیش کرنی مناسب ہے۔ افسانے کا آغاز  دسمبر کی سرد رات میں مرکزی کردار ’وہ‘کی بے وقت آنکھ کھلنے سے ہوتا ہے۔وہ بیڈ کی سائڈ ٹیبل سے سگریٹ اٹھا کر لبوں سے لگاتا ہے۔کافی تلاش کرنے کے بعد بھی اسے خالی ماچس کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔رات کے دو بجے وہ ماچس کی تلاش میں کمرے کی ہر چیز الٹ پلٹ کر دیتا ہے ’’سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا ہے۔سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل  میں کتنی مماثلت ہے‘‘وہ سوچتا ہے ’ایک بار آنکھ کھل جائے،پھر آنکھ نہیں لگتی‘‘وہ وقت سے بے خبر چادر کندھوں پر ڈال کر اندھری رات میں باہر نکل آتا ہے اور ایک حلوائی کی دکان کے پاس پہنچتا ہے۔ شاید اس کی بھٹّی سے وہ اپنی سگریٹ جلانے میں کامیاب ہو جائے۔اتنے میں آواز آتی ہے ’’کون ہے؟کیا کر رہے ہو‘‘’’میں بھٹّی میں سلگتا ہوا کوئلہ ڈھونڈ رہا ہوں‘‘’’پاگل ہو کیا، بھٹّی اس وقت ٹھنڈی پڑی ہے ‘‘’’ماچس ہے آپ کے پاس‘‘’’ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے۔وہ آے گا اور بھٹّی گرم ہوگی‘‘وہ آگے قدم بڑھاتا ہے اور نہ جانے کتنے لیمپ پوسٹوں کو پیچھے چھو ڑتے ہوئے بے خبر چلتا رہتا ہے۔اس کو سامنے سے کوئی آتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو وہ اس سے بھی پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس ماچس ہے ؟میں اس علت سے بچا ہوا ہوں۔اپنے گھر جا رہا ہوں تم بھی اپنے گھر جاؤ۔وہ پھرلیمپ پوسٹوں سے بے خبر دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا چلتا ہے۔وہ ایک مرمت شدہ پل پر پہنچتا ہے۔ اس کے سامنے خطرے کا نشان ہے جہاں سرخ کپڑے میں لپٹی ہوئی لالٹین لٹک رہی ہے۔وہ لالٹین سے اپنی سگریٹ سلگانا چاہتا ہے مگر ایک سپاہی پوچھتا ہے یہاں کیا کر رہے ہو ؟ تم کون ہو،کہاں رہتے ہو؟تسلّی بخش جواب نہ ملنے پروہ ا سے تھانے لے جاتا ہے۔تھانے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظرمیز پر بیٹھے ہوئے چند سپاہیوں پر پڑتی ہے۔سب سگریٹ پی رہے ہیں، ان کے سامنے سگریٹ اور ماچس کے پیکٹس پڑے ہوئے ہیں۔وہ ان سے ماچس مانگتا ہے مگر وہاں بھی اس کو سگریٹ جلانے میں کامیابی نہیں ملتی اور ذرا سی تفتیش کے بعد اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔کبھی ختم نہ ہونے والی سڑک پر وہ دھیرے دھیرے چلنا شروع کرتا ہے۔ وہ سوچتا جا رہا ہے سگریٹ پینا ایک علّت ہے!میں نے یہ علت کیوں پال رکھی ہے ؟ماچس کہاں ملے گی؟نہ ملی تو؟یہی سوچتے سوچتے وہ وقت، لیمپ پوسٹوں اور اپنے بدن کی تھکان سے بے خبر چلتا رہتا ہے۔صبح ہو جاتی ہے۔ وہ دم بھر کو رکتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کوئی سامنے سے چلا آرہا ہے۔ اس کے لبوں میں بھی سگریٹ کانپ رہا تھا۔اس کی حیرانی مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ اس سے ماچس طلب کرتا ہے۔وہ کہتا ہے ماچس کے لیے تو میں...مگر وہ اس کی بات سنے بنا ہی آگے بڑھ جاتا ہے جدھر سے وہ خود آیا تھا۔

اس مختصر سی تلخیص کے بعد بظاہر تو یہ افسانہ سیدھا سادہ لگتا ہے جہا ں ایک کے بعد دیگر واقعات رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔مگر اس سادہ سے بیانیہ میں احساس، جذبے اور تاثرات کا ایک سلسلہ شامل ہے۔ ظاہری طورپر تووہ چل رہا ہے اور جگہ جگہ رک کرماچس کی تلاش کر رہا ہے مگر اس کا ذہن لگاتار دباؤ میں ہے۔ حسّی اور جذباتی طور پر وہ خود کو اپنی سگریٹ نوشی کی علّت اور گھٹن میں مبتلا محسوس کرتا ہے۔ افسانے کے بیشتر حصّے حقیقت پسندی کو ظاہر کرتے ہیں۔افسانے میں ماڈل ٹائون،راستہ،حلوائی کی دکان،سپاہی،پولیس اسٹیشن اور راستے میں لگے لیمپ پوسٹ تمام چیزیں جانی پہچانی ہیں۔ مگر افسانے کا آخری حصّہ قاری کو عجیب سے واہمہ میں مبتلا کرتا ہے جہاں ’’وہ‘‘ کی ملاقات خود ’’وہ‘‘ سے ہوتی ہے۔یہاں قاری کے ذہن میں کئی سوالیہ نشان ابھرتے ہیں۔آیا اس کی ملاقات کسی دوسرے شخص سے ہوتی بھی ہے یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ خود کلامی کے انداز میں اپنے ہمزاد سے بات کر رہا ہو ؟ اور وہ ذات اور غیرذات میں کوئی فرق ہی محسوس نہ کر پا رہا ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماچس ایسی کون سی شے ہے جس کی وجہ سے مرکزی کردار کی آدھی رات کو بے وقت آنکھ کھل جاتی ہے اور ماچس نہ ملنے پر وہ اس طرح بے چینی ور اضطراب کے عالم میں مبتلا ہو جاتاہے حتیٰ کے گھر کی ہر چیز الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔مگر گوہرِمقصود ہاتھ نہیں آتا۔ماچس کی تلاش میںرات کی

سیاہی اور سردی کی پرواہ کیے بغیر دیوانہ وار نکل پڑتا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار دور جدید کا باشعور اور حسّاس انسان ہے، اسے کسی کھوئی ہوئی شے کی تلاش ہے جو اس کی زندگی میں یا سماج میں سرے سے مفقود ہے۔اب ماچس کی علامت واضح ہوتی نظر آتی ہے۔یہاں ماچس روشنی کی علامت ہو سکتی ہے، آگ کی تلاش ہو سکتی ہے، زندگی کی امید کی تلاش، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی تلاش یا پھر زندگی کی معنویت اور اپنے وجود کی تلاش کے معنی ہم اس کے اندر سے بر آمد کر سکتے ہیں۔ جس سنجیدگی اور بے چینی سے وہ ماچس کی تلاش کر رہا ہے اس میں گہرے معنی پوشیدہ ہیں اور کسی بڑے مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پورا افسانہ کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے فقروں میں لکھا گیا ہے۔مینرا نے کہیں بھی وضاحتی انداز اختیار نہیں کیا ہے۔ ہر جگہ اشاراتی انداز میں اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔آنکھ کابے وقت کھلنااور اس کا یہ کہنا’’ایک بار آنکھ کھل جائے تو،پھر آنکھ نہیں لگتی!‘‘یہاں آنکھ کھلنے کا مطلب باطن کی آنکھ کھلنے سے بھی ہو سکتا ہے۔اسی طرح اور بھی متعددمعنی خیز اشارے اس افسانے میں جا بجا ملتے ہیں۔ ’’سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل میں کتنی مماثلت ہے!‘‘یہاں سلگتا سگریٹ زندہ رہنے کی علامت بن گیا ہے۔اچانک اس کو احساس ہوتا ہے کہ اس آگ سے وہ محروم ہے جو آگ محض ماچس میں نہیں اس کے دل میں بھی روشن ہے۔یہ آگ محض ایک گرم معروض ہی نہیں بلکہ روشنی اور زندگی کی حرارت کا سرچشمہ بھی ہے۔اس باعث اس کی سوچ میں کچھ اس طرح کا اضطراب اور کشمکش کی کیفیت شامل ہو جاتی ہے۔

’’ماچس کہاں ملے گی؟

ماچس نہ ملی توکہیں...

تو کہیں...

میرا دھڑکتا دل خاموش نہ ہو جائے!‘‘

ان جملوں میں مرکزی کردار کے ذہنی کرب، اضطراب اور زندگی کی معنویت کی تلاش صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس آگ کی تلاش میں نا معلوم سفر پر نکل پڑتا ہے۔یہاں افسانہ نگار نے سیاہی کا ذکر معنی خیز ا نداز میں کیا ہے۔

’’دسمبر کی سرد رات تھی،سیاہی کی حکومت اور خاموشی کا پہرہ، رات کالی تھی،رات خاموش تھی اور دور دور تا حدِ نظر کوئی دکھلائی نہیں دے رہا تھا،لیمپ پوسٹوں کی مدھم روشنی رات کی سیاہی اور خاموشی کو گہرا کر رہی تھی‘‘

 ظاہر ہے کہ اگر اپنے وجود کے باہرسیاہی،تاریکی اور منجمد خاموشی کااحساس شدید نہ ہوتو ماچس کی شکل میں روشنی اور گرمی کی تلاش کے معنی متعین نہیں ہو سکتے۔ یہاں افسانہ نگار کا اشارہ سیاسی بھی ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے یہ اشارے واضح نہیں مبہم انداز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی تمام خارجی کوائف راوی کی داخلی کیفیت کے غمّاز ہیں۔ یہاں تک کہ را ستے میں لگے لیمپ پوسٹ بھی رات کی تاریکی کو کم کرنے کے بجائے اور گہرا کر رہے ہیں۔ اس موقعے پر سیاسی پہلو کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ ہمارے سیاسی نظام کی وجہ سے انسان کے مسائل روز بہ روز الجھتے جا رہے ہیں اور پورا معاشرہ ان گنت بد عنوانی اور سماجی مسائل کا شکار بنا رہتا ہے۔یہ سیاہی اور خاموشی کی کیفیت دراصل اسی کیفیت کی غمازی کر رہی ہے۔آگے چل کر اسے حلوائی کی دکان نظر آتی ہے اور وہ بھٹّی میں سلگتا ہوا کوئلہ ڈھونڈنے لگتا ہے۔مگر بھٹّی ٹھنڈی پڑی ہوتی ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ:

’’ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے۔وہ آئے گا تب بھٹّی گرم ہوگی۔‘‘

وہ مزید آگے چلتا ہے تو اس کی ملاقات ایک اور آدمی سے ہوتی ہے،جوماچس مانگنے پر جواب دیتا ہے کہ:

’’ نہیں میرے پاس ماچس نہیں ہے۔میں اس علت سے بچا ہوا ہوں‘‘

تھکا ماندہ وقت سے بے خبر وہ ایک مرمت طلب پل پر پہنچتا ہے جہاں سرخ کپڑے میں لپٹی ہوئی لالٹین سے وہ اپنی سگریٹ جلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اتنے میں ایک سپاہی بہت سے سوال کرتا ہے

’’کیا کر رہے تھے؟

کچھ نہیں !

میں کہتا ہوں،کیا کر رہے تھے؟

آپ کے پاس ماچس ہے؟

میں پوچھتا ہوں کیا کر رہے تھے اور تم کہتے ہو، ماچس ہے۔کون ہو تم؟

مجھے سگریٹ سلگانا ہے،آپ کے پاس ماچس ہو تو...

تم کون ہو،کہاں رہتے ہو؟

میں...

ماڈل ٹاؤن!

اور تمھیں ماچس چاہیے... ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہو...ماڈل ٹاؤن کہاں ہے؟

ماڈل ٹاؤن!

اس نے گھوم کر اشارہ کیا۔

دور دور تا حدِنظر سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔‘‘

  مذکورہ بالا مکالموں سے دونوں کرداروں کی نفسیات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف توسپاہی کے سوال پوچھنے کے انداز میں جھنجھلاہٹ اور بے وقت کسی کی موجودگی سے اکتاہٹ،تودوسری طرف مرکزی کردار کی مستقل مزاجی اور ماچس کی طلب میں شدت کا مظاہرہ صاف نظر آتا ہے۔مزید اس بات کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ ماچس جو اس کی زندگی سے غائب ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے گھر سے میلوں دور نکل آیا ہے جس کا اسے پورا اندازہ بھی نہیں۔رات کی سیاہی میں خطرے کی جگہ پہنچنے کے جرم میں سپاہی اسے تھانے لے جاتا ہے۔تھانے میں کچھ سپاہی ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے سگریٹ اور ماچس کے کئی پیکٹس پڑے ہوئے تھے

’’صاحب!یہ شخص پل کے پاس کھڑا ہوا تھا۔کہتا ہے، ماڈل ٹاؤن میں رہتا ہوں اور ماچس ماچس کی رٹ لگائے ہوئے ہے!  

کیوں بے؟

اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی ماچس استعمال کر لوں۔مجھے اپنا سگریٹ سلگانا ہے!

کہاں رہتے ہو؟

میں اجنبی ہوں!کیا میں ماچس...

ماڈل ٹائون میں کب سے رہتے ہو؟

تین ماہ سے!ماچس...

ماچس...ماچس کا بچہ... اجنبی...جائو اپنے گھر... ورنہ بند کر دوں گا...ماچس؟

تھانے میں اور تھانے سے باہرپولس کی غیر ضروری مداخلت اور روز مرہ کے معاملات میں شک و شبہہ کا گمان کرنا دراصل عام سماجی زندگی میں قانون کے نام لیوا رکھوا لوں  کے ذریعہ مداخلت اور استحصال علامتی طور پر ایک عام آدمی کی بے ضرر ضروریات کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مترادف بن جاتا ہے۔بلراج مینرا کے تقریباً تمام افسانوں میں جبر اور استحصال کے خلاف رد عمل اور مزاحمت کا رویہ ملتا ہے جو زیر بحث افسانے میں بھی نمایاں ہے۔ پورے افسانے میں واقعات کا تانا بانا جس طرح بُناگیا ہے اس سے نہ صرف قاری کی دلچسپی بلکہ تجسّس میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔آیا وہ اپنی سگریٹ جلانے میں کامیاب ہوگا؟اس کو کہیں ماچس ملے گی یا نہیں؟اس سے قطع نظر اگر ہم پولیس اسٹیشن میں ہوئے مکالموں کو دیکھیں توصاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کردار مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی معصومیت اور موقف پر قائم رہتا ہے۔ اسے کسی سوال کے جواب میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کو صرف ماچس چاہیے۔بار بار ہر سوال کے جواب میں ماچس کی رٹ لگانااور رات بھرماچس کی تلاش میں تگ و دو کرتے رہنا سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ماچس کی تلاش یا یوں کہیں کہ اپنے وجود کے حوالے کی تلاش اس کی زندگی کا اہم مقصد بن گئی ہے۔دوسری طرف جن لوگوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے وہ سب بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جس شدت کی ساتھ اس کو ماچس کی تلاش ہے، بار بار پوچھنے پر کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔الٹا اس کو پاگل سمجھ کر گھر جانے کی صلاح دی جاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ یہاںبھی سماج کے استبدادی اداروں پر طنز ملتا ہے جس کی بہترین مثال پولیس اسٹیشن ہے۔ عام آدمی کی طرف پولیس والوں کا منفی رویہ اور ان کو حقارت سے دیکھنے اور دھتکارنے کا عمل اس استبداد کو مزید بے نقاب کرتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ افسانے کا مرکزی کردار کہیں بھی سگریٹ جلانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔حلوائی کی دکان پر بھٹّی کا ٹھنڈا ہونا،راستے میں اجنبی سے ماچس مانگنے پر اس کا یہ کہنا کہ’’میں اس علت سے بچا ہوا ہوں‘‘لالٹین سے سگریٹ جلانے کی کوشش میں تھانے پہنچا دیے جانا،حتیٰ کہ ماچس سامنے ہونے کے باوجود سگریٹ سلگانے میں کامیابی نہ ملنا، یہ تمام چیزیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اپنے وجود کو سمجھنے، زندگی میں کسی مقصد کو حاصل کرنے اور اپنے طور پر کسی عام آدمی کو بھی بے ضرر زندگی گزارنے تک کی آزادی مشکل سے مل پاتی ہے۔لوگ اپنے نصب العین سے بے خبر بے حسی کی زندگی جی رہے ہیں۔جس کا احساس راوی کو شدت سے ہے۔ تمام کاوشوں کے باوجود اس کو یہ آگ کہیں نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ تھکان کی وجہ سے اس کا بدن پوری طرح ٹوٹنے لگتا ہے۔وہ بے ساختہ سوچتا ہے۔

’’سگریٹ پینا ایک علت ہے!

میں نے یہ علت کیوں پال رکھی ہے؟‘‘

اس خیال کو و ہ اپنے ذہن سے جھٹکتے ہوئے وقت،بدن کی تھکن اور گردوپیش کی ہر چیز سے بے خبر گرتا پڑتا ماچس کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ہے۔وہ لمحہ بھر کو رکتا ہے اور دیکھتا ہے کہ سامنے سے کوئی آرہا ہے اس کی حالت بھی بالکل اسی کی طرح ہے۔وہ شخص بھی اس سے وہی سوال کرتا ہے جو رات بھر ماچس کی تلاش میں مختلف لوگوںسے کرتا رہاہے۔افسانے کے آخری چند جملے دیکھیے:

’’آپ کے پاس ماچس ہے؟

            ماچس؟

            ماچس کے لیے تو میں...‘‘

وہ اس کی بات سنے بغیر ہی آگے بڑھ جاتا ہے جدھر سے وہ خود آیا تھا۔ظاہر ہے یہاں افسانہ نگار نے اپنی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی بلکہ چند جملوں میں اپنی بات ختم کر دی۔ یہ شش و پنج کی کیفیت،ساری رات محض ماچس کے لیے تلاش و جستجو کی اذیت اور ہر جگہ سے انکار  یا شک و شبہے کی اذیت ہی دراصل بلراج مینرا کے اس افسانے ماچس(جو بعض جگہ ’وہ‘ کے عنوان سے بھی چھپا ہے)کا مرکزی خیال ہے۔تفصیلات سے گریز اور اشاروں کنایوں میں بات کہنے کا انداز بلراج مینرا کے فن کی بنیادی انفرادیت ہے جو ان کے افسانوں کی معنویت میں اضافہ بھی کرتا ہے اور معنی و مفہوم کے مزید امکانات کو بھی برقرار رکھتا ہے۔یہی سبب ہے کہ متعدد تنقید نگاروں نے الگ الگ انداز میں بھی اس افسانے کی تفہیم کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔


Dr. Noor Fatima

Asst Prof. Dept of Urdu

MANUU, Lucknow Campus

504/122, Tagore Marg

Near Shadab Market

Lucknow - 226020 (UP)

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں