2/11/20

پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی اردو کی گنگا جمنی تہذیب کے آخری سفیر : مضمون نگار معصوم مراد آبادی

 



میں پچھلے چالیس پینتالیس برسوں سے دہلی کی شعری اور ادبی زندگی کا مشاہدہ کررہاہوں۔ ایک طالب علم کے طور پراس شہرکے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو قریب سے دیکھا اور جانا ہے۔سبھی اپنی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ان کے دم سے دہلی کاادبی اور شعری منظر نامہ اتنا بھرپور تھا کہ اسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان ادبی محفلوں کی آن، بان اور شان سمجھے جانے والے بیشتر ادیب اور شاعراپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ لیکن ان میں ایک ہستی ایسی ضرور تھی جس کی سر گرمیوں کو دیکھ کر مجھے نہ جانے کیوں یہ خوش فہمی تھی کہ یہ شخصیت دیر تک اور دور تک ہمارے درمیان رہے گی۔ یہ شخصیت تھی پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کی،جنھیں میں اکثر’ گل گلزار ‘کہہ کر پکارتا تھا۔افسوس کہ وہ بھی دوسروں کی طرح پچھلے دنوں ہم سب کو اداس کرکے چلے گئے۔

 آج میں گلزار دہلوی کے بغیر دہلی کے شعری اور ادبی منظر نامے کا تصور کرتا ہوں تو مجھے ہر طرف بڑی ویرانی نظر آتی ہے۔ہر محفل میں گرجتے برستے، چہکتے اور چہچہاتے گلزار دہلوی ایک ایسی باغ وبہار شخصیت تھے کہ ہر محفل ان کے ہی دم سے آباد تھی۔ انھیں شاعری کے ساتھ ساتھ تقریر کے فن پر بھی کمال حاصل تھا۔ وہ جب دلّی کی ٹکسالی زبان میں مرحوم دلّی کے قصے سناتے تو محفل خوب جمتی تھی۔ وہ دلّی کی سینکڑوں برس کی تہذیبی روایات اور اس کی شعری، ادبی اور سماجی زندگی کے واقعات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے تھے اورصحیح معنوں میں دلّی کے روڑے تھے۔ان کی سب سے بڑی شناخت ان کا وہ پرتو تھا جس میں وہ اردو کی گنگا جمنی تہذیب کی بھرپور نمائندگی کرتے تھے۔یہ مشترکہ تہذیب ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کے لفظوں میں:

’’گلزارمشترکہ ہندوستانی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔یہ تہذیب ان کی رگ رگ میں پیوست اور ان کے لہو کی بوند بوند میں گھلی ملی ہوئی ہے۔مشترکہ تہذیب کے مفہوم میں سیکولرازم، قومی اتحاداور انسان دوستی یہ سبھی چیزیں شامل ہیں۔ان کی شخصیت کا یہی وہ جوہر ہے، جس کے سبب بیسویں صدی کی تمام تاریخی ہستیوںکا قرب انھیں حاصل رہا ہے۔ان شخصیتوںمیں پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر راجندرپرشاد، شیخ عبداللہ، پروفیسر ہمایوں کبیر،خان عبدالغفار خاں،اندرا گاندھی، بابو جگجیون رام،اوما شنکر دکشت،بھیم سین سچر،موہن لال سکھاڈیا، پروفیسر نورالحسن اور پروفیسر سروپ سنگھ جیسی ہستیوں کے نام خاص طور پر لیے جاسکتے ہیں۔‘‘

گلزار دہلوی کی سب سے بڑی جیت یہ تھی کہ وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجودگھر نہیں بیٹھے اور آخری وقت تک سرگرم عمل رہے۔عمر کے آخری حصے میں جبکہ ان کے قویٰ جواب دینے لگے تھے تو وہ اپنے ایک معاون کی مدد سے ہر اس محفل کی زینت بڑھاتے تھے، جہاں انھیں عزت و احترام سے بلایا اور سرآنکھوں پربٹھایا جاتا تھا۔ ابھی کچھ ہی دن کی تو بات ہے کہ انجمن ترقی اردو کی دہلی شاخ کے روح رواں اقبال محمود فاروقی نے ’یوم ذوق‘ کا اہتمام انجمن کے دفترواقع کوچہ نیل کنٹھ (دریا گنج)میں کیا تھا۔ گلزار دہلوی اپنے تام جھام کے ساتھ اس میں شریک ہوئے۔ پروگرام کی نظامت کا بار میرے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا گیا۔ گلزار صاحب جس شعری نشست میں شرکت کرتے تھے، اس میں شعروشاعری سے زیادہ حصہ ان کی دلچسپ تقریر کا ہوا کرتاتھا جس میں وہ اردو زبان کی ترویج واشاعت سے متعلق اپنی خدمات اور ’کاملان دلّی ‘کے قصے بیان کیا کرتے تھے۔ان کی گفتگو میں دہلی کی پوری ادبی، تہذیبی اور سماجی زندگی سمٹ آتی تھی۔ اکثر یہ تقریر اتنی طویل ہوجاتی کہ دیگر شرکا اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے اونگھنے لگتے تھے۔گلزار صاحب نے یوم ذوق کے نثری حصے کی صدارتی تقریر کو اتناطولانی کردیاکہ شعری نشست کا وقت ختم ہونے لگا۔گلزار صاحب کو ٹوکنے کی جرات ہر کسی میں نہیں تھی۔ پھر بھی بطور ناظم میں نے اپنے اختیار ات کا استعمال کرتے ہوئے ایک رقعہ ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ مجھے ان کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر ان کا کمال یہ بھی تھا کہ ناراض بھی کچھ اس انداز میں ہوتے تھے کہ بات بگڑتی نہیں تھی۔ روک ٹوک کے باوجود انھوں نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ ان کا حافظہ غضب کا تھا کہ94 برس کی عمر میں بھی80 سال پرانے قصے کہانیاں ایسے سناتے تھے، گویا کل ہی کی بات ہو۔

اردو دنیا سوگوار

گلزار دہلوی کے انتقال سے اردو دنیا سوگوار ہے۔ وہ خالص دلّی والے تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی گلی کوچوں میںگزرا تھا، جنھیں خدائے سخن میر تقی میر نے اوراق مصور سے تشبیہ دی تھی۔وہ مرحوم دہلی کی ایک توانا آوازتھے اور اس مٹتی ہوئی تہذیب کے امین تھے، جس نے اس شہر کو وقار بخشا تھا۔ وہ ہر شعری نشست کی آبرو تھے اور انھیں بزرگی کی وجہ سے سب سے آخر میں پڑھوایا جاتا تھا، لیکن انھوں نے اپنی پیرانہ سالی اور نقاہت کے باوجود اس روایت کو ٹو ٹنے نہیں دیا۔ان کی شخصیت کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ وہ مذہبی طور پر خالص ہندوبرہمن ہونے کے باوجود اپنے عادات واطوار اور بود وباش سے مسلمان نظر آتے تھے۔ حمدیہ اور نعتیہ نشستوں میں پورے خشوع وخضوع کے ساتھ سرخم کرکے شرکت کرتے تھے۔ یہ کوئی اداکاری نہیں تھی بلکہ اس ماحول کا فیض تھا جس میں انھوں نے تربیت پائی تھی۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یا طاقت اردو زبان اور اس کی ملی جلی تہذیب تھی، جس کی بقا کے لیے وہ آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے۔وہ اردوتعلیم کے سب سے بڑے وکیل تھے اور اس کے رسم الخط پر سب سے زیادہ اصرار کرتے تھے۔ہر محفل میں وہ شرکا سے یہ ضرور کہتے تھے کہ اپنے بچوں کو آٹھویں کلاس تک اردو ضرور پڑھائیں۔ اردو زبان اور اس کی مٹتی ہوئی تہذیب کو زندہ کرنے کی انھوں نے ہر ممکن کوشش کی۔بقول خود     ؎

درس اردو زبان دیتا ہوں

اہل ایماں پہ جان دیتا ہوں

میں عجب ہوں امام اردو کا

بتکدے میں اذان دیتا ہوں

گلزار دہلوی نے موت سے چند روز پہلے ہی نوئیڈا کے ایک اسپتال میں کورونا جیسی موذی وباکوشکست دے کر زندگی کا پرچم دوبارہ بلند کیا تھا۔94برس کی عمر میں اپنی بے مثال قوت ارادی سے کورونا کو شکست دینے والے گلزار دہلوی جب اسپتال سے باہر نکلے تو قومی اخبارات کے کئی نمائندے اورفوٹو گرافر ان کے منتظر تھے۔ان کی حیات نو کی کہانی کئی بڑے انگریزی اخباروں نے جلی عنوانات کے ساتھ شائع کی۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ وہ ابھی اور جئیں گے، لیکن یہ کیا ہوا کہ وہ کورونا کو شکست دے کر زندگی سے ہی ہارگئے۔

 گلاب کا ایک پھول پنڈت نہروکی طرح ہمیشہ گلزار دہلوی کی شیروانی پر آویزاں رہتا تھا۔ سفیدشیروانی ان کامحبوب لباس تھا اور میں نے کسی ادبی محفل میں انھیں اس کے بغیر نہیں دیکھا۔ اردو، ہندی، فارسی،سنسکرت اور عربی کا ثقافتی ورثہ، کشمیر،پنجاب، دہلی اور یوپی کا سنگم اگر کسی کوایک شخصیت میں دیکھنا مقصود ہو تو وہ گلزار دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا تھا اور گلزار دہلوی اس کی حسرت کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتے تھے۔

قادر الکلام شاعر

گلزار دہلوی ایک قادرالکلام شاعر، ایک ذی علم ادیب اور محفل پر جادو کردینے والے بے مثال مقرر تھے۔ وہ اپنے والد ماجد علامہ زار دہلوی کے سچے جانشین ہی نہیں تھے بلکہ حضرت بیخود دہلوی، نواب سائل دہلوی اور علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اور مولوی عبدالحق کے بھی صحیح جانشین تھے۔ وہ ادب میں داغ اور حالی کے ادبی خانوادے کے مایہ ناز سپوت تھے۔ انھوں نے 1946 میں انجمن تعمیر اردو اور ادارہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کی سرگرمیوں کو جلا بخشی۔دہلی کا اجڑتا ہوا اردو بازار برسوں ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا اور وہ مولوی سمیع اللہ قاسمی کے کتب خانہ عزیزیہ میں ادبی محفلوں کی جان رہے۔ وہ ہر سال رمضان کے مہینے میں’’ روزۂ رواداری‘‘ رکھتے تھے اور ہم جیسے خوشہ چینوں کو اس میں بذریعہ پوسٹ کارڈ مدعو کرکے خوش ہوتے تھے۔وہ اتحاد واخوت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، مولوی عبدالحق، علامہ نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی جیسے عبقری شعرائے کرام گلزار دہلوی سے انسیت رکھتے تھے۔

گلزار دہلوی کا پورا نام پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی تھا۔وہ حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت امیر خسرو سے بے پناہ عقیدت کے سبب اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی لکھتے تھے۔خط وکتابت میں اپنے نام کے بعد یادگار اسلاف لکھنا بھی نہیں بھولتے تھے۔وہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کی منیجنگ کمیٹی کے سرگرم ممبر تھے اور ہر سال عرس کے موقع پر وہاں بڑی عقیدت سے حاضری لگاتے تھے اور عرس کی تمام تقریبات میںشریک ہوتے تھے۔ان کے آباواجداد شاہجہاں کے دور میں دہلی آئے، جہاں وہ مغل شہنشاہ کے دربار میں شہزادوں کی تعلیم وتربیت کی خدمت پر مامور ہوگئے۔ یہ لوگ عربی، فارسی، سنسکرت اور اردو کے ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ کے دربار میں ان کے علمی وقار کو تسلیم کیا جاتا تھا۔گلزار دہلوی کے خاندان کو یہ وصف حاصل تھا کہ ان کے خاندان میں ہرکوئی شاعر تھا۔ ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی اپنے زمانے کے بہترین شاعر تھے اور ان کا شمار مرزا داغ دہلوی کے جانشینوںمیں ہوتا تھا۔ گلزار دہلوی کی والدہ محترمہ برج رانی زتشی بھی شاعرہ تھیں اور بیزار دہلوی تخلص تھا۔ وہ نواب سائل دہلوی کی شاگرد تھیں۔گلزار دہلوی کے دوبڑے بھائی پنڈت دیناناتھ زتشی اور رتن موہن ناتھ خار دہلوی بھی سائل دہلوی کے تلامذہ میں تھے۔ اس طرح ان کے خاندان میں زار، بیزاراور خار کے بعد گلزار دہلوی نے شاعری کا پرچم لہرایا اور دہلی کے شعری اور ادبی منظرنامے پر چھاتے چلے گئے۔

پیدائش و پرداخت

گلزار دہلوی کی پیدائش 13جولائی 1926 کو دہلی میں ہوئی۔ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی لڑکیوں کے اندرپرستھ کالج میں اردو اور فارسی کے استاد تھے اور’ مولوی صاحب‘ کہلاتے تھے۔ان کی شاگرد خواتین میں اردو کی بڑی نامی گرامی قلم کار اور دانشور گزری ہیں۔ گلزار دہلوی نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل یل بی کا امتحان پاس کیا۔بعدازاں بابائے اردو مولوی عبدالحق اور پنڈت دتاتریہ کیفی کی سرپرستی میں چلنے والے انجمن ترقی اردو کے اردو کالج سے اردو میں ادیب فاضل اور فارسی میں منشی فاضل کے امتحانات پاس کیے۔گلزار دہلوی کا بیان ہے کہ وہ مادرزاد شاعر پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے سات آٹھ برس کی عمر میں شعر گوئی شروع کردی تھی۔ ان کا تخلص رکھے جانے کی باقاعدہ تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر شریک ہوئے تھے۔شروع میں انھوںنے اپنے والد علامہ زار دہلوی سے اصلاح لی۔ حضرت داغ دہلوی کے رشتے سے گلزار دہلوی اردو زبان اور کلچر کی گود میں پل کر جوان ہوئے۔ان کے بچپن کے بزرگوں اوراساتذہ میں نواب مرزا سراج الدین خاں سائل دہلوی،علامہ دتاتریہ کیفی،مولوی عبدالحق، استاد بیخود دہلوی، نوح ناروی، احسن مارہروی اور جوش ملیح آبادی جیسے شعراء شامل ہیں۔ابتدائی کلام اپنے والد زار دہلوی اور نواب سائل کو دکھایا اور سات برس کی عمر میں نواب سائل سے ہی مولانا روم،حافظ شیرازی،اسلامی دینیات اور تلمیحات اقبال پڑھیں۔1938 میں باقاعدہ علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی کے آگے زانوے تلمذ طے کیا۔

گلزار دہلوی کے بقول شروع میں انھوں نے کچھ دن اردو لیکچرر کی خدمات انجام دیں۔اس کے بعد دہلی کلاتھ ملزکے مالک سرشنکر لال کے مشیر کی حیثیت سے آرٹ، زبان اور کلچر سے متعلق امور دیکھتے رہے۔ 1970 میں جب سی ایس آئی آر نے اردوماہنامہ ’سائنس کی دنیا ‘ شروع کیا تو گلزار صاحب اس کے بانی ایڈیٹر بنائے گئے اور 1990تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے انور جمال قدوائی کی قیادت میں انھیں سائنسی صحافت کو مقبول بنانے کے سلسلہ میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی تو اس کے بعد ان کے نام کے ساتھ’ ڈاکٹر‘ کا اضافہ ہوا۔گلزار دہلوی نے بحیثیت شاعر دنیا کے تقریباً پچاس ملکوں کا دورہ کیا۔ ان میں یوروپ، مشرق بعید، وسط ایشیاء،روس، عرب اور امریکہ شامل ہیں۔ان مشاعروں میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی اور انھیں انعام واعزاز سے نوازا گیا۔گلزار دہلوی بیان کرتے تھے کہ جب ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو پہلی بار سعودی عر ب گئے تو انھیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

ڈاکٹر اسلم پرویز کا بیان ہے کہ ’’گلزار دہلوی کو بچپن سے تیراکی کا شوق تھا اور وہ گلی کشمیریان، بازار سیتا رام سے سائیکل پر سوار ہوکرتیراکی کی مشق کے لیے جمنا آتے تھے، لیکن شیروانی اور چوڑی مہری کا پاجامہ زیب تن کیے ہوئے۔شیروانی کے بٹن کھلے ہونااور چوڑی مہری کا پاجامہ گویا اس بات کی علامت تھی کہ یہ ان کا غیر رسمی لباس یا اسپورٹس ڈریس ہے۔گویا شیروانی کی پاسداری ان کے لیے کسی نہ کسی صورت یہاں بھی ضروری تھی۔رسمی لباس میں چوڑی دار پاجامے کے ساتھ شیروانی کے بٹن گلے تک بند ہوتے تھے اور اس حالت میں ان کی آواز گلے سے اور زیادہ تیکھی ہوکر نکلتی تھی، جو جلسوں میں تقریریں کرنے، مشاعروں میں کلام سنانے اور ادبی جلسوں میں نظامت کرنے جیسے مواقع پربڑی موثر ثابت ہوتی تھی۔‘‘

انجمن تعمیر اردو

یوں تو گلزار دہلوی نے اپنی زندگی میں کئی تنظیمیں اور انجمنیں قایم کیں۔ مثال کے طور پر1946 میں ادارہ نظامیہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء، 1947میں انجمن تعمیر اردو، 1971 میں نیشنل رائٹر ایسوسی ایشن،1984 میں ڈاکٹر سیف الدین میموریل کونسل،1989 میں آل پارٹی سینٹرل یوتھ اردو کونسل کے نام شامل ہیں، لیکن جو انجمن آخری وقت تک قایم ودائم رہی وہ دراصل انجمن تعمیر اردو ہی تھی جو انھوں نے 1947کے ایسے پرآشوب دور میں قایم کی تھی جب دہلی کی ادبی، سماجی اور تہذیبی زندگی اجڑچکی تھی۔انجمن تعمیر اردو کے سرپرستوں میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، حکیم عبدالحمید اور میر مشتاق احمد جیسی شخصیات شامل تھیں۔ میر مشتاق احمد کو اس انجمن کا صدر بنایا گیا تھا۔اس انجمن کی سرگرمیاں 1956کے آس پاس اپنے شباب کو اس وقت پہنچیں جب تقسیم کے زخم مندمل ہونے لگے تھے۔انجمن تعمیر اردو کی ایک خصوصی نشست 1958کے اوائل میں اردو بازار میں کٹرہ نظام الملک میں اس مکان میں منعقد ہوئی جس میں مجاہدآزادی حافظ علی بہادر خاں (ایڈیٹر ہفتہ وار’ دورجدید‘ )کا دفتر تھااور خود ان کی قیام گاہ بھی تھی۔اس کے بعد انجمن تعمیر اردو کی ہفتہ واری نشستوں کا سلسلہ ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ ارونا ہال، اردو بازار میں اس جگہ ہونے لگاجو عرف عام میں میر مشتاق احمد کا کمرہ کہلاتا تھا اور جہاں بعد کو میرصاحب نے جنتا کوآپریٹیو بینک قایم کیا۔یہ شعری اور تنقیدی نشستیں پابندی کے ساتھ سترہ اٹھارہ سال تک اس وقت تک چلتی رہیں جب تک ایمرجنسی کے زمانے میں وہاں بلڈوزر نہیں چل گیا۔اس بلڈوزر نے نہ صرف جامع مسجد کی سیڑھیوں کے کلچر کا صفایا کردیا بلکہ پورے اردو بازار کی ادبی اور تہذیبی فضا کو بھی تہہ و بالا کردیا۔اس خلفشار سے پہلے انجمن تعمیر اردو کی مخصوص نشستیں اردو بازار میں وہ رنگ جماگئیں، جو ہمیشہ یاد رہے گا۔گلزار دہلوی کی بدولت انجمن کی ان نشستوں میںادب کی دنیا کی ہر محترم اور معتبر شخصیت نے ان محفلوں کا وقار بڑھایا۔ علامہ زار دہلوی، خار دہلوی،طالب دہلوی، حافظ علی بہادر خاں،گوپی ناتھ امن، انور صابری جیسی برگزیدہ شخصیتیں پابندی کے ساتھ ان نشستوں میں شرکت کرتیں اور ان نوجوان قلم کاروں کا حوصلہ بڑھاتیں جو تنقیدی نشستوں میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات پیش کرتے تھے۔ یہ گلزار دہلوی کا ہی دم تھا کہ انجمن تعمیر اردو کی ان نشستوں میں جوش ملیح آبادی،جگر مرادآبادی، شکیل بدایونی،ساغر نظامی، پروفیسر عبدالقادر سروری،پروفیسر محی الدین قادری زور، قاضی عبدالودود، فیض احمد فیض،مولانا امتیازعلی عرشی،سجاد ظہیر، خواجہ غلام السیدین، مسعود حسین رضوی ادیب،سلام مچھلی شہری، ماہر القادری،پروفیسرآل احمد سرور، سید احتشام حسین، عصمت چغتائی،بیگم صالحہ عابد حسین،علامہ انور صابری، بسمل سعیدی اور عمیق حنفی جیسی شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ان کے علاوہ پاکستان سے جو دانشور اور ادیب ہندوستان آتے تھے، گلزار دہلوی ان کی بھی انجمن کی انہی محفلوں میں پذیرائی کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کا بیان ہے کہ ’’ 1975کے بعد دہلی میں وارد ہونے والے ادیبوں کو چھوڑ کروہ تمام نوجوان ادیب اورشاعرجو مختلف مسالک فکر سے تعلق رکھتے انجمن تعمیر اردو کی نشستوں میں شریک ہوتے تھے۔ادبی تربیت، نکتہ سنجی، نکتہ شناسی،سخن سنجی اور سخن فہمی کا جو سامان ان نشستوں نے مہیا کیا، اس سے ہماری نسل کے کتنے ہی نوجوانوں نے فائدہ اٹھایا۔آج بھی گلزار صاحب کی انجمن تعمیر اردو تو زندہ ہے لیکن اس کا شیرازہ بالکل اسی طرح بکھرچکا ہے، جس طرح شہردہلی کے جغرافیہ اور اس کی تہذیب کا۔ اس کے بعد نوجوانوں کی ادبی تربیت کا ایسا کوئی دوسرامرکزدلّی میں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

انجمن تعمیر اردو سے گلزار دہلوی کوقلبی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اسے ایک زندہ جاوید حیثیت عطا کی تھی۔ وہ دل سے چاہتے تھے کہ ان کے بعد بھی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ انھوں نے راقم الحروف کو کئی مرتبہ اس طرف متوجہ کیا، لیکن میری صحافتی مصروفیات اس میں حائل رہیں۔ اس کا اندازہ ان کے اس خط سے بھی ہوتا ہے جو انھوں نے 15 مئی2016کو خاکسار کے نام لکھا تھا۔ملاحظہ فرمائیں          ؎

مائی ڈئیر میاں معصوم مرادآبادی سلمہ

زندہ پائندہ وتابندہ باد، دعائے نظامی وخسروی۔ سلامت

عزیزمن، کبھی ہمارے گھر بھی ادبی دوستوں کو لے کر آؤ۔ ایسے اجنبی نہ بنو،

91 سال کے بزرگ اردو کوجس کی 82سال کی اردو کی تبلیغ وجہاد اور ادبی خدمت، اور قومی یکجہتی میں خصوصاًمسلم دوستی اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے والے خیر خواہ کو بھول جاؤگے۔

70 سال سے انجمن تعمیر اردو چلا رہا ہوں۔ اب آؤ اور آگے70سال تم اس انجمن کو چلاؤ۔ 1946سے1972تک جب کہ کوئی دوسری انجمن، اکاڈمی، انسٹی ٹیوٹ، بزم یا مرکزنہیں تھا، صرف مجھے ہی انجمن کی جانب سے لڑنا مرنا پڑاتھا۔ اب مجھے مستقبل کے لیے اردو کا مجاہد درکار ہے۔ کچھ دوستوں کو لے کر آجاؤ۔اللہ توفیقات میں اضافہ کرے۔

 چشم براہ، منتظر جواب۔ گلزار دہلوی عفی عنہ یادگار اسلاف۔

اس مکتوب سے قبل انھوں نے جولائی2014میں اپنے71 ویں روزہ رواداری کی تقریب کا دعوت نامہ ارسال کرتے ہوئے لکھا تھا:

محب عزیز پیارے معصوم مرادآبادی سلمہ، ولطفہ وطول عمرہ واقبالہ، تابندہ باد

ہدیۂ خلوص، دعائے نظامی وخسروی

اب تمھیں انجمن تعمیر اردو دلّی (رجسٹرڈو قائم شدہ 1947)کا جوائنٹ سیکریٹری بننا ہے اور سیکریٹری رابطہ عامہ بھی۔میری طرح تن من دھن، وقت اور مشوروں سے بھی انجمن کی اور میری مدد کرنی ہے۔ اگر ہوسکے تو جلد آکر مل بھی جاؤ۔ شکریہ جزاک اللہ

گلزار دہلوی، یادگار اسلاف

روزہ رواداری

اردوکی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اور ہندومسلم یکجہتی کا جذبہ محض نظر یاتی طور پرگلزار دہلوی کے مزاج کا حصہ نہیں تھا بلکہ وہ عملی طور پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔رمضان کے مہینے میں وہ ہر سال ایک روزہ رکھ کرمشترکہ تہذیبی قدروں کو تقویت پہنچاتے تھے۔ یہ روزہ عام طور پر الوداع کا ہوتا تھا۔اسے انھوں نے ’’روزہ رواداری ‘‘کا نام دیا تھا۔ ان کی روزہ کشائی کے لیے احباب باقاعدہ چندہ کرکے ایک شایان شان افطارپارٹی منعقد کرتے تھے۔ گلزار صاحب کا کہنا تھا کہ اس روزہ رواداری کی شروعات انھوں نے حضرت مولانا احمد سعید مرحوم کی ہدایت پر کی تھی،جسے انھوں نے بعد میں اپنی اخلاقی اور تہذیبی قدروں کاایک حصہ بنالیا۔گلزار صاحب کے اس ’ روزہ رواداری ‘ میں ہر برس بلا تفریق مذہب و ملت اہم شخصیات نے شرکت کی اور ان کے اس جذبہ خلوص کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی۔13جولائی 2014 کو نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ان کا71 واں ’ روزہ رواداری تھا۔ اس موقع پر راقم کوانھوں نے جودعوت نامہ اپنے مکتوب کے ساتھ روانہ کیا تھا، اس کا متن ملاحظہ فرمائیں         ؎

یادگار اسلاف اور دلّی کی گنگا جمنی تہذیب کے نمائندے

علامہ پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کا

اکھتّر (71)واں روزہ رواداری-افطار وضع داری

13 جولائی 2014، اتوار، انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی

حسب ذیل پروگرام منعقدہوگا۔

نعتیہ نشست و ذکر سیرت: ساڑھے تین بجے

(اسی روز ڈاکٹرگلزاردہلوی کے 89 ویں یوم ولادت کی تقریب بھی ساتھ ہی منعقد کی جارہی ہے(آپ سے درخواست ہے کہ وقت مقررہ پر تشریف لاکراس تاریخ ساز نورانی محفل کے گواہ بنیں۔اس تقریب کے منتظرین میں سید شاہد مہدی،ڈاکٹر سید فاروق، متین امروہوی،مولوی عبدالسلام قاسمی،حسن ضیا ء اور محمد عتیق صدیقی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

 سائنس اور شاعری

عام طور پر شاعری اور سائنس کو ایک دوسرے کی ضد تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کے رسیا سائنس سے دور رہتے ہیں اور جو سائنس کے دل دادہ ہیں، وہ شاعری سے دور کی راہ ورسم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ گلزاردہلوی کا ہنر تھا کہ انھوں نے سائنس اور شاعری کے درمیان ایک پل تعمیر کرلیا تھا جس پر وہ بے تکان سفر کیا کرتے تھے۔ گلزار دہلوی نے اپنی زندگی کا طویل حصہ ماہنامہ ’سائنس کی دنیا ‘ کی ادارت کرتے ہوئے گزارا۔ اس کے ساتھ ہی وہ شعر وشاعری کا سفر بھی طے کرتے رہے۔وہ شاعر اور ادیب ہونے کے باوجود ایک سائنسی جریدے کے کامیاب مدیر ثابت ہوئے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ قطب شمال اورقطب جنوب قیامت کے دن ہی سہی مگر آپس میں مل سکتے ہیں، لیکن سائنس اور شعر وادب کبھی نہیں مل سکتے۔لیکن گلزار دہلوی نے مغربی مفکرین کے اس خیال کو اپنے عمل سے غلط ثابت کردکھایا۔ایک بار کچھ دوستوں نے گلزار صاحب سے پوچھا کہ ’’ سائنس حقائق کی تحقیق کرتا ہے اور ادب حقائق کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے، لہٰذا ایک شاعر وادیب کو’ سائنس کی دنیا ‘کی کمان سنبھالنے میں دشواری پیش نہیں آئی؟‘‘ یہ سن کر گلزاردہلوی نے کہا کہ’’ ارے بھئی، سائنس میں بھی تو خورد بین سے چھوٹے چھوٹے ذرات، خلیوں اور جراثیم کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا جاتا ہے تاکہ سائنسی تحقیق آسانی سے کی جاسکے۔ اسی طرح ادب میں سماجی، معاشی،ثقافتی، مذہبی، تعلیمی اور سیاسی معاملات کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین، سامعین اور ناظرین کودین ودنیا کا آئینہ آسانی سے دکھایا جاسکے، اس لیے سائنس اور ادب ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔‘‘

خواجہ احمد عباس نے سائنس اور شاعری کے حوالے سے اردو ہفتہ وار ’ بلٹز‘ میں ان پر باقاعدہ کالم لکھا۔ اس کا عنوان تھا ’سائنس اور شاعری‘۔ اس کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اردو میں ’سائنس کی دنیا‘سارے برصغیرمیںاپنی نوعیت کا واحداور بے مثل رسالہ ہے اور اس کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ ایک شاعر اور دانشور کی زیر ادارت نکلتا ہے۔یہ شاعر اپنی لگن اور اردو میں سائنس کی واقفیت کی وجہ سے اس کے بانی ہیں اور اس سے وابستہ ہیں۔ حکومت کے کتنے ہی اردورسالے ملک میں نکلتے ہیں، جن میں بہ آسانی ایک مشہور ادیب وشاعر کو جگہ مل سکتی ہے۔مگر اردو کوسائنس کے علوم سے مالا مال کرنے کا یہ جذبہ اور کوشش ان کے ہی حصے میںآئی، جس کا انھوں نے لاجواب حق ادا کرکے دکھایا۔ یہ شاعر ہیں علامہ پنڈت زار دہلوی(یادگار داغ)کے صاحب زادے پنڈت گلزار زتشی دہلوی، جو کہ ساٹھ برس کے ہونے پر بھی خوب رو، جامہ زیب صاحبزادے معلوم ہوتے ہیں۔ نوجوانی ان کے سرخ وسفید چہرے پر لکھی ہوئی ہے۔حال ہی میں اودے پور کے ایک مشاعرے میںوہ نوجوان ترین شاعر معلوم ہوتے تھے۔ اگرچہ وہاں دس بارہ ان سے کم عمر شاعراور بھی موجود تھے، مگر گلزار صاحب باتوں کے انداز سے، پڑھنے کے اسٹائل سے اور اپنے خیالات کے باغیانہ اسلوب سے نوجوان ہی لگتے تھے۔‘‘

خواجہ احمد عباس نے اردو ’ بلٹز‘میں یہ کالم اب سے کوئی 34برس پہلے لکھا تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلزار دہلوی 94برس کی عمر تک اسی طرح تروتازہ رہے اور انھوں نے اس عمر میں بھی کورونا جیسے موذی مرض کو ہرایا تھا مگر اس کے چند روزبعد ہی وہ ہم سے رخصت ہوگئے۔


Masoom Moradabadi

Z-103, Taj Enclave, Geeta Colony,

Delhi-110031




ماہنام اردو دنیا،ستمبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں