3/11/20

مشرقی پنجاب میں اردو صحافت امتیازات و خصوصیات : مضمون نگار: یوسف رامپوری



 مشرقی پنجاب‘ سرزمینِ ہند کا وہ خطہ ہے جس نے اردو کے ارتقاوفروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اردو سے اس علاقے کا رشتہ شروع سے ہی رہا ہے ۔اسی لیے بعض ماہرین لسانیات کواردو کی جڑیں پنجاب کی مٹی میں نظرآئیں۔ اردو سے پنجاب کے دیرینہ تعلق ہی کی وجہ سے یہاں اردو کی مختلف اصناف کے ماہرین ومشاہیر نے جنم لیااوردنیا بھر میں اپنی انفرادیت و شناخت قائم کی۔ حالانکہ تقسیمِ ہند کے سانحہ اور امتدادِ زمانہ کے باعث پنجاب کی جغرافیائی حدود تبدیل ہوئیں ، مگر اردو مختلف قسم کے تغیرات کے بعدبھی پنجاب میں زندہ رہی۔جہاں تک اردو صحافت کی بات ہے تو پنجاب میں اردو صحافت کا ایک تابناک ماضی رہا ہے اور آج بھی اردو صحافت پنجاب میں زندہ ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ پنجاب میں اردو صحافت کو عہد بہ عہد مختلف النوع حالات سے گزرنا پڑا ۔

 پنجاب میں اردو صحافت کے آغاز کازمانہ وہی ہے جو اردو صحافت کے باضابطہ وجود میں آنے کا زمانہ ہے۔پنجاب میں اردو کا باضابطہ پہلا مطبوعہ اخبار ہفتہ وار ’کوہِ نور‘ کو قرار دیا جاتاہے جو14؍جنوری1850کو لاہور سے نکلنا شروع ہواتھا۔ انیسویں صدی کے وسط کا ہی زمانہ دراصل قومی سطح پر اردو صحافت کے وقوع پذیر ہونے کا زمانہ ہے ۔اگرچہ اس سے پہلے بھی چند اردو اخبارات ضرور منظرعام پر آئے تھے ، جیسے ’جام جہاں نما‘ (1822)، دہلی اردو اخبار(1836)۔ان کے بعد 1850تک اور بھی کئی اخبارات نکلنا شروع ہوئے مگر ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ ہاں 1850کے اردگرد ضرور خاصی تعداد میں ملک کے مختلف علاقوںوخطوں سے اردواخبارات تیزی کے ساتھ منظرعام پر آئے۔ اردو صحافت کے اس ابتدائی زمانے میں پنجاب پیش پیش رہا۔

 اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ 1850سے لے کر 1857تک صرف سات برسوںمیں تقریباً 16اخبارات پنجاب کے افق پر جلوہ گر ہوئے۔ پنجاب سے نکلنے والے اس عہد کے اخبارات نے 1857 کی تحریک میںاسی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیاجس طرح دوسرے صوبوں کے مختلف اخبارات نے لیا تھا ۔ جیسے جیسے1857کا زمانہ ماضی بعید کے دھندلکوںمیں روپوش ہوتا گیا ، پنجاب میں اردو اخبارات ورسائل کی تعداد بڑھنے لگی ۔بیسویں صدی کے اوائل اور وسط میں پنجاب اردو صحافت کے اہم مراکزمیں سے ایک تھا کیونکہ یہاں سے اس زمانے میں مجموعی طورپر سیکڑوں اخبارات ورسائل شائع ہوتے تھے، مگر تقسیم وطن کے سانحے کے ساتھ پنجاب بھی تقسیم ہوگیا ، اس لیے پنجاب سے نکلنے والے اخبارات بھی جغرافیائی حدود کی تقسیم کا شکار ہوکر منقسم ہوگئے۔ ہندوستان میں واقع پنجاب’ مشرقی پنجاب‘ کہلایا۔ گوکہ اس جغرافیائی تقسیم کے بعد اردو اخبارات و رسائل کی معتدبہ تعداد مغربی پنجاب کے ساتھ وابستہ ہوگئی ،تاہم دوسری جانب مشرقی پنجاب کی گود بھی اردو صحافت سے خالی نہ رہی ۔ تقسیمِ وطن کے بعد اردو صحافت پنجاب میں زندہ اور تابندہ رہی ، اور اس صوبے سے پرانے اخبارات کے ساتھ نئے روزنامے، ہفتہ وار، اورماہنامے شائع ہوتے رہے، لیکن بیسویں صدی کی نویں دہائی کا زمانہ مشرقی پنجاب میں اردو اخبارات کے لیے بڑا صبر آزما ثابت ہوا۔

1984کے واقعہ سے پورا مشرقی پنجاب متاثرہوا تو اردو اخبارات بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، اس دہائی میں کئی سارے رسائل وجرائد اور روزناموں کی اشاعت بند ہوگئی۔ 1947سے 1984تک کے دور کو مشرقی پنجاب میں اردوصحافت کا روشن دور کہا جاسکتاہے ۔اس لیے کہ اس زمانے میں یہاں اردو اخبارات ورسائل خوب نکلتے تھے۔اس کااندازہ ڈاکٹر محمد اسلم کے پیش کردہ اعداوشمار سے کیا جاسکتاہے کہ 1947سے 1984تک کے درمیانی عرصے میں اردو کے 20روزنامہ اخبارات،78 ہفتہ واراخبارات، 31پندرہ روزہ اخبارات، 48ماہانہ رسائل شائع ہوتے تھے ، لیکن 1984کے بعد یہ تعداد خاصی کم ہوگئی ، البتہ آج بھی اردو کے کئی اہم اخبارات ورسائل مشرقی پنجاب کے مختلف اضلاع سے شائع ہورہے ہیں۔ ان میں روزنامہ ’ہندسماچار‘کو اولیت حاصل ہے جو جالندھر اور چنڈی گڑھ سے پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے ۔یہ اخبار نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔

پنجاب کے جن اخبارات کو اپنے اپنے زمانے میں مقبولیت حاصل ہوئی ،ان میں روزنامہ ملاپ جالندھر، روزنا پرتاپ جالندھر، روزنامہ اجیت امرتسروجالندھر، ہندسماچار جالندھر،لدھیانہ ایکسپریس لدھیانہ، نوائے ملت لدھیانہ، تازہ اخبار لدھیانہ وغیرہ کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ان میں سے بیشتر اب بند ہوچکے ہیں ، لیکن جس زمانے میں وہ شائع ہوتے تھے ، انھیں خاصی مقبولیت حاصل تھی۔ان کے علاوہ اور بھی درجنوں اخبارات مشرقی پنجاب سے نکلے اور بند ہوئے۔اس طرح پنجاب کی سرزمین سے شائع ہونے والے کئی اخبارات نے اپنی شناخت بنائی اور خوب پذیرائی حاصل کی ۔

 اہم ہفتہ وار اخبارات کے طورپرہفتہ روزہ کوٹلہ ٹائمز،  ہفت روزہ صدائے اہل پنجاب،  ہفت روزہ جذبات،  ہفت روزہ چنگاری، پنجاب گزٹ،دوآبہ، طوفان، صدائے وقت ، عوامی تحریک،نذرانہ ،عوامی جمہوریت کا تذکرہ کرنا ناگزیر ہے۔مشرقی پنجاب سے نکلنے والے درجنوں  ہفت روزہ اخبارات میں اور بھی کئی اخبارات کو عوام وخواص کے درمیان پسند کیا گیا ۔اگرماہانہ رسائل کی بات کریں تو مشرقی پنجاب سے نکلنے والے ایسے ماہانہ رسائل کی بھی بڑی تعداد ہے جن کا حلقۂ قارئین وسیع تھا ۔مثلاً ماہانہ پاسبان، ماہانہ پکھراج، ماہانہ پرواز ِادب، ماہانہ دارالسلام ،جاں نثار، تعمیرسیرت، ساقی ،پروازوغیرہ۔مشرقی پنجاب میں ماہانہ، دوماہی اور سہ ماہی رسائل کی تعداد پچاس سے بھی زائد رہی ہے ، جن میں سے اکثر اب بند ہوچکے ہیں۔

مشرقی پنجاب کی سرزمین نے ایسے سیکڑں اردو صحافی پیدا کیے ہیں جنھوں نے اردو صحافت کو آگے بڑھایا۔ دوسرے صوبوں کے بھی بہت سے افراد کی صحافیانہ صلاحیتوں کو پنجاب سے نکلنے والے اخبارات ورسائل نے نکھارا ہے۔ اردو کے معروف ادیب وصحافی مولانا ابوالکلام آزاد نے ’وکیل‘ امرتسر سے وابستہ رہ کر اپنی صحافیانہ  صلاحیتوںکو نکھارا اور اس کے بعد ایک بہت ہی معیاری اور کامیاب ومقبول ہفتہ وار اخبار ’الہلال‘ جاری کیا ، جو اردو صحافت کے آسمان پر پوری تابانی کے ساتھ چمکا اور اردو صحافت کو ایک معیار ووقار عطا کرنے میں کامیاب ہوا۔ 

مشرقی پنجاب کی اردوصحافت ہندوستان کے مختلف صوبوں کی اردو صحافت سے کچھ مماثلت بھی رکھتی ہے اور کچھ تفاوت بھی۔اس کا اندازہ مختلف اخبارات ورسائل کے نئے اور پرانے شماروں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر جس طرح مختلف صوبوں کی اردو صحافت نے 1857 میں اپنا کردار اداکیا ،اسی طرح مشرقی پنجاب کے اخبارات نے اپنا رول نبھایا۔ایسے ہی جس طرح ملک کے زیادہ تراردو اخبارات ورسائل ہندوستان کی آزادی کے خواہاں رہے ،اسی طرح پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل بھی آزادیٔ ہندکے علمبرداررہے ۔ مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل نے قومی ، عالمی ، علاقائی خبروں اور رپورٹوں کو جگہ دی ۔

اردو اخبارات وجرائدخواہ وہ کسی بھی جگہ سے نکلتے ہوں بالعموم سماجی، ادبی، تعلیمی ضمیمے نکلتے ہیں،مشرقی پنجاب کے اخبارات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔ ان میں الگ الگ موضوعات پر گوشے اور ضمیمے شائع ہوتے رہے ہیں۔ مشرقی پنجاب کے بعض اخباروں کے ضمیمے گراں قدر اوربہت معیاری ہوتے ہیں ،بالخصوص ادب کے حوالے سے پنجاب کے زیادہ تر اخبارات میں ضمیمے اورنمبرات شائع ہوتے تھے۔ملاپ میں ادبی مضامین، شعروشاعری، افسانے اہمیت کے ساتھ شائع کیے جاتے تھے، ہندسماچار میں بھی شعروشاعری، افسانے، تنقیدی وادبی مضامین، طنزو مزاح، تبصرے اور جائزے شاملِ اشاعت کیے جاتے رہے ہیں۔لدھیانہ ایکسپریس  نے صفحہ نمبر 12 اور15 ادبی مواد کے لیے وقف کیاہوا تھا۔ ’ویکلی لیڈی راج،  ہفت روزہ جذبات،  ہفت روزہ صدائے اہل پنجاب( مالیرکوٹلہ)جیسے اخبارات ادبی مواد کی اشاعت پرخصوصی توجہ دیتے تھے۔مشرقی پنجاب کے اخبارات کتابت، طباعت اور تزئین کے لحاظ سے وقت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔

پنجاب کی اردو صحافت بعض اعتبارسے دوسرے مقامات کی اردو صحافت کے مقابلے میں کچھ ایسی خصوصیات کی حامل جنھیں جسے وہاں کی اردو صحافت کا امتیاز کہا جاسکتا ہے ۔ مثال کے طورپر پنجاب کے اردو اخبارات کی زبان ملک کی دوسری ریاستوں کے اردو اخبارات سے الگ نظر آتی ہے۔یہاں کے اخبارات میں ہندی اورپنجابی کے الفاظ کثرت کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں،جب کہ دوسرے صوبوں کے اردو اخبارات ورسائل اتنے زیادہ ہندی الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے  ہیں۔مثال کے طورپر’ ہند سماچار‘ کے یکم فروری کے شمارے میں شائع یہ خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’آتنک واد پر پاکستان کے دوہرے رویے کی وجہ سے افغانستان نے اس سے دوری بنالی ہے۔افغانستان کے راشٹرپتی اشرف غنی نے آج پاکستان کے پردھان منتری شاہد عباسی سے فون پر بات کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔‘‘ (ہند سماچار، یکم فروری، 2018)

اس اقتباس میں آتنک واد، راشٹرپتی ، پردھان منتری وہ ہندی الفاظ ہیں جنھیں دوسرے مقامات کے اردو اخبارات استعمال نہیں کرتے ، وہ آتنک واد کی جگہ دہشت گردی، راشٹرپتی کی جگہ صدرجمہوریہ اور پردھان منتری کی جگہ وزیر اعظم لکھتے ہیں،البتہ اب زبان کی صورت حال میں کافی فرق آرہا ہے اور اس کی غالباً بنیادی  وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے اردو اخبارات ایجنسیوں کی خبریں شائع کررہے ہیں اور زیادہ ترایجنسیاں اردو خبروں میں ہندی ،پنجابی الفاظ کے استعمال سے گریز کرتی ہیں۔

مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات کا انفراد یہ بھی ہے کہ ان کے زیادہ تر ایڈیٹران اور مالکان غیر مسلم رہے ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ اردو کسی خاص طبقے کی زبان نہ کل تھی اور نہ آج ہے۔ذیل کی تفصیل سے اندازہ کیاجاسکتاہے :

اخبارات کا نام        ایڈیٹر؍مالک

محنت ،جالندھر      ستیہ نند شاکر

سندیش ،لدھیانہ    برہم دیوموہالہ

بے بس ،لدھیانہ    دھرم پال کپور

نوائے ملت، لدھیانہ            سریند رسود

ترجمان، لدھیانہ    امرداس بھاٹیہ

عوامی اخبار،امرتسر            رتن سنگھ

آزاد بھارت ،امرتسر           نہل سنگھ

نیشنل فرنٹ ،لدھیانہ           موہن لال

جمہوری سوشلزم، امرتسر      پیارے لال کوثر

نئی منزل، لدھیانہ   جوگندرلال پانڈے

ڈگر ،بھٹنڈہ پنجاب   مدن لال کیف

رہبر،گورداس پور  اوم پرکاش

پندرہ روزہ اخبارآزادجگت ،لدھیانہ        اونکار ناتھ شرما

آنِ پنجاب، پٹھانکوٹ           کرپال سنگھ

نیل کمل ،پٹھانکوٹ برج موہن

عوامی لیڈر،امرتسر ہربھجن مجبور

حیات ،لدھیانہ      اودے چند

ماہنامہ رازِ صحت، جالندھر      بہاری لال کھتری

پیغامِ صحت ،فیروزم پور         ہنسراج

پرواز،لدھیانہ       راج شرما

نگارش، مہندر باواامرتسر      مہندر باوا

منور ،امرتسر        پریم کمار ساز

جن سنسار،امرتسر آرایل بھنڈاری

گرداب ،امرتسر    رام رچھپال پروانہ

ساری دنیا، امرتسر  امرناتھ

تعمیر سیرت ،مالیر کوٹلہ         مولانا مفتی فضیل الرحمن

انمول رتن، تگرن تارن پنجاب           کلدیپ سنگھ

مذکورہ فہرست سے ظاہرہے کہ مشرقی پنجاب میں اردو صحافت کو مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے ا پنا یا۔ اس فہرست سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مشرقی پنجاب کی اردو صحافت میں مسلمانوںکی نمائندگی بہت کم رہی ہے۔ مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ بلاتفریق مذہب وملت اردوپنجاب کے باشندوں کی پسندیدہ زبان رہی ہے اور پنجاب کے لوگوں نے دل کھول کر اپنے خیالات ونظریات کی اشاعت   وترسیل کا ذریعہ اردو کوبنایا اور یہ تاثر دیا کہ اردو پر ان کا بھی اتناہی حق ہے جتنا دوسروںکا۔اخبارات ورسائل کی مذکورہ تفصیل سے اس بات کی بھی آگہی ہوتی ہے کہ پنجاب میں اردو رسائل واخبارات کے زیادہ تر قاری غیر مسلم رہے ہیں۔کیونکہ وہاں کے اردو اخبارات میں مسلمانوں کے مسائل کم اور سکھوں وہندوؤں کے مسائل زیادہ ملتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مشرقی پنجاب میں اردو صحافی مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم تھے اور ہیں۔

مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل اس اعتبار سے دوسرے صوبوں کے اردو اخبارات ورسائل سے جدانظرآتے ہیں کہ ان میں مسلم کلچر کی جھلک کم دکھائی دیتی ہے، جب کہ دوسرے مقامات کے اخبارات خواہ وہ دہلی سے نکلنے والے ہوں یا اترپردیش سے ، یا مغربی بنگال ، گجرات، مہاراشٹر ، کرناٹک، وغیرہ سے ، ہر جگہ اردواخبارات مسلمانوںکی زیادہ باتیں کرتے ہیں، ان کے مسائل اٹھاتے ہیں وغیرہ۔ جب کہ مشرقی پنجاب کے اردو اخبارات ورسائل سے یہ تاثر قائم نہیں ہوتا۔ چند فیصد اخبارات ورسائل کا ضرور استثنا کیا جاسکتاہے۔ مگرمجموعی طورپر یہاں کے اخبارات پر مسلم چھاپ نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں کے اردو اخبارات ورسائل پر مسلمانوں کی چھاپ واضح طورسے نظرآتی ہے۔دوسرے صوبوں کی اردو صحافت میں زیادہ تر کیا بلکہ 80-90 فیصد مسلمان صحافی ہیں ، ہندوئوں یا سکھوں کی تعداد بہت کم ہے یا نہ کے برابر ہے۔یہ صورتِ حال یوپی ، دہلی ، مغربی بنگال ، مہاراشٹر ، گجرات، حیدرآباد ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ اس تناظر میں مشرقی پنجاب کی اردو صحافت کا منظرنامہ مختلف ہے، اسے مشرقی پنجاب کی اردو صحافت کا امتیاز بھی کہاجاسکتاہے۔ 

اس حوالے سے یہ بات فخر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کا حقیقی چہرہ پنجاب میں پہلے بھی دکھائی دیتا تھا اور آج بھی نظر آتا ہے۔یعنی اردو پر کسی خاص قوم یا ملت کی اجارہ داری نہیں ہے ، وہ گنگاجمنی تہذیب کی علمبردار وآئینہ دار ہے۔یہ الگ بات ہے کہ تقسیم وطن کے بعد اردو کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور بہت سی جگہوں پر یہ رویہ اختیار کیا گیا۔ بہت سی جگہوں پر غیر مسلم خاندانوں نے اردو سے رشتہ منقطع کرلیا ،اور بہت سی جگہوں پر اردو کو مسلمانوں نے اپنا لیا ، مگر مشرقی پنجاب اس طرح کے تصور سے الگ رہا اور اس نے اردوکے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا ،یہاں تقسیم وطن کے بعد بھی اردومیں اخبارات ورسائل نکالے گئے، اردواخبارات خریدے، پڑھے گئے، اردومیں لکھاگیا اوراردوکو اپنے خیالات ونظریات کی تبلیغ کا ذریعہ بنایاگیا۔

 پنجاب میں اردو کی اس صورت حال کوآزادی کے بعد بھی برقراررکھنے میں مشرقی پنجاب کی اردو صحافت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مشرقی پنجاب میں اردو جاننے والوں، پڑھنے سمجھنے والوں اور اردو بولنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے مگر ساتھ ہی اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے پنجاب میں اردو کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے اور نئی نسلیں اردو کی طرف کم متوجہ ہورہی ہیں۔ جہاں اس کی دوسری بہت سی وجوہات ہیں، وہیں ایک وجہ یہ بھی نظرآتی ہے کہ فی زمانہ یہاں اردو صحافت کازور خاصا کم ہوگیا ہے، اردو اخبارات و رسائل کی تعداد بھی گھٹی ہے اور ان کے قارئین کی بھی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرقی پنجاب میں اردو صحافت کو پھر سے مقبول بنانے کی کوشش کی جائے ،مزید اردو اخبارات ورسائل جاری کیے جائیں اور اردوقارئین کی تعداد میں اضافہ کرنے کی بھی تگ ودوکی جائے ۔اردو صحافت کا جو منظرنامہ ماضی میں پنجاب کی سرزمین پر نظرآتا تھا ، اس کے احیا کی سعی کی جائے۔


Dr. Yusuf  Rampuri

Mohalla Tandola Tanda

Rampur-244925 (UP)


 ماہنامہ اردو دنیا، ، ستمبر 2020


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں