3/11/20

جنوبی ہند کی شہروں اور علاقوں کے نام پر اردو کے اثرات مضمون نگار: عائشہ صدیقہ


 

اردو زبان کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں یہ زبان بولی اور سمجھی گئی۔ وہاں نہ صرف زبان کی سطح تک اس کا اثر پڑابلکہ گاؤں اور شہروں کے نام بھی اردو سے متاثر ہوئے ہیں اسی لیے میں نے اس مقالے میں اردو سے متاثر گاؤں اور شہروں کے ناموں کویکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔  آرکاٹ والیانِ کرناٹک کا صدر مقام تھا، یہ مقام پہلے ریاست پورہ کے نام سے مشہور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کے نشیب و فراز اور پہاڑیوں سے قیمتی پتھردستیاب ہوا کرتے تھے، اس علاقے میں حضرت ٹیپو اولیا کا مزار بھی ہے جو چار سو سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ نواب حیدر علی والی میسور جب ریاست پورہ آئے تو انھوں نے حضرت ٹیپو اولیا کی زیارت کی اور اولاد کے لیے ان کے مزار پر کھڑے ہوکر منت مانگی تھی جو اللہ کے فضل و کرم سے قبول ہوگئی اور انھیں لڑکاتولد ہوا۔ نواب حیدر علی نے اپنے لڑکے کا نام ٹیپو سلطان رکھا جو آگے چل کر میسور کے نواب بنے، آج ریاست پورہ کا نام بدل کر تمل بولنے والوں نے اسے آرکاٹ کے نام سے موسوم کردیا ہے۔تمل زبان میں آر‘ کے معنی ندی اور’کاڈ‘ کے معنی جنگل ہیں، چونکہ نواب سعادت اللہ خان والی آرکاٹ بھی تھے اپنے دور حکومت میں جنگل کو کاٹ کر یہاں ایک نہر جاری کروائی تھی تاکہ فوج کے پڑاؤ کے وقت انھیں پانی میسر آئے اس لیے یہ مقام تمل زبان میں آرکاٹ سے موسوم کیا گیا، تمل ناڈو کے سیاسی نقشے میں آرکاٹ کو ایک مشہورعلاقے کی حیثیت حاصل ہوگئی، مگر اس نام سے آج کی نسل چنداں واقف نہیں ہے جو کبھی ریاست پورہ کے نام سے مشہور تھا۔

ویلور شمالی آرکاٹ کا صدر مقام ہے ایک تاریخی شہر ہے جو ریاست کے مغربی اضلاع کو تمل ناڈو کی راجدھانی یعنی مدراس سے جوڑتا ہے، اس شہر کی سب سے بڑی پہچان یہاں کا قلعہ ہے جو والیانِ کرناٹک کے دور میں تعمیر کیا گیا، اس شہر میں ایک قدیم عربی درسگاہ بھی ہے جو دار العلوم لطیفیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس درسگاہ کے بانی مولاناقربی ہیں جسے بعد میں ان کے اخلاف نے توسیعی عمارات بنا کر اسے عزت و توقیر بخشی مولانا قربی کے زمانے میں ویلور ’دارالسرور‘کے نام سے مشہور تھاکیونکہ یہ شہر ہر پریشاں حال مسافر یا اجنبی کو سکون و اطمینان بخشتا تھا، اب اسے تمل زبان والوں نے دارالسرور کو بگاڑ کر ویلور بنا دیا ہے اور یہ شہر اسی نام سے جانا جاتا ہے، یہاں یہ بات یاد رہے کہ تمل بولنے والوں کی اکثریت نے لفظ دارالسرور کو توڑ مروڑ کر ویلور بنا دیا اور صدیوں سے یہ شہر اسی نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اکثریتی زبان ہمیشہ اقلیتی زبان کے ناموں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ (بحوالہ پروفیسر سید سجاد حسین)

مدراس میں والاجاہی سلطنت کے عہد میں اور اس عہد کے خاتمے کے بعدیہاں کے مقامات، علاقوں اور گلیوں کے نام جو حکمرانوں اور صاحب اقتدار لوگوں کے ناموں سے منسوب کیے گئے تھے وہ گزرتے زمانے کے ساتھ لسانی طور پر تبدیلیوں سے دو چار ہونے لگے، حتیٰ کہ آج ان مقامات پرتمل زبان کے لسانی اثرات اس قدر مرتب ہوئے ہیں کہ لوگ ان کے قدیم ناموں سے خال خال ہی واقف ہیں، مثال کے طور پر نواب غلام غوث اعظم کے دور میں ساحل سمندر کے قریب شام کے وقت چہل قدمی کے لیے اپنی بیگمات اور شاہی خاندان کے افراد کے لیے نوابان آرکاٹ نے چھ باغ بنائے تھے جہاں وہ شام کے وقت آرام کرتے اور پھر اپنے محل لوٹ جاتے تھے، ایک زمانے تک یہ مقام چھ باغ کے نام ہی سے جانا جاتا تھا، لیکن آزادی کے بعد تمل ناڈو میں سیاسی پارٹیوں  اقتدار میں آنے کے بعد یہ نام ’چیپاک‘ میں بدل گیا، اسے تمل زبان کا لسانی اثر ہی کہنا چاہیے۔ آگے چل کر یہ مقام جو چیپاک کہلاتا تھا اب ’چیپاکم‘ بن گیا ہے۔اسی طرح نواب صاحب کی ایک بیگم کا نام بڈی بیگم تھا اور ان کے نام سے گلی بڈی بیگم شہر کے ٹرپلیکین علاقے میں آج بھی موجود ہے۔مگر تمل کے اثرات نے اسے بگاڑ کر بیدی اسٹریٹ بنادیا ہے۔

شہر مدراس کے مضافات میں ایک علاقہ سعید آباد کے نام سے جو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو نواب سعید کے نام پر رکھا گیا تھا، اسے اس وقت کے لوگ سعید آباد کے نام سے جانتے پہچانتے تھے لیکن تمل زبان بولنے والوں نے سعید آباد کے نام کو اس قدر تہس نہس کردیا ہے کہ یہ نام اب سعیدہ پیٹئی ہوگیا ہے، اور یہی نام اب لوگوں کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ شہرمدراس میں ایک جگہ کا نام ہے ’مئیلاپور‘ اس علاقے میں ایک بڑا مندر بھی ہے نواب غلام غوث خان اعظم نے مندر کے پجاریوں کی درخواست پر ایک بڑی جگہ انھیں انعام میں دی تھی جہاں پر مندر کی انتظامیہ نے پانی کا ایک بڑا گنٹھا بنا لیا ہے یہ جگہ پہلے ’مولا پور‘ کے نام سے موسوم تھی چونکہ یہاں مولانا مہربان فخری نائطی آرام فرما ہیں، مولانا کی نسبت سے اس جگہ کا نام مولا پور رکھا گیا تھا جو آگے چل کر تمل زبان کی لسانی زد میں آکر’میلا پور‘ بن گیا آج یہ جگہ اسی نام سے جانی جاتی ہے۔

(بحوالہ پروفیسر سید سجاد حسین، سابق صدر شعبہ اردو، مدراس یونیورسٹی)

زبانوں کے لسانی اثرات جو علاقوں اور شہروں کے نام پر مرتب ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس اقتباس سے بھی لگایا جاسکتا ہے سرینیواس شاستری اپنی کتاب ’ہسٹری آف اولڈمدراس اسٹیٹ‘ میں رقم طراز ہیں کہ ضلع کڈلور کے قریب ایک قدیم بندر گاہ جس کا نام ’فرنگی پیٹ‘ ہے جہاں انگریزوں کے جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں یہ علاقہ کیونکہ انگریزوں کی آمد اور ان کے قیام کا مرکز رہا ہے اسی لیے اسے ’پرنگی پیٹـ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک زمانے کے بعد جب یہاں تمل بولنے والوں کی آبادی بڑھنے لگی تو اس علاقے کو فرنگی پیٹ کے بجائے پرنگی پیٹ کہا جانے لگا، کیونکہ تمل زبان میں ف کی آواز پ میں بدل جاتی ہے، اسی لیے تمل بولنے والے اس کو فرنگی پیٹ کے بجائے پرنگی پیٹ کہنے لگے۔

دیوان صاحب باغ مدراس شہر کا ایک اہم علاقہ ہے جو قلب شہر میں واقع ہے جہاں پر نواب غوث خان اعظم کے دیوان اور قاضی القضات کے اہل خاندان رہا کرتے تھے، اب یہ علاقہ ایک گنجان آبادی میں منتقل ہوچکا ہے نواب غوث خان اعظم نے یہ علاقہ قاضی القضات اور ان کے اہل خاندان کو بطور انعام دیا تھاآج بھی قضا کے عہدے پر اسی خاندان کے افراد منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ اگر چہ اردو والے اس علاقے کے نام کو ’دیوان صاحب باغ‘ کے نام سے ہی جانتے ہیں، جبکہ غیر اردو دان طبقہ اسے ’پئیتیاکارتوٹم‘ کے نام سے پہچانتا ہے یہاں اس بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ دیوان صاحب باغ کو غیر اردو دان یہ سمجھنے لگے کہ یہاں پاگل قسم کے لوگ رہتے ہیں اسی لیے انھوں نے دیوان کو دیوانے سمجھ کر اسے تمل زبان میں’ پئیتیاکار توٹم‘ ترجمہ کردیا۔ آج تک غیر اردو دان طبقہ ’دیوان صاحب باغ‘ کو ’پئیتیاکارتوٹم ہی کہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کس طرح ایک زبان کا لفظ ذرا سی غلط فہمی کی وجہ سے دوسری زبان میں غلط ترجمے کے ساتھ زبان زدخاص و عام ہوجاتا ہے۔

دومختلف لسانی بنیاد رکھنے والے الفاظ واصوات اور دو الگ الگ تہذیبی پس منظر رکھنے والی زبانوں کا ملاپ کسی بھی جہت او رکسی بھی زاویے سے کیوں نہ ہو، ادبی اعتبار سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم اسی تناظر میں اردو اورتمل زبانوں کے اتحاد کی ادنیٰ امکانی صورت پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ان دونوں کا سنجوگ راہو اور کیتو کے ملاپ کی طرح منحوس نہیں بلکہ نیک فال کاباعث ہے۔

ہندوستان کی تمام مروجہ زبانوںمیں اردو سب سے کم سن زبان ہے، جس کی عمر تقریباً سات سو سال کہی جاسکتی ہے، اس کے مقابل تمل لگ بھگ چار ہزار سال قدیم زبان ہے جس کے شواہد سندھ (پاکستان) میں موجود ہرپااورموہنجودارو کے غاروں میں موجودہیں جہاں پتھروں پر لکھی ہوئی تمل تحریریں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ یہ زبان نہایت عمر رسیدہ اور انتہائی جہاں دیدہ ہے۔ تمل زبان کا تعلق قدیم ہند دراویڈی زبانوں کے قبیلے سے ہے جبکہ اردو جدیدہند آریائی زبانوں کے خاندان کی تسلیم کی گئی ہے جوبقول مصنف آبِ حیات مولانا محمد حسین آزاد  ( متوفی 1328ھ) برج بھاشا سے نکلی ہے مگر ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خان نے اپنی گرانقدر تصنیف ’مقدمۂ تاریخ زبانِ اردو‘ کے نویں اڈیشن مطبوعہ 1988 میںکھڑی بولی اور ہریانوی کواردو کی اساس قرار دیا ہے حالانکہ کھڑی بولی بقول سرجارج گریرسن برج بھاشا او رپنجابی کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے۔ (لنگویسٹک سروے آف انڈیا مطبوعہ 1990، ماخوذ از ماہنامہ آج کل، ستمبر2008 ص19)۔یہاں اس حقیقت کا اظہار  بے محل نہ ہوگا کہ اردو کے اولین نقاد علامہ باقر آگاہ ویلوری ( متوفی 1220ھ) نے مثنوی ’ گلزارعشق‘ کے مقدمہ میں مولانا محمد حسین آزاد سے سوسال پیشتر اس بات کی اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ اردو کی اصل ’برج بھاشا‘ ہے جس کا اعتراف ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’ تاریخ ادبِ اردو ‘ (جلد دوم،حصہ دوم) میں کیا ہے۔

اردو زبان کے اثرات ہندوستان میں رائج ہر زبان پر مرتب ہوئے ہیں، یہ اس لیے کہ یہی ایک واحد زبان ہے جس کااثر ورسوخ تحریک آزادی کے دوران ہی نہیں بلکہ آزادی کی جدوجہد سے قبل او راس کے مابعد بھی ملک کے طول وعرض میں پھیلا ہوا تھا، اردو زبان کی شیرینی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور اردو کے اشعار اور اس کے محاورے زبان زدِ خاص وعام ہوچلے تھے۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ ملک کی مختلف ریاستوں کے حکمرانوں کے عہد میں مروجہ فارسی آمیز اردو کی محکمہ جاتی اصطلاحات میں تبدیلی ظاہرہونے لگی۔ یہاں تک کہ شہروں اور علاقوں کے خالص اردو ناموں کے تلفظ میں بھی کافی فرق محسوس ہونے لگا۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ مرور زمانہ کی نیرنگیاں ہوں یا تحفظاتِ لسانی کی ستم ظریفیاں، بہر حال یہ عمل دومختلف زبانوں کے مصافحے اور معانقے کا سبب بن گیا۔ جیسے ریاستِ کیرل کا مشہور شہر ’ قاضی کوٹ‘، ’کوزی کوڈی‘ کی صورت اختیار کرگیا، اسی طرح صوبہ ٔ آندھرا پردیش کابندرگاہی وتجارتی شہر ’اسحاق پیٹ‘، ’ وساکھاپٹنم‘ کے نام سے شہرت پاگیا، انھیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہر بنگلور کا معروف علاقہ ’ خوشحال نگر‘، ’کشال نگر‘ کے نام سے موسوم ہونے لگا، غرض اس جیسی سیکڑوں مثالیں ذرا سی توجہ سے ہمیں دستیاب ہوسکتی ہیں۔  اس مقام پر یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ ناموں کی تبدیلی کامذکورہ عمل کہیں کلی طور پر ہوا ہے اور کہیں جزوی طور پر۔ مثلاً’شہر وشارم ‘ (ضلع ویلور ) کا قدیم نام ’ حراست پور‘ تھا    جو نواب محمد علی والا جاہ کے نسبتی برادر اوروالی سات گڈھ نواب حراست خان ( متوفی 1165ھ) کے نام سے منسوب تھا، حراست خان کے تعلق سے نامور شاعر ولی ویلوری ( متوفی 1162ھ تقریباً) نے اپنی ضخیم مثنوی’ رتن پدم‘ میں یوں رقم کیا ہے۔  (ڈاکٹر راہی فدائی، تمل اور اردو کا ادبی اشتراک)

’’ حراست خاں امیر اک نامور تھا …سکونت گاہ اس کوں سات گھر تھا‘‘

(استشھاد ، ص516، از ڈاکٹر راہی فدائی، مطبوعہ 2012ھ)

جزوی طور پر شہروں کے ناموں میں جو تغیر واقع ہوا وہ بھی کئی طرح کا ہے۔ کہیں ایک دو حرف بدل گئے ہیں تو کہیں مقامی تلفظ کی وجہ سے کئی حروف کا الٹ پھیر ہوا ہے۔ جیسے تمل ناڈو کا ساحلی شہر جہاں صدیوں پیشتر قاہرہ (مصر) سے لوگ آکر آباد ہوگئے تھے، وہ ’قاہرہ پٹن‘ کہلاتا تھا مگر اب وہ ’کایل پٹنم‘ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتاہے۔ اسی طرح شمالی آرکاٹ کے شہر ت یافتہ اطبا کا مسکن شہر ’ پرنام بٹ‘ کا قدیم نام ’ پیاری بیگم پیٹ‘ تھا جو نوابانِ والاجاہ کے خاندان کی قابل احترام خاتون نواب پیاری بیگم کی نسبت سے مشہور ہوا تھا۔ تمل ناڈو اور کرناٹک کی سرحد پر واقع صنعتی شہر ہسورکے قریب ایک قصبہ میں مسلمانوں کی کافی آبادی موجود ہے، جس کو سالہا سال سے ’دکنی کوٹا‘ کہا جاتا تھا مگر اب اس نے ’ تین کنی کوٹے‘ (شہد کا چھتہ) کا روپ دھارلیا ہے۔

ڈاکٹر راہی فدائی: تمل اور اردو کا ادبی اشتراک میں رقم دراز ہیں :’ راقم  الحروف نے سفر’ناگور ‘ کے دوران ’چدم برم‘ کے نزدیک ایک بڑا سا گاؤں دیکھا جس کا نام ’ کالی پورمبو‘ لکھا ہوا تھا، راقم نے وہاں کی مسجدمیں نماز عصر ادا کی۔ بعد نماز امام صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوںنے دوران گفتگو کہا کہ اس دیہات کانام ’قاضی پورم‘ تھا جو مرورِ زمانہ کی وجہ سے’کالی پورمبو‘ ہوگیا۔ امام موصوف کے قول کی تصدیق بعد میں یوں ہوئی کہ راقم نے اس گاؤں کے آخری سرے پر انگریزوں کا نصب کردہ شکستہ سنگِ میل دیکھا جس پر انگریزی حروف میں ’قاضی پورم‘ لکھا ہوا تھا۔ یہی کہانی ویلورشہر کے بعض معروف علاقوں کی بھی ہے۔ ویلور کے مشہور دواخانہ سی ۔ایم ۔سی کا ایک بڑا حصہ جو دماغی امراض کے لیے مختص ہے ’ باگایم‘ میں قائم ہے۔ ’باگایم‘ دراصل باغِ عام کا تمل تلفظ ہے۔ باغِ عام نوابوں کے دور کاخوبصورت چمن تھا جو بعد کو انگریزوں کے زیر استعمال آگیا۔ یہی کیفیت ’رحمت پالیہ‘ اور ’قادر پیٹ‘ علاقوں کی ہے جو بالترتیب ’رامانایکم پالیم‘ اور’کاگیدر پیٹ‘ کے نئے رنگوں میں رنگ گئے ہیں۔ اسی طرح ’رحمت پالیہ‘ سے آگے کا علاقہ جو ماضی قریب میں ’ سیدپیرایری‘ کہلاتا تھا اب وہ ’سدوتیری‘ کے تمل تلفظ کے ساتھ زباںزدہوگیا ہے۔‘‘

حاصل کلام یہ کہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اردو اور تمل زبانوں کااتصال کسی نہ کسی سطح پرتاحال قائم ہے، ہمیں اس پر منفی رویہ اختیار کرنے کے بجائے مثبت طریقے سے غورکرتے ہوئے زبانوں کی تبدیلی کے اس عمل کو قدرت کی کرشمہ سازی کے طور پر قبول کرناچاہیے۔

جہاں زبانیں ایک دوسرے پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ وہاں  ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس لسانی منظر نامہ میں تاریخ، تہذیب اور ثقافت بھی اپنا رول ادا کرتی ہے۔ کیونکہ شہروں اور علاقوں کے ناموں کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی تاریخی، تہذیبی اور تقافتی پہلو ضرور ہوتا ہے۔اس کو سمجھے بغیر ہم ان ناموں کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح قومی سطح پر ملک میں شہروں اور علاقوں کے جو نام ہیں ان کا اگر لسانی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ زبانیں کس طرح ان ناموں کو بر قرار رکھنے یا ان میں تبدیلیاں لانے میں اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔


Aesha  Siddiqa J

Research Scholar, Dept of Urdu

Madras University

Navalar Nagar, Chepauk, Triplicane

Chennai- 600005 (Tamil Nadu)

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

1 تبصرہ: