5/11/20

اختر انصاری کا افادی ادب مضمون نگار: عادل حیات

 



اختر انصاری ترقی پسند تحریک سے مستقل طور پر وابستہ تو نہیں تھے، لیکن انھوں نے جس تسلسل و تواتُر کے ساتھ اس تحریک کے نظریات کو عام کرنے اور اسے ایک تنقیدی، فکری اور سائنسی بنیاد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کی شاعری، افسانوی ادب اور تنقید اسی جہدِ مسلسل کا عملی ثبوت ہیں۔ انھوں نے ترقی پسند تحریک کے نظری اور فکری ڈسکورس پر ایک کتاب ’افادی ادب‘ کے نام سے لکھی، جو کہ خود ان کے مطابق ترقی پسند تنقید کی بنیاد میں خشتِ اول کی حیثیت رکھتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ اخترحسین رائے پوری کو اردو کا پہلا ترقی پسند نقاد کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں نے پروفیسر قمررئیس سے گفتگو کی تو انھوں نے کہا کہ اگرثبوت مہیا کرادیں تو ہمیں اخترانصاری کو ترقی پسند تحریک کا پہلا باضابطہ نقاد ماننے میں کوئی قباحت نہیں۔ میرے پاس ’افادی ادب‘ کا جو نسخہ ہے، اس پر طبع چہارم اور سنہ اشاعت 1959 درج ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ اشاعت سے پہلے بھی یہ کتاب متعدد دفعہ چھپ چکی تھی۔ اسی نسخے کے صفحہ 58 پر لکھا ہے کہ ’’یہ سطور 1941 میں لکھی گئی تھیں‘‘ لیکن دن اور مہینے کے متعلق کچھ بھی واضح نہیں کیا گیا۔ بہت چھان بین کے بعد پتہ چلا کہ ’افادی ادب‘ کی پہلی اشاعت 1941 میں ہوئی تھی، یعنی ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس 1936 میں ہوئی تھی، اس کے ٹھیک چارسال بعد ’افادی ادب‘ کا پہلا نسخہ لوگوں کے ہاتھوں میں تھا۔ اس سے پہلے ایسی کسی کتاب کا سراغ نہیں ملتا، جس میں ترقی پسند تحریک کے فکری و نظری ڈسکورس کو لفظوں کا جامہ پہنانے کی باضابطہ کوشش کی گئی ہے، البتہ کانفرنسوں کی رپورٹیں اور کچھ مضامین رسائل وجرائد میں ضرور نظر آتے ہیں۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود میں اصرار تو نہیں کرتا کہ اخترانصاری ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ پہلے نقاد اور ’افادی ادب‘ ان کی پہلی تنقیدی کتاب ہے، لیکن اہل ادب کو اس جانب اپنی توجہ ضرور مبذول کرنی چاہیے۔ اس کتاب کی ابتدا ’’ادب حیاتِ انسانی کی تفسیر ہے۔‘‘ جیسے جملے سے ہوتی ہے۔ اس میں کوئی نیا پن نہیں کہ اس جملے کو ترقی پسندناقدین ہمیشہ دہراتے رہتے ہیں، لیکن اخترانصاری جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ادب حیات انسانی کی تفسیر ہی نہیں بلکہ تنقید بھی ہے‘‘ تو اس میں معنی کی ایسی پرتیں نمودار ہوجاتی ہیں، جن میں زندگی کا عکس ہی نہیں ابھرتا بلکہ اس کے رستے زخم بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ادب کا کام صرف ان زخموں کی نوعیت کا پتہ لگانا ہی نہیں بلکہ ان کی جراحی بھی کرنا ہے۔ اخترانصاری ادب کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ادب زندگی کی تفسیر بھی ہے اور تنقید بھی۔ وہ زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ زندگی کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کے سماجی، سیاسی اور معاشی ماحول کی صرف عکاسی ہی نہیں کرتا بلکہ اس میں رنگ بھی بھرتا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ زندگی سے اثر پذیر بھی ہوتا ہے اور زندگی پر اثرانداز بھی۔‘‘ (ص 4-5)

اخترانصاری کی ’ادب کی تعریف‘ میں آفاقیت کے عناصر ہیں کہ ہر زمانے کا ادب زندگی سے اثر پذیر ہوتا ہے اور زندگی پر اس کے اثرات بھی ثبت ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں ادب اپنے تخلیقی عہد کی سماجی و سیاسی، طبقاتی و اقتصادی اور معاشی و معاشرتی زندگی کی منہ بولتی تصویر ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات بھی مذکورہ عہد پر مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر دکنی ادب کو لیجیے یا میر و مرزا کے زمانے کو، اور آگے بڑھیں تو دبستانِ لکھنٔو یا اجڑتی ہوئی دہلی کے ادب کو سامنے رکھیے یا اس کے بعد کے زمانے میں لکھے گئے ادب پر نظر کیجیے تو ہر دور اور اس کے ادب میں مذکورہ خیالات کی عکاسی ملے گی۔ اس مفروضے کی روشنی میں ہر ملک اور ہر زمانے کے ادیب اور شاعر ادب تصنیف کرتے رہے ہیں، لیکن بعض اہلِ قلم ایسے بھی ہیں، جنھوں نے کبھی اس نظریے کو ایک واضح، متعین اصول کی حیثیت سے اپنے سامنے نہیں رکھا، لیکن ان کی ادبی تخلیقات اس نظریے کی عملی تفسیر معلوم ہوتی ہیں۔  اخترانصاری کا اصرار ہے کہ جو اہمیت اور مقبولیت اس نظریے کو آج دنیائے ادب میں حاصل ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں۔ موجودہ دور عوامی بیداری، سیاسی و سماجی شعور،اور اجتماعی انقلابات کا دور ہے۔ ایسے دور میں ادب کے ایک صحیح تصور کا پیدا ہوجانا اور مذکورہ بالا نظریے کا غیرمعمولی اہمیت اختیار کرلینا ایک لازمی اور فطری امر ہے۔

اخترانصاری زور دے کر کہتے ہیں کہ گزشتہ زمانے میں چونکہ ہر چیز پر حکمراں طبقہ قابض تھا، وہ قدرت کی نعمتوں اور صنعت کی برکتوں کے اجارہ دار تھے سیاسی اور مدنی تنظیم کے سارے فوائد ان کی ذاتی ملکیت تھی، ان حالات میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان زمانوں کے بہت سے ادیب و شاعر ادب اور فن کے صحیح تصور سے بھی بیگانہ رہے اور بسااوقات اس بے بنیاد نظریے کے حامی بن بیٹھے، جس کو عام طور پر ’فن برائے فن‘ یا ’ادب برائے ادب‘ کہا جاتا ہے۔ ادب کے متعلق اس قسم کے خیالات و عقائد اس وقت زور پکڑتے ہیں جب ادب دولت کا محکوم اور سرمائے کا غلام ہوتا ہے اور فن عوامی زندگی کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ سیاسی ابتری جماعتی انتشار اور تمدنی انحطاط سے بھی اس نظریے کو بہت مدد ملتی ہے۔ان کے مطابق اردو ادب کے صدسالہ دور میں ملک انحطاط و انتشار کا شکار تھا، اسی ماحول میں اردو ادب نے آنکھ کھولی اور پرورش پائی پھر چونکہ اس وقت کے ادبا اور شعرا کے پیشِ نظر کوئی اجتماعی مقصد نہیں تھا اس لیے قدرتی طور پر ان کا ادب سوسائٹی کے سقیم اور مذموم رجحانات کا شکار ہوگیا۔ اخترانصاری مغلیہ دور کی زندگی کا نقشہ کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انگریزوں کی بالادستی کا ذکر کرتے ہوئے زندگی کو نئی روشنیوں کی آماجگاہ تصور کرتے ہیں جس میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس دور کے ادبا، شعرا، اہل فکر اور اہل قلم بیدار مغز انسانوں کی طرح اپنے زمانے کی سیاسی، معاشی اور تمدنی حالات کا بغور مطالعہ کرتے، ان غارت گرانہ اور استحصالی قوتوں کا جائزہ لیتے جو آہستہ آہستہ مگر نہایت کامیابی کے ساتھ ملک و قوم پر مسلط ہورہی تھیں اور پھر رومانی قلعوں اور خیالی جنتوں میں پناہ گزیں ہونے کے بجائے مردانہ وار ان حالات اور ان قوتوں کا مقابلہ کرتے۔ وہ ایک مخصوص نقطۂ نظر کے مالک ہوتے اور ایک واضح منزل ان کے پیش نظر ہوتی۔ ان کا ادب زندگی کی حقیقتوں اور تلخیوں کا ترجمان ہوتا۔ اس میں ایک جوش، ایک پیغام، ایک احتجاج، ایک طرح کی رجائیت پائی جاتی، یعنی وہ ایک ایسا ادب ہوتا جو زندگی کا ترجمان بھی ہوتا اور زندگی کا خلّاق بھی۔ اخترانصاری کے مطابق ایسا نہیں ہوا، نہ ہوسکتا تھا کہ اس زمانے کے ادیب ’ادب برائے زندگی‘ کے قائل نہ تھے۔ وہ خالص جمالیاتی، رومانی اور غیر مقصدی ادب کے علم بردار تھے اور شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ’ادب برائے ادب‘ کے نظریے کو صحیح تسلیم کرتے تھے۔

اخترانصاری ادب کی تعریف اور اس کی روشنی میں اردو ادب کے مختلف ادوار کا جائزہ لینے کے بعد کہتے ہیں کہ ادب میں دو خصوصیتیں لازمی طور پر پائی جاتی ہیں:

     (1)   ادب اپنے دور کی اجتماعی زندگی سے ایک گہرا اور براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔

) (2   ادب کی تخلیق ایک مخصوص اور واضح سماجی مقصد کے ماتحت ہوتی ہے۔

ادب کی ان دونوں خصوصیات کو زیر بحث لانے سے پہلے اخترانصاری نے وضاحت کر دی ہے کہ پہلی خصوصیت میں دوسری خصوصیت شامل نہیں، کیونکہ ایسا ادب تصور میں آسکتا ہے جو اجتماعی زندگی سے براہِ راست تعلق رکھتے ہوئے بھی کوئی مخصوص سماجی مقصد حاصل نہ کرے۔ ادب کی تعریف اور اس کا اتباع اردو ادب کے مختلف ادوار پر کرتے ہوئے اخترانصاری اس کی پہلی خصوصیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں، اجتماعی زندگی سے ادب کے گہرے اور براہِ راست رشتے کو مثالوں کے ساتھ سمجھاتے ہیں اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں:

’’ادب اپنے عہد کی اجتماعی زندگی سے بے نیاز نہیں ہوتا، نہ ہوسکتا ہے۔ اگر ادیب اپنے ماحول کی طرف سے آنکھیں بند کرلے اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ گردوپیش کے حالات کو نظر انداز کرے تب بھی اجتماعی زندگی کسی نہ کسی طرح ادب میں جھلک ہی جاتی ہے۔ پھر جب اجتماعی زندگی سے گریزناممکن ہے اور اس کے اثرات سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو ہمارا کہنا یہ ہے کہ کیوں نہ ادب اس کے ساتھ ایک گہرا اور براہِ راست تعلق قائم کرے تاکہ وہ پورے طور پر اور صحیح معنوں میں زندگی کا ترجمان اور خارجی حالات کا مرقع ہو۔‘‘ )ص:(42

ادب اور اجتماعی زندگی دونوں کے حوالے سے مذکورہ باتیں کی جاسکتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ادب، تاریخ کے ہر دور میں اجتماعی زندگی سے خوراک حاصل کرتا رہا ہے، اور اجتماعی زندگی ادب سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ ادب کو اپنے تخلیقی زمانے کی سچی تصویر کہا گیا ہے، جس میںاجتماعی زندگی کی سچائیاں پورے خط وخال کے ساتھ نمایاں ہوتی ہیں۔اخترانصاری کا یہ اصرار کہ ادب اس )اجتماعی زندگی( کے ساتھ ایک گہرا اور براہ راست تعلق قائم کرے تاکہ وہ پورے طور پر اور صحیح معنوں میں زندگی کا ترجمان اور خارجی حالات کا مرقع ہو، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خطرناک عمل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ادب کسی بھی طور ادیب کی شعوری کوشش سے وجود میں نہیں آسکتا بلکہ اس کی ایسی کوئی بھی کوشش کسی بھی واقعے کی رپورٹنگ تو کرسکتی ہے، لیکن ادب کی تخلیق نہیں کرتی۔ادب کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ ان واقعات کے اثرات کو داخلی طور پر تخیل کے سہارے پیش کیا جائے۔ اخترانصاری چونکہ ترقی پسندی کے قائل ہیں، اس لیے وہ ادب کے تخلیقی تقاضوں کا خیال رکھے بغیر انھیں باتوں کا اعادہ کرتے ہیں، جن کا ترقی پسند نظریہ و عمل سے براہِ راست تعلق ہے۔ دوسری خصوصیت جو ان کے نزدیک لازمی ہے، وہ یہ کہ ادب کی تخلیق ایک مخصوص اور واضح سماجی مقصد کے ماتحت عمل میں آئے۔اخترانصاری کے اس خیال سے لفظ ’مقصد‘ کو خارج کردینے کے بعد مان لینے میں کوئی قباحت نہیں کہ بہرحال ادب کا تعلق سماج سے ہوتا ہی ہے۔ انھوں نے مثالوں کے ذریعے اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے سماج کے دو بڑے اقتصادی طبقے کی نشاندہی کی ہے۔ ایک وہ طبقہ جو دولت آفرینی کے کل ذرائع پر قابض اور سوسائٹی کے تمام نفع بخش اداروں پر متصرف ہوتا ہے، دوسرا طبقہ وہ جس کے افراد سرمایے کے غلام اور روحانی و مادی ترقی کے مواقع سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔ ان دونوں طبقوں میں مسلسل نزاع جاری رہتی ہے، کیوں کہ ان کے مفاد بنیادی طور پر مختلف ہوتے ہیں اور لازماً ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ جب یہ نزاع شدید اور بحرانی صورت اختیار کرتا ہے تو پہلا طبقہ اپنے ناجائز نفعوں کو بچانے اور اپنے تاریخی زوال کو روکنے کی ناکام کوشش میں رجعت پسندی کا مرکز بن جاتا ہے اور تمام ترقی پسند اور انقلابی رجحانات سمٹ کر دوسرے طبقے کی زندگی میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اخترانصاری کے مطابق زندگی کے دوفلسفے، فلسفۂ رجعت اور فلسفۂ انقلاب وجود میں آتے ہیں۔وہ فلسفۂ رجعت کے ذیل میں کہتے ہیں کہ یہ فلسفہ ہر نوع کی تبدیلی کا مخالف، سماج کے ڈھانچے کو جوں کا توں قائم رکھنے کا حامی، زندگی کے پرانے معیاروں اور قدروں کا قائل، ماضی و باقیاتِ ماضی کا دل دادہ اور فرسودہ تمدنی روایات کا پرستار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس فلسفۂ انقلاب تاریخی ارتقا کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماج کی بنیادی ساخت کو منقلب کردینے کی تلقین کرتا اور حیات انسانی کے حرکی تصور کو مقبول بنانے کا کام اپنے ذمّے لیتا ہے۔ اس دوسرے فلسفے کو مفکروں، شاعروں اور ادیبوں کی جماعت وقت کا صحیح فلسفہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہے، لیکن اسی گروہ کے بعض دوسرے افراد اپنی قدامت پرستی، تنگ نظری اور محدود خیالی کے باعث یا اس سبب سے کہ ان کا مفاد کسی نہ کسی طور پر رائج الوقت نظام سے وابستہ ہے، اس کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے غیر جانب دار ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہر دور میں سماج کچھ ترقی پسندانہ رجحان سے گزرا ہے، چنانچہ ادب میں موضوعات کی رنگارنگی کے ساتھ طبقاتی کشمکش کی عکاسی انہی کی بدولت ہوئی ہے، البتہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ترقی پسندوں نے جس بلندبانگ انداز میں ادب کے مقصد کے تحت انقلاب کا راگ الاپا، وہ کیفیت ادب کے دوسرے ادوار میں نہیں تھی۔ ادب کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے اخترانصاری لکھتے ہیں:

’’ادب کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ادیب اس کے ذریعے اپنے خیالات دوسرے تک پہنچائے اور دوسروں کو متاثر کرے۔ یہ پہلے ہی واضح کیاجاچکا ہے کہ ادیب کے خیالات سماجی زندگی سے بے تعلق نہیں ہوتے نہ ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ادب کا مقصد سماجی زندگی کو متاثر کرنا ہوا۔‘‘ )ص:(47

اردو کی ادبی تاریخ میں شاید ہی کوئی دور ایسا ہو، جس میں ادبا نے اپنے خیالات کی ترسیل ادب و شعر کے سانچے میں نہیں کی ہو اور پھر اس کے مثبت و منفی اثرت سماجی زندگی پر نہیں پڑے ہوں۔ اس کی مثال اردو ہی نہیں بلکہ دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب سے دی جاسکتی ہے کہ ان کے ادب کے دامن میں کیسی کیسی فتوحات ہیں۔ اخترانصاری کا مقصد ان مباحث کے ذریعے ادب کو جانچنے پرکھنے کا ایک معیار کشید کرنا تھا۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’کسی ادبی کارنامے کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے لیے ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ ادبی کا رنامہ اپنے دور کی اجتماعی زندگی سے ایک گہرا اور براہِ راست تعلق رکھتا ہے یا نہیں، اور یہ کہ اس کی تخلیق ایک مخصوص اور واضح سماجی مقصد کے ماتحت عمل میں آئی ہے یا نہیں۔ اگر اس میں یہ دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں تو وہ صحیح و صالح اور زندہ و پائندہ ادب کا ایک نمونہ ہے۔‘‘ (ص:57)

صاف ہے کہ اخترانصاری ’’اجتماعی زندگی سے ایک گہرا اور برہِ راست تعلق‘‘ اور’’ایک مخصوص اور واضح سماجی مقصد‘‘ والی بات ترقی پسند نظریۂ تنقید کے حوالے سے کرتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ کوئی بھی ادبی کارنامہ اپنے دور کی اجتماعی زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ اس میں مخصوص سماج کے تمام رجحانوں کا بیان تخلیق کار کے مشاہدے کے طور پر ہوتا ہے، لیکن انہیں ایک مقصد بناکر ادب کی تخلیق کی جائے تو اس کے فطری پن کے مجروح ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔جیسا کہ ترقی پسند ادب کے ساتھ ہوا۔ اس مفروضے کو مان لینے کے بعد کہ ادب کی تخلیق ایک مخصوص اور واضح سماجی مقصد کے ماتحت عمل میں آنی چاہیے اخترانصاری سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ کون ساسماجی مقصد ہے جو آج کل کے ادیبوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے وہ اپنے گردوپیش کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے دو سماجی گروہ رجعت پسندی اور ترقی پسندی یا انقلاب کا ذکر کرتے ہیں۔ جن میں سے ایک ماضی اور ماضی کی تاریک بھول بھلیوں کی طرف لے جاتا ہے تو دوسرا مستقبل کی روشن شاہراہوں کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ یہی دو راستے ہیں، ادیبوں کو ان دو راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ہوگا کہ تیسرا کوئی راستہ ان کے سامنے موجود نہیں۔وہ ادیبوں کو ترقی پسند یا انقلاب کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’یہی وہ مخصوص اور واضح سماجی مقصد ہے (سماج اور اس کے مختلف پہلوؤں پر انقلابی عوام کے نقطۂ نظر سے تنقید کرنا) جو موجودہ زمانے کے ادیب کو ہر وقت پیش نظر رکھنا ہے۔ اس مقصد کو سامنے رکھ کر جس ادب کی تخلیق کی جائے گی وہ ایک جان دار منظم اور عظیم الشان ادب ہوگا، جو انقلابی ادب کہلائے گا اور اپنے زمانے کی سچی ترجمانی اور بے لاگ تنقید کا حق ادا کرے گا۔‘‘ (ص 63-64)

اخترانصاری انقلابی ادب کو موجودہ زمانے کا حقیقی ادب تصور کرتے اور اسے اصولوں، معیاروں اور قدروں کی اس تبدیلی کا نام دیتے ہیں جو ایک تاریخی ضرورت اور جدلیاتی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے اور جس میں پرولتاری اور عوامی نقطۂ نظر سے زندگی کی تفسیر و تنقید کی قوت بھی موجود ہوتی ہے۔ ’انقلابی ادب‘ کی طرح ’اصلاحی ادب‘کی اصطلاح بھی ہے، ان دونوں اصطلاحوں کو عموماً ایک ہی سکے کا دو پہلو سمجھا جاتا ہے۔ اخترانصاری کی نظرمیں دونوں میں واضح فرق ہے کہ اصلاحی ادب متوسط طبقے کی مخصوص اصلاح پسند، انقلاب دشمن اور مفاہمتی ذہنیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک مریض کے جسم پر نکلنے والے پھوڑے پھنسیوں کا علاج مرہم کے ذریعے تو کیا جائے، مگر مریض کے خون میں جو فساد پیدا ہوگیا ہے، اس کی طرف سے بے پروائی برتی جائے۔ اس کے برعکس انقلابی ادب سماجی امراض کے سطحی اور محض اوپری علاج کو بیکار خیال کرتا ہے، اس کی نظر سماجی نظام کے بنیادی نقص پر ہوتی ہے۔ جس کو دور کیے بغیر سطح پر ظاہر ہونے والے لاتعداد نقائص کا ازالہ ممکن نہیں۔وہ اصلاحی اور انقلابی ادب میں "ترقی پسند" کی صفت کا استعمال جائز قراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انقلابی ادب ترقی پسند ہوتا ہے، مگر ترقی پسند ادب ہمیشہ انقلابی نہیں ہوسکتا۔ان کی نظر میں ہندوستان (ہند وپاک)  میں ترقی پسند ادب کی دھوم ہے، لیکن:

’’ترقی پسند ادیب محض اصلاحی ادب پیش کررہے ہیں، اس میں شک نہیں کہ وہ ہماری اجتماعی زندگی کے متعدد اور متنوع پہلوؤں کی ترجمانی کرتے ہیں، لیکن اگر ان کی تحریروں کو غور کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ بات نہایت آسانی سے معلوم ہوسکتی ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کے مسائل کو عوام کی انقلابی نظر سے نہیں بلکہ متوسط طبقے کی اصلاحی، مفاہمتی، اور جذباتی زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یوں وہ موجودہ نظام کی برائیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھی گویا ان ارتجاعی قوتوں کا ساتھ دیتے ہیں جو اس نظام کی بنیادوں کو جوں کا توں قائم رکھنے کی حامی ہیں۔‘‘ (ص68-69)

یہ ایسی باتیں ہیں، جن کو بیشتر ناقدین نے چند مخصوص ادیبوں کو چھوڑ کر پورے ترقی پسند ادب کے متعلق کہی ہیں، اخترانصاری اس معنی میں سرِ فہرست ہیں کہ انہیں ادب میں آئی ان خرابیوں کا احساس اس وقت ہوگیا تھا، جب ترقی پسند تنقید شکم زار تھی۔ وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ ادیب ترقی پسند تحریک کی روح کو سمجھے بغیرایسا ادب پیش نہیں کرسکتا، جسے انقلابی یا ترقی پسند ادب کہا جاسکے۔ موجودہ منظر نامے پر جو ادب لکھا جارہا ہے، اس میںزخموں کی مرہم پٹی کا عمل تو ہوتا ہے، لیکن ان کی جراحی کی کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ چنانچہ ایسا ادب اصلاحی، مفاہمتی اور جذباتی تو ہوسکتا ہے،لیکن اسے انقلابی یا ترقی پسند ادب نہیں کہہ سکتے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انقلابی ادیب سماجی زندگی اور اس کے مسائل کو اپنے نقطۂ نظر سے ادب کا موضوع بنائیں اور ہر طبقے کی زندگی، اس کے ہر پہلو کا مطالعہ عوامی اور پرولتاری نقظۂ نظر سے کریں۔

مقصدی یا ترقی پسند ادب کے متعلق یہ خیال بھی عام ہوگیا تھا کہ یہ ادب چونکہ پروپگینڈا ہوتا ہے، اس لیے خشک اور غیردلچسپ ہوتا ہے، اس میں فنی لطافت، صناعانہ حسن کاری اور جمالیاتی پاکیزگی نہیں پائی جاتی ہے۔ جس کا جواب دیتے ہوئے اخترانصاری کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی ادب ’رجحان‘ سے خالی نہیں۔ ہر ادب کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل اور کسی نہ کسی دبستانِ خیال کا پرچار کرتا ہے، گویا ہر ادب ایک طور پر پروپگینڈا ہی ہوتا ہے، لیکن ہر پروپگینڈا ادب نہیں ہوتا کہ ادیب اپنے تخیل کا تصرف بدرجۂ اتم فکر و فن میں کرتا ہے، جو ادب میں خیالات کی بلندی و ندرت، زبان کی دلکشی و رنگینی، اندازِ بیان کی طرفگی و دلآویزی اور مجموعی اثرانگیزی نیز وجد آفرینی کی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں اور یہی خصوصیات ادب کو اصل معنی میں ادب بناتی ہیں۔ وہ ترقی پسند ادب کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’بعض ترقی پسند مصنّفین کی تحریریں اعلیٰ فن کارانہ محاسن سے محروم ہیں، ان میں واعظانہ، خطیبانہ اور ناصحانہ انداز غالب ہے، چیخ پکار اور نعرہ زنی کی زیادتی ہے، تبلیغ اور تلقین کا پہلو نمایاں ہے، جذبات کو متاثر کرنے والی خصوصیات کا فقدان ہے تو قصور مقصدی ادب کا نہیں، بلکہ ان ادیبوں کا ہے، جنھوں نے صناعیِ محاسن کی اہمیت کو نظر انداز کیا اور اپنے فن کے تمام نازک اور پیچیدہ راستوں سے آگاہی حاصل نہیں کی۔‘‘(ص71)

چنانچہ اخترانصاری کے نزدیک کامیاب مقصدی ادب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس میں فن اور مقصد کا بہترین امتزاج پایا جائے، یعنی مقصدی ہونے کے باوجود اصولِ جمالیات کی پیروی کرتے ہوئے فن کے اعلیٰ معیار پر پورا اترے۔

اخترانصاری نے ’افادی ادب‘ میں شرح و بسط کے ساتھ ’ادب‘ کو نہ صرف یہ کہ سمجھایا ہے بلکہ اسے گہرے سماجی شعور اور اجتماعی زندگی کا عکاس مانا ہے۔ جس میںانسانی زندگی کی صعوبتوں کو نہیں بلکہ اس کے اسباب کو موضوع بناکر اس کی جراحی کی جاتی ہے۔ جو ادیب ایسا نہیں کرتے ہیں، وہ رجعت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور کسی نہ کسی سطح پر مادہ پرست طبقوں کو طاقت فراہم کرتے ہیں، جو اس سے محروم طبقے کے استحصال پرمامور ہیں۔ انھوں نے اصلاحی اور انقلابی ادب کے فرق کو سمجھاتے ہوئے ایسے ادیبوں کی سرزنش کی ہے، جو ترقی پسندی کی روح کو سمجھے بغیرادب کی تخلیق میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اپنے اصل مقاقصد سے دور ایسی تحریریں پروپگینڈا تو کہی جا سکتی ہیں، لیکن انھیں ادب نہیں کہا جاسکتا کہ ادب بننے کے لیے فن اور مقصد کے درمیان امتزاج کا ہونا ضروری ہے۔ دراصل ’افادی ادب‘ کا مقصد و منبع ان خرابیوں پر استوار ہے، جو ترقی پسند تحریک کے ابتدائی زمانے میں ہی در آئی تھی۔ شعرا و ادبا نے ترقی پسندی کی روح کو سمجھے بغیر ادب لکھا اور اس کے فکری و فنی تقاضوں کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا۔ ’افادی ادب‘ نہ صرف یہ کہ ان پر ضرب لگاتا ہے بلکہ سچے اور کھرے ادب کی خصوصیات کو بھی ذہن نشیں کرتا ہے۔ اختر انصاری چونکہ باضابطہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں تھے بلکہ الگ تھلگ بیٹھے اس کے اصول و نظریات کی تشہیر اپنے گراں مایہ تخلیقی و تنقیدی ادب کے ذریعے کر رہے تھے، اس لیے شاید ان کو اور ان کے ادبی قد کو وہ قدر و منزلت نہیں ملی، جس کے وہ مستحق تھے۔


Adil Hayat  (S. M. Abu Baker)

Department of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob.: 9313055400

Email: adilhayat@gmail.com

 

ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر 2020

 

 

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں