6/11/20

غالب، ہاکنگ، خدا اور کائنات مضمون نگار: سلیم محی الدین

 



غالب ہماری زبان اور شاعری کا تہذیبی محاورہ ہے۔ جو اردو جانتا ہے غالب کو جانتا ہے اور جو اردو نہیں جانتا وہ بھی غالب کو جانتا ہے۔ اردو والے تک غالب زبان کے حوالے سے پہنچتا ہے اور غیر اردو داں تک اپنی فکر کے حوالے سے۔ کالی داس، تلسی داس، خسرو، کبیر، میر اور غالب ہمارے ادبی و تہذیبی شعور کا حصہ ہیں۔ غالب ان سب میں نمایاں اس لیے ہے کہ غالب آخر غالب ہے۔

غالب نے کتابیں کرائے پر حاصل کرکے پڑھیں، روزگار پر وظیفہ خوری کو ترجیح دی، حتیٰ کہ شراب بھی قرض کی پی۔ اس کے باوجود غالب ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے۔ وہ اپنے مضامین روز مرہ کی زندگی سے اٹھاتا ہے اور انھیں کو مکالمے کی صورت ہم تک پہنچاتا ہے۔ ہر چند کہ ان اشعار میں معنی کی کئی پرتیں ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ایک گہرا فلسفہ بھی۔ لیکن ان اشعار کی خوبی یہی ہے کہ وہ سامنے کے معنی سے بھی قاری کو اپنی گرفت میں لینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ غالب نرا شاعر نہیں ہے۔ وہ نہ جولانی طبع کے جوش میں شعر کہتا ہے اور نہ ہی بیت برائے بیت کا قائل ہے۔ غالب کی عظمت اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ انسان، خدا، کائنات اور زندگی کے تئیں اپنی فکر اور اپنا فلسفہ رکھتا ہے      ؎

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

غالب اپنے عہد کا نباض بھی ہے اور اس کی نگاہ اپنے عہد سے آگے بھی دیکھتی ہے۔ وہ پرستار خدا ہے اور گرفتار تصوف بھی، قدامت کا شکا ر بھی ہے اور نئے موسموں کا واقف کار بھی۔ اسی لیے جب سر سیّد احمد خاں نے اپنی تصنیف ’ آئین اکبری‘ کی تقریظ کے لیے کہا تو وہ اسی تقریظ میں آئین اکبری کی قدامت کی شکایت اور کلکتہ سے طلوع ہوتے صنعتی انقلاب کے سورج کی وکالت کر بیٹھے۔ بقول علی سردار جعفری         ؎

’’ غالب کے پاس سماجی ارتقا کا ایک معقول تصور تھا.... یہ محض تصور وتخیل کی پرواز نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اکبری عہد کے آئین کے مقابلے میں نئے صنعتی نظام کو ترجیح دیتا تھا اور سائنس کی ایجادات اور تصورات کو شاعری میں جگہ دینے کے حق میں تھا۔‘‘    1

ہر بڑے فنکار کی چیخ اپنے عہد کے اس پار اس لیے سنائی دیتی ہے کہ وہ اپنے عہد سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔ غالب کے عہد میں تکنالوجی نے ترقی تو نہیں کی تھی لیکن انگلستان میں صنعتی انقلاب برپا ہوچکا تھا اور اس کے اثرات ہندوستان میں بھی دیکھے جانے لگے تھے۔ اپنی پینشن کے مقدمے کے سلسلے میں جوانی کی عمر میں غالب کلکتہ جاکر سائنسی ترقی کے یہ جلوے اپنی نظروں سے دیکھ چکے تھے۔ خطوط رسانی کا نظام قائم ہوچکا تھا اور غالب مکتوب نگاری کے جوہر دکھانے لگے تھے۔ ان کی تصانیف لیتھو پریس پر چھپنے لگی تھیں۔ ان کا مشورہ ’’مردہ پر وردن مبارک کارنیست‘‘ سرسید کو ایسا بھایا کہ انھوں نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنالیا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ غالب نے سرسید کو اک نواہائے راز کا ہمراز بنالیا   ؎

محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

غالب کے لیے تصوف ہی سائنس کا نعم البدل تھا اور تخیل رہنما۔ لیکن غالب سے مکمل ایک صدی بعد ایک ماہر طبیعات اسٹفین ہاکنگ(1942-2018) کائنات کے اسی نواہائے راز کا پردہ ہٹاتے ہوئے عالم انسانیت کی کامیابی کا اعلان کچھ اس انداز میں کرتا ہے۔

’’کائنات ایک مشین ہے جو کچھ اصولوں اور قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔ ایسے قوانین جن سے انسانی ذہن کو درک حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان قوانین کی دریافت عالم انسانیت کی عظیم ترین کامیابی ہے۔‘‘2

بظاہر تصوف اور سائنس میں کوئی علاقہ نظر نہیں آتا۔ تصوف سراسر روحانیت ہے توسائنس سراسر مادیت۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اردو معاشرے میں سائنس سے قبل تصوف ہی وسیع النظری اور وسعت قلبی کا مظہر تھا۔اہل تصوف  ہی میں سائنسی مظاہر کو سراہنے اور اپنانے کی طاقت ہوا کرتی تھی۔ ہندوستانی معاشرے میں اس کی عمدہ مثال امیر خسرو ہیں۔ جو بیک وقت ایک صوفی صافی بھی تھے اور جنہیں وزارت اور امارت بھی حاصل تھی۔ معاشرتی دائروں کو توڑنا اپنے آپ میں ایک انقلابی قدم ہوتا ہے۔ ایک صوفی ہوتے ہوئے امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں نہ صرف کئی نئے راگ تشکیل دیے بلکہ موسیقی کے کئی آلات  بھی ایجا دکیے۔ ان کا ایجاد کردہ آلہ ٔ موسیقی ’ستار‘ آج ہندوستانی موسیقی کا جزولاینفک ہے۔ کسی آلے کی ایجاد سائنسی کارنامہ نہیں تو اور کیا ہے۔تصوف اور سائنس میں تضاد کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی نقطہ اتصال ضرور موجود ہے۔ غالب اور ہاکنگ میں بھی یہ تضاد نمایاں نظر آتا ہے۔ غالب کی وحدانیت اور ہاکنگ کی دہریت دونوں ہی مشہور عالم ہیں۔ بلا شبہ غالب کے ہاں تشکیک کا پہلو ضرور پایا جاتا ہے لیکن اس سے غالب کی فکر پر آنچ نہیں آتی        ؎

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

غالب کی طرح ہاکنگ بھی سوال کھڑا کرتا ہے لیکن وہ تو سیدھے کائنات کے خالق پر ہی سوال کھڑا کردیتا ہے اس کے مطابق سائنس دنیا کے آغاز اور انجام دونوں سے واقف نہیں لہٰذا اس کے خالق پر سوال اٹھانا لازم ہے۔ بقول اسٹفین ہاکنگ          ؎

’’ اگر کائنات اپنا کوئی آغاز رکھتی تو ہم بھی فرض کرسکتے تھے کہ اس کا کوئی خالق ہے۔ لیکن اگر یہ واقعتا خود کفیل اور لامحدود ہے تو اس کا نہ تو کوئی آغاز ہوگا اور نہ ہی انجام۔ ایسے میں خالق کے لیے کہاں گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔‘‘3

ہاکنگ کے نزدیک خداکے وجود سے انکار کا سبب کائنات کے آغاز و انجام سے عدم واقفیت ہے۔ وہ اپنی اس سوچ میںکس حد تک صحیح ہے؟ یہ تو وہی جان سکتا ہے یا اس جیسا کوئی۔ فکری انتشار کے اس موڑپر غالب کی فکر نسبتاً مربوط اور منظم لگتی ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ اگر ہم میں راز حقیقت دریافت کرنے کی قوت نہیں تو نہ سہی، اجسام ظاہر کا مطالعہ ہی ہمارے لیے کافی ہے کیونکہ مجاز ہی حقیقت کا زینہ ہے      ؎

نہیں گر سرو برگـ ادراک معنی

تماشائے نیرنگ صورت سلامت

مجاز کو حقیقت کا زینہ سمجھنے والا غالب جنت کی حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے اور یہی واقفیت اس کے مزاج کی شگفتگی کا باعث بھی ہے       ؎

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

حیات بعد از وفات بے شک ایک اہم موضوع ہے جس پر غور وفکر ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ جنت کی حقیقت سے واقفیت کے اعلان میں یقینا ایک گہرا طنز پوشیدہ ہے لیکن اس سے جنت کی حقیقت سے انکار ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ موضوع سائنس کے لیے بھی ایک سنجیدہ موضوع ہے۔ بقول ہاکنگ      ؎

’’ میں دماغ کو ایک کمپیوٹر مانتا ہوں جو کہ اپنے اجزاء کے ناکام ہونے پر کام کرنا چھوڑ دے گا۔ ان ٹوٹی ہوئی مشینوں کے لیے کوئی جنت یا حیات بعد از موت نہیں ہوتی ہے۔ یہ تو اندھیرے سے خوف زدہ لوگوں کے لیے ایک پریوں کی کہانی ہے۔‘‘4

ہاکنگ کے مطابق انسان کائنات کے بیشتر اہم راز جان چکا ہے اور بہت کم راز ایسے ہیں جن تک انسان کو رسائی حاصل کرنا باقی ہے اس کا دعوی ہے کہ اکیسویں صدی کے اختتام تک کائنات کا کوئی راز راز نہیں رہے گا۔گویا بہ زبان غالب     ؎

واکردیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن

غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

آئنسٹائن اس نظریے کو سختی سے مسترد کرچکا ہے کہ کاروبار دنیا مبنی بر اتفاق ہے وہ کہتا ہے کہ God does not play dice یا خدا بازی نہیں لگاتا۔ لیکن ہاکنگ اس بات کو نہیں مانتا اس کے بقول          ؎

’’سارے ثبوت اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خدا ایک قمار باز ہے وہ ہر بازی کھلی رکھتا ہے اور پھر چاہے نرد پھینکی جائے یا چاک گھمایا جائے جیت اسی کی ہوتی ہے۔‘‘   5

آئنسٹائن اور ہاکنگ کے نزدیک دنیا خدا کی بازی ہے لیکن غالب کے نزدیک تو یہ محض بازیچہ بلکہ بازیچہ اطفال ہے  ؎

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے

غالب کے لیے دنیا بازیچہ اطفال کیسے ہوگئی کیا وہ پرواز تخیل میں ہمارے ماہرین طبیعیات سے بھی بازی لے گیا ہے۔ جی ہاں۔ کیونکہ تصوف کے حوالے سے صوفی اپنے آپ کو اس ذات عظیم و پاک میں ضم کردیتا ہے جو ہر شے میں موجود ہے اور ہر شے پر قادر ہے      ؎

ہر چند کہ ہر ایک شے میں تو ہے

پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے

شعور کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے ایک دیدئہ بینا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا دیدئہ بینا جسے قطرے میں دریا اور جزو میں کل دکھائی دیتا ہو     ؎

قطرے میں دریا دکھائی نہ دے اور جزو میں کل

کھیل لڑکوں کا ہوا دیدئہ بینا نہ ہوا

واضح رہے کہ غالب کی منطقی فکر کے پیچھے سائنس یا فلسفہ نہیں ہے۔ یہ تصوف کی دین ہے جو بیچ دریا میں ڈبو بھی سکتا ہے اور عرش سے پرے کی سیر بھی کرواسکتا ہے۔ انسانی فکر و شعور کا اپنے زماں ومکاں سے گہرا ربط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفکرین اور سائنسدانوں کے پیش کردہ نظریات تبدیل بھی ہوتے ہیں۔ ارتقا بھی پاتے ہیں۔ خدا کے وجود سے منکر ہاکنگ اپنی آخری تصنیف

"Brief Answers to Big Questions"میں پورا ایک باب ’’کیا خدا موجود ہے ‘‘ کے نام سے شامل کرتا ہے اور خدا کے وجود کو قبول کرنے کی کگار پر نظر آتا ہے۔

’’میرا یقین ہے کہ کائنات سائنس کے قوانین کے تحت چلتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ قوانین خدا نے بنائے ہوں۔ لیکن خدا اپنے قوانین کو توڑنے میں مداخلت نہیں کرتا۔‘‘6

یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’اک بار جو میں نے کمٹ منٹ کردی تو پھر میں خود کی بھی نہیں سنتا۔‘‘بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سائنس کے موجودہ قوانین انسانی سوچ اور زندگی سے ہم آہنگ ہیں اور اس کے تسلسل اور ارتقاء کے لیے موزوں اور کار آمد بھی۔ یہ ٹھیک ہی ہے کہ ہاکنگ کا خدا اس میںمداخلت نہیں کرتاورنہ ان قوانین میں ذراسی مداخلت کرئہ ارض پر نوع انسانی کا نہ صرف جینا دوبھر کرسکتی ہے بلکہ اس کے وجود کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔موجودہ وبائی صورت حال کیا اس کی ایک ادنی جھلک نہیں ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پچھلی تقریباً ایک چوتھائی صدی سے سائنس کے میدان میں جمود طاری ہے اکیسویں صدی میں کوئی قابل ذکر سائنسی ایجاد اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اس جمود کو توڑنے کے لیے پھر اک بار ہاکنگ ہی کو آگے آنا پڑا۔ اپنے عظیم منصوبے (The Grand Design)کے ساتھ اور یہ عظیم منصوبہ کچھ اس طرح ہے۔ بقول ہاکنگ     ؎

’’نظام شمسی ہی کی طرح کائناتیں بھی تعداد میں کئی ہیں۔ ہر کائنات کے اپنے اپنے قوانین ہیں۔ کہیں اجسام فلکی کے مابین کشش ثقل موجود ہے تو کہیں ضد ثقل۔ ان متعدد نظام کائنات میں سے ہم اتفاقاً ایسی کائنات میں رہتے بستے ہیں جو انسانوں اور انسانی زندگی کے لیے سازگار ہے۔‘‘  7

خدا کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے آپ کو کائناتوں کے اس جال سے محفوظ رکھا اور حضرت آدم کو اس کائنات میں پھینکاجو اس کے لیے سازگار ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ ’’شاعری پیغمبری است کہ نیست‘’ مگر مجھے لگتا ہے کہ اس قطرے  (نسل آدم) کے گہر ہونے کی ساری واردات کا عینی شاہد غالب ہے جو عین اس وقت اپنا کیمرہ سنبھالے کھڑا تھا۔ غالب کے کیمرے کا یہ عکس ملاحظہ فرمائیں     ؎

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

بے شک سائنس کائنات کے متعلق ٹھوس نظریات وضع کرسکتی ہے لیکن ادب اور فنون لطیفہ بھی اس کے ہیولے یا بہ  الفاظ دیگر اس کی تجریدی شکل تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب فنکار میں اپنے عہد سے آگے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ غالب میں بھی یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی      ؎

منظر اک بلندی پر اور ہم بناسکتے

عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

ہاکنگ کو یقین ہے کہ اگر ذہانت سے کام لے تو نسل انسانی کا مستقبل روشن ہے۔ اس کے نزدیک خلا کی تسخیر کے بغیر نسل انسانی کا کوئی مستقبل نہیں۔ بقول ہاکنگ      ؎

’’ نسل آدم نہ صرف دیگر سیاروں کو مسخر کرے گی بلکہ وہاں اپنی نوآبادیاں بھی قائم کرے گی۔ زمین سے پرے ہم خلا میں جینا بھی سیکھ لیں گے۔ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ تو آغاز ہے کائنات کی ہزاروں سالہ پرمسر ت زندگی کا... اور ایک آخری بات... ہم درحقیقت یہ نہیں جانتے کہ اگلی سائنسی ایجاد کب اور کس کے ہاتھوں ہوگی۔‘‘8

سائنس کے ٹھوس حقائق کے حوالے سے ہاکنگ کی یہ غیر یقینی یقینا کھلتی ہے۔ اس کے بر خلاف غالب کی یہ فنکارانہ سادگی بھی ملاحظہ فرمائیں جو عین اسی موضوع کو اس کے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ احاطہ کرتی ہے       ؎

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

سائنس اور ہاکنگ کے مطابق تمنا کا دوسرا قدم یہ بھی ہے کہ      ؎

’’ اب ہم ارتقا کے ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہم ڈی این اے کو تبدیل یا ترقی کرسکیں گے۔ ہم نے  ڈی۔ این۔ اے کا نقشہ تیار کرلیا ہے یعنی ہم نے ’کتابِ زندگی‘ کو پڑھ لیا ہے۔‘‘  9

کتاب زندگی کو پڑھ لینے کا دعویٰ کرنے والے سارے ماہرین طبیعات اس بات پر متفق ہیں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ یعنی یہ کائنات اپنے اسی خالق کے ہمراہ ارتقا کی مزید منازل طے کرے گی۔ بقول اقبال       ؎

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں

لیکن اپنی بات کائنات کی اس حالت پر غالب کے انتہائی مثبت فکر اور منفرد لہجے پر ختم کروں گا کہ    ؎

آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

References

 

(1)      علی سردار جعفری:پیغمبران سخن، 1970، ص 160

2)  Hawking Stephen - Brief Answers to Big Questions - John Murray. 2018- P-27

3)   Hawking Stephen - A Brief History of Time - Random House -UK.2015 - P-

4)   Hawking Stephen - A Brief History of Time - Random House -UK.

5)   Hawking Stephen - Brief Answers to Big Questions - John Murray. P-52

6)   Hawking Stephen - Brief Answers to Big Questions - John Murray. P-

7)    Hawking Stephen - The Grand Design - Bantom House, USA. 2010- P-

8)   Hawking Stephen - Brief Answers to Big Questions - John Murray. P-

9)   Hawking Stephen - Brief Answers to Big Questions - John Murray. P-


Dr. Saleem Mohiuddin

Professor & Head

Dept. of Urdu

Shri Shivaji College

Parbhani - 431401 (Maharashtra)

Mob.: 9923042739

 

 

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں