9/9/21

تمل ناڈو میں اردو افسانہ - مضمون نگار: اسانغنی مشتاق رفیقی

 



 

تمل ناڈو میں اردو زبان کی تاریخ پانچ  صدیوں پر محیط ہے، نثر نگاری کے ابتدائی نمونے سترہویں صدی میں مل جاتے ہیں، لیکن افسانہ نگاری کی شروعات بیسویں صَدی کے نصف بعد ہی ہوئی ہے۔ بہ نسبت شاعری کے افسانہ نگاری کی طرف تمل ناڈو کے مشاہیر ادب کی توجہ ایک عرصے تک نہ ہونے کے برابر رہی۔شروعاتی دور میں یہاں جو افسانے لکھے گئے ان میں سطحی رومانیت کا عنصر غالب رہاپھر دھیرے دھیرے اس روش میں تبدیلی آئی۔ اعلیٰ درجے کی رومانیت کے ساتھ حقیقت نگاری کا رجحان بڑھتا گیااور یہ سفر ہنوز جاری ہے۔

تمل ناڈو سے وابستہ جن افسانہ نگاروں نے عالمی پہچان بنائی ان میں پہلا نام حجاب امتیازعلی کاآتا ہے۔ علیم صبا نویدی نے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں حجاب امتیازعلی کی پیدائش 1907 شہر وانم باڑی بتائی ہے۔ حجاب کی پیدائش کے بعد اُن کے والد کو حیدر آباد میں ملازمت مل گئی اور وہ اہل وعیال کے ساتھ وانم باڑی سے حیدر آباد منتقل ہوگئے۔ اُنہی دنوں حیدر آبادمیں طاعون پھیلاتو انھوں نے بیگم اور بچوں کو مدراس بھیج دیا۔ حجاب کی والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی ایک نامور اہل قلم خاتون تھیں، ان کا انتقال شہر وانم باڑی میں ہوااور وہ یہیں مدفون ہوئیں۔ حجاب امتیاز علی تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہوگئیں۔اردو کی فکشن نگار خواتین میں حجاب کا نام صف اول میں لیا جاتا ہے،  اُن کے افسانوں میں رومانیت کا عُنصر زیادہ ہے، بقول سجادحیدر یلدرم ـ’’ حجاب کے تخیل نے ایک نئی دنیا خلق کی ہے اور اس دنیا میں ایک نئی اور نہایت دلکش مخلوق آباد کی ہے۔ یہ دنیا جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں اِس سے علیحدہ ہے،گو اُس سے ملتی جلتی ہے اور جو لوگ اِس دنیا میں آباد ہیں وہ ہم سے مشابہ تو ضرور ہیں مگر بالکل ہماری طرح نہیں ہیں۔ـ ‘‘(حجاب امتیاز علی، آزاد دائرۃ المعارف ویکیپیڈیا)

حجاب امتیازعلی کے بعد تمل ناڈو سے وابستہ کسی ادیب نے اگر اپنی الگ پہچان بنائی ہے تو وہ علیم صبا نویدی ہیں۔ ایک کامیاب ادیب، شاعر اور نقاد ہی نہیں شعر و نثر کی ہر صنف پر مکمل دسترس رکھنے والی تمل ناڈو کی شخصیت۔ بحیثیت افسانہ نگار علیم صبا نویدی کی پہچان 1967میں ہوئی جب ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ روشنی کے بھنور میں‘‘ جس میں زیادہ تر روایتی انداز میں لکھے گئے افسانے تھے، شائع ہوا۔ اس کے بعد علیم صبا نویدی کی فکرمیں واضح تبدیلی آتی گئی اور وہ ایک جدید لب و لہجے کے علامتی اور تجریدی انداز کے ساتھ باغی افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان منوانے میںکامیاب رہے۔ منٹو، عصمت اور وہی وہانوی کے طرز پر علیم صبا نویدی کے افسانوں میں بھی جنسی مسائل اور جنسی تلذذ کا اظہار بڑی بے باکی سے ملتا ہے۔

تمل ناڈو میں حجاب امتیازعلی اور علیم صبا نویدی کے علاوہ بیسویں صَدی کے نصف آخر اور اکیسویں صَدی کے اوائل میں افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے۔ جن کے یہاں روایتی اور سطحی رومانیت پائی جاتی ہے۔ صرف چند ہی ممتاز افسانہ نگارایسے ہیں جن کے یہاں اعلیٰ رومانیت کے ساتھ ساتھ حقیقت نگاری کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، اِن میں سر فہرست شروعاتی دور میں شاکر نائطی، ارشد حیدری، حبیب خان سروش، ریاض جنیدی، سید موسیٰ کلیم ید الٰہی، دوسرے دور میں محمد حبیب اللہ، مصباح الزماں،  محمد عباس، شاہ ضیا ئ میر، خورشید حسن نقوی، حبیب اللہ باشاہ، سید امان اللہ عباسی، علی اکبر آمبوری، تیسرے دور میں ادیب بھارتی، فرحت کیفی، راجی صدیقی، راز امتیاز، نورس خیامی، ایس ایم حیات، دانش فرازی، انور ربانی،عابد صفی، مہر طلعت آمبوری، رشید احمد فاروقی، عزیز تمنائی، رشید مدراسی، ساحل رشید، فیضی صدیقی کے نام آتے ہیں۔

1960 کے بعد افسانہ نگاروں کی ایک نئی پود منظر عام پر آئی جن میں فضل جاوید، حسن فیاض، نکہت اقبال، وہاب نازش، صلا ح الدین برق،علیم صبا نویدی، نثار احمد ریحان، سبیل عرفان، اعجاز شاکری، ظہیر آفاق، کاظم نائطی، فخر اعجاز، عبداللطیف نازی، فیاض حسین، احمد علی اعجاز، متین ہوش، میر مومن علی،جہاں آرا، فاطمہ رئیس، نذیر احمد مشعل،  منیر احمد نیازی قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد ساتویں اور آٹھویں دہائی میںافسانہ نگار کے طور پر قبولیت پانے والوں میں محمد یعقوب اسلم، انور کمال،ڈاکٹر جلال عرفان،وی رحمت اللہ، مختار بدری،اکبر زاہد، شبیب احمد کاف، امین الماس، امیرالنسائ، شاکر قدسی، شاذیہ مسرور،نسرین جمیل، منور رشید، صبا مصطفٰے،  حوا ما رشیدی، نگار سلطانہ جلیلی، عرفانہ تزئین شبنم، نزہت نازنین، شاذیہ نازنین، غزالہ پروین بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔موجودہ دور میں افسانہ نگاروں کے اس کارواں میں جو نئے نام شامل ہوئے ہیں ان میںمحمد جان وفا اعظمی، فرحت جبین، غیض الدین، اشفاق اسانغنی،ایم این عبداللہ باشاہ، مدورئے منیر، ڈاکٹرطیب خرادی اور خاکسار کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے اکثر کے لکھے ہوئے افسانے ملک کے معتبر ادبی رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر عابد صفی، تمل ناڈو کے افسانوی ادب میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کے لکھے افسانے ملک کے معتبر جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ہلکی سی رومانیت لیے ان کے افسانے سطحیت سے ماورا ہوتے ہیں۔ کہانیوں کو پیکر نگاری اور منظر کشی کے ذریعے دلچسپ بنانا انھیں خوب آتا ہے۔ ڈاکٹر جلال عرفان ان پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’ آپ تمل ناڈو کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں، ابتدائی دور کے افسانوں میں ترقی پسند ی کا رنگ غالب تھا۔ لیکن آگے چل کر موضوعات میں وسعت اور تنوع پیدا ہوگیا۔ مجروح انسانی جذبات کی عکاسی اور نفسیاتی مسائل کی پیش کش بڑے موثر اور دلکش انداز میں کرتے ہیں۔‘‘ (تملناڈو میں اردو افسانے کا ارتقا: ڈاکٹر عابد صفی، مشعل وانم باڑی شمارہ 43ص49) بقول ڈاکٹر سجاد حسین، ’’عابد صفی کی بہترین کہانیاں صنف نازک کی نفسیات اور مسائل کی ترجمان ہیں۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور احساس نہایت تیز ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی چیز کی تصویر کشی میں باریک بینی سے کام لے کر اس کے خدوخال روشن کردیتے ہیں۔‘‘

(شہر مدراس میں اردو افسانہ نگاری:ڈاکٹر سید سجاد حسین، مشعل وانم باڑی شمارہ 43،ص40)

محمد یعقوب اسلم کے افسانوں کا مجموعہ ـ’چہروں کی دیوار‘ تمل ناڈو کے افسانوی ادب میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ اس میں کل دس افسانے ہیں اور یہ1986 میں شائع ہوا۔ روایتی اسلوب میں حقیقت نگاری، بے ساختہ پن، فکر کی بلندی،قدروں کی منظر کشی،اُن کے افسانوں کا طرہ امتیاز ہے۔بقول ڈاکٹر عزیز تمنائی ’’ ایک اچھا افسانہ نگار روزمرہ کے مشاہدات کو کہانی کا روپ دیتا ہے۔ خلوص اور سچائی کے زیورات سے آراستہ کرتا ہے اور سطحی رنگ آمیزیوں سے انھیں پاک صاف رکھتا ہے۔ یہ ساری خوبیاں یعقوب اسلم کے افسانوں میں یک جا ہوگئی ہیں۔‘‘

(چہروں کی دیوار،افسانوں کا مجموعہ: محمد یعقوب اسلم)

مختار بدری، تمل ناڈو میں اردو زبان و ادب کے خاموش اورپُرخلوص خدمت گاروں میں ایک نمایاں نام ہے۔ تمل اور اردو زبان و ادب پر یکساں قدرت و مہارت کے حامل کئی کتابوں کے مصنف مختار بدری نے اردو زبان کے کئی معروف ادیبوں کی تخلیقات کا تمل زبان میں ترجمہ کراکے انھیں تمل دنیا سے متعارف کرایا ہے۔اردو تمل، تمل اردو ڈکشنری آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ بحیثیت افسانہ نگار مختار بدری ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ بیک وقت ترقی پسند اور روایتی فکر سے متاثر آپ کے افسانے سادگی اور حقیقت نگاری سے مرصع ہوتے ہیں۔لفظوں کو برتنے کا فن آپ کو خوب آتا ہے، بقول علیم صبا نویدی،’’ مختار بدری کے یہاں اکثر اوقات الفاظ کی شان و شوکت اور ان کا جاہ و جلال بھی بہت مزہ دے جاتا ہے اور بڑی دیر تک سماعت میں ایک حسین گونج قائم رہتی ہے۔ الفاظ کی یہ گہماگہمی انھیں روایت کے بالکل قریب لے جاتی ہے۔‘‘(روشن چہرے:علیم صبا نویدی ص148)

صبا مصطفٰی، مدراس کی افسانہ نگار خاتون ہیں جنھوں نے بطور فن صنف افسانہ اختیار کیا۔انھوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کی نفسیات اور مصیبت زدہ پریشان حال مسلم گھرانوں کے مسائل کو بڑی شائستگی کے ساتھ صاف اور سلیس زبان میں پیش کیا ہے۔ اپنا نقطہئ نظر قاری تک، اُسے الفاظ کی بھول بھلیوں میں بھٹکائے بغیر عام فہم انداز میں کامیابی کے ساتھ پہنچاتی ہیں۔روایت کی پاسداری اور اصلاحی پہلو اُن کے افسانوں میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

علی اکبر آمبوری کا شمار تمل ناڈو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’برف سی اجلی‘ 1965 میں شائع ہوا۔ انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ اور بلند تخیل کے ساتھ آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر اپنے ماحول اور معاشرے کو افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش ان کی پہچان ہے۔قاضی حبیب ان کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’علی اکبر اپنے افسانوں کے لیے خام مواد اپنے اطراف سے حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانوں میں جنوبی ہند کے لوگوں کی تہذیب اور نفسیات کی گہری چھاپ موجود ہے۔ ‘‘

(آمبور اور پرنامبٹ میں افسانہ نگاری:قاضی حبیب احمد، مشعل وانم باڑی شمارہ 43،س30)

امیرالنسائ جن کا تعلق ایک سرمایہ دارروایتی گھرانے سے ہے، حقیقت نگاری اور عورت کو موضوع بنا کر اصلاحی افسانہ نویسی میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ ان کی زبان عام فہم اور تصنع سے پاک ہونے کے باوجود مشاہدات کی گہرائی سے آراستہ ہے۔ اخلاق اور مذہب ان کے افسانوں میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔’بند عور ت‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں کل پندرہ افسانے ہیں۔

مہر طلعت،مقصدی ادب کی تخلیق کا  رجحان رکھنے والی ایسی افسانہ نگار ہیں جن کے افسانوں میں حقیقت نگاری اور کردارسازی کمال کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔ فطری مکالمے، کرداروں کی حقیقت پسندی، صاف ستھری عبارت، مربوط جملے ان کے افسانوں کی دیگر خصوصیات ہیں۔ ان کے لکھے افسانے خواتین کے رسالوں میں کثرت سے چھپتے رہے ہیں۔  ڈاکٹر عابد صفی ان  کے افسانوں پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ مہر طلعت کے افسانوں کی فضا بڑی دلکش اور انداز بیان بڑا  دل فریب ہوتا ہے۔ ان کے افسانے زیادہ تر رومانی ماحول میں سانس لیتے اور سماجی پہلوؤں کے اردگرد چکر لگاتے ملتے ہیں۔‘‘

(تملناڈو میں اردو افسانے کا ارتقا: ڈاکٹر عابد صفی، مشعل وانم باڑی شمارہ 43ص49)

شبیب احمد کاف، تمل ناڈو کے جواں مرگ افسانہ نگار جنھوں نے مختصر عرصے میں ایسے شہ پارے تخلیق کیے کہ ایک دنیا اُن کی گرویدہ ہو گئی۔شبیب احمد کاف، وانمباڑی میں 1955 میں پیدا ہوئے۔1982 سے انھوں نے لکھنا شروع کیا، ایک اندازے کے مطابق سو کے قریب افسانے لکھے،1991 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس حساب سے ان کی ادبی زندگی آٹھ نو سال کی رہی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ حق تو یہ ہے‘ ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ نے 1992میں شائع کیا۔ شبیب احمد کاف کے افسانوں میں اصلاحی پہلو سب سے نمایاں ہے،ان کے افسانوں کی زبان صاف اور شستہ، ان کا اسلوب منفرد، ان کا بیانیہ تاثیر سے پُر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حیات افتخار اُن کے متعلق لکھتے ہیں’’ سماج کے ایک ذمہ دار اور حساس فر دکی حیثیت اپنے اردگرد کی معاشرت کی سچی تصویر پیش کی ہے اور ایک سچے فنکار کی طرح اپنے نقطہئ نظر کو عام طور پر بالواسطہ نہیں بلکہ باواسطہ طور پر پیش کیا ہے۔‘‘

انور کمال تمل ناڈو کے ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے فن کے اظہار کے لیے علامتی طرز نگارش اختیار کی۔ ابتدائی دور میں سماجی مسئلوں کو موضوع بنا کر لکھے چند افسانوں کے بعد انھوں نے اپنی پوری توجہ علامتی افسانہ نگاری کی طرف پھیر لی۔ زبان و بیان پر مکمل گرفت اور تہہ داری لیے ان کے افسانے سحر پیدا کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر جلال عرفان اُن کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’انور کمال کے علامتی افسانوں میں ایک دیو مالائی فضا ملتی ہے۔ دھندلے اور نیم خوابیدہ جہانوں کی غیر یقینی کیفیت اور کسک ملتی ہے۔ رہ گم کردگان کے بے نتیجہ اور لامتناہی سفر کی تھکن ملتی ہے۔ علامتی انداز نگارش نے انور کمال کے افسانوں میں ایک ایسی تہہ داری پیدا کردی ہے جو اشعار غالب کا وصف ہے۔‘‘

(انور کمال کا تخلیقی سفر:ڈاکٹر جلال عرفان، مشعل وانم باڑی شمارہ 32ص15)

اکبر زاہد منفرد اسلوب میں جذبات و محسوسات کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کا فن رکھتے ہیں۔ان کے افسانوں میں علامتی فضا اور حقیقت نگاری ساتھ ساتھ چلتی ہے۔اُن کا کمال یہ ہے کہ جانے پہچانے کردار تراش کر قاری کو اپنائیت کا احساس دلاتے ہوئے اُسے خود بھی اپنی کہانی کا ایک کردار بنا لیتے ہیں۔ وہ معاشرے کو آئینہ تو دکھاتے ہیں لیکن اصلاح کے نام پر اپنے افکار و نظریات اس پر تھوپنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بقول ڈاکٹر جلال عرفان ’’ اکبر زاہد افسانے میں وعظ و نصیحت بالکل نہیں کرتے مگر افسانے کی تاثیر ایسی ہوتی ہے کہ قاری کا سارا وجود احساس کے شعلوں کی لپیٹ میں سما جاتا ہے اور اس کا نفس پاک ہونے لگتا ہے۔ ‘‘ (ایک نیزہ اونچا آسمان، افسانوں کا مجموعہ:اکبر زاہد،ص ض) 21، افسانوں پر مشتمل ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ایک نیزہ اونچا آسمان‘ اپریل 1997 میں شائع ہوا۔

عرفانہ تزئین شبنم کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، ان کے والد ایک عالم دین اور کثیر المطالعہ شخصیت تھے، جن کی تربیت کی بازگشت ان کے لکھے افسانوں میں جا بجا سنائی دیتی ہے۔ بوجھل لفظوں سے پاک عام فہم زبان، رواں اسلوب، ان کے نگارشات کی پہچان ہے۔ انسانی زندگی کی الجھنیں اور نفسیاتی پیچیدگیاں ان کے افسانوں کا موضوع ہوتے ہیں۔  عرفانہ تزئین شبنم کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں،پہلا مجموعہ ’جائے پناہ‘ جس میں 16فسانے ہیں،1999 اپریل میں شائع ہوا، دوسرا مجموعہ ’شہر تخیل‘ جس میں دس افسانے ہیں نومبر 2007 میں شائع ہوا۔

تمل ناڈو کے اکثر افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں وعظ و نصیحت کا رنگ غالب رہتا ہے۔ قاری کے ذہنوں پر یہ تخلیقات کوئی دیر پا اثر مرتب نہیں کرپاتیں۔حالات کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں امید کی جانی چاہیے کہ یہ جمود ٹوٹے گا اور یہاں سے ایسے فنکار ابھریں گے جو عالمی سطح پر اردو ادب میں اپنی کوئی منفرد پہچان بناسکیں۔

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں سے مدد لی گئی:

1       تمل ناڈو کے مشاہیر ادب از علیم صبا نویدی، فروری 1999

2       مدراس میں اردو مرتبہ ڈاکٹر جلال عرفان،دسمبر 1992

3       مٹی کی خوشبو (سوانحی اور تعارفی خاکے) از محمد یعقوب اسلم، نومبر2010

4       چہروں کی دیواراز محمد یعقوب اسلم،1986

5       اُجلی مسکراہٹ از علیم صبا نویدی مرتب پروفیسر عابد صفی،مئی 2020

6       ایک نیزہ اونچا آسمان از اکبر زاہد،اپریل1997

7       شہرِ تخیل از عرفانہ تزئین شبنم، نومبر 2007

8       مشعل( اسلامیہ کالج،وانم باڑی) شمارہ 32 اور43

9       میرا مطالعہ (تبصرے اور مضامین) از علیم صبا نویدی، دسمبر2018

 

 

Asangani Mushtaq Ahmed

9/258, 2nd Street Basheerabad

Vaniyambadi - 635751

Tirupattur, (Tamilnadu)

Mob.: 989404606

Email.: asanganimushtaq@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں