7/9/21

سید محمد نسیم انہونوی: حیات و خدمات - مضمون نگار: شہلا پروین



 


سید محمد نسیم انہونوی اردو ادب میں کثیرالجہات شخصیت کے مالک ہیں۔وہ صرف نا ول نگار ہی نہیں ہیں بلکہ افسانہ نگار،مقالہ نگاراور عظیم صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کے پبلشر بھی تھے۔انھیں نام و نمود کی خواہش نہیں تھی اور نہ ہی اس کے لیے انھوں نے خوشامدانہ لہجہ اختیار کیا۔سچ کو سچ کہنااپنا اوّلین فرض سمجھا۔وہ اپنی تخلیق میں ان پہلوؤں کو اہمیت دیتے ہیں جس کا کوئی خاص مقصد ہو،  کیوں کہ نصب العین کے بغیر کوئی بھی تخلیق کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ان کی نظر میں خالص ادب وہی ہے جو سماج اور معاشرے کا آئینہ دار ہو۔وہ مشرقی اقدار کے حامی اور قدیم تہذیبی روایات کے پرستار تھے۔ لہٰذا ان کے ناولوں اور افسانوں کی اثر انگیز تحریریں، جملوں کی برجستگی،انداز بیان کی شگفتگی اور ندرت خیال ان کی شخصیت کے آئینہ دار ہیں۔

سید محمد نسیم انہونوی 1904 میں انہونہ میں پیدا ہوئے۔ انہونہ لکھنؤ سے تقریباًچالیس میل کی دوری پر واقع رائے بریلی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔نسیم انہونوی کے والد کا نام سید حشمت علی تھا۔جو نہایت سادہ مزاج اور پاکیزہ طبیعت کے مالک تھے۔ان کے خاندان میں پیری و مریدی کا سلسلہ قائم تھا۔ان کا قصبہ تعلیمی ومعاشی اعتبار سے زوال  پذیر تھا۔وہاں کے لوگ مفلسی اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ تعلیم وتعلم کا معقول انتظام نہیں تھا۔ لہٰذا حشمت علی انہونہ سے ہجرت کرکے لکھنؤ  آگئے اور محلہ بشیرت گنج میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں کے ایک مقامی اسکول میں درس و تدریس کے پیشے سے جڑ گئے۔

نسیم انہونوی کا خاندان بہت مہذب تھا،علم زہد اور تقویٰ ان کے گھرانے کی شان امتیاز تھی جس سے وہ فطری طور پر متاثر ہوئے۔قرآن اور مذہبی تعلیم کی ابتدا گھر سے ہوئی انھوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنا پر آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک کا ناظرہ مکمل کر لیا۔ 1915  میں ان کا داخلہ’ــ رام گنج پرائمری اسکول ‘میں کرادیا گیا۔ یہاں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ’مولوی گنج پرائمری اسکول‘میں داخلہ کرا دیا گیا۔انھوں نے اسی اسکول سے بورڈ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیالیکن والد کی آمدنی قلیل ہونے اور کچھ معاشی مجبوریوں کے تحت ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔

نسیم انہونوی کو بچپن سے ہی مطالعے کا بہت شوق تھااور کم عمر میں ہی کہانیاں لکھنی شروع کردی تھیں۔اس وقت لکھنؤ میں ایک اسلامی تنظیم ’انجمن اسلامیہ ایک آنہ فنڈ‘ کی جانب سے ماہانہ رسالہ ’انکشاف‘ شائع ہوتا تھا۔ اس رسالے میں ان کی کئی کہانیاں چھپیں اور ادب میں ان کی پہچان بنی۔ایک دن نسیم انہونوی اپنی کسی کہا نی کی اشاعت کے سلسلے  میں انکشاف کے دفتر پہنچے تو،اس رسالے کے ذمے داروں نے ان کی علمی لیاقت سے متاثر ہوکر ان کے سامنے ایڈیٹر شپ کی پیشکش کی جسے انھوں نے بہ سروچشم قبول کرلیا۔یہ سنہرا موقع ان کے مستقبل کو سنوارنے میں معاون ثابت ہوا۔جس سے ان کی ایڈیٹر، پبلشر،صحافی،مصنف اور ناول نگار جیسی پوشیدہ صلاحیتوں کا لوگوں سے تعارف ہوا۔نسیم انہونوی پورے حوصلے اور ایمانداری کے ساتھ میگزین کی ترتیب وتدوین میں مشغول ہوگئے۔مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے کلرک، ایڈیٹر اور منیجر تینوں کی ذمے  داری خود ہی انجام دیتے تھے۔جو ان کی ادبی لگن اور علم پروری کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

نسیم انہونوی ایڈیٹر شپ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعددیگر شعرا، ادبا اور فکشن نگاروں سے متعارف ہوئے۔ ان میں شوکت تھانوی،امین سلونوی اور نیازفتح پوری کے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں۔شوکت تھانوی ان کی پوشیدہ صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے۔ اس وقت لکھنؤ میں ایک ادبی حلقہ بن گیا تھا جو اپنے آپ میں ممتاز تھا۔یہ ادبی حلقہ ’تثلیث‘کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس میں تین احباب نسیم انہونوی،امین سلونوی اور شوکت تھانوی شامل تھے۔یہ تینوں احباب ’باپ بیٹے‘ اور ’روح القدس ‘کے نام سے جانے جاتے تھے۔

نسیم انہونوی نے ’انکشاف‘ کی ادارت کے دوران اس کا’ظریف نمبر ‘بھی شائع کیا۔جس سے ان کی شہرت اور مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا،لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہااور چند غیرمعمولی وجوہات کی بنا پریہ رسالہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیاگیا۔اگرچہ ان کی یہ صحافتی خدمات بہت مختصر رہی،لیکن اس دوران انہیں ادبی حلقوںمیں شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اور ایڈیٹنگ، پبلشنگ کے تمام تجربات حاصل ہوگئے۔ انکشاف کا بند ہونااردو ادب کے لیے خسارہ تھا اور اس سے نسیم انہونوی کو بہت افسوس ہوا۔انھوں نے اپنے اس غم کو دور کرنے کے لیے خود ایک رسالہ نکالنے کا منصوبہ بنایا۔انکشاف کی ایڈیٹری کے دوران کی ذہنی فضا کے تانے بانے میںمذہبی رنگ حاوی ہو گیا تھا۔دوسری طرف مغربی تہذیب اور جدید تعلیم کی بدولت نوجوان طبقے کا رجحان فیشن پرستی اور بے حجابی کی طرف تیزی سے بڑھ رہاتھا۔مہذب گھرانے کی پردہ نشین خواتین بھی اس سے متاثر ہو رہی تھیں۔ چونکہ نسیم انہونوی مغربیت کے سخت مخالف اور مشرقیت کے زبردست حامی تھے اور مذہبی ماحول کے پروردہ تھے۔لہٰذا ماحول اور فطرت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔جنوری 1931 میں اپنے ذاتی ادارہ’ نسیم بک ڈپو،لکھنؤ‘سے خواتین کی اصلاح کے لیے ماہانہ رسالہ ’حریم‘جاری کیا۔ اس کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا توخوب پزیرائی ہوئی۔ عام طور پر خواتین طبقے میں اس وقت کا سب سے زیادہ پسندیدہ رسالہ ثابت ہواکیونکہ اس میں ان کی تفریح کے تمام لوازمات موجود تھے۔

رسالہ حریم کا اداریہ نسیم انہونوی خود ’لمعات ‘کے عنوان سے لکھا کرتے تھے۔جس میں اس وقت کے علمی وادبی ماحول،عورتوں کی گھریلو زندگی،ان کی تعلیم وتربیت اور عصرحاضر سے متعلق باتیں ہوتی تھیں۔ نسیم انہونوی نے اس کے ذریعے طبقۂ نسواں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی اہم بنیادی مسائل اور حالات حاضرہ پر بھی قلم اٹھایا،تنقیدی و اصلاحی پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔وہ مشرقی تہذیب و تمدّن کے امین تھے اور اس رسالے کے ذریعے انھیں اقدار کو محفوظ رکھنے کی ذمے داری نبھائی۔وہ بلا جھجھک اپنے عہد اور حالات سے پردہ اٹھاتے ہیںاور حریم کی اشاعت کا اصل مقصد بھی مشرقی تہذیب کی حمایت ہے۔انھو ںنے جہاں ایک طرف تعلیم نسواں کی ضرورت کو محسوس کیا وہیں دوسری طرف قوم کی خواتین کو مغربی طرز زندگی اور اس کے نقائص سے محفوظ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ان کا مقصد عورتوں کو علوم جدید سے دور رکھنا نہیں تھا بلکہ مشرقیت کے دائرے میں رہ کر جدیدیت کو قبول کرنا تھا۔

نسیم انہونوی نے دوسرا رسالہ ’سر پنچ‘کے نام سے اکتوبر 1931 میں جاری کیا۔یہ ہفتہ وار مزاحیہ رسالہ تھا۔ اس کی ادارت کی ذمے داری انھوں نے شوکت تھانوی کے سپرد کردی۔سر پنچ کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔یہ اس وقت کااردو کا ایسا رسالہ تھا جس میں سب سے زیادہ مزاحیہ کالم ہوتے تھے۔

1945 میں نسیم انہونوی نے باقاعدہ سر پنچ کی ذمے داری سنبھالی۔انھوںنے اس کی کامیابی کے لیے بہت محنت اور پیسہ صرف کیے،لیکن بد قسمتی سے 1947  میں ہند و پاک کی تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات میں ممبئی میں واقع سر پنچ کا آفس تباہ وبرباد ہوگیااور سر پنچ بند ہو گیا۔

ایک پبلشر کی حیثیت سے بھی نسیم انہونوی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔انھوں نے 1928 میں لکھنؤ میں لاٹوش روڈ پر ادارہ ’نسیم بک ڈپو‘ کی بنیاد رکھی۔یہ ان کا ذاتی ادارہ تھا اور ہندوستان کے معیاری اداروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ان کا پہلا ناول ’طرز زندگی‘ اسی ادارے سے شائع ہوا۔ 1989 تک انھوں نے اس ادارے سے ایک ہزار سے زائد کتابیں شائع کیں،جو ہمارے ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے خواتین قلمکاروں کا ایک گروہ پیدا کیا جس میں رضیہ سجاد ظہیر، حجاب امتیاز علی، صالحہ عابد حسین، عطیہ پروین، عفت موہانی، مسرور جہاں اور سعید ناز وغیرہ ناول نگار اور افسانہ نگار شامل ہیں۔ نسیم انہونوی کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر اخلاق احمد اثر رقم  طراز ہیں :

’’سچ پوچھیے تونسیم بک ڈپو کو نسیم انہونوی صاحب نے اکادمی کا درجہ دیاتھا۔بھوپال کے قلم کاروں کو دوسرے صوبوں سے جو انعامات و اعزازات ملے،بھوپال اور صوبے کے ادب کو جو مقام ملااس میں نسیم انہونوی کا بہت بڑا ہاتھ تھا،ان کی خدمات کو ہم چاہیں بھی تو نظرانداز نہیں کر سکتے۔‘‘ (نیا دور،لکھنؤ،جون 1980، ص47)

نسیم انہونوی وقت کے بہت بڑے نباض تھے۔ انھوں نے ادب کو ضروریات وقت کے مطابق پے در پے ترقی دینے میں گراں قدر خدمات انجام دیے ہیں۔ زبان وادب کی ترقی اور نشوو نما میں تراجم کا اہم رول ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے ذاتی ادارے نسیم بک ڈپو سے بڑی تعداد میں تراجم شائع کیے اور ادب کے دامن کو مالامال کیا۔اس سلسلے میں پروفیسر یعقوب یاور ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’انھوں نے اپنے ادارہ سے بڑی تعداد میں نہ صرف تراجم شائع کیے بلکہ مظہر الحق علوی، مظفر حنفی،  ایم جے عالم،خان محبوب طرزی،مسعودجاوید،حسین امین اور بدنام رفیعی جیسے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ بھی کیا۔ نسیم بک ڈپو ہندوستان کا واحدغیر سرکاری ادارہ ہے،جہاں سے اتنی بڑی تعداد میں تراجم شائع ہوئے۔جن مغربی ناول نگاروں کے تراجم اس ادارہ سے شائع ہوئے ان میں ہرمن ہیس، سامر سیٹ مام، فیو دردوستوئفسکی،الیگزینڈر ورما، ماریو پوژو، کین فالیٹ،شڈنی شلڈن،رائڈررہگرڈ اور اگاتھی کرسٹی جیسے نام شامل ہیں۔یہ مماثل بھی کتنے خوشگوار ہیں کہ اپنے عہد میں نول کشور نے منشیوں کو باقاعدہ ملازم رکھ کر داستانیں لکھوائیں جو اس عہد کے قارئین کے تقاضوں کی تکمیل تھی۔آج کے دور میں نسیم صاحب عوام کے ذوق کا لحاظ رکھتے ہوئے ویسی ہی توجہ تراجم پر صرف کی۔‘‘

(یعقوب یاور، تفکیر وتفہیم، بھارت آفیسٹ، دہلی2003،  ص27)

نسیم انہونوی کی ناول نگاری کی ابتدا ـ’طرز زندگی‘ سے ہوئی۔ انھوں نے جس عہد میں قلم سنبھالا وہ سیاسی سماجی اور معاشی نقطہ نظر سے نہایت کسمپرسی اور کرب کا زمانہ تھا اور پرانی قدریں دم توڑ رہی تھیں۔ایک طرف پستی،پسماندگی،رجعت پسندی،جہالت،مذہبی تعصب اور بے چارگی تھی تو دوسری طرف سامراجی طاقتیں اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کررہی تھیں۔ایسے نازک وقت میں قوم کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور خصوصاً نوجوان نسل انگریزی تعلیم کے زیر اثر کیف و سرور کی سر مستیوں اور نت نئے فیشن میںملوث ہوتی جا رہی تھی۔ایسے حالات میں نسیم انہونوی نے اپنے ناولوں کے ذریعے قوم کی اصلاح کی کو شش کی۔

نسیم انہونوی نے ڈپٹی نذیر احمد، عبد الحلیم شرر اور علامہ راشد الخیری کا اثر قبول کیااور ان کے اصلاحی مقصد کے پیش نظر اپنے ناولوں کی تخلیق کی۔ان کا سب سے مشہور اور کامیاب ناول ’کہکشاں‘ہے۔ یہ1950 میں پہلی بار شائع ہوا۔اسے نسیم انہونوی اپنا شاہ کار ناول تسلیم کرتے ہیں۔اس ناول کے پندرہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔اس کے بعد کئی ناول منظر آم پر آئے۔ شگفتہ 1951،نجم السحر 1953،مہ پارہ1954،تمنا 1955،شبانہ 1956، بانو اور سراب زندگی 1957، مہتاب اور گلرو1958، خاتون اور ارمان 1959،کشور، آفاق اور رحمت1960،مس طلعت 1962، پرایا دھن1964، حسینہ 1966، حسرت 1973، آخری تمنا1979، وغیرہ ناول لکھے۔

 نسیم انہونوی کی ناول نگاری کا مقصد فرد اور سماج کی اصلاح ہے۔انھوں نے خصوصاًخواتین کی فلا ح وبہبود اور  ان کی تعلیم وتربیت کے لیے اپنے قلم کو جنبش دی۔ان کے زیادہ تر ناولوںکے نام نسوانی کردار سے ماخوذ ہیں۔ انھوں نے زندگی کے مسائل سے چشم پوشی نہیں کی جو کچھ جیسا دیکھا اور محسوس کیا،اسے قلم کے ذریعے اپنے ناولوں میں بیان کردیا۔ناولوں میں قصے کے ڈھانچے تیار کرنے میں فنی چابک دستی سے کام لیا ہے اور واقعات نگاری کو خاص اہمیت دی ہے،جس سے ربط اور تسلسل قائم رہتا ہے۔ ان مربوط واقعات کے ذریعے ہی قاری کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرا ر رہتی ہے۔ان کے ناولوں کی سب سے بڑی خوبی حقیقت اور تخیّل کی حسین آمیزش ہے۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات اور زبان و بیان کی چاشنی سے ناول کا حسن دوبالا کر دیتے ہیں۔

نسیم انہونوی اپنے پیش رو ادیب علامہ راشد الخیری کی طرح اپنے تمام ناولوں میں عورت کی مظلومیت، پردے کی اہمیت وافادیت،گھریلو اور معاشرتی زندگی کو بنیادی حیثیت دی ہے۔جس کی وجہ سے انھیں عہد حاضر کا ذی شعور صاحب فن ناول نگار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ان کے مد نظر ہمیشہ سماج اور معاشرے کی اصلاح رہی ہے۔ ان کی ناول نگاری کا اہم مقصد عورتوں کی تعلیم وتربیت اور ان کے تحفظ کے مسائل ہیں۔انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے عورتوں کے خلاف برتے جانے والے امتیازات، مردوں کے ذریعے ان پر ہونے والے استحصال، مشرقی و مغربی تہذیب کا تصادم،مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک اور ان سے پیدا ہونے والے مضر اثرات پر اظہار خیال کیا ہے۔یوں تو کئی خواتین قلم کاروں نے ان مسائل پر قلم اٹھائے ہیں،مگر نسیم انہونوی نے جس طرح سے نسوانی زندگی کے متعلق اظہار خیال کیا ہے،اس سے خواتین قلم کار پیچھے چھوٹ جاتی ہیں۔زندگی کے حقائق پر گہری نظر اور عمیق مشاہدات نے ان کے موضوعات کو دل آویز بنا دیا ہے۔اس سلسلے میں ایک جگہ مسرور جہاں لکھتی ہیں:

’’نسیم انہونوی مرحوم نے عورت کو عزت اور وقار بخشا،ان کے حقوق وفرائض پہچنوائے اور عورت کے استحصال کی پرزور مذمت کی۔مشرقی قدروں اورروایات کی پاسداری ان کا نصب العین رہا۔‘‘

(نیا دور، جون 1989، ص43)

نسیم انہونوی عورت کو خانگی زندگی سے الگ کرکے نہیں دیکھتے ہیں۔وہ معاشرے میں اس کردرا کو بلندیوں تک لے جانا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ان کے ناول ’گلرو‘ اور ’مہ پارہ‘ ان نظریات کے حامی ہیں۔ناول ’گلرو‘ میں ’ گنگا ‘ ایک طوائف کی حیثیت سے سامنے آتی ہے،مگر کہانی کے آخرمیںوہ مجرا ترک کرکے اپنی دولت نیک کاموں میں صرف کر دیتی ہے۔اسی طرح اس ناول کا دوسرا کردار’ گلرو ‘بھی رقص و سرو د کو خیرآباد کہہ کر’ارشاد‘نامی شخص سے نکاح کرلیتی ہے اور پاکیزہ خانگی زندگی گزارتی ہے۔  ناول’ مہ پارہ‘ میں طوائف’ لیلیٰ‘ کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔فن موسیقی اس کا ذریعہ معاش ہے۔وہ بڑے بڑے اوباش رئیسوں کو اس فن سے مات دے جاتی ہے اور اپنے گوہر عصمت کوقائم رکھتی ہے۔ زندگی کے آخری ایام میںوہ حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہو جاتی ہے۔ نسیم انہونوی نے اپنے متعدد ناولوں میں مشرقی و مغربی تہذیب کا تصادم پیش کیا ہے،جس کی عکاسی ناول ’کہکشاں ‘ میں بخوبی نظر آتی ہے۔ ناول کا کردار’ افروز‘، ’نازک ‘اور’ حسینہ‘ کی زندگی مغربیت کی اندھی تقلید کے سبب تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔وہیں دوسری طرف ناول کا مرکزی کردار’کہکشاں‘جو مشرقی تہذیب کا دلدادہ اور اس روایات کا پرستار ہے،وہ اپنی ازدواجی زندگی میں سرخرو ہوتی ہے اور خوشیاں و شادمانیاں اس کے قدم چومتی ہیں۔

نسیم انہونوی کو مناظر فطرت سے گہری انسیت تھی۔ ان کے زیادہ تر ناولوں کے اصلاحی پلاٹ کی شروعات انھیں مناظر سے ہوتی ہے۔وہ سا ل کے دو مہینے نینی تال میں گزارتے تھے۔وہاںکے خوشگوار اور پرسکون ماحول میں اپنے قلم کا جادو دکھاتے تھے۔وہاں کے قدرتی مناظر اور حسین نظاروں کی دلکش جھنکار ان کی تحریروں میں محسوس ہوتی ہے۔

’’گو میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں،لیکن میری محبوبہ پہلے بھی اسی طرح جوان تھی جس طرح آج نظر آرہی ہے،بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے حسن میں پہلے سے زیادہ نکھار آگیا ہے اور جوانی جیسے پھوٹی پڑتی ہے۔وہی شادابی جو اس کے سراپا  پر چھائی رہتی تھی،آج بھی نظر آتی ہے۔اس کا بانکپن شاید پہلے سے بھی زیادہ ہے۔شعرا نے اپنے محبوبوں کی آنکھوں کی تشبیہ جھیل سے دی ہے،لیکن اگر وہ نینی تال کو دیکھ لیں توجھیل کے بجائے اسی سے تشبیہہ دیتے۔ صبح اٹھ کر اسے دیکھیے تو ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے شب اوّل کی مست شباب  دلہن شراب وصل پی کر سو گئی ہے۔دن میں دیکھیے تو ایسا محسوس ہوتاہے جیسے دلہن پہلی بار سسرال آئی ہے اور رو نمائی کی رسم ہو رہی ہے۔ہر طرف چہل  پہل ہر سمت شور وغل،جو ہے اس کا چہرہ دیکھنے کے لیے دوڑ رہا ہے،بھاگ رہا ہے اور رات کو دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے  نئی نویلی دلہن افشاں  چھڑکے کامدانی کا دوپٹہ اوڑھے لیٹی ہوئی ہے۔‘‘

(آخری تمنا،نسیم انہونوی،نسیم بک ڈپو لاٹوش روڈ،لکھنؤ1979، ص9)

افسانہ نگاری کے میدان میں بھی نسیم انہونوی کی اہمیت مسلم ہے۔ناولوں کی طرح افسانے بھی اصلاحی نقطۂ نظر کے حامل ہیں لیکن ساتھ ہی ان میں رومانیت کا عنصر بھی موجودہے۔جو اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’دردناک افسانے‘ کے نام سے 1939 میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں کل اٹھارہ افسانے شامل ہیں۔ دوسرا مجموعہ ’آخری کہانی اور دیگر افسانے‘ کے نام سے شائع ہوا۔

نسیم انہونوی سماجی حقیقت نگار ہیں۔ انھوں نے عوام کے دکھ، درد، مصائب اور ایثار و قربانی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور خاص طور پر خواتین پر ہونے والے جبر اور ظلم وستم کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے مظلوم اور بے سہارا عورتوں کو ان کا حق دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ان کے نزدیک عورت ایثار و قربانی کا لازوال مجسمہ ہے۔جو ماں، بہن،بیوی اور بیٹی کی شکل میں ہمہ وقت قربانیاں دیتی رہتی ہے اور ہزار دشواریوں، مشکلات اور مصائب کے باوجود زندگی سے منھ نہیں موڑتی اور جینے کا حوصلہ رکھتی ہے۔آلام ومصائب سے ٹکراکر ہی اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اور وہ ایک آئیڈیل معاشرے کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

1970 کے بعد نسیم انہونوی دق کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور طبیعت دن بہ دن خراب ہوتی گئی لیکن بیماری اور تکلیف کے باوجود بھی ان کا قلم نہیں رکتا تھا۔ہر بار سردیوں کے موسم میں سانس کی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ ا س طرح صحت دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔عالم یہ ہوتا  تھا کہ ان کو کرسی پر بیٹھا کر دفتر کی سیڑھیوں سے اوپر پہنچایا جاتا اور کام کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔جب کمزوری مزید بڑھ گئی تو بستر مرگ پر پہنچ گئے اور 4 مارچ 1989 کو اس دار فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

مختلف تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نسیم انہونوی اعلیٰ پایے کے ناول نگار تھے لیکن جن اقدار کو انھوں نے گلے لگایا وہ دم توڑ چکی تھیں اور نئی اقدار سماج میں قدم جما رہی تھی لہٰذا لوگوں کی توجہ ان کی طرف خاطر خواہ نہیں ہوسکی۔ان کے فن پر تبصرہ کرنا تنقیدی مضامین لکھنابھی اہم قلم کاروں نے گوارہ نہیں کیا۔اس کا سبب یہ نہیں کہ ان کے ناول ایسے ہیں جنھیں نظر انداز کیا جاسکے۔ ایک ناشر کی حیثیت سے بھی وہ کامیاب انسان تھے۔جس کے آگے ان کے دوسرے کارنامے پھیکے پڑ گئے اور اہل ادب نے ان کے کارناموں سے چشم پوشی کرلی لیکن ان کے کارنامے اتنے اہم ہیں کہ اردو ادب میں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ انھوں نے مشرقیت کی اجڑتی ہوئی اقدار کو اپنے قلم کی روشنائی سے سینچا اور زندگی کی آخری سانس تک اس کی آبیاری کرتے رہے کیونکہ یہ اقدار ہماری زندگی کے ضامن ہیں اور سماج کی ترقی کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔عصر حاضر میں اس بات کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے سماج کی اصلاح کی جو مہم چلائی تھی،اردو ادب میں وہ آج بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

 

Dr. Shahla Parveen

Assistant Professor (G.T.) Deptt.of URDU

S.N.S.College,Motihari

East Champaran- 845401 (Bihar)

E-mail:shahlap12@gmail.com




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں