24/9/21

ماہنامہ معارف اور تحقیقات سلیمانی- مضمون نگار: اطہر حسین

 



  سید سلیمان ندوی(1884-1953) کا شمارممتاز علمی وادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔انھوں نے علم وتحقیق کے مختلف موضوعات پرکتابیں تصنیف کیں۔تاریخ و سیرت کے علاوہ ادب و تحقیق کے موضوعات کا بھی انھوں نے احاطہ کیا۔ان کی گراں قدر علمی و تحقیقی خدمات کا ایک زاویہ ماہنامہ معارف بھی ہے، جس کا خاکہ علامہ شبلی نعمانی نے تیار کیا تھا۔ مگر اس میں رنگ علامہ سید سلیمان ندوی نے بھرا۔ معارف کا آغازاس طرح ہوا کہ سو برس سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود نہ صرف یہ مسلسل شائع ہورہا ہے بلکہ اس کے تمام شمارے محفوظ اور استفادہ کے لیے آن لائن موجود بھی ہیں۔ جولائی 1916میں سید سلیمان ندوی نے اسے جاری کیا۔ 1953تک انھوں نے ماہ نامہ معارف کی ادارت فرمائی۔واضح رہے کہ معارف بنیادی طور پر علمی اور تحقیقی رسالہ ہے۔

معارف کے علمی وادبی مضامین ومقالات کی طرح شذرات کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ شذرات دراصل معارف کا اداریہ ہے۔ جس کو اپنے اسلوب تحریر کی بنا پر غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ڈ اکٹر اجمل ایوب اصلاحی شذرات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مقالات کا حصہ معارف کی جان ہے اور شذرات اس کا دیباچہ اور دریچہ،لیکن کئی پہلووں سے شذرات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ کسی شمارے کے مقالات اتنے دقیق ہوں کہ بہت سے قارئین کے لیے اس میں دلچسپی کا سامان نہ ہو مگر شذرات،معارف کے سارے ناظرین پڑھتے ہیں،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے شذرات ہی پڑھتے ہیں۔اداریہ کے لیے شذرات کا لفظ اس سے قبل ’الندوہ‘میں استعمال کیا گیا تھا اور قیاس یہ ہے کہ یہ بھی علامہ شبلی کی ایجاد ہے اور اسے ان اولیات میں شمار کیا جانا چاہیے۔شذرات سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کہتے ہیںجو سونے کی کان سے چنے جاتے ہیں۔ تاریخ پر ابن العباد حنبلی (ف:1089ھ) کی کتاب ’شذرات الذہب فی تاریخ من ذہب‘ مشہور ہے۔ اداریے میں مختلف موضوعات پر جو علاحدہ علاحدہ ٹکڑے لکھے جاتے ہیںان کے لیے علامہ شبلی نے اس بلیغ لفظ کا انتخاب کیا تھا،پھر تو یہ ایسا عام ہواکہ بہت سے لوگ اسے اداریے کا ہم معنی سمجھنے لگے۔علامہ شبلی نے الندوہ میں جو شذرات لکھے وہ تو شذرات الذہب تھے ہی،ان کے جانشینوں نے معارف میں جو اداریے لکھے وہ بھی علم وادب کا شاہکار تھے۔‘‘1

شذرات معارف میں مدیران معارف کی نجی زندگی کے بعض گوشوں،علمی اسفار،علمی وادبی تحریکوں، انجمنوں اور اداروں کی سرگرمیوں کا احاطہ، معروف ادیبوں، شاعروں سے متعلق معلومات اور عربی،فارسی کے ساتھ ساتھ عالمی،ملکی اور مقامی سطح پر موجود اردو مطبوعات اور مخطوطات کے نادر ذخائر کی نشاندہی،قدیم ونایاب کتب کے علاوہ جدید مطبوعات کے تذکرے سب کچھ ہوتا ہے اور یہ معارف کے قارئین کے لیے معلومات کا ایک اہم خزانہ ہوتا تھا۔ سید سلیمان ندوی نے تقریبا 37 سال تک معارف کے شذرات تحریر کیے جس میں ان تمام گوشوں کا انھوں نے احاطہ کیا۔ ان کے شذرات تین جلدوں میں مدون ہوچکے ہیں۔مولانا عبد الماجد دریابادی شذرات سلیمانی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’صاحب معارف کی شذرات نگاری ایک خصوصی وامتیازی شان نگارش رکھتی ہے،بے لاگ لیکن نہ درشت نہ کرخت،عمیق لیکن نہ ادق نہ مغلق،رنگین لیکن نہ پر تکلف نہ ثقیل،سلیس لیکن نہ سطحی نہ عامیانہ،شگفتہ لیکن نہ تاویلانہ نہ خطیبانہ،جاندار لیکن نہ گرما گرم نہ پرخروش،صالح لیکن نہ خشک نہ مولویانہ،سلیمانی ادب وانشا کا اردو تاریخ ادب وانشا میں جو ایک خاص مقام ہے... اس کی اصل بنیاد ہی معارف کے ادارتی صفحات سے پڑی اور معارف کے شذرات نے بہتوں کے لیے ایک نئی راہ کھول دی۔‘‘2

عبدالماجد دریابادی نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ شذرات معارف نے بہتوں کے لیے نئی راہ کھول دی ہے۔ سید صاحب نے جس طرح قدیم متون کی بازیافت، شعرا وادبا کے احوال،نادرونایاب قلمی وغیر مطبوعہ تحریریں، ملک وبیرون ملک کے کتب خانوں اور لائبریریوں میں موجود نایاب/کم یاب مخطوطوت کا تعارف بطور خاص پیش کرتے تھے۔اس سے جہاں کتابوں کے تئیں ان کی دلچپسی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں معارف کے قارئین کو کتابوں سے باخبر ی بھی ہوتی تھی چونکہ اس زمانے میں رسل و رسائل اور ٹکنالوجی کی اتنی آسانی اور سہولت نہیں تھی اس لیے معارف کی یہ کوشش قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی اور اسے کتاب اور علم دوستی سے تعبیر کیا گیا۔یہاں اردو ادب سے متعلق سید سلیمان ندوی اور ماہنامہ معارف کی بعض اہم تحقیقات کا تعارف پیش نظر ہے۔

میر اثرصوفی شاعر کے طور پر مشہور خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی اور صاحب دیوان شاعر تھے۔انھوں نے اردو کی مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ان کے دیوان میں غزلیں، رباعیات اور دومثنویا ں شامل ہیں۔ میراثر کی مثنوی ’خواب وخیال‘کو اردو ادب میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ایک مدت تک یہ مثنوی کم یاب تھی۔ پہلی بارسید سلیمان ندوی نے1917 میںمعارف کے شذرات میں اس کی اطلاع دی۔وہ لکھتے ہیں:

’’حضرت خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دہلوی اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے۔تصوف کو بے تکلف سہل ورواں اردو غزلوں میں ادا کرنا انھیں دونوں بھائیوں پر ختم تھا۔ان کی مثنوی’خواب وخیال‘اردو زبان کا ایک انمول سرمایہ ہے۔سال تصنیف1125ھ ہے۔یہ مثنوی کم یاب ہے۔شمس العلما محمد حسین آزاد’آب حیات‘ میں ایک دو فقرے سے زیادہ اس پر نہ لکھ سکے۔شاید یہ مثنوی انھیں ہاتھ نہ آئی۔مولانا حالی بھی مقدمہ دیوان میں اپنا نہ دیکھا ظاہر کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوست مولوی بشیرالحق صاحب سب انسپکٹر سون برسا کے ممنون ہیں کہ ان کی وساطت سے یہ مثنوی مستعار ہمیں ہاتھ آسکی۔‘‘3

یہ مثنوی انجمن ترقی اردو سے 1926میں شائع ہوئی جسے مولوی عبدالحق نے مرتب کیا تھا۔مرتب نے اس پر ایک تفصیلی مقدمہ بھی لکھا مگر اس میں معارف کا ذکر نہیں کیاگیا۔مقدمہ میں خواب وخیال کے مخطوطوں کے بارے میںمولوی صاحب لکھتے ہیں:

’’ان کے دیوان کی طرح ان کی مثنوی بھی بہت کم یاب ہے۔مجھے ایک مدت سے اس کی تلاش تھی اتفاق سے ایک نسخہ میرے برادرمعظم شیخ ضیائ الدین نے مجھے بھیجا جو انھیں کہیں سے مل گیا تھا۔میں اس کی اصلاح وترتیب میں مصروف تھا کہ مولوی نجیب اشرف ندوی نے اطلاع دی کہ انھیں ایک نسخہ انجمن اصلاح دسنہ بہار کے کتب خانے میں دستیاب ہوا ہے۔جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں انجمن کی طرف سے اسے شائع کرنے والا ہوں تو کمال عنایت سے وہ نسخہ میرے پاس بھیج دیا جس سے مجھے اپنے نسخے کی تصحیح میں بہت مددملی۔‘‘4

 مرزامحمدرفیع سودا (1712-1781)  ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے غزل، رباعی، قصیدہ شہرآشوب، مرثیہ، ہجویات اورمدحیات غرض یہ کہ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کی وجہ شہرت ان کے قصائد ہیں۔ سودا کے قلمی ومطبوعہ دیوان کے سیکڑوں نسخے ہندوستان  اور بیرون ملک میں موجود ہیں۔ڈاکٹرہاجرہ ولی الحق نے دیوان سودا کو1985میں چھبیس نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے اور ان تمام نسخوں کی اطلاع دی ہے جو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر موجود ہیں۔ایسے ہی ایک اہم نسخے کی اطلاع سید سلیمان ندوی نے اگست 1922کے شذرات میں دی ہے۔یہ نسخہ مختلف حیثیتوں سے اہم ہے۔سید سلیمان ندوی کتب خانہ آصفیہ میں موجود سودا کے قلمی دیوان کی اطلاع دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی صدرالصدور دولت آصفیہ حیدآباد دکن کے کتب خانے میں سودا کے دیوان کا ایک نادر نسخہ بہم پہنچا ہے،علاوہ خوش خطی اور دیگر اوصاف ندرت کے ایک خاص بات اس میں یہ ہے کہ نسخہ عین اس وقت پایہ تکمیل کو پہنچ رہا تھا جب نادر شاہ اپنی قہار فوجیں لیے ہوئے دلی کے دروازے پر کھڑا تھا۔کاتب نے کتاب کے آخر میں لکھا ہے کہ یہ سطریں جس وقت لکھی جارہی ہیں نادر شاہ کی فوجیں شہر میں داخل ہورہی ہیں۔کیا یہ علمی یک سوئی کی عجیب وغریب مثال نہیں کہ جب شہر اضطراب اور بے چینی کی کروٹیں لے رہا تھا،ایک سودازدئہ علم دیوان سودا کی کتابت میں مصروف تھا،یہ ذوق فن ہر بوالہواس کو کہاں نصیب۔‘‘5

سودا کا ایک قدیم قلمی دیوان جو کم یاب تھا۔ اگست 1922 کے شذرات میں سید صاحب نے اس نسخے کے دریافت کی اطلاع دی اور اس کا مختصر تعارف بھی لکھا یہی نسخہ ڈاکٹر ہاجرہ ولی الحق نے1985میں اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔

اردو ادب کے مختلف گوشوں کی تفتیش وتلاش، نادر و نایاب کتب کی بازیافت اوران ذخیروں کی حفاظت کے حوالے سے معارف کی فکرمندی دیدنی ہے۔علم دوستی کایہ رویہ اول تاآخر نمایاں ہے۔نادر کتب سے دلچسپی دیکھ بہت سے قارئین بھی اپنے خطوط میںمعارف کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔اردو نثر کی ایک اہم کتاب ’گربہ نامہ‘ (بلی نامہ)جس کے مصنف فقیر غلام علی آزاد ہیں۔سید صاحب شذرات میں لکھتے ہیں:

’’ڈھاکہ سے ایک مخدوم نے جن کے کتب خانے کے بعض نوادر درحقیقت جواہرات میں تلنے کے لائق ہیں، ان میں سے ہمارے پاس ’گربہ نامہ‘(بلی نامہ) ایک قصہ کی چند ورقہ کتاب اس تمہیدی خط کے ساتھ بھیجی ہے،کہ مجھے یقین ہے کہ دارالمصنفین کے قبضے میں اگرچہ ایک بڑا کتب خانہ ہے لیکن شاید گربہ نامہ اس میں موجود نہ ہو اس لیے بازار سے دوپیسے کی خرید کر بھیجتا ہوں۔یہ اردو نثر میں گربئہ مسکین کی مختصرسوانح عمری ہے۔زبان پرانی ہے مگر رواں۔قدیم اردو کے دستور کے مطابق حرف اضافت کی تقدیم وتاخیر ہے۔جابجا آیات قرآنی، احادیث، فارسی اساتذہ کے اشعار اور ہندی دوہے ہیں۔خیالات ومضامین سے مولویت جھلکتی ہے۔آخر میں مصنف نے اپنا نام فقیر غلام علی آزاد بتایا ہے۔اس سے مراد اگر میر غلام علی آزاد بلگرامی ہیں جیسا کہ قرائن کی شہادت ہے تو اس نظریے میں اب غور کرنا پڑے گا کہ اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب فضلی کی ’دہ مجلس‘ہے،جیسا کہ مولوی محمد حسین آزاد مرحوم کا دعوی ہے یا میر غلام علی آزاد کا چند ورقہ رسالہ ہے۔یہ دونوں بزرگ ایک ہی زمانے میں تھے۔‘‘6

ڈھاکہ سے حکیم مولوی حبیب الرحمن خاں سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں اردو لغت ومحاورات کی دونادر کتب کی اطلاع دیتے ہیں جو کہ دریاے لطافت سے پہلے لکھی گئی۔اس خط سے نہ صرف یہ کہ اردو کی دوقدیم کتابوں کے متعلق واقفیت ہوتی ہے بلکہ محمد حسین آزادکا نظریہ بھی باطل قرار پاتا ہے کہ انشائ اللہ خاں انشائ کی دریاے لطافت(1802) اردو قواعد کی پہلی کتاب ہے۔ معارف جولائی 1917کے شذرات میں اردو کی دونادر کتب کی بازیافت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’امپیریل لائبریری کلکتہ میں شمس البیان،اردو لغت ومحاورات میں ایک کتاب ہے جو دریاے لطافت سے پندرہ برس پہلے لکھی گئی ہے۔مجھ کو یاد آتا ہے کہ اس موضوع پر ندوہ کے کتب خانے میں بھی ایک کتاب موجود ہے۔ابھی حال میں ایک ناقص الطرفین رسالہ ہمارے دوست کے ہاتھ لگا ہے جس کا نام ’صرف اردو‘ہے،رسالہ منظوم ہے اور پرانی زبان میں ہے،شیدا کوئی بزرگ ہیں،وہ اس کے مصنف ہیں۔لارڈ منٹواور ڈاکٹر ہنٹر کی اس میں بڑی تعریف کی ہے۔سال تصنیف 1221ھ ہے۔ دریاے لطافت سے ایک سال پہلے تصنیف پایا ہے،ازراہ عنایت یہ رسالہ ہمارے مطالعے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘7

شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘ جس کے مصنف مرزامحمد اسماعیل جان طیش ہیں۔ مرزا طیش دہلی کے رہنے والے تھے۔عروض وبلاغت اور فن شعر کے ماہر تھے۔ فن شاعری خواجہ میر درد سے سیکھی تھی۔خاندانی سپاہی تھے اس لیے فنون سپہ گری سے بھی واقفیت تھی۔مرزا ایک اچھے شاعر بھی تھے بیاض طیش میں موجود ہندی کلام سے آپ کا تخلص’سدا خیر‘ثابت ہوتا ہے۔’شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘ مرزا طیش نے 1207ھ میں قیام مرشدآباد/ ڈھاکہ کے زمانے میں لکھی تھی۔یہ کتاب چھوٹے سائز کے 96 صفحات پر مشتمل پتھر کے چھاپے پر مرشد آباد سے 1265ھ میں شائع ہوئی تھی۔8

اس کے علاوہ قصہ یوسف ذلیخا،بہار دانش،کلیات طیش، بیاض طیش وغیرہ مرزا طیش کی اہم کتابیں ہیں۔ ’شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘ کو عابد رضا بیدار نے خدا بخش لائبریری پٹنہ سے 1977میں شائع کیا۔عابد رضابیدار کتاب کی تدوین کے متعلق لکھتے ہیں:

’’اب اس کتاب کے مطبوعہ نسخے بھی نایاب ہیں۔ ڈھاکہ کے حکیم حبیب الرحمن مرحوم کو اس کا ایک نسخہ ملا تھا۔ ایک نسخہ ڈاکٹر عندلیب شادانی کے پاس بھی تھا۔ جنھوں نے قاضی عبد الودود کی فرمائش پر ایک قلمی نسخہ کی مدد سے اس کا ایک ایڈیشن بھی تیار کیا تھا پھر خدا جانے اس کا کیا ہوا۔رضالائبریری رامپور میں بھی ایک نسخہ موجود ہے۔ایک مخطوطہ بھی رضا میں محفوظ ہے لیکن یہ مطبوعہ نسخہ کے بعد کا ہے۔ایک نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ میں محفوظ ہے۔ایشیاٹک سوسائٹی کے قلمی نسخہ اور رامپور کے مطبوعہ نسخہ کی نقل خدا بخش کے لیے حاصل کی گئی ہیں اور ان کی بنیاد پر ایک نسبتہ بہتر نسخہ پیش کیا جارہا ہے۔‘‘9

شذرات کے مطالعے سے سیکڑوں مخطوطات اور قدیم وجدید مطبوعات کے بارے میں معلومات ہوتی ہے۔ فروغ کتب معارف کا ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ مدیران معارف کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی قدیم وجدید مطبوعہ وغیر مطبوعہ کتاب کی اطلاع پہنچے تو بلا تاخیر اسے قارئین معارف تک پہنچا دیں۔پٹنہ کے کتب خانے میں موجود ایک منظوم قلمی نسخے کا تعارف دسمبر کے شذرات میں سید سلیمان ندوی کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’پٹنہ کے کتب خانہ مشرقی میں اردو نظم کی ایک قدیم کتاب ہے،محمد امان قادری گورگھپور مصنف کا نام ہے۔سال تصنیف1170ھ ہے یعنی اس کی تصنیف پر 167 برس گذرچکے ہیں۔حنفی فقہ کے مسائل اس میں منظوم ہوئے ہیں،سات ابواب پر عبادات ومعاملات وغیرہ کے عنوانات سے اشعار ہیں۔اس نظم کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ بحر ایسی اختیار کی گئی ہے جو ہندی رامائن سے ماخوذ ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری پر ہندی نے کس حد تک اثر کیا تھا۔‘‘10

شذرات معارف سے سید سلیمان ندوی کے متعدد اسفار کا پتا چلتا ہے جن میں سفر لاہور، حیدرآباد، دہلی، لکھنؤ، بھوپال، ممبئی، میسوراور مدراس وغیر ہ قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ اسفار سے صرف احوال سفر ہی نہیں بلکہ نہایت کارآمد معلومات اور فکر انگیز نکات زیر بحث آتے ہیں۔ ان میں تاریخی، جغرافیائی معلومات، سیاسی وسماجی حقائق، علمی وادبی اداروں کا تذکرہ، قدیم کتب خانوں، اشاعتی اداروں، معروف شخصیات سے ملاقات کی دلچسپ روداد ہے۔سید سلیمان ندوی کا معمول تھاکہ جس شہر کا بھی سفر کرتے وہاں اداروں اور کتب خانوں کا ضرور معائنہ کرتے تھے اور وہاں موجود کتابوں اور شخصیات کا احوال قارئین معارف تک ضرور پہنچاتے تھے۔اکتور 1937 کے  سفر مدراس میں سید صاحب مدراس یونی ورسٹی کے شعبہ تحقیقات علمیہ بھی گئے۔وہاں موجود دیوان بیدار کے دو نسخوں کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مولانا محوی عربی،فارسی کے خوش مذاق عالم اور اردو کے اچھے شاعر ہیں۔ انھوں نے چھ سات برس کے اندر کئی کتابوں کا ترجمہ اور تصحیح کی ہے... دلی کے ایک شاعر میر محمد بیدار کا دیوان مقدمے اور تصحیح کے ساتھ شائع کیا ہے۔بیدار کا یہ دیوان 1935میں چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔اب کیا عجیب بات ہے کہ اس کے دو برس بعد 1937میں ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد نے اسی دیوان کے کسی دوسرے قلمی نسخے کو غیر مطبوعہ سمجھ کر جناب جلیل احمد صاحب قدوائی کے مقدمے اور تصحیح کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اگر ہمارے علمی اداروں میں آپس میں علمی روابط ہوں تو اس قسم کی محنت اور سرمائے کی بربادی سے ہم محفوظ رہیں۔‘‘11

سید سلیمان ندوی نے ملک کے اس حصے کو (مدراس) ہندستان کا پچھواڑا کہا ہے۔معارف مئی 1939میں سید سلیمان ندوی کا ایک تحقیقی مقالہ ’بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔اس مضمون میں انھوں نے اردو زبان میں رائج بہت سے قدیم الفاظ کی تحقیق، ان کی اصل اور وجہ تسمیہ بیان کی ہے۔انھوں نے الفاظ کی مفصل تاریخ کے ساتھ ساتھ لفظ کی اصل زبان اور کس طرح ہندوستان پہنچا اور یہاں کن معنوں میں مستعمل ہوا، ان تمام باتوں کو نہایت علمی انداز میں پیش کیا ہے۔اس ذیل میں انھوں نے ناشتہ نہاری، سلفہ، قاب، رکابی، جہاز، سرخی، نستعلیق، تماشا، احدی، قورمہ، شوربہ، کباب، راز، مستری، خراداورساہول وغیرہ الفاظ کی تحقیق کی ہے اور ان الفاظ کی منتقلی کے جو اسباب بتائے ہیں دیکھنے کے لائق ہیں۔سید سلیمان ندوی لفظ خراد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بڑھیوں کی بول چال میں ایک لفظ ’خراد‘اور ’خرادنا ‘ہے، میز کرسی یا پلنگ وغیرہ کے پایوں کو چھیل کر کہیں موٹا، کہیں پتلا کہیں گاؤ دم وغیرہ مختلف شکلیں دیتے ہیں،یہ خالص عربی لفظ ’خرط‘ہے،عربی میں اس کے معنی اس طرح چھیلنے کے ہیں کہ اس کی اوپری پرت اترجائے، اس سے’ خراط‘ بنا،یعنی وہ آلہ جس سے لکڑی کو اس طرح چھیلا جائے۔ وہ خرّاط ہمارے یہاں خراد ہوااور اس سے خراد پر چڑھنا محاورہ اور خرادنا مصدر بنا،یہ لفظ اس حقیقت کا پتہ دیتا ہے کہ لکڑی کی یہ صنعت کاری مسلمانوں کے ذریعے ہندوستان میں آئی اور پھیلی۔‘‘12

سید سلیمان ندوی نے معارف اکتوبر 1922کے شمارے میں’ اوراق پارینہ‘ کے عنوان کے تحت ایک قدیم نصابی کتاب ’مجمع گنج‘کا تعارف کرایا ہے۔سید صاحب کو یہ کتاب دسنہ بہار کے ایک کتب خانے کی ردی کتابوں میں ملی۔نادرمخطوطات اور مطبوعات کے حوالے سے معارف کے صفحات پر یہ اولین تحریر ہے۔1845میں یہ کتاب کمپنی کے عہد میں کلکتہ اسکول بکس سوسائٹی میں چھپی۔یہ کتاب کمپنی کے قائم کردہ ابتدائی اسکول میں پڑھائی جاتی تھی اور طلبہ کو بطور انعام بھی دی جاتی تھی۔

کتاب کا یہ نسخہ 1855میں دسنہ بہارکے حاجی وزیرالدین کو گیا اسکول کے مشرقی صیغے کی طرف انعام میں ملی تھی۔یہ چھوٹی تقطیع کے 217صفحات میں ہے اور اس میں 28 مضامین اور عنوانات ہیں۔ اس میں ہندوستان میں پیدا ہونے والی نیل،روئی،افیون،ململ اور ریشم کے کپڑے،گنا،تباکواور ہندوستان کی تجارت کے علاوہ اس وقت کے ہندوستان کے احوال کا تذکرہ ہے۔انگلستان کے گزشتہ عہد جہالت پر بھی ایک باب شامل ہے۔کتاب کا اہم باب اسکندریہ کے مشہور کتب خانہ کے جلائے جانے کے متعلق ہے جس کا ملزم مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا ہے۔کتاب میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ یورپ کے علوم وفنون کو اپنی زبان میں منتقل کریں۔کتاب کے عنوان کے نیچے درج عبارت سے کتاب کے لکھے جانے کے مقصدکا علم ہوتا ہے۔:

’’عقل کوروشن کرنے والی تعلیموں کا اور دانائی سکھانے والی... کا اس میں اکثر ملکوںکی بستی، شہر اور ادیبوں کے احوال کا بیان ہے۔ہندوستانی لڑکوں کے لیے انگریزی سے زبان اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔‘‘ 13 سید سلیمان ندوی کتاب کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی طلبہ کو جدید معلومات سے روشناس کیا جائے،اس لیے جوباتیں اس وقت نئی معلوم ہوتی تھیں اس کا ذکر ہے۔ (2)  چونکہ ہندوستان میں اس وقت تک مسلمان طاقتور عنصر تھے،اس لیے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں اور عیسائی بادشاہوں کے درمیان تعلقات،جنگ وصلح بہت پرانے ہیں۔جنگ صلیبی کا ایک باب ہے،فتح اندلس کا ذکر ہے،سلطان روم کا بیان ہے۔(3) اس وقت تک انگریز زیادہ عقلمند یا متکبر نہیں ہوئے تھے اس لیے پہلے اپنی واپنے ملک اور اپنے براعظم یورپ کی جہالت کا ذکر کرکے پھر اپنی عقلمندی اور دانشوری اور ترقی کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ انگلستان کے گذشتہ عہد جہالت پر بھی ایک باب ہے۔‘‘14

مجمع گنج سے تاریخ ادب کا کوئی بڑا مسئلہ وابستہ نہیں مگر معار ف کے ابتدائی تحقیقی رجحانات کے حوالے سے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ انگریزوں کی آمد کے بعد تراجم کی روایت کو فروغ ملا۔ اس نوع کی بہت سی نصابی کتب مرتب کی گئیں۔مرزا غالب کی انشاے غالب بھی نصابی ضرورت کے تحت مرتب کی گئی تھی نیز ایک کتاب ’جواہر منظوم‘(اشاعت :1867) بھی ہے۔یہ انگریزی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔ گارساں دتاسی کے خطبے میں اس کتاب کا ذکرہے۔15

اردو زبان کی پیدائش کے متعلق سید سلیمان ندوی کے نظریے سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔ سید صاحب نے سرزمین سندھ کو اردو کا مولد قرار دیا ہے۔اس کے ثبوت میں انھوں نے متعدد شواہد پیش کیے ہیں۔معارف جولائی 1933میں سید صاحب کا ایک مضمون ’اردو کیوں کر پیدا ہوئی‘شائع ہوا۔سید سلیمان ندوی کا یہی مضمون نقوش سلیمانی میں شامل ہے۔ تحقیقی نوعیت سے یہ مضمون بہت اہم ہے۔ اردو زبان کن کن مراحل سے گزری کن کن  راجاؤں  نے اس کی پرورش کی اور کس طرح ایک زبان کی شکل اختیار کی غرض یہ کہ انھوں اردو زبان کی مفصل تاریخ بیان کی ہے اور اسی مضمون میں اردو زبان کے سندھ میں پیدا ہونے کا نظریہ بھی پیش کیا ہے۔اردو کی پیدائش کے سلسلے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولی اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔‘‘16

معارف میں غالبیات کا ایک بڑاخزانہ ہے۔ حیات غالب،کلام غالب،تلامذہ غالب اور غالب پر لکھی گئی کتابوں کے حوالے سے سیکڑوں تحقیقی وتنقیدی مضامین، تبصرے اور شذرات شامل ہیں۔اس میں سے ایک نسخہ حمیدیہ کی دریافت ہے۔نسخہ حمیدیہ غالب کا وہ قلمی دیوان ہے جس میں غالب کا مکمل اردو کلام ہے۔یہ نسخہ غالب نے 1821 میں مکمل کیا تھا جب ان کی عمر صرف 24سال تھی۔ اس کے کاتب حافظ معین احمد تھے۔ کتب خانے حمیدیہ بھوپال میں اس کی بازیافت ہوئی اس لیے اس کتب خانہ کی طرف منسوب ہے۔غالب کا یہ قلمی دیوان گمنام تھا سب سے پہلے سید سلیمان ندوی نے مولانا عبد السلام ندوی کے توسط سے ادبی دنیا کو باخبر کیا۔وہ شذرات معارف میں اس کی خبر دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہمارے دوست مولانا عبد السلام ندوی شعر الہند کی خاطر آج کل کتب خانوں کی خاک چھان رہے ہیں، اسی سلسلے میں وہ بھوپال بھی پہنچے ہیں۔ وہاں کے کتب خانہ حمیدیہ میں انھیں ایک انمول جواہر ملا یعنی مرزا غالب کا اصلی مکمل اردو دیوان بلا خذف وانتخاب جو موجودہ دیوان سے ضخامت میں دونا ہے،نہایت عمدہ مطلا نسخہ ہے۔ کسی خوش مزاج کے ہاتھ وہ پڑا تھا،اس نے ان غزلوں کا مطبوعہ غزلوں سے مقابلہ کرکے اختلاف نسخ بھی لکھ دیا ہے۔‘‘17

اس تحقیق کو معارف میں غالب تحقیق کا نکتہ آغاز کہا جاسکتا ہے۔نسخہ حمیدیہ کی اس خبر کے بعد بہت سے لوگوں نے اس کو بھوپال آکر دیکھا ان میں سید ہاشمی فرید آبادی،امتیاز علی عرشی،جبکہ استفادہ کرنے والوں میں عبد الرحمن بجنوری،پروفیسر حمید خان اور ڈاکٹر عبد اللطیف شامل ہیں۔نسخہ حمیدیہ کی بحث وتحقیق کا یہ سلسلہ 1918 سے 2017تک رہا۔جنوری 1944کے بعد اس نسخے کی کوئی اطلاع نہیں ملتی۔پرفیسر ظفر احمد صدیقی کے مطابق 2015 میں شہاب ستاراور مہر افشاں فاروقی کی کوشش سے دوبارہ اس کی بازیافت ہوئی(18) جسے عبد الرحمن بجنوری کے انتقال کے بعد مفتی انوار الحق نے عبد الرحمن بجنوری کی تقریظ کے ساتھ شائع کیا مگر انھوں نے معارف کا ذکر کہیں نہیں کیا ہے،جبکہ معارف ہی نے سب سے پہلے اس کے بازیافت کی اطلاع دی تھی۔نسخہ حمیدیہ کی اشاعت کے بعد عبد القوی دسنوی، ابومحمد سحر، گیان چندجین، جگن ناتھ آزاد اور دیگر لوگوں نے اس پر لکھا جس سے غالبیات میں نئے مباحث کا آغاز ہوا،جس کا سہرا معارف کے سر ہے۔

ان معروضات سے انداز ہ کیا جاسکتا ہے کہ اردو تحقیق کے کارواں کو سمت و رفتار دینے میں سید صاحب کی ان تحریروں کا اہم کردار ہے۔بے شمار کتابیں اور تحقیقی مقالات میں شذرات سلیمانی کی بازگشت کو بآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔شذرات معارف کے اس پہلو پر کم ہی روشنی ڈالی گئی ہے۔

حوالے وحواشی:

1      ماہنامہ معارف،مئی2017،ص354

2      سید سلیمان ندوی،شذرات سلیمانی،حصہ اول،دارالمصنفین اعظم گڑھ2012ص4

3      ماہنامہ معارف،شذرات اپریل1917

4      مولوی عبدالحق،مقدمہ خواب وخیال،انجمن ترقی اردو1926ص ج

5      ماہنامہ معارف،شذرات اگست1922

6      ماہنامہ معارف،شذرات اپریل1919

7      ماہنامہ معارف،شذرات  جولائی1917

8      عابد رضا بیدار،شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان،خدا بخش لائبریری،1977ص7

9      عابد رضا بیدار،شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان،خدا بخش لائبریری،1977ص7

10    ماہنامہ معارف،شذرات،دسمبر1918

11    ماہنامہ معارف،شذرات دسمبر1937

12    ماہنامہ معارف مئی 1939،ص331

13    ماہنامہ معارف اکتوبر 1922

14    ماہنامہ معارف،اکتوبر1922ص311

15    عمیر منظر،رشید حسن خاں کلام غالب کے شارح،غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی۔2019 ص69

16    سید سلیمان ندوی،نقوش سلیمانی،1967ص250

17    ماہنامہ معارف شذرات،ستمبر 1918

18    ماہنامہ معارف مئی 2017

 

Athar Husain

504/122 Shabab, Market Nadwa

Nadwa Road, Daliganj

Lucknow - 226020 (UP)

Mob.: 8074378735

Email.: atharhusainmanuu@gmail.com

 

 


 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں