27/9/21

ماحولیاتی تحفظ اور ادب اطفال - مضمون نگار: زاہد ندیم احسن

 



 ماحول اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں نامیاتی اور غیر نامیاتی اجزا تشکیل پاتے ہیں۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو ماحولیاتی نظام قائم کرنے میں معاون ہے۔ ماحولیات یا ما حولیاتی نظام کرہ ارض کے کسی بھی حصے میں پائے جانے والے نامیہ اور غیر نامیہ عناصر کے باہمی تعلقات کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماحول ایک حیاتیاتی نظام ہے۔

 ماحول ان سبھی جسمانی،کیمیائی اور حیاتیاتی عناصر کامستحکم ڈھانچاہے،جو کسی بھی ذی روح،ماحول اور زندگی میں پیش آنے والی سبھی چیزوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری زندگی کو متاثر کرنے والی تمام نامیاتی اور غیر نامیاتی اشیا اور ان کے افعال و اعمال سے وقوع پزیر ہونے والے حادثات و واقعات کے مجموعے کو ماحول کہتے ہیں۔ اس سے تمام جاندار متاثر بھی ہوتے ہیں اور اپنے عمل سے اس کو متاثر بھی کرتے رہتے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ ما حولیات میں مذکورہ تمام عناصرشامل ہیں جن کے اثرات بالواسطہ یابلا واسطہ طور پر حیات ا نسانی پر پڑ تے ہیں۔بہ ایں طور مفید اورمضر دونوں صورتوں میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

 فی زمانہ اس بات کی ضرورت اور اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کہ علم ما حولیات سے متعلق تمام چیزوں کی معلومات کے ساتھ ان کے تمام عوامل کی تعلیم پر بھی زور دیا جائے، تاکہ ان مسائل کی تدبیر کی جا سکے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس جدید معاشرے کو ماحولیات کے در پیش مسائل سے آگاہ کیا جا ئے۔ چونکہ آج کے اس مشینی دور میں پوری دنیا اس انجام کو پہنچ چکی ہے جس میں فضائی آلودگی اور زمینی آلودگی ہمارے لیے نہ صرف ایک مسئلہ ہے بلکہ ایک چیلینج ہے اورپوری دنیا خطرناک مسائل سے دو چار ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماحول سے جڑے تمام مسائل پر سنجیدگی سے غور خوض کیا جائے اورنسل انسانی کے تحفظ کی کیا تدبیر ممکن ہو سکتی ہے اس کو عام کیا جائے،تاکہ اس  کے برے اور ہولناک انجام سے عوام واقف ہو سکیں۔

اب ایک نظر ان مسائل پر بھی ڈال لیں جو مسائل، ماحول اور ہمیں در پیش ہیں اور کس طرح سے زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آلودگی : زراعت،تجارتی اور رہائشی تپش،صنعتیں،حمل ونقل، زمینی اور فضائی آلودگی میں اہم رول ادا کرتی ہیں، فضامیں، کاربن مونو آکسائڈ، سلفر ڈائی آکسائڈ،کلورو فلورو کاربن، اور موٹر گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے نائیٹروجن آکسائڈ سے فضا ئی آلودگی پیدا ہوتی ہے جوسانس کے ساتھ پھپڑے میں پہنچ کر طرح طرح کی بیماری پیدا کرتی ہے۔ آلودگی کی وجہ سے بہت سے جاندارکی قسمیں ختم ہورہی ہیں یا ختم ہونے کے دہانے پرہیں۔ صوتی آلودگی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے کچھ آوازیں جو نا گوار ہوتی ہیں جس سے نقصان پہنچتا ہے اور سننے والے پر ان کے برے اثرات پڑتے ہیں صوتی آلودگی کے زمرے میں آتی ہیں صوتی آلودگی سے سماعت پر اثر پڑتا ہے، کان کا درد،چڑ چڑا پن جیسی حالت ہوتی ہے اور اگر یہ بہت دنوں تک رہ جائے تو بلڈ پریشر ہو جائے گا۔ صوتی آلودگی کے ذرائع سڑک پر چلنے والی گاڑیوں سے نکلنے والی آوازیں ہوائی جہاز اور جیٹ کی آواز نئے شہروں کی پلاننگ کاروباری علاقوں میں نا قابل برداشت آواز صنعتی شور ہیں۔ اس کا تدارک یہ ہے کہ گاڑیوں کی رفتار کم کی جائے ہارن کے استعمال پر پابندی کی جائے۔ رہائشی علاقوں اوربھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بڑی بڑی گاڑیوں کا جانا ختم کیا جائے۔

یہ درست ہے کہ تعلیم کے ذریعے سے ماحول کی معلومات سماجی زندگی کے فروغ کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسانوں کے اندر،جسمانی، ذہنی، سماجی، تہذیبی، اور روحانی پختگی لانا ہے۔ اس طرح کے تعلیمی نظریات کو استحکام بخشنے کے لیے  فطرت کے ذریعے بنائے گئے اس ما حولیاتی نظام کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ما حول کا علم حاصل کرنا ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی روایت کا اہم حصہ ہے اور اس کی روایت ابتدا سے ہی رہی ہے۔ طبیعیاتی اور معاشیاتی دور میں حالات کچھ الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں سائنس اور تکنیک کے مختلف شعبوں میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ تو دوسری طرفHuman Environment) انسانی ماحول بھی بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ نئی نسل کو ماحولیات میں ہونے والی تبدیلی اور بگاڑ کا شعور تعلیم کے ذریعے سے پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ ماحولیات اور تعلیم کے مابین جو رشتہ ہے اس کو جان کر بھی انسان اپنے اندر بیداری  لاسکتا ہے۔ طالب علموں کو ماحول اور ماحولیات کی تعلیم عام فہم اور آسان زبان میں دینا چاہیے ابتدا میں یہ تعلیم بالکل سطحی اور تعارفی انداز سے دینا چاہیے۔ آگے چل کر اس کے تکنیکی پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ تعلیمی سطح پر ما حولیات کی معلومات انسانی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔

UNESCOنے ماحولیاتی تعلیم اور اس کے مقاصد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے یہ بات کہی ہے:

’’ماحولیاتی تعلیم ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس سے طلبا مختلف مسائل کو اور اہم قدروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے وہ اپنے اندر ایسی صفات کو فروغ دیں گے جس سے وہ یہ سمجھ سکیں کہ انسان کا اپنے ماحول اپنی ثقافت اور آس پاس کی چیز سے گہرا تعلق ہے۔یہ ایسی تعلیم ہے جو ان کے رویے اورطرز عمل میں ماحولیاتی اہمیت کا احساس اجاگر کرے۔‘‘

 مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ماحولیات کی تعلیم زیادہ کار آمد اسکول کی وجہ سے ہے اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب نئی نسل کو اس کی تعلیم سے بہرور کیا جائے گا اور اس کی اہمیت کو زندگی کے افادی پہلوئوں سے مربوط کیا جائے گا تو ہمارے بچے نہ صرف اس کی اہمیت اور افادیت کو محسوس کریں گے بلکہ اسے اپنی زندگی میں اتار کر حیات کے ہر موڑ پر مقدم رکھیں گے۔

 چونکہ بچے کسی بھی قوم کے معمار اور خشت اول ہوتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ما حولیات کی تعلیم اسکولی سطح سے ہی دی جائے کیونکہ  اس کی تعلیم ابتدا ہی سے دی جائے گی تو ایک عمر تک پہنچ کے پختہ ہو جائیں گے جس کا ایک بہتر نتیجہ سامنے آئے گا۔ نفسیات کی نظر سے یہ درست ہے کہ کسی بھی چیز کو سکھانے کے لیے  اس میں دلچسپی پیدا کی جائے خاص طور سے اگر بچوں کو کچھ سکھانا ہے یا کسی کام کے لیے عمل پیرا کرناہے تو اس کے لیے Subject Stimulus,Motivation اور Drive  ان چار چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے کہانیاں مذکورہ تمام چیزوں کے لیے بہتر ہے۔ اسی کے پیش نظر بہت سے لوگوںنے ایسی کہانیاں لکھی ہیںجس میں ماحولیاتی قدروں کی افادیت اور اہمیت پر زور ملتا ہے۔

اس حوالے سے میرے پیش نظر بچوں کے لیے لکھی گئیں کچھ کہانیاں ہیں جو ما حولیات اور اس کے مسائل سے سروکار رکھتی ہیں:

 بھنورا، سیدہ فرحت کی کہانی ہے اس کہانی میں ماحول میں پائی جانے والی فطری چیزوںمیں چھیڑ چھاڑ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ان باتوں کو کہانی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا سیاق یہ ہے کہ چھوٹی بچی جس کا نام کنول ہے  پانی میں کھیلنے کی وجہ سے اسے سردی ہوگئی ہے وہ گھر میں لیٹی لیٹی اکتاہٹ محسوس کرتی ہے تو اپنے گھر کے باغ میں چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ پھول پر منڈراتے ہوئے  بھنورے کو دیکھتی ہے۔ وہیں اسے نیند آجاتی ہے۔ پھر خواب میں وہی بھنورا آتا ہے اور اسے کہانی سناتا ہے۔خواب کے ذریعے سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔

’’ہاں سنو! بھنورے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے  چاندی ہیرے موتی سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتاپیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔یہ پھول، پتے،ہری ہری گھاس سب کچھ سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اور ہاں مجھے چڑیوں کی چو ںچوں،کبوتروں کی غٹر غوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس  میں نے ایک دم سے حکم دیا۔یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں  کے پودے لگائے جائیں ان میں سونے چاندی کی گھنٹیاں باندھی جائیں۔‘‘

’’بس میرا حکم ہونے کی دیر تھی تمام باغ  اجڑ گئے۔ چڑیاں مر گئیںتتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگادی گئیں۔مگر اس کے بعد کیا ہوا یہ مت پوچھو! کیا ہوا کنول نے حیرت سے پوچھا۔‘‘

  یہ کہانی  چونکہ بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی ہے اس لیے  اس کی بنت میں کہانی کے تمام خصائل موجود ہیں اور ساتھ میں پیغام بھی موجود ہے کہ اپنے آس پاس کے ہرے بھرے ماحول کو ختم کرنے سے کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں اس کہانی میں کہانی نویس نے یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس موجود ہرے بھرے باغ کو نقصان پہنچا دیں تو ماحول آلودہ ہو جائے گا اورآس پاس کے رہنے والے تمام جاندار پر مہلک اور مضر اثرات مرتب ہوںگے۔

کان کی خراش، فرحت قمر کی کہانی ہے اس میں انھوں نے صوتی آلودگی سے سماج میں کیا نقصان پہنچ سکتے ہیں اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ رضوانہ اور خالد کے ابو امی شادی میں گئے ہوئے ہیں گھر اکیلا ہے،یہ دونوں بھائی بہن اپنے گھر میں اور دوستوں کو بلا لیتے ہیں سبھی دوست مل کر ہنگامہ شروع کرتے ہیں تیز تیز آواز نکالتے ہیںوہیںپڑوس میں رہنے والے رضوی صاحب کی طبیعت خراب ہے،انھیں ان کی آواز ناگوار گزرتی ہے،وہ اپنے کمرے سے نکل کر بچوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو شور کے نقصانات بڑے ہی پیار سے سمجھاتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں:

 ’’جی ہاں‘‘ رضوی صاحب نے فوراً کہا۔ جب کوئی خواہ مخواہ شور کرتا ہے تو اسی طرح پڑوسیوں کو بھی برا لگتا ہے۔ اصل میں لوگ زیادہ تر آوازیں خواہ مخواہ ہی پیدا کرتے ہیں۔ زور زور سے بولتے ہیں زور زور سے ریڈیو اور ٹی وی چلاتے ہیں لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں اور خواہ مخوہ  چلاتے ہیں۔ اسی خواہ مخواہ کی آوازیں تو شور ہیں اور ہماری صحت پر برا اثر ڈالتی ہیں‘‘

 تو سنو‘‘ جس طرح سے گرمی کو تھرما میٹر کی ڈگر ی کی اکائی سے ناپا جاتا ہے یا فاصلوں کو میٹر  اور کیلو میٹر سے اسی طرح شور کو ڈسی بل کی اکائی سے ناپا جاتا ہے۔ اب جیسے سڑک کے ٹریفک سے 90 ڈیسی بل شور پیدا ہوتا ہے، بڑے پریس میں یہ شور 100 ڈیسی بل ہو جاتا ہے اور جب کوئی جیٹ جہاز اڑان بھرتا ہے تو 120 ڈیسی بل شور پیدا کرتا ہے انسان کے کان 140 ڈیسی بل تک شور برداشت کر سکتے ہیں۔ اگر شور اس سے زیادہ بڑھ جائے تو آدمی کے کان پھٹ سکتے ہیں۔ اسی لیے بے کار کی پر شور باتوں کوسمع خراشی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کان کی خراش۔‘‘

   مذکورہ بالااقتباس میں کہانی کار نے بے حد عمدگی سے بچوں کو زیادہ شور اور ہنگامے کے نقصانات سے با خبر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح کا ماحول نہیں پیدا کرنا چاہیے جو پاس پڑوس کے لوگوں کو ناگوار خاطر گزرے اور جس کی وجہ سے دل آزاری ہو کیوں کہ یہ چیزیں بھی ہمارے ماحول کو مکدر کرتی ہیں۔

 ’’مچھلی بنا  ننھیالا۔نہیں نہیں‘‘سریکھا پانند یکرکی کہانی  ہے اس کہانی میںپانی کی آلودگی اور اس سے ہونے والے نقصانات کو کہانی کے ذریعے پیش کیاگیا ہے۔ کہانی کا سیاق یہ ہے کہ دنو کے اسکول کی چھٹی ہونی ہے اور گھر کے لوگوں نے اس کے ننھال جانے کا ارادہ کر رکھا ہے یہ سن کر دنو بہت خوش ہے کہ ننھیال میں اسے موج مستی کرنے کا اوردوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کا موقع ملے گا اور ساتھ میں ماما کے ساتھ ندی پر مچھلی پکڑنے کا مزہ  لگ،مگر جب وہ اپنے ننھیال پہنچتا ہے تو سارا مزہ خراب ہو جاتا ہے مچھلیوںکی بیما ری پھیلی ہوئی ہے جسے کھا کر لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ جس مقصد سے دنو وہاں گیا اسی پر پابندی لگ جاتی ہے۔ اس کہانی میں اس کے اسباب کا پتاکچھ اس طرح سے چلتا ہے۔اقتباس دیکھیں۔

’’ آؤ بابو میں دکھاتا ہوں‘‘ کہہ کر بوڑھا بابا اسے تھوڑی دور لے گیا۔  وہاں پڑے پڑے کئی بھگو نوںمیں کئی رنگوں کا پانی ابل رہا تھا۔ دو لوگ ناریل  کے ریشے اس میں ڈال کر ڈنڈوں سے ہلا تے اور اوپر نیچے کر کے، باہر نکال کر سوکھنے کے لیے پھیلا دیتے اب ان میں سے کسی کا رنگ ہلکا لال کسی کا نیلا اور کسی کا ہرا ہو گیا تھا۔

 دنو نے پوچھا‘‘ یہ جو بچا ہوا پانی یا رنگ آپ نے پھینکا تھا وہ کہاں جاتا ہے‘‘ ڈھلان ہے نہ تھوڑی سی۔بہہ کر جاتا ہوگا ندی میں۔بابا نے بتایا۔ندی میں‘‘ دنو نے پوچھا۔ ہاں اور کہاں جائے گا۔ دو فر لانگ  پر تو ہے جھواری، اسی سے تو پانی  لاتے ہیں ! ابھی یہاں نل کہاں لگے ہیں۔ بابا نے  بتایا۔‘‘ اب سمجھ گیا کہہ کر  دنو ماما کے پاس بھاگا آیا۔

 ماما مچھلیاں کیوں بیمار ہوتی ہیں اور کھانے والے کیوں بیمار پڑتے ہیں میں سمجھ گیا۔آؤ  میں بتاتا  ہوں دنو ماما کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولا۔ یہ دیکھو ماما یہ رنگ کا گندا پانی۔یہ لوگ یہاں پھینک رہے ہیں وہ بہہ کر ندی میں جا رہا ہے اسی سے ندی کی مچھلیاں بیمار   پڑ رہی ہیں اور انھیں کھا کر سارور ڈے کے لوگ بیمار ہوئے ہیں۔ دنو جلدی جلدی بولا۔

 پر ڈاکٹر بابو رنگ کے پانی میں گندا کچھ نہیں ہوتا رنگ پھینکنے والوں میں سے ایک آدمی بولا۔

 دیکھو یہ سوکھا رنگ جو تم لوگ بناتے ہو ماما نے پوری بات ایک دم سمجھتے ہوئے کہا...  اس میں کچھ کیمیائی چیزیں پڑی ہوتی ہیں۔ اور اسے کچھ اور پکا کرنے کے لیے سوڈا، تیزاب اور کچھ کیمیائی چیز یں ملاتے ہو۔ دیکھو تم خود بھی تو اسے ہاتھ سے نہیں ڈنڈے سے چلاتے ہو اور ڈنڈے سے ہی ریشے کو پھیلاتے ہو‘‘ ماما نے سمجھاتے ہوئے کہا۔‘‘ ہاں بابو ہاتھ سے چلائیں گے تو ہاتھ جل نہ جائیں گے۔ رنگ والا بولا۔‘‘ اگر تمہارا ہاتھ جل سکتا ہے تو‘ جب یہ رنگ بہہ کر ندی  کے پانی میں جاتا ہے ‘ تو وہاں کی مچھلیوں پر بھی اثر  ضرور ڈالتا ہوگا! اسی سے ندی کا پانی بھی گندہ ہو رہا ہے اور تمہارے یہاں اور گائوں کے لوگ بھی بیمار پڑ رہے ہیں۔ دنو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔‘‘

کارخانوں میں تو سرکار اس کے لیے بندو بست کرتی ہے۔ تم لوگوں کو بھی کچھ کرنا ہوگا۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔ کیوں بابا آپ سمجھائیں گے اپنے سب ساتھیوں کو؟ ماما نے پوچھا۔

 کیوں نہیں ڈاکٹر بابو! ہم بیمارتھوڑی ہی پڑنا چھاہتے ہیں‘‘

 مذکورہ کہانی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح سے کیمیکل اور دیگر فضلات کے پانی میں ملنے سے پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔اور اس کے اثرات کس طرح پانی میں رہنے والے جاندار اور اس علاقے میں رہنے والے لوگوں پر پڑتے ہیں۔

نیم کا پیڑ طلعت عزیز کی کہانی ہے جس میں انھوں نے فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی نقصان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کا سیاق کچھ اس طرح ہے کہ ایک گھر کے آنگن میں نیم کا پیڑ تھا جسے کٹوا دیا گیا ہے بچے اسے دیکھ کر اداس ہیں پھر اس کے چچا  چچی اور بھائی بہن شہر سے آتے ہیں تو باتوں باتوں میں پیڑ کٹنے کے کیا نقصان ہیں اسے بتایا گیا ہے۔

 ابا بہت خوشی خوشی گاؤں میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ لیکن بڑے چچا اس سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ اسلم بھائی کا کہنا تھا کہ اس گاؤں    کا نقشہ ہی بدلتا جا رہا ہے،یہ تو بالکل شہر ہوتا جا رہا ہے۔

یہ تو اچھی ہی بات ہے نا۔ہم گاؤں والوں کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ابا نے کہا۔ لیکن یہ سوچو اس ترقی کے لیے تم کیا کھورہے ہو؟ بڑے چچا بولے۔ یہ کھلا آسمان یہ پاک صاف تازہ ہوا۔ یہ چڑیاں، یہ جانور، ندی کا  شفاف میٹھاپانی۔ کیا یہ سب ایسے ہی رہیں گے؟ کیوں اس کو کیا ہوگا؟ ہمارے پاس ندی بھی رہے گی اور آسمان بھی۔ابا نے کہا۔

 ماسٹر جی نے کچھ رک کر جواب دیا۔ اصل میں خود انسان نے ہی اب ماحول کے اس تال میل کو کچھ بگاڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے اپنی ضرورت کے لیے د ھڑا دھڑ پیڑ کاٹ کر جنگل صاف کر دیے۔

پیڑ کٹنے سے سب سے پہلا نقصان تو یہی ہے کہ ہوا گندی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بارش کا پیڑوں کے ساتھ بھی کافی گہرا رشتہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سمندر سے پانی بھر کر ہوا  بھاری ہو جاتی ہے تو وہ ایسے علاقوں کی طرف چلتی ہے جہاں کی ہوا سورج کی گرمی سے گرم ہو کر ہلکی ہو جاتی اور اوپر اٹھنے لگتی ہے۔ سمندر سے آنے والی بھاری ہوا اس جگہ کو بھرنے آتی ہے جو ہلکی ہوا نے خالی کی تھی۔ اب اگر اس  علاقے میں پہاڑ ہوں تو ہوا ان سے ٹکرا کر بارش کرتی ہے۔ میدانی علاقے میں پہاڑ تو ہوتے نہیں یہاں پیڑ ہی اس ہوا کو بارش دینے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر پیڑ نہ ہوں تو یہ ہوا آندھی کی شکل میں اس علاقے سے تیزی سے نکل جاتی ہے‘‘

 ہاں ایک اور رشتہ بھی ہے پیڑوں سے پانی کا۔ پیڑ بارش کے پانی کو اپنی جڑوں کی وجہ سے زمین میں بہت گہرا نہیں رسنے دیتے۔ اگر پیڑ نہ ہوں تو اس علاقے کے کنویں اور تالاب سوکھ جائیں۔ اور پھر یہ پیڑ زمین کے پانی کو سورج کی روشنی سے بچا کر اسے ابخارات یا بھاپ  بن کر اڑ نے سے روکتے ہیں۔ ایک اور بہت اہم کام بھی یہ پیڑ کرتے ہیں جسے تم نے اپنی کتابوں میں بھی پڑھا ہوگا‘‘

 کیا؟ دونوں نے ایک ساتھ پوچھا

 وہ یہ کہ جب بارش کاپانی تیزی سے بہتا ہے تو پیڑوں کی جڑیں زر خیز مٹی کو پانی کے ساتھ بہہ جانے سے روک لیتی ہے ہیں اگر یہ پیڑ نہ ہوں  تو یہ مٹی بہہ کر دریا میں چلی جائے اور دریا سے سمندر کی تہہ میں جا کر بیٹھ جائیں اس سے اس علاقے کی زمین فصلیں اگانے کے قابل ہی نہ بچے۔اور تو اور اگر پہاڑ پر جمی برف کے پگھلنے کے بعد تیزی سے بہتے پانی کو اگریہ پیڑ کم نہ کریں تو یہ پانی میدانی علاقوں میں باڑھ بن کر تباہی مچائے گا۔

 مذکورہ تمام کہانیاں اس طور پر اہم ہیں کہ وہ ماحول کے توازن اور تناسب سے تعلق رکھتی ہیں اور بچوں کو ما حول کی آلودگی اور اس کے مسائل کوسمجھانے کی غرض سے لگھی گئیں ہیںجب کہ کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ پوری طرح سے مقصدی کہانیاں بن کر رہ گئیں ہیں اس میں کہانی کی تمام خوبی موجود ہے اور ساتھ ساتھ ہر جگہ کہانی کی آمد کا بھی احساس ہوتا ہے جو ان تمام کہانیوں کو دلچسپ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے خاص بات یہ ہے کہ یہ کہانیاں بچوں کے لیے بچوں کی زبان میں ہی لکھی گئی ہیں اور بچوں کی ذہنی استطاعت کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان کی معنویت دو چند ہو جاتی  ہے اور اس کی افادیت میں چار چاند لگ گیا ہے اگر اس طرح کی کہانیوں کو اسکولی نصاب کا حصہ بنایا جائے تو یہ بعید نہیں کہ ہماری نئی نسل ایک اہم علم سے بہر مند ہو سکے گی بلکہ ما حولیاتی بگاڑ کے خاتمے کے لیے معاون بھی ثابت ہو گی پھر اس عالمی خطرے سے بچنا ہمارے لیے بے حد آسان ہو گا۔

 

Dr. Zahid Nadeem Ahsan

Dept of Urdu, Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

 

 

 


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں