1/10/21

جدیدیت اور جدید افسانہ - مضمون نگار: محمد اقبال جاوید



 

ہر عہد اپنے فکری رحجان، معاشرتی طرز زندگی، معاشی نظام، تہذیبی و ثقافتی خصوصیات، سیاسی تحریکات کے اثرات سے تشکیل پاتا ہے، انہی خصوصیات کی بنا پر و ہ سماج بھی پہچانا جاتا ہے۔جب سماج میں یکسانیت در آتی ہے، ذہنوں پر جمود کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، لوگ صف آرائی و حلقہ بگوشی کے دائرے میں سمٹ جاتے ہیں تو نئی نسل یا کچھ باغیانہ صفت رکھنے والے افراد اس جمود کو توڑنے کے لیے شعوری کوشش کرتے ہیں۔ سماج کے مروجہ ڈھانچے اور ذہنی سطح سے انحراف کرتے ہوئے نئے انداز فکر اپناتے ہیں۔ اس نئے انداز فکر کو جدیدیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

عام طور پر جدید کی اصطلاح قدیم کے ضد کی طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ زمانے اور فیشن پر بھی ا س کا اطلاق ہوتا ہے فیشن جو رائج ہوتا ہے وہ جدید ہے۔زمانہ حال جدید ہی کہلاتا ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب مزاج بدلے اور جدید قدیم ہوجائے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدیدیت دراصل ایسا رویہ یا رحجان ہے جس کے ہر لمحہ بدلنے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ جدیدیت کے لیے۔ لازم ہے کہ وہ کسی نئی بات یا فکری رحجان کو بنائے رکھے اس کے علاوہ جدید حسیّت کو بھی جدیدیت کی اساس قرار دیا جاسکتا ہے۔

دوسرے معنی میں یہ کہا جائے کہ جدیدیت کوئی تحریک یا رحجان ہی نہیں بلکہ زندگی کوخوب سے خوب تر بنانے کا فکری و منطقی عمل ہے۔جدیدیت کو عالمگیر رویہ یا رحجان بھی کہا جاتا ہے جس میں تمام عالم انسانیت کا احاطہ کرتے ہوئے اس کے سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، معاشرتی اور ثقافتی پہلوؤں کا اور خارجی و داخلی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا اظہار کیا گیا ہو۔اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو جدیدیت دراصل کل انسانیت کی تفسیر کا کام کرتی ہے۔ کیونکہ مذکورہ پہلوؤں سے ہی ادبی تخلیق کا وجود عمل میں آتا ہے۔ اردو شعر وادب نے انقلاب روس کے بعد کی عالم گیر فضا سے متاثر ہو کر فرسودہ پامال مضامین کو خیر باد کہا۔ نئے موضوعات اپنائے، کارل مارکس اور اشترا کی نظریہ سے متاثر ہو کر ادب تخلیق کیا اور ادبی تحریک کی شکل دے کر نئے انداز فکر کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی اسی تحریک کو ترقی پسندتحریک کا نام دیا گیا درحقیقت یہ بھی جدیدیت ہی تھی۔

آزادی کے بعد ایک طرف ترقی پسند تحریک کے زیر سایہ اشتراکیت اور واقعیت کا حامل ادب پروان چڑھ رہا تھا تو دوسری طرف ایک آزادانہ فضا بھی رفتہ رفتہ قائم ہوتی جارہی تھی۔ اجتماعی مقاصد و مفادات کے بجائے انفرادی احساسات وخیالات اور نجی تجربات ادب میں جگہ پارہے تھے۔ اس کی کئی وجوہات بھی تھیں۔ مثلا دوسری جنگ عظیم کے بعد ابھرنے والی نسل اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اشتراکی نظریات کو محدود تصور کرنے لگی تھی کیوں کہ زندگی اس قدر پیچیدہ ہوگئی تھی کہ انھیں اپنے سوالات کا دوٹوک جواب نہیںمل پارہا تھا۔آزادی کے بعد کے حالات کی وجہ سے اشتراکیت پر سے بھروسہ اٹھ چکا تھا۔ خود ترقی پسند تحریک تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔ اُردوادب کے لیے یہ وقت مشکل ترین تھا۔ ادب میں جمود کی کیفیت طاری تھی بقول مظفرحنفی:

   ’’ لوگ ترقی پسند تحریک کی غلط نوازیوں اور نعرہ بازیوں سے بے زار ہوچکے تھے اور ہر قسم کی گروپ بندی اور نظریاتی جکڑن سے بالا تر ہو کر کھلی فضا میں شعر کہنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ (مظفر حنفی: جدیدیت تجزیہ و تفہیم، ص 88)

اسی زمانے میں خلیل الرحمن اعظمی، باقر مہدی، بلراج کومل، محمو د ایاز، وحید اختر وغیرہ نے ترقی پسندوں سے اختلاف کیا اور جدید طرز پر اپنی تخلیقات کو عملی جامہ پہنایا۔ کئی نئے ادبی رسالوں نے نئے طرز احساس پر مبنی تخلیقات کو اپنے صفحات میں جگہ دی۔ سوغات نے خاص طور پر مغربی ادیبوں کی تحریروں کے ترجمے شائع کیے۔ ان عوامل کے زیر اثر اُردو میں جو نیا ادب تخلیق ہوا، وہ ہر لحاظ سے پہلے کے اُردو ادب سے مختلف تھا۔

اس دور میں اس وقت کی ادبی خصوصیات کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرانے کی کوشش کی گئی اور اس کانام جدیدیت رکھا گیا۔ جدیدیت کا مفہوم یہ ہوا کہ جو نیا ہے اور فلسفیانہ بنیادوں پر عالمگیر فضا سے متاثر ہوکر نئے موضوعات اور دورجدید کے انفرادی، خارجی  داخلی اور نفسیاتی پہلوؤں پر طبع آزمائی کرتے ہوئے ادب تخلیق کیا گیا جس میں کل انسانیت کی تفسیر شامل ہے۔

جدیدیت کی تعریف مختلف مفکرین  اور ناقدین  نے الگ الگ  انداز سے کی ہے۔ اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت کی تعریف پربھی از سر نو غور کیا جائے۔جدیدیت کی تعریف میںیوسف جمال خواجہ رقمطراز ہیں:

’’وسیع ترمعنی میں جدیدیت کے معنی یہ رہے ہیں کہ ہم عصر جدید رحجانات و میلانات کو روایتی قدیم انداز زندگی کے ہر شعبہ میں فوقیت دی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ روایت سے انحراف کرتے ہوئے جدید رحجانات کی غمازی کرنے والی ادبی تخلیقات کو جدیدیت کا علمبردار تصور کیا جانا چاہیے۔ جدیدیت حیات و کائنات کے لیے ایک مخصوص رویہ یا تصور ہے۔ماضی سے ناآسودہ ہو کر ردِعمل کے طور پر کسی نئی ڈگر کی سمت رواں ہوجانا ہی جدیدیت نہیںہوسکتی کیونکہ ردعمل تو جذبا تی اور احتجاجی بھی ہوسکتا ہے اور جہاں جذبات اور احتجاج کا غلبہ ہو وہاں سوچ اور فکر کے عناصر کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس بات پر غور کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ یہ عمل کہاں تک درست ہے اور مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔اگر ہم صرف روایت کی تقلید کرتے رہیں تو ارتقائ کا عمل بند ہو جائے گا اس لیے جدیدیت ہمیشہ ہی نئی روایت قائم کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔‘‘

(جدیدیت کیا ہے: جدیدیت اور ادب، مرتبہ: آل احمد سرور، ص 30)

 خلیل الرحمن اعظمی نے جدیدیت کی تعریف کچھ اس طرح کی ’’ صالح قسم کی جدیدیت وہ ہے کہ وقت اور ماحول کے فطری تقاضوں ادیب کے اپنے احساس اور تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔وہ جدیدیت خلائ میں لٹکی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ اس کی جڑیں اپنی روایات میں ہوتی ہیں۔ ‘‘  (مضامین نو، نئے شعری رجحانات، ص 67)

درج بالاتعریفات کی روشنی میں یہ بات  واضح ہوجاتی ہے کہ وقت اور ماحول کے فطری تقاضے ادیب کو اور اپنے مافی الضمیر کے اظہارکے لیے اس کے جذبات کو بر انگیختہ کرتے  ہیں۔ اپنے رویہ کی  بدولت وہ روایتوں کے پس منظر میں احساس اور جذبات کو پیش کرتا ہے۔ جدیدیت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اساس ماضی کے اقدار سے کوئی رشتہ رکھے تاکہ وہ دیرپا ثابت ہو اور جو جدیدیت ماضی سے اپنا رشتہ استوار نہیں رکھتی وہ دیر پا نہیں ہوسکتی ہے بلکہ لمحاتی ہوتی ہے۔

جمیل جالبی جدیدیت کو اضافی چیز مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر زمانے اور ہر دور کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔ روایتوں کے باعث اس میں کچھ نئی چیزوں کا اضافہ ہوتا ہے۔جو اس دور کی پہچان ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ اضافی ہیں۔ سر سیّد کے دور میں کچھ اصلاحی پہلو سامنے آئے انھیں اپنایا گیا۔ 1920 میں ٹیگور نے کچھ خیالات کو جدید مانا اور ادب تخلیق کیا، ترقی پسند تحریک نے بھی روایتوں سے مکمل بغاوت نہیں کی۔ کئی باتوں کو ادبی تخلیقات کے لیے بنیاد ٹھہرایا۔ اس لیے اس کی تمام باتیں نئی نہ ہو کر کچھ نئی باتوں کا اضافہ ہی ہیں۔

ڈاکٹر بشیر بدر نے جدیدیت کے تعلق سے کچھ اس طرح کے خیالات کااظہار کیا ہے:

’’ جدیدیت وقت کی طرح فعال، ارتقا پذیر اور متحرک ہے۔ آج جدید ادب کی براہ راست مقصدیت نظریاتی، وفاداری اور سیاسی محکومیت سے انحراف کرتا ہوا ایک خالص ادبی رویہ ہے اس میں لکھنے والا اپنی شخصیت کے وسیلے سے خارجی مسائل کو داخلی طور پر محسوس کرتا ہے۔ ‘‘

  (ڈاکٹر بشیر بدر: آزادی کے بعدکی غزل کا تنقیدی مطالعہ، ص 23)

پروفیسر آل احمد سرور بھی جدیدیت کے بارے میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں:

’’جدیدیت صرف انسان کی تنہائی یا مایوسی۔اس کی اعصاب زدگی کی داستان نہیں ہے۔ اس میں انسان کی عظمت کے ترانے بھی ہیں، اس میں فرد اور سماج کے رشتے کو بھی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں انسان دوستی کا ایک جذبہ بھی ہے مگر جدیدیت کا نمایاں روپ آئیڈیالوجی سے بیزاری۔ فرد پر توجہ، اس کی نفسیات کی تحقیق،ذات کا عرفا ن، اس کی تنہائی اور اس کی موت کے تصور سے خاص دلچسپی ہیں۔‘‘ (آل احمد سرور نظر اور نظریہ، ص 179)

اُردو ادب پر جن تحریکات نے اثرڈالا ان میں جدیدیت کی تحریک کو بنیادی طور پر سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔اور  یہ بات کسی ثبوت کی محتاج نہیں۔ کوئی بھی زبان کا  ادب اپنے دور کا عکاس ہوتا ہے۔ چاہے نثر ہو یا شاعری۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس دور کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تاریخی واقعات ادبی تخلیقات کے محرک ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

لہٰذا جدیدیت کی تحریک کوجاننے سمجھنے کے لیے ان اسباب کا مطالعہ مفید ہوگا جو اس تحریک کے فروغ میں معاون و مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ وہ کون سے افکار و نظریات تھے جنھوں نے جدیدیت کوفروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا جن کے سہارے جدیدیت کی تحریک ثمر آور ہوئی اور اپنی علیحدہ شناخت بنائی۔

اُردو میں جدیدیت کی اصطلاح 1960 کے بعدرائج ہوئی۔ سب سے پہلے اس اصطلاح کو کس نے اور کب استعمال کیا اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن جس نے  اس اصطلاح کو استعمال کیا اس کے نزدیک مغرب کی تحریک موڈرن ازم کافی اہمیت رکھتی ہوگی کیونکہ اس تحریک پر مغربی مفکرین کے اثرات واضح نظر آتے ہیں اور شایدجو بحث    جدیدیت کی تحریک سے متعلق ہوتی ہے، وہ مغرب کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔بقول آل احمد سرور :

’’ تاریخی اعتبار سے اگر غور کیا جائے تو ہمارے ملک میں مجموعی طور پر جدیدیت انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ (آل احمد سرور: جدیدیت اور ادب، ص 81)

آل احمد سرور جدیدیت کو قدامت کی ضد قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ جدیدیت انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔

سرسیّد تحریک بھی اپنے دور کی جدیدیت کی تحریک تھی۔ خلیل الرحمن اعظمی نے بھی وقت اور ماحول یعنی زمانہ حال کے تجربوں سے وابستگی اور اس کے اظہار دونوں کو جدیدیت کے لیے لازمی قراردیا ہے۔ اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ماضی کی تحریکوں کا اثر جدیدیت کی تحریک نے قبول کیا۔ ہندوستان کی کئی تحریکیں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل جدیدیت کی تحریک کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوئے۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو جدیدیت کی اساس کا پتہ لگا یا جاسکتا ہے۔

انیسویں صدی کی ابتدا ہی سے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں پر مغربی تعلیم و افکار کا اثر نمایاںنظر آنے لگا تھا جس کے نتیجہ میں روایتی سماجی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جانے لگی۔دوسری طرف سماجی بیداری کے لیے بھی تحریکیں چل رہی تھیںجس کے اثرات ہندوستانی معاشرے اور سماج پر پڑے۔سماج کے فرسودہ رسم و رواج پر کار ی ضرب پڑی۔ستی کی جاہلانہ رسم کا خاتمہ ہوا، عورتوں کی تعلیم کی تائید وحمایت ایسے جدید تصورات تھے جنھوں نے ہندوستانی سماج کو بدل کررکھ دیا۔سوامی ویویکانند نے خدمت خلق کونصب العین بناکررا م کرشن مشن کے ذریعہ سماج کے معزوراور مفلس و بے سہاراافراد کی خدمت کی طرف خاص توجہ دی۔

اُردو ادب میں بھی جدیدیت کی تحریک مغرب سے متاثر ہو کرشروع ہوئی۔ اس تحریک کو وجودیت اور سرریلسٹ کے فلسفہ نے متاثر کیا۔ یہ تحریکی رحجان چونکہ ایسے وقت میں پروان چڑھ رہاتھا۔جب ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ ساتھ ہی جنگ آزادی کی انقلابی تحریک اور قیام پاکستان اور دو قومی نظریات سے عام آدمی فکرمند نظر آتا تھا۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی کتاب ’اُردو ادب کی مختصر تاریخ ‘ میں اس نکتے کی نشاندہی کچھ اس طرح کی ہے:

’’ تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو غلامی کی نصف صدی نے انگریز کو ناقابل تسخیر قو ت کے روپ میں پیش کردیا تھا۔ مگر سیاسی بیداری کو بھی لہروں کی صورت میں محسوس کیا جاسکتا تھا۔ ادھر سرسیّد کی تحریک کے اثرات اب بھی کسی حد تک برقرارتھے بلکہ موضوعاتی تنوع کے باوجود مولوی عبدالحق کے مانند بعض حضرات تو سرسیّد تحریک کا تتمہّ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ سیاست کی طرح ادب میں بھی انقلاب کی ضرورت کا احساس بڑھ رہا تھا۔ چنانچہ عظمت اﷲ خاں غزل کی مخالفت کرتے ہیں:

’’ پریم چند اپنے سماجی اور طبقاتی تصور کی بنائ پر ترقی پسند تحریک کے لیے ہر اول دستے کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں،  حسرت سرخ انقلاب کے داعی کی حیثیت سے شہرت پاتے ہیں۔ شرر ناول نگار تھے مگر سب سے پہلے نظم معرا لکھنے والے بھی وہی تھے بحیثیت مجموعی یہ نئے خیالات اور تجربات کا دور تھا اورآج یہ اتنے باغی یا انقلابی نہیں معلوم ہوتے لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ انھوں نے ترقی پسندی کے ثمرات اور ادب میں انقلاب پسندی کی فصل کے بیچ بوئے اور کھادکا کام کیا‘‘

(اردو ادب کی مختصر تاریخ، ص 112)

 دنیائے ادب کی ایک دلچسپ صنف نثر افسانہ ہے۔کہانی کی تاریخ دراصل انسانی زندگی اور اس کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کی تاریخ ہے۔ انسان میں فطرتاً جتنی قوتیں کارفرما ہیں ان میں ’’ جبلت ‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ انسان کی سماجی زندگی کا وجود ایسے ہی فطری تقاضوں اور ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش سے ہی ہے۔ جبلی تقاضوں میں بھو ک اور آفات ناگہانی سے خود کو محفوظ رکھنا دو ایسے تقاضے ہیں جن کے لیے انسان کو روز اول سے عمل پیرا ہونا پڑا۔ حصول معاش اور کارگاہ ہستی کے نشیب وفراز سے مقابلہ کرتے وقت پیش آنے والے تجربات کا بیان بھی انسانی جبلت ہے۔ جو ابتدائے آفرنیش سے ہی ملتا ہے اور یہی دراصل کہانی یا افسانہ کی بنیاد ہے۔ اس بات سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ افسانہ کا تعلق بھی انسانی جبلت ہی سے ہے اور انسان جبلی طور پر کہانیوں میں دلچسپی لینے پر مجبور ہے۔

بقول احسن فاروقی:  ’’  قصّہ سے لطف اندوز ہونا ہماری فطرت میں داخل ہے ‘‘  (ناول کیا ہے، ص 17)

یہ کہا جاسکتا ہے کہ قصّوں کے لیے انسانی سرشت میں ایک لگن ہے اور ساتھ ہی ازلی تشنگی بھی۔ بقول کلیم الدین احمد:

’’ انسان تہذیب یافتہ ہو یا وحشی،بچہ ہو یا بوڑھا، کہانیوں کا فطری طور پر شائق نظر آتاہے۔ جس طرح اس کی آنکھیں کسی نئے غیر معمولی دلچسپ تماشے کی مشتاق رہتی ہیں بجنسہ اسی طرح اس کے کان نئے نئے قصّوں، انوکھی کہانیوں، رنگین داستانوں کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ ان قصّوں کہانیوں، رنگین داستانوں کے فیض سے اس کی سادہ معمولی بے رنگ زندگی رنگین و خوش گوار ہوجاتی ہے۔ ‘‘

(دیباچہ منظر وپس منظر، ص 10)

چونکہ کہانیوں کا سلسلہ ہماری فطرت اور جبلت سے وابستہ ہے، اس لیے دنیا کا قدیم ترین فن کہانی ہی ہوسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی قوت تخلیق نے سب سے پہلے قصّہ کی تخلیق کی۔ فنون لطیفہ، رقص، موسیقی، بت تراشی مصوری وغیرہ کا تصور بھی نہ تھا، اس وقت کہانیاں موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ملکوں میں ابتدا ہی سے قصّہ اور کہانیوں کی روایت ملتی ہے۔ہندوستان میں لوک کتھائیں، عرب کے صحرائی قصّے، یونان و ایران کی صنمیاتی داستانیں وغیرہ کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ تحریری اعتبار سے دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ہوجس میں ابتدا سے قصّے کہانیاں نہیں ملتی ہوں۔ تمام ملکوں کی ابتدائی کہانیوں کے مطالعہ سے ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے۔ وہ یہ کہ دنیا کے انسان جبلی طور پر ایک ہیں اور کہانیوں کا تعلق جبلت سے ہے، اس لیے ان کہانیوں کے موضوع بالعموم ایک ہی طرح کے ہیں۔ خوف،حیرت،مسرت اور جذبہ عبودیت وغیرہ موضوع کی یکسانیت کی وجہ سے قدیم قصوں میں گہری مشابہت نظر آتی ہے۔ بقول ڈاکٹر شکیل الرحمن

’’جذبی کمزوریاں اور ذہنی کشمکش، خواہشیں اور تمنائیں اسرار و روموز کو سمجھنے کی کوشش ہر جگہ موجود ہے۔ اسی طرح جوانی کی سرمستیاں اور جنسی جذبہ کا اظہار الجھنوں اور مسرتوں کے نقوش بھی ہر جگہ یکساں ہی نظر آتے ہیں۔ گناہ، پاکیزگی، کامرانی اور موت کے تصّورات بھی قصّوں میں بنیادی طور پر ایک ہیں۔ ہر قبیلہ کی کہانیوں میں ان باتوں کی یکسانیت نظر آئے گی۔

 (شکیل الرحمن شیرازہ شمارہ جنوری 1962، ص 40)

وقت کے تقاضے نے انسان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔  نت نئی ایجادات نے جہاں انسانی زندگی کے رخ کو تبدیلی کر دیا جس کے نتیجے میں ادب میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں۔ شاعری میں مثنوی۔قصیدہ، مرثیہ، غزل، رباعی اور نظم وغیرہ تخلیق کی گئی۔ اسی طرح نثری اصناف میں داستانیں وجود میں آئیں جو بے حد طویل ہیں۔ داستانوں کی طوالت اس عہد کے سماجی اور معاشی تقاضوں کی پیداوار ہے۔ مافوق الفطرت عناصر، رومان و تخیل اور حیرت وبوالعجبی اس عہد کے ذہن و تصور کی خصوصیات ہونے کی وجہ سے داستانوں کی خصوصیت بن گئی۔       

لیکن اس نظام زندگی کو جلد ہی زوال پذیر ہوناپڑا۔ فرنگی اقتدار میں آتے ہی ایک تہذیب کا خاتمہ ہوا اور دوسری تہذیب پروان چڑھنے لگی۔نئے ذہن کی تعمیر و تشکیل ہونے لگی۔ ساتھ ہی سماجی تبدیلیاںبھی ہوئیں۔ فرصت کے لمحات مفقود ہوئے اور سماجی حالات نے زندگی کو پیچیدہ بنادیا۔ رومان اور تخیل کے بجائے حقیقت اور صداقت سے ناول کے ذریعہ زندگی کی مکمل اور حقیقی عکاسی کا رحجان پروان چڑھا۔  ناول نگاری کا فن ترقی کرتا رہا اور زندگی کی پچیدگیاں اس میں جگہ پاتی رہیں۔

سولہویں صدی عیسوی کے وسط تک صورتِ حال بدلنے لگی اور رفتہ رفتہ مشینوں کو فروغ حاصل ہونے لگا۔ آمد ورفت کے ذرائع وسیع ہونے لگے اور صنعتی انقلاب رونما ہوا۔ جو سائنسی ترقی کا عظیم کارنامہ ہے۔ سائنس و تکنالوجی کے فروغ کے نتیجے میں  انسانی ذہن کو قدامت پرستی سے نجات ملی۔ آزاد ماحول میں فطری طور پرانسان کا ذہنی ارتقا ہونے لگا۔ ان تمام تبدیلیوں سے وقت کی اہمیت بڑھ گئی۔ لوگوںکو وقت کی قلت ہونے لگی، لیکن انسان تو فطری طور پر تفریح پسند ہے۔ اس لیے اب ضرورت محسوس ہوئی کہ ناول سے بھی کم کوئی ایسی صنف ایجاد کی جائے جو کم وقت میں انسانی پیاس بجھا سکے۔ گویا صنعتی دور کے سماجی اور معاشی حالات کے سبب مختصر ترین اور کم وقت میں پڑھی جانے والی صنف نثر مختصر افسانے کا وجود عمل میں آیا۔ بقول ڈاکٹر نگہت ریحان:

’’ شاہانہ اور جاگیردارنہ نظا م کی عیش کوشیوں نے داستان کو جنم دیا تھا،تغیر پذیر زمانہ، حقائق کی تلخیوں اور زندگی کے بڑھتے ہوئے مسائل ناول کی تخلیق کا سبب بنے  تھے، بدلتے ہوئے حالات، وقت اور انسان کی ضرورت یہ سب افسانہ کی پیدائش کا محرک بنے جو صنعتی دور میں رہنے والے انسان کے ماحول، ذہنی کیفیات اور افتاد طبع سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا اور انسان کے ادبی ذوق اور ہر قسم کے جذبات کی تسکین کا ذریعہ بھی بن سکتا تھا۔ ‘‘

  (ڈاکٹر نگہت ریحان: اردو افسانے کا فنی اور تکنیکی مطالعہ، ص 49)

اُردو افسانہ آج کے دور کی سب سے مقبول ترین صنف نثر ہے جو آج کے انسان کی خواہشوں، تمناؤں اور آرزوؤں کو اپنے دامن میںسمیٹے ہوئے ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے مختصر افسانے میں انسان کی مجبوریاں اور پابندیاں بھی موضوع بنی ہیں۔ اور مختصر افسانہ زمانے کی نزاکتوں اور لطافتوں سے مطابقت اور مناسبت بھی رکھتا ہے۔دور جدید کی بے حسی تشکیک۔لا یعنیت، خوغرضی، بے رحمی، دہشت پسندی، ریاکاری، جابرانہ حکمرانی اور انسانیت سے بعید سیاسی رقابتیں، عالمی صورت حال، سائنس اور تکنیکی ترقی کی وجہ سے پید اشدہ بحرا ن وغیرہ کو جدید افسانے میں موثر طریقہ سے بیان کیا گیا ہے۔

 

Prof. Dr. Mohd Iqbal Javed

Head, Dept. of Urdu

Shivaji College

Hingoli- 431401 (MS)

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں