انسانی زندگی میں ترسیل وابلاغ کی اہمیت ہمیشہ سے رہی
ہے۔ اسی کی بناپر ہمارا سماجی ڈھانچہ قائم ہے۔ انسان نے جب تہذیبی وتمدنی زندگی
بسر کرنا شروع کی اسی وقت اسے ترسیل کی قوت کا اندازہ ہوگیا تھا،جس کی بناپر اس نے
ترسیل کے ذرائع کی تحقیق وتفتیش بھی کی۔ اسی تحقیق کے تسلسل وارتقا کے پیش نظر جدید
معاشرے میں میڈیا جیسے ذریعے کا انکشاف ہوا۔
میڈیا جس میں اخبارات، فلم، ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ شامل
ہیں، جس نے ہماری سماجی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی زندگی کو پورے
طور پر متاثر کیا ہے۔ موجودہ کلچر کو میڈیا کلچر کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
انسانی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جو ان ترسیلی ذرائع کی دسترس سے باہر ہو۔ یوں
تو سارے ہی ذرائع ابلاغ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہیں، لیکن اس ضمن میں ریڈیو کی کچھ
الگ ہی اہمیت ہے۔ دراصل انسانی سماج میںریڈیو ایک وسیع ترسیلی ذریعے کی حیثیت
رکھتا ہے۔ اس سے قبل ایسی کوئی سائنسی وتکنیکی ترقی کے آثار نہیں ملتے جنھوں نے
آواز کو اس وسیع پیمانے پر ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچایا ہو۔ ماس میڈیاکا یہ
وہ نقش اول ہے جس نے آگے چل کر ٹیلی ویژن، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی صورت بھی
اختیار کرلی۔ موجودہ دور میں اس سے منقطع ہو کرزندگی نہیں گزار سکتے۔ ہر سطح پر اس
کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے بلکہ اس سے الگ ہوکر ہماری زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔
ریڈیو کے ارتقائی سفر اور تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات
واضح ہوجاتی ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں جب سائنس اور ٹکنالوجی تیزی کے
ساتھ ترقی کی جانب گامزن تھی اور زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب آفریں تبدیلیاں ہورہی
تھیں، تب اس تبدیلی نے پورے طور پر انسانی زندگی کومتاثر کیا۔ نت نئی ترقیات کی
بنا پر ایک ایسا سفر شروع ہوا جو ٹیلی
گراف، ٹیلی فون اور وائرلیس سے ہوتا ہوا ریڈیو تک پہنچا، جس نے دنیا کو ایک عالمی
گاؤں کی شکل میں تبدیل کردیا۔
ہندستان میں ریڈیو کا آغاز 1921میںہوا، مگر باقاعدہ
نشریات کا سلسلہ 1936میں آل انڈیا ریڈیو کے قیام کے بعد شروع ہوا۔ جب ہندستان میں ریڈیو
کی ابتدا ہوئی تواسے سامعین سے رابطے کے لیے کسی ایسی زبان کی ضرورت تھی جو نہ صرف
رابطے کا کام کرے بلکہ عوام وخواص میںیکساں طور پر رسائی حاصل کرسکے چنانچہ اس کے
لیے اردو کا ہی انتخاب ہوا۔ کیوں کہ اس کے علاوہ دیگر زبانوں میں اس قوت کا فقدان
نہیں تو کمی ضرور تھی۔البتہ اردو ایسی زبان تھی جس کا وجود ہی عوامی رابطے کے تحت
عمل میں آیا تھا۔ چنانچہ اسی بناپر اردو کو ’ہندستانی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے وسیع
تر لفظیات کے استعمال کا فارمولا اختیار کیا گیا۔
دراصل کسی بھی زبان کی ترویج واشاعت میں ہماری شعوری
کوششوں سے زیادہ سماجی ضرورتوں اور تقاضوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ زبان کے ارتقا میںسماجی
کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب سماجی زندگی اپنی ضرورت کے لیے کسی زبان
کو اظہار کا ذریعہ بناتی ہے تو اس زبان کی ترقی میں اجتماعی اعمال کا خیال رکھنا
نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اردو زبان بھی اس کلیے سے الگ نہیں۔ یہ زبان ترقی کے مختلف
مراحل طے کرکے ادبی اور صحافتی زبان بنی ہے۔ اس کی نشو ونما میں آبادیوں کے
تبادلے اور لشکری خصوصیات نے نہ صرف نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اس کو اظہار کی ایک
مکمل شکل بھی عطا کی۔ اسی لیے اپنی ابتدا سے ہی اردو ترسیل اور رابطے کی زبان رہی
ہے۔ بقول پروفیسر احتشام حسین ’’ہر زبان کی طرح اردو کو بھی سماجی ضروریات نے جنم
دیا جس میں آہستہ آہستہ تہذیبی خیالات اور ادبی تخلیقات کے لیے جگہ بنتی گئی۔
اردو کو تاریخ نے جنم دیا، اس کے نشوونما کے لیے ماحول پیدا کیا اور ایک ایسے معیار
پر پہنچا دیا کہ اٹھارہویں انیسویں صدی میں متعدد ملکی اور غیر ملکی علما نے
’ہندستانی‘ کی شکل میں اسے ملک کی محور زبان کا لقب عطا کیا۔‘‘
اردو کو چونکہ سماجی ضروریات نے جنم دیا، اس لیے اس میں
اظہار کی گنجائش زیادہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو خالص ہندستانی زبان ہے۔
اس کی تشکیل وتعمیر میں متعدد ہندستانی بولیوں اور زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اس کا
وجود ہی عوامی رابطے کے تحت عمل میں آیا۔ اس لیے ابتدا سے ہی اسے عام بول چال کی
حیثیت حاصل رہی اور اس نے اپنی لچک کا ثبوت دیتے ہوئے ادبی حیثیت بھی اختیار کرلی۔
فورٹ ولیم کالج کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کالج کا قیام ہندستانی زبانوں کی ترقی کے
مقصد سے عمل میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کا نصب العین ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی
اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ لیکن سماجی ضرورتوں کی وجہ سے اردو زبان کو
بہت فائدہ ہوا۔ کالج کے زیر انتظام آسان اورعام فہم زبان لکھنے کا چلن عام ہوا۔
پھر دھیرے دھیرے اردو زبان کے ماہرین نے اس میں مختلف علوم وفنون کے اتنے خزینے
بھر دیے کہ یہ ہر طرح کے اظہار پر قادر ہو گئی اور ہندستان کی مقبول عام زبان بن
گئی۔
ریڈیو کے لیے بھی ایسی ہی ایک زبان کی ضرورت تھی جو نہ
صرف رابطے کا کام کرے بلکہ سماجی ضرورتوں کو بھی پورا کرے۔ اسی کے باعث ہندستان میں
ریڈیو نشریات کی ابتدا سے ہی اردو کو اہمیت دی گئی اور اسے ترسیل کی زبان کے طور
پر استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف خوش قسمتی سے اس نئے میڈیم کے آغاز میں ہی پطرس
بخاری اور ذو الفقار علی بخاری کی صورت میںدو ایسے اذہان ریڈیو کو ملے جنھوں نے اس
نئے میڈیم کے تقاضوں کو تابانی بخشی۔ یہ اردو زبان وادب کا وہ زمانہ ہے، جس میں
بڑے بڑے ادیب وشاعر پیدا ہوئے۔ اس زمانے کے ادیبوں نے نہ صرف اردو میں ادبی
پروگرام پیش کیے بلکہ مختلف النوع پروگراموں میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاان میں
ملا واحدی، خواجہ عبد المجید دہلوی، مولوی عبد الرحمن، پنڈت برج موہن دتّاتریہ کیفی،
بیخود دہلوی، جے نند کمار، حکیم ذکی احمد دہلوی، ممتاز حسین، خواجہ غلام السیدین
اور مولانا عبد الماجد دریابادی اہم ہیں۔ ان لوگوں نے شاعروں اور ادیبوں پر پہلی
بار ریڈیو کے لیے تقریریں لکھیں۔
ان تمام لوگوں کو پطرس بخاری اور ذوالفقار علی بخاری نے
ریڈیو کے لیے ٹاک لکھنے کی دعوت دی تھی جو خود اس نئے میڈیم کے تقاضوں سے اچھی طرح
واقف تھے۔ اس لیے ان لوگوں نے ریڈیو کے لیے لکھنا شروع کیا تو بخاری برادران نے ان
کی رہنمائی کی۔اس طرح اردو ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد براہ
راست ریڈیو سے وابستہ ہوگئی۔
ڈرامے
کی دنیا میں ریڈیو کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جب تھیٹر زوال پذیر تھاتو ریڈیو نے
اس کو نہ صرف نئی زندگی دی بلکہ ہندستانی ڈرامے میں ایک نئی جان بھی ڈال دی۔ آہستہ
آہستہ ریڈیو ڈراما عوام میں مقبول ہونے لگا بہت ہی کم دنوں میں ریڈیو ڈرامے نے ایک
صنف کی حیثیت سے اپنی جگہ بنالی۔ اس زمانے کے شعرا وادبا نے ریڈیو ڈرامے کی ترویج
وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی،
شوکت تھانوی، انصار ناصری، عشرت رحمانی، رفیع پیر، عابد علی عابد وغیرہ اہم ہیں۔
واقعتا انہی لوگوں نے ریڈیائی ڈراموں کی بنیاد رکھی۔ ان لوگوں سے پہلے اردو میں ریڈیو
ڈرامے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔
متعدد ادیبوں نے ریڈیو کے لیے نہ صرف ڈرامے لکھے بلکہ
ٹاک،فیچر اور دوسری نوعیت کے پروگرام بھی مرتب کیے۔ ان کی ادبی اور صحافتی تخلیقات
سے اردو زبان وادب کو فروغ حاصل ہوا۔ اس لیے یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس
زبان کو ایک نیا رنگ عطا کرنے کا سہرا آل انڈیا ریڈیو کے سرجاتا ہے۔
ریڈیو نے ابتدائی دور میں اردو زبان کی غیر معمولی خدمت
کی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ہندستانی زبان نے ریڈیو کی سماجی ضرورت کو پورا کیا۔
ریڈیو پر جوزبان ہندستانی کے نام سے استعمال ہوئی تھی، وہ در اصل آسان اور بول
چال کی اردو تھی۔ ریڈیو کی سب سے بڑی خدمت علمی، ادبی اور سائنسی معاملات کے اظہار
کی سطح پر زبان کو بول چال سے قریب تر لانا تھا۔ بخاری برادران، خاص طور پر
ذوالفقار علی بخاری کی شخصیت اور کوششوں نے اس وقت کے نامور ادیبوں، شاعروں اور
دانشوروں کو نشریات سے روشناس کیا اور انھیں ’تحریر کی زبان‘ لکھنے کے بجائے بول
چال کی زبان کی طرف راغب کیا۔ اس دور کا شاید ہی کوئی قلم کار ایسا ہوگا جس نے ریڈیو
سے اپنا رشتہ نہ جوڑا ہو۔ در اصل اردو زبان بہ یک وقت تحریری زبان اور بول چال کی
زبان کے لیے نہایت موزوںرہی ہے۔ اس لیے ریڈیو کے تقاضوں کو اس بول چال کی زبان نے
بخوبی پورا کیا۔ گویا سامعین کو ان کی اپنی زبان میںریڈیو کا ساتھ ملا جو آج بھی
کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ غیر اردو نشریاتی پروگرام میں بھی اس زبان کا
استعمال ضروری ہوگیا ہے۔ بالخصوص ’’ہندی‘‘ نشریات میں اس زبان کا استعمال اس طرح
سے ہورہا ہے کہ بعض دفعہ دھوکا ہونے لگتا ہے کہ یہ کون سی زبان ہے۔گویا ہندستان میں الیکٹرانک
میڈیا کا وجود اس بول چال کی زبان کے بغیر ممکن نہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس
زبان نے ریڈیو کو بھی اپنے سحر میں لے لیا اور آج بھی سماجی ضرورتوں کے پیش نظر غیر
اردو نشریات میں بھی اس زبان کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ان باتوں سے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ ریڈیو اور اردو کا رشتہ کتنا مضبوط اور توانا ہے۔
ریڈیو
نے زبان کے ساتھ ادب کو بھی بہت فائدہ پہنچایااور ہر سطح پر اپنے اثرات مرتب کیے۔
مثلاً ٹاک، فیچر، ڈراما، انٹرویو وغیرہ جملہ اصناف ظاہر ہے کہ تحریری ادب میں بھی
غیر متعارف نہیں ہیں۔ لیکن ریڈیو کا قابل قدر کارنامہ یہ ہے کہ ان اصناف کو اس نے
اس طرح اپنایا کہ وہ خود ریڈیو کا اٹوٹ انگ بن گئیں اور ان تمام عنوانات کے اوائل
میں ریڈیو کا لفظ بھی اس طرح جڑ گیا گویا یہ اصناف ریڈیو ہی کے لیے وجود میں آئی
ہیں۔
ظاہر ہے کہ اردو میں ریڈیائی ادب کی ایک اچھی روایت ہے
جس میں ادبی پروگراموں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ
ہندستان میں ریڈیو کے ابتدائی دور میں کس طرح ہمارے بزرگ ادیبوں نے اس نئے میڈیم کو
زبان کے حوالے سے ایک مخصوص معیار تک پہنچایا، اور ساتھ ساتھ ریڈیو کے توسط سے
اردو ادب کے دامن کو عظیم تخلیقات سے نوازا۔ انھوں نے ادب میں نئے نئے تجربے کیے۔
چونکہ ریڈیو کے لیے عام فہم اور سادہ زبان کو مناسب قرار دیا گیا، اس لیے اردو ادیبوں
نے عام فہم اور سادہ زبان میں نئی نئی تخلیقات پیش کیں، جس سے ایک نیا اسلوب ابھر
کر سامنے آیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ریڈیو کا اردو سے بہت ہی گہرا رشتہ رہا ہے۔
دونوں ایک دوسرے کو آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے میں معاون رہے ہیں۔ ریڈیو نے
جہاں اردو زبان کے الفاظ کو اپنا کر ایک طرف خود کوزندگی کی حرارت دی ہے، وہیں
دوسری طرف اس نے زبان کے حسن سے لوگوں کو آشنا بھی کیا ہے۔ جہاں ریڈیو نے اردو کے
حسین الفاظ اور اس کے اسلوب کا سہارا لے کر دور دراز تک رسائی حاصل کی، وہیں اس نے
ان خطوں اور علاقوں میں بھی اردو کے الفاظ کو رائج کیا جو اردو کے علاقے نہیں تھے۔
Nezamuddin
Ahmad
Quadri
Manzil
Church
Road, Chandwara
Muzaffarpur-842001 (Bihar)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں