5/10/21

رام اور چکبست - مضمون نگار: احسان حسن

 



   عموماً دنیا کی ہر بڑی شاعری میں شعرا نے عظیم شخصیتوں پر طبع آزمائی کی ہے۔ ہندوستان میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم رام کی شخصیت اور رام کا کردار اپنے ایثار اور اپنی آدرش وادی شناخت کے باعث اعلیٰ مرتبے اور اعتقاد کا حامل ہے۔اُردو میں بھی رام پر کافی کچھ لکھا گیا ہے۔اردو شاعری میں رام پر متعدد تخلیقات موجود ہیں،مثلاً علامہ اقبال کی نظم ہے رام پر۔اسی طرح اور بھی قدیم و جدید شاعروں کے یہاں رام پر شاعری کی گئی ہے۔ غزلوں میں کسی مصرعے، کسی شعر میں اور نظموں میں تو باقاعدہ تفصیل کے ساتھ۔کیفی اعظمی کی ایک نظم ہے ’دوسرا بن باس ‘ اردو کی مختلف مثنویوں میں بھی رام کے تذکرے ملتے ہیں خواہ وہ روزمرہ اور محاوروں کی شکل میں ہوں یا پھر تمثیلی اور تلمیحی پیرائے میں۔اقبال کی نظم جس کا عنوان ہی ’رام‘ ہے ملاحظہ ہو        ؎

لبریز ہے  شراب  حقیقت  سے  جامِ ہند

سب فلسفی  ہیں  خطہ  مغرب  کے  رام ہند

یہ ہند یوں  کے  فکر فلک  رس  کا  ہے اثر

 رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے  بام ِ ہند

اس دیس میںہوئے ہیں ہزاروں ملک سر کشت

مشہور  جن کے  دم سے ہے  دُنیا میں نامِ ہند

ہے  رام  کے  وجود  پہ  ہندوستاں  کو  ناز

اہل  نظر  سمجھتے   ہیں  اس  کو  امام  ہند

اعجاز  اس   چراغ  ِ ہدایت  کا   ہے  یہی

روشن  تراز  سحر  ہے  زمانے میں  شام ِہند

تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں، جوش ِ محبت میں فرد تھا

(نظم ’رام‘ از علامہ اقبال، بانگ درا،  ص  270،  ایجوکیشنل پبلشنگ، ہاوس دہلی )

اپنی اس نظم میں علامہ اقبال  نے رام کو ’ امامِ ہند ‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کی تائید اہل نظر سے کروائی ہے۔

چکبست کی نظم ’رامائن کا ایک سین ‘ اُردو شاعری میں موجود رام پر تخلیق کردہ تمام تخلیقات میں منفرد حیثیت رکھتی ہے۔یہ نظم بہت مقبول ہے اور اس کی ادبی قدر وقیمت بھی مسلم ہے۔بن باس کے لیے روانہ ہونے سے پہلے اپنی ماں سے رام کا مخاطب ہونا، گفتگو کی جذباتیت اور اس کا فطری لمس بے جوڑ ہے۔رام لعل نابھوی لکھتے ہیں؛

’’ چکبست کا شاہکار ’رامائن کا ایک سین ‘ہے۔اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک شری رام چندر جی کا  ماں سے رخصت ہونا اور دوسرا ماں کا جواب۔ایک طرف ماںہے، پوری ممتالیے ہوئے دوسری طرف بیٹا ہے   مکمل فرماںبردار۔ چکبست نے اسے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک داستان چند بندوں میں خوبصورتی سے محدود کی گئی ہے۔ کسی زبان کی شاعری میں مذہبی داستانوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔شاعری گیتوں اور غزلوں سے ہی مالا مال نہیں ہوتی۔چکبست کی نظر سے یہ مسئلہ روپوش نہیں رہا۔ ماں بیٹے کا مکالمہ، بیان کی روانی اور شستگی، پڑھنے والے کا تجسس،دیکھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ یہ نظم لاکھوں لوگوں کو ازبر ہے اور بہت تو اسے ہر روز پڑھتے ہیں۔‘‘  

(مونوگراف ’چکبست‘ از رام لعل نابھوی،  ص  43-44 ،  مطبوعہ ترقی اردو بیورو،نئی دہلی)

را م چندر جی راجہ (راج کمار )تھے، وہ ایک راج گھرانے کے چشم وچراغ تھے، ولی عہد تھے۔ ایسے میں ان کا سلوک، ان کا کردار، کنبے کے افراد سے ان کا گفتگو کرنے کا انداز، فطری ردّ عمل اور بالکل عوامی لب ولہجہ ان سب باتوں کو چکبست نے اس خوبصورتی اور فنکارانہ چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ چکبست کی نظم کی مقبولیت اور اس کے ہر دل عزیز ہونے کا راز بھی یہی ہے جیسا کہ اوپر کے اقتباس میں رام لعل نابھوی نے لکھا ہے کہ تمام لوگوں کویہ نظم یا د ہے اور بہت سے لوگ اسے روز ہی پڑھتے ہیں۔رام چندر جی کے مکالمے،ماں سے ان کا مخاطب ہونا اور ماں کی فکر مندی ان تمام پہلوؤں سے ہمارا فطری انسلاک،جذباتی ربط قائم ہوجاتا ہے۔ وہیں دوسری طرف جب ہم اُن کے ارادے اور بن باس سے ذرابھی خائف نہ ہونے کی غیر معمولی قوت اور بلندترین اخلاقیات سے روبرو ہوتے ہیں تو رام کے نہ صرف کردار کے قائل ہوجاتے ہیں بلکہ ایک خاص قسم کی عقیدت بھی ہمارے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے۔

چکبست کی نظم ’ رامائن کا ایک سین ‘ اردو نظم نگاری کے باغ میں اپنے عہد و موضوع کے اعتبار سے گُل لالہ ہے۔ یہ اپنے طور کی ایک انوکھی نظم ہے۔ مسدس کی ہیئت میں لکھی گئی یہ نظم بیک وقت مرثیہ اور مثنوی کا لطف دیتی ہے۔ چکبست کا تمام کلام ’صبح وطن‘ میں موجود ہے یہ کتاب پانچ حصوںمیں  تقسیم کی گئی ہے۔اس میں نظمیں، غزلیں قطعات، رباعیات اور کچھ متفرق کلام شامل ہیں۔ نظموں کی تعداد زیادہ ہے جو مسدس میں بھی ہیں اور مخمس میں بھی۔

رامائن کا ایک سین ‘ نظم میں جو افسانویت ہے، کہانی پن ہے اور جس مخصوص انداز کی تفصیل اور مکالموں کے ساتھ نظم آگے بڑھتی ہے اس سے مثنوی کا گمان غالب ہوتا ہے۔ غور طلب ہے کہ نظم کی بسم اللہ ہی رخصت ہونے اور جدائی کے موضوع سے ہوتی ہے۔ پوری نظم میں ایک مغموم اور سوگوار فضا بر قرار رہتی ہے جو ’رامائن کا ایک سین‘ نظم کو مرثیے کے محسوسات سے معمور کر دیتی ہے۔نظم میں مرثیہ اور مثنوی کے التزام کی ایسی فنی پختگی نمایاں ہے  جو اس نظم کو Epic کا لمس دیتی ہے۔ نظم ’’ رامائن کا ایک سین‘‘ کے چند اشعار ملاحظ ہوں      ؎

 رخصت ہوا  وہ باپ سے لے کر خدا کا نام                            راہِ   وفا   کی   منزل   اوّل   ہوئی  تمام

منظور تھا جو  ماں کی  زیارت  کا  انتظام

دامن میں اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام

اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی

دیکھا ہمیں اُداس تو غم ہوگا اور بھی

دیکھے ہیں اس سے بڑھ کے زمانے نے انقلاب                        جن سے کہ بے گناہوں کی عمر یں ہوئیں خراب

سوزِ دروں  سے  قلب و جگر  ہوگئے کباب

پیری  مٹی کسی کی کسی  کا  مٹا  شباب

کچھ  بن نہیں  پڑا  جو  نصیبے  بگڑ گئے

 وہ بجلیاں گریں کہ بھرے گھر اُجڑ گئے

  (انتخاب منظومات (حصہ اوّل)  ص45, 48  مطبوعہ اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ) 

رام لعل نابھوی لکھتے ہیں:

’’ اس نظم میں انسانی نفسیات کا مطالعہ اور زندگی کا مشاہدہ بھر پور ہے۔ عبدالقاد رسروری کا کہنا ہے کہ رامائن کے بعض دلچسپ اور موثر واقعات کو چکبست نے مسدّس کی شکل اور انیس کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ چکبست کی یہ نظم اُردو شاعری میں قابل قدر ہے کیونکہ اس کا موضوع بھی مرثیہ کے موضوع کی طرح مہتم بالشان ہے اور اسلوب بیان میں بھی مرثیے کی جھلک موجودہے۔یہ نظم حزنیہ ہے اور اس میں ڈرامائی خوبی بڑی حد تک موجود ہے‘‘

(مونوگراف ’چکبست‘ از رام لعل نابھوی، ص  45،  مطبوعہ ترقی اردو بیورو، نئی دہلی)

چکبست نے نظم ’ رامائن کا ایک سین‘ میں بن باس کو روانہ ہورہے رام کو ہیروکے طور پر پیش کیا ہے۔نظم میں مرکزی رول رام کا ہے۔باپ ماں وغیرہ سے وداع لینے میں رام کا کردار جس طرح سے اُبھرکر سامنے آتا ہے اس سے فطری طور پر ہم اپنے آپ کو رام کے ساتھ جذبات کی سطح پر جوڑ لیتے ہیں اور ان کا دُکھ درد ہمیں ذاتی دُکھ درد معلوم ہونے لگتا ہے۔دوسری طرف رام جن اصولوں اور آدرشوں پر عمل کرتے ہوئے بن باس کو روانہ ہورہے ہوتے ہیں اُس سے ہمارے دلوں میں رام کے تئیں عقیدت اور مضبوط ہوتی ہے اور ہم ان آدرشوں کے ساتھ بن باس کو روانہ ہو رہے رام کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہم اپنے اندر ایک قوت محسوس کرنے لگتے ہیں،اس نظم کی یہی نزاکت اس کو اعلیٰ درجے کی تخلیق بناتی ہے کہ ایک طرف جذبات میں ہمارے آنسو بھی نکل رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف بات جب اصولوں کی آتی ہے تو راج محل کو چھوڑ کر ہم جنگل کی زندگی کی حمایت کرتے ہیں۔ بن باس کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ماں کے ساتھ رام کے مکالمے اور ان مکالموں کا نیچرل انداز اور شدتِ  احساس ایک زبر دست تاثر قائم کرتے ہیں        ؎

 پھر یہ کہا کہ میں نے سنی سب یہ داستان

لاکھوں برس کی عمر ہو دیتے ہوماں کو گیان

لیکن جو میرے دل کو ہے درپیش امتحان

بچے  ہو  اس کا علم  نہیں تم کو  بے گمان

اس درد کا شریک تمھارا جگر نہیں

کچھ مامتاکی آنچ کی تم کو خبر نہیں

بن با س پر خوشی سے جو راضی نہ ہوں گا میں                            کس طرح منہ دکھانے کے قابل رہوں گا میں

کیوں کر زبان غیر کے طعنے سنوں گا میں

دنیا  جو یہ کہے  گی  تو پھر کیا کہوں گا  میں

  لڑکے نے بے حیائی کو نقش جبیں کیا 

  کیا بے ادب تھا؟ باپ کا کہنا نہیں کیا

(انتخاب منظومات  (حصہ اول)  ص 49,51  مطبوعہ اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ)

نظم ’رامائن کا ایک سین‘ کی خصوصیت یہ ہے کہ بیک وقت اس میں معمولی اور غیر معمولی کا تصادم ہے۔ رام کا اہل خانہ سے رخصت ہونے کا منظر اور جب وہ باپ سے مل کر ماں سے مخاطب ہوتے ہیں تو بالکل عام ماں بیٹے کی سی جذباتی کیفیت ہوتی ہے لیکن جیسے ہی رام بن باس کو جانے کے اپنے فیصلے کو جائز قرار دینے لگتے ہیں اور ماں سے اصرار کرتے ہیں کہ بن باس کی اجازت دیں کیونکہ یہ فرض، اصول اور خاندان کے آدرش کی خاطر ضروری ہے تورام کا غیر معمولی عکس ہمارے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ایک طرف رام کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو ہماری زندگیوں کا حصہ ہے تو دوسری طرف نہایت غیر معمولی اور آفاقی جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ چکبست کا کمال یہ ہے کہ نزاکت سے بھرے اس موضوع کو نہایت فطری انداز میں بڑے خوبصورت طریقے سے نظم کے پیرائے میں  اس طرح پیش کیا ہے کہ عقیدت میں قاری کے سر کو جھکا دیتا ہے۔ نظم ’ رامائن کا ایک سین‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں        ؎

پڑتا ہے جس غریب پہ رنج ومحن کا بار

کرتا ہے اس کو صبر عطا آپ کرِد گار

مایوس ہوکے ہوتے ہیں انسان گناہ گار

یہ جانتے نہیں وہ ہے دانا ئے روزگار

انسان اس کی راہ میں ثابت قدم رہے

گردن وہی ہے امررضا میں جو خم ر ہے

اور آپ کو تو کچھ  بھی نہیں  رنج  کا  مقام

بعد سفر وطن میں ہم آئیں گے شاد کام

ہوئے ہیں بات کرنے میں چودہ برس تمام

قائم امید ہی سے ہے دُنیا ہے جس کانام

اور یوں کہیں بھی رنج وبلا سے مفر نہیں

کیا ہوگا دو گھڑی میں؟ کسی کو خبر نہیں

 (’انتخاب منظومات  (حصہ اول)‘  ص،48، مطبوعہ اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ)

 رام لعل نابھوی لکھتے ہیں :

’’فن کی استعداد  فطری ہوتی ہے۔ فنکار انہ استعداد خدا کی دین ہے۔ فن میں فنکار کا مقام اس کی تخلیقات سے متعین ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ادیب یا شاعر میں انسانیت بدرجۂ اولیٰ ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ معیار حیات ہوتا ہے۔ ایک آدمی میں بیک وقت کئی آدمی زندہ رہتے ہیں۔کئی آدمی بیک وقت متصادم رہتے ہیں۔ایک روشن دماغ میں کئی روشن دماغوں کی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔شخصیت کی سبھی جہتوں سے ملا قات ممکن نہیں۔ان شخصیتوں میں جو شخصیت غالب ہوتی ہے وہ اس شخص کی شخصیت بن جاتی ہے۔لہٰذا کسی فنکار کا فنی مقام معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ذہنی ارتقائ کا جائزہ لیا جائے  اور اس کے کارناموں کا مطالعہ ایمانداری سے کیا جائے۔‘‘ 

(مونوگراف ’چکبست‘ از رام لعل نابھوی،  ص 68،  مطبوعہ ترقی اردو بیورو،نئی دہلی)

 چکبست ایک پاکیزہ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے اندر وطن اور قوم کی محبت بے پناہ تھی۔ اس لیے ان کی تمام تر تخلیقات قومیت اور وطنیت کے جذبے سے لبریز ہیں۔ چکبست نے غزلیں بھی کہی ہیں۔ ان کی غزلوں میں بھی ایک شفاف اور صاف ستھرا احساس نمایاں ہے زیادہ تر اشعار کے مرکز میں نئی نسل،وطن،قوم اور قوم کی تربیت ہے۔ چکبست نے اپنی غزلوں میں بھی عشقیہ موضوعات او ر محبت کے مضامین سے اجتناب برتا ہے۔’رامائن کا ایک سین ‘ جیسی نظم وہی شاعر لکھ سکتا ہے جس کی زندگی میں اصول اورآدرش اولیت رکھتے ہوں۔جو اپنے فرض کو پورا کرنے کی خاطر ہر مصیبت اُٹھانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔

راحت ہو یاکہ رنج خوشی ہو کہ انتشار

واجب ہر ایک رنگ میں ہے شکر کردگار

تم ہی نہیں ہو کشتہ نئے رنگ ِ روزگار

ماتم کدہ میں دہر کے لاکھوں ہیں سوگوار

سختی سہی نہیں کہ اُٹھائی کڑی نہیں

دنیا میں کیا کسی پہ مصیبت پڑی نہیں

(’انتخاب منظومات  (حصہ اوّل)‘  ص47،  مطبوعہ اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ)

برج موہن دتا تر یہ کیفی لکھتے ہیں:

’’ چکبست ایک شاعر کی حیثیت سے داخلی رنگ کے بادشاہ تھے۔ اور خارجی منظر نگاری میں بھی کم نہ تھے۔ وجہ یہ ہے کہ خیالات اور جذبات کا جوش و خروش ان کی فطرت میں بے حد تھا۔ چکبست کا شعور وسیع، تخیل  بلند اور ذہن ہمہ گیرتھا اور وہ زبردست صاحب طرز تھے۔‘‘

(’کیا خوب آدمی تھا‘  از برج موہن دتاتریہ کیفی،  ص 36)

اپنے مخصوص طرز میں مہارت اور کلاسیکی اصناف پر عبور کا ہی نتیجہ ہے کہ نظم’رامائن کا ایک سین‘ میں مرثیہ اور مثنوی دونوں کا رنگ شیروشکر ہو گیا ہے۔ایسے فنکار انہ التزام کی مثالیں اردو شاعری میں خال خال ہی ہیں۔

چکبست کی نظم ’رامائن کا ایک سین‘ کے یہ اشعار  ملاحظ ہوں          ؎

لیتی کسی فقیر کے گھر  میں  اگر  جنم

ہوتے  نہ میری جان  کو  سامان  یہ  بہم

ڈستا نہ سانپ بن کے مجھے شوکت وحشم

تم مرے لال تھے مجھے کس سلطنت  سے کم

 میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اس تخت وتاج کو

تم ہی  نہیں  تو  آگ  لگا  دوں گی راج کو

(’انتخاب منظومات (حصہ اول)‘  ص 46،  مطبوعہ  اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ)

 نظم’رامائن کا ایک سین ‘ جس کی بہترین مثال ہے۔  اس نظم کے یہ اشعار ذرا ملاحظ ہوں           ؎

یہ جعل یہ فریب یہ سازش یہ شور وشر

ہونا جو ہے سب اس کے بہانے ہیں سر بسر

اسباب ظاہر ی ہیں نہ ان پر کرو نظر

کیا جانے کیا ہے پردۂ قدرت میں جلوہ گر

  خاص اُس کی مصلحت کوئی پہچانتا نہیں

   منظور کیا اُسے ہے؟ کوئی جانتا نہیں

 (’انتخاب منظومات  (حصہ اول)‘  ص  47،  مطبوعہ اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ)

ڈاکٹر عبدالحق کی رائے ہے:

’’ شاعرکا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ تخیل کو گُدگُدا تا اور اُبھارتا ہے اور اس میں خیال،جذبہ، عمل سب کچھ آجاتا ہے۔ حضرات !یہ کام ہماری اردو کے تین شاعروں نے انجام دیا۔ حالی، چکبست اور اقبال۔ان کے کلام میں خلوص، درد اور جوش پایا جاتا ہے۔ان تینوں نے ملک اور قوم کی وہ ضروری اور اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں جو کسی طرح ممکن نہ تھیں۔ یورپی نقاد کہتے ہیں کہ شاعری کا ماحصل لطف وحظ ہے۔

وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُنھیں فارغ البالی حاصل ہے۔ سامانِ عیش و آرام مہیا ہے۔تمدن کی بہت سی اعلیٰ منزلیں طے کر چکے ہیں۔لیکن ہم یہ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں؟ ہمیں صرف لطف حاصل کرنا ہی مقصود نہیں بلکہ ہمیں سکوت و جمود کو بھی توڑنا ہے۔غفلت و کاہلی کو مٹانا ہے۔ دلوں میں احساس و حرکت پیدا کرنی ہے۔ اور سچ پوچھیے تو مردوں کو زندہ کرنا ہے۔ ہمیں ایسے ہی شاعروں کی ضرورت تھی جیسے حالی،چکبست،اوراقبال۔‘‘  

(’ادبی مطالعے، ایچ ایم عثمانی ‘  ص  131،   ڈاکٹر عبدالحق)

رامائن کا ایک سین‘ نظم کے ذریعے چکبست ہمارے سامنے جو رول ماڈل پیش کرتے ہیں وہ انسانیت اور دردمندی کے جذبے سے لبریز ہے۔ رام کی شخصیت میں ایک فرماں بردار بیٹے کا کردار مکمل طور پر موجود ہے نہ کہ ایودھیا کے راج کمار کا۔ چونکہ رام حقیقت میں تو راج کمار ہی ہیں لیکن اپنی اس شناخت کو توڑ کر جب بن باس کے لیے وہ قدم بڑھادیتے ہیں تونہ صرف عام آدمی کے دل کے بہت قریب ہوجاتے ہیں بلکہ عوام کا آدرش اور عقیدہ بھی بن جاتے ہیں۔

آخر میں چکبست کے تعلق سے رام لعل نابھوی کا یہ بیان اور بات ختم کہ:

’’ چکبست ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو انگریز کی چکی میں پستے دیکھ رہے تھے۔ اس لیے ہندو مسلم اتحادکے  زبردست حامی تھے اور آزادی کی تحریک کے علمبردار۔اُن کا کردار خالص ہندوستانی تھا۔ صلح پسندی، توازن اور اعتدال اُن کے مزاج کے خاص جوہر تھے۔ہندوستان کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اُن کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔بیداریِ وطن کے ترانوں میں اُنھیں روحانی سُرور ملتا تھا۔ وہ اپنے پیغامات میں رنگا رنگ جلوے اور اپنے دل کی گرمی اور اپنے سینے کا گداز بھر دیتے تھے۔‘‘

(مونوگراف ’چکبست‘‘ از رام لعل نابھوی،ص  19 مطبوعہ ترقی اردو بیورو،نئی دہلی)

 

 

Dr. Ehasan Hasan

Asst. Professor, Dept of Urdu

Faculty of Arts, BHU

Varanasi- 221005

Mob.: 9935352141

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں