5/10/21

نقد مثنوی: کاشف الحقائق کے آئینے میں ۔ مضمون نگار: سلمی محمد رفیق

 



امداد امام اثر کے مطابق شاعری رضائے الٰہی کی صحیح نقل ہے جو الفاظ با معنی کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا یہ تصور شعری کہیں نہ کہیں افلاطونی تصور شاعری سے جا ملتا ہے کہ دنیا ایک حقیقی عالم مثال کی ایک نقل ہے۔امداد امام اثر کے نزدیک دنیا کی دو حیثیت ہے۔ایک عالم خارج جس میں مادہ شامل ہے اور دوسرا عالم باطن جس میں مادہ نہیں بلکہ امور قلبیہ داخل ہیں۔اسی تقسیم کے مطابق انھوں نے شاعری کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ایک Objective اور دوسرا Subjective۔ انھوں نے شعرا کی بھی تقسیم اسی تصور کے تحت کی ہے۔ان کے خیال میں کچھ شعرا عالم خارج کو بیان کرنے اور ان کوشعری پیکر میں ڈھالنے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں مثلاً نظیر اکبر آبادی عالم خارج کو بہتر انداز میں پیش کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور میر تقی میر عالم باطن کے اظہار پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ان کے علاوہ کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جو دونوں تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہیںاور وہی اصل میں عظیم شاعر کہلاتے ہیں۔امداد امام اثر اس قسم کے شعرا میں میر انیس کو شامل کرتے ہیں۔ انھوں نے میر انیس کو ’ہومرس‘ سے مرجح بتایا ہے اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان کے نزدیک ہومرس کا مرتبہ ورجل، فردوسی اور ملٹن  جیسے عظیم تخلیق کاروں  سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ اسی طرح امداد امام اثر نے واضح طور پر شاعری کو اعلی اخلاق کی تربیت کا ذریعہ بتایا ہے۔اصل میں امداد امام اثر جس سر زمیں یا جس دور کے پروردہ ہیں وہاں اخلاق اور تہذیبی وراثت کی پاسبانی بہت اہمیت کی حامل اور فرض عین کا درجہ رکھتی تھی۔ ظاہر ہے شاعر ہو یا نقاد،مصنف ہو یا مبصرسب اپنے عہد اور اس کے مزاج سے کسی نہ کسی حد تک شعوری یا غیر شعوری طور پرمتاثر ہوتے ہیں۔تنقید کے میدان میں امداد امام اثر بھی اپنے پیش رو یعنی الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی وغیرہ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ الطاف حسین حالی کے مطابق جس طرح شاعری سے نفسیاتی جذبات مشتعل ہوتے ہیں اسی طرح شاعری سے روحانی اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے۔’مقدمہ شعر و شاعری ‘ کا ہر قاری واضح طو ر پرحالی کا ’مذہبی ذہن‘ محسوس کر سکتا ہے۔ امداد امام اثر اور حالی میں البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ حالی شاعری کو براہ راست اخلاق کی تربیت یا تلقین کا ذریعہ نہیں قرار دیتے ہیں جبکہ امداد امام اثر واضح طور پر شاعری کو اخلاق آموزی کا ذریعہ مانتے ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ میر انیس کو سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں کیونکہ ان کا کمال جس صنف میں عروج کو پہنچا  اس کا موضوع ہی سراسر اخلاقی ہے۔امداد امام اثر کا شاید یہ عقیدہ ہی ہے جس کے سبب میر انیس کے متعلق ان کی تحریر پڑھ کر ہر قاری اس بات کو محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا۔

 جہاں تک صنف مثنوی کا تعلق ہے تو اس کے متعلق امداد امام اثر کا خیال ہے کہ اس میں ہمہ گیری اور وسعت ہے اور اسی وسعت کا ذکر الطاف حسین حالی نے بھی کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس صنف شاعری میںشاعر اپنا کمال دکھا سکتا ہے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی منظوم تصانیف اسی صنف میں پیش کی گئی ہیں۔ہومر،ورجل،ملٹن،فردوسی،بالمیکی،ویاس وغیرہ نے اسی صنف میں دنیا کو شاہکار عطا کیے ہیں۔امداد امام اثر کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ اردو میں کوئی ایسی مثنوی نہیں لکھی گئی جو مذکورہ بالاشعرا کے مقابل پیش کی جاسکے۔ ان کے مطابق میر انیس ملکی تقاضے کے سبب اس صنف کی طرف توجہ نہیں کر سکے ورنہ وہ ضرور اس صنف میں ایسا شاہکار تخلیق کرتے جو دنیاکے سامنے پیش کیا جاسکے۔ان کا بیان ملا حظہ ہو:

’’اگر مرثیہ نگاری کے لیے یہ صنف شعرا میں مروج ہوتی تو حضرت بھی کوئی نہ کوئی تصنیف ایلیڈ،پیرا ڈائس لاسٹ، شاہنامہ،رامائن اور مہا بھارت کے رنگ کی چھوڑ جاتے۔‘‘ 

(کاشف الحقائق،امداد امام اثر،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دلی، 1982،ص560)

امداد امام اثر نے اپنی ضخیم کتاب ’’کاشف الحقائق ‘‘ میں 112صفحات میں صنف مثنوی پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ مثنوی کے فن اور بالخصوص اس کے مضامین کو فارسی و اردو کی مثنویوںکی مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔ انھوں نے دنیا کے اہم ترین Epics کا بھی ذکر کیاہے اور بعض پر قدرے تفصیل سے گفتگو بھی کی ہے۔کسی حد تک تقابل اور موازنہ بھی پیش کیا ہے۔انھوں نے مثنویوں کی تقسیم ان کے مضامین کے اعتبار سے کی ہے۔مثلاً رزمی مضامین کے لیے انگریزی میں پیرا ڈائس لاسٹ،یونانی میںایلیڈ، لاطینی میں اینیڈاورسنسکرت میں رامائن و مہا بھار ت وغیرہ۔

 امداد امام اثر کے مطابق مثنوی نگاری میں صرف وہ شاعر کمال حاصل کر سکتا ہے جس کے اندر نہ صرف امور ذہنیہ بلکہ امور خارجیہ کو قلم بند کرنے کی بھر پور صلاحیت ہو۔ایساشاعر جو صرف امور داخلیہ کو بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہویا اس کے بر خلاف محض امور خارجی کی پیش کش میں مہارت رکھتا ہو وہ مثنوی نگاری کا حق ادا نہیں کر سکتا ہے اور اس طرح وہ کوئی قابل قدر کارنامہ پیش نہیں کر سکتا ہے۔ وہ مثنوی نگاری کے لیے شاعر کو اس بات کا بھی مکلف بناتے ہیں کہ اس کو معاملات عالم کا حتی المقدور علم بھی ہو۔ ساتھ ہی اس کو مصور عالم بھی ہونا چاہیے۔ان تمام خصوصیات کا حامل شاعر ہی مثنوی نگاری کا حق ادا کر سکتاہے۔

کاشف الحقائق میں انھوں نے جن مثنوی نگاروں کا ذکر کیاہے وہ ہیں میر تقی میر،مومن خان مومن، میر حسن، دیا شنکر نسیم اور محمد رفیع سودا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر زبان میں انھیں شعرا نے بہترین مثنویاں لکھی ہیں جو داخلی اور خارجی دونوں امور کو ضبط مضمون میں لانے کی قدرت رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ میر تقی میر کو غزل کے میدان کا شہسوار اور سلطان المتغزلین تو مانتے ہیں کیوں کہ ان کو داخلی بندش پر قدرت حاصل تھی لیکن ان کی مثنویوں کوزیادہ  قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ داخلی رنگ لیے ہوئے ہیں۔اسی طرح وہ مومن کی تمام مثنویوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بھی داخلی رنگ کی حامل ہیں۔جیسا کہ اہل ادب سے یہ امر پوشیدہ نہیں ہے کہ میر اور مومن دونوں بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور یہی رنگ ان کی مثنویوں میں بھی نمایاں ہے۔البتہ ان کی مثنویوں میں وہی فرق ہے جو ان کی غزلوں میں ہے۔ مومن خان مومن کی مثنویاں دقت انگیز ہیں۔ مجرد داخلی شاعری کرنے والا کبھی اعلی مثنوی تخلیق نہیں کر سکتا ہے اسی بنا پر میر و مومن اعلی غزل گو ضرور ہیں مگر اچھے مثنوی نگار نہیں۔میر کی مثنوی نگاری کے متعلق وہ لکھتے ہیں:

’’میر لاریب سلطان المتغزلین تھے۔مگر حضرت کی مثنوی  نگاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو درجہ غزل سرائی میں حاصل ہے وہ مثنوی نگاری میں نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو صرف مضامین داخلی کی بندش کی بڑی قابلیت حاصل تھی لیکن مثنوی نگاری کی وہی شاعر داد دے سکتا ہے جو مضامین خارجی کی بندش پر بھی پوری قدرت رکھتا  ہے۔یہ قدرت آپ کو بھی حاصل نہ تھی۔اس لیے آپ کی مثنویاں تمام تر داخلی پہلو کی شاعری سے خبر دیتی ہیں...‘‘

(کاشف الحقائق،ص580)

امداد امام اثر نے میر حسن دہلوی کی مثنوی ’سحر البیان‘ پر نہایت مبسوط اور تفصیلی گفتگو کی ہے۔انھوں نے مثنوی کے باقی شعرا کے سلسلے میں ایک دو صفحات یا چند مثالوں پر اکتفا کیا ہے گویا بر سبیل تذکرہ لیکن میر حسن کی مثنوی پر ستر صفحات پر مشتمل تبصرہ ہے۔میر حسن کی مثنوی پر ان کو شاعری کا خاتمہ نظر آتا ہے۔ان کی تحریر پڑھ کر ہر قاری با آسانی ان کی پسندیدگی کو محسوس کر سکتا ہے۔بلا شبہ میر حسن کی مثنوی نہایت اہم اور قابل قدر سرمایہ ہے۔اس کی تہذیبی،اخلاقی، تمدنی حیثیت مسلم ہے۔امداد امام اثر کا یہاں تک کہنا ہے کہ اس کی مجموعی خوبیوں کی حامل کوئی مثنوی فارسی میں بھی نہیں ملتی ہے۔ان کا یہ بیان البتہ اہل علم و دانش کے نزدیک قابل بحث ہو سکتا ہے۔انھوں نے اس مثنوی کی نو خوبیوں کی نشاندہی کی  ہے

جو حسب ذیل ہیں: (1) فطری زبان (2) قصے کا تناسب (3) تشبیہات و استعارات کے استعمال کا مذاق صحیح(4) مبالغے کاسچی شاعری کے منافی نہ ہونا (5) ملک کے رسم و رواج کاصحت کے ساتھ بیان کرنا (6)  معاملات خارجی کا بیان بطرز تصویر (7) امور ذہنیہ اور واردات قلبیہ کا پر تاثیری کے ساتھ قلمبند کرنا (8) قصے کا اخلاقی و تمدنی حیثیت کا متحمل ہونا(9) امور ذہنیہ اور معاملات خارجیہ کے بیانات کے فطری اسلوب کا حامل ہونا۔

مذکورہ بالا نکات ہی ان کی تنقیدی بصیرت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ظاہر ہے امداد امام اثر نے انھیں خطوط پر مثنوی کی تنقید کی بنیاد رکھی ہے اور اپنی بیش بہا آرا سے اردو تنقید میںاہم اضافے کیے ہیں۔ 

 جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امداد امام اثر شاعری کو اخلاقی تربیت سے آزاد نہیں رکھتے ہیں اس بنا پر جہاں وہ اس مثنوی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے وہیں بے نظیر اور بد ر منیر کے وصل کے بیان کوہدف تنقید بھی بنایا ہے۔ ان کا بیان ملاحظہ ہو:

’’ اس مثنوی کی داستانوں میں صرف نا مطبوع داستان یہی ہے۔ کاش میر حسن اس داستان کو داخل مثنوی نہ کیے ہوتے یا اس داستان میں اس طرح کے بے باکانہ وصل کے پہلو کو رقم نہ کرتے۔اس داستان کے مضامین کوئی روحانی جلوہ نہیں رکھتے... یہ داستان مثنوی زہر عشق وغیرہ کا اخلاقی انداز رکھتی ہے...خوب ہوتا اگر میر حسن اس داستان میں انتظار وصل کو دکھاتے اور محبت کی پختگی کی تدریجی حالتوں کو بیان کرتے۔‘‘ ( کاشف الحقائق،ص624)

امداد امام اثر کے مذکورہ بالا خیال پر اگر غور کیاجائے تو ہم جیسے ناقص العلم طلبا کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر میر حسن اس قصے کو شامل مثنوی نہ کرتے تو کیا آج کے قاری کو اس وقت کے شہزادوں کے عشق اور کیفیت وصل کا اندازہ ہوتا،اور کیا وصل قبل از نکاح جو حقیقتاً اس دور کی عشرت پسندانہ طرز زندگی میںموجود تھا، اس کو اخلاقی تربیت کے باعث یا تو غلط بیانی کر کے بدل دیا جاتا یا کم از کم اس پر پردہ ڈال دیا جاتا کہ وہ اخفا میں رہے۔ ایسا کرنا ادبی تخلیقات میں کس حد تک درست ہے؟

امداد امام اثر نے بڑی عرق ریزی اور دقت نظری سے مثنوی ’سحر البیان‘ کا تجزیہ پیش کیا ہے اور پر مغزتبصرہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جس نے سحر البیان سے لطف  نہیں اٹھایا گویا وہ شاعری کے لطف ہی سے بے بہرہ رہا۔

دیا شنکر نسیم کی ’ گلزار نسیم ‘ کا ذکر انھوں نے تین صفحات میں کیا ہے۔وہ اس کے اختصار اور زبان و بندش کی چستی کے معترف ہیںلیکن تناسب کے سلسلے میں غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ان کے خیال میں سلسلہ کلام میں وہ تناسب نا پید ہے جو میر حسن کی مثنوی میں بھر پور ملتا ہے۔ تناسب ہی شاعری کا اصل حسن ہے۔’’ آوارہ ہونا بکاولی کا تاج الملوک گلچیں کی تلاش میں ‘‘ کے تحت جو اشعار ہیں ان کے متعلق امداد امام اثر کا بیان ملاحظہ ہو:

’’شاعری کے اعتبار سے یہ اشعار اعلی درجہ کے داخلی یا خارجی مضامین کی کوئی خوبی نہیں رکھتے۔حکمت و فلسفہ سے تو ان کا لگائو ہی نہیں اور اخلاقی تعلیم کی بھی ان کو ہوا نہیں لگی ہے۔فطری شاعری کے نمونے یہ اشعار ہر گز نہیں مانے جا سکتے ہیں۔ان کی جو خوبیاں ہیں وہ مصنوعی انداز کی ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 661)

امداد امام اثر نے صنف مثنوی کو مختلف مضامین کے تحت تقسیم کیا ہے۔

(1)  رزمی مضامین :  اس قسم کے مضامین کے سلسلے میں ان کا ماننا ہے کہ رزمی مثنوی کے لیے ضروری  ہے کہ جو قصہ منظوم کیا جائے وہ اخلاقی،مذہبی اور تمدنی لحاظ سے ایسا ہو جو کسی خاص قوم کے اغراض سے متعلق ہو۔اردو میں کوئی مثنوی اس معیار کو پوری نہیں اترتی۔عربی میں یہ صنف موجود ہی نہیں ہے اور فارسی میں وہ شاہنامہ کو اس قبیل میں شامل کرتے ہیں۔انگریزی میں پیرا ڈایس لاسٹ، یونانی میں ایلیڈ اور اوڈیسی،لاطینی میں اینیڈاور سنسکرت میں رامائن و مہا بھارت اس معیار پر پوری اترتی ہیں۔ان کے خیال میں اہل اردو نے اگر فارسی کے بجائے سنسکرت سے استفادہ کیا ہوتا تو اردو میں بھی شاہکار رزمی مثنویاں وجود میں آتیں، یا میر انیس نے اس صنف کی طرف توجہ کی ہوتی تو آج اردو کے ذخیرہ مثنوی میں شا ہکار ہوتا۔ ان کی یہ رائے اس بنا پر ہے کہ سنسکرت میں ڈرامے کی روایت بہت مستحکم ہے اور مثنوی میں وہ ڈرامے کی خصوصیات کا پایا جانا احسن گردانتے ہیں اور اس کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔

(2) بزمی مضامیں: ا س ضمن میں انھوں نے فارسی میں یوسف زلیخا،لیلی مجنوں،شکارنامے،ساقی نامے وغیرہ شامل کیے ہیں۔انگریزی میںلارڈ بائرن، سر والٹر اسکاٹ، الیگزینڈر پوپ اور مور وغیرہ کی مثنویوں کو شامل کرتے ہیں۔

(3)  حکمت آموز مثنویاں: امداد امام اثر کے مطابق اس زمرے میں آنے والی مثنویاں بکار آمد قسم میں شامل ہوتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ انگریزی میں اس قسم کی شاعری ڈائیڈیکٹیک شاعری ہے (Didactic Poetry)  جدید دور کے مشہور امریکی شاعر ایڈ گرایلن پو (Edagar Allan Poe)نے اس قسم کی شاعری کو غیر اہم بتایا ہے۔

(4) تصوف آمیز مثنویاں: اس میں انھوں نے مولانا روم کی مثنوی کو سب سے مقدم رکھا ہے اور بہتر بتایا ہے۔ ایران اور ہندوستان دونوں میں تصوف آمیز مثنویاں بڑی تعداد میں لکھی گئی ہیں لیکن اس سلسلے میں فارسی ادب میں تصوف آمیز مثنویوں کا جو ذخیرہ موجود ہے وہ اردو ادب میں نہیں ملتا۔مولانا روم کی مثنوی سے بہت سی مثالیں بھی پیش کی ہیں اور قابل قدر تجزیہ بھی لیکن اس سلسلے میں اردو ادب سے کسی مثنوی کی مثال شامل مضمون نہیں ہے۔

(5) متفرق مضامین کی مثنویاں: اس قسم میں قصص اور حکایات پر مشتمل مثنویاںہیں۔غالب کی مثنوی آم کی تعریف بطور مثال پیش کی ہے اس کے علاوہ سودا کی کئی مثنویاں جو ہجو پر مشتمل ہیں۔انھوں نے صرف مثالیں پیش کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان پر قابل قدرتنقیدی نکات بھی ملتے ہیں جس سے ان کی تنقیدی بصیرت کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

بلا شبہ امداد امام اثر اردو ادب کے اہم تنقید نگار ہیں۔ان کی تنقید نگاری کی مختلف جہات ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تنقیدی بصیرت کے مختلف گوشوں پر مختلف پہلوؤں سے نظر کی جائے اور اس سے خاطر خواہ استفادہ کیا جائے۔اس مضمون میں بہت تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ امداد امام اثر اپنے دور کے تنقید نگاروں میں ممتاز مقام کے مستحق ہیں۔

صنف مثنوی کے فن اور موضوع سے متعلق نہایت اختصار کے ساتھ ان کی آرا ملا حظہ ہو:

’’واضح ہو کہ رزمی اور بزمی مثنویوں کا کمال یہ ہے کہ ان کی بندش مضامین اس درجہ کی سلجھی ہوئی ہو کہ قریب قریب ڈرامے کا لطف پیدا کر سکے۔لا ریب وہی مثنوی ڈرامے کا لطف پیدا کر سکتی ہے جو فطری مضامین اور فطری ترکیبوں پر مشتمل ہوگی... المختصررزمی اور بزمی مثنویوں کو اس قدر نیچرل ہونا چاہیے کہ اگر ان کے مضامین میںڈراما کی شکل میں بندش پائیں تو اس صنف شاعری میں آسانی اور لطافت کے ساتھ در آسکیں۔حکمت آموز اور تصوف آموز مثنویوں کے لیے یہ امر درکار ہے کہ مسلم اور منقح مسائل حکمت و تصوف سے ان کا کوئی مضمون خلاف نہ ہو۔اور دلیل و استدلال میں جھول واقع نہ ہو۔ان قسموں کی مثنویوں میں بحد امکان شاعر کو مبالغہ پردازی سے تمام تر احتیاط لازم ہے۔علاوہ اس کے طریقہ بیان ایسا ہو کہ سامع کے دل پر حسب مراد اثر پیدا کر سکے۔متفرق مضامین کی مثنویوں کو بھی فطرتی بیانات سے خالی ہونا نہیں چاہیے۔علاوہ اس کے ان کے مضامین کو مفید عام ہونا ضروری ہے۔فحش گوئی اور ہذیان سرائی کو مثنوی نگاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 562)

 مذکورہ بیان کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ امداد امام اثر مثنوی میں داخلی اور خارجی دونوں امور کی کارفرمائی چاہتے ہیں۔مزید بر آنکہ وہ مثنوی کا رشتہ کہیں نہ کہیں ڈرامے کی صنف سے جوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔نیچرل ہونا اور مبالغے سے پرہیز کی بات کسی طرح حالی سے مختلف نظر نہیں آتی۔حالی،شبلی،محمد حسین آزاد اور عبدالرحمن بجنوری، کس کے نزدیک طریقہ بیان کا ایسا ہونا جو سامع کے دل پر اثر پیدا کرے اور مضمون کا مفید ہونا،شرط نہیں ٹھہرتا۔پھر کیا یہ ناانصافی یا کم ازکم کوتاہ بینی نہیں ہے کہ امداد امام اثر جیسا تنقید نگار آج تک اپنا اصل مقام اور صحیح قدر و منزلت سے محروم رہا۔امداد امام اثر کو از سر نو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ان کی بیش بہا خدمات کو فراموش کر کے ہم نہ صرف اپنا بلکہ اردو ادب کا ایک بڑا نقصان کرانے کے ذمے دار ٹھہرائے جائیں گے۔وہ اردو تنقید کا ایک اہم ستون اور روشن ستارہ ہیں۔

 

Dr. Salma Mohammed Rafiq

Dept. of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں