7/10/21

اردو، قومی یکجہتی اور اتحاد - مضمون نگار: قمر سلیم

 



 

دہلی اور اس کے قرب وجوارمیں بولی جانے والی کھڑی بولی سے نکلنے والی زبان جس نے خالص ہندوستانی ماحول میں فروغ پایا اور جو ہر خاص و عام کی زبان بن گئی۔یہ کوئی اور نہیںبلکہ اردو ہے جو اپنی جاذبیت اور شیرینی کی وجہ سے آج تک سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اردو اہلِ زبان یعنی بر صغیر کی زبان ہی نہیں رہ گئی بلکہ مغربی ممالک میں بھی بولی جانے لگی۔ اس کی وجہ اس زبان کی شگفتگی اور شائستگی بھی ہے۔ جس نے قومی یکجہتی اور اتحا د میں اہم رول ادا کیا ہے۔

 قومی یکجہتی کا تعلق شہری کی ذہنی ہم آہنگی، جذباتی ہم آہنگی اور حب الوطنی کے جذبے سے ہے۔جس کی بنا پر ایک ملک کے باشندے اپنے ملک کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ قومی یکجہتی کے جذبے کی بناپر ملک کے شہریوںمیں آپس میں برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ قومی یکجہتی ایک نفسیاتی اور تعلیمی عمل ہے۔اس میں لوگوں کے لیے ہم آہنگی، آپسی تعلقات، عام شہریت کا جذبہ اور ملک سے محبت کا جذبہ شامل ہے جیسا کہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کہا تھاکہ قومی یکجہتی اینٹ اورچونے، ہتھوڑے اور چھینی سے نہیں بنائی جاتی ہے۔یہ تو افراد کے دماغوں اور دلوں میں پیار یا محبت کے جذبے سے فروغ پاتی ہے۔اس کے پیدا ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تعلیم کا راستہ۔ یہ راستہ حالانکہ بہت دھیما ہے لیکن مستقل اور ٹھوس ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں مختلف فرقے مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولتے ہوئے بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہمیشہ ہی اس ملک میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائیوں نے میل ملاپ کی مثالیں قایم کی ہیں۔ خاص طور سے ہندوستان کے اکثریتی طبقے اور سب سے بڑے اقلیتی طبقے نے قومی یکجہتی کی بنیادوںکومضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہندوستان میں قومی یکجہتی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں توہندوستان میں ایک عرصے تک ہندو اور مسلمانوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ دونوں ہی حکومتوں کے دور میں ہندو مسلمان دو بھائیوں کی طرح رہے ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہندوستان کے عوام غیر ملکی حکومت کے غلام ہوگئے۔ 1857 میں انگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں  نے جد و جہد شروع کی۔ آزادی کی 90سالہ لڑائی میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائیوں نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ گاندھی جی کے ساتھ ساتھ آزادی کے لیے جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں ان میں اینی بیسینٹ، گوکھلے، تلک، لاجپت رائے، سبھاش چندر بوس، مولانا محمد علی جوہر، مولانا محمود علی، مولانا ابوالکلام آزاد، بھگت سنگھ، چندر شیکھرآزاد، اشفاق اللہ، پنڈت جواہر لال نہرو، سردار پٹیل وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ان رہنماؤں کی قربانیاں رنگ لائیں۔ بالآخر 15اگست1947 کو ہندوستان آزاد ہوگیا۔

ہندوستان میں یکجہتی کی مثالیں صرف اس دور میں ہی نہیں ملتی ہیںبلکہ اس کی پوری تاریخ ہے۔جب سے مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھاتب سے ہی آپسی میل ملاپ، بھائی چارے کا بول بالا رہا ہے۔ ہندوستان میں ترکوں کی آمد سے مسلمانوں کی حکومت کا آغاز ہوا حالانکہ اس سے پہلے عربوں کو ہندوستان کی تہذیب و تمدن سے دلچسپی رہی ہے۔ عرب اور بدھ مذہب کو ماننے والوں میں تجارتی اور ثقافتی تعلقات تھے۔ ہندوستان میں ہر دور میں یکجہتی کی مثالیں ملتی ہیں چاہے گجرات کے بلہر راجہ ہوں یا ملا بار کے ساموری راجہ، چاہے راجہ گوڑ ہوںیا الور کے راجہ مہروگ، خلیجی خاندان کی حکومت ہو، تغلق خاندان کی حکومت ہو یا مغلیہ خاندان کی حکومت ہوکوئی بھی دور ایسا نہیں ہے جس میں تعصب کی مثالیں ملتی ہوں۔ان تمام حکومتوں میں ہندو مسلمان آپس میں مل کر رہتے تھے۔ ان سبھی راجاؤں اور بادشاہوں نے ہندو مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا بھی تعصبانہ برتاؤ اختیار نہیں کیا۔ہر دور میں ہندو مسلمانوں کو اپنے اپنے مذہب کو ماننے اور اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت تھی۔ بادشاہوں کے محلوں میں ہندو اور راجاؤں کے دربارمیں مسلمان اونچے عہدوں پر فائز تھے۔قومی یکجہتی کی ایسی مثالیں دونوں کے دور میں ملتی ہیں۔

اردو ہندوستانی اور ایرانی تہذیب کا سنگم ہے۔اور اس تہذیب کی آبیاری مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں نے مل کر کی ہے۔اردو نے ہمیشہ محبت کا پیغام دیا ہے بلکہ اس کی شیرینی نے نفرت کو محبت کے جذبے میں تبدیل کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندو مسلمان ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔یوں تو اردو ایرانیوں اور ہندوستانیوں کی تہذیب کے سنگم کا نتیجہ ہے لیکن آریوں کے وقت سے ہی ہندوستان مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ ایرانی، یونانی، تاتاری، ترکی، عربی وغیرہ اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ہندوستان آئے اور ہندوستان کی تہذیب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ ہندوستانی تہذیب ایک ایسی تہذیب ہے جس نے اپنے وسیع دامن کی وجہ سے ہر تہذیب کا خیر مقدم کیا اور مختلف تہذیبوں کو اپنے اندر سمو لیا اور اس طرح ایک مخلوط تہذیب بن کر ابھری۔ باہمی رواداری، ایثارو قربانی، محبت و اخوت اس مخلوط تہذیب کے اوصاف تھے۔اگر دیکھا جائے تو ہندوستانی تہذیب میں مختلف رنگوں کی آمیزش ہے جو انفرادیت سے ہٹ کراجتماعیت کی نمائندگی کرتی ہے۔اور اگر کہا جائے کہ اردو نے گنگا جمنی تہذیب کے تقاضوں کو پورا کیا تو غلط نہیں ہوگا۔

ہم اردو زبان کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اردو نے ایک جذبے کے تحت فروغ پایا اور وہ جذبہ تھا یکجہتی اور اتحاد کا۔اتحاد کے حصول کے لیے اردو ہر خاص و عام کی زبان بن گئی۔اس نے مختلف تہذیبوں، مختلف قوموں، مختلف مذاہب، مختلف عقائد کو ایک مالا میں پرو دیا۔ جبھی تو علامہ اقبال کہتے ہیں         ؎

چشتی ؒ نے  جس زمین  میں  پیغامِ حق  سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تاتاریوں  نے  جس کو  ا پنا  وطن  بنایا

جس نے حجازیوں سے  دشت عرب چھڑایا

میرا  وطن  وہی  ہے  میرا  وطن  وہی ہے

اردو زبان نے نثر اور شاعری دونوں سے ہی ہر خاص و عام کا دل جیتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری نے اپنے اور پرائے ہر کسی کا دل جیت لیا ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو نہ جاننے والے کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ وہ اس کا دلدادہ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اتنی چاشنی شاید ہی کسی زبان میں ہو۔ مفہوم سے ناواقف ہونے کے باوجود کوئی بھی شخص جب اردو اشعار سنتا ہے تو داد تحسین دیے بنا رہ نہیں پاتا۔گھروں، سڑکوں  سے لے کرپارلیمنٹ تک اردو اشعار کی گونج سنائی دیتی ہے۔اردو جب بولتی ہے تو دل کی گہرائیوں سے بولتی ہے اور اردو اشعار جب نکلتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ کہنے والا ہندو ہے، مسلمان ہے یا سکھ، عیسائی۔بقول آتش          ؎

بت خانہ کھود ڈالیے مسجد کو ڈھائیے

دل کو نہ توڑیے کہ خدا کا مقام ہے

یہی نہیں اردو شعرا نے بہت خوبصورتی کے ساتھ دو تہذیبوں کی عکاسی کی ہے۔مندر، مسجد، گرو دوارہ، گرجا، شوالہ کلیسا کا اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک مخلوط تہذیب جھلکتی ہے۔بقول غالب   ؎

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ میرے پیچھے ہے  کلیسا میرے آگے

میر کا بھی اپنا ہی انداز ہے          ؎

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا  دیر  میں  بیٹھا کب کا  ترک  اسلام کیا

اردو زبان کی تعمیر اور فروغ میں ہر قوم نے حصہ لیا ہے جہاں ہندوؤں اور سکھوں میں پریم چند، دیا شنکر نسیم، ہر گوپال تفتہ، فراق گورکھپوری، رتن ناتھ سرشار، برج نارائن چکبست، کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، کنور مہند ر سنگھ بیدی، آنند نارائن ملا، اوپیندر ناتھ اشک، تلوک چندمحروم، گیان چند جین، سریندر پرکاش، جگن ناتھ آزاد، گوپی چند نارنگ، گلزار زتشی وغیرہ شامل ہیں وہیں عیسائیوں نے بھی اس کی تعمیر اور فروغ میں شانے سے شانہ ملایا۔ان میں ہم ڈاکٹر گلکرسٹ کی فراخ دلی کو نہیں بھلا سکتے۔

اردو کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ زبان خالص ہندوستانی زبان ہے جو یہیں پیدا ہوئی، یہیں پنپی اور یہیں فروغ پارہی ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ اردو اتحا د پیدا کرنے کے لیے نفرت کو محبت کا جامہ پہنا رہی ہے۔ لوگوں گو آپسی بھائی چارے اور محبت واخوت کا پیغام دے رہی ہے۔یہی اردو ہے جس نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں جوش و خروش پیدا کیا، جس نے مذہب وملت میں فرق کیے بنا ہر ایک کو وطن کی آزادی کے لیے اکسایا اورآزادی کے دیوانوں نے اس کی آواز پر لبیک کہا۔ان کے دل قربانی کے جذبے سے سرشار تھے اور اتحاد ان کی طاقت تھی۔بقول حنیف کیفی          ؎

مرا گلشن وہ گلشن ہے

جہاں صدہا طرح کے پھول کھلتے ہیں

جدا ہر ایک خوشبو

جدا ہر ایک کی صورت

الگ ہے رنگ ہر اک کا

الگ پہچان ہے سب کی

مگر گلشن کی نسبت سے...

سبھی اک نام سے پہچانے جاتے ہیں

ہزاروں سال سے یہ مشترک پہچان قائم ہے

ہے صدرشک ِ زمانہ میرے گلشن کی یہ صد رنگی میں یک رنگی

تہذیبی ہم آہنگی قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت سی تہذیبیں ایک ساتھ فروغ پا سکتی ہیں۔ انھیں مساوی طور پر بڑھاوا دینے سے ان کے آپسی تعلقات کی بنا پر گنگا جمنی تہذیب فروغ پا سکے گی۔ اس تہذیبی ہم آہنگی سے قومی یکجہتی کو بڑھاوا ملے گا۔

حواشی:  

1       خاکِ ہند: چکبست برج نارائں،ریختہ

2       بانگ درا: علامہ اقبال، ریختہ

3       دی کانسیپٹ آف نیشنل اِنٹیگریشن: رمن دیپ کور، 2جون 2013،  میپس آف انڈیاڈاٹ کام

4       دی کانسیپٹ آف نیشنل اِنٹیگریشن:نصیر احمد لون، اِنٹرنیشنل جرنل آف ریسرچ، جلد 5شمارہ1، جنوری 2018

5       نیشنل اِنٹیگریشن اینڈ اِٹس اِمپورٹینس اِن ماڈرن ورلڈ: جین ٹیلر، 25جولائی2017، افورڈیبل۔پیپرس ڈاٹ کام

6       سحر سے پہلے:حنیف کیفی،2004

7       ڈیجیٹل اردو غزل ریڈر:کولمبیا ڈاٹ اِڈو


 

Dr. Mohd Qamar Saleem

Flat No: 3, Atma Shanti Co-Operative

Housing Society, Plot No: 33, Sector-03

Washi, Navi Mumbai - 400703 (MS)

Mob.: 09322645061

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں