8/10/21

اردو میں افسانچہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ - مضمون نگار: فردوس احمد بھٹ

 



 

اردو فکشن کی ایک نوزائیدہ اور جدید صنفـــــــ ’ افسانچہ ‘ ہے۔ افسانچہ، کہانی کی مختصرترین اورجدیدترین صورت ہے۔ اسے ’ منی افسانہ ‘ اور ’منی کہانی‘ بھی کہتے ہیں۔ افسانچہ دراصل افسانے کی ہیئت میں تبدیلی کا تجربہ ہے۔ جس طرح ناول سے ناولچہ نکلا اسی طرح افسانے کے  بطن سے افسانچے نے جنم لیا۔ آج تک اس کی کوئی جامع تعریف متعین نہیں ہوسکی ہے۔ اردو کے ممتاز افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس نے افسانچے کی تعریف اور فن کے لیے چند عناصر اور شرائط کا ہونا ضروری قرار دیا۔ افسانچہ کے اجزائے ترکیبی  کے بارے میںاپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ــ’’منی افسانہ... میں تخلیقیت پہلی شرط ہونی چاہیے۔ دوسرے، منی افسانہ ایک تکمیلیت کا احساس دے۔

منی افسانے کا ، اختتام  پر کوئی  تاثر  ابھر کر سامنے  آئے... منی افسانہ نگار  کواس بات کا خیال  رکھنا چاہیے کہ موضوع طاقتور ہو،  پیش کش اور اختتام موثر ہو، اور اس چھوٹی صنف میں کہیں نہ کہیں نقطۂ عروج بھی ہو۔ منی افسانے میں کسی ماجرا کا ہونا بے حد ضروری ہے۔‘‘

( اردو میں منی افسانہ،آمنہ آفرین،ص8)

ڈاکٹر عظیم راہی نے اردو میں پہلی بار اس صنف پر تحقیقی و تنقیدی کام انجام دیا۔انھوں نے پہلی بارافسانچہ کو اردو میں موضوع بحث بنایا اور اس کے تاریخی اور فنی  پہلوؤں کو اجاگر کیا۔اُن کے مطابق کم لفظوں او رکم سطروں میں کہانی بیان کرنا افسانچہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’افسانچہ ادب کی وہ نثری صنف ہے جس میں کم سے کم لفظوں میں کم سے کم سطروں میں ایک طویل کہانی مکمل کرلیں۔ افسانچہ زندگی کے کسی چھوٹے سے لمحے کی تصویر دکھا کرایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع کر دینے کا نام ہے۔‘‘ ( اردو میں افسانچہ کی روایت،عظیم راہی،ص59)

اس صنف کو اکثر لکھنے والوں نے مختلف ناموں سے لکھا ہے۔ مثلاً مختصر افسانہ‘ منی کہانی‘ منی افسانہ‘ مختصر ترین افسانہ اور افسانچہ وغیرہ۔لیکن اس نئی نثری صنف نے ـــ’افسانچہ‘کے نام سے اپنی صنفی شناخت اردو ادب میںتسلیم کرالی ہے۔ ممتاز فکشن نگار جوگندر پال کی کوششوں کے بعد اس صنف کو ’افسانچہ‘ جیسا دلکش ،خوبصورت اور اردو مزاج کے مطابق یہ اصطلاح عطا ہوئی۔ انھوں نے کہا  جب اردو زبان میں لفظ افسانچہ اس نئی صنف کے لیے موجود ہے تو کسی غیر زبان کا لفظ(منی،mini) کیوں استعمال کریں۔ اسی نام سے اب افسانچہ نگاراپنے افسانچے تحریر کرتے ہیں۔ اردو ادب میں یہ ایک نئے تجربے کے طور پر وجود میں آنے والی صنف ہے۔ اس صنف کا پچھلی کچھ دہائیوں سے اردو ادب میں تجربہ ہورہا ہے۔  1947 کی جنگِ آزادی کے دوران سعادت حسن منٹو نے پہلی بار منی افسانے کا تجربہ کیا ہے۔  بعد میں افسانہ نگاروں نے اس صنف کی طرف  توجہ کی اور اس نئی صنف کو وقار اور اعتبار بخشا۔ اکثر قلم کاروں کی رائے یہی ہے کہ یہ صنف مختصر افسانے کے بطن سے نکلی ہوئی صنف ہے یا افسانے کے ہئیت کی تبدیلی میں وجود میںآنے والی صنف ہے۔کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مشینی یا صنعتی دور کی وجہ سے وجود میں آئی صنف ہے۔ کیونکہ دورِ حاضر کے انسان کے پاس اب اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ طویل کہانیوں کو پڑھے۔

اردو ادب میں دوسری اصناف کے مقابلے میں افسانے کی عمر بہت کم ہے۔ لیکن تمام اصنافِ ادب میں افسانہ ہی واحد صنف ہے جس نے ہر اعتبار سے ترقی کی ہے اور شاعری کے مد مقابل کھڑے ہونے میں کامیاب ہوا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا دور اردو افسانے کا سنہرا دور بھی کہلایا اور پھر جب جدید افسانے کا دور شروع ہوا تو علامتی‘ تجریدی اور تمثیلی افسانے لکھے گئے جو خاص طور پر تکنیک اور ہئیت کے اعتبار سے بے حد کامیاب رہے جبکہ غزل ہئیت کے تجربوں کی زد میں آکر آزاد غزل کی شکل میں بُری طرح نا کام رہی۔ لیکن افسانہ طویل مختصر افسانے سے مختصر افسانہ بن کر نہ صرف کامیاب رہا بلکہ اب مسلسل پچھلی چند دہائیوں سے مختصر ترین افسانہ یعنی منی افسانہ یا افسانچہ کے نام سے ہئیت کی تبدیلی کا بین ثبوت بن کر‘ ایک صنف کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ افسانے کی ہیئت میں تبدیلی کو افسانچے کا تجربہ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر عصمت جاوید لکھتے ہیں:

’’جہاں تک فکشن کا تعلق ہے کہانی کو لیجیے تو وہ مختلف ہئیتوں میں ہمارے سامنے آتی رہی ہے جہاں تک مختصر افسانے کا تعلق ہے تو وہ لمبائی میں کبھی طویل مختصر افسانہ بن کر ناولٹ میں ضم ہوگیا تو کبھی طویل مختصر افسانہ بنا ناولٹ سے الگ اپنی شناخت قائم رکھی۔ کم ہونے کی طرف مائل ہوا تو افسانچہ بنا۔‘‘ (ایضاً، ص 67)

کہانی نے گزرتے ہوئے ایام کے ساتھ اپنا روپ بھی تبدیل کیا ہے۔ ایک زمانے میںداستان بن کر محظوظ کیا اور کبھی ناول اور افسانے کے ذریعے زندگی کی حقیقت کو سمجھایا۔اب ان طویل کہانیوں کا افسانچہ کے خول میں سمٹ جانا وقت کا تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں نثار اعظمی رقم طراز ہے:

’’جس طرح داستانوں کے بعد ناول ‘ناول کے بعد مختصر افسانہ وقت کی ضرورت ثابت ہوئے اسی طرح منی افسانہ بھی افسانہ کے بعد موجودہ دور میں زندگی کی ایک ضرورت اور حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘               

(رسالہ ادیب،جلد،1،شمارہ10)

افسانچہ لکھنا ایک مشکل فن ہے کوئی کہتا ہے کہ یہ چاول کے دانے پر قل ھوا للہ لکھنے کا فن ہے  اور بعض کہتے ہیں کہ یہ تلوار کی دھار پر ننگے پاؤں چلنے کے مترادف ہے۔ افسانچہ نگار کی ذراسی لغزش اسے خبر یا لطیفے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ عظیم راہی بھی افسانچے کی صنف کو مشکل فن مانتے ہیں۔ ان کے مطابق افسانچے میں مزاح کو رد کرتے ہوئے طنز برقرار رکھنا پڑتا ہے ورنہ افسانچہ لطیفہ بن جاتا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:

’’افسانچہ ایک نہایت ہی مشکل صنف ادب ہے۔ جس میں مزاح کو رد کرتے ہوئے طنز کو برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ اگر اس میں مزاح شامل ہوجائے تو وہ لطیفہ بن جاتا ہے۔‘‘ (روز نامہ اردو ٹائمز، ممبئی22،  نومبر2011، ص8-10)  

افسانچے کا المیہ یہ رہا ہے کہ چند بڑے افسانہ نگاروں مثلاً سعادت حسن منٹو، رتن سنگھ، جوگیند پال وغیرہ کو چھوڑ کر کسی نے بھی اس نئی صنف میں طبع آزمائی نہیں کی۔ دوسری طرف اردو کے معتبر نقادوں نے افسانچہ کو بطورِ صنف ماننے سے انکار کیا۔ اسے لطیفہ، چٹکلہ اور حکایت کے اصناف کے قریب ٹھہرایاجن میں محمد حسن عسکری، ممتاز حسین، خلیل الرحمن اعظمی، شمس ا لرحمٰن فاروقی وغیرہ شامل ہیں، اور سچ بھی ہے کہ ایسے بھی افسانچے لکھے گئے جن کی سرحدلطیفہ اور حکایت کی اصناف سے جاملی۔ کیونکہ اس کے فن کو آسان سمجھ کر لکھنا شروع کیا۔جب کہ افسانچہ کا فن ذہن و دل کو جھنجوڑتا ہے۔اپنے چھوٹے چھوٹے اور آدھے آدھورے جملوں  سے قاری کو غور وفکر کا عادی  بناتا ہے۔ہنسنا ہنسانا اس کا کام نہیں بلکہ فکر کو مہمیز لگانا اس کا کام ہے۔اور قاری کی سوئی ہوئی فکر کو جگانا اس کے فن کی خوبی ہے۔ جس سے اس صنف کو اردو میں اپنی صنفی شناخت تسلیم کروانے میں بہت وقت لگا۔

اردو میں افسانچے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو برصغیر کے مشہورو معروف اور بیباک افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اردو میں اس صنف کے بنیادگزار مانے جاتے ہیں۔ اردو میں افسانچوں کے مجموعے جتنے بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ ان کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ اردو میں افسانچے کا آغاز منٹو نے ہی کیا ہے۔ منٹو نے سب سے پہلے’سیاہ حاشیے‘ کے عنواں سے مختصر ترین افسانے لکھ کر اس صنف کی بنیاد ڈالی۔’سیاہ حاشیے‘ منٹو کے افسانچوں کا مجموعہ ہے۔یہ مجموعہ 1948 میں شائع ہوا تھا۔ ’سیاہ حاشیے‘ کا پہلا افسانچہ ’ساعتِ شیرین‘ کے نام سے ملتا ہے۔

اس ضمن میں معروف ناقد اور ادیب و شاعر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی رائے بھی اہم ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:

’’افسانچوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ صنف خلیل جبران سے شروع ہوتی ہے۔ اردو میں باضابطہ طورپر اس کی روایت منٹو سے شروع ہوتی ہے۔ منٹو کے بعد جوگیندر پال نے اس صنف کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔‘‘ (قوس ِقزح،مناظر عاشق ہرگانوی،ص4)

سید محمد عقیل بھی منٹو کو افسانچے کا موجد مانتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’بیسویں صدی میں نئی چھوٹی کہانیاں مجموعی طورپر سب سے پہلے منٹو نے شروع کیں جو جدید زندگی خصوصاً تقسیم ہند کے فسادات سے متعلق تھیں۔‘‘

( اردو میں افسانچہ کی روایت،عظیم راہی،ص37)

 جدید فکشن نقاد پروفیسر مجید مضمر بھی منٹو کی مختصر کہانیوں کے مجموعے ’سیاہ حاشیے‘ کے تعلق سے کہتے کہ یہ اپنی قسم کا پہلا اور اہم مجموعہ ہے۔وہ رقم طراز ہیں:

’’سعادت حسن منٹو کے مختصر ترین افسانوں کا مجموعہ ’سیاہ حاشیے‘ اپنی نوعیت کا پہلا اور اہم مجموعہ ہے۔ اس کے تمام مشمولات فسادات کے موضوع سے متعلق ہیں۔ محمدحسن عسکری نے ان افسانچوں کو ’’انسانی دستاویز‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔‘‘  (مجید مضمر،اردو کا علامتی افسانہ،ص70)

اس طرح ناقدین کی رائے اور صحت مند حوالوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اردو میں افسانچے کا موجد منٹو ہی قرار پاتے ہیں۔ ’سیاہ حاشیے‘ کا دیباچہ ’حاشیہ آرائی‘ کے عنوان سے محمد حسن عسکری نے تحریر کیا تھا۔ ’سیاہ حاشیے‘ میں جملہ 32 افسانچے شامل ہیں اور ہر افسانچے سے تقسیمِ ہند و پاک کے بعد جاری ہولناک فسادات کے منظر آنکھوں کے سامنے یوں گھومنے لگتے ہیں کہ اس بدترین تاریخ کی ہر تصویر زندہ ہوجاتی ہے۔ ’سیاہ حاشیے‘ میں سوری، رعایت، کرامات، کسرنفس، اُلہنا، جوتا، اشتراکیت، مناسب کاروائی، پیش بندی، صفائی پسند، ہمیشہ کی چھٹی وغیرہ قابلِ ذکر افسانچے ہیں۔

اردو افسانچوں کا پہلا انتخاب ’قوسِ قزح‘ تھا۔ یہ چار زبانوں اردو، ہندی، بنگلہ اور انگریزی میں ایک ساتھ شائع ہوا ہے۔ ’قوسِ قزح‘ کو مناظر عاشق ہرگانوی اور سوشوبھن سین گپتا ن نے مرتب کیا اور 1992 میں شائع کیا۔ ’قوسِ قزح‘ میں 20 افسانہ نگاروں کے 20افسانچے شامل ہیں مثلاً منٹو ( صفائی پسند)،خواجہ احمد عباس (جوگی)، جوگندر پال(سانپ)، رتن سنگھ(بِلا عنوان)، رام لال (دوزخ سے واپسی)، الیاس احمد گدی (گھاؤ)، شین مظفر پوری (ایک پھوڈا اور)، عطیہ پروین (ماتم)، فاروق ارگلی (ثبوت)، بشیشر پردیپ(ڈرپوک)، افتخار ایلی (خیرخواہ)، مناظر عاشق ہرگانوی ( آوارہ)، رضوان احمد ( ایک ڈال کے پنچھی)، خسرو متین( بریک)،انجم عثمانی( پانچویں سمت)،سید احمد قادری (آگ)، بانو سرتاج (بڑے لوگ)، نینا جوگن( سچائی)، نوشاد عالم آزاد (’’ 500*30=1500‘‘)، سوشوبھن سین گپتا (بھائی) اس افسانچے کے انتخاب میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی افسانچہ دوستی دیکھیے ابھی حال ہی میں 2015میں اور اس کے ایک سال بعد مرد اور خواتین قلم کاروں کے بالترتیب عالمی افسانچوں کے انتخاب بعنوان ’پرت در پرت‘ اور ’خواتین کے افسانچے (2016)‘   میں منظر عام پرلائے۔ 

افسانچے کی مقبولیت اور پذیرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ منی افسانہ کے مجموعوں کے ساتھ ساتھ اس صنف پر کئی خاص نمبر ملک گیر سطح پر شائع ہوئے۔ ان میں سب سے پہلے شائع ہونے والا ماہنامہ ’روبی‘ دہلی کا ’منی کہانی نمبر‘ (اپریل 1978) بڑی اہمیت کا حامل ہے جو انعامی مقابلے کے ساتھ شائع کیا گیا تھا جو اس رحجان کو بڑھانے میں کامیاب رہا۔ اس کے بعد اس قسم کے خصوصی نمبر نکلنے کا چلن عام ہوا۔ اخبارات کے ساتھ ساتھ رسائل و جرائد بھی اسے خوب چھاپنے لگے۔ رسالہ ’شاعر‘ نے کئی خاص نمبر اس صنف پر شائع کیے۔ کچھ سال قبل (جون2012) میں اس رسالے کا افسانچہ نمبر آیا ہے۔

منٹو کے بعد صنف افسانچہ میں جوگیندر پال کا نام ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بقول نظام صدیقی ’’جوگندر پال نے اعلیٰ سنجیدگی سے اس مختصر صنف کو اپنے بہترین تخلیقی لمحات ایک خاص تخلیقی رویہّ اور برتاؤ کے ساتھ نذر کیے ہیں۔ افسانچہ کو باقاعدہ صنف کی شکل میں پیش کیا اور اس صنف کو ’افسانچہ‘ کا خوبصورت نام بھی عطا کیا۔

جوگندر پال نے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے باعث اسے خوب بارآور کیا اور بڑی جدت اور ندرت کے ساتھ اس صنف کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا۔ ساتھ ہی نئی نسل کو اس سمت متوجہ کرکے ان کی مناسب حوصلہ افزائی بھی کی جس کے نتیجے میں آج کئی نئے لکھنے والوں نے اس صنف میں اپنا نام اور پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ ہر چند انھوں نے منٹو کے مقابلے میں اس صنف کو شعوری طورپر فروغ دیا، تاہم افسانچے کی ایجاد کا سہرا منٹو ہی کے سر جانا چاہیے۔کیونکہ زمانی اعتبار سے اس طرح کی صنف پہلے ہی وجود میں آچکی تھی بعد ازاں جوگندر پال نے اسے رواج دیا تھا۔ جوگیندر پال کے چار افسانچوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔

جوگندر پال کے ابتدائی افسانچے ان کے افسانوی مجموعے ’میں کیوں سوچوں‘ میں ملتے ہیں جو 1962 میں شائع ہوا تھا اس کے بعد باقاعدہ ان کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’سلوٹیں‘ 1975 میں منظر عام پر آیا جس میں 196 افسانچے شامل ہیں اسی سبب اکثر ناقدین جوگندر پال کو افسانچے کا خالق اور موجد قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد ’کتھا نگر‘ (1986) اور ’پرندے‘ (2000) شائع ہوچکے ہیں۔ جوگندرپال کے افسانچوں میں اسلوب و تکنیک کی جدّت کے ساتھ موضوعات کا زبردست تنوع ملتا ہے۔ خاص طور سے طبقاتی کشمکش، غریبی، ناداری، مشینی زندگی کے ہنگامے، نئی ٹکنالوجی کی ترقی سے پیدا ہوئے مسائل پر بڑے خوبصورت افسانچے ملتے ہیں۔

جوگندرپال کے بعد ان کے ہم عصروں میں اگر کسی نے سنجیدگی سے اس صنف کو برتا ہے تو وہ رتن سنگھ ہیں جنھوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی خوب لکھے ہیں۔ ان کے افسانچوں کا مجموعہ ’مانک موتی‘ 1990 میں شائع ہوا جس میں 101 افسانچے شامل ہیں۔ رتن سنگھ کے افسانچوں میں کہانی پن کے ساتھ زندگی کے کئی رنگ ملتے ہیں جو اپنے اطراف کے ماحول سے عبارت ہیں۔

کرشن چندر، بیدی، خواجہ احمد عباس، الیاس احمد گدی، رام لعل، عطیہ پروین اور دیگر معتبر افسانہ نگاروں نے کبھی کبھار افسانچے ضرور لکھے ہیں لیکن مستقل طورپر اس صنف کو اپنی صلاحیتوں سے بارآورنہیں کیا۔

عظیم راہی افسانچہ نگاری کی تاریخ میں ایک اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس صنف پر تحقیقی کام بھی کیا ہے۔ ایم۔مبین، عظیم راہی کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’عظیم راہی جس Commitmentکے ساتھ منی افسانے لکھ رہے ہیں جب بھی اردو میں منی افسانوں کی تاریخ لکھی جائے گی۔ ان کے Contribution خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔‘‘

( بحوالہ اردو میں منی افسانہ،آمنہ آفرین، ص33)

عظیم راہی نے اس صنف کی طرف خاص توجہ کی ہے۔ آج بھی اس پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی تخلیقی زندگی کے آغاز ہی سے منی افسانے لکھتے رہے ہیں۔

عظیم راہی کا پہلا منی افسانوں کا مجموعہ ’پھول کے آنسو‘ کے نام سے اکتوبر 1987 میں شائع ہوا تھا۔ ہر افسانچہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرتا ہے۔ اپنے اطراف کے حالات کی عکاسی ملتی ہے۔ ٹوٹتی قدروں اور تہدیب کی پائمالی کا نوحہ اور مشینی زندگی کے نتیجے میں پیداہونے والی بے حسی ان کے منی افسانوں کے خاص موضوعات ہیں۔ ان کے افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ’درد کے درمیان‘ منظر عام پر آچکا ہے جو 2002 میں شائع ہوا۔

1980 کے بعد نئی نسل کی ایک بڑی کھیپ نے اس صنف کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا جس کے نتیجے میں اس صنف کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1980 سے 1995 کے درمیانی عرصے میں افسانچے کی صنف کو خوب فروغ حاصل ہوا۔

اس پورے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معروف و نامور افسانہ نگاروں نے افسانچے بہت کم لکھے ہیں اور زیادہ تر نئی نسل کے لکھنے والوں نے اسے بحیثیت صنف اپنا یا اور اس پر اپنا پورا زور آزمایا ہے اور اس مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں افسانچے کی ابتدا منٹو نے کی اور بعد میں جوگندر پال نے اسے رواج دیا۔ اس کے بعدرتن سنگھ، محمد بشیرمالیر کوٹلوی، عظیم راہی، ڈاکٹر اشفاق احمد، رحیم انور،عارف خورشید، قاضی مشتاق احمد، کوثر صدیقی،ہرچرن چاؤلا،خالد سہیل، نواب رونق جمال،  عبدالعزیز خان، نذیر فتح پوری، ڈاکٹر ایم۔اے۔ حق، ساحر کلیم، دیپک بدکی،مناظر عاشق ہرگانوی، ارشد صدیقی، علیم صبانویدی وغیرہ کے نام اردو افسانچہ کے ارتقا میں نظرانداز نہیں کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ ان افسانہ نگاروں نے نہ صرف اس صنف کو وقار اور اعتبار بخشا بلکہ اسے فروغ دینے میں ایک اہم رول انجام دیا ہے۔ ان افسانچہ نگاروں کے علاوہ اس صنف کی روایت کو آگے بڑھانے میں ایم۔ مبین، آئی۔ایم ساجد،  محمدطارق، م۔ناگ، نور الحسنین، طفیل سیماب، ساحل احمد، اقبال انصاری، سالک جمیل وغیرہ کے نام بھی اہمیت کے حامل ہیں۔


 

Firdaus Ahmad Bhatt

Research Scholar, Dept of Urdu

University of Kashmir- 190006 (J&K)

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں