8/10/21

پروقار افسانہ نگار: آنجہانی رتن سنگھ - مضمون نگار: نارائن پاٹیدار

 



آزادی کے بعد جن معتبرافسانہ نگاروں نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا ہے اور دیہی زندگی کی تصویر کشی کی ہے ان میں خواجہ احمد عباس، قاضی عبد الستار، بلونت سنگھ، سریندر پر کاش، جوگندر پال، غیاث احمد گدی، اقبال متین وغیرہ کے ساتھ ایک اہم نام رتن سنگھ کا بھی ہے۔ پریم چند کی طرح ان کے افسانوں میں بھی حقیقت نگاری بام ِ عروج پر ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں نت نئے موضوعات کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر محمد حسن اپنی تصنیف ’جدید اردو ادب‘میں لکھتے ہیں:

’’رتن سنگھ نے جنس ورومان کے پٹے پٹائے موضوعات سے دامن بچا کر انوکھے اور تازہ موضوعات کولیا اور براہ راست اور سادہ اسلوب میں پوری نزاکت اور حسن کا ری کے ساتھ ان لطیف تاثرات کو بیان کیا۔‘‘

(جدید اردو ادب:1947 کے بعد اردو کا تنقیدی تجزیہ از محمد حسن، ایڈیشن 2011مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی، ص نمبر35)

رتن سنگھ کو دیہی زندگی سے بڑی انسیت تھی ’آپ بیتـ‘ میں انھوں نے اپنے گاؤں کو ایک مکمل کائنات قرار دیا ہے تقسیم وطن کے بعد فسادات کی وجہ سے انھیں اپنے گاؤں کو ترک کرنا پڑا مگر گاؤں کے ماحول، رسم و رواج، وہاں کے مسائل، وہاں کے لہلہاتے کھیت اور خوبصورت مناظر ان کے رگ و پے میں رچ  بس گئے تھے چنانچہ ترک وطن کا قلق اکثر ستاتا رہتا تھا۔ ’ایک خط -اپنے بچپن کے نام ‘ میں انھوں نے لکھا ہے :

ـ’’جب جب یہ نغمے یا د آتے ہیں -تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے اور پھر لگتا ہے کہ ملک کی اس تقسیم نے مجھ سے صرف میرا گاؤں ہی نہیں چھینا یا محض وہ دھرتی ہی نہیں چھینی،جہاں میں پیداہوا تھا بلکہ مجھ سے میری ہیر چھین لی گئی،موہنی چھین لی گئی یوں کہوں کہ زندگی سے حسن چھین لیا گیا ہے۔مٹھا س چھین لی گئی ہے۔‘‘

(ایک خط: اپنے بچپن کے نام، تصنیف، دربدری، رتن سنگھ،نصرت پبلشرلکھنؤ1986،ص نمبر35)

رتن سنگھ 15نومبر  1927 (سرٹیفکیٹ کے مطابق) کو تحصیل ناروال ضلع سیالکوٹ (پاکستان )کے ایک چھوٹے سے گاؤں داؤد میں پیدا ہو ئے۔ان کے والد کا نام سردار پر تاپ سنگھ اور والدہ کا نام کرتار کورتھا۔انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ڈیرہ بابانانک (پاکستان )میں حاصل کی اوروہیں سے ہائی اسکول کا امتحان  پا س کیا۔ ملک کی تقسیم کے بعد ہجرت کرکے ہندستان  (لکھنؤ) آئے اور ریلوے میں ملازم ہوگئے مگر تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے مختلف مصائب سے دوچار ہو ئے۔ اپنی ’آپ بیتی‘ میں انھوں نے لکھا ہے :

’’ڈیڑھ سو تنخواہ اور سر پر دادی،ماں،باپ،چھوٹے بھائی بہنوں اور بیوی بچوں کو ملا کر تقریباًایک درجن افراد کی ذمہ داری اور اس پر باپ کو پاگل پن کی بیماری۔باقی تو خیر سب کچھ جھیلا لیکن ایک بار صاحب اس غریبی نے یہاں تک مجبور کر دیا کہ پاگل باپ کو پاگل خانہ میں داخل کرانے کے لیے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنوانی پڑ گئی۔ اس ظالم لمحے کی جب بھی یاد آتی ہے غم کی شدت سے خود پاگل ہو ہو جاتا ہوں۔‘‘

(آپ بیتی: تصنیف، دربدری، رتن سنگھ، نصرت پبلشر لکھنؤ1986، ص99)

ایسی زبوں حالی میں وہ کبھی زندگی سے دل برداشتہ نہیں ہوئے اور آگے بڑھتے ہوئے 1960میں لکھنؤ یونیورسٹی  سے بی .اے کا امتحان پاس کیا۔

قیام لکھنؤ کے دوران رتن سنگھ کو آل احمد سرور، احتشام حسین، علی عباس حسینی، ڈاکٹر محمد حسن، رام لعل، ڈاکٹر قمر رئیس، قاضی عبد الستار، شارب ردولوی، باقرمہدی وغیرہ جیسے بڑے ادیبوں کی صحبت نصیب ہوئی جن کی حوصلہ افزائی سے ان کاادبی سفر پروان چڑھا۔ان کے احباب کی بھی ایک طویل فہرست ہے خصوصاًاقبال مجید، عابد سہیل،احمد جمال پاشااور حسن کمال وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات نے اچھے برے وقت میں ان کا ساتھ دیا اور ہر ممکن ان کی مدد کی۔

1962 میں رتن سنگھ کو آ ل انڈیا ریڈیو (بھوپال) میں ملازمت کا موقع ملا اور وہ اپنی سولہ سال کی ریلوے کی نوکری کو خیر باد کر کے لکھنؤ سے بھوپال آگئے۔یہاں تقریباًدو سال ہی ہوئے ہوں گے کہ تبادلوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ انھیں لکھنؤاور بھوپال کے علاوہ حیدر آباد،شری نگر،وشاکھاپٹنم،گوالیار وغیرہ جیسے مختلف بڑے شہروں کی ادبی سرگرمیوں سے استفادہ کرنے کاموقع ملاجس سے ان کی ادبی صلاحیتیں صیقل ہوئیں اور انھوں نے مسلسل اپنا ادبی سفر جا ری رکھا  جس کا اعتراف کیا گیا اور انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

رتن سنگھ نے اردو افسانہ کی دنیا میں اپنا پہلا قدم 1951 میں رکھا۔ہوایوں کہ ایک دن ان کی ملاقات رام لعل صاحب سے ہوگئی اور پھر انھیں کے توسط سے انھوں نے لکھنؤ کے ایک ادبی جلسے میں شرکت کی جس کا اثر یہ ہوا کہ اگلے ہی دن انھوں نے ایک کہانی لکھی اور رام لعل صاحب کو سنائی یہ ان کی پہلی کہانی تھی جس کا عنوان تھا ــ’ممی تم ایک دیوار ہو‘۔یہ کہانی راہی (دہلی )میں چھپی۔

اب تک رتن سنگھ کے مختلف افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔پہلی آواز، پنجرے کا آدمی، کاٹھ کا گھوڑا، سفر در سفر اور پناہ گاہ وغیرہ ان کے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔مانک موتی ان کے مختصرترین افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان کے ساتھ ہی انھوں نے پنجابی افسانوں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے جو اردو افسانہ کے فنی لوازمات سے ان کی گہری واقفیت اوربے پناہ دلچسپی کا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر صادق ان کے افسانوں کی فنی عظمت کا اعتراف کرتے ہو ئے تحریر فرماتے ہیں :

ــ’’... رتن سنگھ کا فن زندگی کے چھوٹے بڑے تجربات سے مختص ہے وہ عصری صداقتوں کو ان کے ابدی روپ میں دیکھنے کے بجائے لمحہ مو جود میں دیکھنے کی سعی کرتے ہیں۔کرداروں کا نفسیاتی تجزبہ ان کے فن میں ژولیدگی پیدا نہیں کرتا بلکہ افسانے کی دلچسپی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔‘‘

(ادب کے سروکار،ڈاکٹر صادق، ثمر پریس، نئی دہلی، اشاعت اول 1996،ص نمبر91)

رتن سنگھ نے اپنے افسانوں کے ذریعہ خصوصاًاپنے عہد کے حالات و حوادث اور مسائل کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے ا ن کے افسانوںمیں دیہی اور شہری دونوں معاشروں کی جیتی جاگتی تصاویر موجود ہیں۔دیہی زندگی سے وابستہ ان کے افسانے خصوصاًدیہاتیوں کی ان بنیادی ضرورتوں اور مسائل کی جانب توجہ دلاتے ہیں جو قبل آزادی سے اب تک کسی نہ کسی شکل میں مو جودہیں۔

 رتن سنگھ کے افسانوں میں آزادی سے قبل کے دیہی معاشرے کی مختلف تصاویر موجود ہیں چونکہ ہجرت سے پہلے ان کا پورا بچپن گائوں میں گزرا تھا انھوں نے زمینداروں وچودھریوں کے ذریعہ کیے جانے والے استحصال اور ناانصافیوں کو بہت نزدیک سے دیکھا تھا۔ افسانہ ’اکائی ‘اور’ لہو لہو راستے ‘میں اس سیاق سے متعلق واقعات موجود ہیں۔افسانہ ’اکائی ‘میں گائوں کے ایک ایسے غریب شخص (دلے)کی استحصال بھری زندگی کو پیش کیا ہے جو خدمت خلق کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے۔وہ صبح و شام اپنے گھر میں بیٹھ کر کسانوں کے ہلوں اور کاشتکاری  کے دیگر اوزاروں کی مرمت کرتااور پھر اس کی پوری دوپہر چودھریوں کی چلمیں بھرنے،ان کی ٹانگیں دبانے اور بے گار کرنے میں گزرجاتی۔ باوجود اس کے چودھری اس کو گالیاں دیتے سب کے سامنے جو تے سے بھی مرمت کر دیتے لیکن دُلّاکبھی بھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتا۔اتنا ہی نہیں ایک دفعہ تو چودھر ی عنایت اللہ کے والد دُلّاکو کسی عزیزکے یہاں چھ ماہ کے لیے گروی تک رکھ آئے تھے۔ اقتباس دیکھیے:

’’....... چودھری کوکسی عزیز کے پچاس روپے دینے تھے جب وہ کافی دنوں تک یہ رقم لوٹا نہ پائے تو ایک دن انھوں نے دُلّے سے کہا چلو بھئی دلّے تمھیں ایک رشتے دار کے ہاں لے چلیں۔تب دلّا اٹھارہ سال کا تھا۔چودھری صاحب کی گھوڑی کے پیچھے چلتا ہوا ان کے عزیزوں کے ہاں گیا۔چودھری صاحب وہاں دو تین دن رہے اور پھر پتہ نہیں کب گھوڑی پر زین کسوائی اورگائوں لوٹ آئے۔جب دلّا اپنی چادر کندھے پر ڈال،جوتا پہن، گاؤں لوٹنے کے لیے تیار ہوا تو چودھری کے عزیزوں نے اسے بتایا کہ چودھری اسے پچاس روپے کے عوض یہاں چھ مہینے کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔دلّا چھ مہینوں تک ان کا پانی بھرتا رہا اورمیعادپوری ہوجانے پر گائوں لوٹ آیا۔‘‘

(مجموعہ، پہلی آواز، رتن سنگھ، نصرت پبلشر، لکھنؤ، بار اول1969،ص نمبر23)

افسانہ ’لہولہوراستے ‘میں ایک شخص کا قتل محض اس وجہ سے کر دیا جا تا ہے کہ اس نے چودھری کی حویلی کو سر اٹھا کر دیکھ لیا تھا جو اس بستی کی صدیوں پرانی روایت کے خلاف تھاکیونکہ سر اٹھا کر چلنے کا حق   صرف چندچودھریوں کو ہی حاصل تھااوروہی بستی کی ساری زمین اور پیداوار کے مالک بھی تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد بھی (سر اٹھا کر جینے کی خواہش میں) اور چار لوگوں کا قتل کر دیا جاتا ہے...  رتن سنگھ چاہتے تو یہاں کہانی ختم ہو سکتی تھی مگر انھوں نے اپنے مختلف افسانوں کی طرح اس کہانی کو بھی ایک نیا موڑ دیا اور یہ منکشف کیا ہے کہ دیہی معاشرہ اب بدل رہا ہے۔ تبدیلی کی اس آہٹ کو انھوں نے یوں پیش کیا ہے :

ــ’’اس دلدوز واقعے کے بعد جہاں بستی والے لوگوں کے سرزمین کی طرف اور زیادہ جھک گئے ہیں وہاں بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش بھی پیدا ہوئی ہے کہ وہ سب ایک ساتھ سر اونچا اٹھالیں... اور پھر جوہو سو ہو۔ ‘‘ (مجموعہ پناہ گاہ،رتن سنگھ،نئی دہلی ایڈیشن2000، ص نمبر36)

1947 میں ہمار املک آزاد تو ہوا مگر تقسیم کی وجہ سے فساد برپا ہوئے جس کی زد میں آکر نہ صرف کئی شہر تباہ ہو گئے بلکہ گائوں کے گاؤں بھی پوری طرح اجڑ گئے۔رتن سنگھ نے اپنے کئی افسانوں میں اس عہد کے واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔افسانہ ’پناہ گاہ‘اور ’پنجرے کا آدمی ‘میں بھرپور عکاسی کی ہے... افسانہ ’پناہ گاہ ‘ایک علامتی افسانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس افسانہ میں رتن سنگھ نے دیہی زندگی سے متعلق مختلف پہلوؤں کواجاگر کیا ہے۔ تقسیم کی وجہ سے دیہاتوں میں جو حالات پیدا ہوئے تھے اس کے متعلق لکھتے ہیں :

’’... جب وقت کا وہ ظالم لمحہ قریب آیا جس کے ایک ہی وار نے صدیوں پرانے رشتوں کوکاٹ کر رکھ دیا تھا تو گھر میں موت کا ساسناٹا چھا گیا۔گاؤں کا لمبا تڑنگا نمبر دار مراد علی آ نگن میں کھڑا ہم سب کے گھر سے نکلنے کا انتظار کر رہاتھا۔اس نے آتے ہی کہا تھا ـ’’جلدی چلو- تڑپھڑ- سارے ہندو بازارمیں اکٹھا ہو رہے ہیں۔ وہاں سے فوراًہی چل دینا ہے۔راوی پار کرنے کے لیے۔ـ‘‘

(مجموعہ،پناہ گاہ،رتن سنگھ،نئی دہلی ایڈیشن 2000، ص نمبر14)

ایک طرف تو گاؤں کے لوگ ہجرت کے کرب میں مبتلا تھے تو دوسری طرف نمبر دار مراد علی جیسے لوگ اس موقع کا فائدہ اٹھا رہے تھے وہ گھر سے نکلنے والے ایک ایک شخص کی تلاشی لے رہے تھے اور ان کی محنت کی جمع رقم ان سے چھین رہے تھے۔اقتباس پیش ہے :

’’جب دادی دوپٹہ اوڑھ کر باہر آئیں توان کے ہاتھوں میں پکڑی ہو ئی چاندی والی پوٹلی نمبردار نے لے کر اپنی بغل میں دبا لی اور پھر وہ میرے والد کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کاغذات دیکھنے لگا کہ کہیں ا ن میں نوٹ تو نہیں چھپائے ہیں۔‘‘

(مجموعہ،پناہ گاہ،رتن سنگھ،نئی دہلی ایڈیشن 2000، ص نمبر14)

اس افسانہ میں رتن سنگھ نے گاؤں پر تقسیم کے اثرات کے علاوہ گائوں کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل کی تصویر بھی دکھائی ہے :

’’ہمارے گاؤ ںمیں دوسرے تیسرے سال باڑھ آجاتی تھی۔راوی کا پانی اپنے کناروں کو توڑ کر ہمارے گائوں کو جب کالے ناگ کی طرح گھیرتا تو ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا۔ہماری گلی کے سامنے جو چوڑا راستہ جاتا ہے وہاں تو گھٹنوں گھٹنوں پانی ہو تا لیکن ذرا آگے بڑھو تو یہی پانی گلے سے بھی اوپر ہو جاتا۔ایسی باڑھ کے وقت پانی کی تیز دھاروں کی سائیں سائیں سے سارے گائوں پر دہشت چھا جا تی۔ہر شخص گھبرایا ہوا ہوتا۔‘‘

(مجموعہ پناہ گاہ،رتن سنگھ، نئی دہلی ایڈیشن 2000، ص 17)

قومی یکجہتی جو گاؤں کی ایک بڑی خوبی ہے اس افسانے میں پیش کی گئی ہے گاؤ ں کے دو خاندان الگ الگ ہونے کے باوجود اس قدر ایک معلوم ہوتے ہیں کہ باہر سے آنے والے مہمان اس کا انداز ہ تک نہیں لگا پاتے اقتباس ملاحظہ ہو:

’’... باہر سے آنے والے مہمان گھر میں دودو مہینے رہ جاتے اور کسی کو یہ پتہ نہ چلتا کہ دستر خوان پر رکھا ہوا کھانے کا سامان دو رسوئیوں سے،دو گھروں سے بن کر آیا ہے۔وہ سب یہی سمجھتے کہ دونوں بھائی بڑی محبت سے مل جل کر رہ رہے ہیں۔‘‘

(مجموعہ،پناہ گاہ،رتن سنگھ،نئی دہلی ایڈیشن 2000، ص نمبر16)

الغرض،پناہ گاہ،دیہی زندگی کے کئی حقیقی پہلوئوں کو روشن کرتا ہے۔اتنا ہی نہیں اس میں پیش کردہ واقعات رتن سنگھ کی آپ بیتی سے بہت حد تک میل کھاتے ہیں... ’پنجرے کا آدمی ‘بھی ایساہی ایک افسانہ ہے جو دردہجرت سے معمورہے۔ یہ افسانہ دیہی زندگی سے ان کی دلی محبت کا اظہار ہے۔افسانہ میں جگہ جگہ ایک سچے دیہاتی کی ذہنی الجھنیں اور خواہشیں جھلکتی ہو ئی نظر آتی ہیں۔یہ وہی دیہی باشندہ ہے جو ہجرت کی وجہ سے شہر تو آگیا لیکن اپنے گائوں اپنے گھر واپس جانے کی تمنا رکھتا ہے مگر جا نہیں پاتا کیونکہ:

’’... وہاں تو پانچ اجنبی اپنی بندوقوں کا رخ اس طرف کیے ہوئے تھے جیسے کہہ رہے ہوں ــ‘‘خبر داراپنے گھر کی طرف آنے کی کو شش کی۔ اس لکیر کے پار آنا منع ہے۔‘‘

(مجموعہ، پنجرے کا آدمی،رتن سنگھ، نامی پریس لکھنؤ، ایڈیشن 1973، ص نمبر13)

آزادی کے بعد ہندستان کی دیہی زندگی میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں رتن سنگھ کے افسانوں میں اس کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے ہوئی ہے خصوصاً دیہی معاشرے کے بدلے ہوئے مسائل ان کے افسانوں میں جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کابہترین افسانہ ’چھلنی کے چھید‘ اس سلسلے کی عمدہ مثال ہے۔ اس افسانے میں پریم چند کے مشہور افسانے ’کفن‘سے آگے کی کہانی پیش کی گئی ہے اس کے کردار بھی ویسے ہی ہیں جیسے ’کفن‘کے ہیں۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ گھیسو اور مادھو،دھنیا کی موت پر آنسو بہا رہے ہیں لیکن جب گھیسو کو یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ اس کی بہو کے کفن دفن کے لیے دہلی کی مرکزی سرکار پانچ ہزار روپے بھیج رہی ہے تو وہ روتے روتے چپ ہو جاتا ہے اور پھر یکایک خیالوں میں ڈوبتا ابھرتا ہے :

’’ پہلے تو اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ مرکزی سرکار کیا ہوتی ہے اور جب سرپنچ کے دس بار سمجھانے پر بھی بات سمجھنے میں نہ آئی تو اس نے اس کے لیے سر کھپانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔اس کے لیے اتنا سمجھ لینا ہی کافی تھا کہ کوئی سرکار نام کا شخص اس کی بدحالی پر ترس کھا کر اس کی مری ہو ئی بہو کا کریا کرم کرنے کے لیے پانچ ہزار روپے بھیج رہا ہے۔‘‘

(مجموعہ، پناہ گاہ،رتن سنگھ،نئی دہلی ایڈیشن 2000، ص نمبر323) 

اس افسانے کے ذریعہ رتن سنگھ نے گائوں میں موجودفرسودہ رسم و رواج کو اجاگر کرتے ہوئے فرسودہ سیاسی نظام حکومت پر خاصہ طنزکیا ہے اور خصوصاًاس بات کو اجاگر کیا ہے کہ آزادی کے بعد بھی دیہات میں استحصال کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں اب بھی جاری ہے۔

افسانہ ’باپو ‘بھی گائوں والوں کو ان کا حق نہ ملنے کی طرف اشارہ کر تا ہے۔اس افسانے میں ایک ڈیم بننے سے قبل ہی وہاں شہر بسانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تعمیر ڈیم کے دوران ایک بزرگ مختلف لوگوں سے بار بار یہ سوال کرتا ہے کہ کیا کلو کے گھر تک اس ڈیم کی بجلی پہنچے گی کیا کلو کے سوکھے کھیتوں کو اس ڈیم سے نکلنے والی نہر سیراب کرے گی ؟لیکن بزرگ کے اس سوال کا صحیح جواب کوئی بھی نہیں دے پاتا۔آخر کارڈیم بن کر تیار ہو جاتا ہے تو وہاں ڈیم پر کام کرنے والوں کے لیے ہزاروں مکانوں کی ایک بستی بھی بسائی جا تی ہے ساتھ ہی ساتھ بستی کے وسطی چوک میں مہاتما گاندھی کا ایک قد آدم مجسمہ بھی نصب کیا جا تا ہے اور ڈیم کے ادگھاٹن کے موقع پر اس مجسمے سے بھی پردہ ہٹایا جا تا ہے تودیکھاجاتا ہے کہ :

’’لاغرسا جسم،کمر میں لنگوٹی،باقی بدن ننگا۔ایک ہاتھ میں سو ٹی اور آنکھوں پر پتلا سا چشمہ،اس کے ہونٹ ہلتے ہوئے سے معلوم ہو رہے تھے جیسے وہ ان سب سے پوچھ رہا ہو... ’جس ڈیم کو تم نے بنایا ہے اس کی بجلی کلو کے گھر گئی ہے یا نہیں اور اس نہر کا پانی کلو کے کھیتوں کو سیراب کر رہا ہے یا نہیں ؟‘‘

(پنجرے کا آدمی، رتن سنگھ، نامی پریس لکھنؤ، ایڈیشن1973،ص نمبر35)

افسانہ کا یہ آخری حصہ دیہی زندگی کے بنیادی مسائل کی طرف بہت حدتک اشارہ کرتا ہے۔

افسانہ ’صرف ایک آدمی کا درد‘میں رتن سنگھ نے قحط سے پیدا ہونے والے حالا ت کو اجا گر کر تے ہوئے یہ بتایا ہے کہ قحط سے نہ صرف کسان کے کھیت سوکھ جاتے ہیں بلکہ کھیتو ں کو پانی دینے والے کنوئیں،تالاب،ندیاں نالے وغیرہ بھی سوکھ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے پوری انسانی زندگی تھم سی گئی ہو... ایسے حالا ت میں ایک کسان (جس کے خاندان کے سارے افراد مر چکے تھے )اپنے کھیت سے میلوں دور ایک سوکھی ندی کے پاٹ میں گہری کھودائی کر کے پانی کے کچھ قطروں کو مٹی کے ایک برتن میں سمیٹ کر اپنے کھیت کو سیراب کرنے کے لیے لاتا ہے اوراس کی یہ کوشش کئی دنوں تک جاری رہتی ہے۔ آخر کار اس کے جسم کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہونے لگتی ہے اور اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکلتے ہیں جوکھیت کو سیراب کر دیتے ہیں اور اسی وقت اتنی بارش ہو تی ہے کہ زمین کی ساری پیاس مٹ جاتی ہے... مختصر یہ کہ اس افسانہ کے ذریعہ نہ صرف قحط کے اثرات سے واقفیت ہوتی ہے بلکہ ایک کسان اپنے کھیت اور فصل سے کس حدتک محبت کرتا ہے اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے دیہی زندگی کس حدتک متاثر ہوتی ہے۔

  رتن سنگھ نے اپنے افسانوں میں نہ صرف گائوں کے دبے کچلے لوگوں کی زندگانی اور مسائل کواجاگر کیا ہے بلکہ جا گیرداروں اور امیروں کی گھریلوزندگی اور آپسی جھگڑوں کو بھی بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔افسانہ ’لوک گیت کے آنسو‘اور’دیوار‘اس سلسلے کی مثالیں ہیں۔افسانہ ’دیوار‘میں جھگڑے کے ڈر سے بڑی حویلی کے اندرتقسیم کی دیوار تو کھینچ جاتی ہے لیکن نفرت کی آگ کہاں بجھنے والی تھی یہی وجہ ہے کہ اکثر دونوں بھائیوں میں کسی نہ کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوتا رہتا اور یہ جھگڑا آہستہ آہستہ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔افسانہ یہاں ختم ہو سکتا تھا مگر یہ رتن سنگھ کا کمال ہے انھوں نے اس نفرت کو ختم کرنے کے لیے ایک اور مختصر واقعہ کو پیش کیا ہے جس میں نفرت کو مٹانے کی تدبیر مضمر تھی لکھتے ہیں :

’’نفرت کی دیواریں گیتیوں اور پھائوڑوں سے نہیں محبت کے اظہار سے ڈھہا کر تی ہیں۔‘‘

(مجموعہ پناہ گاہ،رتن سنگھ،نئی دہلی ایڈیشن 2000، ص141) 

مختصر یہ کہ رتن سنگھ ایک کامیاب افسانہ نگار تھے۔فنی اعتبار سے ان کے افسانے بڑے وقیع ہیں۔ وہ کہانی کہنے کا ڈھنگ خوب جانتے تھے۔انھوں نے مختلف موضو عات پر افسانے لکھے  ہیں جن میں دیہی ز ندگی اوروہاں کے مسائل بھی شامل ہیں۔ دیہاتی زندگی سے وابستہ ان کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں اکثر دیہات کا بنیادی ڈھانچہ اپنے بنیادی مسائل کے ساتھ نظر آتا ہے اور اس طرح ان کا پیش کردہ دیہات ہندستان کے ہرگوشے میں دیکھا جا سکتا ہے... یہ سچ ہے کہ ہندستان میں آزادی کے بعد مختلف ترقیاتی منصوبوں کے تحت دیہاتی زندگی بدلتی جا رہی ہے پھر بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو اب بھی دیہات نے ترقی کی وہ منزلیں طے نہیں کیں جس کی توقع کی گئی تھی۔اس کی سب سے بڑی وجہ دیہاتیوں کا استحصال ان کی غریبی اور ضعیف الاعتقادی ہے جواب بھی کسی نہ کسی شکل میں وہاں اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیہات کے ان بنیادی مسائل کی طرف توجہ دی جائے اتنا ہی نہیں انھیں حل کرنے کی ہر ممکن کو شش ہو نی چاہیے کیونکہ ایسا کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ وہاں کی د یہی ترقیات سے لگایا جا تا ہے...!

رتن سنگھ کے عزم و حوصلہ کو دیکھتے ہوئے ان کے مداحین یہ قیاس آرائی کر رہے تھے کہ ان کی حیات ایک صدی کو پار کر جا ئے گی مگر مو ت سے کس کو رستگاری ہے۔ابھی ان کی عمر کوایک صدی کی تکمیل میں چند سال باقی تھے کہ2مئی 2021کو (94) سال کی عمر میں وہ ہم سے جدا ہو گئے۔افسانوی ادب کے افق پر یہ ستارہ 70 سالوں تک جگمگاتا رہا۔اس طویل المدت ادبی سفر میں انھوں نے افسانہ نگاری کی آبیاری جس استقلال اور استغراق سے کی ہے وہ بے مثال و باکمال ہے۔


 

Dr.Narayan Patidar

Department of Urdu

Bhagat singh Govt.PG college

Jaora,  Distt-Ratlam - 457226 (MP)

Mob:8305065238

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں