12/10/21

اردو افسانوں میں خودکلامی کے عناصر - مضمون نگار: محمد علیم اسماعیل




اردو افسانوں میں خود کلامی کے عناصر ابتدا سے ہی ملتے ہیں۔ پریم چند نے اپنے کئی افسانوں میں اس تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ’شکوہ شکایت‘ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ پریم چند کے بعد کے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی خود کلامی کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ اس تکنیک میں حاضر راوی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ راوی یا تو خود کی کہانی سناتا ہے یا پھر جس سے وہ مخاطب ہوتا ہے اس کی کہانی پیش کرتا ہے۔ یعنی راوی میں، ہم یا تم کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ایسے افسانوں میں راوی خود بھی موجود ہوتا ہے۔

خود کلامی کی تکنیک اور واحد متکلم بیانیہ کی تکنیک ملتی جلتی تو ہے لیکن یکساں نہیں ہے۔ دونوں قسم کے افسانوں میں حاضر راوی ’میں‘ کہانی بیان کرتا ہے۔ خود کلامی میں راوی خود ہی سے باتیں کرتا ہے، خود ہی سے سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب دیتا ہے، پیش ہو چکے واقعات کو دہراتا ہے اور اپنے آپ کو یا پھر مخاطب کو سناتا ہے۔ راوی جس سے مخاطب ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہ شخص اس کے سامنے موجود ہو اور زندہ بھی ہو۔ راوی کسی کردار کے خیالی وجود سے یا پھر مردے سے بھی باتیں کر سکتا ہے۔ جبکہ واحد متکلم بیانیہ میں حاضر راوی ’میں‘ براہ راست قاری کے روبرو کہانی پیش کرتا ہے۔ واحد متکلم بیانیہ کی کہانیوں میں جزوی طور پر خود کلامی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ ویسے تو خود کلامی کے عناصر غائب راوی کے افسانوں میں بھی ہو سکتے ہیں لیکن حاضر راوی کے افسانوں میں اس کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔

اس تکنیک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کہانی میں بیان ہونے والے تمام واقعات ایک ہی شخص ’میں، ہم یا تم‘ کے حوالے سے سنائے جاتے ہیں۔ مطلب ایک ہی شخص کہانی کا مرکز ہوتا ہے اور پوری کہانی اسی کے حوالے سے بیان ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی قاری کہانی کو درمیان سے یا کہیں سے بھی پڑھنا شروع کردے تو اسے کہانی سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ اور کہانی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، لیکن اس کے برعکس کہانی اگر کوئی غائب راوی بیان کر رہا ہے تو قاری کو یہ سہولت نہیں ملتی۔ ایسی کہانی کو قاری اگر درمیان سے یا کہیں سے بھی پڑھنا شروع کر دے تو اُسے جلد یہ پتا نہیں چلتا کہ راوی کس کے بارے میں بات کر رہا ہے؟ اور افسانے کا مرکزی کردار کون ہے؟ حاضر راوی کے افسانوں میں کردار کی تعداد کم ہوتی ہے۔

(1) شکوہ شکایت: یہ افسانہ پریم چند کے افسانوی مجموعے ’واردات‘ میں شامل ہے اور مجموعے کا سب سے پہلا افسانہ ہے۔ کہانی خود کلامی کی تکنیک میں بیان ہوئی ہے۔ جس میں ایک عورت اپنے شوہر کی خامیوں کا ذکر کرتی ہے۔ اُسے شوہر سے کئی شکایتیں ہیں، اور وہ اُن شکایتوں کو یکے بعد دیگرے بیان کرتی چلی جاتی ہے، جس سے شوہر کے ساتھ ساتھ بیوی کا کردار بھی مکمل طور پر سامنے آتا ہے۔ اس افسانے کو کردار نگاری کا افسانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک عام سی گھریلو کہانی ہے جو قاری کو اپنی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

بیوی کو اپنے شوہر سے جو شکایتیں ہیں وہ اس طرح ہیں:

شوہر کا ٹٹپو نجیوں کی دکان سے سودا سلف لانا، زیور بنانے میں دھوکے باز سنار کا انتخاب کرنا، ہر وقت ضرورت مندوں کی مدد کرنا، دل کھول کر مہمان نوازی کرنا، نوکر سے ہمدردی رکھنا، بیوی کو کبھی کوئی تحفہ نہ دینا، بچوں پر سختی نہ کرنا، دفتر میں مروت اور رواداری سے کام لینا، رشتے داروں کو خوب اہمیت دینا لیکن کسی سے مدد نہ چاہنا، بیٹی کی شادی میں کنیا دان کی رسم ادا نہ کرنا، جہیز کی مخالفت کرنا، اور دیگر سماجی رسم و رواج میں دلچسپی نہ لینا، وغیرہ۔

افسانے سے اقتباس دیکھیے جس میں سودا سلف لانے کے متعلق شکوہ کیا گیا ہے:

’’باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو ایسی دکان سے لائیں گے جہاں کوئی گاہک بھول کر بھی نہ جاتا ہو، ایسی دکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے، نہ وزن ٹھیک ہوتا ہے، نہ دام ہی مناسب، یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دکان بدنام ہی کیوں ہوتی، انھیں ایسی ہی دکانوں سے سودا سلف خریدنے کا مرض ہے۔ بارہا کہا کہ کسی چلتی ہوئی دکان سے چیزیں لایا کرو، وہاں مال زیادہ کھپتا ہے، اس لیے تازہ مال آتا رہتا ہے، مگر نہیں ٹٹپونجیوں سے ان کو ہمدردی ہے اور وہ انھیں اُلٹے استرے سے مونڈتے ہیں۔ گیہوں لائیں گے تو سارے بازار سے خراب، گُھنا ہوا، چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ پوچھے، دال میں کنکر بھرے ہوئے، منوں لکڑی جلا ڈالو کیا مجال کے گلے، گھی لائیں گے تو آدھوں آدھ تیل اور نرخ اصلی گھی سے ایک چھٹانک کم، تیل لائیں گے تو ملاوٹ کا، بالوں میں ڈالو تو چکٹ جائیں، مگر دام دے آئیں گے اعلیٰ درجے کے چنبیلی کے تیل کے، چلتی ہوئی دکان پر جاتے تو جیسے انھیں ڈر لگتا ہے، شاید اونچی دکان اور پھیکے پکوان کے قائل ہیں، میرا تجربہ کہتا ہے کہ نیچی دکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔‘‘

بہت ساری شکایتوں سے پرے بیوی آخر میں جو کہتی ہے اس سے وہ ایک مشرقی عورت کے روپ میں سامنے آتی ہے:

’’مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں اُن سے ایک دن کے لیے بھی جدا نہیں رہ سکتی، ان سارے عیوب کے باوجود میں انھیں پیار کرتی ہوں، ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں، مجھے خود نہیں معلوم، مگر کوئی چیز ہے ضرور، جو مجھے اُن کا غلام بنائے ہوئے ہے۔ وہ ذرا معمول سے دیر میں گھر آتے ہیں تو میں پریشان ہو جاتی ہوں، اُن کا سر بھی درد کرے تو میری جان نکل جاتی ہے، آج اگر تقدیر ان کے عوض مجھے کوئی علم اور عقل کا پُتلا، حُسن کا دیوتا بھی دے تو میں اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھوں۔‘‘

(2) بین: افسانہ ’بین‘ میں پیش ہونے والی کہانی کو احمد ندیم قاسمی کے اسلوب نے خاص بنا دیا ہے۔ یہ افسانہ بھی مکمل طور پر خود کلامی کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار رانو ہے۔ رانو خوبصورت اور جوان ہے، جب وہ تلاوت کرتی ہے تو اس کی آواز میں چاندی کی کٹوریاں بجتی ہیں۔ اللہ اور رسول کے بعد وہ سائیں دولہے شاہ سے بے حد عقیدت رکھتی ہے۔ رانو مر چکی ہے۔ ماں اپنی مری ہوئی بیٹی سے مخاطب ہو کر بین کرتی جاتی ہے اور رانو کی پیدائش سے لے کر موت تک کی کہانی بیان کر دیتی ہے۔ زبان و بیان میں روانی اور جذبات نگاری ایسی ہے کہ قاری اس میں کھو سا جاتا ہے۔ افسانے سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’قرآن شریف تم نے اتنا پڑھا میرے جگر کی ٹکڑی، کہ اب بھی جب چاروں طرف سناٹا اور صرف ادھر ادھر سے سسکی کی آواز آتی ہے، میں تمھارے آس پاس، تمھاری ہی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت سن رہی ہوں۔ تمھارے ہونٹ تو نہیں ہل رہے، پر میں اپنے دودھ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ یہ آواز تمھاری ہے۔ زمین پر ایسی نورانی آواز میری رانوں کے سوا اور کس کی ہو سکتی ہے۔‘‘

اس کہانی کے ذریعے احمد ندیم قاسمی نے درگاہوں اور مزاروں پر ہونے والی بداعمالیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ افسانہ نگار نے کھُل کر کچھ بھی نہیں کہا لیکن قاری سب کچھ سمجھ جاتا ہے کہ بچی کے ساتھ زنا بالجبر ہوا ہے اور یہ بد فعل سائیں دولہے شاہ کے مجاور سائیں حضرت شاہ نے کیا ہے۔

(3) موم کی مریم: افسانہ’ موم کی مریم‘ اپنوں کی ستائی ہوئی محبت کی ماری، بے سہاروں کی ہمدرد ایک دوشیزہ قدسیہ کی کہانی ہے۔ اسے زندگی کے ہر موڑ پر فریب، دھتکار اور پھٹکار کے سوا کچھ نہ ملا۔ اس نے اپنی چھوٹی خالہ کے لڑکے امجد کے رشتے سے انکار کیا۔ ریاض سے شادی کرنے کے لیے وہ ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھی۔ ریاض جو اُن کے گھر کے دستر خوان کے ٹکڑوں پر ہی پلا تھا۔ اُسے ابّا نے قبول نہ کیا۔ ابّا کی ایک ڈانٹ پر محبت اچھل کر دور جا پڑی اور ریاض اپنا بوریا بستر لے کر بھاگ گیا۔ وہ ماسٹر جو اُسے پڑھانے آتا تھا جس کی محبوبہ غربت کی وجہ سے اُسے دھوکا دے کر بھاگ گئی تھی۔ اُس نے اپنی بے چارگی اور دکھ کے افسانے سنائے تو قدسیہ نے ہمدردی سے اُس کا دکھ کم کرنا چاہا۔ وہ جہاں جہاں بھی گئی تاریکی نے اس کے گرد حلقے بنا لیے۔ حقارت بھری نظروں نے خودی کا احساس بیدار کیا۔ اس کے متعلق چاروں طرف بدنامیاں اور سرگوشیاں بڑھتی چلی گئیں اور وہ ہنس کر ہر زخم سہتی رہی۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی اور ابّا اسے تنہا ہاسٹل میں چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ قدسیہ کو ہمیشہ بجھے ہوئے دل اور بیمار ذہنوں سے ہمدردی رہی۔ ایک روز اطہر اور قدسیہ اچانک غائب ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں لکھنؤ میں رہ رہے ہیں۔ پھر اچانک قدسیہ ایک معمولی بیماری سے مر گئی۔ قدسیہ کی کہانی کے ایک ایک لفظ میں درد پیوست ہے۔ خود کلامی کا انداز ایسا ہے کہ کہیں ٹھہرنے نہیں دیتا۔ قاری شروع سے آخر تک قدسیہ کو پڑھتا چلا جاتا ہے لیکن کہانی کا انجام اس کے دل میں بھی کہیں نہ کہیں ایک کسک پیدا کر دیتا ہے کہ جو دکھوں کا پہاڑ سہہ گئی آخر وہ اتنی آسانی سے کیسے مر گئی؟ یہی ادھیڑبن کافی دیر تک قاری کے ذہن پر کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’آج صبح عائشہ کے خط سے مجھے تمہاری موت کی خبر مل چکی ہے مگر میں اس موت پر اظہار افسوس نہ کر سکا۔ روزانہ جانے کتنے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں۔ کتنے نغمے ساز کے اندر ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کتنے انسان ایک لمحہ کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر جاتے ہیں۔ پھر تمھاری موت تو میرے سامنے کتنی بار ہو چکی ہے۔ اگرچہ مادی طور پر تم چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج میرے کمرے میں آ بیٹھی ہو۔‘‘

افسانے میں حاضر راوی ’میں‘ خود کلامی کی تکنیک میں سیکنڈ پرسن ’تم‘ کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ افسانے میں، ’میں‘ بھی شامل ہے لیکن مرکزی کردار ’تم‘ ہے۔ کہانی کا راوی احمد ہے جو مرکزی کردار قدسیہ کا تایا زاد بھائی ہے۔

(4) آواز گریہ:’آواز گریہ‘ سلام بن رزاق کا افسانہ ہے۔ افسانہ حاضر راوی کی خود کلامی کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار جو افسانے کا راوی بھی ہے، وہ اپنی بیوی کے حوالے سے اپنی زندگی کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ راوی مر چکا ہے۔ گھر میں اس کی لاش پڑی ہے۔ اس کی موت دراصل آدھی ادھوری موت ہے۔ وہ دیکھ سکتا ہے لیکن بول نہیں سکتا، محسوس کر سکتا ہے لیکن جنبش نہیں کر سکتا، تارے نفس کٹ چکے ہیں لیکن بیرونی دنیا سے اس کا رشتہ ہنوز استوار ہے۔ کہانی کا راوی، اس کی بیوی زینب، بیٹیاں انوری اور نازو، بیٹا آصف اور ڈرائیور سلیمان افسانے کے اہم کردار ہیں۔

افسانے سے اقتباس دیکھیے:

’’میں مر چکا ہوں۔ کم از کم لوگوں کا ایسا خیال ہے کہ میں مر چکا ہوں۔ ڈاکٹر نے بھی تصدیق کردی ہے۔ گھر کے اندر اور باہر ایک کہرام مچا ہے۔ میری دونوں بیٹیاں انوری اور نازو  رو  رہی ہیں۔ میری بیوی زینب بال کھولے سینا کوبی کر رہی ہے۔ البتہ میرا بیٹا آصف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ حسب معمول اپنے لُچّے لفنگے دوستوں کے ساتھ کہیں آوارہ گردی کر رہا ہوگا۔ زینب نے اپنی چوڑیاں توڑ دی ہیں۔ منگل سوتر نوچ کر پھینک دیا ہے۔ اس کا پلو اس کے سینے سے ڈھلک گیا ہے۔ بلاوز کے اوپر کا بٹن کھل گیا ہے اور جب وہ سینے پر ہاتھ مار کر بین کرتی ہے تو اس کی گداز چھاتیاں ابل ابل پڑتی ہیں......

تارِنفس کٹ چکے ہیں مگر جسم کے اندھے غار میں وہ کون سا چراغ بجھنے سے رہ گیا ہے جس کے سبب بیرونی دنیا سے میرا رشتہ ہنوز استوار ہے۔ رہ رہ کر میرے اندرون میں یہ کیسی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں؟ کیا عذابوں کا سلسلہ شروع ہو چکا؟ اے خدا! مجھے زندہ رہنے کے اس کرب ناک احساس سے نجات دے۔ میری آنکھوں کو بصارت کے عذاب سے بچا۔ میرے کانوں کو ساعت کی سزاؤں سے محفوظ رکھ۔ میری کشتی کو زندگی کے بھنور سے نکال۔ مجھے موت دے۔ مکمل موت......‘‘

(5)  منجھلی:محمد حمید شاہد کا افسانہ منجھلی میں خود کلامی کے بھرپور عناصر ملتے ہیں۔ یہاں حاضر راوی کہانی بیان کرتا ہے۔ اپنی منجھلی بیٹی کو اپنے بڑے بھائی اور بھابی کو گود دے دینے کے بعد گھر کے سبھی افراد، جس ذہنی کشمکش سے گزرتے ہیں، راوی نے اسے بڑے ہی پراثر انداز میں بیان کیا ہے۔ راوی کے بھائی اور بھابی بڑی محبت کرنے والے ہیں لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں۔

افسانے سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’اَب سوچتا ہوں کہ میں نے اِتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا تھا، تو حیرت ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِتنا بڑا فیصلہ میں نے نہیں کیا تھا، خود بخود ہو گیا تھا۔ دراصل بھائی اور بھابی دونوں اِتنی محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے ہیں کہ اُن کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بیگم نے بھی مخالفت نہ کی تھی۔ بس ہکا بکا مجھے دیکھتی رہی تھی۔ اگرچہ وہ کچھ نہ بولی تھی مگر اس کی آنکھیں نمی سے بھر گئی تھیں۔ اور اَب جب کہ میرے اَندر بھیگی آنکھوں کی فصل اُگ آئی ہے، سوچتا ہوں، میں نے اپنا فیصلہ بدل کیوں نہ دیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس نے میرا فیصلہ اپنا فیصلہ بنا لیا۔ سب کو کہتی پھرتی۔  ’دیکھو جی گڑیا ابھی دودھ پیتی ہے اور بڑی بھی تو ناسمجھ ہے، بات بے بات ضد کر بیٹھتی ہے تو سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ میں منجھلی کو کیسے سنبھالوں گی؟اَپنی دادی اور پھوپھی سے بہت مانوس ہے، بھابی اور بھائی بھی تو ماں باپ جیسے ہیں، پیچھے رہ لے گی۔‘  اور وہ پیچھے رہ گئی۔‘‘

خود کلامی یعنی خود سے باتیں کرنا۔ بہت سے واحد متکلم بیانیہ افسانوں میں بھی خود کلامی کے عناصر ملتے ہیں۔ اس تکنیک میں لکھے گئے دیگر افسانوں میں خواجہ احمد عباس کا میری موت، پروفیسر طارق چھتاری کا نیم پلیٹ، سید محمد اشرف کا وہ لمحہ‘ عبدالصمدکا دم واپسیں، مشتاق احمد نوری کا چھت پر ٹھہری ہوئی دھوپ، پروفیسر اسلم جمشید پوری کا تم چپ رہو بیر پال، صادقہ نواب سحر کا راکھ سے بنی انگلیاں، ڈاکٹر شاہد جمیل کا مہاجر، غیاث الرحمٰن کا ہم وطن، رضوان الحق کا زوال جسم سے پہلے، شبیر احمد کا شہرِ اماں کی تلاش،ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کا چھوڑ دو‘ طاہر انجم صدیقی کا درندے، وسیم عقیل شاہ کا تعبیر، اور محمد علیم اسماعیل کا چھُٹّی، قابلِ ذکر ہیں، کچھ افسانوں میں مکمل تو کچھ میں جزوی طور پر خود کلامی سے کام لیا گیا ہے۔


 

Mohd Alim Ismail

Behind Police Station

Ward No. 13

Nandura - 443404) (Maharashtra)

Mobile No. 8275047415

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دیوان مجید کی بازیافت، مضمون نگار: خاور نقیب

  فکر وتحقیق، اکتوبر - دسمبر 2024 تلخیص عبدالمجید بھویاں حیا کا شمار اڈیشا کے قدیم شعرا میں ہوتا ہے۔دیوان مجید ان کے تقدیسی کلام پر مشتم...