20/10/21

عہد وسطیٰ کے دیہی بازار اور زرعی پیداوار - مضمون نگار منصور احمد صدیقی

 



آج اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا کے چمکتے دمکتے پُررونق بازار اور ان کی گہما گہمی دیکھ کر دلی سلطنت و مغلیہ عہد کے ان بازاروں کا تصور محال ہے جہاں فروخت ہونے والی اشیا عموماً ذاتی ضرورتوں کے مطابق ہی مہیا ہوتی تھیں۔یقینا اس دور میں انسان کی ضروریات زندگی بھی محدود تھیں۔عہد وسطیٰ کے شہروں میں تو ہمیں پھر بھی کچھ سامان تعیّش بکتا نظر آتا ہے جس کے صارفین امرا و رؤسا بلاشبہ بہترمعیار حیات رکھتے تھے۔مگر گا ؤں کے بازاروں کی صورت ِ حال بالکل الگ تھی،جس کا تجزیہ آسان نہیں ہے۔ آج بھی کہا جاتا ہے کہ اصل ہندوستان گاؤں میں بستا ہے جہاںکی اہم آبادی کسانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ گاؤں کے بازار اس زندگی کی تصویر پیش کرتے ہیں جو صرف کسان کے گرد گھومتی ہے۔عہد وسطیٰ کے دیہی بازار ہمیں اس زمانے کے کسان کی ہی تصویر نہیں دکھاتے ہیں بلکہ ان کے جائزہ سے ملک کی زرعی اشیا کی پیداوار اور ان اشیا کی تجارت سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔

کسان کی سادگی اور محدود ضروریات زندگی دیہات کے طرز معاشرت کی نہ صرف عکاسی کرتی ہیں بلکہ ہندوستانی آبادی کے بڑے حصے کی صورت حال بھی بیان کرتی ہیں۔ اگر قحط و ٹڈی دل جیسی قدرتی آفات سے محفوظ رہ جائے تو اس کے کھیت نہ صرف گاؤں کی پوری آبادی کے لیے خوراک مہیا کردیتے ہیں بلکہ بازار کے لیے بھی اناج فراہم ہو جاتا ہے۔اس نقطۂ نظر سے جب ہم عہد وسطیٰ پر نظر ڈالتے ہیں تو صورت حال گاؤں کی معاشی اہمیت اور کسان کی کسمپرسی کو اور زیادہ اجاگر کر دیتی ہے۔سلاطین دہلی اور مغلوں کے دور حکومت میں بہت سے چھوٹے بڑے شہر ہندوستان کے نقشے پر نظر آتے ہیں۔ فیروز تغلق نے جونپور،فیروز پور اور حصار جیسے کئی اہم شہر آباد کیے تھے۔ اکبر کے دور حکومت میں 120بڑے شہر اور 3200 چھوٹے قصبات تھے جن کے تحت 100 سے لے کر ایک ہزار تک گاؤں آتے تھے۔1 آگرہ سترھویں صدی کا سب سے بڑا شہر تسلیم کیا جاتا ہے جس کی آبادی زیویئرکے مطابق 6 لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔دہلی آگرہ سے چھوٹا تھامگر پھر بھی یوروپ کے سب سے بڑے شہر پیرس کے  مساوی آبادی رکھتا تھا۔2 ان کے علاوہ لاہور، ملتان، ڈھاکہ،احمد آباد اور پٹنہ وغیرہ دیگر اہم اور بڑے شہر تھے مگر یہ تمام بڑے شہر معاشی معاملات میں دیہات پر منحصر تھے۔ ایک طرف گاؤں ان کے لیے سامان خوراک فراہم کرتے تو دوسری طرف ان کی صنعتوں کے لیے خام مال بھی دیہات ہی سے آتا تھا جن کی مدد سے سامان تعیش تیار ہوتا جو شہر کے صارفین ‘بازار اور خصوصاً طبقہ امرا کے گھروں کی زینت بنتا مگر غذائی اشیا کی مانگ سب سے زیادہ تھی جو ظاہرہے عوام کی بنیادی ضرورت تھی۔ انھیں بھی گاؤں پورا کرتے تھے۔

اس دور میں گاؤں تقریباً ایک خود کفیل ادارہ کی حیثیت رکھتا تھا جہاں ضرورت کے لیے اشیا پیدا کی جاتی تھیں اگر فصل اچھی ہوتی یا کئی سال تک اچھی ہوتی رہتی تو کسان اتنا اناج پیدا کر لیتا جسے قریبی منڈی میں فروخت کے لیے لے جایا جاتا۔ حالانکہ حمل و نقل کی قلت کے سبب ایک خطے سے دوسرے خطے کو منتقل ہونے والا یہ سامان کل پیداوار کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا تھا۔

اس دور میں بھی کئی بڑی شاہرائیں ہندوستان کے سینے پر بل کھاتی نظر آتی ہیں3 مگر لمبے فاصلے کی تجارت کا بڑا حصہ بیل گاڑیوں، اونٹوں اور باربرداری کے بیلوں کے ذریعے ان کچے راستوں سے ہوتا جس کی حیثیت پگ ڈنڈیوں سے زیادہ نہ تھی اور جہاں بڑی شاہراہوں کی طرح نہ تو سرائے موجود تھیں اور نہ ہی قیام و طعام کا کوئی انتظام تھا۔یہی وجہ تھی کہ بڑے پیمانے پر تجارت ایک مخصوص طبقے یا چند ذاتوں تک ہی محدود تھی۔چھوٹے قصبوں کے کاروبار پیشہ ور تاجروں کے ہاتھ میں تھے۔ شمالی ہند میں ملتانی اور مغربی ساحل پر گجراتی پیشہ ور اہم تجارتی اقوام تھیں۔کچھ تاجر تھوک فروش تھے اور کچھ پھٹکر بیچنے والے‘ تھوک فروش تاجروں کو سیٹھ بالوبرہ کہا جاتا اور پھکڑ تاجر بیوپاری یا پایک کہلاتے۔جنوبی ہند میں تجارتی برادری شیٹی لوگوں پر مشتمل تھی۔بھاری اور بڑے سامان مثلاً اناج،شکر،گھی،نمک وغیرہ کی تجارت بنجاروں کے ذریعہ انجام پاتی۔بنجارے مال سے لدے ہوئے بیلوں کے بڑے بڑے ریوڑوں کے ذریعے جن مین منڈی اور تھامس کے مطابق 20ہزار تک بیل ہوتے اور ڈھائی ہزار ٹن تک مال ڈھو سکتے تھے‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان منتقل کرتے۔4 مورخین کے مطابق فوج کو رسد پہچانے کے لیے ایک لاکھ سے بھی زیادہ بیل استعمال ہوتے تھے۔ دیگر ذرائع کے مقابلے میں بنجاروں کے ذریعے سامان کی منتقلی سستی ثابت ہوتی مگر تمام ذرائع سے ہونے والی لمبے فاصلے کی تجارت کے ذریعے جو سامان ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتا وہ کثیر ہونے کے باوجود عرفان حبیب کی رائے میں کل پیداوار کا ایک چھوٹا سا جز ہوتا۔5 ہمارا عہد وسطیٰ جو سلاطین دہلی اور مغل بادشاہوں کے دور حکمرانی پر محیط ہے گاؤں کی تجارتی و معاشی زندگی کی ایک بہتر تصویر پیش کرتا ہے گویہ سچ ہے کہ ہمارے ماخذ سیاسی معاملات میں جتنے مفصل اور واضح نظر آتے ہیں، اقتصادیات میں اتنا نہیں ہیں، مگر پھر بھی ان کا محتاط جائزہ عہد وسطیٰ کے دیہات کی تجارتی سرگرمیوں پر کافی روشنی ڈالتا ہے۔

مورلینڈ وعرفان حبیب کی تحقیق کے مطابق عہد وسطیٰ کی اہم فصلوں میں گیہوں ‘باجرہ ‘جو‘ چاول‘ دالیں ‘گنا ‘ کپاس اور تیل کے بیج وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ خوشبودار لکڑی اور گرم مصالے بھی خاص پیداوار میں گنے جاتے ہیں۔6 مراقشی سیاح ابن بطوطہ کا کہنا ہے کہ الہ آباد کے قریب کٹرا اور مانک پور سے عمدہ قسم کا چاول، گیہوں اور گنا دہلی کو برآمد کیا جاتاتھا۔بعد میں عمدہ قسم کا چاول لاہور میں بویا جانے لگا تھا۔نقدی فصلوں میں کپاس خاندیش کے خطہ اور تقریباً پورے شمالی ہندوستان میں کاشت کی جاتی۔ شکر کے لیے بنگال اہم علاقہ تھا۔تل سب سے بہتر آگرہ کے قریب بیانہ میں پیدا ہوتا۔مصالحہ جات میں لمبی سیاہ مرچ فلفل دراز بنگال میں اور گول سیاہ مرچ مغربی گھاٹ کے پہاڑی سلسلوں میں پیدا ہوتی۔7 ترکاریوں کی کاشت وسیع پیمانے پر تھی۔عموماًمالی اس کاشت سے وابستہ تھے جو آبادیوں کے نواح میں انھیں اگاتے تھے۔ شہری مانگ کی وجہ سے ترکاریوں کی کاشت بھی اہمیت اختیار کر گئی تھی۔

اس دور کی مجموعی زرعی پیداوار سیر حاصل تھی۔زمین کی زرخیزی حکمرانوں کی اس سمت میں کوشش کا نتیجہ تھی۔ جس میں محمدبن تغلق کے دیوان کو ہی اور شیر شاہ واکبر کی مثبت پیش قدمی کا اہم کردار رہا ہے۔علاوہ ازیں بہتر آبپاشی نے زراعت کو ترقی دی جس کے نتیجے میں خالصتاً دیہی تجارت کو بھی فروغ ہوا۔خاص طور سے نقدی فصل کی کاشت کرنے والے علاقوں میں اناج کی ضرورت بازار کے ذریعے ہی پوری کی جا سکتی تھی۔ نمک، گڑ، تیل اور گھی وغیرہ کے معاملے میں بھی سب گاؤں خود کفیل نہیں ہوتے تھے اور ان کی ضروریات بھی دیہی بازار پوری کرتے۔ بے دبہک،سارتھ باہک جیسے ناموں سے پکارے جانے والے تاجر مذکور اشیا کی تجارت کرتے عموماً کسان لگان نقدی کی شکل میں ادا کرتے اس صورت میں اپنی پیداوار کو بازار میں فروخت کرنے کی ذمے داری انھیں ہی اٹھانی پڑتی۔ اس صورت میں وہ اپنی پیداوار خود کی یا کرائے کی گاڑیوں پر مقامی بازار یا قریب کے شہروں کو لے جاکر فروخت کرنے پر مجبور ہوتے۔ گماشتے پیداوار کی فروخت سے منسلک ہوجاتے۔ اکثر کسان کے پاس مقروض ہونے کی شکل میں یہ پیداوار اپنے قرض خواہ کو پہلے سے طے شدہ نرخ پر فروخت کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوتا اور اس طرح وہ بازار یا منڈی تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ یہی نہیں کسان فصل اگانے کے سلسلے میں جن تاجروں  یا گاؤں کے مہاجنوں سے قرض لیتا وہ اپنی رقم کے بدلے میں بہت کم قیمت پر کسان کی پیداوار خریدتے۔اس کے علاوہ ایک اور مشکل یہ تھی کہ روپیہ کی فوری ضرورت اسے پیداوار کو بہ عجلت فروخت کرنے پر مجبور کرتی۔علاوہ ازیں اپنی پیداوار کو بازار تک لے جانے میں اسے مختلف محصول اور رشوت بھی ادا کرنی پڑتی تھی۔ عہد وسطیٰ کے کسان کو اجارہ داری کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا جس کے تحت اکثر مقامی حکام اسے مجبور کرتے کہ وہ اپنی پیداوار کسی منفرد خریداروں کے گروہ کے ہاتھ ہی فروخت کرے اس سے کسان کو ملنے والی رقم منڈی کی قیمتوں سے کافی کم ہوتی یہ فرق اگر زیادہ ہوتا تو ان منڈیوں کے تاجر اور خریدار دونوں کوشش کرتے کہ وہ براہ راست کسان سے خریداری کریں جس کے نتیجے میں کسان کو فائدہ ہو جاتا۔

دیہی معاشی نظام کے تحت مقامی تجارت کے کئی مرکز ہوتے۔ گاؤں کے ہی کسی حصے میں مستقل و غیر مستقل دوکانوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا بازار ہوتا جہاں چھوٹے چھوٹے دوکاندار اناج، شکر، تیل،مٹھائی وغیرہ ضرورت زندگی کی مختلف اشیا بیچتے ان دیہی بازاروں میں کبھی کبھی صراف کی شکل دکھائی دیتی جو تانبہ اور کوڑیوں کے بدلے چاندی دیتا یہ کم محنت اور تھوڑی اشیا خریدنے کے واسطے کسانوں کی ایسی گزرگاہ تھی جہاں وہ ہمیشہ آجاسکتے تھے۔ گاؤں والوں کی ضرورتوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر پورا کرنے کے لیے دو چار دن یا ہفتے بھر کے وقفہ جات بازار لگتے۔ یہ ہاٹ بازار گردونواح کے دیہاتوں کے تجارتی مرکز ہوتے۔یہاں اناج و اشیائے خوردونوش سے لے کر برتن اور چمک والے مصنوعی زیورات تک ملتے۔سماج میں یہ ہاٹ بازاربڑی اہمیت رکھتے یہاں وہ اس دن یا ہفتے بھر کی ضروریات کا سامان اکٹھا کر لیتے۔ان بازاروں کی رونق دیہی معاشی سرگرمیوں کی بہترین عکاس ہے جو ہمارے عہد وسطیٰ کے کسان کے لیے آج کے کسی جدید شاپنگ کمپلکس سے کم نہیں تھی۔ان ہاٹ بازاروں کے علاوہ وقتاً فوقتاً سالانہ لگنے والے میلے بھی تجارت کا بڑا مرکز تھے۔ ان میلوں میں بچے اپنے کھلونوں کے لیے اور عورتیں کپڑا وبرتن اور آرائشی مصنوعات خریدنے کے لیے بے تحاشہ کھنچے چلے جاتے۔ اس معاشی نظام میں حلقے کی منڈیاں لوگوں کی کشش کا خاص مرکز ہوتیں۔مغلوں کی پالیسیاں معیشت زر کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ضبطی نظام کے تحت زمین کا لگان مختص کرنے کے بعد اسے نقد وصول کیا جاتا۔کسانوں کو لگان تشخیص کرنے کے کسی بھی طریقے کو انتخاب کرنے کا حق حاصل تھا۔ وہ فصل کی تقسیم کے طریقے کو اپناتا تو سرکاری حصے کا غلہ آڑھیتوں کی معرفت گاؤں میں بھی فروخت کیا جاتا۔ ایک اندازے کے مطابق دیہی پیداوار کا 20 فیصد حصہ بازار میں جاتا تھا۔ دیہی غلہ منڈیوں کے اضافہ نے چھوٹے چھوٹے قصبوں کی تعداد بڑھا دی۔

بازاروں اور منڈیوں کے علاوہ گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے دوکاندار و تاجر گھوم گھوم کر اشیا فروخت کرتے۔ یہ پھیری والے بیلوں وغیرہ پر مختلف اشیائ لاد کر جگہ جگہ جاتے اس طرح دیہی صارفین تک سامان ان کے گھروں پر ہی پہنچا دیتے۔ بیل، گائے، بھینس، بکری اور اونٹ وغیرہ کے لیے مویشیوں کے علیحدہ بازار لگتے تھے۔

مختلف اقسام کے دیہی بازاروں میں فروخت ہونے والی اشیا کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ گاؤں کے عوام کی ضروریات زندگی نہ صرف محدود تھیں بلکہ ان میںتنوع بھی نہیں تھا۔کسان اپنی ذات پر غلہ کی کتنی مقدار خرچ کرتا تھا اس کی معلومات ناکافی ہیں۔البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسان اپنے اوپر اپنی پیداوار کی سب سے معمولی قسم خرچ کرتا ایک جائزہ کے مطابق آگرہ و دہلی میں بہترین گیہوں پیدا ہوتا لیکن یہاں کے عوام کی غذا میں یہ شامل نہیں تھااور یہ لوگ چاول باجرہ اور جو کھاتے۔اسی طرح ان کا لباس سادہ،مکانات عموماً لکڑی و پھوس کے ہوتے۔

دیہی بازار میں منڈیاں جو کسان کی زندگی کا اہم حصہ تھیں قحط کے زمانے میں ویران ہوجاتیں اگر مناسب وقت پر بارش نہ ہوتی یا زیادہ ہو جاتی یا کوئی دیگر قدرتی آفت فصلوں کو تباہ کردیتی تو پھر کسان کا بھی سب کچھ برباد ہو جاتا۔موجودہ دور میں ریلوے کے بہتر نظام اور حمل و نقل کی دیگر سہولیات کے سبب متاثرہ علاقوں میں دوسری جگہوں سے غذائی اشیا کو بہ آسانی پہنچایا جا سکتا ہے جو عہد وسطیٰ میں ممکن نہیں تھا۔گویا قحط کے دوران مقامی تجارت بالکل ٹھپ ہو جاتی۔ دیہی بازار سونے ہو جاتے۔ غذا کی قلت کے سبب بچے کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیے جاتے۔ مثلاً 1554-55 میں پڑنے والے قحط نے آگرہ، بیانہ اور دہلی کے آس پاس کے علاقوں کو تباہ کردیا۔ بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ جنگل کی خشک گھاس، مصری کانٹے کے بیج اور جانوروں کا چمڑہ لوگ کھانے پر مجبور ہو گئے۔8 ا س دوران نہ بازار کھلے نہ ضرورت کے لیے سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا گیا، ساری معاشی و تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئیں۔ مردم خوری کی نوبت آگئی، کسان اور کاشتکار لاپتہ ہو گئے۔ہمارا عہد وسطیٰ اس طرح کی بہت سی مثالوں کا شاہد ہے۔تباہ شدہ کھیت،کسانوں کو اپنے گھروں کو خیرباد کہنے اور دور دراز علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور کردیتے۔

عہد وسطیٰ کا دیہات ایک ایسی خود مختار معاشی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنی ضرورت زندگی کے لیے عموماً کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا،کسان مرکزی کردار ہوتا جو پورے گاؤں کے لیے خوراک مہیا کرتا۔دوسرے لوگ مثلاً بڑھئی،لوہار،فوجی،دھوبی،نائی،گوالے،پجاری،ڈاکٹر یہاں تک کہ فقیر و جادو گر بھی کسان کے معاون کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ لوہے کے اوزار، گھریلوبرتن اور چولھے بنانے والے اپنی غذا کے لیے اسی کسان سے وابستہ ہوئے۔ غرض تمام لوگ ایک ایسی اکائی کی شکل میں کام کرتے جس کی کارکردگی زندگی کو رواں دواں رکھتی۔

حواشی:

1       نظام الدین احمد،طبقات اکبری ،ببلکا انڈیا ،کلکتہ3، ص 345

2       ایف بر نیئرا،ٹریولس ان دی مغل ایمپایئر،لندن، 1916،ص 281

3       طبقات اکبری ،(2) ص 106

4       جے ۔بی۔ٹریو نیئر،ٹریولس ان انڈیا ،لندن،1925 ، ص 33-34

5       عرفان حبیب ،مغل ہندوستان کا طریق زراعت (ترجمہ ) ص122

6       ایضاً،ص 65-70

7       ابوالفضل ،آئین اکبری،ببلکا انڈیا ،کلکتہ،1867 (1)ص 390

8       عبدالقادر بدایونی،منتخب التواریخ ،ببلکا انڈیا ،کلکتہ (1)1864 ص 428-29

 

Dr. Mansoor Ahmad Siddiqui

Asst. Prof. Dept of History

G.F. College

Shahjahanpur - 242001 (UP)

Mob.: 8171451517

Email.: mansoorsiddiqui1967@gmail.com

 

 اردو دنیا ، ستمبر 2021

2 تبصرے: