کائنات کی ہر شے فانی ہے۔ کائنات کی تمام مخلوقات میں
باہمی ربط ہے، انسان، حیوان، شجر، حجر کے خدا نے جوڑے بنائے ہیں۔جس کے بغیر شے کا
وجود بے معنی ہے۔یہ باہمی روابط ایک دوسرے کی بقا وارتقا میںمعاون ومددگار ہیں۔نوع
بشر ان سب سے استفادہ کا مجاز ہے۔ خالق حقیقی نے کرۂ ارضی پر بنی نوع انسان کو
اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ دیگر جاندار پر نطق و عقل کے باعث فکروپیام کی شعوری ترسیل
کی سبقت سے بھی نوازاہے۔ انسان شعوری طور پردنیاوی امور میں اختیاروانتخاب کی
آزادی کامکلف بھی ہے۔ مگر انسان نے ذاتی مفاد کی خاطر مثبت و منفی اقدام کی پرواہ
کیے بنا،اختیارات کا بے دریغ استعمال کیاہے۔
ذریات ِآدم نے ذاتی فکرومزاج کی خاطر خودکو غیرفطری
طورپر طبقات میں منقسم کردیا نیز معاشرتی سطح پر بہت سی ایسی پابندیاں بھی عائد کی
گئیں۔جونہ صرف مذہب و ذات تک ہی محدودہیں، بلکہ زبان و الفاظ کے استعمال پر بھی
لگائی گئیں۔ اسی امتیاز کے سبب شیخ ولی محمد نظیر اکبر آبادی جیسے خالص انسانی
تہذیب وثقافت کے شاعر کو، طبقہ اشرافیہ نے قابل توجہ ہی نہیں سمجھا۔
اکبرآبادی فطرتاً نظم کے بڑے شاعر ہیں۔ ان کی نظموں کے
عناوین ومضامین عوام الناس کے مزاج سے میل کھاتے ہیں۔ یوں تو انھوں نے غزلیں بھی کہی
ہیں مگر ان کے مزاج سے نظم کی مناسبت حددرجہ ہے، جو مربوط خیال کی حامل ہوتی ہے۔
ان کے طبعی میلان کے باعث بہت سی غزلیں غزل مسلسل کے زمرے میں آتی ہیں۔
کلام نظیر کے اس موضوع پر گفتگو کرنے کے ساتھ فلسفہ کے
متعلق عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں،انگریزی میں اسے Philosohy کہتے ہیں۔یہ دو لفظوں یعنی Philo اور Sophiaسے
تشکیل پایا ہے۔PhiloاورSophia
کے معنی محبت اورحکمت کے ہیں۔ اس سیاق میں ہم یہ کہہ
سکتے ہیں کہ فلسفہ، حکمت سے محبت کرنے کاعمل ہے۔
دراصل فلسفہ کسی شے کے مادی یاخیالی وجود کے ہونے پر
انتہائی منطقانہ استدلال کے ذریعے ثبوت فراہم کرنے کا نام ہے۔اسی خوش عقیدت مندی میں
کلیاتِ نظیر اکبرآبادی کے مرتب نے ان کی چندشعری تخلیقات کو فلسفیانہ نظموں کے ذیل
میں رکھاہے۔میں نے مضمون کے مباحث میں اپنے مطالعے کو دولت وصحت کی نعمت سے متعلق،
حکیمانہ نظموں تک ہی محدود رکھا ہے۔ان نظموں پر غور کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا
ہے،کہ شاعر نے نظموں کے عنوانات سے متعلق نفس مضمون کو انتہائی کمال تک پہنچا دیا
ہے۔جس پر اضافہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
اس تمہید کے بعدان کی فلسفیانہ نظموں میں نوع بشر کے لیے
دولت و صحت کی نعمت اور اس کی احتیاجات اور مسائل پر غور کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے
کہ نظیراکبرآبادی کی نظموں کا اصل موضوع ابن آدم اور اس کی ضروریاتِ زندگی پرہی
مرتکزہے۔انھوں نے اپنے عہد کے انسانی وسائل و مسائل میں عوامی احتیاجات کو اپنی
تخلیقات کا مرکز بنایا ہے۔ شاعرنے ہندوستانی مشترکہ تہذیبی طرز معاشرت کے ساتھ خاص
طور سے عام آدمی کی فرمائش کوشعری فن میں ڈھال دیاہے۔ انھوں نے ہرپیشے کے فرد
وبشر اور مذہب وملت سے متعلق نظمیں لکھی ہیں۔
’کلیات
نظیر‘ میں عنوانات کی تکرار کے ساتھ مخمس اور مسدس کی ہیئت میں 16فلسفیانہ نظمیں ہیں۔
پہلی نظم ’کوڑی کی فلاسفی‘ کے عنوان سے 11بندوں پر مشتمل ہے۔ جو ہر زمانے کے انسان کے لیے کوڑی یعنی
دولت کی اہمیت کو بڑے مدلل انداز میں پیش کرتی ہے۔ دنیامیں آدمی کو معاشرتی
معاملات کے لیے کوڑی یعنی دولت و پیسہ از حد ضروری ہے۔ جس شخص کے پاس یہ نعمت ہوتی
ہے۔ وہ اپنے سماج میں قابل یقین، بہترین نعمتوں کا مالک، عمدہ لباس زیب تن کرنے
کامجاز، مزید یہ کہ عوام اسے فہم وشعور کامالک بھی گردانتے ہیں۔جس کا مشاہدہ معاصر
دور میں بھی عام طورپر صاحب اقتدارہستیوں کے تعلقات سے کیا جاسکتا ہے۔
نظیر اکبر آبادی
کوڑی کی اہمیت کا اظہار ہربند میں ٹیپ کے شعر یامصرع میں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںہمیں
جہانِ فانی کی معاشرتی زندگی میںجو بھی نقش و نگیں یعنی مرصع سازی، عیش و آرام
اور اشیا کی قدر وقیمت ہے سب پیسے کی بدولت نظر آتی ہیں۔ورنہ چیزیں کوڑی کے کمی کے
باعث بڑے سستے داموں میں بکتی ہیں۔ شاعر نے ٹیپ کے شعر میں ’کوڑی کے تین تین بکنا‘
محاورہے کو مدنظر رکھ کر یہ بات کہی ہے
؎
کوڑی کے سب جہاں میں نقش ونگین ہیں
کوڑی نہ ہو تو کوڑی کے پھرتین تین ہیں
ہمارے معاشرے میں پیسے کے بغیرانسان زمین پر سونے کے لیے
مجبور محض ہے مگر پیسہ ہوتے ہی شہ نشیں ہو
جانا، جاموں میں سنہرے پٹکے بندھ جانا، گھوڑے کی زین پر موتیوں کے گچھے لگ جانا،
مزیدبادشاہت کی چاہ، فوج وسپاہ کی ثابت قدمی،لیکن فقیر چھڑی، رومال لے کر دکانوں
پرکوڑی کے لیے گداگری کرتا پھرتاہے۔
شاعر کے نزدیک دنیا میں جو بھی جھمیلے یعنی ضروریاتِ
وسائل کی فراہمی،جنگ وجدل کاسازوسامان،سپاہیوں کا فوج میں تلواروبندوق کاندھے پر
رکھنا،ایک دوسرے ملک پر چڑھائی کرنا،ابن آدم کاباہم خونریزی کرنا،انسان کی پیسے
کے واسطے جان بھی قربان کر دینا، عموماََیہ سب کوڑی کے لیے ہی ہے۔ اگریہ نہ
ہوتوبہت سے کاموں کا ہونا محال ہے۔ جب ہم اپنے معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ایسے
حضرات بھی ملتے ہیں جو کوڑی کے لیے لوگوں سے مارکھاتے او ربے عزت بھی ہوتے ہیں۔مگر
بہت سے انسان ایسے بھی ملیں گے،جوکوڑی کے لیے گندگی میں منہ ڈالنے،حتیٰ کہ آنکھوں
سے اٹھانے میں بھی عار وشرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اگر انسان کے پاس کوڑی نہیں تواس
کی عزت نہیں ہوتی۔ہاں جب اس کے پاس پیسہ ہوجاتاہے تو وہی فرد سیٹھ بن بیٹھتاہے۔
انسان کوڑی کی بدولت رفاہِ عام،ملکی وعوامی فلاح وبہبودکے کام یعنی سیر وتفریح کے
واسطے باغ ونخلستان،سرائیں اور پکے کنوئیںبنواتاہے۔دولت و کوڑی ہی کے لیے مفلس، فقیر،
بادشاہ اور وزیر سب دلچسپی لیتے ہیں۔حتیٰ کہ بچے، جوان اور بوڑھے بھی جان دینے
پرآمادہ نظر آتے ہیں۔یعنی کوڑی ایسی دلربا شے ہے، جو سب کے لیے دلپذیربن جاتی
ہے۔نظم کا آخری بندملاحظہ ہو ؎
لے مفلس اور فقیر سے تاشاہ اور وزیر
کوڑی وہ دلربا ہے کہ ہے سب کی دل پذیر
دیتے ہیں جان کوڑی پہ طفل و جوان و پیر
کوڑی عجب ہی چیز ہے میں کیا کہوں نظیر
کوڑی کے سب جہاں میں نقش ونگین ہیں
کوڑی نہ ہو تو،کوڑی کے پھرتین تین ہیں
نظیر اکبرآبادی نے پیسے کی فلاسفی کے عنوان سے دونظمیں
کہی ہیں۔ دونوں مخمس اور مسدس کی ہیئت میں 11اور 16بندوں پر مشتمل ہیں۔ انھوں نے
نظم میں یہ پیش کیا ہے، کہ دنیاوی سطح پر جس کی دسترس میں پیسہ ہے، اسی کے سب نقش
ونگار، ٹھاٹ باٹ، بہترین عمارت، کھانے پینے کی اشیا،فاخرہ لباس زیب تن یعنی وسائل
کے ذریعے فراہم ہونے والے تمام عیش و آرام ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔انسان پر عیش
وعشرت کی آمداور باغ وگلشن میں سرووسمن،لالہ وگل کا حصول پیسے ہی کی دین ہیں۔
مگرنظیر بھی آخر ایک انسان ہیں جب ایک مکان کو دیکھ کر حیرت و استعجاب کی کیفیت میں
اپنی ذات سے استفسار کربیٹھتے ہیں،توانھیں عقل وشعور سے جواب ملتا ہے ؎
واں سے نکلا تو مکاں اک نظر آیا ایسا
در و دیوار سے چمکے تھا پڑا آبِ طِلا
سیم چونے کی جگہ اس کی تھا اینٹوں سے لگا
واہ وا کرکے کہا میں نے یہ ہوگا کس کا
عقل نے جب مجھے چپکے سے کہا پیسے کا
نظیر فطرتاََ یار دوستوں سے بڑی رسم وراہ رکھتے تھے اور
ان کو یہ مشورہ بھی دیتے تھے کہ اگر عاشق روٹھ کر منت وسماجت سے بھی راضی نہ ہو تو
اسے پیسوں کی خوبیوں کی بدولت موم ونرم کیاجاسکتاہے۔کیونکہ انسان کی عام طورپربہت
سی احتیاجات اور خوشیاں پیسے کی بدولت پوری ہوجاتی ہیں۔نظیر کے نزدیک پیسہ ہی مادی
جہان میںرنگ وروپ اور مال ودولت ہے۔اگر انسان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔تو پھروہ چرخے کی
مال کے مانند ہے۔ دوسری نظم کے ٹیپ کا شعر دیکھیے جو صنعت تجنیس کی بہترین مثال بھی
ہے ؎
پیسا ہی رنگ روپ ہے پیسا ہی مال ہے
پیسا نہ ہو تو آدمی چرخے کی مال ہے
یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دل ودماغ میں پیسے کی فراوانی
کے باعث بہت سے خیالات بروئے کار آتے ہیں۔،مگرمفلس و فقیر کے دل میں پیسے کی کمی
کی بابت سوالیہ تصورات ہی پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کوپیسے کے زور شور سے ٹھاٹ
باٹ،کوٹھیاں اور دیگرلوازماتِ عیش وآرام حاصل ہوجاتے ہیں۔بہ قول کسی دانشور کے پیسہ
ہونے اورنہ ہونے کی بدولت ہی کوئی شے مہنگی اور سستی ہوتی ہے۔ اگر انسان کے پاس پیسے
کی آسودگی ہوتی ہے تو ہر روز چہرے پر تیوہار کی خوشی کا منظر رہتا ہے۔ پیسہ نہ
ہونے کے باعث ضروریاتِ زندگی کی عام چیزیں بھی میسر نہیں ہوتیں۔انسان مضمحل اور یاسیت
کاشکار ہو جاتاہے۔آدمی پیسے کے ذریعے دیوؤں کو بھی قابو میں کرسکتاہے۔ اورنہیں
تومکڑی کے جالے سے بھی خوف کھاتاہے۔ بشرپیسے سے لالہ جی، بھیا جی اور چودھری
کہلاتے ہیں۔ نہیں تو ساہوکار بھی چورسا دکھائی دیتاہے۔انسان پیسے ہی کے ذریعے مرصع
کاری، نقش ونگاراورخوشبو وعنبر سے جسم کو معطراور چہرے کو پرنو ربناتا ہے۔ ورنہ
چہرے پہ دھول ہی لپٹی رہتی ہے۔معاشرے میںپیسہ اعتبار ووقاردلانے میں بے حد معاون
ہوتاہے۔ نظیر نے مزید بڑے نکتہ و راز کی بات کہی ہے کہ اگر پیسے کی فراوانی میں کسی
انسان پر غم کے حالات آجائیں، تو بھی بہارکاسماں پیدا ہوجاتا ہے،مگر پیسہ نہ ہونے
پرشادی میں بھی خواری نظر آتی ہے۔ پیسے کی کمی کاشدید افسوس تووہاں ہوتا ہے جب ایک
بھائی دولت کی فراوانی اور فارغ البالی میں بھی اپنے نادار بھائی کا حال نہیں
پوچھتا۔نظیر آگے بڑھ کریہ بھی اظہار کرتے ہیںکہ جس مکان میں پیسہ ہوتاہے وہاں پر
فرشتوں کے بال و پر بھی پھنستے ہیں۔پیسے کے آگے محبوبِ خوش جمال بھی کچھ نہیں،وہ
توپرستان سے بھی پری نکال لاتا ہے۔ہاںانسان کاتلوار اٹھانا،اس پر دھارلگانا،زخم کھانا، سرکٹانا۔ سب عمل پیسہ ہی
کراتاہے۔طرفہ تو یہ ہے کہ آدمی ہی آدمی کو پیسے کے ذریعے غلام بناتا ہے۔انسان خیر
وبھلائی کے بہت سے کام پیسے کے باعث ہی سہولت و آرام سے کرتا کراتاہے۔آخرپیسہ ہی
جہاں کے بیچ میں بہت سی چیزوںکے قائم مقام کی خدمات انجام دیتا ہے ؎
دین دار اس سے دہر میں کہلاتا نام ہے
پیسا جہاں کے بیچ وہ قائم مقام ہے
پیسا ہی جسم وجان ہے پیسا ہی کام ہے
پیسے ہی کا نظیر یہ آدم غلام ہے
پیسا ہی رنگ روپ ہے پیسا ہی مال ہے
پیسا نہ ہو تو آدمی چرخے کی مال ہے
’آٹے
دال کی فلاسفی‘ کے عنوان سے دونظمیں ہیں۔ اوّل نظم مخمس کی ہیئت میں سات بند وں میںہے۔
ہربندکے آخری مصرع میںٹیپ کی تکرار ہے۔ دوسری مسدس کی ہیئت میں 8بندوں میں ہے۔نظم
کے مطالعے سے یہ بات واضح ہے کہ انسانی حیات وزیست کی بقا کے لیے خورد ونوش کی چیزوں
کا استعمال ناگزیرہے۔ نظیرنے اشیائے خوردنی میں آٹے دال کی اہمیت کو مدنظررکھتے
ہوئے،یہ اظہار کیا ہے کہ ان کے لیے ہرانسان فکرمندہے۔ اگر انسان کو اس سے آزادی میسر
ہوتی تو وہ جہاں میں اِدھر ُادھر کیوں مارامارا پھرتا،بند پر غور کیجیے ؎
گر نہ آٹے دال کا یاں کھٹکا ہوتا بار بار
دوڑتے کاہے کو پھرتے دھوپ میں پیادے سوار
اور جتنے ہیں جہاں میں پیشہ ور اور پیشہ دار
ایک بھی جی پر نہیںہے اس سوا صبر و قرار
سب کے دل کو فکر ہے دن رات آٹے دال کا
شاعرنظیرنے دوسری نظم میں یہ بات کہی ہے کہ دنیا میںاگربنی
نوع انسان کے چہرے پُر نور ہے تو وہ سب آٹے دال یعنی اشیائے خوردنی کی سہولت کے
سبب ہیں۔ عالم مادی میں بیشتر انسان اسی کے مزدورہیں ؎
اس آٹے دال ہی کا جوعالم میں ہے ظہور
اس سے ہی منہ پہ نور ہے اور پیٹ میں سرور
اس سے ہی آ کے چڑھتاہے چہرہ پہ سب نور
شاہ و گدا امیر اسی کے ہیں سب اسیر
سب چھوڑو بات طوطی وپدڑی و لال کی
یارو کچھ اپنی فکر کرو آٹے دال کی
نظیر نے آٹے کو نور اور دال کو پری و حور بتایا ہے۔مزید
یہ باور کرانے کی سعی کی ہے کہ جو اسے سمجھ گیا وہ صاحب شعور ہے۔اردو شاعری میں یہ
انوکھی مثال ہے شاعرکے الفاظ پر توجہ دیجیے ؎
آٹا ہے جس کا نام وہی خاص نور ہے
اور دال بھی پری ہے کوئی یا کہ حور ہے
اس کا ہی کھیل کھیلنا سب کو ضرور ہے
سمجھے جو اس سخن کو وہ صاحب شعور ہے
سب چھوڑو بات طوطی وپدڑی و لال کی
یارو کچھ اپنی فکر کرو آٹے دال کی
’روٹی
کی فلاسفی‘نظم،مذکورہ بالا نظم کے بالمقابل معاش ومعیشت کے سلسلے میں بے حد مقبول
اور زبان زدخاص وعام ہے۔مخمس کی ہیئت میں 18بندوں میں ہے۔شاعر نے نظم میں یہ اظہار
کیا ہے۔کہ دنیا میں بیشتر انسان روٹیوں کے سبب ہی زندہ ہیں۔اگرکسی انسان کو آسانی
سے روٹیاں میسر ہیں تووہ اس شخص کی خوش حالی کی نشانی ہیں۔وہ آدمی بھی اسی خوش
حالی کے سبب پھولا نہیں سماتا۔ وہ غرور میں بہت سے اچھے بُرے کام انجام دیتا
رہتاہے۔ شاعر کے نزدیک انسان کوجتنے بھی مزے اورعیش وآرام میسر آتے ہیں وہ سب روٹیوں کی فراوانی سے ہی آتے ہیں۔ یہ کہاوت
ہے کہ’ بھوکے پیٹ بھجن نہ ہوئے‘انسان کی اچھل کود،بھاگ دوڑاور جملہ حرکات وسکنات پیٹ
بھرنے کے مرہون ہیں۔ یعنی سو طرح سے دھوم دھام روٹیوں کے سبب ہی ہوتی ہے۔ شاعر یہ
بھی بتاتاہے کہ ہانڈی،چولہا،توااور تنور یہ سب خالقِ کائنات ہی کا ظہور ہیں۔ انسان
کے لیے سب سے خاص نور چولہے کی جلتی ہوئی آنچ ہے۔ اسی کے طفیل سے روٹیاں اورچپاتیاں
نظر آتی ہیں۔ شاعر کی نظرمیںسب انسانوں کے دل روٹیوں کے نور سے ہی نور پور ہوتے ہیں ؎
ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں نور پور
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں
یہ حقیقت ہے کہ دنیامیں انسانی حیات و زیست کی بقا اور
حرکت وعمل کے لیے یہ روٹیاںناگزیر ہیں۔ جس کی ضرورت انسان کو یہ کہنے پرمجبور کرتی
ہے ؎
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
جب انسان کا پیٹ روٹیوں سے بھرجاتا ہے۔ تو اس پر دنیاوی
معاملات کے بہت سے بھیدمنکشف ہونے لگتے ہیں۔یعنی روٹیوں کی آسودگی کشف وکمال کا
موجب بن جاتی ہے۔
کرۂ ارض پر آدم زاد نے جتنے بھی پیشہ ورانہ کاروبار ایجاد
کیے ہیں وہ سب پیٹ ہی کے وسیلے ممکن ہوئے ہیں۔دنیا میں انسانوں کا عمومی مشاہدہ
کرنے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ لاکھوں آدمیوں میں صرف چندحضرات ہی محبت و عقیدت سے
خالق حق کا نام پکارتے ہیں۔ورنہ سب پیٹ ہی کے لیے سب کچھ کرتے ہیں ؎
لاکھوں میں کوئی لے ہے محبت سے حق کا نام
ورنہ سب اپنے پیٹ کے ہیں کلمے اور کلام
نہ عاقبت کی فکر نہ راہِ خدا سے کام
سمجھے نہ کچھ حلال نہ جانا کہ کچھ حرام
جو جس سے ہو سکا سو کیا پیٹ کے لیے
’تندرستی
کی فلاسفی‘(بشمول حرمت) نظم مسدس کی ہیئت میں 14بندوں میں ہے۔ انسانی حیات وزیست میںخالق
ومالک کی عطاکردہ بہت سی نعمتوں میں تندرستی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگرانسانی صحت ٹھیک
نہیں،تو دیگر نعمتیں اس کے لیے بے سود اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اگر انسان کی
صحت خوب ہے تواسے دیگر نعمتوں کی کوئی خاص پرواہ بھی نہیں رہتی ہے۔ نظیرؔکے نزدیک
تندرستی سب پرمقدم ہے۔وہ اسی سبب تندرستی اورآبرو کی خاطر خالق کائنات سے دعا گو
نظرآتے ہیں ؎
پروا نہیں اگرچہ لکھا یا پڑھا نہ ہو
محتاج حق سوا یہ کسی اور کا نہ ہو
حسن و جمال و علم و ہنر گوملا نہ ہو
اک تندرستی چاہیے کچھ ہووے یا نہ ہو
جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست
درحقیقت انسان کو معاشرتی زندگی میں صحت وتندرستی کے
ساتھ آبرو بڑی عزیز اور دل پذیر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے نظیر کے شعر پر غور کیجیے ؎
ادنیٰ ہو یا غریب تونگر ہو یا فقیر
یا بادشاہ شہر کا یا ملک کا وزیر
ہے سب کو تندرستی و حرمت ہی دل پذیر
جو تو نے اب کہا،سو یہی سچ ہے اے نظیر
جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست
’تندرستی
اور آبرو‘نظم میں 6بند ہیں۔ خالق کائنات نے جس انسان کوبھی یہاں پر صحت وحرمت اوررتبے
سے نوازا ہے۔شاعر کی نظر میںاس انسان پر فضل الٰہی کا خاص پرتوہے ؎
صحت و حرمت سے گر اللہ یاں کردے نباہ
اس برابر کون سا ہے پھر جہاں میں عز و جاہ
اب جو ہم اس بات کے رتبے کو کرتے ہیں نگاہ
کیا کسی عاقل نے یہ نکتہ کہاہے واہ واہ
تندرستی کو نپٹ فضل الٰہی بوجھیے
آبرو سے جگ میں رہنا بادشاہی بوجھیے
اللہ نے انسان کوجتنے بھی نعمتوں سے نوازاہے ان سب میں
صحت وحرمت کی دولت سب سے بڑھ کر ہے۔ انسان کی آبرو موتی کے آب سی ہوتی ہے۔تمام عیش
و آسائش تندرستی کے لطیف حیلے ہیں جو مادی اسباب سے حاصل ہوتے ہیں۔مگر بوڑھا،
جوان، عالم، فاضل، گدا، بادشاہ، میر، وزیر، تونگر، غنی، بے نوا اور فقیر سب کے سب
صحت وحرمت کے نکتے کی تقدیم کے قائل ہیں
؎
ہیں جہاں تک خلق میں پیر وجواں خرد و کبیر
عالم و فاضل گدا و بادشہ میر و وزیر
کیا تونگر کیا غنی کیا بے نوا اور کیا فقیر
سب جہاں میں ہیں اسی نکتے کے قائل اے نظیر
تندرستی کو نپٹ فضل الٰہی بوجھیے
آبرو سے جگ میں رہنا بادشاہی بوجھیے
ناچیز نے نظیر کی شاعری کو ایک دوسرے زاویۂ نظر سے دیکھنے
کی طالب علمانہ کوشش کی ہے۔اس کی شاعری کا محور ومقصد کچھ بھی ہو،لیکن یہ بسہولت
کہا جا سکتاہے کہ انھوں نے انسانی زندگی کے بنیادی امور پربڑی توجہ صرف کی ہے۔زندگی
میں صحت وتندرستی کے ساتھ سب سے بڑی حقیقت معاش ومعیشت، روزی روٹی کے لیے پیسہ ہی
کمانا ہے۔یہ ہماری حیات وزیست کا مرکزی مسئلہ ہے جس پر ہر دور کے دانشوروں اور فکر
وشعور رکھنے والے تخلیق کاروں نے خاصی توجہ دی ہے۔نظیر اکبر آبادی کا کلام بنی
نوع انسان کے لیے ایک طرح کا جام جہاں نما
ہے جس میں متنوع موضوعات واسالیب کی فراوانی ہے۔لیکن میں نے اپنے مطالعے کو عنوان
تک ہی محدود رکھا ہے۔جس کی حقیقت کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔جہانِ فانی میں
ہرفردوبشر دولت و صحت کی نعمت حاصل کرنے کے لیے پریشان وسرگرداں ہے۔نظیر نے عام
موضوع کو فکری بصیرت سے ایک موضوع کو سو رنگ سے باندھ کر شعری تخلیق کو انتہا پر
پہنچا دیا ہے۔شاعر نے اس موضوع پر جن حکیمانہ بصیرتوں سے اظہار خیال کیا ہے۔ وہ دیگراردو
شعرا کے یہاں اس مرتبے پر نظر نہیں آتا۔ نظیر نہ کارل مارکس سے واقف اور نہ ہی
خواجہ مزدور کی کشاکش سے آگاہ تھے۔ ان کی نظر میں نہ فرانس کا انقلاب تھا اور نہ
ہی روسی انقلاب کی آمد کی بشارت تھی۔حیرت ہوتی ہے کہ نظیر کو آفتاب تازہ کے طلوع
سے پہلے ہی بنی نوع انسان کی روزی روٹی کے لیے اس قدر فکر دامن گیر تھی۔ ان کی
دولت و صحت سے متعلق نظمیں فلسفیانہ نقطۂ نظرکی عکاس ہیں۔ یہ بڑے حکیمانہ اور
منطقانہ انداز میںپیش کی گئی ہیں، جن میں تفکر،تنوع اور موضوعات کا فلسفیانہ بیان
ہے۔نظم کا بیانیہ عوامی اور کوچہ وبازار کا غماز ہے۔نظیر نہ فلسفی اور نہ ہی مشرق
ومغرب کے اصول فلسفہ سے گہری واقفیت رکھتے
تھے۔ہاںوہ ایک باشعور بالغ نظر عوامی احتیاجات اور ترجیحات پر نظر رکھنے والے فن
کار تھے۔انھوں نے اقتصادی ابتری اور اسباب کے مختلف روپ کومنظوم کرکے ہماری شعریات
میںایک نئی طرز فکر کو فروغ دیا ہے جس پر اہل دانش کی توجہ درکار ہے۔
Dr. Sarfaraz
Satyawati College
Dept of Urdu (Guest Faculty)
New Delhi - 110052
ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2021
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں