21/10/21

اکیسویں صدی میں اردو تنقید نگاری کی پیش رفت ریاستِ اڈیشا کے حوالے سے - مضمون نگار: سعید رحمانی

 


ادب میں تنقید کو اگرچہ ثانوی حیثیت حاصل ہے، اس کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تنقید ہی معیاری تخلیق کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔  اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔تنقید کا تعارف کئی طرح سے پیش کیا جاچکا ہے جس کا ایک معنی فیصلہ صادر کرنا بھی ہے۔مگر اس کا اصل مقصد کسی بھی تخلیق کے محاسن اور معائب کی غیر جانبدارانہ نشان دہی ہے۔اگر ناقد ایک آمر کی طرح فیصلہ صادر کرے تو تنقید کی روح کو ٹھیس پہنچنا ناگزیر ہے۔

ادب کی دیگر اصناف کی طرح تنقید کو بھی صنف کا درجہ حاصل ہے۔یہی وہ صنف ہے جو دیگر اصناف کے فن پاروں کی تطہیر کا فریضہ ادا کرتی ہے۔اس کا کام کسی بھی فن پارے کی تفہیمِ نو ہے مگر حرفِ آخر نہیں۔جن ناقدین نے ادب پاروں کو اپنی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اس کے نتیجے میں کسی فن پارے کا قد اونچا ہوا تو کسی کا سر قلم کیا گیا یا پھر کسی کو نیم وحشی ٹھہرایا گیا۔چنانچہ ناقدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فن میں غیر جانبدار ہوں اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرکے بتائیں۔اسی بات کو جمیل مظہری نے اپنے شعر میں اس طرح موزوں کیا ہے       ؎

نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سپیدی کے ہیں دوست

ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں

مختصراً کہا جائے تو کھرے کھوٹے کے درمیان امتیاز کرنا تنقید کا نصب العین ہے مگرگزشتہ صدی کے ابتدائی برسوں میں تنقید ابتدا سے لے کر ارتقائی مرحلے طے کرنے کے دوران عصبیت اور جانبداری کا شکار رہی۔تنقید کا بنیادی مقصد ہی پسِ پشت جا پڑا۔اس میں خوشگوار تبدیلی بیسویں  صدی کی آٹھویں دہائی میں نظر آئی۔منفی رویوں کو ترک کرکے ناقدین نے کشادہ دلی اور لچکدار رویہ اپنایا اور اپنے فن میں غیر جانبداری سے کام لیا۔ان معروضی نظر رکھنے والے ناقدین نے اردو تنقید کو مغربی تنقید کے مقابل کھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔اس نوع کے ناقدین میں قمر رئیس کو بلند مقام حاصل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں دہے میں بعض سیاسی ضرورتوں اور وقتی عوامل کے زیراثر مارکسی تنقیدی رویے میں انتہا پسندی اور میکانیت کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ پلیخانوف نے اپنی تحریروں میں فن وادب کے تخلیقی سرچشموں اور جمالیاتی قدروں کے مطالعوں کا معروضی لیکن محنت طلب طریقِ کار بنایا اورجو مارکسی تنقید کی بنیاد تھا اسے جلد ہی نظر انداز کر دیا گیا۔

ان کے اس خیال سے اس لیے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند وں کی انتہا پسندی اتنی شدت اختیار کر چکی تھی کہ انھوں نے اردو کے کلاسیکی سرمایے کو بورژوائی ذوق اور زمیندارانہ نظام کی پیداوار قرار دے کر دریا برد کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔ اس سے آگے بڑھ کر اقبال کو فاشسٹ اور ٹیگور کو فراری بتایا۔اردو شاعری ان کی نگاہوں میں زندگی سے بے تعلق اورعصری مسائل سے بے بہرہ نظر آئی۔ یہ دراصل مارکسی نظریے کی غلط تعبیر کا نتیجہ تھا جس کی بنا پر ترقی پسندوں نے انتہا پسندی کی حد کردی۔ البتہ بیسویں صدی کے چھٹے دہے میں انھیں اپنی شدت پسندی کا احساس ہوا تو اپنے رویے میں نرمی اور لچک پیدا کی۔ادب کو پروپگنڈہ اور نعرہ بازی کہنے والے یہ حضرات کشادہ دل ہو گئے جسے پریم چند کی کوشش کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے۔پریم چند کا یہ جملہ کہ ’’ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہے‘‘بڑا کارگر ثابت ہوا اور ترقی پسندوں نے اپنے رویے میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔

اسی بیسویں صدی میں تنقید کی مختلف جہتیںبھی رونما ہوئیں،جنھیں جمالیاتی تنقید ،تاثراتی تنقید،تاریخی تنقید، نفسیاتی تنقید، کلاسیکی تنقید،تقابلی اور تجزیاتی تنقید، عملی تنقید،  رومانی تنقید،سماجی یا عمرانی تنقید،مارکسی تنقید، سائنٹیفک تنقید، جدید تنقید وغیرہ وغیرہ سے موسوم کیا گیا۔ ان میں پروفیسر حامدی کاشمیری کی اکتشافی تنقید کو بھی شامل کر لیا جائے جس کو موضوع بنا کر انھوں نے تنقیدی ادب میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔موصوف کے اکتشافی نظریے کو غور سے دیکھنے پر اس میں کوئی انفرادیت نظر نہیں آتی کیونکہ اس کی جڑیں اسلوبیات، ساختیات، پسِ ساختیات کے بیشتر مفروضات سے پیوست ہیں۔ اس لیے ان کی اس تھیوری کو منفرد ہونے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔

بہر حال ان تنقیدی تصورات کی وجہ سے ادب کی تفہیم و تعبیر کے لیے در وا ہونے لگے۔ بشریاتی علوم (Social  Science) کے دائرۂ کار میں توسیع کے ساتھ ساتھ تفہیم و تخلیقِ ادب کی سرحدیں بھی پھیلنے لگیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ مروجہ تنقیدی روش کے کلیت پسند عمل سے گریز اور تفہیمی عمل کے رشتوں کو علم کے دوسرے منطقوں سے جوڑنے کی روش عام ہونے لگی۔مروجہ تنقید پر جو جمود طاری تھا اس کو متحرک کرنے میں ما بعد جدیدیت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

کلاسیکی تنقید سطحی طریقۂ کار کے سبب تفہیم و تعبیر کا عمل سکہ بند ہو کر رہ گئی۔ اس میں ناقد کی خود نمائی اور خود سری کی وجہ سے ادبی متون کے فعال رشتے بھی منقطع ہو گئے۔ اس ذیل میں حالی اور کلیم الدین کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حالی نے ادب کے اصلاحی پہلو پر زور دیا اور کلیم الدین احمد نے اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ادب کے ایک بڑے حصے کی تکفیر کی۔بعد کے دور میں ترقی پسندوں نے ادب کو کمیونسٹ منشور بنایا۔جدیدیوں نے ہیئت پرست تنقید سے ناطہ جوڑ کر ادب اور ثقافت کے تعامل کو نظر انداز کیا اور متن کی خود مکتفیت کے مبلغ بن گئے۔وہ متن سے باہر پیدا ہونے والی صورتِ حال کو تفہیم متن کے سلسلے میں بے معنی تصور کرنے لگے۔یہ دور پروپگنڈہ اور نعرہ بازیوں کا بھی رہا۔

پھر ما بعد جدیدیت کی تحریک چلی جس کے سبب تنقیدی عمل پر طاری جمود پگھلنے لگا۔آمریت دم توڑنے لگی۔ اس تحریک سے جڑے ساختیات،پس ساختیات اور اسلوبیات نے تعبیر وتفہیم کے روایتی زاویوں کی کم مائیگی اور سطحیت کو طشت از بام کیا۔متن کی لسانی خود مکتفیت پر اصرار کرنے والی غیر منطقی حیثیت کو رد کیا۔پس ساختیات متن کے غیر سالم وجود پر اصرار کرتی ہے اور معنیٰ مرکز کے ساختیاتی تصور سے گریز کرتے ہوئے متن میں پائی جانے والی متضاد صورتِ حال کو واشگاف کرنے پر زور دیتی ہے۔

الغرض تفہیم کے مذکورہ بالا منطقوں نے قدیم و جدید متون کی باز قرأ ت کااحساس اجاگر کرنے کے علاوہ ان مذکورہ نظریات کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔اس ضمن میں گوپی چند نارنگ،وزیر آغا،وہاب اشرفی،شمیم حنفی،قاضی افضال ،شافع قدوائی،ابو الکلام قاسمی اور حامدی کاشمیری خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

ترقی پسند رجحان کا دور 1953 تک رہا۔ پھر جدیدیت 1953 سے 1970 تک حاوی رہی مگر 1980 کے آتے آتے اس کا اثر بھی زائل ہونے لگا کیونکہ 1985 تک یہ دقیانوسیت ،عصبیت اور ادعائیت کا نمونہ بن گئی تھی۔اب خود کو محفوظ گھونسلے میں سمیٹنے کا وسیلہ بن چکی ہے۔ ان حالات میں مابعد جدیدیت میں شامل نئی فکریات کی تازہ ہوا چلنے لگی اور اکیسویں صدی میں داخل ہو کر تخلیق و تفہیم کے بام ودر کو مہکا نے لگی۔

بقول نظام صدیقی ’’اکیسویں صدی کے عالمی،قومی اور مقامی تناظر میں ہر سطح پر نئے عہد کی تخلیقیت کا جشن جاریہ قائم ہے۔یہ ما بعد جدیدیت کا تیسرا رخ ہے جو مابعد جدیدیت کے پہلے رخ کی فکریاتی، علمیاتی،ثقافتی اور غیر جمالیاتی انتہا پسند رخ کی ہر نوعیت کی مردہ روایت سے یکسر گریزاں ہے اور ما بعد جدیدیت کے نسبتاً دوسرے محتاط ،مثبت ،معقول،زندگی افروز اور فن پرور رخ کی زندہ ،نامیاتی اور متحرک روایت کی جست گاہ سے بے محابا زقند بھر کر نئے عہد کے ناقابل تسخیر تحرک سے ہم آہنگ ہو گئی ہے۔‘‘

اکیسویں صدی میںاردو تنقید کی سطح پر ما بعد جدید تنقید وادب کے مرکزی تصورات اور فکریاتی امتیازات کے چند پہلو حسب ذیل ہیں:

(1)     اکیسویں صدی کے شعری و افسانوی ادب میں مابعد جدید تنقید اپنی مخصوص شعریات تخلیق کرنے لگی ہے۔ اس کے تحت نئی جمالیات اور نئی قدریات معرض وجود میں آرہی ہے جن کی اساس رد تشکیل کی فکریات پر ہے۔یہ تنقید جامد اور ساکن نہیں بلکہ زندہ نامیاتی اور متحرک کردار رکھتی ہے۔ اس سے جدیدیوں کی انتہا پسندی کی رد تشکیل بھی ہو رہی ہے اور نئے توازن کی تلاش بھی جاری ہے۔

(2)     یہ جدیدیت پسند موضوعات کی یکسانیت اور سکہ بند رویوں سے بھی گریزاں ہیں۔اس کے علاوہ نرگسیت اور مریضانہ فردیت پسندی کی بے جا تکرار سے بھی احتراز کرتی ہے۔

(3)     مابعد جدید قلم کار ایسے پامال اور فرسودہ راہوں سے گریز کرتے ہیں جو غیر صحت مند دقیانوسیت، ابہام، اشکال اور اہمال سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس کے برخلاف وہ شعوری طور پر مشرقی تہذیبی جڑوںکی تلاش کرتے ہیں جن کا واسطہ تہذیبی شناخت،تہذیبی سچائی اور اپنے دیش کی مٹی سے ہے۔اس کے نتیجے میں لوک گیتوں اور عوام پسند ہیئتوں مثلاًدوہا، اردو دوہا، ماہیا، گیت، کہہ مکرنی، تکونی، تربینی جیسی اصناف کے فروغ کی راہیں کشادہ ہوئی ہیں۔

(4)     مابعد جدید ادب میں خارجی ساخت اور داخلی ساخت جیسے تصور کے سبب اردوقاری کو یہ احساس دلایا ہے کہ زبان صرف صاف شفاف ہی نہ ہو بلکہ تخلیقیت پرور بھی ہو۔ یہی اول وآخر تخلیقیت پرور ویژن ہے جو علامت (Sign)، فرق(Difference)، اور التوا (Deferment) کی سطح پر عمل پیرا ہے۔ اس لیے ما بعد جدید شعراکا اسلوب روشن اور چابک دست ہوتا ہے۔ جدیدیت پسند شعرا کے مبہم کہر آلود طرز اظہار کے مقابلے میں زیادہ واضح ہے اور ترسیل و ابلاغ کا موقع فراہم کرتا ہے۔

(5)     ما بعد جدید تنقید فارمولہ ، سکہ بند اور فیشن گزیدہ تحریر کے خلاف ہے۔اس میں موضوعی اعتبار سے کسی طرح کی یکسانیت،یک رنگی،مشروطیت پسندی یا نظریہ بندی نہیں ہوتی ہے کیونکہ یہ باتیں حقیقی تخلیقیت اور معنویت کی دشمن کے برابر ہیں۔اسی لیے پروفیسر گوپی چند نارنگ فرماتے ہیں:’’ہم ایک ایسے مابعد جدیدیت کے عہد میں زندگی گزار رہے ہیں جو تخلیقیت کا ایک جشنِ جاریہ ہے‘‘۔

(6)     مابعد جدید تخلیقی ادب حقیقت کی جستجو نہیں کرتا بلکہ خود اپنی حقیقت کی تخلیق کرتا ہے اور یہ اس کا بنیادی نقطہ ہے۔

(7)     بین المتونیت اس کا مرکزی تصور ہے۔ما بعد جدید تنقید فوق متن(Para Text)پر زور دیتی ہے اور معنویت کو اس میں اہمیت حاصل ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ بین المتونی جدیدیت اور ما بعد جدید یت کے درمیا ن حد فاصل قائم ہے۔

(8)     مابعد جدیدیت ترین نظریہ عالم  (Carte sian World  View)کی ردِّ تشکیل کرتی ہے اور سالم نظریہ عالم(Holistic  wrold View)کو قبول کرتی ہے۔اس کے نتیجے میں تخلیق یا کلام کی اپنی جڑوں کی تلاش مزید استوار نظر آتی ہے۔

(9)     یہ فطری آزادی پر اصرار کرتی ہے اورآہن پوش مرکزیت نہیں رکھتی۔یہ ترقی پسندی کی سطحی خارجیت اور جدیدت کی سطحی داخلیت کو بلندی عطا کرکے اس میں ہمہ جوئی اور ہمہ رنگی کی شان بھی پیدا کرتی ہے۔چنانچہ اس کی لامحدودیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

(10)  ما بعد جدید ہر طرح کی یک رنگی،کلیت پسندی، آمریت،فارمولہ سازی اور ہم نظمی کی ردِّتشکیل کرتی ہے۔ اکیسویں صدی کے سیاق و سباق میں اضافی تخلیقیت، معنویت،عصریت اور مقامیت کا جشنِ عالیہ ہے۔یہ کوئی مہابیانیہ یا کوڈ نہیں ہے۔

اکیسویں صدی میں اردو تنقید کے حوالے سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ادب کے تعلق سے ایسے دو خیموں کی نشاندہی کی ہے جو نظریاتی بنیاد پر استوار ہیں۔ ادب کا پہلا خیمہ عمرانیات کا انتہا پسند مبلغ ہے‘جب کہ دوسرا خیمہ ادب کی جمالیات پر مصر ہے۔ادب کی امریکی عمرانیات ،این ٹی یو نیو گراسی کی عمرانیات ،میری ایگلٹن کی عمرانیات،لونا چار مسکی کی عمرانیات نئے تناظر میں نئے معیار و اقدار کی تشکیل کرتی ہے جس سے اردو کے سہل پسند ناقدین اب تک نا واقف ہیں اور اُگلے ہوئے نوالے کو بار بار چبا کر اپنے تابع قلم کار وں کی مٹی خراب کرتے ہیں۔دوسری طرف فیشن گزیدہ جدید ناقدین عالمی تنقیدی سیاق سے یکسر غافل ہیںاور جدیدیت کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں۔انھیں زندگی کے حقائق سے کوئی سروکار نہیں۔زندگی کی حد بندی کو ختم کرنے کے بجائے اس کی ثنویت کو بڑھانے میں لگے ہیں۔اس کا نتیجہ ڈاکٹرمناظر صاحب کے الفاظ میں دیکھیں۔وہ کہتے ہیں’’اکیسویں صدی میں پوشیدہ مفاد کے تحت ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کا رویہ یقینی طور پر سامنے آئے گا۔ہم جانتے ہیں کہ تخلیقی بصیرت زندگی کی تجربہ گاہ میں جنم لیتی ہے۔ لسانیات، اسلوبیات اور وضعیات کے لیب میں نہیں۔ زندہ آدمی اور مردہ مینڈک میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ادب و تنقید سے آدمی کو بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے سُلانے اور کند ذہن بنانے کی نہیں۔اس کے بر خلاف پوشیدہ مفاد گزیدہ انتہا پسند،ترقی پسند اور فیشن گزیدہ ،جدیدیت پسند تنقید اردو میں عمداً وقت کے زندہ مسائل ، اقدار اور معیار سے روگردانی کرتی ہے۔آدمی ہر نئے دور میں نئی جمالیات ،نئی اخلاقیات کا فطری طور پر خالق ہوتا ہے۔صرف پرانے آہن پوش نظریاتی آثار کا روبوٹی اور کمپیوٹری مخلوق نہیں ہوتا‘‘

اکیسویں صدی میں ما بعد جدید تنقید کے تحت ساختیاتی تنقید اہم رول ادا کر سکتی ہے۔ساختیاتی تنقید کو نئی نئی تنقید بھی کہا جاتا ہے۔مختصر یہ کہ اکیسویں صدی میں افہام و تفہیم کے نئے نئے باب وا ہونے لگیں گے اور نئی جمالیات واخلاقیات کے متوازن رویوں کی راہیں کشادہ ہو رہی ہیں۔

ادب کے عصری منظر نامہ میں جو قلمکار جدید تنقیدی مباحثے میں سرگرم حصہ لے رہے ہیں ان میںسے چند نام ہیں: حامدی کاشمیری، عتیق اللہ،  صادق ، انیس اشفاق،  طارق چھتاری، شافع قدوائی، ابوالکلام قاسمی، ریاض صدیقی، نظام صدیقی، مہدی جعفر، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، بلراج کومل، حقانی القاسمی، احمد سہیل، پروفیسر مولا بخش ، قیصر الاسلام وغیرہ۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا اکیسویں صدی میں مابعد جدید یت نے ہماری ادبی،عمرانی اور ثقافتی دنیا میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے۔اس کی کشادہ ذہنی نے کسی طرح کی پابندی قبول نہیں کی۔یہ ہر طرح کے ڈسکورس میں آزادی کی تائید کرتی ہے اور ہر قسم کے منفی رجحانات اور پسماندہ میلانات کے لیے ایک چلینج بن کر ابھرنے لگی ہے۔

اڈیشا میں اردو تنقید:

تنقید نگاری کے تعلق سے اگر ریاستِ اڈیشا کی بات کی جائے تونثر نگاروں کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی۔ایسے میں ظاہر ہے کہ تنقید نگاروں کو انگلیوں پرگنا جاسکتا ہے،جو چند نام راقم الحروف کے ذہن میں ہیںان میں پروفیسر کرامت علی کرامت کو اولیت حاصل ہے۔ ان کے بعدشکیل دسنوی،عبدالمجید فیضی، عبدالمتین جامی، سعید رحمانی، خاور نقیب اور یوسف جمال کا نام لیا جاسکتا ہے۔ یہ حضرات تبصرہ نگاری کے ساتھ ساتھ تنقید نگاری کا پختہ شعور بھی رکھتے ہیں۔

پروفیسر کرامت علی کرامت کی ہمہ جہت شخصیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔شاعری اگرچہ ان کی اولین ترجیح ہے مگر بحیثیت تنقید نگار انھیں عالمی شہرت حاصل ہے۔ تنقید پر مبنی ان کی نظریہ ساز تصنیف ’اضافی تنقید‘ کو کافی شہرت ملی ہے۔اس کتا ب کو پیش کرکے انھوں نے تنقید کے باب میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ان کے نظریۂ اضافیات پر روشنی ڈالنے سے پہلے یہ بتا دوں کہ فنِ تنقید سے متعلق ان کا نقطۂ نظر کیا ہے۔وہ کہتے ہیں:

’’زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کے علوم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان علوم کا اثر ناقدین کے تنقیدی شعور پر بھی پڑتا ہے۔جس وقت شاعری اپنے فن کی قبا میں زندگی کے نئے مسائل کو جذب کرلینے کی کوشش کرتی ہے،اس وقت فنِ تنقید کو بھی اپنا پیمانہ بدلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایک ناقد کا فرض تنقید کو روکنا نہیں بلکہ پرانی قدروں کی جگہ نئی قدروں کو پیش کرنا ہے۔چونکہ انسان کا ذہن و شعورارتقا پسند ہے اس لیے کسی بھی تنقیدی اصول کوحرفِ آخر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

ان کا یہ خیال مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ شعر کی تفہیم ہر قاری یا ناقد اپنے فہم وادراک کے مطابق الگ الگ ڈھنگ سے کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب کی رائے یکساں ہو۔ ایک ناقد کی تنقیدی رائے کا دوسرے ناقد سے جدا ہونا فطری امر ہے۔چناچہ کسی بھی تنقیدی اصول کو حرفِ آخر سمجھا نہیں جاسکتا۔

موصوف نے اضافی تنقید کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ شاعر کے ذہن کے مختلف مدارج میں جذبات کی اضافی فراوانی پائی جاتی ہے۔اپنے نظریۂ اضافیات کے بارے میں کہتے ہیں:

’’میرا اضافیات کا نظریہ ایک حد تک ٹالسٹائی کیInflection   theory سے بہت قریب ہے جسے انھوں نے ہر طرح کے آرٹ کے لیے پیش کیا ہے۔شعر کے Inflectionکی مقدار کو مدِ نظر رکھاجائے تواس میں جذبات کی اضافی فراوانی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔Inflection کی مقدار کے تعین کے وقت جو Infelctedہوتے ہیں کی شرط کی بجائے صرف باشعور قاری یا ناقد کے ذہن میں تخلیقِ ثانی کے دوران کی تکمیل کی کس حد تک جذبات کی فراوانی ہوتی ہے،کی شرط رکھی جائے تو عملی تنقید میں نظریۂ اضافیات کا بآسانی استعمال ہوسکے گا۔‘‘

اس کتاب میں نظریۂ اضافیات کی توضیح کے علاوہ جدید شاعری،غالب کاکلام جدید میزان پر،ترسیل کی ناکامی کا مسئلہ،امجد نجمی اور مظہر امام کی شاعری کا محاکمہ اور آج کے جدید شعرا جیسے موضوعات پر وضاحت سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

تنقید نگاری میں سید شکیل دسنوی(مرحوم)نے اپنی بالغ نظری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ان کی کثیر الجہات شخصیت اظہر من الشمس تھی۔شاعری کے علاوہ نقد وتحقیق اور افسانہ نگاری میں بھی انھوں نے اپنے کمالِ فن کا ثبوت دیا ہے جس کااعتراف کرنے والوں میں پروفیسر شکیل الرحمن، مجروح سلطانپوری،   بشر نواز، تسنیم فاروقی، علی احمد جلیلی، رفعت سروش، یوسف ناظم، عنوان چشتی،مخمور سعیدی جیسی ذی وقار شخصیتیں شامل ہیں۔ان کے چھ شعری مجموعوں سے جہاں ان کی شاعرانہ بصیرت کا پتہ چلتا ہے وہیں نقد وتحقیق پر مبنی دو تصانیف بازدید اور اندازِ بیاں اپنا،ان کی تنقیدی اور تحقیقی بصیرت کی آئینہ دار ہیں۔ بازدید میں ان کے تبصرے شامل ہیں جبکہ اندازِ بیاں میں مختلف ادبی شخصیات کے خاکے اور ان کے فکر وفن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

تنقید نگاری ایک مشکل فن ہے۔شعرو ادب کی پرکھ کرنے والے ناقدین میں گہرے تجرباتی شعور کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ عمیق مشاہدہ اور ژرف بینی جیسی صلاحیتیں بھی لازمی ہیں۔ اس تناظر میں شکیل صاحب کے تنقیدی مقالات پر نظر ڈالیں تو ان کے منطقی دلائل ،نتیجہ خیز تنقیدی عمل اور شگفتہ بیانی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں عام روش سے ہٹ کر ان کی تحریریں ہمہ جہت زاویۂ نگاہ اور تکثیریت کا احساس دلاتی ہیں۔ کسی بھی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار اس طرح کردیتے تھے کہ ان کی حق گوئی اور بیباکی کا اعتراف ضروری ہوجاتا ہے۔

عبدا لمجید فیضی صاحب کا تعلق اڈیشا کے شہر سمبلپور سے ہے جسے اردو کا بنجر علاقہ کہا جاسکتا ہے۔ایسی جگہ پرورش وپرداخت کے باوجود فیضی صاحب نے اپنی تخلیقیت کے گل بوٹے کھلاکر اردو کی ہمہ گیریت کا ثبوت دیا ہے۔موصوف اردو کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں اور ان زبانوں کے شہ پاروں کو اردو میں منتقل کرکے گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔سنسکرت کے 3 سو اشلوکوں کو براہِ راست اس طرح اردو کا جامہ پہنایا ہے کہ ان پر ترجمے کا گمان نہیں ہوتا۔گلدستۂ نعت کی اشاعت کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ’نغماتِ سرمدی‘ زیرِ طبع ہے جس میں عربی سے حجۃالوداع کا منظوم ترجمہ اردو میں کیا گیا ہے۔ ماہرِ عروض بھی ہیں اور نقد وادب کا پختہ شعور رکھتے ہیں۔ بہت سے شعری مجموعوں کی تقریظ اور پیش لفظ لکھنے کے علاوہ ان کے متعدد تنقیدی مضامین بھی رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ان کی تحریروں میں سلاست وشگفتگی بھی ہوتی ہے اور ان کی صلابتِ فکری کا پتہ بھی چلتا ہے۔بنا کسی لاگ لپیٹ کے وہ فن کے محاسن اور معائب کی نشاندہی کردیتے ہیں۔

عبدالمتین جامی صاحب بھی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ شعروادب، تنقید وتحقیق کے علاوہ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر اڈیشا میں صنفِ رباعی کے فروغ  کے لیے ان کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔ایک شعری مجموعہ اور رباعیات کے دومجموعے منظرِ عام پر آکر پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔وہ ماہرِ عروض بھی ہیں اور تنقید نگاری میں بھی اپنی ژرف بینی کا ثبوت فراہم کررہے ہیں۔ تنقیدی مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ’نئی تنقیدی جہت‘ زیرِ طبع ہے۔ مختلف مجموعوں پر ان کے تبصرے ادبی محاذ کے علاوہ دیگر رسائل میں بھی تسلسل سے شائع ہورہے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں حق گوئی اور بیباکی ہوتی ہے۔ وہ بلا کسی ذہنی تحفظ کے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ادبی دنیا میں انھیں معتبر مقام حاصل ہے۔

سعید رحمانی سرِ دست ایک صحافی کے بطور اپنی شناخت رکھتے ہیں ’ادبی محاذ‘ گزشتہ 12؍ سال سے ان کی ادارت میں بڑی پابندی سے شائع ہورہا ہے۔اب کبر سنی کے باعث انھوں نے یہ ذمے داری سید نفیس دسنوی کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔ بہرحال بنیادی طور پر شاعر ہیں اور نقدوادب میں بھی اپنی بالغ نظری کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔تبصروں کے علاوہ ان کے بیشتر تنقیدی مضامین رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔بہت سی کتابوں کے لیے پیش لفظ اور تقریظ بھی لکھ چکے ہیں۔ مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ’شناساچہرے‘ زیرِ ترتیب ہے۔

خاور نقیب صاحب بھی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔شاعری کے علاوہ نقد وتحقیق اور صحافت میں قابلِ قدر کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ مجلہ’ترویج‘ ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے اور ادبی حلقوں میں پسند بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے تبصرے اور تنقیدی مقالات میں صلابتِ فکری، ژرف بینی اور شگفتگی کا احساس ہوتا ہے۔ منفرد طرزِ تحریر میں دانشورانہ رنگ واضح نظر آتا ہے۔

یوسف جمال صاحب ایک معتبر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بالغ نظر تنقید نگار بھی ہیں۔ان کا ایک شعر مجموعہ ’خشک جزیرے کی دعا‘ شائع ہوچکا ہے۔ان کے تنقیدی مقالات بیشتر رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ان کی تحریریں فکری ارتفاع کا نمونہ ہوتی ہیں۔ان کے تعلق سے خاص بات یہ ہے کہ آزاد غزل کے ہراول دستے میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔

 مندرجہ بالا سطور میں جن شخصیات کا حوالہ دیا گیا ہے انھیں مابعد جدید قلمکاروں کے ذیل میں رکھا جاسکتا ہے کیونکہ وہ ان پامال اور فرسودہ راہوں سے گریزاں ہیں جو غیر صحت مند دقیا نوسیت،ابہام،اشکال اور اہمال سے جڑی ہوئی ہیں۔انھیں مشرقی تہذیب کی جستجو رہتی ہے اور وہ ادب کو دیش کی مٹی سے جوڑنے پر مائل ہیں۔ ان کے یہاں سکہ بند رویہ نہیں پایا جاتا۔انھیں نرگسیت اور مریضانہ ذہنیت سے بھی احتراز ہے۔آخر میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ جو معدودے چند تنقید نگار ہیں ان کے دم سے ہی اڈیشا میں تنقید نگاری کا بھرم قائم ہے      

کتابیات:

1       اضافی تنقید

2       بازدید

3       اندازِ بیاں

4       تمثیلِ نواکتوبر 2010 تا مارچ  2011

5       ایونِ اردو ستمبر 2009

6       اردو دنیا اگست 2016

7       مجلہ ترسیل،سرینگر۔شمارہ نمبر12

8       آن لائن رسالہ کائنات،شمارہ نمبر1، جنوری 2004

 

Sayeed Rahmani

Editor 'Adabi Mahaz'

Deewan Bazar

Cuttack - 753001 (Odisha)

Email.: sayeedrahmani@gmail.com

 

 

 

 


 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں