22/10/21

غالب کے غیرمتداول کلام سے تین اشعار اور ان کی تشریح - مضمون نگار: جمال عبد الواجد

 



چند غلط فہمیوں کی بنا پر غالب کا غیرمتداول کلام بدقسمتی سے عام طور پر غیرمعروف ہے۔ غالب کی شہرت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، تعجب ہے اس کے بارے میں لکھا بھی بہت کم گیا ہے۔1 حتیٰ کہ خود غیرمتداول کلام عام قاری کی دسترس سے باہر ہے۔ آج اس کلام کا کوئی ایسا مجموعہ نہیں جو عام قاری کو آسانی سے مل سکے۔2 اس میں شک نہیں کہ غیرمتداول کلام کے بیشتر اشعار دقیق اور عسیرالمعنی ہیں،3 لیکن  اس کے معنی یہ نہیں کہ ایک عظیم شاعر کے کلام کا ایک معتد بہ حصہ4 محض کچھ اشعار کے ’مشکل‘ ہونے کی وجہ سے پورے کا پورا بنا کسی تنقیدی و تجزیاتی قرأت کے سرسری طور پر نظرانداز کردیا جائے۔ اصل میں دشواری یہ ہے کہ غیرمتداول کلام میںاکثر الفاظ اپنے غیرمانوس معنی، نئی تشبیہات اور کثیرالجہت علامات5 اور ابہام6 وتضاد  کا استعمال وسیع طو رپر ہوا ہے، جس سے بعض اوقات فاضل شارحین بھی دھوکے میں پڑ جاتے ہیں اور اچھے خاصے شعر کو ’لایعنی‘، ’مہمل‘ کہہ دیتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت میں غالب کے غیرمتداول کلام سے چند اشعار پیش ہیں           ؎

وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جاوے

مجھ سا کافر کہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

یہ بہت  دلچسپ شعر ہے۔ اس کے معنی میں، خاص کر مصرعِ ثانی میں بظاہر ایک تضاد ہے۔ شارحین 7,8,9,10,11,12 ، غیرمتداول کلام غالب اور ا س کے انگریزی مترجم8 نے اس کے معنی الگ الگ دیے ہیں۔ آئیے، پہلے وہ سب بیان دیکھ لیں:

تفسیر غالب... گیان چند جین کہتے ہیں ’’دوسرے مصرع میں الٹی بات کہی گئی ہے۔ کسی طرح اسے سیدھا کرنا ہے۔ ’ممنونِ معاصی‘ کے معنی ظاہراً معاصی سے استفاضہ کرنے کے ہوتے ہیں، یعنی ارتکابِ گناہ کرنا، لیکن یہاں اس مفہوم کی گنجائش نہیں۔ گناہ مجھ پر یہ احسان کرسکتے تھے کہ مجھ کو اپنا شکار نہ بناتے لیکن میں نے ان کا یہ احسان لینا گوارا نہ کیا اور خود کو ان کا تختۂ مشق نہ ہونے دیا۔ خدا کی رحمت اتنی وسیع ہے اس نے مجھ جیسے کافر کو بھی بخش دیا۔‘‘13

مکمل شرحِ دیوانِ غالب... آسی الدنی اس کی شرح یوں کرتے ہیں ’’ذرا اس کریم کی رحمت کی وسعت تو دیکھو کہ اس نے مجھ جیسے کافر کو بخش دیا کہ جو ازلی کافر تھا۔ صرف گناہوں کے احسان سے کافر نہ ہوا تھا یعنی ایسا کافر نہ تھا کہ گناہوں نے اسے کافرکیا ہو،بلکہ ازلی اور فطری کافر تھا۔‘‘14

باقیاتِ غالب... وجاہت سندیلوی، اس کے تین معنی لکھتے ہیں ]جس کے معنی ہیں کہ وہ انھیں ان میں سے کسی کے بارے میں تیقین![ وہ فرماتے ہیں: (1) ’’خدا کی رحمت کی تو دیکھیے وسعت کہ اس نے میرے جیسے کافر کو بخش دیا کہ جس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا تھا، کیونکہ اگر مجھے خدا کی رحمت کا اعتقاد ہوتا، تو میں گناہ بھی کرتا، یا (2) یہ کہ میں ایسا ازلی کافر تھا، جو اپنے کفر گناہوں کا منت کش نہیں تھا، میرے ایسے کافر کا بخش دیا جانا خدا کی رحمت کی وسعت ظاہر کرتا ہے۔‘‘ (3) اس شعر کے ایک طنزیہ معنی بھی نکلتے ہیں: رحمت حق نے اگر میرے ایسے کافرکو بخش دیا، جس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا تھا، تو اس میں کیا کمال ظاہر ہوا؟ میں گناہ کرتا اور بخش دیا جاتا، تو تب واقعی ایک با ت تھی۔‘‘ 15

عنقائے معانی... سرخوش دہلوی ملاحظہ ہو ’’شعرا کہا کرتے ہیں کہ خدا اگر چاہے، تواپنے گنہگاروں کو اپنی رحمت سے بخش دیا کرتا ہے کیونکہ وہ جس قدر کسی کو عاجز اور گناہو ںمیں پھنسا دیکھتا ہے ،اتنا ہی زیادہ رحم کیا کرتا ہے۔ لہٰذا کہتا ہے کہ خدا کی رحمت کی یہ وسعت دیکھ، اس نے مجھ جیسے کافر کو بھی بخش دیا کہ جس نے معاصی، یعنی گناہوں کا بھی احسان نہیں مانا، جو بخشش کا باعث ہوئے۔ گویا یہ خیال تک نہیں بھی اپنے دل میں لایا کہ میں عاصی و گنہگار ہوں۔ حالانکہ عوام اکثر اقرارِ معاصی کرکے برسوں اپنی مغفرت کے لیے دعائیں مانگا کرتے ہیں پھر بھی ناکام رہتے ہیں۔‘‘ 16

ضامن کنتوری 17 بہت سخت گیر ناقد ہیں۔ ان کی شرح میں کوئی شعر مشکل سے ان کے اعتراض سے بچتا ہے۔ غیرمتداول کلام کے اکثر اشعار کو وہ بے معنی، مہمل یا مغلق کہتے ہیں، لیکن اچھے (ان کی نظر میں!) اشعار کی دل کھول کر تعریف کرنے میں بھی بخل نہیں کرتے۔ ان کی اس شعر کی شرح دیکھیے ’’اس شعر میں ’ممنونِ معاصی‘، ’پشیمانِ معاصی‘ ہے۔ ورنہ شعر کے  کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ ’ممنونِ معاصی‘ یعنی احسان مندِ معاصی، مرتکبِ معاصی کے معنی دے گا پھر جب ارتکاب ہی نہیں کیا، تو معصوم ٹھہرے اور جب معصوم ٹھہرے تو بخشے جانے پر تعجب ہی کون سا؟ او رکافر و معصوم کا اجتماع بے معنی ہوگا۔‘‘ غور فرمائیں یہاں انھوں نے ایک تضاد تو دیکھا ہے، لیکن اس کو بامعنی طو رپر سلجھانے میں قاصر رہے۔

اب راقم کی شرح پیش ہے:

میں اپنے گناہوں کو گناہ سمجھتا ہی نہیں تھا، کیونکہ میرے علم اور سمجھ میں یہ گناہ تھے ہی نہیں۔ کسی نے مجھے اس بارے میں واقفیت دی ہی نہیں تھی۔‘‘18 اس  لیے گناہ کا مجھ پر احسان ہی نہیںہوا...  ممنونِ معاصی... یعنی گناہگار نہیں ہوا لیکن میں نے چونکہ اللہ تعالیٰ... یا سماج... کے قوانین کی خلاف ورزی تو بہرحال کی اور دنیاوی عدالتوں میں قانون سے ناواقفیت ایک وافر عذر نہیں مانا جاتا‘‘19 اس  لیے میں سزا کا مستحق تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی وسعتِ رحمتِ حق دیکھیے اس نے مجھے جو گناہگار تھا بھی اور نہیں بھی تھا، بخش دیا۔ اس طرح شعر میں ایک تضاد... ابہام20  ... پیدا کیا گیا ہے، شعر سمجھنے کے لیے جس کا سلجھانا قاری کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔ یہ تضاد کی تکنیک غالب کے اور اشعار میں بھی ملتی ہے۔ ایک سامنے کی مثال ع ’میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

شیخ جی، کعبے کا جانا معلوم!

آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں

اس شعر میں فاضل شارحین سے دلچسپ غلطی ہوئی ہے۔ شعر میں لفظ ’گدھا‘ سے مراد ’شیخ جی‘ لیے ہیں، جب کہ یہ لفظ ... گدھا... شاعر نے خود اپنے لیے کہا ہے۔ یہاں مخاطب... ’آپ‘... ’شیخ جی‘ ہیں۔ اس تسامح کی وجہ سے شارحین قطعی غیرضروری مشکلات میں پڑگئے اور اس کی طرح، طرح کی تاویلات کرنی پڑیں۔ نتیجہ میں بے چارہ شعر ’مہمل‘ اور ’لطیفہ‘ بن گیا۔

تفسیرِ غالب21 ... گیان  چند جین نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے ’’آپ کا کعبہ میں جانا ہمیں معلوم ہے۔ یہ ایسی بات ہوگی جیسے مسجد میں گدھا باندھ دیا جائے۔ شیخ جی کو گدھا کہا ہے‘‘ ] یہ واضح نہیں کہ شیخ جی کا کعبہ جانا... جو ایک عام اور متوقع بات ہے... اس کو ناممکن (معلوم ’معلوم!‘) کس لیے قرار دیا ہے۔ دوسرے، شیخ جی کو گدھا کس بنا پر کہا ہے جب کہ شعر میں اس کا کوئی قرینہ نہیں۔ جہاں تک راقم کا علم ہے ’شیخ‘، ’واعظ، ناصح، محتسب وغیرہ کو غالب نے کبھی ’گدھا‘... جو ایک نہایت تحقیر آمیز خطاب ہے... نہیں کہا بلکہ پوری اردو شاعری میں کسی شاعر نے ایسا نہیں کیا[۔

عنقائے معانی22  ... سرخوش دہلوی... اس شعر کی تفسیر: ’’اجی شیخ صاحب! تم تو مسجد میں اپنا گدھا باندھ کے  مسجد کی بے حرمتی کرتے ہو تو پھر کعبہ کیا جاؤ گے۔ تم میں جذبۂ ایمان کہاں؟‘‘ ] یہاں سرے سے منطق کا فقدان ہے اور اس کی تلاش بے سود[

شرح دیوانِ غالب23 ... ضامن کنتوری... نے اس شعر کو ’’بالکل مہمل اور قابلِ اخراج‘‘ بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’مسجد میں گدھا باندھنا آخر کعبہ جانے سے کس طرح روک سکتا ہے؟‘‘ ]ملحوظِ خاطر رہے: شعر میں نہ تو کہیں مسجد میں گدھا باندھنے کو کہا گیا ہے، اور نہ اس عمل کی وجہ سے کعبہ جانے کی رکاوٹ کا ذکر ہے۔ شعر مہمل نہیں، سمجھنے کا فتور ہے[

مکمل شرح دیوانِ غالب24 ... آسی الدنی...نے اس شعر کی تین الگ الگ شروح دی ہیں جو حسبِ ذیل ہیں:

(1) ’’جناب شیخ صاحب، خیر آپ کی زیارتِ کعبہ کا حال تو ہم کو معلوم ہے۔ آپ کہاں، کعبہ کہاں؟ مگر آپ کی تشریف آوری سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس قدومِ میمنت لزوم کی وجہ سے مسجد کو ایک اصطبل بنا لیا ہے، جس میں آپ خود گدھے معلوم ہوتے ہیں، یا یہ

(2)  شیخ صاحب، آپ نے مجھے کعبہ جانے کی نسبت ارشاد فرمایا ہے۔ اے سبحان اللہ! کیا خوب، کجا میں، کجا کعبہ؟ یہ توایسی بے جوڑ بات ہے کہ گویا آپ نے مسجد میں گدھا باندھ دیا ہے، یا یہ:

(3) خود شیخ صاحب کہا گیا ہے کہ آپ کیا کعبہ جائیں گے۔ آپ کہاں، کعبہ کہاں؟

] مندرجہ بالا شرح کے باے میں عرض ہے: ایک شرح کے تین مختلف معنی، گو شارح کا اپنی شرح پر غیراعتمادی کا عکاس ہے، لیکن دوسری شرح (’’شیخ صاحب، آپ نے مجھے کعبہ جانے کی نسبت ارشاد فرمایا ہے۔ اے سبحان اللہ! کیا خوب، کجا میں، کجا کعبہ؟ یہ تو ایسی  بے جوڑ بات ہے کہ گویا آپ نے مسجد میں گدھا باندھ دیا ہے‘‘)، راقم کے خیال میں شعر کے معنی کے قریب ترین ہے، حالانکہ یہ وضاحت طلب اور تشنۂ معنی ہے[

راقم کے خیال میں شعر کے معنی بالکل سیدھے سادے ہیں اور ان میں پیچیدگی پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شعر اردو میں مروج فارسی کہاوت پر مبنی ہے: ’’خر عیسیٰ اگر بہ کعبہ رود، چوں بیاید، ہنوز خرباشد‘‘ ] حضرت عیسیٰ کا گدھا اگر مکہ جائے، تو واپس آنے پر گدھا ہی رہے گا[ یعنی جبلی فطرت نہیں بدلی  جاسکتی، خواہ پیغمبروں کی صحبت اور مقدس مقام جانا نصیب ہو۔ ]اردو میں قریبی کہاوت ہے: ’’گدھا دھوئے سے بیل نہیں بنتا۔‘‘ یعنی اوپری، ظاہرداری سے انسان کی اصلی فطرت میں فرق نہیں آتا[ اب شعر کی شرح دیکھیں: ’’شیخ جی، آپ کمال کرتے ہیں! آپ مجھے کعبے جانے کی تلقین کرتے ہیں۔ اول، تومجھ جیسے شرابی کا کعبہ جانا بھلا کس طرح ممکن ہے (معلوم!)۔ پھر بالفرضِ محال، میں اگر کعبہ ہو بھی آؤں، تو مجھ جیسے پختہ کار شرابی گنہگار میں محض کعبہ شریف کی زیارت سے بھلا کیا تبدیلی آئے گی؟ یہ تو بالکل ایسا ہوگا کہ آپ سوچیں کہ مسجد میں گدھا باندھنے سے وہ نمازی اور پرہیزگار ہوجائے گا! شاعر نے اپنے ’آپ‘ ... یعنی، ایک نہ سدھر جانے والے شرابی... کو ’گدھا‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کسی کو ’گدھا‘ نہیں کہا ہے۔ محض ایک تشبیہ دی ہے، اوپر مقولہ فارسی... اور اردو... ضرب المثل کے مطابق ہے۔ خیال رہے۔ ویسے گدھے کی صفات میں ’خردماغی‘ (یعنی ہٹ دھرمی) مشہور ہے۔

چاہے گر جنت، جز آدم وارثِ آدم نہیں

شوخیِ ایمانِ زاہد، سستیِ تدبیر ہے

اس شعر میں تفسیرِ غالب... گیان چند جین اور باقیات غالب... وجاہت سندیلوی... سے زبردست تسامح ہوا ہے۔ تفسیرِ غالب نے 25اس کی شرح یوں کی ہے: ’’زاہد اگر جنت چاہتا ہے، تو اس کو جاننا کہ آدم کا وارث آدم ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں جنت میں داخلہ تو ملنا ہی ہے۔ زاہد اپنے ایمان کی جو تیزی دکھا رہا ہے، یہ تدبیر کی سستی ہے۔ اسے خاموش رہنا چاہیے۔ جنت تو ہر اولادِ آدم کا حق ہے ہی۔‘‘

باقیاتِ غالب 26کہتے ہیں ’’جنت حضرت آدم کے لیے تخلیق کی گئی تھی۔ لہٰذا اولادِ آدم کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا وارث ہو ہی نہیں سکتا۔ زاہد کا خیال کہ وہ اپنی عبادت گزاری سے اسے حاصل کرلے گا، محض ایک نا سمجھی ہے۔ جب ایک چیز کے ہم قدرتی وارث ہیں، تو پھر اس کے لیے اتنی جدوجہد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ دراصل یہی مضمون، مرزا نے فارسی میں نظم کیا ہے:

خواجہ فردوس بہ میراث تمنا دارد

وائے! گردر وشِ نسل بہ آدم نرسد27

خواجہ حالی28 نے اس کی تفسیر یوں کی ہے: ’’خواجہ کا لفظ فارسی اکثر میں ایسے مقام پر بولتے ہیں، جیسے طنز کے موقعے پر اردو میں تیسرے شخص کے لیے ’آپ‘ یا ’حضرت‘ بولتے ہیں۔ کہتا ہے کہ آپ آدم کی میراث میں فردوس کے طلبگا رہیں۔ بڑا مزہ ہوا گر آپ کا سلسلہ نسب آدم تک نہ پہنچے... ان کا یہ مطلب ہے آپ کے اخلاق و عادات انسانیت سے اس قدر بعید ہیں کہ ممکن ہے آدم کی نسل سے نہ ہوں۔‘‘

ضامن کنتوری29 کی شرح دیکھیے ’’یعنی جنت کی نسبت یہ خیال کرنا کہ ظاہر ایمان کے طمطراق سے ملے گی، تدبیر کی سستی ہے۔ جنت ملنے کو مسلمان، یہودی، عیسائی ہونا لازم نہیں۔ وہ تو آدم کی میراث ہے۔ ہر حالت میں آدم کی اولاد کو ملے گی مگرمرزا کو یہ خیال نہیں رہا کہ ناخلف بیٹے کو محض بیٹا ہونے سے ارثِ پدر نہیں مل سکتی۔ وہاں تو اسی لیے خدائی فرمان ’لیس من ابلک‘ کا صادر ہوچکا ہے۔‘‘ اس شرح کے بارے میں دو باتیں قابل غور ہیں: (1) دیگر شروح کی طرح یہاں بنیادی غلط فہمی یہ ہے شعر میں یہ کہا ہے کہ ہر انسان غیرمشروط طور پر جنت کا حقدار ہے، چنانچہ اس کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں۔ غالب صرف حق المعبود کے ساتھ حق العباد ... یعنی انسان دوستی... کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ وہ  کہتے ہیں، جنت کے لیے فرشتہ بننے کی کوشش کے بجائے اچھا انسان بننے کی کوشش کرنا چاہیے، خاص کر اس کے مدنظر کہ ع ’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘ اسی مضمون کو میر نے اس طرح نظم کیا ہے: ’برسوں تئیں جب ہم نے ترودد کیے ہیں، تب: پہنچایا ہے آدم تئیں واعظ کے نسب کو

حواشی

1       راقم کے علم میں محض چند مضامین کے علاوہ کوئی مستقل کتاب یا مقالہ اس موضوع پر نہیں گزرا۔ میں یہاں دانستہ پروفیسر خورشیدالاسلام کی کتاب ’غالب: تقلید اور اجتہاد‘ (علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1979) کا ذکر نہیں کررہا ہوں۔ کتاب میں غیرمتداول کے بارے میں کچھ نہیں ہے۔

2       راقم نے اس کا ایک مجموعہ مرتب کرنے کی کوشش کی ہے (’’مجموعۂ غیر متداول کلامِ غالب: غزلیات، مخمس، رباعیات‘‘ دہلی، غالب اکادمی، 2016) تاہم یہ اس حد تک ناقص ہے کہ اس میں غالب کے قصائد شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ غالب کی اردو نظم کی کلیات کا ایک جامع و مستند ایڈیشن مع گوناگوں حواشی (Variorum) جدید اصولوں پر مرتب کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ ایک ادارہ ہی کرسکتا ہے۔

3       اس پر قدرے تفصیل سے بحث کے لیے دیکھیے: راقم ایضاً (مقدمہ) نیز وجاہت علی سندیلوی ’’غلطی ہائے مضامین مت پوچھ‘‘،  فضل الرحمن اسلامیہ کالج میگزین، غالب نمبر 1969-70 بریلی۔

4       متداول کلام میں غزلیات کی کل تعداد 234 اور غزلیہ اشعار کی تعداد 1462ہے۔ اس کے مقابلے میں غیرمتداول کلام میں غزلیات کی تعداد 391 اور اشعار کی تعداد 1813 ہے۔

5       راقم گنجینۂ معنی، کتابی دنیا، دہلی 2019، ’مقدمہ‘ (ص 11)

6       عتیق اللہ: ادبی اصطلاحات یک وضاحتی فرہنگ، اردو مجلس، دہلی 1995، ’ابہام‘ (ص149) نیز "Where something appears to contain a contradiction and the reader has to find interpretation" (Empson, Wm: Seven Types of Ambiguity)  (’’عبارت میں بظاہر ایک ایسا تضاد جسے قاری کو دور کرنا پڑے‘‘)

7       گیان چند جین: تفسیر غالب، سری نگر، جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر، اینڈ لینگویجز، 1986

8       عبدالباری آسی الدنی: مکمل شرحِ دیوانِ غالب، لاہور، مکتبۂ شعر و ادب، ب۔ت۔

9       وجاہت علی سندیلوی: باقیاتِ غالب، لکھنؤ، نسیم بک ڈپو، 1991

10     شیر علی خان سرخوش: عنقائے معانی: مکمل شرح دیوانِ غالب، لاہور مصنف ب۔ت۔ (؟)

11     ضامن کنتوری: شرحِ دیوان غالب (مرتبہ اشرف رفیع)، دہلی، ایجوکیشنل پبلی کیشن، ہاؤس، 2012

12     M. Mujeeb: Ghalib, Delhi, Sahitya Akademi, 1969

13     گیان چند جین، محولہ بالا، ص 72

14     آسی: محولہ بالا، ص 552

15     وجاہت سندیلوی، محولہ بالا، ص 132

16     سرخوش دہلوی، محولہ بالا، ص 552

17     ضامن کنتوری، محولہ بالا، ص 38

18     اسلام میں بھی معذور، یعنی ناواقف، جس کو دعوت نہیں دی گئی (یعنی جس نے اسلام کے بارے میں کبھی سنا ہی نہیں) کو کافر ... گنہگار... نہیں کہہ سکتے۔ ملاحظہ ہو: سورۂ بقرہ، آیت 62

19     Ignoreance of law is not a sufficient excuse for committing a crime

20     ایمپسن، محولہ بالا

21     گیان چند جین، محولہ بالا، ص 270

22     سرخوش دہلوی، محولہ بالا، ص 588

23     ضامن کنتوری، محولہ بالا، ص 244

24     آسی الدنی: محولہ بالا، ص 166

25     گیان چند جین: محولہ بالا، ص 413

26     وجاہت سندیلوی، محولہ بالا، ص 174

27     امتیاز علی عرشی دیوانِ غالب (علی گڑھ، انجمن ترقیاردو، 1969)، میں اس شعرکے زیر یہ قطعہ دیا ہے (ص 395) ’’یارب! بجہانیان دلِ خرم دہ: در عویٰ جنت آشتی باہم دہ

          شداد پسر نداشت، باغش از تست: ٓن مسنِ آدم بہ بنی آدم دہ‘‘

          ]اے پروردگار! دنیا والو ںکا دل مسرت سے بھردے۔ ان میں جنت کے دعویٰ پر باہم تکرار نہ ہو۔ شداد کے کوئی اولاد نہیں تھی، جو اس کی بنائی جنت کا حقدار ہوتا۔ وہ جنت بھی تیری ہے۔ اس کے لیے جنت کے صحیح وارث آدم کی اولاد ہے، تو انھیں یہ عطا کر[

28     الطاف حسین حالی: یادگارغالب، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی 1986، ص 235

29     ضامن کنتوری، محولہ بالا، ص 411

 

 

Jamal Abdul Wajid

40- D, Mayur Vihar, Pocket 4, Phase: 1

Delhi - 110091

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2021

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں