25/10/21

تحقیق کے معلم اوّل: پروفیسر حافظ محمود شیرانی - مضمون نگار : راشد میاں


 


اردو میں تحقیق کے معلمِ اول کہلانے کا شرف حافظ محمود شیرانی کو حاصل ہے۔ان کے لافانی تحقیقی کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر محققین اور ناقدین نے ان کے تحقیقی کارناموں کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ انھیں قابلِ وقعت سمجھتے ہوئے بہترین الفاظ سے نوازا بھی ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر نذیر احمد نے لکھا ہے:

’’محمود شیرانی نے ادبی دنیا میں اوہام و مفروضات کے پچاسوں بت توڑے ہیں۔ فردوسی کی طرف یوسف زلیخا کا انتساب، فردوسی کی ہجو محمود، فارسی دیوان کا حضرت شیخ معین الدین چشتی کی طرف انتساب، پرتھی راج راسا منسوب بہ چندر برداتی... وغیرہ موضوعات پر انھوں نے جس دقیق نظری سے بحث کی ہے اور جعلی انتساب کا جس طرح پردہ چاک کیا ہے، وہ تحقیقی دنیا کے شاہکار ہیں۔ ان کے علاوہ بعض متداول کتابوں پر انھوں نے جیسا عادلانہ محاکمہ کیا ہے اس سے ان کے وسعت مطالعہ اور باریک بینی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی تنقید شعرالعجم، ترجمہ خزائن الفتوح اور تنقید آبِ حیات سرفہرست ہیں۔ پھر بعض کتابوں پر ان کے بے لاگ تبصرے ضخیم کتابو ںپر بھاری ہیں... شیرانی صاحب نے اردو فارسی زبان و ادب کے سیکڑوں موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور ہر موضوع پر جتنا نیا اور اچھوتا مواد فراہم کردیا ہے اس سے ادبی تاریخ مالامال ہوگئی ہے۔ ان کی حیثیت ایک تاریخ ساز محقق و نقاد کی ہے... یہ بات بلا تامل کہی جاسکتی ہے کہ ایرانیات میں مشرق میں اس پائے کا کوئی اور محقق نظر نہیں آتا جس نے اتنے اہم موضوعات پر ایسی مختتم گفتگو کی ہو۔ ایران کے نامور محقق مرزا قزوینی اپنی گوناگوں صلاحیت کی وجہ سے تحقیق کی دنیامیں غیرمعمولی شہرت کے مالک ہیں لیکن فارسی ادب و زبان کے تعلق سے ان کا کارنامہ شیرانی کے برابر نہیں۔‘‘1

محمود شیرانی کی ولادت 15 اکتوبر 1880 کو ریاست، ٹونک میں ہوئی تھی، ابتدائی تعلیم کے ساتھ یہیں حفظِ قرآن کی سعادت بھی حاصل کی۔ مزید تعلیم جودھپور، لاہور اور لندن جاکر حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں اگرچہ آپ کو لاہور قیام کرنا پڑا لیکن وطن کی محبت کے زیراثر بار بار ٹونک آتے رہے۔ یہیں 15 فروری 1946 کو بروز جمعہ ان کی وفات ہوئی۔ ان کی وصیت کے مطابق یہیں بناس ندی کے کنارے ککراج کلاں میں ان کا جسدِ حاکی سپردِ خاک ہوا۔ وفات سے قبل آخری ایام میں اکثر اپنا ایک شعر پڑھا کرتے تھے        ؎

جاتے ہیں خالی ہاتھ گلستانِ دہر سے

اک سنگِ آرزو ہے جو سینے پہ دھر چلے

یہ سنگِ آرزو غالباً وہی خوابِ آرزو ہے جو ہر اس صالح فکر شخص کے ذہن میں رہتا ہے جس کے خوابوں کی تکمیل دم آخر تک نہیں ہوتی۔ دنیائے تحقیق میں اپنے بیش بہا اور لازوال کارنامے انجام دینے کے باوجود شاید انھیں زندگانی عمل و علم میں عدیم الفرصتی کا گلہ رہا۔ چنانچہ فرماتے ہیں        ؎

ہم ایسے ٹھہرے منزل فانی میں جس طرح

آتے سرا میں شب کو مسافر، سحر چلے

فرصت ٹھہرنے کی نہ ملی باغِ دہر میں

مثلِ نسیم ہم ادھر آئے، اُدھر چلے

محمود شیرانی میدانِ تحقیق کے ماہرِ فن ہونے کے ساتھ بہترین شعری صلاحیتوں کے بھی مالک تھے۔ ان کا کلام بالخصوص ان کی نظمیں نخلستان، ٹیپوسلطان اور موت کا وقت‘ رسالہ مخزن میں شائع ہوئیں۔ ان کے فرزند شاعرِ رومان اختر شیرانی نے ابتداً والد ماجد سے ہی مشورہ سخن کیا۔ اختر شیرانی کی ایک مشہور نعت جس کا مطلع یوں تھا      ؎

اگر اے نسیمِ سحر ترا ہو گزر دیارِ حجاز میں

مرے آنسوؤں کا سلام کہنا حضورِ بندہ نواز میں

اختر نے جب یہ نعت والد محمود شیرانی کو دکھائی تو انھوں نے ’آنسوؤں کا سلام‘ کے عوض ’چشمِ تر کا سلام‘ تحریر کر اصلاح کی۔2

محمود شیرانی علم کے شیدائی تھے، غریبی ان کے نزدیک کوئی عیب نہ تھا۔ وہ اپنے ایک مکتوب میں اپنے بھائی مودود خاں کو لکھتے ہیں:

’’مودود تم یہ یاد رکھو کہ میں غریب آدمی کی صحبت سے نہیں گھبراتا کیونکہ غریبی میں کوئی عیب نہیں۔ لیکن جہالت عیب ہے۔ اس عیب کو تم دور کرو..... میری یہی آرزو ہے کہ علم میں نام پیدا کروں۔ والد مرحوم کی یہی آرزو تھی۔‘‘

ایک دیگر خط میں اپنے بھائی مسعود خاں کو لکھتے ہیں:

’’تم اور تمام خیالات کو دور کرو، صرف تجارت کرلو، اور اس میں خدا تم کو کامیابی دے گا۔ میں علم کا جویا ہوں اور تم کو خوشحالی کی ضرورت ہے۔ خدا ہم دونوں کو کامیاب کرے۔‘‘

برادران کی بے اعتنائی کے باوجود علم حاصل کرنے میں ان کے ارادے بلند رہے، لہٰذا ایک جگہ مکتوب میں لکھتے ہیں :

’’مجھ کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے اور بہت کچھ پڑھنا ہے، لیکن جلد ان امتحانات سے فراغت ملے۔‘‘

حقیقتاً انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت علمی حقائق کو منظرِ عام پر لانے میں گزارا۔ ان کا پہلا مضمون ’گناہ‘ کے عنوان سے جون 1902 کو رسالہ ’مخزن‘ لاہور میں شائع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی۔ اس کے بعد متواتر تادمِ آخر تحقیق و تحریر کا سلسلہ جاری رہا۔ تعلیمی سلسلے میں انھیں علی گڑھ تحریک سے بعض اختلاف تھے اس کا ذکر انھوں نے اپنے ایک دوست کے نام لکھے خط میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اگر چہ شخصی طور پر میں سرسید کا مداح ہوں، لیکن ان کے کالج سے مجھ کو ہمدردی نہیں۔ اگرچہ کالج کا تماشائی اس کی لمبی چوڑی عمارت اور مسلمان بچوں کا ایک گروہِ کثیر وہاں دیکھ کر خیرہ ہوجاتا ہے، لیکن میں اس تعلیم کو ’اینٹک اسلامک موومنٹ‘  کے نام سے یاد کروں گا کیونکہ وہ کالج مسلمانوں کو اچھا خاصا انگریز بنا دیتا ہے اور جب یہ انگریز زیادہ پڑھ لکھ جاتا ہے تو وہ اسلامی علما، حکما اور فلسفیوں کو تو بھول جاتا ہے اور بات بات میں کسی قول کی تائید میں کسی انگریز کو پیش کرے گا۔‘‘3

1904 میں ان کے والد نے ان کے شوق علم، بلند ہمتی اور حوصلہ کی قدر کرتے ہوئے انھیں لندن (انگلینڈ) تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ ڈاکٹر اویس احمد ادیب نے رسالہ ’آجکل‘ دہلی کے یکم فروری 1947 کے شمارے میں اس ضمن میں لکھا ہے:

’’حافظ محمود شیرانی پہلے ایسے ہندوستانی فرد تھے جو راجپوتانہ کی سرزمین سے نکل کر انگلستان گئے۔‘‘4

محمود شیرانی کے تحقیقی اور علمی کاموں کی شروعات قیامِ لندن کے زمانے میں ہی ہوئی۔ وہاں انھیں ڈاکٹر ہنری اسٹِپ کے مسودّے کی شکل میں ایک کتاب ملی۔ یہ کتاب تقریباً ڈھائی سو سال سے شائع نہیں ہوئی تھی، اور نہ ہی کوئی انگریزی پریس اسے شائع کرنا چاہتا تھا۔ وجہ اس کی غالباً یہ تھی کہ اس اشاعت سے کہیں محاسنِ اسلام عوام پر ظاہر نہ ہوجائیں۔ ساتھ ہی بہت سے مذہبی اختلاف اور غلط فہمیاں دور ہونے کاامکان تھا۔ محمود شیرانی نے احباب کے تعاون سے لوزک اینڈ کمپنی لندن سے 1911 میں اسے شائع کروایا۔ کتاب میں ان کا فاضلانہ دیباچہ اور ضمیمہ بھی شامل ہے، جس سے کتاب کی وقعت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ علمی دنیا میں محمود شیرانی کا یہ اوّلین اور قابل فخر کارنامہ تھا۔

محمود شیرانی کے تحقیقی  مقالات کو ان کے پوتے مرحوم ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے ’مقالاتِ شیرانی‘ کے عنوان سے دس جلدوں میں مرتب کرکے لاہور سے شائع کیا تھا۔ محمود شیرانی کا ہر مضمون و مقالہ آپ اپنی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی تصانیف کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علمیت کا خزانہ اور معلومات کا دریا تھے۔ ان کی وہ تصانیف جنھیں زیادہ شہرت اور وقار حاصل ہوا ان میں تنقید شعرالعجم، ترجمہ خزائن الفتوح، پنجاب میں اردو، فردوسی اور شاہنامے پر مقالے، مجموعۃ نغز، تصحیح، تنقید قصہ چہار درویش پرتھوی راج راسا کے بارے میںبعض خوش فہمیوں کا ازالہ، تنقید آبِ حیات اور خالق باری کا اصل مصنف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تاریخی تنقید کے تعلق سے ان کی سب سے  اہم تصنیف ’تنقید شعرالعجم‘ ہے جو انجمن ترقی اردو ہند دہلی سے 1942 میں شائع ہوئی۔ شعرالعجم پر تنقید کا مقصد شبلی کی تنقیص و مخالفت نہ ہوکر مصنّفین کی عام روش اور تقلیدی رویہ کے خلاف احتجاج تھا۔

محمود شیرانی نے مذکورہ تصنیف میں شبلی کے تاریخی اور تحقیقی اغلاط کی جانب توجہ دلائی ہے۔ اس کتاب کے دیباچے میں وہ اس طرح رقم طراز ہیں:

’’تنقید ہذا مولانا شبلی مرحوم کی فضیلت علمی کی منقصت نہیں ہے بلکہ محض احتجاج ہے اس مروجہ روش کے خلاف، جس میں ہمارے مصنّفین تحقیق کی جگہ تقلید سے اور عقل کی جگہ نقل سے کام لیتے ہیں۔

ہم تاریخی واقعات اور سوانح لکھتے وقت اس قدر تکلیف گوارا نہیں کرتے کہ ان کو نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھ لیں اور ان کی صحت و درستی کے متعلق اطمینان کرلیں... فارسی نظم کی تاریخ میں اردو زبان کی بے بضاعتی محسوس کرکے علامہ نے شعرالعجم تصنیف کی۔ اس موضوع پر اب تک فارسی اور اردو میںجس قدر کتابیں لکھی گئی ہیں، شعرالعجم ان میں بغیر کسی استثنا کے بہترین تالیف مانی جاسکتی ہے۔‘‘5

تنقید شعرالعجم محمود شیرانی کی علمیت، وسعت نظری، دوربینی، تحقیق شناسی، تاریخ دانی اور قوی استدلال کا شاہکار نمونہ ہے۔ انھوں نے شعرالعجم کے مطالعے کے بعد جو رائے قائم کی اس کے مطابق:

’’علامہ شبلی اس تصنیف کے دوران میں مورخانہ و محققانہ فرائض کی نگہداشت سے بڑی حد تک غافل رہے ہیں۔ رطب و یابس جو کچھ ان کے مطالعے میں آجاتا ہے، بشرطیکہ دلچسپ ہو، حوالہ قلم کردیتے ہیں۔ بعض وقت دیکھا جاتا ہے کہ مولانا اپنے پچھلے بیانات کی آگے جاکر خود ہی تردید کرجاتے ہیں۔ پہلے کچھ رائے قائم کی، بعد میں جاکر کوئی اور نظریہ قائم کرلیا۔ ممکن ہے کہ شبلی تاریخِ اسلام میں بہتر نظر رکھتے ہوں لیکن شعرائ عجم کے حالات میں ان کے طاقتور قلم نے بہت لغزشیں کی ہیں۔ سن و تاریخ جو فنِ تاریخ کا ایک شاندار وقیع پہلو ہے اس پر اوّل تو پوری توجہ نہیں اور ضرورتاً کہیں ایسا کیا بھی تو غلطیوں سے خالی نہیں۔ بعض متاخرین کو متقدمین کا پہلو نشیں بنا دیا اور بعض متقدمین کو متاخرین کا ہم بزم کردیا... جو جو اطلاعات آسانی سے مولانا شبلی کی دسترس میں آسکیں انھیں پر قناعت کی۔ زیادہ تحقیق اور تلاش سے کام نہیں لیا۔‘‘6

پروفیسر سید امیر حسن عابدی نے اس ضمن میں لکھا ہے:

علامہ شبلی کے پاس اس زمانے تک اتنا مواد نہ تھا جتنا حافظ صاحب کو میسر ہوا، نیز علامہ نے اپنا وقت شعر پرکھنے اور اس کے حسن و خوبی کی دریافت میں صرف کیا، تحقیق کو ہاتھ نہیں لگایا... حافظ صاحب کی تحریریں ہم سب کے لیے قابلِ قدر، مگر علامہ کے خلاف جو لہجہ اختیار کیا ہے، وہ قطعاً قابلِ افسوس ہے، جو ایک عالم کے شایانِ شان نہیں ہے، نیز انھوں نے جو موشگافیاں کی ہیں، وہ بھی ضرورت سے زیادہ ہیں۔‘‘7

چونکہ علامہ شبلی ایک فاضل بزرگ اور عالمی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی گراں قدر علمی و ادبی خدمات کی بنا پر ملک میں ان کے پرستار و معتقدین کی وافر تعداد موجود تھی۔ لہٰذا اس تنقید پر بحث و اعتراضات کی گنجائش تھی لیکن قیامِ ٹونک کے زمانے میں محمود شیرانی نے بعض احباب سے یہ فرمایا تھا کہ اگر ’تنقید شعرالعجم‘ کا جواب دیا گیا تو میرے پاس اس کا جواب الجواب موجود ہے۔ اپنی حیات کے آخری زمانے میں انھوں نے پروفیسر ابراہیم ڈار کو جو خط تحریر کیا، اس سے بھی یہ تصدیق ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:

’’میں نے اس خیال سے کہ تنقید پر اعتراضات ہوں گے اور بحث چھڑے گی، بعض جدید امور کے لیے اطلاع بغرضِ مدافعت محفوظ کرلی تھی۔ اب مجھے افسوس ہے کہ وہ ساری باتیں میرے ذہن سے نسیاً منسیا ہوگئی ہیں۔‘‘8

بعض اعتراضات و بحث سے قطع نظر تاریخی تنقید کے زمرے میں محمود شیرانی کا یہ گراں قدر کارنامہ ہے۔

پنجاب میں اردو‘ محمود شیرانی کی دوسری اہم مقبول کتاب ہے جو 1928 میں لاہور سے شائع ہوئی۔ لسانی تحقیق کے اعتبار سے یہ بڑی اہم کتاب ہے۔ اس میں اردو زبان کے آغاز سے متعلق تفصیلی معلومات قوی استدلال کے ساتھ فراہم کی گئی ہے۔ علم داں حلقے میں اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔ کتاب میں اپنا نظریہ پیش کرنے سے قبل انھوں نے اردو کے مشہور مصنّفین (میرامن، سرسید، آزاد وغیرہ) کے ذریعے اردو کی ابتدا کے سلسلے میں تحریر کیے گئے اقوال کی تردید کرتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔

محمود شیرانی کے نزدیک ’’اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دلی جاتی ہے اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں۔‘‘9

اپنے نظریے میں شیرانی نے تاریخی دلائل اور قیاس آرائیوں کے ساتھ لسانی شواہد بھی پیش کیے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

’’اردو اپنی صرف میں پنجابی و ملتانی زبان کے بہت قریب ہے... دونوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد افعال مرکبہ و توابع میں متحد ہیں، پنجابی اور اردو میں ساٹھ فیصدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔‘‘10

اپنی علمیت اور لسانی بصیرت کی روشنی میں شیرانی نے جو نتائج پیش کیے ان میں بڑی کشش تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اہلِ علم پر ان کی اس تحقیق کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ متعدد رسائل میں اس پر تبصرے بھی شائع ہوئے۔

محمود شیرانی نے 1933 میں میر قدرت اللہ قاسم کے مجموعہ نغز کی ترتیب و تصحیح کی۔ یہ کتاب اسی سال پنجاب یونیورسٹی لاہو رسے شائع ہوئی۔ اس کی تدوین میں انھوں نے بڑی محنت، دقتِ نظر اور دیدہ ریزی سے کام لیا تھا۔ اس کی اہمیت و افادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ:

’’اگرچہ ظاہری صفات میں بھی کتابت، طباعت، کاغذ اور جلد کی دیدہ زیبی کے لحاظ سے ’مجموعہ نغز‘ ہماری ستائش کی حقدار ہے لیکن جس چیز نے اس کو نغز تر بنا دیا ہے وہ اس کے فاضل مرتب حافظ محمود شیرانی صاحب کی دقتِ تحقیق ہے، حافظ صاحب کا نام محتاج تعارف نہیں۔ ان کے علمی مضامین، اربابِ ذوق سے ان کو اچھی طرح روشناس کراچکے ہیں۔ اردو فارسی ادب کے وہ مشہور محقق ہیں اور ان کی تحقیقات کا معیار نہایت بلند تسلیم کیا جاچکا ہے۔ مجموعہ نغز کی ترتیب و تصحیح میں انھوں نے اس جانفشانی اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے ،جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔‘‘11

مجموعہ نغز کی تدوین متنی تنقید کا ایک قابلِ فخر نمونہ ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی برمحل ہوگا کہ علامہ اقبال سے ان کی ملاقات لندن میں ہوئی تھی۔ ان کی (محمود شیرانی کی) تحقیقی کاوشوں کے مداح ہونے کے ساتھ ان کی قدر اور احترام کیا کرتے تھے۔ ڈکٹر مظہر محمود شیرانی نے لکھا ہے کہ  ’’ان کے پاس ایسے رقعے موجود ہیں جن میں اقبال مرحوم نے ان سے بعض فارسی کتابوں یا الفاظ کے متعلق استفسار کیا ہے۔‘‘12

محمود شیرانی نے اسی سال (1923) تنقید قصہ چہار درویش سالنامہ کارواں کے ذریعے شائع کی۔ قصہ چہار درویش کے خالق اب تک امیر خسرو کو تسلیم کیا جاتا رہا۔ پہلی مرتبہ محمود شیرانی نے تاریخی حقائق اور لفظیات کے ذریعے اسے غلط ثابت کیا۔ ان کے نزدیک جو الفاظ اور اشیا، چہار درویش میں تحریر ہیں وہ جدید الاستعمال ہیں  (مثلاً اشرفی، تو مان اور دوربین وغیرہ) یہ الفاظ و اشیا اس زمانے تک بالکل رائج نہیں تھے۔ اسی طرح ان کے مطابق ’قصہ چہار درویش‘ میں جن شاعروں کا کلام استعمال ہوا ہے ان میں سے بیشتر شعرا خسرو سے کافی بعد کے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے میر کے ’نکات الشعرا‘ میں اقبال کا کلام شامل ہو۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں شیرانی امیر خسرو کو قصہ چہار درویش کا مصنف تسلیم نہیں کرتے۔ انھوں نے قوی استدلال کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ اس کا مولف فرقہ اثنا عشری کا فرد تھا۔ جب کہ خسرو کا عقیدہ مذہب سنی تھا۔

تنقید پر تھی راج راسا 1942 میں طبع ہوکر انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع ہوئی۔ پرتھی راج راسا پرتھوی راج چوہان کے درباری کوی چندر بداتی سے منسوب کی جاتی ہے۔ یہ ایک معجول کتاب ہے جو گیارہویں صدی عیسوی کی تصنیف بتائی جاتی ہے۔ دیسی زبانوں (جدید پراکرتوں) میں یہ سب سے قدیم کتاب کا درجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ کتاب پرتھوی راج اور سپاہیوں و جنگجوؤں کی داستانیں قلمبند کی گئی ہیں۔ یہ ایک منظوم قصہ ہے جو ہندی و راجستھانی زبان میں ہے لیکن اس میں عربی و فارسی زبان کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ محمود شیرانی کے مطابق یہ الفاظ اس زمانے تک رائج ہی نہیں تھے جو بعد میں اضافہ کیے گئے ہیں۔ راجپوت اور بعض دیگر عقیدت مند مذکورہ کتاب کو صحیفۂ  آسمانی کی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے نسب ناموں کے سلسلے میں اسے قدیم مآخذ بھی تسلیم کرتے ہیں۔

محمود شیرانی کے مطابق راسا کا مصنف چندر برداتی نہ ہوکر کوئی بھاٹ یا نقال ہے، جس نے راجہ کو خوش کرنے کے لیے یہ خود ساختہ اور مبالغہ آمیز داستان کہی۔ یہ بھاٹ ایسا لاعلم شخص ہے کہ اس  لفظ ’گوری‘ جو لفظ غوری کا ہندی تلفظ  ہے، اس سلسلے میں وہ یہ من مانی اور خود ساختہ بات بیان کرتا ہے کہ چونکہ سلطان کی ماں نے ایک ’گور‘ یعنی قبر میں پرورش پائی تھی اس لیے وہ ’غوری‘ کہلایا۔ کوی چندر برداتی نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ پرتھوی نے غوری کو جنگ میں بیس بار ہرایا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کے مابین دو جنگیں ہوئی تھیں۔ دوسری جنگ میں پرتھوی راج کو شکستِ فاش ہوئی اور وہ مارا گیا۔ اس طرح اس بھاٹ نے نہ صرف تاریخی حقائق کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، بلکہ قومی اتحاد کو بھی چوٹ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ شیرانی سے قبل ہندی زبان کے عالم کوی راج شیامل داس نے بھی 1886 میں تحریر کردہ ایک تحقیقی مضمون میں ’راسا‘ کو جعلی تصنیف قرار دیا تھا لیکن محمود شیرانی نے تاریخی شواہد اور واقعات کی دریافت سے ’راسا‘ کی جو تنقید کی ہے وہ مکمل اور لاجواب ہے۔ ان کا بیان ہے:

’’یہ ادبی تفنن جو ابتدا میں کسی معمولی علمیت کے بھاٹ نے محض ذاتی خیال کے فائدے سے راجپوتانہ کے کسی راجا کو اپنے دامِ تزویر میں لانے کی امید میں کیا تھا اور انجام کار مغرب کے بڑے بڑے علما کو جن کے نام تاریخ و لسانیات میں بڑے ادب سے لیے جاتے ہیں، کامل طور پر گمراہ کرنے میں کامیاب ہوا، مضحکہ کا ایسا شاندار پہلو وہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جس کی نظیر تاریخ میں مشکل سے نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تالیف کو بحیثیت کتاب تاریخ تسلیم کرنا ایک عظیم الشان غلطی تھی جو ہمیشہ قابلِ افسوس رہے گی۔‘‘13

راسا‘ پر شیرانی کی تنقید کو ہندی ادب کے بیشتر ناقدین نے بھی درست اور قابلِ اعتبار تسلیم کیا ہے۔ تحقیقی کاوش کے اعتبار سے یہ شیرانی کے لیے ایک بڑی کامرانی ہے۔

حفظ اللسان معروف بہ خالق باری 1944 کی شائع شدہ کتاب ہے۔ خالق باری کو ایک عرصۂ دراز تک امیر خسرو کی تصنیف مانا جاتا رہا۔ اولاً محمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘ میں اس کی ضخامت کا ذکر کرتے ہوئے اسے امیر خسرو کی تصنیف بتایا ہے۔ آزاد کے بعد خالق باری کے خسرو کی تصنیف ہونے نہ ہونے کے سلسلے میں اپنی تحریروں سے متواتر رائے زنی کرنے والے حضرات میں محمد امین عباسی چریاکوٹی، وحیدمرزا، مسعود حسین رضوی، صفدر آہ، جمیل جالبی، ممتاز حسین، افسر صدیقی، گوپی چند نارنگ اور گیان چند جین وغیرہ کے نام شامل ہیں لیکن محمود شیرانی نے مختلف دلائل و شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ خالق باری امیر خسرو کی نہیں بلکہ ان کے برسوں بعد ضیائ الدین خسرو نامی ایک شخص کی تحریر و تصنیف ہے۔ خالق باری میں بحور و اوزان کی اغلاط کو واضح کرتے ہوئے شیرانی نے بتایا کہ خسرو جیسا استاد شاعر ایسی غلطیاں نہیں کرسکتا۔ زمانہ مسکوکات اور تاریخی شواہد کے ذریعے بھی شیرانی نے  یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خالق باری خسرو کے بہت بعد کے زمانے گیارہویں صدی ہجری کی تصنیف ہے۔

تنقید آبِ حیات 1941 کے درمیان تین قسطوں میں اورینٹل کالج میگزین لاہور میں شائع ہوئی تھی۔ آبِ حیات محمد حسین آزاد کی مابہ الامتیاز تصنیف وتذکرہ ہے جس میں اس عہد تک بیشتر مشہور شعرا کی سوانح و نمونۂ کلام موجود ہے۔ شیرانی صاحب نے آبِ حیات میں شعرا کی ترتیب، تقدم و تاخر اور دیگر تاریخی اغلاط پر اعتراضات کیے ہیں۔ دراصل اس اہم کتاب کی تنقید محمود شیرانی نے اپنی عمر کے اس آخری عہد میں کی تھی جب وہ بستر ِ علالت پر تھے۔ یہی وجہ رہی کہ یہ کتاب نامکمل رہ گئی ہے۔

محمود شیرانی نے ارد وکے علاوہ فارسی زبان و ادب سے متعلق بھی نہایت اہم تحقیقی موشگافیاں کی ہیں۔ فارسی ادب کے متعدد موضوعات ان کے دائرۂ کار میں رہے۔ اس سلسلے میںان کا مرغوب ترین موضوع فردوسی اور شاہنامہ فردوسی رہا۔

فردوسی کے مذہب و عقیدے کی وضاحت کے ساتھ ان کا اہم ترین کارنامہ فردوسی کی جانب یوسف زلیخا کے انتساب کو تحقیق سے غلط ثابت کرنے کا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر نذیر احمد رقم طراز ہیں:

’’انھوں نے اس موضوع پر جتنا اچھوتا کام کیا ہے اور جتنا نیا مواد فراہم کردیا ہے، مشرق و مغرب کے سارے محققین مل کر نہیں کرسکے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ فردوسی اور شاہنامے پر ہزاروں صفحے لکھے گئے ہیں لیکن ان میں تکرار ہے‘‘14

تحقیق میں کوئی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ تحقیقاتِ شیرانی سے متعلق مزید تحقیقات و تخلیقات منظرعام پر آتی رہیں گی لیکن محمود شیرانی اولاً اپنے مخصوص و منفرد تحقیقی کارہائے نمایاں کی بدولت اردو میں تحقیق کے معلم اول کہلانے کے بجا طو رپر مستحق رہیں گے۔

حوالہ جات

1       حافظ محمود شیرانی: تحقیقی مطالعے مرتبہ: پروفیسر نذیر احمد دہلی، 1991، ص 47-48

2       بحوالہ جنرل خصوصی شمارہ 1، 81-82، ایم اے اپارٹ ٹونک، ص 159

3       ایضاً، ص 21,22

4       ایضاً، ص 111

5       مقالات حافظ محمود شیرانی ، جلد پنجم، لاہور، 1970، ص 1,3

6       ایضاً، ص 4,6

7       بحوالہ حافظ محمود شیرانی تحقیقی مطالعے، ص 254

8       مکاتیب حافظ محمود شیرانی، لاہور 1981، ص 296

9       پنجاب میں اردو، ص 4

10     ایضاً، ص 4,5

11     رسالہ کاروان، مرتبہ: ملک مجید لاہور 1922، (دسمبر) مشمولہ جنرل خصوصی شمارہ 1، ایم اے اپارٹ، ٹونک، ص 107

12     بحوالہ جنرل شمارہ 1، ص 47

13     پرتھی راج راسا، انجمن ترقی اردو ہند، دہلی 1942، ص 6

14     بحوالہ حافظ محمود شیرانی تحقیقی مطالعے، ص 248

 

Dr. Rashid Miyan

Mohalla Ghol Near Masjid Goul

C/o Gamar Gallab

Tonk - 304001 (Raj)

Mob.: 7240302056




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں