1/1/25

حرف ’’ب‘‘ بطور سابقہ اور وسطیہ، مضمون نگار: شمس بدایونی

 فکر و تحقیق،اکتوبر-دسمبر2024


تلخیص

’بے‘ (ب+ے) کے سابقے سے بننے والے متعدد مرکبات بھی اردو میں موجود ہیں۔ قدیم املا میں یہ متصل یعنی ملاکر لکھے جاتے ہیں، مثلاً: بیخود،بیحیا، بیچین، بیخوف، بیحس وغیرہ۔ اس سلسلے میں خاکسار کی راے ہے کہ انھیں منفصل ہی لکھاجائے، سوائے ان چند لفظوں کے جو شعرا کے تخلص کے طورپرمستعمل ہیں۔ مثلاً: بیخود، بیدل، بیجان، بیصبر وغیرہ۔ رشیدحسن خاں نے اردو املا میں ایسے 171لفظوں کی فہرست دی ہے، جو ناتمام ہے، اس قبیل کے اور بھی لفظ ہیں جن کا اس فہرست میں اضافہ کیاجاسکتا ہے۔

’بہ‘ (ب+ہ) یہ فارسی لفظ بھی بعض مواقع پر مرکبات بنانے میںمعاون بنتا ہے۔ یہ ب پر زبر اور زیر دونوں طرح اپنی موجودگی درج کیے ہوئے ہے۔ بعض وہ مقامات جہاں تنہا ب کا استعمال تھا نئے اردو املا میں ’بہ‘ کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔مثلاً: کوچہ بکوچہ، کی جگہ کوچہ بہ کوچہ،شہربشہر کی جگہ شہر بہ شہر، یم بیم کی جگہ یم بہ یم، پے بپے کی جگہ پے بہ پے وغیرہ اسی سے بعض لفظ بھی بنے ہیں۔ مثلاً: بہ بودگی، بہ بود، بہ بودی، بہ تر/بہتر۔ بہترین۔ وغیرہ۔

————

گذشتہ دنوں انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی کے سہ ماہی رسالے ’اردو ادب‘ کا ’املانمبر‘ (جولائی 2023 تا مارچ 2024) شائع ہوا۔ 21اپریل 2024 کو اس کی تقریبِ رسم اجرا انجمن کے اوڈیٹوریم دہلی میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے شرکا میں خاکسار بھی تھا۔ اس موقعے پر اس نمبر خصوصاً املا کے حوالے سے ایک مختصر تحریر پیش کی گئی۔ اسی دوران مختلف ادیبوں سے املا کے حوالے سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ خاکسار نے یہ محسوس کیا کہ املا کے سلسلے میں نہ صرف اردو برادری بلکہ علمی وادبی حلقہ بھی سخت انتشار کا شکار ہے۔ بزرگ دوست پروفیسر عبدالرشید (دہلی) نے فرمایا کہ املا کے بعض مسائل شدید توجہ چاہتے ہیں، ممکن ہو تو آپ ان پر لکھیے۔ زیرنظر مضمون انھیں کی تحریک پر سپردقلم کیا گیا ہے۔

اردو املا سے متعلق تحریروںمیں عموماً ’یکساں املا‘ اور ’معیاری املا‘ کی بات کی جاتی ہے؛ لیکن عملی طور پر اس کی مثالیں پیش نہیں کی جاتیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے سے پیشتر یکساں املا اورمعیاری املا، دونوں ترکیبوں کو سمجھنا ضروری ہوگا۔

جو لوگ یہ امید رکھتے ہیں کہ اجتماعی طور پر اردو، ملک اور بیرونِ ملک جہاں جہاں بولی، پڑھی اورلکھی جاتی ہے، وہاں وہاں (یعنی ہر جگہ) اس کا تلفظ واملا ایک ہو یعنی یکساں ہو، وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اردو ہی نہیں دنیا کی کسی بھی زبان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ جغرافیائی، علاقائی،ملکی، صوبائی،مدرسہ جاتی اورجامعاتی طریقۂ تعلیم، دبستانی یا ادارہ جاتی امتیاز نیز رواج عام نے الفاظ کوایک خاص نہج پر لکھنے کا جو نقش ذہن پر مرتسم کردیا ہے، اس میں خاصا اختلاف پایاجاتا ہے۔ اس اختلاف کو دورکر پانا ممکن نہیں۔ اسی لیے مصلحین املا کی تجاویزوسفارشات کو بار پانے میں خاصا وقت لگا ہے۔فورٹ ولیم کالج کے قیام(1800) سے آج تک اس طرح کی کوششیں جاری ہیں، لیکن بعض اختلافات کو دور کرپانا ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا۔ اسی لیے بسا اوقات مصلحین املا کو اپنی تجاویز و سفارشات کو کالعدم قرار دے کر رواج عام سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ یعنی  ع

پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم

اس کی سب سے نمایاں مثال ’املانامہ‘ مرتبہ گوپی چند نارنگ ہے، جو ترقی اردو بورڈ دہلی کی تشکیل کردہ املا کمیٹی کی سفارشات پر مشتمل تھی۔ اس کمیٹی کے صدر ڈاکٹر سید عابد حسین اورممبران رشیدحسن خاں و گوپی چند نارنگ تھے۔ اس کا طبع اول 1974میں ترقی اردو بورڈ دہلی سے شائع ہوا۔ یہ سفارشات متنازع قرار پائیں۔ خود ترقی اردو بورڈ نے اسے محسوس کیا اور سال دو سال کے بعد ایک نظرثانی کمیٹی تشکیل دی جس کے صدر ڈاکٹر عبدالعلیم اور ممبران: گیان چند، سید عابدحسین، خواجہ احمدفاروقی، رشیدحسن خاں، محمدحسن، حیات اللہ انصاری،مالک رام، مسعود حسین خاں، خلیق انجم، گوپی چند نارنگ اور سیدبدرالحسن تھے۔ نظرثانی کمیٹی کی سفارشات بھی ’املانامہ‘ کے نام ہی سے 1990 میں شائع ہوئیں جو 1974 میں پیش کردہ سفارشات سے تقریباً 90 فی صد مختلف تھیں۔ گویا 1974میں پیش کردہ سفارشات کو منسوخ کردیا گیا اور قدیم املا کو برقرار رکھاگیا۔ مثلاً: ادنا، اعلا، معلا وغیرہ (1974) ادنیٰ، اعلیٰ، معلی (1990) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصلاح کا عمل یا تو ناقص تھا یا اس کے نفاذ کی حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکی۔

ایک ہی ادارے سے مختلف اوقات میں املا کی دو علیحدہ علیحدہ سفارشات کو املا میں تحریف کی صورت میں دیکھا گیا۔

ان اشاعتوں نے انتشارِ املا کی صورت پیدا کی۔ آج ادنیٰ /ادنا، اعلیٰ /اعلا، معلی /معلا، علیحدہ /علاحدہ، مستثنیٰ/مستثنا دونوں صورتوں میں لکھا جارہا ہے۔ لکھنے والے کو یہ علم ہی نہیں کہ اس میں مرجح صورت کون سی ہے۔

یکساں املا کا ایک مفہوم وہ ہے جس کا ذکر سطورگذشتہ میں کیا گیا۔ اس کا ایک مفہوم اور بھی ہے جسے یکساں نہ کہہ کر ’یکسانیتِ املا‘ کہنا مناسب ہوگا یعنی کسی ایک تحریر یا کتاب میں مصنف ایک روشِ تحریر کا پابند ہو۔ ایسانہ ہو کہ کسی لفظ کا ایک صفحے یا باب میں ایک املا لکھے اور دوسرے صفحے یا مقام پر دوسرا۔ مثلا: انہیں/انھیں، اس کو/اسکو، غرضیکہ/غرض یہ کہ، چنانچہ/چناں چہ، پانو/پاؤں، گزشتہ/ گذشتہ، علیحدہ/علاحدہ، اسماعیل/اسمٰعیل،معلی/معلا،متنازع/متنازعہ، شعرا و ادبا/شعراء وادباء وغیرہ۔

جہاں تک معیاری املا کا تعلق ہے تو کہاجاسکتا ہے کہ اس کا تعلق انفرادی یا ادارہ جاتی کوشش و کاوش سے ہے۔محققین نے اس سمت قابلِ ذکر توجہ کی ہے۔ ان کے تدوینی کام میں علاوہ تلاش وتحقیق، ان کے اختیار کردہ معیاری ومرجح املا کے نمونے نمایاں طو رپرنظر آتے ہیں۔ مولانا عرشی سے حنیف نقوی تک محققین نے معیاری املا کے جو مثالی نمونے پیش کیے ہیں، اس پر ارباب ادب کی نظر نہیں گئی۔ بعض محققین اپنے مقدمات میں اختیا رکردہ املا سے متعلق اپنی ترجیحات ومختارات کا بھی تذکرہ کردیتے ہیں۔ معیاری املا پر گفتگو کرتے وقت محققین کی اس کاوش کا تذکرہ ناگزیر ہے۔

جہاں تک ادبی اداروں کا تعلق ہے تووہ بھی اپنے لیے کچھ بنیادی اصول وضابطے تورکھتے ہی ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ان کا اختیا رکردہ املا بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ خرابی یہ ہے کہ املا کے سلسلے میں تمام اداروں کے درمیان اتحاد نظر نہیں آتا۔ مثلاً: ایک ادارہ عربی جمع کا استعمال کرتا ہے تو دوسرا ہندی جمع کو فوقیت دیتا ہے،جیسے: عالم کی جمع علما/عالموں، شعرا /شاعروں، ادبا/ادیبوں، مواقع/ موقعوں وغیرہ۔ اسی طرح عین پر ختم ہونے والے لفظوں؛ مثلاً: مصرع، مقطع، ضلع وغیرہ یا ’ہ‘ پر ختم ہونے والے شہروں کے ناموں مثلا: آگرہ، انبالہ، کلکتہ وغیرہ کو امالے کی صورت میں مصرعے، مقطعے،ضلعے، آگرے، انبالے، کلکتے بھی لکھا دیکھا گیا ہے۔ شعرا کے تخلص بیخود/بے خود، بیصبر/ بے صبر، بیجان/بے جان وغیرہ کو دونوں صورتوں میں لکھاجارہا ہے۔ کہنے کا منشا یہ ہے کہ اس سلسلے میں اداروں کے درمیان کوئی یکسانیتِ املا نظر نہیں آتی۔

انگریزی لفظوں کی املا میں توعجیب وغریب صورت حال دیکھنے میں آتی ہے۔ کوئی ادارہ اکیڈمی لکھتا ہے توکوئی اکیڈیمی اور کوئی اکادمی۔ سی می نار، سی منار،سیمنار،سیمینار؛ آڈیٹوریم/اوڈیٹوریم، یونیورسٹی /یونی ورسٹی، غرض کہ اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

ملک بھر میں دہلی کو اردو کی نشرواشاعت، مختلف جامعات کے فعال شعبہ ہاے اردو اور اردو کے فروغ سے متعلق بڑے اداروں کی موجودگی کے سبب مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، انجمن ترقی اردو (ہند) ساہتیہ اکیڈمی، دلی اردو اکیڈمی،غالب انسٹی ٹیوٹ، غالب اکیڈمی، ریختہ آرگ، مکتبہ جامعہ، مکتبہ برہان، مکتبہ اسلامی، عرشیہ پبلی کیشنز، فرید بک ڈپو، ایجوکیشنل بک ہاؤس وغیرہم کے مابین املا کے سلسلے میں کوئی اشتراک نہیں۔ یہی صورت دہلی سے شائع ہونے والے اردو اخبارات اور ادبی رسائل کی ہے۔ اگر دہلی کے جملہ ادبی اداروں اور اردو اخبارات ورسائل کے ان الفاظ کا اشاریہ بنائیں جن کی املا مختلف فیہ ہے توعجیب قسم کی صورت سامنے آئے گی۔

اگر اس کا تجزیہ مقصود ہو تو صرف بیس اردو الفاظ کا ایک اشاریہ بنائیے۔ جن میں چھ عربی، چھ فارسی، چار انگریزی کے اورباقی آٹھ لفظ ہندی ودیگر زبانوں کے لکھیے؛ اور انھیں سطوربالا میں درج اداروں کی مطبوعات اور رسائل واخبارات میں تلاش کیجیے۔ ان سب کی مجموعی صورت حال دیدنی ہوگی۔

اس سلسلے میں خاکسار کی رائے یہ ہے کہ دہلی کا کوئی ایک ادارہ،دہلی میںواقع دوسرے اداروں اوردہلی سے شائع ہونے والے اخبارات و رسائل کے مدیران کے ساتھ مذاکرہ کرکے یکساں اور معیاری املا اختیار کرنے کی تدبیر کرے؛ اور باہمی رضامندی سے جو کچھ طے پائے اس پر سختی سے عمل پیر اہوں بعد ازاں اسے تمام ادبی برادری کے لیے وقف عام کردیاجائے۔

یکسانیت املا کی راہ ہموار کرنے کی بس یہی ایک صورت سمجھ میں آتی ہے۔ بصورت دیگر انتشار کی یہ کیفیت بدستور بنی رہے گی۔

زیرنظرمضمون میں اسی یکسانیت املا کا ہدف حاصل کرنے کے لیے حرف ’ب‘ کے سابقے اوروسطیے سے تشکیل پانے والے مرکبات پر گفتگو مقصود ہے۔

[الف]

’ب‘ عربی، فارسی اور اردو کے حروف تہجی کا دوسرا اور ہندی کے حقیقی حروف کا تئیسواں حرف ہے۔ اردو وفارسی والے اس کا تلفظ ’بے‘ ، عربی اورہندی والے ’با‘ کرتے ہیں۔ اصل میں یہ عربی کا اسم مونث ہے۔ اسے بائے ابجد، بائے موحدہ، باے فارسی اور بائے تازی بھی کہتے ہیں۔

اردو الفاظ کی ایک بڑی تعداد اس حرف سے نسبت رکھتی ہے۔ اس کا استعمال اردو الفاظ کے شروع، درمیان اور آخر میں بھی ہوا ہے۔ تینوں صورتوں کی مثالیں بالترتیب حسب ذیل ہیں:

(1)بو، بات، بنیا (2)ابّو، دبّو، شبینہ، (3)سہراب، گلاب اور احتساب وغیرہ۔

مذکورہ بالامثالیں مفرد لفظوں کی ہیں، مرکب لفظوں میں بھی یہ تنہا استعمال ہوتی ہے۔سابقے کے طور پر ب کبھی گ کے مرکز کے بقدر؛ جیسے :بجز، کبھی شوشے کی صورت میں جیسے: بالاتفاق، کبھی لام کے نصف حصے کی مانند مثلاً: بے بنیاد استعمال ہوتی ہے۔ اور ایسے لفظوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ مثلاً: بخدمت، بجز، بالارادہ، دم بدم، بلا ارادہ، باادب، بیخود وغیرہ، لیکن بخدمت، بجز، دم بدم قسم کے الفاظ میں ’ب‘ کے علیٰحدہ استعمال کی صورت (بہ خدمت، بہ جز، دم بہ دم وغیرہ) اردو کے مزاج تحریر وکتابت سے لگانہیں کھاتی۔ زیرنظر تحریر اسی انتشار کو دور کرنے کے لیے سپردقلم کی گئی ہے۔

ب کے تنہا استعمال کی دو صورتیں میری معلومات میں ہیں: بَ یعنی زبر کے ساتھ، تلفظ بہ، جیسے: بجا، بخدا،بعنوان، بغایت،بکثرت وغیرہ۔ ’بے‘ یعنی زیر کے ساتھ ۔ تلفظ بے، مثلاً: بجنس، بذاتہٖ، بعینہٖ، بحمداللہ وغیرہ۔

خاص عربی الفاظ کے ساتھ بھی ’ب‘ کے استعمال کی دو صورتیں متعارف ہیں:

.1       ب+لا =بِلا (زیر کے ساتھ) جیسے: بلاتکلف، بلاوجہ، بلاناغہ،بلاتاخیروغیرہ۔

.2       ب+ا+ل (بِل زیر کے ساتھ) جیسے: بالارادہ،بالاقساط، بالآخر،بالمشافہ وغیرہ۔

ان دونوںمرکبات کے املامیںبظاہر کوئی اختلاف نظرنہیں آتا، لیکن موخرالذکر کی کچھ مثالیں قدیم وجدید تحریروںمیں ایسی ملتی ہیں، جن میں ’با‘ کے بعد ایک الف زائد نظرآتا ہے۔ مثلاً: باللہ کو بااللہ لکھنا (اسے یااللہ بھی پڑھاجاسکتا ہے) بالخیر،بالفعل کو باالخیر اورباالفعل ایک الفِ زائد کے ساتھ لکھنا۔ خطوط غالب میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ ماہرین غالب میں سے بعض نے اسے غالب کے سہو اوربعض نے اسے مرزا کے مختارات املا میں شمار کیا ہے۔ رشیدحسن خاں نے اس کی خوبصورت تاویل کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مرزاصاحب کی تحریروںمیں غلط املا کی مثالیں ملتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں قابل ذکر تعداد عربی کے لفظوں کی ہے جو عربی کے طریقۂ ترکیب کے مطابق استعمال میں آتے ہیں کہ ان مرکب لفظوں میں ایک الف زائد لکھا گیا ہے جیسے: باالفعل… انھوں نے عربی ترکیبوں میں ضرورت سے زیادہ احتیاط برتی اور غالباً اسی زیادہ احتیاط کے دباؤ میں ایک زائد الف قلم سے نکل گیا… باالفعل، باالکل، بااللہ، باالفضل، مرادف باالمعنی وغیرہ۔‘‘(املاے غالب، ص199)

لہٰذا کہاجاسکتا ہے کہ ایسے تمام الفاظ ’با‘ اور ’ل‘ کے درمیان الف ’ا‘ کے بغیر لکھے جائیں جیسے: بالاہتمام، بالاجماع، بالکل،بالفعل،بالمقابل،بالفضل، بالمعنی وغیرہ۔’با‘ اور ’ل‘ کے درمیان زائد الف لکھنے کی صورت میں اسے غلط املا کہاجائے گا۔

’با‘ (ب+ا) اس سابقے کے ساتھ حسب ضرورت الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض الفاظ کے ساتھ یہ سابقہ مخصوص ہوگیا ہے، جیسے :بااثر، باادب، بااصول، باتدبیر، باتمیز، باخبر،باذوق، باشعور، باضابطہ، باعزت، باقاعدہ،باکمال، بامقصد، بانصیب،باوضو، باوقار وغیرہ، بعض الفاظ سے مل کر یہ اسم فاعل کے معنیٰ دیتا ہے۔اس سے بننے والے مرکبات سے کہیں ’صاحب‘ کہیں ’والا‘ ، کہیں ’سے‘، کہیں ’ساتھ‘، کہیں ’مطابق وموافق‘، کہیں ’ذریعہ وغیرہ کے معانی ومفاہیم برآمد ہوتے ہیں۔ ان مرکبات میں املا کا کوئی مسئلہ نہیں، لہٰذا اس پر گفتگو کو نظرانداز کیاجاتا ہے۔

 

’بے‘ (ب+ے) کے سابقے سے بننے والے متعدد مرکبات بھی اردو میں موجود ہیں۔ قدیم املا میں یہ متصل یعنی ملاکر لکھے جاتے ہیں، مثلاً: بیخود،بیحیا، بیچین، بیخوف، بیحس وغیرہ۔ اس سلسلے میں خاکسار کی راے ہے کہ انھیں منفصل ہی لکھاجائے، سوائے ان چند لفظوں کے جو شعرا کے تخلص کے طورپرمستعمل ہیں۔ مثلاً: بیخود، بیدل، بیجان، بیصبر وغیرہ۔ رشیدحسن خاں نے اردو املا میں ایسے 171لفظوں کی فہرست دی ہے، جو ناتمام ہے، اس قبیل کے اور بھی لفظ ہیں جن کا اس فہرست میں اضافہ کیاجاسکتا ہے۔

’بہ‘ (ب+ہ) یہ فارسی لفظ بھی بعض مواقع پر مرکبات بنانے میںمعاون بنتا ہے۔ یہ ب پر زبر اور زیر دونوں طرح اپنی موجودگی درج کیے ہوئے ہے۔ بعض وہ مقامات جہاں تنہا ب کا استعمال تھا نئے اردو املا میں ’بہ‘ کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔مثلاً: کوچہ بکوچہ، کی جگہ کوچہ بہ کوچہ،شہربشہر کی جگہ شہر بہ شہر، یم بیم کی جگہ یم بہ یم، پے بپے کی جگہ پے بہ پے وغیرہ اسی سے بعض لفظ بھی بنے ہیں۔ مثلاً: بہ بودگی، بہ بود، بہ بودی، بہ تر/بہتر۔ بہترین۔ وغیرہ۔(یہ مقالہ اسی ’بہ‘ کے غلط استعمال سے آگاہ کرنے کے لیے لکھاگیا ہے)

لفظوں کے سابقے کے طورپر ’ب‘ کے استعمال کی ایک صورت اور بھی ہے جو اختیاری ہے ۔ اردو محاورے سے اس کا تعلق نہیں،بلکہ یہ انفرادی استعمال ہے، جو کبھی ضرورت شعری او رکبھی نثرمیں انشاپردازی کے تحت اضطراری طو رپرنوک قلم پر آجاتی ہے۔ مثلاً یہ مصرعے دیکھیے:

رفت ازیں راہ بفردوس ادیب (1323ھ)

جانِ سخن’ بقالب‘ طبع دکن رسید(1328ھ)

کہ ’دیواں مُسمّا بتاج سخن‘ (1328ھ)

مذکورہ بالاالفاظ بفردوس، بقالب ، بتاج اردو محاورے میں مستعمل نہیں، ضرورت شعری کے سبب یہاں ’ب‘ کا استعمال کرلیا گیا ہے اور یہ درست ہے۔

یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ساتھ اور سے کے معنوں میں ’ب‘ کا استعمال محاورے سے جدا ہر جگہ روا رکھاگیا ہے۔مثلاً: ’’دلگیر جلد ہی مشرف باسلام ہوگئے۔‘‘ یہ جملہ بھی دیکھیے: ’’دیوان سخن میں جو تحریر منسوب بہ غالب ہے۔‘‘ یہاں غالب کے ساتھ ’ب‘ کا استعمال ’سے‘ کے معنوںمیں ہے اور یہ درست ہے۔

یہ ذہن نشین رہے کہ سابقے کے طور پرب کا استعمال متعدد معانی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں چند، نوراللغات اور ’اردو لغت تاریخی اصول پر‘ میں بیشتر صورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے،جو حسب ذیل ہیں:

.1       ساتھ، جیسے: بخیروعافیت (=خیریت کے ساتھ)، بآسانی (=آسانی کے ساتھ)

.2       میں، جیسے: باجلاس (=اجلاس میں)بظاہر (=ظاہر میں)

.3       طرف، جانب، جیسے :روبرو (=چہرے کی طرف، سامنے)،رو بقبلہ (=قبلے کی طرف منھ)

.4       قسم، جیسے: بخدا (=خدا کی قسم)، برب کعبہ (=رب کعبہ کی قسم)

.5       مطابق،موافق، جیسے: بدستور(=دستور کے مطابق)بقول شخصے(=کسی کے قول کے مطابق)

.6       سے،وجہ سے، سبب سے، غرض سے، ذریعے سے، جیسے:بپاسِ خاطر (=خاطرداری کی غرض سے)، بفضل ایزدی (=خدا کے فضل سے)

.7       توسل سے، برکت سے، جیسے      ؎

ہوا تیری درگاہ میں باریاب

بمحبوب یزداں رسالت مآب

.8       پر،جیسے:بجاے (=جگہ پر)،بسرچشم (=سر آنکھوںپر)

.9       اتصال کے لیے (تنوع، احصا، یا تسلسل وتواتر کے معنی میں) جیسے: خود بخود،دم بدم، رنگ برنگ

.10     برابر،مساوی،جیسے: بقدر شوق (=شوق کی مقدار کے برابر)

.11     لیے، واسطے، جیسے: بجنگ (=جنگ کے لیے)

.12     زائد حسنِ کلام کے لیے،جیسے: بجز، بغیر

                                      (اردو لغت تاریخی اصول پر، ج/ 2، طبع اول، ص479)

اردومیں ب کے سابقے سے بننے والے الفاظ بسااوقات الگ الگ بھی لکھے جاتے ہیں۔ جیسے: بخوبی، بجائے بہ خوبی۔ بخدا کے بجاے بہ خدا، بعنوان کی جگہ بہ عنوان وغیرہ۔ کیا یہ املا درست ہے؟ اس نئی روش کا آغاز کب اورکس نے کیا؟ اس کے جواز کے دلائل کیا ہیں؟ اس پر ابھی تک کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں کی گئی ہے۔ سطورذیل میں بے کے سابقے سے بننے والے لفظوں کومتصل نہ لکھ کرمنفصل لکھنے کی روش کا تاریخی سیاق میں مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔

اردو کے بیشتر مرکب لفظوں کومنفصل لکھنے کی تحریک کا ذمے دار عام طور پر ڈاکٹر عبدالستار صدیقی (ف 1972) اوررشیدحسن خاں (ف2006) کو قرار دیاجاتا ہے اور یہ بڑی حد تک درست بھی ہے؛ لیکن ب کے سابقے سے شروع ہونے والے لفظوں کے سلسلے میں میرے پیش نظر ان دو بزرگوں کے علاوہ دو تجویزیں دوسرے لوگوں کی بھی ہیں۔ اس سلسلے کی جملہ تجویزوں کو سلسلہ وار سطورذیل میں پیش کیا جارہا ہے:

(1)

بخوبی کو بہ خوبی،بخود کو بہ خود جیسے دم بہ خود، باجرا کو بہ اجرا لکھنے کی قدیم ترین تجویز مولوی نورالحسن نیرکاکوروی (ف1936) صاحب نوراللغات کی ہے۔ جنھوں نے نوراللغات جلد اول مطبوعہ 1924میں حرف ب کے باب میں ایک حاشیہ دے کر اس کی نشاندہی کی۔ انھوں نے یہ اصول طے کردیا کہ اگر کسی لفظ کا پہلا حرف زیر یا پیش سے شروع ہوتا ہے اوراس کے شروع میں ب بطور سابقہ آتا ہے توایسے موقعوں پرمرکزوالی ’ب‘ کے بجاے ’ہ‘ والی ب لکھنا درست ہوگا۔ مثلاً: باجرا کی جگہ بہ اجرا، بپشت کی جگہ بہ پشت لکھا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ جس لفظ کا پہلا حرف ’گ‘ کے مرکز سے مشابہت رکھتا ہو اس کے شروع میں بھی ب کی جگہ بہ لکھنا چاہیے، جیسے: بہ بحر وغیرہ۔ان کے الفاظ یہ ہیں:

’’وہ ’ب‘ جو لفظ کا حرفِ اصلی نہیںہوتی ہے اور جس کے معنی ساتھ، سے وغیرہ کے ہوتے ہیں، جب ان حروف کے پیشتر آئے جن کے اعراب پیش یا زبر ہو یا ان حروف کے پیشتر آئے جو قاعدہ نمبر2 کی رو سے کاف کے مرکز کی طرح لکھے جاتے ہیں، تو بجاے ’ب‘ کے ’بہ‘ لکھنا مناسب ہے۔ جیسے: بہ اجرا ، پشت بہ پشت، بہ بحر، بہ بخور، یہ ب کبھی ٹ کے پیشتر نہیں آتی ہے۔ فن جمل کی رو سے کسی صورت میں ’ب‘ کے عدد سات نہیں لیتے ہیں، لیکن مولف کی یہ رائے ہے کہ جن صورتوں میں بجائے ’ب‘ کے ’بہ‘ لکھیں، الفاظ مکتوبی کے عدد لیں۔ ‘‘ (حاشیہ :نوراللغات، ج/1، ص474)

یہ اصول کہیں اورمیری نظر سے نہیں گزرے اورخودصاحب لغت بھی انھیں اپنی لغت میں بروے کار نہیں لاسکے۔

(2)

انجمن ترقی اردو دہلی نے مولوی عبدالحق کی تحریک پر22مارچ 1943 کو ایک جلسہ منعقد کیا3؎، جس میں املا سے متعلق بعض ابتدائی تجاویز پیش کی گئیں۔ اس جلسے کی روداد بعنوان ’روداد کمیٹی اصلاحِ رسم الخط‘ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے مرتب کی جو رسالہ اردو دہلی (جنوری 1944) میں شائع ہوئی۔ اس مجلس میں حسب ذیل افراد شریک تھے:

.1       مولوی سید ہاشمی فرید آبادی(ف1964)

.2       پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی (ف1955)

.3       مولوی وہاج الدین کنتوری (ف   )

.4       ڈاکٹر عبدالستار صدیقی (ف1972)

.5       مولوی عبدالحق (ف1961)

اس مجلس نے جو تجاویز منظور کیں ان میں چھٹی تجویز یہ تھی:

’’فارسی لفظ بہ، نہ، چہ، کہ، بے وغیرہ جو خود فارسی میں بھی کبھی دوسرے لفظ سے ملا کر اور کبھی الگ لکھے جاتے ہیں، اردو عبارت میں الگ لکھے جائیں؛ جیسے بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ کمال شفقت، بہ دولت، نہ خورد، نہ گفت،چہ کنم، چے می گوئِ ی، چہ می گوئِ یاں، حال آں کہ، بل کہ، چوں کہ، چناں چہ، غرض کہ، تا وقتے کہ، بہ شرطے کہ، بے شک، بے تحاشا، بے محابا وغیرہ۔‘‘ (اردو ادب، دہلی املا نمبر، ص:66)

(3)

انجمن کی اس تجویز کو ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی تائید حاصل تھی۔ چنانچہ املا میں اسے رواج دینے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔ 1974 میں رشیدحسن خاں کی کتاب ’اردواملا‘ شائع ہوئی۔ اس میں انھوں نے اس طرح کے مرکب لفظوں پر نہ صرف بحث کی بلکہ طلبہ کی سہولت کے لیے اس طرح کے لفظوں کی فہرست بھی دی۔ انھوں نے کتاب میں ایک عنوان ’لفظوں کوملاکر لکھنا‘ قائم کیا، جس کا آغاز انجمن کی ’روداد کمیٹی اصلاحِ رسم الخط‘ کے ایک اقتباس سے کیا۔ (جو سطورگذشتہ میں نقل کیاجاچکا ہے) اس عنوان کے تحت انھوں نے متعدد لفظوں کی مرکب صورتوں کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔ ب، بہ اوربے کے سابقے سے شروع ہونے والے لفظوں کی بابت انھوں نے جو کچھ لکھا اس کا خلاصہ یہ ہے:

’’فارسی میں شروع سے اس طرف رجحان رہا ہے کہ مرکبات کوملاکر لکھا جائے۔ اور اب تو یہ، املاے فارسی کے مسلمہ قواعد میں سے ہے… فارسی کی تقلید میں اردو میں بھی لفظوں کو ملاکر لکھنا، وباے عام کی طرح پھیل گیا… مختصر نویسی اردو تحریر کا امتیازی وصف ہے، مگر اس کو ایک حد کے اندر رہنا چاہیے۔ اگر اس سے تلفظ اور کتابت، دونوں کو الجھن ہوتی ہو تو اس سے فائدہ؟…

مختصر یہ کہ دونوں کو ملاکر نہیں لکھاجائے گا،خواہ وہ اسم ہوں، جیسے: خوب صورت… ہر صورت میں افعال کے ساتھ ان کے ایسے لاحقوں کو الگ لکھا جائے گا۔

اسموں کے ساتھ جو سابقے آتے ہیں، ان کو بھی عموماً الگ الگ لکھا جائے گا۔ جیسے: بہ خوبی، اَن پڑھ، بے ڈھنگا، بے دخلی۔

کہ، چہ وغیرہ کو بھی الگ لکھاجائے گا،جیسے: کیوں کہ، بل کہ، چناں چہ… اردو میں مرکبات کی تعداد بہت ہے۔ اس کے علاوہ ، سابقوں اور لاحقوں سے مرکب ہونے والے الفاظ کی بھی بڑی تعداد ہے۔ ذیل میں، مثال کے طور پر، ایسے لفظوں کی (ناتمام) فہرست پیش کی جاتی ہے جن کو الگ الگ لکھنا چاہیے۔‘‘ (ص:462 تا 465)

اس کے بعد انھوں نے ’بے‘ کے سابقے سے شروع ہونے والے الفاظ: بے اثر، بے بصر، بے تاب، بے ثبات، بے جرم، بے چارہ، بے حجاب، بے خبر، بے داغ، بے ڈھب، بے رحم، بے زبان، بے سکون، بے شرم، بے صبر، بے ضابطہ، بے طاقتی، بے عمل، بے غرض، بے فائدہ، بے قاعدہ، بے کم وکاست، بے گنتی، بے لوث، بے مایہ، بے نام، بے وقت، بے ہنگم وغیرہ کی 171 مثالیں دی ہیں۔ جو اردو کے 28 حروف تہجی سے منتخب کی گئی ہیں۔(دیکھیے: صفحہ 465 تا 466)

تنہا ’ب‘ کے سابقے سے شروع ہونے والے لفظوں کی 48 مثالیں پیش کی ہیں جن کے آغاز میں ب کومنفصل ’بہ‘ کی صورت میں نقل کیا گیا ہے۔مثل: بہ نظر اصلاح، بہ ارادۂ شاگردی، بہ دستور، بہ سبب، بہ کار خاص، بہ قولِ خود، بہ خط غالب وغیرہ۔ ان مثالوں کے اندراج کے بعد وہ لکھتے ہیں:

’بہ‘ خواہ کسی معنی میں آئے، اس کو عموماً علاحدہ لکھا جائے گا۔ البتہ چند لفظ ایسے ہیں، جو مفرد لفظ کی حیثیت اختیا رکرچکے ہیں، ان کو اس قاعدے سے مستثنا سمجھا جائے گا۔ جیسے: بہم، بغیر، بعینہ، بفضلہ، بجز، بجاے، یہ لفظ مستثنا الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شاید دوچار اور ایسے لفظ ہوں، بس اس سے زیادہ نہیں۔دو لفظوں کے درمیان میں بھی یہ حرف آتا ہے اور اس صورت میں بھی اس کو علاحدہ لکھاجائے گا۔ جیسے: دم بہ دم، دم بہ خود، دن بہ دن، سربہ فلک، یم بہ یم، صحرا بہ صحرا، روبہ قبلہ وغیرہ۔‘‘   (ص 467-68)

(4)

ترقی اردو بورڈ دہلی (یعنی قومی کونسل براے فروغ اردو) کی املا کمیٹی نے ’ب‘ کے سابقے سے بننے والے مرکبات کے بارے میں دو متضاد سفارشات پیش کی ہیں۔ 1973 کی سفارشات میں ان مرکبات کا دو جگہ ذکر کیا گیا ہے۔

.1       عربی مرکبات کے ذیلی عنوان کے تحت بالکل، بالفعل اور اسی قبیل کے دوسرے الفاظ کو قدیم املا پر برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ (املانامہ:53) یعنی ان الفاظ کے املا میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

.2       لفظوںمیں فاصلہ اور لفظوں کو ملاکر لکھنا: اس عنوان کے تحت کمیٹی نے بہ، نہ، چہ، کہ، بے وغیرہ کی بابت انجمن ترقی اردو کی سفارشوں کی تائید کی ہے:

’’فارسی لاحقوں کی بابت انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسم خط نے سفارش کی تھی، فارسی لفظ بہ، نہ، چہ، کہ، بے وغیرہ جو کبھی ملاکر اور کبھی الگ الگ لکھے جاتے ہیں اردو عبارت میں الگ لکھے جائیں۔ جیسے:بہ خوبی،بہ ہرحال، بہ دولت، بل کہ، بہ شرطے کہ،بے تحاشا،بے شک وغیرہ۔ ‘‘(املانامہ، اول، ص73)

لیکن اسی ادارے کی دوسری املاکمیٹی نے 1976-77 میں جو سفارشات پیش کیں وہ قطعی پہلی سفارشات سے مختلف ہیں۔ اس میں انھوں نے لکھا:

’’ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کمیٹی کی سفارش کہ ’’فارسی لفظ بہ، نہ، چہ، کہ وغیرہ جو …کبھی ملاکر اور کبھی الگ الگ لکھے جاتے ہیں، اردو عبارت میں الگ لکھے جائیں۔‘‘ قابلِ قبول نہیں۔ اس لیے کہ اول تو یہ تمام پابند صرفیے ہیں، دوسرے ان میں سے بعض لاحقے ایسے الفاظ میں آتے ہیں جو جملوں کو ملانے کے لیے کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اور جن کی ملی ہوئی شکلیں اس حد تک چلن میں آچکی ہیں کہ ان کو بدلنا آسان نہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ انھیںملاکر لکھاجائے۔

چنانچہ اس بارے میں اصول یہ ہوا: بہ، چہ، کہ، لاحقے ہیں اور مشتقات میں استعمال ہوتے ہیں اور ان کی ملی ہوئی شکلیں پوری طرح چلن میں آچکی ہیں، اس لیے ان کو ملاکر لکھناہی مناسب ہے۔

بلکہ، کیونکہ، چونکہ،چنانچہ، جبکہ، بخوبی، بہرحال، بدستور، بخدا،بدقت، بدولت، باندازخاص،غرضیکہ، حالانکہ، بشرطیکہ۔‘‘(املانامہ، طبع دوم، ص95-96)

سابقہ کی بابت لکھتے ہیں:

’’سابقہ ’بے‘ زیادہ ترالگ ہی لکھاجاتا ہے… البتہ کئی الفاظ میں ’بے‘ کو ملاکر لکھنے کا چلن ہے جو صحیح ہے:

بیکار، بیشک، بیگانہ،بیباک، بیتاب،بیوقوف وغیرہ۔(املانامہ، دوم، ص95)

مذکورہ بالادو تجاویز اردو کے عام قاری اور کسی حد تک خواص کے لیے بھی انتشار اور املا میں دورنگی کا سبب بنیں۔

مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کی املا کمیٹی نے 1985 کی پیش کردہ سفارشات 2؎ میں ب کے سابقے اوروسطیہ سے بننے والے الفاظ پرکچھ لکھنے سے اجتناب کیا۔ البتہ ادارۂ فروغ قومی زبان اسلام آباد (قدیم نام مقتدرہ) نے 2022 میں املا کے حوالے سے جو سفارشات پیش کی ہیں، ان میں ’باے موحدہ‘ عنوان کے تحت ذیلی عنوان’عربی میں ب‘ اور ’فارسی میں ب‘ اختیار کرتے ہوئے ب کو متصل یعنی جوڑکر لکھنے کومناسب قرار دیا ہے۔ انھوں نے مثالیں نقل کرکے عربی وفارسی میں سابقے کے طورپرب کے معانی ومفہوم پر گفتگو کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عربی الفاظ ہوں یا فارسی، ب کو ملاکر ہی لکھا جائے گا۔ منفصل نہیں۔ البتہ انھوں نے طلبہ کی سہولت کے لیے دورانِ تدریس ’ب‘ کو ’بہ‘ لکھنے کی رعایت دی ہے۔(سفارشات املا 2022، ص59-60)

ان سفارشات میں اس پر غلط یا صحیح کا حکم نہیں لگایا گیا بلکہ لفظ ’مناسب‘ کا استعمال کیا گیا ہے، گویا کسی قدر نرم رویہ اختیار کیا گیا ہے      ؎

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اوریوں بھی

[ب]

مرکب لفظوں کوعلیٰحدہ علیٰحدہ لکھنے کی کوشش اور تجویز کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا، لیکن اس کا اطلاق سارے مرکبات پر ایک ہی طرح سے بغیر لفظ کی ساخت اور ہیئت پر غور کیے کردینا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ الفاظ جن کا سابقہ حرف تنہا ’ب‘ ہے، اسے فارسی لفظ بہ کے ساتھ لکھا جائے یا اصل لفظ کے شروع میں ب (بصورت گ کا مرکز یا نون کا شوشہ) جوڑ کر لکھاجائے؟ بخوبی میں پانچ حرف ہیں: ب خ و ب ی۔ اگر اسے بہ خوبی لکھاجائے گا تو اس میں چھ حرف ہوجائیں گے۔ یعنی ایک حرف ہ کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس املا میں بظاہر دو قباحتیں ہیں: اول یہ تمام اردو لغات کے اندراجات سے مختلف ہوگا۔ اردو کی قدیم لغات کو اگرنظرانداز بھی کردیاجائے تو آج کی اہم ترین لغت ’اردو لغت تاریخی اصول پر‘ (1977 تا 2010) کے اندراجات سے بھی یہ املا لگا نہیں کھاتا۔ اردو کا طالب علم اگر لفظ بہ خوبی یا بہ نسبت، بہ ہرطور وغیرہ کو لغت میں تلاش کرنا چاہے گا تو وہ بہ (ب+ہ) کی فہرست اندراج میں تلاش کرے گا۔ ظاہر ہے اس میں یہ اندراج نہیں ملے گا۔ بعینہٖ یہی صورت اس سابقے سے شروع ہونے والے دوسرے الفاظ کی ہوگی۔

دوسری قباحت یہ ہے کہ اگرایسے کسی لفظ کا استعمال تاریخی مادے میں کیا گیا ہے تو ’ہ‘ کے 6 عدد بڑھنے سے وہ تاریخی مادہ غلط قرا رپائے گا۔ یعنی اس سے جوسنہ برآمد ہوگا اس میں 6 عدد بڑھے ہوئے ہوں گے۔

تاریخی مادوں سے سنہ برآمد کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ اعداد مکتوبی حروف کے محسوب کیے جائیں، مثلاً:حامدحسن قادری (ف1964) نے اپنی ڈائری کے پہلے صفحے پر یہ تاریخ درج کی ہے      ؎

آغاز بخیر سال کا ہے

آغاز کا ہو بخیر انجام

دونوں مصرعوں سے 1948 کا سنہ برآمد ہوتا ہے، لیکن اگر لفظ ’بخیر‘ کو ’بہ خیر‘ لکھاجائے تو مصرعوں سے برآمد ہونے والا سنہ 1953 ہوجائے گا، جو ظاہر ہے غلط ہوگا۔ چند مزید مثالیں       ؎

بتاریخ، طبعِ کلامش بگو

 کہ ’’دیواں مسمّا بتاجِ سخن

1328ھ

اس رعایت سے یہ ہوئی تاریخ

 ’ہے یہ اشہر بیک کرشمہ دوکار‘

1364ھ

’’جانِ سخن بقالب طبع دکن رسید‘‘

1328ھ

بتاج/بہ تاج، بیک/بہ یک، بقالب/بہ قالب لکھنے کی صورت میں ’ہ‘ کے 5 عدد بڑھ جائیں گے اورصحیح تاریخ، املا کے غلط ہوجانے سے مسخ ہوجائے گی۔

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی اور رشیدحسن خاں مرحوم کے تمام تر علمی احترام کے باوجود مجھے یہ لکھنے میں تامل نہیں کہ تنہا ’ب‘ سے ترتیب پانے والے لفظوں کی املا کے بار ے میں ان کی انھیں منفصل لکھنے کی تجویز قدیم لسانیاتی اصول اورطریقۂ کتابت واملا سے کسی طور لگا نہیں کھاتی؛ لہٰذا اسے مسترد کردینا چاہیے۔

اس سلسلے کی ایک مثال دینا ناگزیر ہے۔ اس مثال سے مذکورہ بالا سطور میں پیش کردہ خاکسار کے خیال کی مزید وضاحت ہوجائے گی اور اس خیال کی صحت پربھی اعتماد بحال ہوگا۔

میرزا کلب حسین خاں نادر (ف1878) کے رسالے ’تلخیص معلی‘ کو ڈاکٹر محمدانصار اللہ (ف 2017) نے مرتب کیا ہے۔ (مطبوعہ علی گڑھ1976)۔انھوں نے سرورق اور ٹائٹل پراس کا نام ’تلخیص معلّا‘ لکھا ہے۔ (معلی کا نیا املا معلّا) دراصل تلخیص معلی اس کا تاریخی نام ہے جس سے اس کا ہجری سنہ تصنیف واشاعت 1280ھ نکلتا ہے؛ چونکہ تلخیص معلّا سے اس کے اعداد 1271 برآمد ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ معلی کے املا کی تبدیلی سے 9 عدد کا فرق واقع ہوا، جو ایک بڑے محقق کی سبکی کا سبب بنا۔

مصلحین املا نے اپنی تجاویز وسفارشات پیش کرتے وقت صرف ایک رخ کو دیکھا۔ الفاظ کے استعمال کی دوسری صورتوں پر غو رنہیں کیا۔ کوئی بھی تجویز یا سفارش اس وقت تک مفید مطلب نہیں ہوسکتی جب تک وہ الفاظ کی جملہ قدیم وجدید استعمال کی صورتوں کو محیط نہ ہو۔ بصورت دیگر وہ انتشار وگمرہی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہی صورت سطور سابقہ میںنقل کردہ تینوں تجاویز کی ہے۔

سطور ذیل میں ’ب‘ کے سابقے سے بننے والے مرکب الفاط کا ایک اشاریہ دیاجارہا ہے، جن کا تلفظ کہیں ب پر زبر اور کہیں زیر سے کیاجاتا ہے۔ راقم الحروف نے اول زبر سے تلفظ کیے جانے والے الفاظ اور بعد میں زیر سے شروع ہونے والے الفاظ جمع کردیے ہیں۔ فارسی ’بہ‘ جو ساتھ اور سے کا ہم معنی ہے اور اکثر استعمال کیاجاتا ہے، سے متعلق الفاظ جو گنتی کے ہیں انھیں بھی آخر میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس فہرست کا راست تعلق ’اردو لغت تاریخی اصول پر‘ سے ہے، جس کی جلد دوم میں ب سے بننے والے جملہ مرکبات جمع کردیے گئے ہیں۔زیرِنظر فہرست میں بعض مرکبات دوسری لغات سے بھی اضافہ کیے گئے ہیں۔

بَ (زبر کے ساتھ)

 بافراط،بآسانی، بباد، ببانگ دہل، بپا، بتدریج، تراضیِ طرفین، بتفریق، بتکرار، بتکلف، بتنگ، بجا، بجاآوری، بجالانا، بجاے، بجاے خود، بجبرواکراہ، بَجِد، بجُز، بجہت، بچشم، بچشم کم دیکھنا، بچشم وبجاں، بچشم و سر، بحال، بحال آنا، بحالیکہ، بحساب، بحسب، بحسن وخوبی، بحضور، بحق، بحکم، بحیثیت، بخدا، بخدمت، بخط راست/مستقیم، بحظ غالب، بخلاف، بخوبی، بخود آنا، بخور، بخوشی،بخیر، بخیروخوبی، بخیروعافیت، بخیریت، بدرجہا، بدرجۂ اتم، بدرجہ غایت، بدست، بدستور، بدفعات، بدقت، بدل وجاں، بدولت، بدیں، بذات، بذات خود، بذریعہ، براہ، براہ راست، براہ کرم، برب کعبہ، برضا ورغبت، برنگ غالب، بروے، بروے کار، بزعمِ خود، بزور، بزیر، بسبب، بسبیل، بسر، بسروچشم، بسہولت، بشرحِ صدر، بشرط، بشرطیکہ، بشکل، بصدادب، بصراحت، بصورت، بصیغہ، بضد، بطرز، بطرف، بطریق، بطرز میر،بطور، بطورخود،  بطیبِ خاطر، بظاہر، بعافیت، بعبور دریاے شور، بعنوان، بعوض، بغایت، بغر(حرف استثنا)، بغور، بغیر، بفاصلہ، بفرض محال، بفور، بقدر، بقدر ضرورت، بقلّت، بقلم خود، بقول، بقولِ شخصے، بقول خود، بقید حیات، بکارآمد/ بکارآنا، بکار خاص، بکارخویش، بکثرت، بکف، بگوش دل، بلب، بلحاظ، بلطائف الحیل،بمثل، بمجرد، بمد، بمدد، بمدارج/مراتب، بمرتبہ، بمرورِایام، بمشکل، بمصداق، بمعنی، بمقتضای، بمنزلہ، بموجب، بنازونعمت، بنام، بنسبت، بنظر، بنظراصلاح، بنفسِ نفیس، بواپسیِ ڈاک، بوجوہ، بوجہ،بواسطہ، بوسیلہ، بوضاحت، بوقت، بہرحال، بہرصورت، بہزار دقت، بہم، بہمہ، بہمہ وجوہ، بہرطور، بہیئت مجموعی، بیادگار، بیک بینی ودوگوش، بیک کرشمہ دوکار۔

بِ (زیر کے ساتھ) عربی ترکیبوں میں ب ہمیشہ مکسور ہوتی ہے۔

بتمامہ، بجنس، بجنسہ، بجہت، بحالہٖ، بحمدللہ، بذاتہٖ، برأسہٖ، بِعونِ الٰہی، بعونہ، بعینہٖ، بفضلہ

دو لفظوں کے درمیان میں بھی یہ حرف آتا ہے تواسے اسی طرح ملاکر لکھیں گے۔

پابرکاب، پابزنجیر، پابگل،پا بجولاں، پے بپے، تن بتقدیر، ٹکٹ بدست، جابجا، جاں بلب، جو بجو، حرف بحرف، خانہ بدوش، خم بخم، خنجربدست، دربدر، درجہ بدرجہ، دریا بدریا، دست بدست، دم بدم، دن بدن، روبرو، روبراہ، روبقبلہ، رنگ برنگ، روزبروز، زربکف، سال بسال، سربزانو، سربسجدہ، سربفلک، سربکف، شہربشہر، صحرابصحرا، صدابصحرا، قدم بقدم، قریہ بقریہ، کوبکو، کوچہ بکوچہ، لب بلب، لحظہ بلحظہ، لفظ بلفظ، لمحہ بلمحہ،ماہ بماہ،ملک بملک، منزل بمنزل، نام بنام، نوبنو، ہوبہو۔ صرف دومرکبات منفصل لکھنا مناسب ہوگا: پے بہ پے، یم بہ یم۔

 ’بہ‘ کے استعمال کی مثالیں توملتی ہیں، لیکن انھیں معتبر نہیں کہاجاسکتا۔ جیسے ’’اردو لغت تاریخی اصول پر‘‘ میں یہ مثالیں: شہربہ شہر، محلہ بہ محلہ، بہ ازعودومُشک ، بہ از گل وغیرہ۔ قدما کے یہاں بہ کے استعمال سے اجتناب نظرآتا ہے۔

حواشی

1        لفظوں یا اسموں کے شروع، وسط یا آخر میں جو حرف یا لفظ مل کر ان کو دوسرے معنی دیتے ہیں اور مرکب صورت میں ایک نیا لفظ بن کر نئے تلفظ اورنیا املا اختیار کرتے ہیں اور اس طرح وہ زبان کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں؛ اس عمل کو زبان وقواعد کی اصطلاح میں ’تعلیقیہ‘ (Affix)کہتے ہیں۔ تعلیقیہ دراصل درج ذیل تین اصطلاحوں کا مجموعہ ہے۔ شروع میں آنے والے حرفوں یا لفظوں کو سابقہ (Prefix)، جیسے : بجز (ب+جز)، نمعلوم (ن+معلوم)، درمیان میں آنے والے حرفوں یا لفظوں کو وسطیہ (Infix)جیسے دم بدم (دم+ب+دم)، جو بجو(جو+ب+جو)اور آخر میں آنے والے حرفوں یا لفظوں کو لاحقہ (Suffix) جیسے: شاندار (شان+دار)، گلزار (گل+زار) کہتے ہیں۔

          ب سے مرکب بننے والے لفظوں میں صرف سابقے اوروسطیے ہی کی مثالیں میرے پیش نظر ہیں؛ لاحقے کی صورت میں ب کا استعمال شاید اردو الفاظ میں نہیں ہوا۔

2        دیکھیے:سفارشاتِ املا ورموز اوقاف، اعجاز راہی، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد 1986

3        ماہنامہ ’اخبار اردو‘ کراچی (جو مقتدرہ قومی زبان کا آرگن ہے) کے دسمبر 1982 کے شمارے میں یک صفحی نوٹ ’اصول املا‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ عنوان کے نیچے ایک سطر میں یہ صراحت ملتی ہے: جو انجمن ترقی اردو کانفرنس منعقدہ جنوری 1921 بمقام ناگپور طے کیے گئے تھے۔‘‘ اس صراحت کے بعد ایک سے ۹ نمبروں کے تحت املا سے متعلق اصول نقل کیے گئے ہیں۔ نمبر1؎ کے تحت جو کچھ لکھاگیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

          مرکب الفاظ کو ملاکر نہ لکھاجائے… اور فارسی حروف بہ، نہ، چہ وغیرہ کو بھی ملاکر نہ لکھا جائے بلکہ علاحدہ تحریر کیاجائے۔ جیسے : بہ خوبی، بہ ہر حال، چناں چہ وغیرہ۔ (ص15)

          راقم الحروف نے آل انڈیامسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں کی فہرست چیک کی مجھے 1921 میں ناگپور میں کسی اجلاس یا علیٰحدہ اردو کانفرنس کا سراغ نہیں لگ سکا۔ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب کا علمی مقالہ ’انجمن ترقی اردو ہند کی علمی اورادبی خدمات‘ بھی اس کے ذکر سے خالی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ناگپور میں منعقدہ 19،20،21جنوری 1944میں انجمن کی تیسری کل ہند کانفرنس کا مذکور ہے جس میں 22مارچ 1943 کو اصلاح املا پر انجمن کی جس ذیلی کمیٹی نے سفارشات پیش کی تھیں انھیں اس کانفرنس میں معمولی ردوبدل کے بعدمنظورکرلیا گیا تھا جو بعد میں مشتہر کی گئی تھیں۔ اغلباً1921 کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ انجمن کی پہلی آل انڈیا اردو کانفرنس اکتوبر 1936 میں بمقام علی گڑھ اور دوسری دسمبر 1939 میں بمقام دہلی اور تیسری جنوری 1944 میں ناگپور میں منعقد ہوئی تھی۔ (انجمن ترقی اردو ہند کی علمی وادبی خدمات (ص301) انجمن کی سالانہ رپورٹ 1921 اور 1922-23 بھی اصول املا سے متعلق کسی تجویز کے ذکر سے خالی ہے۔ اخبار اردو میں مطبوعہ تحریرمضمون کے لحاظ سے 1943 کی تجاویز کے عین مطابق ہے، البتہ 9شقوں میں اس کا خلاصہ اصل ترتیب سے دورجاپڑا ہے۔ (دیکھیے ضمیمہ اردو ادب، دہلی، جنوری 2024)

مآخذ ومراجع

.1       اردو املا، رشیدحسن خاں، ترقی اردو بورڈ، دہلی،اول 1974

.2       املانامہ، ڈاکٹرگوپی چند نارنگ، ترقی اردو بورڈ، دہلی، اول1974

.3       املانامہ،ڈاکٹرگوپی چند نارنگ، ترقی اردو بورڈ، دہلی، دوم 1990

.4       املاے غالب، رشیدحسن خاں، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، اول2000

.5       تلخیص معلا، ڈاکٹرمحمدانصاراللہ، لیتھوکلرپرنٹرس، علی گڑھ، اول 1976

.6       جامع التواریخ، حامدحسن قادری، لبرٹی آرٹ پریس، دہلی 2000

.7       سفارشاتِ املا ورموز اوقاف، اعجاز راہی،مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد 1986

.8       سفارشات اردو املا 2022، نظرثانی ڈاکٹر تحسین فراقی، ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد، اول 2022

.9       اردو لغت تاریخی اصول پر، ج/2، ترقی اردو بورڈ، کراچی 1979

.10     فرہنگ آصفیہ، ج/1، سیداحمددہلوی، قومی کونسل براے فروغ اردو زبان، دہلی 1998

.11     نوراللغات، ج/1،مولوی نورالحسن نیر، قومی کونسل براے فروغ اردو زبان، دہلی1998

.12     اے ڈکشنری ہندوستانی اینڈ انگلش، میجرجوزف ٹیلر، لندن 1820

.13     اے ڈکشنری ہندوستانی اینڈ انگلش،جان شیکسپیئر، لندن1834

.14     اے ڈکشنری ہندوستانی اینڈ انگلش،ڈاکٹر ڈنکن فاربس، لندن 1866

.15     نیوہندوستانی انگلش ڈکشنری، ایس ڈبلو فیلن، لندن 1879

.16     سہ ماہی اردو ادب، دہلی ’املانمبر‘ جولائی 2023 تا مارچ 2024

.17     ماہنامہ اخبار اردو، کراچی، دسمبر1982

 

Dr. Shams Badauni

58, New Aza Param Colony

Izzat Nagar

Bareilly- 243122 (UP)

drshamsbadauni@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دیوان مجید کی بازیافت، مضمون نگار: خاور نقیب

  فکر وتحقیق، اکتوبر - دسمبر 2024 تلخیص عبدالمجید بھویاں حیا کا شمار اڈیشا کے قدیم شعرا میں ہوتا ہے۔دیوان مجید ان کے تقدیسی کلام پر مشتم...