1/1/25

قدیم ترین کہانیاں، مضمون نگار: صغیر افراہیم

 فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر 2024


تلخیص

کہانی، انسانی زندگی سے وابستہ اور اس کے وجود سے جُڑی ہوئی ہے۔ اس کی تخلیق اور ارتقا دونوں میں انسانی ذہن کی کارفرمائیاں ہیں۔ قدیم ترین کہانیوں کے اِس مطالعہ سے اِس بات کو تقویت ملتی ہے کہ کہانی ہر عہد میں انسان کو مرغوب رہی ہے اور وہ ارتقائے انسانی کے زیر سایہ پروان چڑھی ہے۔ انسان جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا، اپنے علم وفضل میں اضافہ کے ساتھ تہذیب وتمدن سے آشنا ہوتا رہا، کہانی بھی اس کے دوش بدوش پھلتی پھولتی، پروان چڑھتی ہوئی عہدِ حاضر تک پہنچی ہے۔

محققین نے ہسپانیہ اور فرانس میں تقریباً تیس ہزار سال پُرانے انسانی وجود کی بازیافت کی ہے۔ موہن جوڈارو، ٹیکسلا اور ہڑپا کے آثار قدیم کہانیوں میں بے حد معاون ہیں ۔

کہانی کا ابتدائی روپ وہ ہے جب وہ اشاروں میں کہی جاتی تھی اور نئے نئے تجربات کے ساتھ ذہنوں میں خط ملط ہوکر نئی وضع قطع اختیار کرتی رہیں۔ اور جب انسان شعور کی حدود میں داخل ہوا، تو اشاروں اور آوازوں کو اس نے مختلف معنی ومطلب کے لیے ڈھال کر الفاظ کا جامہ پہنایا، اور وہ تحریری شکل میں منتقل ہوتی رہیں۔ پہلے کہانیاں صرف کہی اورسُنی جاتی تھیں پھر رفتہ رفتہ لکھی اور پڑھی جانے لگیں۔ یہ کہانیاں سامری تہذیب کی ضامن ہیں تو بادشاہ حمورابی کے دور کو بھی اُجاگر کرتی ہیں۔ ان میں آریائی تہذیب ہے تو وادئ سندھ بھی، یونان، مصر، روم کے ساتھ عرب کی ریگزار بھی۔ اِریک ہے تو شہنشاہیت بھی۔ رِگ وید ہے تو دیوسرسنگرام بھی۔ ٹرائے، ایلیڈ، ہومر کے قصّے ہیں تو عبرانی، ایرانی اور سنسکرت کے بھی ان گنت قصّے جو آج بھی زندہ ہیں اور پوری دلجمعی سے پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔

کلیدی الفاظ

کہانی،  منظوم کہانی، سامری تہذیب، گل گامش، حمورابی، موہن جوداڑو، ہڑپا، آریہ، وادیِ سندھ، یونان، لاطینی زبان، اِریک، ویدک عہد، عبرانی زبان، نثری قصے، ایران، ہندوستان، رامائن، سنسکرت زبان، جاتک کہانیاں، بودھ کتھائیں، برہت کتھا، پنچ تنتر، کالیداس، شاہنامہ، فردوسی۔

————

انسان کی سب سے بڑی خصوصیت اُس کے سوچنے، سمجھنے اور پھر بیان کرنے کی صلاحیت ہے جو اُس کو ہردم فعال اور متحرک بناتی ہے۔ اسی جذبۂ تحرک نے قصّہ کہانی کو جنم دیا جس کا سلسلہ ابتدائے آفرینش سے ملتاہے۔ دُنیا کے ہر خطّے میں رہنے بسنے والے افراد کی مختلف ادوار سے منسلک قصّہ کہانیاں بے شمار مرحلوں سے گُزر کر ہم تک پہنچی ہیں۔ ماقبل تاریخ بھی اس کا وجود اپنی دلچسپیوں کے باعث ذہنِ انسانی کو مہکاتا رہا اور اپنے رنگ وروپ کو نکھارتا رہا ہے۔ کائنات کے مختلف حصوں میں، پروان چڑھنے والے قصے کہانیوں کے سفر کی روداد اتنی طویل ہے کہ اِس کے آغاز اور موجودہ شکل وصورت کے مابین انسانی وجود اور اُس کے تمدن کی پوری تاریخ اِس کے توسط سے دیکھی جاسکتی ہے۔

شاید اِسی پس منظر میں کہا جاتا ہے کہ کہانی، انسانی زندگی سے وابستہ اور اس کے وجود سے جڑی ہوئی ہے۔ انسان نے اپنے احساسات و جذبات کے ساتھ اپنی فکری رنگ آمیزی سے کہانی کو جنم دیا ہے۔ اس کی تخلیق اورارتقا دونوں میں انسانی ذہن کی کارفرمائیاں دیکھی جاسکتی ہیں اور یہ انسانی ارتقا کے زیر سایہ پروان چڑھتی نظر آتی ہے۔ کہانی کے ارتقائی سفر کے مطالعے میں انسانی ارتقا کا ذکر نا گزیر ہے۔ ابتدائی انسان کے تعلق سے بہت سی باتیں ذہن میں گُزرتی ہیں کہ شروع میں بھی انسان کی بنیادی ضروریات وہی تھیں جو آج ہیں۔ غذا، لباس اور رہائش کے بغیر، زندگی اس کے لیے محال تھی۔ شروع شروع میں جب اس کو بھوک لگی جو کچھ ہاتھ لگا اس نے کھالیا۔ سردی محسوس ہوئی تو پتے اور گھاس پھوس سے اپنے بدن کو لپیٹ لیا۔ لیکن رفتہ رفتہ ان ضروریات اور ان کے تعلق سے دیگر لوازم کے حصول کے لیے وہ جدو جہد کے پرپیچ اور لا تعداد مراحل سے گزرتا رہا۔ بے شمار واقعات اور حادثات اس کو جھیلنے پڑے۔ مشاہدات اور تجربات اس کی معلومات میں اضافہ کرتے رہے اور وہ اپنے سماجی ارتقا کے اس سفر میں نئی نئی کہانیاں تخلیق کرتا رہا۔ ابتدائً انسان نے اپنی مختلف کیفیات کا اظہار، منھ کی مختلف آوازوں اور ہاتھ اورانگلیوں کے اشاروں سے کیا تھا۔ وہ کسی چیز سے خوف زدہ ہوتا تو بے ساختہ چلا اٹھتا۔ دوسرے لوگ متعلقہ آواز کے سہارے صورت حال سمجھ کر اس کے پاس پہنچ جاتے تو سمت اور مقام کی نشان دہی وہ ہاتھ کے اشاروں سے کرتا، اور اگر وہ چیز دورجا چکی ہوتی تو ہاتھ کے اشارے اور انگلیوں کی حرکتوں سے اسے بھی بتا دیتا۔ افہام و تفہیم کے یہ اشارے علامتوں کی شکل اختیار کرتے گئے۔

پروفیسر وارث کرمانی اپنے مضمون ’ ادب اور نظریہ‘ میں لکھتے ہیں:

’’لکھی ہوئی تاریخ کے زمانے سے بھی پہلے سے انسان اپنے اور کائنات کے بارے میں غور کرتا رہا ہے۔ اپنے ماحول کو سازگار کرنے، ہم جنسوں سے تعلقات قائم کرنے اور خوردونوش اور دوسری ضروریات کے سلسلے میں جس تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے وہ ضرور روز مرہ کی زندگی میں بروئے کار آتی رہی ہوگی— آدمی جب روزانہ کے کام کاج کے بعد کھانے پینے سے آسودہ ہوکر لیٹتا تھا تو اُسے چاند، سورج، زمین، آسمان اور دوسرے مظاہر قدرت کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے وہ ضرور متاثر کرتی رہی ہوگی۔‘‘1؎

ابتدائً مرد اور عورت کی قربت سے بچے کاوجود ہواتو اس نے والدین کو خانگی زندگی سے آشنا کیا۔ بچے کی نگہ داشت اور پرورش کی ذمے داری قبول کر کے تمدن کی طرح ڈالی گئی۔ باہمی مطمح نظر سمجھنے کے لیے جن آوازوں اور اشاروں کا وہ سہارا لیتا، بچہ بھی اس سے واقف ہوتا جاتا۔ رفتہ رفتہ وہی آوازیں اور اشارے اس طرح ڈھلتے گئے کہ باقاعدہ گفتگو کا ذریعہ بنے۔ شروع میں ہر نئی چیز جو انسان دیکھتا اور ہرنئی بات جو وقوع پذیر ہوتی، وہ اس کے لیے باعث حیرت ہوتی۔ یہی حیرت اس کو خیال و خواب کی دنیا کی سیر کراتی، نئے احساس اور جذبے سے روشناس ہونے کا موقع ملتا۔ اس کی محدود کائنات، اس کا غیر منطقی شعور، اس کے احساس اور جذبے کو اپنی بانہوں میں جکڑ لیتا تو ہر نیا واقعہ، حادثہ، تجربہ اور مشاہدہ ایک نئی کہانی کی تشکیل کرتا۔ بہت چھوٹی اور معمولی بات اس کے لیے کہانی کا روپ اختیار کر لیتی۔ ماہ و سال گزرتے رہے، کہانی، انسانی ارتقا کے دوش بدوش آگے بڑھتی اور شاداب ہوتی گئی۔

کہانی کی جائے پیدائش اور قدامت کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا، قریب قریب ناممکن ہے۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ یہ صنف ادب اسی قدر قدیم ہوگی جتنی کہ نسل انسانی اور انسانی وجود کی تاریخ۔ جدید تحقیقی وتنقیدی علوم اس کا حتمی جواب دینے سے قاصر ہیں۔ محققین نے ہسپانیہ اور فرانس میں تقریباً 30 ہزار سال پرانے انسانی وجود کی بازیافت کی ہے2؎ اور ان کو ابتدائی دور کے پہلے انسانوں کی حیثیت سے تسلیم کر کے، اس دور کو پتھر کے عہد (حجری عہد)سے تعبیر کیا ہے۔ اور ان کی نسلی قدامت کو چالیس ہزار سال مانا ہے۔ لیکن اس بات کو قطعی اور آخری حیثیت کیوں کر دی جا سکتی ہے، جب کہ ایشیائی اور افریقی سرزمینوں کے بڑے علاقے ہنوز تاریکی میں ہیں اور تحقیق کے محتاج ہیں۔ ایشیائی سرزمین آج بھی بے شمار رازاپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ لاتعداد علمی خزینے اس میں دفن ہیں۔ ان گنت سراغوں کو اس نے اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے۔ موہن جو داڑو، ٹیکسلا اور ہڑپا کے آثار3؎ اس کے گواہ ہیں کہ یہ سرزمین اگرتحقیق کی پوری گرفت میں آئے تو اس ضمن میں کتنی بہت سی نئی سمتوں کی نشان دہی ممکن ہے۔ پھر بھی دنیا کی جن قدیم ترین تہذیبوں کو اوراق نے محفوظ کیا ہے، ان کا تعلق اسی خطہ ارض سے ہے۔4؎ جن قدیم کہانیوں کا سراغ ہمیں ملتا ہے وہ ایشیائی ممالک کا عطیہ ہیں۔ قدیم مذاہب کے سرچشموں کا تعلق بھی انہی علاقوں سے ہے۔ جن کے ڈانڈے عہد عتیق سے ملتے ہیں جن سے انسانی ارتقا کی واضح تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ اور اس امکان کو تقویت پہنچتی ہے کہ نسلِ انسانی کی ابتدا ایشیائی سرزمین سے ہوئی ہے اور اس کی تاریخ تقریباً پچاس ہزار سال پرانی ہے۔

کہانی کا ابتدائی روپ وہ ہے جب وہ اشاروں میں کہی جاتی تھی اور اس کا تعلق اْس عہد سے ہے جب انسان کو بولنا نہیں آتا تھا۔ اس دور کی قطعی غیر متمدن زندگی آج سے قطعاً مختلف تھی۔ انسان گردو پیش کے حالات سے واقف نہ تھا۔ روزمرہ کے مشاہدات اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ چاند اور سورج، رات اور دن، آسمانی گرج اور چمک، سمندری مد و جزر، موسمی تغیرات اور اسی طرح کی دوسری باتیں اسے حیران کرتیں۔ کائنات کے بے شمار اسرار ورموز اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ ہر نئی بات اس کے لیے تعجب خیز ثابت ہوتی۔ اس کا ناپختہ ذہن اور انتہائی محدود علم اس کے فطری تجسّس کو ہمیشہ بیدار رکھتا۔ ہر نئی چیز کو جاننے اور سمجھنے کے لیے وہ بے تاب رہتا۔ اس کی زندگی میں روز نت نئے واقعات پیش آتے۔ اس کو نئے تجربات کا سامنا ہوتا۔ خوراک اس کے لیے ایک مسئلہ تھا۔ اس کی تلاش میں وہ مختلف سانحات اور حادثات سے دوچار رہتا۔ ہر نیا واقعہ اس کی معلومات میں اضافے کا سبب بنتااور نئے جذبے سے روشناس کراتا۔ اظہار خیال کے لیے زبان کے وسیلے سے ناواقف ہو کر بھی وہ باتونی تھا۔5؎ باہمی خیالات کی ادائیگی اشاروں میں کرتا۔ اس کو کوئی بھی نئی بات معلوم ہوتی تو حیرت میں مبتلا،اس ساری کیفیت سے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کرتا۔ اس طرح نئے نئے واقعات اور نئے نئے تجربات نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتے رہے اور ذہنوں میں خلط ملط ہوکرنئی وضع قطع اختیار کرتے رہے بلکہ :

’’ ان واقعات میں سے جو زیادہ اہم تھے، جن میں زیادہ جان تھی، جو زیادہ زور دار تھے، جن کے اندر دل میں زیادہ کھب جانے والی کیفیت تھی، وہ زندہ رہے، آئندہ نسلوں نے بھی ان کو یا د رکھا۔‘‘6؎

کہانی کے رنگ وروپ میں مزید نکھار اس وقت آیا جب انسان شعور کی حدود میں داخل ہوا۔ تبادلۂ خیال کے لیے اشاروں کا زمانہ بیتا۔ خیالات کی ادائیگی منھ سے نکلنے والی آوازوں سے شروع ہوئی۔ ان آوازوں کو اس نے مختلف معنی و مطلب کے لیے ڈھال کر الفاظ کا جامہ پہنا یا۔ وہ کنبوں اور خاندانوں میں بٹ کر دور دراز علاقوں میں پھیل چکا تھا۔ باہمی تعلقات میں پاس ولحاظ اور اونچ نیچ وہ سمجھ چکا تھا۔ کوئی سماجی اور تمدنی تصوّر نہ رکھنے کے باوجود اس نے ایک متمدن سماج کی بنیاد ڈال دی تھی۔ کا ئنات کے بہت سے اسرار ورموز اس پر منکشف اور بہت سی حقیقتیں اس پر ظاہر ہو چکی تھیں۔ مختلف سانحات اور واقعات نے اس وقت تک اس کو بہت کچھ سکھا دیا تھا اور اپنے ارد گرد سے متعلق بہت کچھ واقفیت اسے حاصل ہوچکی تھی۔ بے شمار باتوں سے انجان رہ کر بھی، وہ ان سے بالکل اجنبی نہ تھا لیکن یہ سفر ابھی ارتقائی منزلوں میں تھا۔ بے شمار باتیں ابھی اس کے لیے تحیر کا سبب ہوتیں۔ وہ ان پر غور کرتا، قیاس آرائیوں کے سہارے، ان میں رنگ آمیزی کرتا اور دوسروں کو اس میں شریک ٹھہراتا۔وہ ان میں خیال آرائی پیدا کرتا اور مزے لے کر انھیں بیان کرتا۔ اجداد سے فطری لگاؤ کے باعث ان کے واقعات اور کارنامے اس کے لیے باعث افتخار ہوتے۔ خود نمائی نے نسلی برتری کے احساس تلے ان واقعات اور کارناموں میں افسانوی رنگ بھرے۔ مذہبی عقائد اور تو ہمات نے ان میں بال و پر پیدا کیے۔ یہ سارے موضوعات، قیاس آرائیاں، خیال آرائیاں، اجداد اور خود اس پر بیتے ہوئے واقعات اور کارنامے آپس میں گھل مل کر اس کے ذہنی دریچوں سے گزرے تو ان میں وہ نظم ضبط اور ترتیب آتی گئی جس نے کہانی کو با قاعدگی کا روپ بخشا، وہ سنورتی اور نکھرتی گئی، اورانسان نے اس کو اپنی تفریح طبع کا ایک ذریعہ قرار دیا۔

صدیاں بیت گئیں۔ نسلِ انسانی جتنی قدیم ہوئی، ذہن انسانی میں اسی قدر پختگی آئی۔ انسانوں کی آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا۔ بنیادی ضروریات اور ان کے تعلق سے دیگر لوازم نے اس کو نقلِ مکانی کے لیے مجبور کیا۔ ہزار ہا میل کے اطراف میں بکھر کر وہ دور دراز علاقوں تک پہنچتا رہا۔ نئے نئے تجربات و مشاہدات، ماضی سے منتقل ہوتے ہوئے معلومات سے گلے مل کر اس کے علم و دانش میں اضافہ کرتے رہے۔ وہ انتہائی طویل جد و جہد سے گزر کر ایک ایسی دنیا میں جو ماضی سے بڑی مختلف تھی، داخل ہو چکا تھا۔ متعدد علوم کا سراغ اسے مل چکا تھا۔ اس نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ سمتوں کا تعین، ایام کا شمار اور ستاروں کی چالوں سے اوقات کے تعین سے واقفیت ہوگئی تھی۔ مختلف موسموں سے فائدہ اٹھانے کے امکانات تلاش کرتا رہا۔ غذا کے مسئلے کو کاشت کے ذریعے اورآگ سلگانے کے راز سے واقف ہو گیاتھا، روشنی کے لیے چراغ اور رہائش کے لیے بہتر سہولتیں اسے میسر ہورہی تھی، لباس کا استعمال آگیاتھا، متمدن زندگی میں پہلا قدم رکھ کر وہ آگے کی طرف رواں دواں تھا۔ تہذیب و تمدن کی لہریں چل نکلیںتھیں۔ نئی نئی بستیاں قائم ہوئیں تودنیا آباد ہوتی گئی۔ 7؎

مختلف جغرافیائی ماحول میں رہ کر انسان کا رنگ و روپ، قد و قامت اور مزاج بدلتا رہا۔ مختلف خصوصیات میں وہ ایک دوسرے سے ممتاز ہوا اور شناخت کے اعتبار سے متعدد نسلوں میں منقسم ہوتا گیا۔  اپنے آبا و اجداد اور ان کے آبائی وطن کے تعلق سے اس کے ذہن میں بے شمار واقعات محفوظ تھے جو اس کے لیے حیرت، دلچسپی اور افتخار کا باعث تھے اور اس تک نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہو کر پہنچے تھے۔ وہ اپنے اجداد کو غیر معمولی اور سحر انگیز قوتوں کا حامل خیال کرتا،جنھوں نے ایسی سرزمین کی تسخیر کی جو مافوق البشرباتوں سے بھری ہوئی تھی۔ سرسبز و شاداب وادیوں، خشک ریگستانوں، پہاڑوں اور چٹیل میدانوں، نشیب و ترائی والے علاقوں اور گھنے جنگلوں میں رہنے بسنے والے ایک دوسرے کے بارے میں اپنے بزرگوں سے جو واقعات سنتے وہ ان کے لیے حیرت کا سبب بنتے اور وہ ان باتوں کو مافوق الفطرت خیال کرتے۔ تہذیب و تمدن اور علم وفن کی دنیا میں داخل ہو نے کے باوجود اس کا یہ ابتدائی دور تھا۔ معلومات محدود اور وسائل کمیاب تھے مگر زندگی گزارنے کا راز وہ پا چکا تھا۔ وہ ان واقعات کو مختلف مواقع پر الگ الگ مقاصد کے لیے بطور کہانی بیان کرتا اور انہیں دلچسپ بناکر پیش کرتا۔ بچوں کو بہلانے اور فرصت کے اوقات میں تفریح طبع کے لیے عبرت حاصل کرنے اور چھوٹوں کی رہنمائی کے لیے، مذہبی عقیدت و نسلی برتری کے اظہار یا حاکم وقت کی خوشنودی کے لیے کہانیاں بیان کی جانے لگیں۔ دلچسپی کے لیے جنسی معاملہ اور عبودیت کا احساس ان کہانیوں میں دیو مالائی واقعات کا اضافہ کرتا۔ یوں مختلف قسم کی کہانیوں کا چلن شروع ہوا۔ لکھنا پڑھنا اسے آگیاتھا۔ اُس نے ان قصے کہانیوں کو اپنے نوک قلم پر لیا تو صنف کہانی اپنے ابتدائی دور میں داخل ہوئی اور انسانی ارتقا کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہوئی ہم تک پہنچی۔

2

تاریخ کے قدیم جھروکوں سے ماضی بعید کی طرف جھانکیے تو کہانی دو ادوار میں منقسم نظر آئے گی۔ پہلے دور میں کہانیاں صرف کہی اور سنی جاتی تھیں۔ دوسرے دور میں تحریر کا وجود عمل میں آیا تو وہ لکھی اور پڑھی جانے لگیں۔ پہلے دور میں انسان لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں ہوا تھا۔ کہانیوں کا تحریری وجود عمل میں نہ آنے سے ان کے بارے میں ایسا مواد فراہم نہیں ہو تا کہ ان کے تعلق سے کوئی یقینی علم حاصل ہوسکے۔ ان تحریروں کے سہارے جن میں کہانیاں اپنے ابتدائی روپ میں ملتی ہیں، صرف قیاس آرائیاں ممکن ہیں۔ باقاعدہ کہانیوں کا آغاز تحریر کے وجود میں آنے کے بعد ہوا ہے۔ کسی بات کو تحریری پیرہن مہیا کرنا نسبتاً دشوار اور ایک علاحدہ فن ہے۔ اس دور میں اس فن کی تلاش عبث ہے۔ اس لیے دوسرے دور کی کہانیوں کے ابتدائی تحریری نمونوں کے پیش نظر پہلے دور کی کہانیوں کے لیے کوئی حتمی رائے نہیں قائم کی جاسکتی ہے۔

پہلے دور کے اختتام اور دوسرے دور کی ابتدا کے درمیانی عہد میں انسان متمدن زندگی کی طرف رواں دواں تھا۔ وہ ان اوصاف سے مزین ہوتا جارہا تھا جن کی بنا پر تاریخ اس کو متمدن قوم کے پہلے مورث اعلیٰ کی حیثیت سے متعارف کرا سکے۔ وہ اپنے ماضی سے بہت بدل چکا تھا۔ اپنی محدود سمجھ اور علم کے مطابق بہت کچھ جان چکا تھا۔ اطراف میں بکھری اور سمجھ میں نہ آنے والی باتیں اس کے لیے باعث حیرت نہ ہو کر غور وفکر کا سبب ہوتیں۔ کوئی واقعہ مرکز توجہ بنتا تو اس کو سمجھنے کی وہ ممکنہ کوشش کرتا۔ مناسب خیال کرتا تو اس جانب سے آئندہ کے لیے محتاط ہو جاتا اور صورت حال سے استفادہ کرنے کی راہیں تلاش کرتا۔ اس کا ذہن حرکت میں آچکا تھا۔ نئے امکانات اور نئی راہوں کا وہ متلاشی رہتا، تسخیر کائنات کی لاشعوری کوشش میں اپنا پہلا قدم وہ اُٹھا رہا تھا۔ تصویر بنانے کا فن اسے آچکا تھا۔ مصوری، موسیقی اور نقاشی اس کے لیے نئی بات نہ تھی۔ اظہار خیال کے ایک نئے اور پائیدار وسیلے کی اس کو تلاش تھی۔ مختلف تصاویر کے ذریعے بطور علامت اس نے سہارا بھی لیاتھا۔ ان میں دیگر علامتیں وہ شامل کرتا رہا۔ رفتہ رفتہ ان علامتوں نے تصاویر کی جگہ اس طرح گھر کیا کہ وہ مخصوص فن بن کر مستقل حیثیت اختیار کرتی گئیںاور مصوری، خطاطی سے ہم کنار ہوتی گئی۔ یہ مرحلہ تمام ہوا تو انسان ایک نئے دور میں داخل ہوچکا تھا، تحریر وجود میں آچکی تھی۔ کہانیاں لکھی اور پڑھی جانے لگی تھیں۔ کہانی کا با قاعدہ باب اسی دوسرے دور سے شروع ہوتا ہے۔

کہانی کے ارتقائی سفر کا تعلق دراصل تحریر کے وجود سے ہے۔ کہانیاں نوک قلم پر آئیں تو تحریری لبادوں میں لپٹ کر دستاویزی روپ میں محفوظ ہوئیں۔ تحریر کا وجود عمل میں نہ آتا تو کہانیاں اپنی موجودہ شکل میں ہمارے سامنے نہ ہوتیں۔ ان میں بتدریج رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہم نا واقف رہتے، اورکہانی کا ارتقائی سفر ہم سے اوجھل رہتا۔ تحریر کا وجود دنیا کے مختلف علاقوں میں الگ الگ زمانوں میں ہواہے۔ تحریر کا وجود ارتقائے انسانی سے عبارت ہے۔ ارتقا  کے مراحل جس تیز گامی سے انسان نے جن علاقوں میں طے کیے، وہ علاقے اسی قدر جلد تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے۔ تحریر کا وجود وہاں پہلے عمل میں آنے سے وہاں علم وفن کو پہلے فروغ حاصل ہوا۔ کہانیاں بھی وہاں سب سے پہلے لکھی اور پڑھی گئیں۔

 تقریبا دس ہزار سال قبل مسیح کی دنیا آج کی دنیا سے بہت مختلف نہ تھی۔ خشکی و تری کے علاقے اور موسمی حالات لگ بھگ یکساں تھے۔ وادی نیل کا علاقہ اور ایشیا کے مختلف خطے، خصوصاً شمالی ایران، مغربی ترکستان اور جنوبی عرب کے احاطے اس اعتبار سے سر فہرست ہیںکہ ان علاقوں کی تاریخی قدامت دنیا کے دیگر علاقوں سے ممتاز ہے۔ آٹھ نو ہزار سال قبل مسیح اس علاقے کے رہنے بسنے والے تہذیب و تمدن کے دور میں داخل ہو چکے تھے۔ چھ سات ہزار سال پیش تر وہاں تحریر وجود میں آچکی تھی۔ چین بھی قدیم تہذیب کا وارث ہے اس کی تمدنی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ دجلہ و فرات (یہ دونوں ندیاں آرمینیا کی پہاڑیوں سے نکلی ہیں) کے خطے میں لکھی جانے والی منظوم کہانی جو سامری تہذیب کی ضامن ہے، تین ہزار پانچ سو قبل مسیح کے درمیانی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کہانی میں سارگون کی پریشانیوں اور ایشتر دیوی کی مہربانیوں کی روداد دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ تین ہزار اشعار پر مشتمل ایک دوسری کہانی گل گامش سے متعلق ہے جو عراق کے بادشاہ حمورا بی (2065- 2024 ق م) کے دور میں لکھی گئی ہے حمورا بی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہم عصر تھا،اس کا ذکر عہد نامہ قدیم میں آیا ہے۔ موہن جو داڑو اور ہڑپا کے آثار کی بازیافت سے پہلے قدیم ہندوستانی تہذیب کا سہرا آریاؤں کے سر تھا کہ تین ہزار سال سے ذرا کچھ پہلے وہ برصغیر میں داخل ہوئے اور اس سرزمین کو تہذیب و تمدن سے آشنا کیا۔ وادی سندھ کے ان قدیم آثار نے ملک کی تہذیبی تاریخ کا قدیم سراجس قدر در از کیاہے اسی قدر تحریر کی قدامت بھی سامنے آئی ہے۔ گو کہ کہانی کے تعلق سے کوئی تحریری سراغ ان آثار سے نہیں ملاہے۔

یونان میں ایک ہزار سال قبل مسیح تہذیب وتمدن کا فروغ ہوا اور جلد وہاں ایسے تاریخ ساز علمی، ادبی اور فنّی کارنامے انجام دیے گئے کہ دنیا آج بھی ان کے علم و دانش کو حیرت اور توقیر کی نظر سے دیکھتی ہے۔ سات سو ترپن سال قبل مسیح اطالوی سرزمین پر شہر روم آباد ہوا، اس شہر کے مکینوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ اطالیہ بھی تاریخ میں قدامت کے اعتبار سے ممتاز بنااور وہاں کی قدیم لاطینی زبان کو کہانی کے ارتقا کے نقطہ نظر سے امتیازی حیثیت حاصل ہوئی۔

ہر اس خطہ زمین پر جہاں انسان آباد تھے اور سماجی وتمدنی زندگی کی چہل پہل تھی کہانیاں کہی اور سنی گئیں، اور مختلف زبانوں میں لکھی گئیں، اور تحریر کی شکل میں عہد بہ عہد منتقل ہوتی ہوئی عہد حاضر تک پہنچیں۔ تحریر کی وجہ سے بے شمار تاریخی واقعات قدیم کہانیوں کے روپ میں آج ہمارے سامنے بکھرے ہوئے ہیں۔ کہانی نے ساری دنیا بسیرا لیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کی ابتدا سرزمین ہند کی مرہونِ منت ہے۔ اس کا خاص تعلق آغاز وابتدا سے اپنے درمیانی زمانے تک سرزمین مشرق سے رہا۔ ایشیا کے مغربی علاقوں خاص کر عرب و ایران نے اس کی پاسبانی کی۔ اور نشوونما اور میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ وطن عزیز بھی قدیم رشتے کی پاسداری میں اپنا پورا حق ادا کرتا رہا۔ مصر جو دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا وارث ہے، اس سے متعلق اِریک (Erech) کی چھ سات ہزار سال پرانی اور دنیا کی پہلی یک لفظی تحریر ’شہنشاہیت‘ اپنے اندر ایک طویل کہانی سموئے ہوئے ہے۔وہ حرص و ہوس کی انسانی فطرت کی یاد دلاتی ہے کہ کس طرح ایک شہر کی حکومت دوسرے شہر پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہے۔ مصر کے قدیم کھنڈرات کی کھدائیوں سے تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح کی کئی دلچسپ کہانیوں کا پتہ چلتا ہے۔ یہ کہانیاں شاہانِ مصر سے منسوب ہیں اور ان کے سیر و شکار، آداب تیراندازی اور مہمات کے واقعات کو بیان کرتی ہیں۔

تحریر میں نثر سے پہلے نظم نے بیش تر زبانوں میں ارتقائی مراحل طے کیے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کی اکثر زبانوں کے قدیم ادب میں منظوم کہانیاں،نثری کہانیوں سے زیادہ ملتی ہیں مثلاً ہندوستان کی قدیم ترین، و یدک عہد کی کتاب رِگ وید میں جس کی قدامت تین ہزار سال ہے، تقریباً 100 کہانیاں اپنی ابتدائی شکل میں موجودہیں۔ کتاب کے ابتدائی حصہ (7) 33میں دو فریقوں کے مابین ہونے والی جنگ کو بیان کیا گیا ہے۔ سیاسی کش مکش سے بھر پور اس تاریخی واقعے کے بارے میں کیلڈ نر کا خیال ہے کہ اس کا تعلق ویدک عہد کے ابتدائی زمانے سے ہے اور اس وقوعے کو ایک سیاسی کہانی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے:

’’دس بادشاہوں کی لڑائی اصلاً پوروت اور بھارت نام کی رگ ویدک آریاؤں کی دو خاص شاخوں کی نزاع تھی جس میں غیر آریائی لوگ امدادی فوج کے طور پر شریک ہوئے ہوں گے۔ ایک طرف بھارتیوں کی رہنمائی رِگ وید کی مشہور شخصیت سورد اس کر رہا تھا اور ان کی مدد پر ان کا پروہت وششٹھ تھا اور دوسری طرف ان کے دشمن انس، در ہیس، یاوس، تروشس اور پورس نام کے پانچ زیادہ مشہور قبیلوں کے اور الینا، پکتھا، بھلانس، سیوا اور وشائن نام کے پانچ کم مشہور قبیلوں کے دس بادشاہ تھے مخالف جماعت جس کو رِشی و شوامتر نے منظم کیا تھا۔ اس کا سربراہ یوروس تھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑائی واقعتاً کمتر آرائی قبیلوں کی اپنی جدا گانہ انفرادیت کو برقرار رکھنے کی ایک یادگار کوشش تھی لیکن وہ پروشنی ندی پر سود اس کی رہنمائی میں بھارتیوں کے ذریعے مکمل طور پر پسپا کر دیے گئے۔‘‘ 8؎

رِگ وید میں ایک اور کہانی ’دیو اسر سنگرام‘ کی صورت میں ملتی ہے۔ اس کو تمثیلی کہانی کی صف میں جگہ دی جاسکتی ہے۔ آٹھویں نویں صدی قبل مسیح میںیونان میں دو عظیم کہانیاں لکھی گئیں۔ عظیم یوں کہ پہلی بار ہومر کی ان شعری تخلیقات میں با قاعدہ کہانی پن ملتا ہے اور کہانی کے فنی لوازم کو برتا گیا ہے:

’’یونان کے باکمالوں میں ہومر، نہ صرف رزمیہ نگاری کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے بلکہ قصہ نویس ہونے کے اعتبار سے بھی اس کو اولیت کا فخر حاصل ہے۔ کیونکہ اس کی لازوال نظم ’ایلیڈ‘ کی بنیاد قصہ پر ہے۔‘‘9؎

غرب ایشیائی شہر ’ٹرائے‘ پر یونانی قبائل حملہ آور ہوتے ہیں اور فتح و کامرانی کے بعد شہر کو تاراج کر دیتے ہیں۔ یہ خیالی وقوعہ رزم و بزم سے آراستہ ہو کر کہانی کی شکل میں ’ایلیڈ‘ کے نام سے منظوم ہو کر اس کے خالق ہومر کوزندہ جاوید کر دیتا ہے۔ ہومر کی دوسری تخلیق ’اوڈیسی‘ ایک طویل مہماتی کہانی ہے۔ دانش مند کپتان اوڈیسیس ’ٹرائے‘ سے اپنے وطن واپس ہوتا ہے۔ سفر کے حالات مہم جوئی سے پُر ہیں۔ یہ تخیلی واقعات کہانی کے پیرائے میں منظوم ہو کر ہو مر کولا زوال شہرت بخشتے ہیں:

’’ان دونوں نظموں میں، اسلوب کی دلکشی کے ساتھ رومانی فضا، قصہ پن، مکالمہ اور کردار نگاری کے ایسے بلند پایہ نمونے ملتے ہیں کہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ان کے ترجمے کیے جاچکے ہیں، اور علمی وادبی حلقوں میں آج بھی وہ بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا تعلیم یافتہ اور باذوق شخص ہو جس نے آکلیز (Achelles) کی جاں بازی و شجاعت، ہلن کے حسن و جمال، یویسیس کی جامعیت و ہمہ گیری اور پنی لوپ (Penelope) کی مستقل مزاجی و وفاداری کے افسانے نہ سنے ہوں۔‘‘10؎

 کہانی کے باب میں چھ سے چار سو سال قبل مسیح کا درمیانی عہد خاصا اہم ہے۔ اس تعلق سے توریت اور زبور کا ذکر ناگزیر ہے۔ یہ مقدس کتا بیں بالترتیب حضرت موسیٰ (600 ق م سے کچھ پہلے ) اور حضرت داؤدؑ پر نازل ہوئی تھیں۔ عبرانی زبان کی ان مقدس کتابوں سے بہترین قصص، قصہ یوسف، قصہ کہف، قصہ سکندر ذوالقرنین، قصۂ قارون منسوب ہوئے۔ پھر مذہبی تعلق اور عقیدت کی بنا پر بے شمار ایسی کہانیوں کا چلن شروع ہوا جو انبیا اور بزرگوں کے واقعات سے پر ہیں۔ یہی کہانیاں مذہبی قصے کہلائے ان میں سے بیش تر کہانیاں بہ صورت عہد نامہ قدیم، آج بھی زندہ ہیں اور پوری عقیدت و دلچسپی سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔ اسی درمیانی مدت ( چھٹی سے چوتھی صدی قبل مسیح) میں پہلی بار نثری کہانیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ مذہب نے انسان کو مختلف قدروں اور اخلاقی معیاروں سے آشنا کر دیا تھا پھر دیگر انبیا کی تعلیمات نے ان کے ذہنوں میں مذہبی رجحان اور اس کے تعلق سے اخلاقی میلان کو اس طرح مضبوط کیا کہ اخلاقی کہانیاں تصنیف ہوئیں۔ ان اخلاقی اور نثری کہانیوں کا تعلق لقمان ( ایسپ ) سے ہے۔ ان کا عہد وہی معلوم ہوتا ہے جو حضرت داؤدؑکا ہے ان کی مختصر اور فرضی کہانیاں ایسپس فیبلس ( حکایات لقمان) کے نام سے مشہور ہیں۔ فکشن کے محققین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قدیم ترین شخص جس کے نثری قصے بآسانی مل سکتے ہیں وہ لقمان ہے۔ لقمان لاطینی اقوام کی زندہ جاوید پیداوار ہے جس کی پندو نصائح سے مملو حکایتیں ( کہانیاں) تین ہزار سال سے نو عمروں کے لیے آج تک مشعل ہدایت ہیں یہ کہانیاں آج بھی حکایت نگاری کا بہترین نمونہ بنی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں یونان کی ایک تصنیف ’ایسٹ فیبلس‘ (East Fables) بھی قابل ذکر ہے جو کہ حکایات کی شکل میں ہے۔

ایران میں کہانیوں کا سراغ پانچ سو سال قبل مسیح سے ملتا ہے جب وہاں تو حید کا نور آتش پرستوں کے دھند لکے میں چھپ جاتا ہے اور نیکی اور بدی کی کش مکش شدت سے ابھرتی ہے اس وقت پورے فارس میں ایک طرف سیامک کے کارنامے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب ایرانیوں کے حریف تورانیوں کے واقعات جو زرتشت کو بلخ کی قربان گاہ پر چڑھا دیتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر مومن محی الدین :

’’اس کی زندگی کے واقعات، روایتی قصے، معجزات و کرامات کے اردگرد جو حاشیہ آرائی ہوئی ہے اس نے اصلیت و صداقت کے خدو خال پر پردہ ڈال دیا ہے۔ صرف اساطیری داستان تاریخ کو یاد ہے۔ راہ تہذیب کے اولین مسافروں میں اساطیر کے دھندلکے میں جو چہرے مانوس نظر آتے ہیں ان میں سیامک اس قافلے میں سب سے آگے ہے۔‘‘11؎

 چار سو سال قبل مسیح سے ذرا کچھ پہلے ہندوستان میں ’رامائن‘ کی تصنیف ہوئی۔ یہ سنسکرت زبان کا غیر فانی شاہکار ہے۔ اس کو بالمیکی نے لکھا تھا۔ یہ تاریخی واقعات پر مبنی منظوم کہانی ہے اس میں  شری رام چندر جی کے حالات کو کہانی کے پیرائے میں نظم کیا گیا ہے۔ یہ تصنیف مذہبی تقدس سے قطع نظر تاریخی اہمیت کی بھی حامل ہے اور کہانی کے نقطہ نظر سے اس کی افادیت مسلم ہے۔ رامائن کے بعد لکھی گئی سنسکرت کی دوسری تصنیف ’مہا بھارت‘ بھی غیر فانی کلاسیکی سرمایہ ہے۔ اس تصنیف کے تقدس میں ’بھگوت گیتا‘ کی شمولیت نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اس کی کہانی بھی تاریخی واقعات پر مشتمل ہے کو رو اور پانڈو کی درمیانی کش مکش، ان سے متعلق حالات اور شری کرشن جی کے کردار کو مہا بھارت میں منظوم کہانی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’مہا بھارت‘ ویدو یاس کی تصنیف ہے جس کی قدامت چار سو سال قبل مسیح خیال کی جاتی ہے۔

جدید تحقیق کی روشنی میں بھاس کی متنازعہ شخصیت سامنے آئی ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میںاس نے سنسکرت زبان میں تیرہ ڈرامے لکھے۔12؎ اس کا بہترین ڈرامہ سوپن واسودتّہ ہے۔ دوسری صدی قبل مسیح سنسکرت زبان میں شو درک کا لکھا ایک مزاحیہ ڈرامہ مر چھکٹک ملتا ہے جس کی بنیا د تخیلی ہے۔ یہ دونوں مشہور ڈرامے محض مکالموں کی شکل میں نہیں ہیں بلکہ ان میں فن مصوری سے بھی بڑی حد تک کام لیا گیا ہے۔ سوپن واسودتہ یعنی واسود تہ کا خواب میں عشق اور قربانی کا جذبہ موجزن ہے تو مرچھکٹک میں ایک غریب برہمن اور امیر طوائف کی روداد عشق ہے۔ کرداروں کے مزاج میں تضاد کے باوجود یکسانیت ہے وہ یا تو بھولے بھالے ہیں یا پھر حد درجہ چالاک نظر آتے ہیں۔

سنسکرت زبان کے توسط سے، ہندوستانی ڈراموں کے سلسلے میں روایت مشہور ہے کہ جب دیوتاؤں کو اپنی زندگی سے رغبت ختم ہوتی محسوس ہونے لگی تو انھوں نے ناردمنی کے ذریعے اپنی کیفیت راجہ اِندر تک پہنچائی۔ راجہ اِندر نے برہما سے ان کی اکتاہٹ و بیزاری دور کرنے کے لیے کچھ مشاغل کی درخواست کی۔ بر ہما نے رگ وید سے رقص، سام دید سے سرود، یجروید سے حرکات و سکنات اور اتھر وید سے اظہار جذبات کا طریقہ اخذ کر کے ناٹیہ وید، ان کے سپرد کیا جو بہت آگے چل کر ڈرامے کی بنیاد بنا۔ اس بابت ڈاکٹر صفدر آہ لکھتے ہیں:

’’دیوتا جن کا راجہ اندر ہے ( یعنی اندریاں ) برہما ( یعنی قوت تخلیق ) کے پاس گئیں تو برہما نے وید ( یعنی علم و حکمت کے ازلی وابدی خزانے ) سے چار چیزیں کلام، موسیقی، اداکاری اور نورس لے کر ناٹیہ کلا بنائی اور بھرت منی کو دے دی۔‘‘13؎

 اور شاید اسی وجہ سے ہندوستانی ڈرامے کے تانے بانے بھرت منی سے جا کر ملتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھاس کے ڈراموں میں بھرت منی کی اشکال جگمگاتی نظر آتی ہیں۔

تیسری اور پہلی صدی قبل مسیح کے درمیان ’جا تک‘ وجود میں آئیں۔ پالی زبان کی ان کہانیوں کو مہاتما گوتم بدھ کے پچھلے جنموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان کہانیوں کا وجود لنکا میں بھی ملتا ہے۔ جن کا تعلق سنگھالی زبان سے ہے۔ ان کہانیوں کی قدامت 250 ق م خیال کی جاتی ہے۔ دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح کے درمیانی عہد میں دو بودھ کتھائیں سنسکرت زبان میں لکھی گئیں۔ پہلی کتاب ’دیویاؤدان‘ اور دوسری کتاب ’اودان شتک‘ ہے۔ ان تصانیف کا خالق آشو گھوش ہے جو کنشک کے دربار سے وابستہ تھا۔ ’دیو یاؤد ان‘ کے بارے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کی زبان تو اگرچہ سنسکرت ہے لیکن پالی زبان کا اس پر زیادہ اثر ہے۔

ہندوستان میں سنسکرت زبان کی بودھ کتھا ئیں، ان مذہبی قصوں کی یاد دلاتی ہیں جن کی روایت حضرت موسیٰؑ کے عہد سے سرزمین شام پر عبرانی زبان میں پڑ چکی تھی۔ اس روایت کے لیے فضا اس وقت زیادہ ہموار ہوئی، جب حضرت عیسیٰؑ کا سرزمین شام( فلسطین) میں ورود ہوا اور ان پر انجیل مقدس نازل کی گئی۔ عبد القادر سروری ’دنیائے افسانہ‘ میں ماسٹرس آف دا انگلش ناول کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’اگر انجیل مقدس کی بعض روایات کو، جن میں تاریخی واقعات ادبی اور تخیّلی نزاکتوں کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، قصہ کہتے ہیں، تو اس امر کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ مشرق کے ریگستانوں میں قصہ گوئی اسی وقت با ضابطہ شکل اختیار کر چکی تھی جس وقت دنیا ابھی تحریر سے واقف بھی نہیں تھی۔ ‘‘(ص129)

انجیل مقدس نے ان قصوں کے لیے مزید مواد فراہم کیا تو حضرت عیسیٰؑ کے پیرؤںنے ان میں اپنے طور پر جگہ جگہ اضافے کیے اور نئے رنگ و آہنگ سے ان کو آراستہ کیا۔ چنانچہ ایک عرصے بعد ان کا رتبہ بھی وہی ہو گیا جو تالمود اور دوسرے عہد ناموں کا تھا۔

پہلی صدی قبل مسیح اور پہلی صدی عیسوی کی درمیانی مدت میں گناڈھیہ نے پیشا چی پراکرت میں ’برہت کتھا‘ لکھی۔ اس میں جینیوں کے پیشواؤں کے شب و روز اور ان کے تعلق سے حکایات و روایات کو رومانی انداز میں پیش کیا ہے۔ سنسکرت زبان میں یہ قصہ ساتویں صدی عیسوی میں منتقل ہوا۔ لیکن بہترین ترجمہ شیمیندر کا ’برہت کتھا منجری‘ ہے جو 1040 عیسوی  میں کیا گیاہے۔ بعد میں اس نسخے کو سامنے رکھتے ہوئے سوم دیو نے ’کتھا سرت ساگر‘ کے نام سے 1063-88ء کے درمیان ایک کتاب لکھی۔ اس میں انھوں نے ’رِگ وید‘ کے زمانے تک کی کہانیوں کے جزئیات کو اخذ کیا ہے اس سے قدیم ہندوستان کے ادب و آرٹ کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں۔

سنسکرت زبان کی ایک اور مشہور کتاب ’پنچ تنتر‘ جو کشمیر میں لکھی گئی اور جس کے مصنف وشنو شرما ہیں، کہانی کے نقطٔ نظر سے خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ حکایت کی شکل میں جانوروں کی زبانی بیان کی گئی یہ کہانیاں بہت دلچسپ ہیں، ان کا زمانہ تصنیف 300 خیال کیا جاتا ہے۔ ’پنچ تنتر‘ کے تقریباً چالیس زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اس کی بنیاد پر عرصے تک کہانیوں اور قصّوںکی کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ ’ہت اُپدیش‘اس کی بہترین مثال ہے۔ بیتال پچیسی 13؎میں پچیس، سنگھاسن بتیسی میں 32 اور شک سپتتی میں ستّر کہانیاں اس سے اخذ کی گئی ہیں۔ عربی اور پہلوی زبانوں میں بھی اس کتاب کے ترجمے کیے گئے ہیں۔ ’کلیلہ و دمنہ‘ جس کو عبداللہ بن مقفع نے پہلوی زبان میں منتقل کیا تھا، پنچ تنتر کا ہی چربہ ہے۔ ایران کے وزیر برزویہ نے اسے 538ء میں پہلوی زبان میں شاہانِ ایران کے لیے منتقل کیا تھا۔ اسی دور میں ہندوستان میں ایک اور بودھ کتھا آریہ شور کی ’جا تک مالا‘ ملتی ہے جس کا شہرہ عرب و ایران میں بھی ہوا۔

یونان کی قدیم کہانیوں میں مائی لیشین میس (Malasian Tales) ہیں جنھیں ارسطو کے ایک شاگرد نے نثر میں لکھا ہے۔ اسی طرح انٹونیٹس ڈیوجینس (Antonious Diogenos) نے چوبیس حصوں پر مشتمل ایک طویل کہانی لکھی ہے جس میں ڈینیاس (Dinias) اور ڈر سالیس (Dercyllis) کی داستانِ عشق کا ذکر ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں اطالوی مصنف اپیولیئنس (Appuliens) نے گولڈن ایس (Golden Ass) لکھی جس کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

 کہانی کے اس ارتقائی سفر میں مذہبی قصوں کے لیے طلوع اسلام بھی فال نیک ثابت ہوا۔ قرآن حکیم میں بیان کیے گئے قصے مقبول عام ہوئے۔ ان قصوں میں سب سے عمدہ حضرت یوسف علیہ السلام کا مانا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے روایت پذیر قصے جن میں انجیل مقدس کے نزول کے بعد مزید اضافے ہو گئے تھے، ان میں سے بعض قصّوںپر قرآن نے اپنی مہر صداقت ثبت کی اور بعض قصوں کی تجدید کی۔ لیکن قرآن حکیم کے بعد ان مذہبی قصوں کا سلسلہ تمام ہوا۔ قرآن مجید میں جو قصے بیان ہوئے ہیں ان کی تفصیل یوں ہے :

’’قصہ لقمان، قصہ آدم، قصہ ہابیل و قابیل، قصہ ابلیس، قصہ موسیٰ و ہارون و قارون و طالوت، قصہ یعقوب، قصہ عیسیٰ و مریم و زکریا و یحییٰ، قصہ داؤد و سلیمان و حالات ہاروت و ماروت و سبا، قصہ ابراہیم و اسماعیل، قصہ نوح قصہ ہود، قصہ صالح، قصہ لوط، قصہ شعیب، قصہ ایوب، قصہ ادریس، قصہ الیاس، قصہ خندق، قصہ اصحاب فیل، قصہ یوسف، قصہ یونس، قصہ اصحابِ کہف، قصہ ذوالقرنین و یاجوج و ماجوج، قصہ بستی باناں۔‘‘

ان قصوں کے سہارے قصص الانبیا جیسی متعدد کتابیں تصنیف ہو ئیں، جن کو آج بھی پوری دلچسپی اور عقیدت سے پڑھا جاتا ہے۔ یہ قصے وقت کے تناظر میں تاریخی ادوار پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ قدیم ترین حالات و واقعات سے واقفیت حاصل کرنے کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔

کہانی کے تعلق سے عظیم ہندوستانی شاعر کالی داس کے سنسکرت زبان میں لکھے ڈراموں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ڈرامہ بھی کہانی کی ایک شکل ہے۔ کہانی کے اعتبار سے کالی داس نے اپنے پیش روؤں سے بہتر ڈرامے لکھے ہیں۔ ان کے تین ڈرامے ’مالوگ اگنی مترا‘،’و کرم اروشی‘اور ’ابھگیان شاکنتلم‘ بے حد مشہور ہیں۔ ان ڈراموں کا زمانہ تصنیف متنازع فیہ ہے اس لیے کہ حتمی طور پر کالی داس کے عہد کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ مشہور مغربی نقاد ڈاکٹر الارڈائس نیکول (Dr. Allardyce Nicoll) ’ورلڈ ڈرائے‘ کے صفحہ نمبر 629میںاسے چوتھی اور پانچویں صدی کی تصنیف قرار دیتے ہیں تو ہندوستانی محققین اس کو اجین کے راجاو کر مادتیہ کے دور سے منسوب کرتے ہوئے اسے قبل مسیح کا بتاتے ہیں۔ بہر حال کالی داس اپنے ڈراموں سے خصوصاً ’ا بھگیان شاکنتلم‘ جو ’شکنتلا‘ کے نام سے معروف ہے، بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔ ہندوستان میں عرصہ دراز تک کالی داس کے انداز بیان اور لب و لہجے کی پیروی کی گئی اور مختلف زاویوں سے شکنتلا، راجہ دشینت، بھرت کے کرداروں کو پیش کیا گیا۔ چھٹی صدی عیسوی میں اس فضا سے ذرا کچھ ہٹ کر سنبد ہونے ’واسودتّہ‘ اور ڈانڈین نے ’دس کمار چرتر‘ لکھیں۔ ’واسودتہ‘ کو حسن و عشق کی داستان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، تو ’دس کمار چرتر‘ میں دس شہزادوں کے حالات و حادثات کو رنگین لہجے میں بیان کیا گیا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں راجہ ہرش کے تین ڈرامے ’پریہ در شکا‘، ’ر تناولی‘ اور ’نا گانند‘ اوربانٹر کی لکھی مشہور نثری کہانی ’کا دمبری‘ دستیاب ہیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں بھو بھوتی نے تین ڈرامے ’مہاویر چرتر‘، ’ مالتی مادھو‘ اور ’اتر رام چرت‘ لکھے۔ نویں صدی عیسوی میں عربی زبان کی عظیم نثری کہانی ’داستان الف لیلہ‘ وجود میں آئی۔ اپنی شہرت اور مقبولیت میں یہ داستان اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے ترجمے دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور آج بھی اس داستان کو شوق اور چاؤ سے پڑھا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں نیپالی بدھ سوامی نے ’برہت کتھا‘ کا ترجمہ ’برہت کتھا اشلوک سنگرہ‘ کے نام سے کیا۔ ڈاکٹر ایشوردت شیل نے سنسکرت ساہتیہ کا سرل اتہاس، میں مذکورہ ترجمے کو کہانی کے نقطہ نظر سے پچھلے تمام تراجم پر ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں ایک تسلسل اور کش مکش برقرار ہے۔ لہجہ حقیقی محسوس ہوتا ہے۔ دسویں صدی عیسوی میں تری و کرم بھٹ کی ’نل چمپو‘ سوم دیوسوریہ کی ’یشسیہ تلک چمپو‘ اور ہریش چندر کی ’جیون دھر چمپو‘ دستیاب ہوتی ہیں۔ سنسکرت زبان میں چمپو کہانی کی وہ قسم کہلاتی ہے جس میں نثر و نظم دونوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب جاپانی ادبیات میں نثری کہانیوں کا آغاز ایک عورت، مراسا کی نوشکٹین کے ذریعے ہوتا ہے جس کی ’گنگی مانو گاتری‘ (1004) شاہکار تسلیم کی جاتی ہے۔ گیارہویں صدی کے اختتام میں فرانسیسی شانسودی زیست (Chansou de geete) کی کہانیاں ملتی ہیں جو بادشاہ شار لیمان اور اس کی ماں سے متعلق ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب انگلستان میں ویلز اور برطانیہ کے افسانوی ادب کا سراغ ملتا ہے جس میں شاہ آرتھر کا قصہ بے حد مشہور ہے۔ اس زمانے میںچین میں لی کو ان چنگ کے قصے دستیاب ہوتے ہیں جو خوں ریز جنگوں اور سیاحوں کی مہمات پر مشتمل ہیں۔ فارسی ادب کے تعلق سے گیارہویں صدی عیسوی میں لکھی جانے والی کہانیوں میں ایرانی شاعر فردوسی کی منظوم کہانی ’شاہنامہ‘ زیادہ اہم ہے جس نے افسانوی ڈھانچے کو کئی زاویوں سے متاثر کیاہے۔ فارسی زبان کا یہ غیر فانی شاہکار اپنی شہرت اور مقبولیت میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ ’شاہنامہ‘ کے بعد ’چہار مقالے‘ اور نظامی گنجوی کی ’ہفت پیکر‘، ’خسروشیریں‘ اور ’اسکندرنامہ‘ اور شیخ سعدی کی ’گلستان‘ اور ’بوستان‘ کی کہانیوں نے فارس سے نکل کر ایشیا کے دوسرے ملکوںمیں اپنا سکہ جمایا۔ اسی زمانے میں ازبکستانی عوامی ادب کا سب سے مشہور کردار ملاّ نصر الدین اُبھرتا ہے جس کے تعلق سے نہ جانے کتنی کہانیاں عوامی دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔

قدیم کہانی کے اس مختصر جائزے سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ کہانی ہر عہد میں انسان کو مرغوب رہی ہے اوروہ ارتقائے انسانی کے زیر سایہ پروان چڑھی ہے۔ انسان جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا اپنے علم وفضل میں اضافے کے ساتھ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوتا رہا۔ کہانی بھی پھلتی پھولتی اور آگے بڑھتی گئی۔ اس طرح کہانی کا ارتقائی سفر طویل منزلیں طے کرتا ہوا مثنویوں اور داستانوں سے شروع ہو کر، ناول اور افسانے کے روپ میں عہد حاضر تک پہنچنے کے قابل ہوا۔

 

حواشی

1        ادب اور نظریہ، وارث کرمانی، علی گڑھ میگزین، مدیر سید امین اشرف، 1959-61، ص75

2        A short history of the world, H.G. Wells, P:42-43

3        ان قدیم آثار کے تعلق سے پہلی خبر 1856 میں جان برنٹن (John Brunton) اور ان کے بھائی ولیم برنٹن (Wiliam Brunton)نے جنرل کننگھم(Gen. Cunningham) کو دی لیکن اصلیت میں کھدائی کا کام 1920 سے 1934 کے درمیانی برسوں میں ہوا۔ موہن جو داڑو کی کھوج کے نگراں آر ڈی بنرجی، ہڑپا کے دیا رام سا ہنی، اور نگران اعلیٰ سرجان مارشل(Prehistoric India by Stuart Piggott)

4        کشمیر میں بوزہ ہوم کے مقام پر کھدائی کے بعد ہزاروں برس پُرانی انسانی زندگی کے جو آثار ملتے ہیں، تقریباً اسی طرح کے آثار وسطیٰ ایشیا میں پنجی کند، ختن، ترقان اور آموندی کے طاس میں بھی دستیاب ہوئے ہیں۔

5        "For the very earliest of the true men that we know of were probably quite talkative beings." (A short History of the world. p. 48)

6        کہانی کا ارتقا عبادت بریلوی (ادب لطیف، افسانہ نمبر 1961 )، ص29

7        افریقہ، ایشیا اور یورپ

8        قدیم ہندوستان میں شودر، ڈاکٹر رام شرن شرما، مترجم جمال محمد صدیقی، ص26-27

9        دنیائے افسانہ، ص114

10      اردو کی منظوم داستانیں، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ص667

11      فارسی داستان نویسی کی مختصر تاریخ، ڈاکٹر مومن محی الدین، ص62

12      سنسکرت ساہتیہ اتہاس، ڈاکٹر دیال شنکر شاستری، ص103

13      ہندوستانی ڈرامہ، ڈاکٹر صفدر آہ، ص21

14      اس داستان کا مرکزی کردار بیتال ہے جس نے بھوت کی شکل میں راجہ بکرمادت کو پچیس کہانیاں سنائیں۔ یہ سبھی کہانیاں اخلاقی قدروں سے آراستہ ہیں۔

 

Prof. Saghir Afraheim

Ex., Head Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

s.afraheim@yahoo.in

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دیوان مجید کی بازیافت، مضمون نگار: خاور نقیب

  فکر وتحقیق، اکتوبر - دسمبر 2024 تلخیص عبدالمجید بھویاں حیا کا شمار اڈیشا کے قدیم شعرا میں ہوتا ہے۔دیوان مجید ان کے تقدیسی کلام پر مشتم...