اردو دنیا، نومبر 2024
رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی اپنی افتادِ طبع اور
فکر و نظر کے اعتبار سے یگانۂ روزگار شخص تھے۔ اردو کی غزلیہ شاعری میں ان کا بڑا
امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو ایک نئی توانائی اور قوتِ فکر و نظربخشی۔کسی بھی
شاعر کے اشعار کا مطالعہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے زمانے سے واقفیت حاصل کی
جائے کہ سمجھ میں آسکے کہ آخر کیا رجحانات و میلانات اور اسباب و علل تھے جن کے
سبب شاعر نے یہ اشعار قلمبند کیے۔ علی گڑھ کے آسمان شعر و ادب پر درخشاں ستاروں میں
سے ایک نمایاں نجم الثاقب حسرت موہانی کا نام ہے۔ غزل میں جس وقت حسرت موہانی کا
عروج تھا اس وقت داغ اور امیر کے اشعار کی گونج ابھی باقی تھی۔ داغ کا شوخ رنگِ
سخن اتنا مقبول ہوا کہ اس وقت کے تمام نامور شعرا میں سے معدودے چند کے علاوہ کوئی
بھی اس رنگ سے اپنا دامن نہیں بچا سکا۔ اس ماحول میں حسرت موہانی نے یہ کارنامہ
انجام دیا کہ پیشہ ور محبوب کو چھوڑ کر اپنی داستانِ عشق کی بنیاد اس محبوب پر رکھی
جو ان کے ہی خاندان کا کوئی جیتا جاگتا فرد تھا۔ اور شوخی کے بجائے اپنی طبیعت کی
مناسبت سے زیادہ زور تجربے کی صداقت پر دیا، زبان بھی صاف و شستہ اور روزمرہ کی
زندگی سے بہت قریب رکھی اور انسانی نفسیات کا بھی خیال رکھا۔
داغ کے مانند وہ بھی اپنے اشعار میںایک کامیاب عاشق کا
رول ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر شعرا اپنے کمالِ فن کے باوجود ناکام عاشق نظر آتے ہیں۔
اس طرح حسرت موہانی کو بھی وہی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی جو داغ کے حصے میں آئی
اور حسرت رئیس المتغزلین کہلائے۔
حسرت کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انھوںنے فلسفہ
اور حیاتِ انسانی کی پیچیدگیوں کو موضوع نہیں بنایا، بلند خیالی اور معنی آفرینی
سے احتراز کیا اور اپنے اشعار کو تقلیدِ لفظی و معنوی سے دور رکھا۔ انھوںنے ساری
زندگی دار و رسن اور قید و محن کی آزمائشوں میں گزاری، لیکن اپنے قلب و نظر اور
فکر وخیال کی دنیا کو حسن و عشق کی رعنائیوں سے تروتازہ رکھا۔ حسرت کی شاعری میں
فلسفہ اور تعقل و تفکر نہیں بلکہ صداقت، معصومیت اور کھراپن ہے۔ حسرت موہانی کی
نظر میں معیاری شاعری کے تین اہم اجزا ہیں۔ جذبات عالی، جذبہ نگاری اور واقعہ نگاری۔
اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حسرت کی شاعری کی بنیاد جذبہ نگاری
اور واقعہ نگاری پر ہے۔ انھوںنے متوسط اور
شریف گھرانے کی اس عورت کو اپنا موضوعِ شاعری قرار دیا جو کہ باحیا ہے اور عفت و
پاکدامنی کا مجسمہ ہے۔ اس کے دل میں بھی محبت کے جذبات اُمنڈ رہے ہیں لیکن محبت کا
اقرار کرتے ہوئے حیا اور تذبذب دامن گیر ہو جاتے ہیں۔ وہ رسمِ وفا کی پاسداری بھی
کرنا چاہتی ہے مگر زمیندار گھرانوں کی تہذیبی وضع داری سے مجبور ہو کر انکار کر دیتی
ہے۔ لیکن یہ انکار اس قبیل سے ہے جس میں اقرار کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ ملاحظہ
ہو ؎
دل مایوس کو گرویدہ گفتار کر لینا
وہ ان کا پردۂ انکار میں اقرار کر لینا
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
حسرت موہانی کے دم سے ہی اردو غزل کی نشاۃ ثانیہ کا دور
شروع ہوا، اور یہ ایسی خدمت ہے جس نے انھیں لازوال اور دائمی بنا دیا ہے۔ انھوں نے
فقط غزل کو حیاتِ نو ہی نہیں بخشی بلکہ اسے ایک نیا وقار بھی عطا کیا۔ بڑے سے بڑا
نقاد بھی جو حسرت کی شاعری کو دوسرے اور تیسرے نمبر کی شاعری سمجھتا ہے وہ بھی اس
حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ غزل کا احیا حسرت موہانی کے ہی دم سے ہوا ہے۔ جیسا
کہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:
’’یہ
کہنے میں شاید ہی کسی کو تامل ہو کہ، حسرت کا غزل پر بڑا احسان ہے اور میرے نزدیک
جس کا غزل پر احسان ہے اس کا پوری اردو شاعری اور اردو زبان پر احسان ہے۔ حسرت نے
غزل کی آبرو اس زمانہ میں رکھ لی جب غزل بہت بدنام اور ہر طرف سے نرغہ میں تھی۔
انھوںنے اردو میںغزل کی اہمیت او رعظمت ایک نامعلوم مدت تک منوالی۔ حسرت غزل کے
بڑے شاعروں میں تسلیم کیے جاتے ہیں اور اردو شاعری کے مسلسل ارتقا میں ان کا اہم
مقام ہے۔ ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش
ہے۔ حسرت خالص غزل گو تھے ان سے پہلے بڑے جید غزل گو گذرے تھے۔ معاصر غزل گو بھی
اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں، پھر بھی حسرت کی غزل گوئی ممتاز اور منفرد ہے۔ اس لیے
کہ حسرت غزل کا سہارا غزل سے ہی لیتے ہیں کسی اور سے نہیں، غزل گوئی کوئی کرے، غزل
کا معیار حسرت ہی رہیں گے۔‘‘(رشید احمد صدیقی: کچھ حسرت کے بارے میں نگار،1952،
ص22)
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خیال ہے کہ:
’’حسرت
کا ادب تین ادبی رجحانات کا امتزاج ہے۔ سرسید کی ادبی تحریک سے انھیں واقعیت پرستی
اور حقیقت پسندی ملی۔ امیر اور داغ سے انھوں نے غزل کا لوچ اور اس کا بانکپن حاصل
کیا اور لکھنؤ مکتب کی شاعری کے ایک ردِ عمل کے نتیجہ میں حسرت کی شاعری میں
شگفتگی، لطافت، زندہ دلی، بے تکلفی، سادگی اور نفاست کی خصوصیات پیدا ہوئیں، اور
اس طرح حسرت کی شاعری صحیح رنگِ تغزل سے آشنا ہوئی۔‘‘ (ڈاکٹر عبادت بریلوی: حسرت کا تغزل نگار، 1952،
ص44)
حسرت موہانی نے غزل کا انداز بدلا۔ انھوں نے عشقیہ شاعری
میں ارضیت پیدا کی اور عشق کے حقیقی جذبات او رتجربات کا غزل میں اظہار کیا اور
غزل کو ایک نئے غنائی آہنگ سے آشنا کیا۔
حقیقت یہی ہے کہ انسان کو جنسی اور نفسیاتی خواہشات کی
غلامی سے آزاد کرا کے تہذیب و تمدن نے ہی اسے انسانیت اور آدمیت کی شناخت عطا کی
ہے، اب اگر انسان انھیں خواہشات نفسانی کا اسیر ہو کر دوبارہ تہذیب و تمدن سے عاری
دنیا میں چلا جائے جہاں نفس امارہ کی حکمرانی ہو اور جنسی آرزوئوں کی تکمیل ہی
سرمایۂ حیات سمجھی جاتی ہو تو یہ ابتذال اور انحطاط کی آخری منزل ہے۔ ایسی حالت
میں حسرت موہانی کا غزل کے میدان میں وارد ہونا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔
مجنوں گوکھپوری اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’ہمارے
اندر ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے اور ہم چونک پڑتے ہیں، ہم کو ایسا محسوس ہونے لگتا
ہے کہ کہیں سے اردو غزل میں نئی توانائی آگئی ہے۔ اب اس سے ایک نئی اور خوش آئند
سمت میں قدم اٹھایا ہے۔‘‘
(مجنوں گورکھپوری،
حسرت کی غزل، جنوری، فروری 1952، ص12)
معروف مصور ’سیزان‘ نے ایک تصویر بنائی تھی جس میں ایک
شخص کو کپڑوں پر اِستری کرتے ہوئے مستی میں گاتے اور گنگناتے ہوئے دکھایا گیا تھا،
یہ تصویر رومانوی (Impressionism) کا
نمائندہ شاہکار بن گئی تھی۔ اس لیے کہ زندگی کی سختیاں برداشت کرنے والے سماج کے
نچلے طبقے کو تمام مشقتوں اور پریشانیوں کے درمیان مستی وسرشاری میں گاتے ہوئے
دکھایا گیا تھا۔ حسرت کی عشقیہ شاعری بھی اسی قبیل کی ہے۔ ان کی شاعری میں بھولے
بھالے اور زمانے کی نیرنگیوں سے بے خبر چہرے کسی معصومیت سے جھانکتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔ اور ان چہروں کے پس منظر میں سماج کے متوسط طبقے سے متعلق در و دیوار نظر
آتے ہیں۔
حسرت کے عشق میں خودداری ہے جس کے سبب وہ اظہار تمنا
کرنے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں اگر اظہار کیا بھی تو اس پر بعض اوقات نادم سے
معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ان کے عشق کی پاکیزگی اور خودداری ہی کا نتیجہ ہے۔ مثلاً ؎
حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا!!
حسن کے سامنے اگر حسرت موہانی کبھی ہمت بھی کرتے ہیں تو
ایسے رازدارانہ انداز میں کہ محبوب کو خبر نہ ہو۔ اور بعض اوقات تو حسرت کی شریفانہ
احتیاط اور معصومیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ محبوب کے لطف و کرم کے اشارے کو بھی
نہیں سمجھتے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ چنانچہ ایک مقام پر انھوں نے اپنی کم
ہمتی کو تسلیم بھی کیا ہے ؎
وہ خواب ناز میں تھے اور نہ تھے اے شوق پا بوسی
نہ سمجھی پستی ہمت تری اس لطف ایما کو
اور اگر کبھی اپنے تذبذب اور کم ہمتی پر غلبہ حاصل کر
کے اپنے محبوب کو داستان شوق سنانا بھی چاہتے ہیں تو وہ التماس کی کشمکش میں الجھ
کر رہ جاتے ہیں اور اظہار شوق کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ آرزو
کے اظہار سے زیادہ آرزو کی یاد کے دیوانے ہیں اس لیے اس یاد کو دل سے لگا کر
رکھنا چاہتے ہیں ؎
کیوں کر کوئی سنائے انھیں شوق کی وہ بات
جو پڑ گئی ہو کشمکش التماس میں!
حسرت موہانی علی الاعلان اور ببانگ دہل مضامین کو
باندھتے ہیں۔ ان کے اندر کسی طرح کے تذبذب یا جھجھک کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ بے
خودی اور وارفتگی کے اظہارات حسرت کی اخلاقی جرأت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اسی صاف
گوئی اور بے باکی کے سبب بعض اوقات انھیں صفائی دینی پڑتی ہے کہ ان کے باطن میں
کوئی کھوٹ نہیں ہے ان کا باطن پاک و پاکیزہ اور شفاف ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں
؎
حسرت کا دل آئینہ ہے اک پر تو حق کا
گو اس کی نظر شیفتہ حسن بتاں ہے
یا پھر ایک جگہ مقطع میں اپنے عشق کی پاکیزگی کا یوں
اعلان کرتے ہیں ؎
دیار شوق میں ماتم بپا ہے مرگ حسرت کا
وہ وضع پارسا اس کی وہ عشق پاکباز اس کا
عشق و محبت کی وارداتوں پر حسرت کے اشعار کو پڑھنے کے
بعد محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی معاملات میں حسرت نہایت ہی بے باکی اور جرأت مندی کا
مظاہرہ کرتے تھے اسی طرح شاعری اور سخن وری کے میدان میں بھی اخلاقی جرأت کا دامن
کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ان کی وارفتگی اور بیساختگی انسانی جذبات پر پردہ
ڈالنے کی روادار نہیں تھی۔ بلکہ جیسے جیسے ان کے اندر پختگی اور انفرادیت پیدا ہوتی
گئی ان کا قلم اور زیادہ جسور اور جری ہوتا گیا اور ان کا بیان اور زیادہ صریح اور
واضح ہوتا گیا۔ حسرت کی شاعری جذبات و احساسات کی کمی کو خیالات اور تصوات کے ذریعے
پر کرنا چاہتے ہیں، لیکن تصور اور دوسرے خارجی محرکوں کی طرح جذبے کے خلا کو پُر
نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سبب ہے کہ تصورات کی شاعری میں اکثر اوقات بے لطفی اور سپاٹ
پن پیدا ہو جاتا ہے۔ سوائے ایسی صورت کے کہ تصورات کی گہرائی میں جذبات کی
کارفرمائی موجود ہو جیسے غالب کے یہاں ہے۔ مگر اوسط درجے کا اور معمولی شاعر اپنے
اشعار میں تصورات کا سہارا اس وجہ سے لیتا ہے کہ وہ جذبات کی کمی کا تدارک کرسکے۔
حسرت کی حقیقت نگاری میں تخیل کی بھی کارفرمائی ہے لیکن اس انداز سے کہ وہ حقیقت
کو اور زیادہ مؤثر اور دلکش بنا دیتی ہے۔ معنویت کی تخلیق شاعری ہے۔ داخلی جذبات
اور خارجی محرکات کا امتزاج حسرت کے مادی تجربات اور مشاہدات میں معنویت پیدا کر دیتا
ہے۔ حسرت چشم بینا بھی رکھتے ہیں اور دور اندیش بھی ہیں۔ وہ غزل کے ادا شناس تھے،
اس کی ملائمت اور رمزیت کی حدود سے آشنا تھے اس لیے قید و بند کی صعوبتیں اور
مشقتیں برداشت کرنے کے باوجود اور اپنے تیکھے سیاسی شعور اور مسلسل سیاسی جدوجہد
کے باوجود انھوں نے سیاست اور سیاست کی راہ میں آپ بیتی کو علی الاعلان غزل میں بیان
نہیں کیا۔ بال گنگا دھر تلک کی تعریف میں غزل اور چکی کی مشقت والے اشعار اور اسی
قبیل کے چند دوسرے اشعار کے سوا اس کا تذکرہ ان کے کلام میں نظر نہیں آتا۔
حسرت موہانی کی کلیات کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ
ہوتا ہے کہ حسن و عشق کی داستانیں رقم کرنے والے اس شاعر نے حسن کی رعنائیوں اور
دلربائیوں کے انگنت پہلوئوں اور تہوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس
سعی و کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ حسرت کے لیے عشق فقط دل لگی اور دل بستگی کا سامان
نہیں بلکہ عشق مختلف اخلاقی بیماریوں کا علاج بھی ہے ؎
مٹے عیب سب عشق بازی میں حسرت
نہ بغض و حسد ہے نہ غصہ نہ کینہ
حسرت کے نظریے کے مطابق عشق انسان کے اندر مثبت تبدیلیاں
لاتا ہے اور اس کے منفی جذبات کو ختم کرتا ہے ؎
مجموعہ خوبی ہوئی عشاق کی سیرت
یہ کیا ہے اگر عشق کا اعجاز نہیں ہے
عشق ہی کی بدولت حسرت شاعر بنے اور عشق ہی کی بدولت
انھوں نے نام و نمود حاصل کیا۔ عشق ہی کے سبب ان کی شعری صلاحیتوں میں نکھار پیدا
ہوا اور عشق ہی نے انھیں ’حسرت‘ کے نام سے دنیا والوں سے روشناس کرایا ؎
جب سے کہا عشق نے حسرت مجھے
کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن
Mohammad Arif
49-B/15,
Stanley Road, Bali Colony
Prayagraj- 211002
Mob.: 7705964091
aarifprince857@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں