3/1/25

داغ دہلوی اور ان کے بہاری تلامذہ، مضمون نگار: سلطان آزاد

 فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر2024

تلخیص

فصیح الملک حضرت داغ دہلوی ایک دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو غزلیہ شاعری کی لسانی وتہذیبی روایت کی توسیع و فروغ میں آپ کا ایک نمایاں نام ہے جنھوں نے اردو زبان جو قلعہ معلی دہلی سے نکلی، اسے تمام ملک میں اپنے حلقہ تلامذہ کی معرفت پھیلایا۔ ان کے شاگرد پورے ملک میں ہزاروں کی تعدادمیں موجود تھے۔ اس دور میں داغ دہلوی کی غزلوں کا شہرہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ شعرا اُن کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہونے پر نہ صرف فخر محسوس کرتے تھے بلکہ خود کو ایک سند یافتہ شاعر سمجھتے تھے۔ ان کے حلقہ تلامذہ میں ایک عام شخص سے لے کر بادشاہ وقت اور اہل ثروت یعنی والیان ریاست بھی ان کی شاگردی پر فخر محسوس کرتے تھے۔

داغ دہلوی نے 1857 کے غدر کے بعد دہلی کو ترک کرتے ہوئے رامپور، حیدر آباد اور دیگر شہروںکا سفر کیا اور وہاں اپنے اوقات گزارے۔ جہاں نہ صرف انھیں پناہ ملی بلکہ خوب پھلنے پھولنے کا بھی موقع ملا۔ خصوصی طور پر نوابین رامپور نے خوب ان کی عزت افزائی کی۔ اس طرح ان کی شاعری کو جلابخشی۔

دوران سفر حضرت باقرعظیم آبادی کی وساطت سے عظیم آباد بھی تشریف لائے اور یہاںکم و بیش ایک ماہ گذارے۔ اس دوران عظیم آباد میں بھی ان کی خوب عزت افزائی ہوئی۔ صوبہ بہار بالخصوص عظیم آباد کے بہتیرے شعرا آپ کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوئے اور فیضیاب ہوئے۔ ان کے تذکرے کتابوں اور دوسرے حوالوں سے ملے ہیں جنہیں اس مضمون میں شامل کیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ

فصیح الملک مرزا داغ دہلوی، رامپور، منی بائی حجاب، علامہ اقبال، جگر مرادآبادی، سیماب اکبرآبادی، تلامذۂ داغ، عظیم آباد، میر محمد باقر عظیم آبادی، میرزا شاغل، حامد عظیم آبادی، نظام الدین بلخی، جمیلہ خدا بحش، عبداللطیف اوج، اقبال علی خاں وفا بہاری، عبدالسلیم ناسور، معین الدین احمد معین، کلیم احمد خاں دانش، امجد علی احقر، سعادت پیغمبرپوری۔

———

فصیح الملک نواب مرزا خاں داغ دہلوی ابن شمس الدین خاں، 25مئی 1831 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش ایسے خوشگوار ماحول میں ہو رہی تھی جہاں عیش و عشرت کا گہوارہ تھا۔ لیکن حادثاتی طور پر والد کو ایک انگریز کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ہوئی جس کے باعث ان کی والدہ چھوٹی بیگم اور ان کے حالات بگڑ گئے۔ تب اپنی خالہ عمدہ خانم کے پاس چلے گئے۔ بعد ازاں 1844 میں ولی عہد بہادر شاہ نے جب ان کی والدہ سے نکاح کرلیا تو وہ لال قلعے میں منتقل ہوگئے جہاں ان کی تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام ہوگیا۔ 26برس کی عمر میں غدر کے باعث ترک وطن کرناپڑا۔ رام پور میں نواب رضا محمد خاں کی سرکار میں ملازم ہوگئے۔ پھر نواب یوسف علی خاں ناظم کے یہاں جگہ ملی، اس کے بعد ان کے صاحبزادے نواب کلب علی خاں نے 1866 میں داغ کو اپنی ملازمت میں لے لیا، جہاں داغ ان کے استاد بھی ہوئے۔ نواب کلب علی خاں شاعر اور ادب نواز تھے۔ ان کے یہاں کافی لوگ یکجا تھے۔ جہاں طرحی مشاعرے ہوتے تھے۔ اس طرح داغ کو نکھرنے کا ایک بہترین موقع ملا۔

ایک مشاعرے میں جب انھوں نے یہ شعر پڑھا      ؎

لگ گئی چپ تجھے آخر اے حزیں کیوں اتنی

مجھ سے کچھ حال تو کمبخت بتا تو اپنا

روایت ہے کہ اس شعر پر امام بخش صہبائی نے خوش ہوکر انھیں گلے لگالیا۔

ان دنوں داغ کے مشاعرے کی شرکت اور ان کی پذیرائی کی ایک اور روایت ملتی ہے جسے ڈاکٹر شاہد احمد جمالی نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’تلامذۂ داغ‘، جلد اوّل، مطبوعہ 2019 میں تحریر کیا ہے:

’’جب استاد ذوق کی شاگردی میں آئے تو ذوق کو ان سے کچھ ایسی انسیت ہوئی کہ ہر مشاعرے میں اپنے ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ ذوق کی سرپرستی میں ہی انھوں نے پہلا مشاعرہ پڑھا۔ جس میں بادشاہ ظفر، غالب اور دیگر نادر ہستیاں موجود تھیں۔ جب داغ نے اپنی غزل کا یہ شعر پڑھا   ؎

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتاہے

تو غالب جیسا شاعر بھی جھوم گیا۔ مولانا حالی نے بھی ’یادگارِ غالب‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔

تاریخی شواہد سے یہ واضح ہے کہ جن دنوں داغ رامپور میں تھے، وہ دور رامپور کا رنگین اور زرّیں دور تھا۔ اس دور کی زندگی مجسم شباب تھی۔ رامپور کی رنگینیوں میں داغ کی جوانی خوب پروان چڑھی۔ رامپور میں بے نظیر باغ کا میلہ لگا تھا۔ اس میلے میں کلکتہ کی ایک مشہور طوائف مُنّی بائی حجاب بھی گئی تھی، جسے دیکھ کر داغ دہلوی اس پر فریفتہ ہوگئے۔ دونوں میں گفت و شنید بھی ہوئی۔ میلے کے بعد منی بائی حجاب کلکتہ واپس ہوگئی۔ پھر اس نے وہاں سے داغ کو ایک خط لکھا اور کلکتہ آنے کی دعوت بھی دی۔ داغ نے اپنی مثنوی ’فریادِ داغ‘ میں اس خط کا ذکر اس طرح کیا ہے    ؎

ہم یہاں تم وہاں تو لطف نہیں

ہو یہ دُوری جہاں تو لطف نہیں

 

 

اُٹھ کے سیدھے اِدھر چلے آئو

کوئی روکے مگر چلے آئو

 

 

میہماں تم ہو میزباں ہم ہوں

عیش و عشرت کی لطف باہم ہوں

داغ نے جواباً لکھا     ؎

تم بلائو نہ آئوں کیا ممکن

ہے سراسر یہ بات ناممکن

اردو غزل کو سجانے، سنوارنے اور مقبول عام بنانے میں داغ دہلوی کا نمایاں کردار رہا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اسے عام فہم بنایا بلکہ اس میں روزمرہ عام بول چال، محاورات اور شوخیوں وغیرہ کو شامل کیا، جس کے باعث داغ کے اس سحرکن اور شیریں فضا میں ذہنی، قلبی، راحت و لذت میسر آئی۔ اردو زبان اور غزل کے متعلق داغ کی یہ کوشش برصغیر کے عوام کے ذہن و دل پر اردو زبان موسمِ بہار ابر کی طرح سایہ فگن ہوگئی۔

داغ اپنی شوخ بیانی، مضمون کی نیرنگی، شگفتہ بیانی اور دہلوی ٹکسالی زبان کے استعمال میں حد درجہ امتیاز رکھتے تھے۔ خوش باشی ان کی طبیعت کا تقاضا تھا۔

داغ نے قلعہ معلی کی اردوزبان اور اس میں غزل گوئی کو فروغ دینے میں جو کوششیں کیں وہ مقبول عام ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں ان کی پیروی کی گئی۔ کچھ اہم اشعارِ داغ سے محظوظ ہوتے چلیں        ؎

ترے وعدے پر ستمگر ابھی اور صبر کرتے

اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

ہم جانتے ہیں خوب تری طرز نگہ کو

ہے قہر کی آنکھ اور محبت کی نگہ اور

کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت تیری

لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت تیری

یہ اٹھنا بیٹھنا محفل میں ان کا رنگ لائے گا

قیامت بن کے اٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں

یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دلِ ناداں

ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی وہ من کے بیٹھے ہیں

قسم دے کر انھیں سے پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ ان کا

تمھاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں

داغ کے شعری مجموعوں کے اشعار کی تعداد 14783ہے۔ مجموعوں میں گلزارِ داغ، آفتاب داغ، مہتابِ داغ، یادگارِ داغ، ضمیمہ یادگارِ داغ اور ’مثنوی فریادِ داغ‘ قابل ذکر ہیں۔

داغ دہلوی ایک دبستان کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شاگرد ان کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہونے پر نہ صرف فخر محسوس کرتے تھے بلکہ خود کو ایک سند یافتہ شاعر سمجھتے تھے۔ ان کے حلقہ تلامذہ میں ایک عام شخص سے لے کر بادشاہ وقت اور اہل ثروت یعنی والیان ریاست بھی ان کی شاگردی پر فخر کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی زبانی ملاحظہ ہو     ؎

نسیم و تشنہ ہی اقبال اس پر کچھ نہیں نازاں

مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخن داں پر

داغ دہلوی کے ہزاروں شاگرد پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں خصوصی طور پر علامہ اقبال، آغا حشر، جگر مرا د آبادی، سیماب اکبرآبادی، احسن مارہروی، بیخود دہلوی، سائل دہلوی، مبارک عظیم آبادی اور نسیم ہلسوی عظیم آبادی  قابل ذکر ہیں۔ تلامذۂ داغ دہلوی ملک کے کئی اہم شہروں اور خطوں میں موجود تھے۔ ان میں خصوصی طور پر دہلی کے علاوہ رامپور، حیدرآباد اور بہار قابل ذکر ہیں۔

داغ دہلوی کا تعلق عظیم آباد سے  میر محمد باقر عظیم آبادی کے توسط سے ہوا۔ مضمون ’داغ اور بہار‘ میں پروفیسر ذکی الحق نے لکھا ہے:

’’اب داغ کلکتہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ پہلے دہلی آئے پھر لکھنؤ پہنچے۔ کانپور، الٰہ آباد ہوتے ہوئے عظیم آباد آئے۔ میر محمد باقر عظیم آبادی تلمیذ حضرت وحید الٰہ آبادی کے گھر قیام کیا۔ عظیم آباد میں اپنے قیام کا مختصر تذکرہ خود داغ نے اپنی مثنوی میں نظم کیا ہے۔ مثنوی کے مطابق داغ نے عظیم آباد میں آٹھ دن قیام کیا       ؎

آٹھ دن دیکھی سیر پٹنے کی

یہ ہوئی وجہ جی اُچٹنے کی

ایک شعر اسی سلسلے کا ملاحظہ ہو       ؎

میر باقرکے گھر قیام ہوا

خوب دعوت کا اہتمام ہوا

پروفیسر ذکی الحق اپنے مذکورہ مضمون ’داغ اور بہار‘ میں مزید لکھتے ہیں:

’’حضرت داغ، میر محمد باقر عظیم آبادی کے مہمان تھے۔ داغ کے علاقی بھائی مرزا شاہ محمد شاغل خلف مولوی تراب علی متوطن دہلی، میر باقر کے دوست اور ان کے پڑوسی تھے۔ میرزا شاغل داغ کے شاگرد بھی تھے۔ وہ عرصے تک عظیم آباد میں رہے۔ شطرنج بازی میں یگانہ روزگار تھے۔ داغ جس وقت ریل سے اترے عظیم آباد کی خلقت استقبال کے لیے حاضر تھی۔ اس بھیڑ میں مرزا شاغل بھی تھے     ؎

پیشوائی کے واسطے احباب

آئے تھے شوق دید میں بیتاب

میر باقر کے متعلق احسن مارہروی کا نوٹ ملاحظہ ہو:

’’سید محمد باقر متخلص بہ باقر، شاگرد، وحید الٰہ آبادی پٹنے کے شرفا میں تھے۔ موسیقی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ستار کا بہت شوق تھا۔ اچھے خوش نویس تھے اور وہ اس فن سے آگاہ تھے۔ اس ہم مذاقی نے مرزا داغ کو ان کا مہمان بنایا۔‘‘ 

 (بحوالہ:داغ اور بہار، مشمولہ مجموعہ مضامین:ذکر و مطالعہ ا ز پروفیسر ذکی الحق، مطبوعہ1959)

مختصر یہ کہ داغ دہلوی 2مئی 1882 کو عظیم آباد (پٹنہ) آئے اور پٹنہ سے ہی یکم جون 1882 کو نواب رامپور کلب علی خاں کے نام خط لکھا تھا۔ اس طرح وہ عظیم آباد ایک ماہ سے زیادہ مقیم رہے اور جب تک داغ، عظیم آباد میں رہے شعری محفل کی ہماہمی اور گہما گہمی رہی۔ میرباقر عظیم آبادی (رہائش، محلہ گرہٹہ پٹنہ سٹی) کے گھر پر ملنے والوں کا سلسلہ رہا۔ ان ہی دنوں حضرت داغ دہلوی کے اعزاز میں سب سے پہلا مشاعرہ عظیم آباد میں منعقد ہوا جس میں حضرت وحید الٰہ آبادی کا یہ مصرع طرح مقرر ہوا   ؎

اِدھر آئینہ رکھا ہے اُدھر وہ تن کے بیٹھے ہیں

جو اپنا دیکھنا منظور ہے کیا بن کے بیٹھے ہیں

داغ نے اسی مصرع طرح پر اپنی غزل کاتب کو لکھوادی، مطلع ملاحظہ ہو    ؎

بھنویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

حضرت امیرمینائی نے مسابقت کے خیال سے اسی طرح میں ایک غزل کہی۔ اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو       ؎

نگاہِ شوخ و چشم شوق میں درپردہ چھنتی ہے

کہ وہ چلمن میں ہیں ہم سامنے چلمن کے بیٹھے ہیں

داغ  جب عظیم آباد میں تھے تو وہ عقیدتاً شاہ محمد یحییٰ صاحب ابوالعلائی سجادہ نشیں خانقاہ شاہ کی املی پٹنہ سٹی (عظیم آباد) سے بھی ملے۔ شاہ صاحب خود شاعر بھی تھے۔ اس لحاظ سے داغ سے مل کر بہت مسرور ہوئے۔ انھوں نے داغ کے لیے قطعے لکھ کر بھجوایا تھا۔ جو اس طرح ہے    ؎

جناب داغ در شہر من آمد

رسید ند آرزو منداں زہر سوئے

بلوح دہر تاریخ قد و مش

رقم کردم قد دم داغ حق گوئے

 

(1299ھ)

جناب داغ عالیجاہ آمد در عظیم آباد

مثالِ گل بہار افزائے دل چوں ماہ نور افشاں

ہمیں مصراع تاریخ از درونِ من بروں آمد

رسیدہ مرہم دلہائے رنجوراں انیس جاں

 

(1299ھ)

داغ دہلوی جب عظیم آباد میں موجود تھے اور ان دنوں جتنے مشاعروں اور نشستوں میں شریک ہوئے اس وقت عظیم آباد کے معاصرین داغ کے شعرا میں خواجہ فخر الدین سخن دہلوی، صفیر بلگرامی، میر نجف علی نذر، عبدالحمید پریشاں، شاہ محمد سعید حسرت عظیم آبادی، کنور سکھراج بہادر، مہدی حسن خاں شاداب، سید محمد باقر عظیم آبادی، مرزا شاغل دہلوی اور سید شاہ مبارک حسین وغیرہ موجود تھے۔

بلاشبہ داغ دہلوی کے ساتھ ان کے شاگردوں نے بھی اردو زبان اور صنف غزل کو مقبول عام بنانے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ساتھ ہی تاریخ شاہد ہے کہ ان کے شاگردوںنے اپنے اپنے علاقوں اور خطوں میں کس طرح استادی اور شاگردی کی اس روایت اورکہکشاں کو قائم رکھا تھا۔ ان میں داغ کے بہاری شاگردوں نے بھی اس وقار کو قائم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے دوسرے شہروں اور خطوں کی طرح داغ کے بہاری تلامذہ کی بھی ایک اہم حیثیت رہی ہے۔

بقول نوح ناروی:

’’داغ کے یہاں اصلاح سخن کی دو قسمیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ شاگرد کے کلام میں سامنے کے عیوب و نقائص زبان و بیان کی غلطیاں وغیرہ دور کردی جاتیں۔دوسرے یہ کہ صحیح اشعار میں کوئی لفظ ایسا تبدیل کر دیتے جس سے معنوی  خوبی دوچند ہوجاتی۔‘‘

 سلسلہ داغ کی فکر ی اور معنوی دھار کو مزید توانائی اور وسعت دینے والے ان کے بہاری تلامذہ بھی پیش پیش رہے ہیں جن کا ذکر مختلف تذکروں اور کتابوں میں ملتا ہے۔ انھیں ترتیب وار تحریر کیاجاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

نسیم ہلسوی عظیم آبادی :  مولانا حکیم سید شاہ محمد نذیر احسن، المتخلص بہ نسیم ہلسوی عظیم آبادی ابن حاجی حکیم سید شاہ امیر اکبر قادری کی پیدائش 29ربیع الاوّل بروز پنجشنبہ 1292ھ کو ہوئی۔ قصبہ ہلسہ جو پہلے عظیم آباد (پٹنہ) میں شامل تھا، اس اعتبار سے ہلسوی اور عظیم آبادی لکھا کرتے تھے۔تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔ انھوں نے حکمت کے علاوہ شعر و سخن کو اپنا محبوب مشغلہ بنایا۔ ان کے کلام کی شہرت کے باعث نواب سلیم اللہ خاں (ڈھاکہ) کی کوشش سے کلکتہ گئے وہاں اُنھیں شاگردی میں لیا۔ اس طرح ایک عرصے تک قیام رہا۔ کلکتہ کی صحبتوں میں رنجور عظیم آبادی اور دوسرے مشاہیر کے ساتھ مستقل اوقات گزارے۔ اس کے بعد نواب سعادت علی خاں سعادت والیِ پیغمبر پور (بہار) نے بڑی نوازش کے ساتھ آپ کو بلایا اور شاگردی کا شرف حاصل کیا۔

احسن مارہروی ’انشائے داغ‘ کے ص 128 میں ان کے متعلق فرماتے ہیں:

’’نسیم مرحوم ہلسہ ضلع پٹنہ کے رہنے والے تھے اور استاد مرحوم کے بہترین شاگردوں میں تھے۔‘‘

پروفیسر ذکی الحق اپنے مضمون ’داغ اور بہار‘ میں نسیم ہلسوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حضرت نسیم کی چند غزلیں میری نظر سے گزری ہیں۔ آپ کا کلام اپنے استاد کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ زبان کی صفائی، بیان کی شوخی، محاوروں کی بے تکلفی اور شوکت الفاظ جو داغ اسکول کی خصوصیات ہیں، آپ کے کلام کے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں۔‘‘

نسیم ہلسوی عظیم آبادی کو داغ کا جانشیں ان کے زمانے میں ہی تسلیم کیا گیا۔ اس کی سند دو مقتدر شعرا کے خطوط سے ثابت ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’مکرمی تسلیم! عنایت نامہ نے ممنون کیا۔ عزیزی حضرت سائل مہ عمرہ کا کیا کہنا ان کے اخلاق کا میں کلمہ گو ہوں۔ آپ نے ایک دفعہ مجھ کو سرفراز کیا تھا اور شعر بھی سنائے تھے۔ مجھ کو یاد ہے۔ ہر چند میں موازنہ کی لیاقت نہیں رکھتا۔ مگر صوبہ بہار کیا دور دور تک آپ جانشیں داغ کہے جانے کے مستحق ہیں۔ آپ کی دونوں غزلیں میں نے پڑھیں۔ احسنت احسنت خدا آپ کو کامیاب کرے۔

                                            (نامہ نگار، خاکسار سید علی محمد شاد، حاجی گنج، پٹنہ،4جنوری17)

——

کلکتہ،3جنوری1917

جناب مولوی سید شاہ نذیر حسن صاحب نسیم ہلسوی عظیم آبادی کا کلام میری نظر سے گزرتا رہا اور میں ہمیشہ اس سے مزہ لیتا رہا ہوں۔ نواب فصیح الملک داغ مرحوم کے دوسرے ارشد تلامذہ کے کلام بھی میری نظر سے گذرے ہیں اور میں جناب نسیم کو کسی سے کم نہیں سمجھتا اور میں زور کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر تمام ہندوستان میں نہیں تو کم از کم صوبہ بہار و بنگالہ میں تو اس امر کے مستحق ہیں کہ جانشیں حضرت داغ جانے جائیں۔

                                         (محمد یوسف جعفری رنجورعظیم آبادی، شمس العلما خان بہادر)

نسیم ہلسوی عظیم آبادی داغ کے تلامذہ میں بہت ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ کلیم احمد عاجز نسیم ہلسوی عظیم آبادی سے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’حضرت نسیم ہلسوی کی ایک غزل پیش کرتے ہیں جو ابھی ابھی چند منٹ قبل کاغذات کے ایک پلندے میں دبی دبائی ملی ہے۔ یہ غزل داغ کے پاس 24اکتوبر1904 کو بھیجی گئی تھی جسے داغ نے کہیں ایک نقطہ کم و بیش کیے بغیر اپنے ہاتھ سے یہ لکھ کر واپس کیا ’’سبحان اللہ کیا اچھی غزل کہی ہے، مجھے بہت پسند آئی۔‘‘

کلیم احمد عاجز اس غزل کے متعلق مزید لکھتے ہیں:

’’اس غزل میں داغ کا وہ تمام رنگ و آہنگ ملے گا جو داغ کی مخصوص انفرادیت میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سب کچھ بھی ملے گا جو داغ اسکول کے ایک عظیم آبادی شاگرد میں ملنا چاہیے یعنی کھیل کھیلنے والے ماحول میں بھی وہ داخلی، نفسی، تہذیب اور شرافت، وہ رندآشامی میں صوفیانہ رکھ رکھائو خالص مجازی معاملہ بندی میں بھی حقیقت کی داخلی روح رواں دواں نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہلکے ہلکے درد کی کسک۔‘‘

                                        (بحوالہ بہار میں اردو شاعری کا ارتقا،-کلیم عاجز، مطبوعہ 1998)

حضرت نسیم ہلسوی عظیم آبادی کا پہلا دیوان ’موجِ نسیم‘ آپ کی حیات میں ہی شائع ہوا تھا۔ دوسرا دیوان ’ریاضِ نسیم ‘کا مسودہ مکمل ہوچکا تھا۔ ’بہارِنسیم ‘ اور ’فغانِ نسیم ‘ دو مجموعوں کے مسودات مرتب ہو رہے تھے۔ نزول بلائے الٰہی ہوا۔ ایک گلدستہ ’گل تر‘ جس میں ایک طرح پر دو غزلیں ہیں اسے شائع کراکر تمام شاگردانِ داغ اور دوسرے مشاہیر شعرا کی خدمت میں روانہ کی گئی تھیں۔

نسیم ہلسوی عظیم آبادی کا انتقال 37ھ بمطابق 1919 میں بہ عمر45سال میں ہوا۔ ان کی رحلت کی تاریخیں ’گلدستہ جلوہ یار‘ میں کثرت سے شائع ہوئیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو     ؎

بہت صبح سے آج مضطر ہیں ہم

نظر جانب در ہے ششدر ہیں ہم

ہمیں دیکھ کر لوٹ جاتے ہیں سب

ترے بسمل اللہ اکبر ہیں ہم

نکالا عبث ذکر حور و پری

وہ کہتے ہیں ان سب سے بہتر ہیں ہم

کہا شوق نے دل سے گھبرا نہ تو

رہِ عشق میں تیرے رہبر ہیں ہم

قناعت سے کیوں کر نہ ہو دل غنی

کہ اس کی بدولت تونگر ہیں ہم

——

ہے جس کا خدا حافظ کیا اس کو خطر کوئی

انسان کی کیا طاقت پہنچائے ضرر کوئی

تاکید یہ ہوتی ہے دیکھے نہ ادھر کوئی

مشتاق کی روکے سے رکتی ہے نظر کوئی

کیا جدّت تازہ ہے کہتے ہیں نسیم  احباب

یہ ہے غزل رنگیں یا ہے گل تر کوئی

——

دل جو لیتے ہو تو لے لو مگر اتنا کرنا

جب سنورنا اسی آئینے میں دیکھا کرنا

قیس و فرہاد کے قصّوں کی حقیقت کیا ہے

کشور عشق میں اب ذکر ہمارا کرنا

وہ جو سنتے ہوں تمہاری تو یہ سمجھائو نسیم

چاہنے والوں کو اچھا نہیں رسوا کرنا

مبارک عظیم آبادی :  سید شاہ مبارک حسین نام، المتخلص بہ مبارک ابن سید فدا حسین دامن 7 محرم 1287ھ بمطابق 1869 تاریخ پیدائش ہے۔ پٹنہ سٹی کے محلہ لودی کٹرہ میں آکر بسے۔ مبارک عظیم آبادی کا خاندان زمانہ قدیم سے سیادت اور علم و فضل میں ممتاز رہا۔ مورث اعلیٰ قاضی یار محمد زمانہ عالمگیرمیں پٹنہ کے قاضی کے عہدہ پر ممتاز تھے۔ مبارک کے والد مولوی فدا حسین دامن عہدہ منصفی پر تھے۔ علم و ادب اور فارسی شاعری میں اچھی دستگاہ تھی۔ اسکول کے زمانے سے ہی شعر و سخن کی طرف طبیعت متوجہ تھی۔ بقول کلیم احمد عاجز (بہار میں اردو شاعری کا ارتقا 1998) ’’تقریباً دو سال تک مولوی حسن جان خان صاحب حسن سہسرامی کو اپنا کلام دکھاتے رہے اس کے بعد علامہ عبدالحمید پریشاں عظیم آبادی سے نظم و نثر، اردو اور فارسی میں اصلاح لینے لگے۔‘‘

آپ کے ایک عزیز مولوی سید محمد افضل جو موسیقی میں دستگاہ رکھتے تھے۔ ایک روز جب وہ مبارک عظیم آبادی کے مہماں تھے، رات کے وقت داغ کی غزل بڑی خوش الحانی سے گانا شروع کیا۔ جس کا مطلع تھا      ؎

شرکت غم بھی نہیں چاہتی غیرت میری

غیر کی ہوکے رہے یا شب فرقت میری

یہ کلام مبارک عظیم آبادی کے دل پر اثر کر گیا۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ’گلزارِ داغ‘ لائے اور اسے مطالعے میں رکھا اور اسی رنگ میں خود بھی کہنے لگے۔ چنانچہ پہلی مرتبہ 1310ھ کو ایک غزل اصلاح کے لیے داغ کے پاس روانہ کیا۔ اس وقت سے داغ کے انتقال 1324ھ تک مبارک عظیم آبادی داغ دہلوی سے مشورہ سخن کرتے رہے۔ کلیم احمد عاجز نے لکھا ہے:

’’اکثر مبارک نے داغ کی غزل پر غزل لکھی اور اصلاح کے لیے بھیجی۔ داغ نے تعریف کی، اچھے اچھے اشعار پر مکرر صاد بنائے، کہیں کہیں کچھ ردوبدل کیا۔‘‘

رضا علی وحشت کلکتوی نے لکھا ہے:

’’داغ ایک طرز کا موجد تھا اور جب رامپور اور حیدرآباد میں اس نے اپنی طبع رنگیں کے جوہر دکھائے تو سارا ہندوستان اس کا لوہا ماننے لگا۔ بہت سے شاگرد ہوئے ا ور داغ کی تقلید کا دم بھرنے لگے لیکن تتبع کا حق ادا کرنا آسان نہ تھا۔ جن لوگوں نے اس تتبع میں نمایاں کامیابی حاصل کی ان میں بڑی ممتاز ہستی مبارک عظیم آبادی کی ہے۔ ان کے کلام میں داغ کی سی زندہ دلی پائی جاتی ہے۔ وہی بول چال، وہی لطافت، زبان وہی روزمرہ، وہی روانی، وہی فصاحت۔‘‘

ڈاکٹر مظفر اقبال نے اپنے مقالہ (مطبوعہ رسالہ ’آجکل‘، دہلی، ستمبر1959) میں مبارک عظیم آبادی کو داغ کا شاگرد اور جانشیں بتایا ہے:

’’اس امر سے ہر صاحب ذوق واقف ہے کہ مبارک داغ کے نہ صرف ارشد تلامذہ میں تھے بلکہ صحیح معنوں میں داغ کے جانشیں تھے۔‘‘

مبارک عظیم آبادی کے مطبوعہ مجموعہ کلام ’مرقع سخن‘ دو حصوں میں ان کی زندگی میں شائع ہوا جو ان کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ ’جلوۂ داغ‘ کے نام سے غزلوں کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔ ایک ’انتخاب مبارک عظیم آبادی‘ پاکستان سے شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ’کلیات مبارک عظیم آبادی ‘بھی پاکستان سے شائع ہوچکا ہے۔

بلاشبہ ڈاکٹر مبارک عظیم آبادی داغ کی شاگردی میں پھلے پھولے، زبان و بیان کے اعتبار سے داغ کی پیروی کی لیکن داخلی طور پر ان کے مزاج میں درد اور سوز کا عنصر غالب تھا۔12اپریل1958 کو پٹنہ سٹی (عظیم آباد) میں انتقال ہوا۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں       ؎

خدا جانے کہاں سے کھنچ کے میخانے میں آتی ہے

خبر اتنی تو ہے شیشے سے پیمانے میں آتی ہے

شراب عشق کے شایاں نہ ہو ساغر نہ ہر مینا

یہ خاص انداز سے مخصوص پیمانے میں آتی ہے

——

بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے

تمھیں اس خواب کی تعبیر ہو کیا خواب دیکھا ہے

وہ الفت دوست ہوں ناصح دعا ہی دل سے نکلی ہے

اگر دشمن کے بھی گھر مجمعِ احباب دیکھا ہے

——

قید تنہائی سے بڑھ کر تو کوئی قید نہیں

لوگ زنداں کو لیے پھرتے ہیں زنداں کیسا

ابتری دل کی رلاتی ہے مبارک پہروں

ہو گیا ہائے یہ مجموعہ پریشاں کیسا

——

لالہ رخوں میں عمر گذاری اور بہاریں بھی لوٹیں

آج بھی گل سے گالوں والے ہم کو مبارک پیارے ہیں

——

مبارک بھی اسی خاک عظیم آباد سے اُٹھا

سلامت وہ زمیں یا رب جو مردم خیز ہوتی ہے

ریاض حسن خاں خیال:  ریاض حسن خاں ابن مولوی ہادی حسن خاں نایاب کی پیدائش 12 رجب المرجب 1294ھ بمطابق 1858 میں موضع رسول پور، مظفرپور میں ہوئی۔ کم عمری میں والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ لہٰذا ان کی پرورش و پرداخت کی ساری ذمے داری ان کے دادا جان نے اٹھائی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم بہت سارے اساتذہ نے رہبری کی لیکن تمام اساتذہ میں بلند مقام حکیم حافظ سید فرزند علی دہلوی کو حاصل ہوا۔ ڈاکٹر محمد حامد علی خاں اپنی مرتبہ کتاب ’مظفرپور:علمی، ادبی اور ثقافتی مرکز‘ (مطبوعہ 1988) میں ریاض حسن خاں خیال کے متعلق لکھتے ہیں:

’’انھیں شعر و سخن سے فطری رغبت ضرور تھی اور اسے اپنی زندگی کا انھوں نے ایک شیوہ خاص بنایا تھا۔ اردو شاعری میں اپنا تخلص خیال اور فارسی شاعری میں اپنا تخلص دانش کیا کرتے تھے۔‘‘

انھوں نے ریاض حسن خاں خیال کے بارے میں مزید لکھا ہے:

’’ریاض حسن خاں خیال نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں مولانا فرزند علی بیتاب دہلوی سے اصلاح لی۔ یہ شوق سخن زیادہ گہرا ہوا تو انھوں نے نواب فصیح الملک حضرت داغ دہلوی سے باضابطہ شرف تلمذ حاصل کیا۔ جس کا اقرار یوں کیا ہے   ؎

جناب داغ کا فیضان ہے یہ شاعری اپنی

خیال اس فن کو سیکھا ہے بڑے استاد کامل سے‘‘

جناب ریاض حسن خاں خیال پر پروفیسر فاروق احمد صدیقی نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور 1985 میں ’دیوان ریاض حسن خاں خیال‘ زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ ریاض حسن خاں خیال کی شاعری پر بھی داغ دہلوی کا اچھا خاصا اثر ہوا۔ ان کا شعری ذوق جمال نہایت پاکیزہ و بالیدہ تھا۔ غزلوں میں کاکل و رخسار کی حکایات، ماہ و انجم کی ضوفشانیاں، رنج و الم کی بیتابیاں، حسن و عشق کی کہانیاں، علاوہ حوصلہ مندیوں اور شکوہ طرازیوں کی کیفیات بھی ہیں۔

تنقید نگاری اور نثرنگاری کا بھی اچھا خاصا مذاق تھا۔ چنانچہ فارسی کی ایک مشہور کتاب ’نامہ دانشوراں ناصری‘ کا اردو ترجمہ بھی کیا اور کئی مضامین بھی لکھے۔ 27شوال 1372ھ بمطابق 10جولائی 1953کو انتقال ہوا۔ آپ کے کلام میں استاد داغ دہلوی کا رنگ نمایاں ہے۔ نمونۂ کلام اس طرح ہے   ؎

مقدر میں جو ہوتا ہے وہ ہوگا

خیال سود کیا فکر زیاں کا

——

جو عاشق ہیں وہ شکر لذت بیداد کرتے ہیں

یہ تم نے سچ کہا اہل ہوس فریاد کرتے ہیں

——

وہی انسان ہے یکساں رہے جو رنج و راحت میں

نہ اترائے مسرت میں نہ گھبرائے مصیبت میں

——

کونین ایک جلوہ ہے اس کے وجود کا

کیا پوچھنا ہے حسن ازل کے نمود کا

——

واعظ سے وعظ ہو نہ ہو

ہوگئی شہرت تو تیرے نام کی

ہاتف پچناوی :  حکیم سید عبدالحئی نام اور ہاتف تخلص ابن سید ولایت حسین کی پیدائش گائوں پچناں، شیخ پورہ میں 1881 میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گائوں پچناں میں حصولیابی کے بعد علم دین اور علم طب کے علاوہ دیگر علوم و فنون کی تکمیل دہلی میں ہوئی۔

تلامذۂ داغ میں آپ کا اہم نام ہے۔ آپ کی علمی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیل رسالہ ’کوئل‘ ڈالٹن گنج، پلاموں میں شائع شدہ خود آپ کا تحریر کردہ ایک مضمون کو حکیم سید احمد اللہ ندوی کراچی (پاکستان) نے اپنے ’تذکرہ مسلم شعرائے بہار‘ حصہ پنجم ص184، مطبوعہ 1969کے حوالے سے من و عن پیش کیا ہے۔

آپ کی شاعری کے متعلق ابوالکلام رحمانی اپنی کتاب ’تذکرہ مشاہیر شیخ پورہ‘ میں لکھتے ہیں:

’’شاعری کا باضابطہ آغاز روزافزوں ترقی کے ساتھ دہلی میں ہوا۔منشی قربان علی صاحب بسمل سے جو ا س زمانہ میں ’نسیم‘ نامی ماہوار رسالہ کے ایڈیٹر تھے، اصلاح لینا شروع کیا۔ کچھ دنوں بعد حکیم ضامن علی صاحب مرحوم جلال لکھنوی کی شاگردی اختیار کی، پھر فصیح الملک استاد داغ دہلوی کے حلقہ تلمذ میں داخل ہوا اور ان سے بذریعہ خط و کتابت اصلاح لینے لگا۔‘‘

جناب ہاتف پر ڈاکٹر احمد سجاد کی اہلیہ محترمہ نے تحقیقی مقالہ پیش کرکے رانچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ اس مقالے میں آپ کے سارے کلام کے علاوہ آپ کا تصنیف کردہ ایک ڈرامہ بھی شامل ہے۔

آپ کی شاعری کا تعلق دبستان دہلی سے رہا ہے۔ کلام میں سلاست، روانی اور سادگی کے ساتھ صفائی الفاظ کے علاوہ روزمرہ کا استعمال اور مضمون آفرینی جیسی زبان و بیان کی دہلوی خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ آپ کی ایک پوری غزل ماہنامہ ندیم گیا (بہار) کے ’بہار نمبر‘ مطبوعہ 1935 میں پُرکیف تغزل کے عنوان سے صفحہ 69 پر شائع ہوئی تھی۔ بقیہ اشعار پروفیسر شاہ مقبول احمد کے توسط سے ابوالکلام رحمانی صاحب کو ان کے تذکرہ ’مشاہیر شیخ پورہ‘ کے لیے ملی تھی۔5مارچ 1941 کو آپ کا انتقال ہوا۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو   ؎

تم جور و جفا کے عادی ہو، صبر و رضا کے خوگر ہم

پہلو سے دبائے پھرتے ہیں اب دل کے عوض اک پتھرہم

تقدیر کہاں پہنچاتی ہے دیوانہ بناکر کیا کہیے

مل لیتے ہیں ان سے راتوں کو دشمن کی گلی میں اکثر ہم

بالیں پہ یہ آئے وہ آئے، ہنگامہ ہے پھر بھی ہوش نہیں

ساحل سے ہے کشتی دور ابھی اور پھینک چکے ہیں لنگر ہم

بیتاب طلب کو چین کہاں بدنام سکون یاس نہ کر

تھک کر جو کبھی گھر بیٹھ گئے، دنیا کو لیے ہیں سر پر ہم

کچھ اور اشعار دوسرے تذکرہ سے ملاحظہ ہوں      ؎

پہلے یہ آرزو تھی کہ کہہ ماجرائے غم

اور اب یہ التجا ہے کہ قصہ تمام کر

——

ہر چیز سے منہ کو پھیر کر ہاتف بزم جہاں سے چل نکلا

خود اُڑ کے پہنچنا منزل پر سامان کا پیچھے رہ جانا

——

عبث گھبرا رہے ہو جان من روداد غم سن کر

ابھی میں نے کہا کیا ہے ابھی تم نے سنا کیا ہے

 حامد عظیم آبادی :  سید شاہ حامد حسین المتخلص بہ حامد ابن سید واجد حسین کی ولادت 24ربیع الاوّل 1300ھ بمطابق 1882 کو درگاہ شاہ ارزاں (عظیم آباد) میں اور 17 ستمبر 1967 کو انتقال ہوا۔ پروفیسر ذکی الحق کے مطابق تاریخ پیدائش 1301ھ ہے۔ سولہ برس کی عمر میں شاہ حیدر علی کے جانشیں منتخب ہوکر درگاہ شاہ ارزاں کے سجادہ نشیں ہوئے۔

شعر و شاعری کا ذوق ورثے میں ملا۔ ابتدا میں خواجہ شہرت عظیم آبادی سے مشورہ سخن کیا بعدمیں داغ دہلوی اور ان کے انتقال کے بعد احسن مارہروی جو داغ کے شاگرد تھے، سے شرف تلمذ رہا۔

آپ کا دیوان بنام ’دیوانِ حامد‘ مرتبہ ڈاکٹر محمد یوسف خورشیدی،1979 میں شائع ہوا۔ مرتبہ دیوان ڈاکٹر محمد یوسف خورشیدی نے اپنے مقدمے میںلکھا ہے:

’’شاہ حامد حسین…داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ داغ کے انتقال کے بعد انھوں نے داغ کے شاگرد احسن مارہروی سے بھی تلمذ کی عزت حاصل کی۔ـ‘‘

خاکسار (سلطان آزاد) نے اپنی کتاب ’بہار میں رثائی ادب: آغاز و ارتقا‘، مطبوعہ 2020) میں انھیں بحیثیت رثائی شاعرشامل کیا ہے اور لکھا ہے:

’’ساتھ ہی دیگر صوفیوں کی طرح رثائی ادب میں خصوصی دلچسپی لی۔ اس ضمن میں ان کی تصنیفات میں ’کتاب المیلاد‘ (مطبوعہ2001) کے علاوہ ’افسانہ شہادت‘، ’مرقع شہادت‘، ’زمزمہ شہادت‘ اور ’گلدستہ سلام‘ (نوحوں،مرثیوں اور سلام کا مجموعہ) بھی ہیں۔‘‘

آپ کا کلام حسن روزمرہ، سادگی، استعارات اور محاورے کے زیور سے آراستہ ہے۔ نمونہ کلام اس طرح ہے، ملاحظہ ہو     ؎

نکلی جو دل سے آہ تو کیونکر اثر نہ ہو

ممکن نہیں کر سنگ سے پیدا شرر نہ ہو

——

جبیں سائی کو ننگِ آستاں تیرا ہی کافی ہے

کسی کے در پہ اپنا یہ سر تسلیم کیوں خم ہو

——

بھر آئیں سب کے دل جوشِ سخن ایسا بھی ہوتا ہے

زباں ایسی بھی ہوتی ہے دہن ایسا بھی ہوتا ہے

——

کوئے جاناں کی جبیں پر جو مرا سر ہوتا

مرتبہ عرش نشینوں کے برابر ہوتا

مری فریاد تو بیکار نہ جاتی یارب

تو ہی سنتا کہیں سیدھا جو مقدّر ہوتا

تیری رحمت مری حامی جو نہ ہوتی یارب

عملِ نیک بھی عصیاں کے برابر ہوتا

——

خزاں کا دور بھی اک عالم ہُو کا زمانہ تھا

نہ شاخ گل پہ بلبل تھی نہ کوئی آشیانہ تھا

نظام الدین بلخی :  مشہورمورخ، تذکرہ نگار اور شاعر فصیح الدین بلخی کے سنجھلے بھائیوں میں سید نظام الدین بلخی کی پیدائش 22مارچ1882 کو عظیم آباد کے مشہور محلہ بخشی میں ہوئی۔ والد بزرگوار کی نگرانی میں تعلیم مکمل کی۔ ابتدائی تعلیم حکیم صوفی صاحب کے مدرسہ سے حاصل کرنے کے بعد انگریزی کی تعلیم پانے کے لئے مسز نیکنڈے کے پاس پادری کی حویلی پٹنہ سٹی گئے،جہاں وہ رہتی تھیں۔ محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول پٹنہ سٹی سے انٹر کا امتحان مکمل کیا۔ اوّل درجہ حاصل کرنے کے باعث کلکتہ یونیورسٹی سے سونے کا تمغہ ملا۔ پٹنہ کالج میں ایف۔ اے میں داخل ہوئے لیکن والد بزرگوار کی رحلت کے باعث مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیںملا۔1907 میں پٹنہ سٹی اسکول میں مدرس ہوئے۔ 1938 میں آپ کا تبادلہ پٹنہ ہائی اسکول گردنی باغ پٹنہ میں ہوا جہاں سے وظیفہ یاب ہوئے۔

نظام الدین بلخی اعلیٰ پایے کے شاعر تھے۔ آپ کا تذکرہ بحیثیت شاعر سید احمد اللہ ندوی (کراچی) نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’تذکرہ مسلم شعرائے بہار‘ جلد دوم میں کیا ہے۔ اسی سے استفادہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مظفر بلخی نے اپنی کتاب ’فصیح الدین بلخی: حیات  اور کارنامے‘ (مطبوعہ 1988) میں آپ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’آپ شاعری میں حضرت داغ دہلوی کے باضابطہ شاگرد ہوئے۔ شاگردی کا سلسلہ کافی دنوں تک خط و کتابت سے جاری رہا اور حضرت داغ جب عظیم آباد تشریف لائے تو آپ بھی ان کے دبستان میں شامل ہوئے۔ داغ کی استادی کا فخر اس شعر میں فرماتے ہیں       ؎

جناب داغ کا یہ فیض کم نہیں بلخی

سخن زباں کے لیے ہے زباں سخن کے لیے‘‘

اپنی شاعری میں اپنا تخلص نظام اور بلخی دونوں فرماتے تھے۔ آپ کا انتقال 1966 میں بہ عمر 84 سال ہوا۔ آپ کی شاعری میں داغ کا بھرپور اثر ملتا ہے۔ نمونۂ کلام اس طرح ہے۔ ملاحظہ ہو      ؎

فسردہ دل ہے نہ خلوت نہ انجمن کے لیے

یہ پھول بھی تو ہے کانٹا ہر اک چمن کے لیے

پہن لیا تھا کسی وقت جامۂ ہستی

اجل کھڑی ہے اسی جامۂ کہن کے لیے

——

الٰہی الاماں راز دل افسانہ ہوتا ہے

قیامت ہے قیامت آشنا بیگانہ ہوتا ہے

تڑپنا، لوٹنا، اٹھنا، سلجھنا، جان سے جانا

پریشانی میں جو ہوتا ہے بے تابانہ ہوتا ہے

تغزل اب کہاں فیضِ جناب داغ ہے بلخی

تمھارا شعر جو ہوتا ہے استادانہ ہوتا ہے

جمیلہ خدابخش:  رضیہ خاتون نام جمیلہ تخلص۔ خان بہادر مولوی یحییٰ علی رئیس کلکتہ کی صاحبزادی اور خان بہادر خدابخش خان بانی خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کی اہلیہ تھیں۔ ان کی تاریخ پیدائش 1868 بمقام کلکتہ ہے۔ گھریلو تعلیم میں اردو، فارسی اور دینیات کی تعلیم پائی۔ ملکہ شاعری فطری تھا۔ ابتدا میں رضیہ اور کبھی خاتون تخلص کرتی تھیں لیکن جب1899 میں شاہ جمال الدین صاحب سے بیعت کی تو پیر کے نام کی مناسبت سے جمیلہ تخلص اختیار کیا اور اسی نام سے مشہور ہوئیں۔

ان کے شعری سرمایے میں آٹھ دیوان، خدابخش لائبریری پٹنہ سے شائع ہوچکے ہیں۔

اُنیسویں صدی کی شاعرات میں آپ کا ایک اہم مقام ہے جو ان کے شعری سرمایے میں جلوہ گر ہے۔ ان کے دیوان میں غزلوں کے علاوہ قصیدے بھی موجود ہیں۔داغ دہلوی اور بعد میں شاد عظیم آبادی سے شرف تلمذ تھا۔ آپ کا سب سے پہلا تذکر ’تذکرہ نسواں ہند‘ مئولف مولوی فصیح الدین بلخی، مطبوعہ 1956میں ملتا ہے۔ خاکسار نے اسی تذکرے کے حوالے سے مذکورہ مضمون ’کلکتہ کی شاعرات اور ان کی شاعری: انیسویں صدی کے حوالے سے‘ مشمولہ مجموعہ مضامین ’تحقیق و توضیح‘، مطبوعہ 2022 میں ان کا ذکر کیا ہے۔ روایت ہے کہ ذکر الٰہی کی حالت میں 1921 میں ان کا انتقال ہوا۔

ان کی شاعری میں سادگی،صفائی، درد مندی اور تصوف کا نمایاں رنگ نظر آتا ہے۔ نمونۂ کلام اس طرح ہے۔ ملاحظہ ہو   ؎

ساحل و دشت میں ہرگز نہ پریشاں ہوں گے

اب رہا مرکے ترے قیدی زنداں ہوں گے

رنج فرقت سے چھڑایا ہمیں تو نے قاتل

ہم قیامت میں بھی شرمندۂ احساں ہوں گے

——

اپنا فردوس بریں یہ کوئے جاناں ہوگیا

کیا کروں جنت میں جاکر اپنا ساماں ہوگیا

حیرتی کیونکر نہ ہوں طالب ترے دیار کے

اک جھلک سی دیکھ کر آئینہ حیراں ہوگیا

——

اس سے آخر جمیلہ کیا چاہوں

دل نہیں ہے تو آرزو کیسی

——

کبر و نخوت سے جمیلہ مجھے کیا کام رہا

ساری مخلوق سے جب اپنے کو کمتر جانا

عبداللطیف اوج  :  عبداللطیف المتخلص بہ اوج، ویشالی ضلع کی مشہور و معروف بستی شیرپور چھتوارہ کے رہنے والے تھے۔ اس اعتبار سے خود کو چھتواروی لکھتے تھے۔ 1325ھ تک باحیات رہنے کا ثبوت ملتا ہے۔ آپ کا ایک قلمی دیوان جو ایک سو گیارہ صفحات پر مشتمل ہے جس میں ایک حمد، دو نعت، ایک سلام، ایک سو چھیالیس غزل، سات رباعی، تین قطعہ تاریخ، ایک مخمس اور گیارہ متفرق اشعار ہیں۔ دیوان کے پہلے صفحے پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد غزلیات اوج لکھا ہے۔ پھر حمد کے چھ اشعار اور نعت کے آٹھ اشعار ہیں۔ ان دونوں کے بعد نو اشعار میں واقعات کربلا بیان ہے جس کا عنوان ’سلام‘ رکھا گیا ہے۔ درمیان میں ردیف دال میں بھی ایک نعت ہے۔ بقیہ ساری غزلیں ہیں۔ دیوان کا آخری شعر موجودہ قلمی نسخہ میں یہ ہے     ؎

غم خاروں کی مرے یہ شب و روز ہے دعا

تیری امید اوج بر آئے خدا کرے

جناب عبداللطیف اوج بھی داغ دہلوی کے حلقہ تلامذہ میں تھے۔ ان کے قلمی دیوان کو متبرک سمجھ کر جناب سمیع احمد صاحب شیرپور چھتوارہ، ویشالی نے زمانۂ دراز تک محفوظ رکھا۔ پھر ان ہی کی عنایت سے اور مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی کی درخواست پر نُوراردو لائبریری کے حوالہ ہوا۔ اسی لائبریری سے حاصل شدہ قلمی دیوان کو مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے مرتب کرکے اسے زیور طبع سے آراستہ کرکے2015 میں شائع کیا۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی عبداللطیف اوج کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’عبداللطیف اوج نے جس وقت شاعری شروع کی اس وقت فصیح الملک داغ دہلوی (1322ھ) کی غزلوں کا پورے ملک میں شہرہ تھا۔ اور ان سے تلمذ کو قابل فخر سمجھاجاتا تھا۔ اوج نے بھی اپنی غزلوں پر ان سے اصلاح لینا شروع کیا اور دیکھتے دیکھتے ان کے رنگ میں رنگ گئے۔ وہ اپنے ذہن رسا اور شعر و سخن سب کو ان ہی کا فیض قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں     ؎

تلمذ داغ سے ہے اوج ہم کو

طبیعت کیوں نہ ہو اپنی بلا کی

——

کیا جانتا تھا اوج کہ کہتے ہیں کس کو شعر

مشہور فیض داغ سے شیریں سخن ہوا‘‘

بلاشبہ جناب اوج کی شاعری میں بھی استاد داغ دہلوی کا رنگ نمایاں ہے۔ مرتب ’دیوان اوج‘ مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی ان کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’عشق و محبت کے لازمے میں رندی، مئے خواری، بے خودی، وارفتگی کا ذکر آتا ہے۔ اوج جن کی شاعری کا محور ہی یہی ہے، اس سے بچ کر کیسے نکل سکتے تھے۔ چنانچہ دوسرے شاعروں کی طرح ان کے یہاں بھی رندی اور مئے نوشی کا تذکرہ ہے۔‘‘

نمونہ کلام ملاحظہ ہو    ؎

سکھا دو تم ہمیں بیداد کرنا

بتا دیں ہم تمھیں فریاد کرنا

اگر باقی ستم رہ جائے کوئی

پس مردن ستم ایجاد کرنا

——

مجھ کو شب فراق میں تیرا ہے غم عزیز

حسرت عزیز رنج عزیز اور الم عزیز

تیری ہر اک ادا ہے خدا کی قسم عزیز

شوخی حیا پسند کرشمہ ستم عزیز

——

معشوق وہ ہے وصل میں بھی جو حیا کرے

غمزہ کرے کرشمہ کرے اور ادا کرے

رحمت اللہ احقر :  شاہ رحمت اللہ نام المتخلص بہ احقر ابن سید شاہ عبداللہ، محلہ کنہولی گنج، مظفرپور مسکن ہے۔ آپ کا زمانہ انیسویں صدی کی پانچویں دہائی سے شروع ہوتا ہے۔ 1921 کو اس دارفانی سے کوچ کیا اور  اپنے محبوب حقیقی کے سایہ عطافت میں پناہ گزیں ہوئے۔

حافظ قرآن اور مولوی تھے۔ مذہب و دین کا شوق و شغف اس قدر گہرا تھا کہ مظفرپور میں ایک خالص دینی و مذہبی ادارہ مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم کو نہ صرف قائم کیا بلکہ 34 برسوں تک اس کے مہتمم کے فرائض انجام دیتے رہے۔ جناب احقر کو شعر و سخن کا فطری ذوق حاصل تھا۔ سید احمد اللہ ندوی نے آپ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ کو داغ دہلوی کا مشورہ سخن حاصل ہوا جس کا اعتراف ’’خم خانۂ جاوید‘‘، جلد اوّل، ص 183-184، میں بھی موجود ہے۔ تصوف کی جھلک اور وسیع المشربی ان کے کلام کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ خصوصیت داغ دہلوی کے یہاں بھی موجود ہے۔

جناب احقر نے غزل کے علاوہ نظم، رباعی اور نعت رسولؐ میں بھی اپنی جولانی طبع کا انہماک کے ساتھ مظاہرہ کیا ہے۔ وہ اپنے عہد کے قابل ذکر مشاعروں میں کثرت سے شرکت کیا کرتے تھے۔ عظیم آباد کے یادگار مشاعرہ جو 1902 میں سید بادشاہ نواب پٹنہ سٹی کے زیر اہتمام مصرع طرحی مشاعرہ میں بھی شرکت کی تھی جو چھ طرحوں پر چھ راتوں تک مشاعرہ چلا تھا۔ان کے کلام میں صوفیانہ رنگ و آہنگ کے ساتھ عہد رفتہ کی بے سروسامانیوں کا ذکر ہے اور تبلیغ و اصلاح کا شعور بھی نمایاں ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں     ؎

کہتے ہیں کیا رو رہے ہو دل گیا

ہم جو تم سے مل گئے سب مل گیا

اب لڑی بس اب لڑی ان سے نظر

اب گیا بس ہاتھ سے اب دل گیا

——

یہ آداب محبت کا سبق ہم سے پڑھے کوئی

بچا کر پائوں ہم نقش قدم پر تیرے چلتے ہیں

دم رخصت کہا دل نے کسی کا تھام کر دامن

اکیلے آپ کیا چلتے ہیں ہم بھی ساتھ چلتے ہیں

حقیقت جانتے ہیں کچھ ہمیں موج محبت کی

یہ وہ چشمہ ہے جس سے سیکڑوں چشمے اُبلتے ہیں

محبت کو جو سمجھے حاصل کونین اے احقر

کہیں بگڑے ہوئے ایسے بھی دنیا میں سنبھلتے ہیں

اقبال علی خاں وفا بہاری  :  اقبال علی خاں المتخلص بہ وفا ابن امیر الدین علی خاں، موضع پنہر، متصل اسلام پور سابقہ ضلع پٹنہ، حال ضلع نالندہ میں 18رجب 1359ھ بمطابق 15اگست 1843 کو پیدا ہوئے۔ اپنی کتاب ’اردو ادب کی تاریخ میں نالندہ ضلع کی خدمات‘ (2013) میںڈاکٹر عشرت آرا سلطانہ آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

’’اردو شاعری کو فروغ دینے میں وفا بہاری نے ایک عمدہ رول ادا کیا ہے۔ وفا بہاری ایک باذوق فطری شاعر تھے۔ انھوں نے داغ دہلوی سے کسب فیض کیا۔ وہ داغ دہلوی کی شاعری سے گہرے متاثر تھے۔داغ سے بذریعہ مراسلہ اصلاح لیا کرتے تھے۔ داغ کے کچھ خطوط بھی ان کے پاس محفوظ تھے۔‘‘

3اکتوبر 1922 کو علی خاں وفا بہاری کا انتقال ہوا۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں غزلیہ رنگ و آہنگ کو نمایاں کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو   ؎

تیری چتون ہے غضب آنکھیں ہیں آفت تیری

قہر گفتار تو رفتار قیامت تیری

پہلے کب چرخ کو یہ جوروستم آتا تھا

اس ستم گار نے سیکھی ہے یہ عادت تیری

حضرت داغ تک اپنی جو رسائی جو ہوئی

اے وفا پھر نہ رسا کیوں ہو طبیعت میری

——

عجب لطف کی ہے کہانی ہماری

سنو دل لگاکر زبانی ہماری

ہمیں داغ دل دے کے بولے وہ ہنس کر

وفا بس یہی ہے نشانی ہماری

عبدالسلیم ناسور  :  منشی عبدالسلیم المتخلص بہ ناسور متوفی 1900۔ آپ نے حضرت نسیم بھرت پوری اور حضرت داغ دہلوی دونوں سے تلمذ لیا۔ آپ کے زیادہ حالات نہیں ملتے۔ صرف اتنی ہی باتیں اور نمونہ کلام کتاب ’مشاہیر سہسرام‘ سے ڈاکٹر شمیم ہاشمی نے اپنی کتاب ’سہسرام اور اردو شاعری‘ میں نقل کیا ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو   ؎

جامۂ عشق جو زیب تن انساں ہوتا

جیب کی فکر نہ اندیشۂ داماں ہوتا

بیٹھتا صحبت رنداں میں اگر تو واعظ

سچ تو یہ ہے کہ بڑے کام کا انساں ہوتا

دل کو ارمان نہ تھا کوئی بھی تجھ سے اے چرخ

شب کو پہلو میں اگر وہ مہ تاباں ہوتا

زلف پُر پیچ کا سودا جو نہ ہوتا دل میں

یوں بلائوں سے نہ دن رات پریشاں ہوتا

تجھ پہ کھل جاتی مرے زخم جگر کی حالت

سامنے تیرے جو ناسور کا دیوان ہوتا

معین الدین احمد معین  :   حضرت شاہ معین الدین احمد معین، سجادہ نشیں خانقاہ کبیریہ سہسرام، متوفی 1901 کو حضرت راحت سہسرامی اور حضرت داغ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ آپ اپنے خاندانی بزرگوں کی طرح علم دوست اور ادب نواز تھے۔ آپ کی نوازشوں کی آنچ سے سہسرام کی محفل شعر و سخن میں ہمیشہ گرمی رہاکرتی تھی۔ ان کا یہ مختصر تذکرہ ’تذکرہ مسلم شعرائے بہار‘ اور ’تذکرہ مشاہیر شعرائے سہسرام‘سے ڈاکٹر شمیم ہاشمی (مطبوعہ2019) نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’سہسرام اور اردو شاعری‘ میں نقل کیا ہے۔ نمونہ اشعار ملاحظہ ہو      ؎

بوسہ جو ان کا میں نے لیا شب کو خواب میں

دن کو وہ دیکھ کر مجھے آئے حجاب میں

حاجت نہیں کباب کی حاضر ہے لخت دل

خونِ جگر ملا لو ہمارا شراب میں

چن چن کے قتل کرتے ہیں وہ عاشقوں کو آج

یارب مرا بھی نام ہے اس انتخاب میں

آتے نہ خود ہیں اور نہ بلاتے معین کو

کیا جان پڑ گئی ہے الٰہی عذاب میں

تبارک حسین تبارک  :  ابوالبرکات سید محمد تبارک حسین المتخلص بہ تبارک، باشندہ سہسرام، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ان کا مختصر تذکرہ، کتاب ’تذکرہ مسلم شعرائے بہار‘ کے حوالے سے ’سہسرام اور اردو شاعری‘ کے مرتب ڈاکٹر شمیم ہاشمی نے نقل کرتے ہوئے مزید لکھا ہے:

’’جب سہسرام میں رنگِ داغ چھلکا تو سہسرام کے بیشتر شعرا نے اس رنگ کو اپنانے کی کوشش کی اور تلامذہ داغ میں شامل ہوئے۔ جناب راحت سہسرامی کے پیروکار زیادہ تر شعرا نے اپنی شاعری کو رنگ داغ سے رنگین کیا۔‘‘

نمونہ کلام ملاحظہ ہو   ؎

اثر تجھ میں بھی گراے نالہ ہائے بے اثر ہوتے

وہ مجھ پر نام ہی کو مہرباں ہوتے اگر ہوتے

زمیں پائوں کے نیچے سے سرک جاتی ہے ہجراں میں

کسی کو بھی نہ دیکھا ہم نے حامی وقت پر ہوتے

فلک کو درد کیوں ہو اے دل درد آشنا میرا

کسی کے دل میں کیوں پیدا ہو یہ میرا جگر ہوتے

کلیم احمد خاں دانش:  حکیم حافظ کلیم احمد خاں المتخلص بہ دانش ابن ابوالفضل خاں، باشندہ سہسرام۔ آپ کی تعلیم مدرسہ خانقاہ کبیریہ سہسرام میں ہوئی۔ اس کے بعد حصول تعلیم کی خاطر جون پور، الٰہ آباد، بدایوں اور بریلی شریف مقیم رہے۔ عشق رسول اکرمؐ سے سرشار، متقی پرہیزگار اور بلند پایہ عالم تھے۔ حکمت میں بھی آپ کو دسترس حاصل تھی۔ فارسی اور اردو میں شاعری کرتے تھے۔ حضرت حسن جان خاں حسن سہسرامی سے تلمذ تھا۔ بعد میں داغ دہلوی کی بھی شاگردی اختیار کی تھی جس کا اظہار اپنے ایک شعر میں یوں کیا ہے    ؎

یہ داغ کاہے فیض کہ دانش تری غزل

پڑھتے ہیں بار بار سخنور نئے نئے

1943 میں انتقال ہوا۔ نمونہ اشعار اس طرح ہیں       ؎

ہماری خاک سے تسبیح اس نے بنوائی

ہزار شکر کہ آخر ہمیں شمار کیا

کسی کے حُسن کو بدنام کیوں کریں دانش

ہمارے دل نے ہمیں خود گناہ گار کیا

امجد علی احقر  :  امجد علی المتخلص بہ احقر ابن شیخ علی احمد، محلہ بارہ دری سہسرام کے باشندہ تھے۔ آپ کا عہد 1924 کے آس پاس تھا۔آپ داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ’رجالِ سہسرام‘ اور رسالہ حسن و عشق، ڈہری(سہسرام)کے حوالے سے آپ کا نمونۂ کلام مذکورہ کتاب ’سہسرام اور اردو شاعری‘ میں شامل ہے۔ اُس کے حوالے سے نمونۂ کلام ملاحظہ ہو    ؎

اُٹھتا نہیں سر اپنا گناہوں کے بار سے

رندوں کو شرم آتی ہے اس شرمسار سے

ارمان و یاس و حسرت و غم اور آرزو

جاتے ہیں لے کے ہستیِ ناپائیدار سے

احقر فصیح ملک کی تم یادگار ہو

پیچھے رہیں قدم نہ کسی شہسوار سے

——

کریں گے حشر میں کیا لے کے باغ خلد ہم واعظ

ہوا کب راس آئی حضرت آدمؑ کو جنت کی

قلق حد سے سوا ان کو ہوا ہے میرے مرنے کا

وہ اپنے گھر سدھارے ہیں اُڑا کر خاک تربت کی

——

بھر کے مے دیکھتے ہیں شکل یہ پیمانے میں

آئینہ مستوں کے ہمراہ ہے مے خانے میں

اس کے پیتے ہی نظر آتا ہے جلوہ ان کا

شررِ طور ہے جو جلوہ ہے پیمانے میں

سعادت پیغمبر پوری:  سید سعادت علی خاں نام المتخلص بہ سعادت، مولد و مسکن موضع پیغمبر پور، ضلع دربھنگہ۔ آپ کا خاندان دہلی سے بہار آیا تھا۔ان کے جد امجد شیخ ابوسعید خاں دہلوی کو دربار شہنشاہ شاہجہاں میں شرف حضوری حاصل تھا۔ بادشاہ وقت کی جانب سے ان کے جد اعلیٰ ممدوح کو بہار کے اس علاقے میں جو نیپال کی ترائی میں واقع ہے بطور جاگیر التمغہ پیغمبر پور اسٹیٹ حاصل ہوا تھا۔ اپنی جاگیر کی نگرانی کے خیال سے اس خاندان کے افراد دہلی سے عظیم آباد اور پھر بعد کو پیغمبر پور ضلع دربھنگہ میں آبسے۔

پیغمبرپور ضلع دربھنگہ میں ہی 1296ھ بمطابق 1879 میں نواب سعادت علی خاں سعادت کی ولادت ہوئی۔ نابالغ ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس طرح ریاست کورٹ آف ولرڈس کے تحت آگئی۔ کم عمری میں ہی انگریزی، فارسی اور اُردومیں اچھی دستگاہ حاصل کرلی۔ اس پر ادبا و علما کی صحبتوں نے جِلا کا کام کیا۔

جناب سعادت پیغمبرپوری کا تذکرہ خمخانہ جاوید جلد چہارم اور تذکرہ مسلم شعرائے بہار سے استفادہ کرتے ہوئے جناب شاداں فاروقی اپنے ’تذکرہ بزم شمال‘ جلد اول، مطبوعہ 1986 میں بھی شامل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’حضرت سعادت کو شعر و ادب سے گہری مناسبت تھی۔ اشعار اچھے کہتے تھے اور زودگوئی میں اپنا آپ جواب تھے۔ پہلے حفیظ جونپوری کو اپنا کلام دکھایا۔اس کے بعد نسیم ہلسوی عظیم آبادی سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا اور آخر میں مرزا داغ دہلوی کے تلامذہ میں شامل ہوئے۔ حفیظ کے ایک شعر       ؎

سعادت سے یہ کوئی پوچھے حفیظ

کہ ہے آپ پر حق استاد کچھ

سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ انھوں نے موصوف سے اصلاح لی تھی۔ اور اپنے استاد مرزا داغ دہلوی ان کے حریف امیر مینائی سے بھی یوں اظہار عقیدت فرماتے ہیں       ؎

بعد از امیر و داغ سعادت ہے اپنا دور

مشہور ہے کلام مرا دور دور آج‘‘

جناب سعادت ملک کے اکثر حصوں میں قیام پذیر ہوئے تھے اور ہر جگہ انھیں استفادہ کرنے کا موقع ملاتھا۔ حضرت مولانا سید شاہ ابوالخیرمظہرعالم خیر قاضی بہیڑوی دربھنگوی، ایڈیٹر اخبار ’الپنج‘ بانکی پور پٹنہ کے زیر اہتمام سعادت کا دیوان 1907 میں مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہوا تھا۔ مطبع مذکور نے اس کی طباعت میں فن کا کمال دکھایا جسے دیکھ کر ہی اس کا اعتراف کیاجاسکتا ہے۔ پورا دیوان آرٹ پیپر پر چھپا ہے۔ اس دور کی مطبوعہ کتابوں میں ایسا خوبصورت دیوان مشکل ہی سے نظر آئے گا۔

سعادت کے اشعار میں ندرت خیال، سلاست بیان اور طرز ادا کا جو بانکپن ملتا ہے وہ ان کے کلام سے ظاہر ہے۔ ان کے کلام میں حفیظ کا اثر کم اور داغ کا پورا رنگ جھلکتا ہے۔ 1340ھ بمطابق 1921 میں بہ عمر 44 سال انتقال ہوا۔ نمونہ کلام اس طرح ہے۔ ملاحظہ ہو   ؎

سوال وصل پر کچھ غور کی ضرورت ہے

جواب آج نہیں کل ہی سوچ کر کہنا

کبھی شراب کبھی حور کا بیاں واعظ

یہ کیسی بات ہے انصاف سے مگر کہنا

——

اب زمانے میں سعادت استاذ

داغ سا سحر بیاں کیا ہوگا

کھول دو زلف دوتا اٹھی گھٹا

سامنا ہو تو بھرے پانی گھٹا

بزم میں ان کی نہ پائے دور جام

مے چلے جب تک رہے ساقی گھٹا

اُردو غزلیہ شاعری کی تاریخ اور اس کی لسانی و تہذیبی روایت کی توسیع و فروغ پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک نمایاں نام داغ دہلوی کا آتا ہے جنھوں نے اردو زبان جو قلعہ معلّٰی دہلی سے نکلی اُسے تمام ملک میں اپنے حلقہ تلامذۂ کی معرفت پھیلا دیا اور اسے درباروں، جاگیر داروں کی مخصوص انجمنوں سے نکال کر امیر و غریب کی زبانی دلوں اور گھروں میں پہنچانے میں داغ اور ان کے لائق و ماہر شاگردوں کی خدمات ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ جس میں داغ دہلوی کے بِہاری تلامذہ بھی پیش پیش رہے ہیں۔

داغ دہلوی کے بہاری تلامذہ کے تذکرے مختلف تذکروں اورکتابوں سے جو مجھے ملے انھیں اس مضمون میں شامل کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے ممکن ہے کہ کچھ اور تلامذہ بھی ہوں، جو آنے والے وقت میں تحقیق کے دوران مل جائیں۔ فی الحال اس پر اکتفا کرتا ہوں۔ کیونکہ باوجود کوشش کے کوئی بھی تحقیق آخری تحقیق نہیں ہوسکتی۔

ماخذ اور حوالہ جات

.1       تاریخ ادب اردو: ڈاکٹر جمیل جالبی .2       تلامذۂ داغ، جلد اوّل: ڈاکٹر شاہد احمد جمالی

.3       ذکر ومطالعہ:پروفیسر ذکی الحق    .4       فریادِ داغ :داغ دہلوی

.5       آفتابِ داغ:داغ دہلوی .6       گلزارِ داغ :داغ دہلوی

.7       بہار میں اُردو شاعری کا ارتقا:کلیم احمد عاجز    .8       مظفرپور: علمی ادبی اور ثقافتی مرکز  از ڈاکٹر محمد حامد علی خاں

.9       دیوان ریاض حسن خاں:پروفیسر فاروق احمد صدیقی      .10     تذکرہ مسلم شعرائے بہار:اوّل تا ششم حکیم سید احمد اللہ ندوی       

.11     تذکرہ مشاہیر شیخ پورہ:ابوالکلام رحمانی       .12              دیوان حامد:ترتیب و تدوین ڈاکٹر محمد یوسف خورشیدی

.13              فصیح الدین بلخی: حیات اور کارنامے-  ڈاکٹرمظفربلخی

.14              تذکرہ نسوان ہند:فصیح الدین بلخی  .15     تحقیق و توضیح:سلطان آزاد

.16     دیوان اوج، تخلیق:تلمیذ داغ، مرتبہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

.17     خمخانہ جاوید:جلد اوّل از لالہ شری رام

.18     اردو ادب کی تاریخ میں نالندہ ضلع کی خدمات از ڈاکٹر عشرت آرا سلطانہ

.19     سہسرام اور اردو شاعری- ڈاکٹر شمیم ہاشمی     .20     تذکرہ بزم شمال، جلد اوّل-شاداں فاروقی

 

Sultan Azad

Ashiana-e-Sultan, Pannu Lane, Gulzarabagh

Patna- 800007 (Bihar)

Mob.: 8789934730

Email.: maktabaeazadhind@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ، مضمون نگار: ابوبکر عباد

  اردو دنیا، اپریل 2025 تقریباً مردوں کے دوش بدوش ہی خواتین نے بھی ناول نگاری کی ابتداکی۔ بس یہی کوئی دس بارہ برسوں کے فاصلے سے، کہ ڈپٹی نذی...