12/6/20

اکبر ا لٰہ آبادی—ایک عمومی مطالعہ مضمون نگار: سید محمد عقیل


اکبر ا لٰہ آبادیایک عمومی مطالعہ
سید محمد عقیل
اگر یہ سچ ہے کہ شاعر اور ادیب اپنے ماحول کی پیداوار اور اپنے دور کا ترجمان ہوتا ہے تو اکبرایک کامیاب شاعر اور مکمل ترجمان ہیں۔ اکبر کا طبقہ اور ان کا دور جس ذہنی کشمکش سے اس وقت گزر رہا تھا، اس کی ایک مکمل اور جامع تصویر اکبر کی شاعری میں گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔    لسان العصر حضرت اکبر الہٰ آبادی 1843 کے قریب پیدا ہوئے اور 1921 تک زندہ رہے۔ یہ دور ہندوستانی سماج اور ہندوستانی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان اس وقت ایک تحیر کن خلفشاری دور سے گزر رہا تھا۔ ایک طرف تو سائنسی ایجادات، اختراعات، اصول اور تجربے تھے، دوسری طرف غیر ملکی قبضہ اور ان سے نفرت و محکومیت کا جذبہ کار فرما تھا۔ایک طبقے کو اگر اپنی ثروت و جاہ کے مٹنے کا الم تھا تو دوسرے کو اپنی روایات و اعتقادات کے باطل و شکست ہونے کا غم پریشان کر رہا تھا اور نتیجے کے طور پر دونوں طبقے اس نئی اور جابر حکومت سے بیزار نظر آ رہے تھے۔ اقتدار کے گھٹنے کا احساس ، ریل گاڑی، بنگلہ ، پاٹ، صابون، اخبار، تار، ڈاک، ٹیلیفون لوگوں کے لیے خواب پریشاں سے کم نہ تھے۔ لوگ ’’روشنی پر تاریکی اور جہالت کو دانشمندی پر ترجیح دے رہے تھے۔‘‘(1) مگر ساتھ ہی ساتھ معدودے چند لوگ ایسے بھی تھے جو کسی حد تک غیر شعوری اور کچھ شعوری طور پرنئی روشنی سے متاثر بھی ہو رہے تھے اس لیے کہ زندگی کی قدریں ہمیشہ ترقی کی طرف بڑھتی ہیں اور فرسودہ چیزوں کو چھوڑتی جاتی ہیں۔ چنانچہ جہاں لوگ نئے نظام کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہو گیا جو انگریزی پڑھنا، انگریزی خیالات و کتب سے استفادہ کرنا اور نئے نظام کی قدر و قیمت تسلیم کرنا مستو جب و مستحسن خیال کرتا تھا۔
1857 کے خلفشار کے بعد لوگوں کے مذہبی خیالات متزلزل ہونے لگے۔ چند مذہبی اصلاح پسندوں کی ایک جماعت پیدا ہو گئی جو ہر مذہب و ملت میں اصلاح چاہتے تھے۔ بنگال میں راجہ رام موہن رائے نے ’’برہمو سماج کی تحریک‘‘ شروع کی۔ سوامی دیا نند سرسوتی کی قیادت میں’’ آریہ سماج کی تحریک‘‘ شروع ہوئی۔ سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سے ایسے فرسودہ اصولوں کے خلاف آواز بلند کی جو اسلامی نہ تھے مگر کسی نہ کسی طرح انھیں اسلام سے وابستہ کر لیا گیا تھا۔ تعلیم یافتہ نوجوان اس وقت دو ذہنیتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک تو وہ تھے جو مذہب سے یک لخت منحرف ہو چکے تھے اور اپنے انحراف کو دلائل و براہین سے صحیح بھی ثابت کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے (Epicurian) اپیکیورین خیال کے مقلد تھے ،جن کا خیال تھا کہ مذہب محض ظاہری نمائش اور روایات کی پابندی کا نام ہے۔ انسان کو دنیاوی رنگ رلیوں اور لذات سے مستفیض ہونا چاہیے اور ان خشک باتوں میں نہ پڑنا چاہیے ۔بنگالی اور دیگر ہندوستانی کالجوں میں یہ خیالات بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ اسی طرح قدیم صنعت و حرفت بھی متاثر ہوئی۔انگریزی اور مغربی نمونوں اور ان کی اہمیت و فوائد نے قدیم صنعت و حرفت کی چولیں ہلا دیں۔ قوم پرستی کا جذبہ بھی بیدار ہونے لگا جس نے انڈین نیشنل کانگریس کے بھیس میں جنم لیا۔ ان سب تبدیلیوں کا رد عمل یہ ہوا کہ وہ طبقہ جو پرانے خیالات و روایات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو مہلک سمجھتا تھا اور ایک طرح سے اس میں اپنی ہتک محسوس کرتا تھا وہ ’’حال سے منہ موڑ کر ماضی کی طرف پلٹ جاؤ‘‘(2)کی تعلیم دینے لگا۔ اکبر اس طبقے کے سب سے بڑے حامی اور اس خیال و احساس کے سب سے بڑے مبلّغ تھے۔
اکبر کی شاعری کا اگر ایک صحیح اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو مجموعی حیثیت سے ان کی شاعری، مذہب کی زبردست پاسداری، نئی تعلیم و تہذیب سے حد درجہ کی مخالفت،فیشن اور ہر نئی ایجاد و تحریک سے منافرت کا اعلان ہے۔ وہ پرانی روایات و عقائد میں تبدیلی کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ :
اپنی جگہ سے تم نہ ہٹو گوہوں گردشیں

ایسے رہو کہ جیسے انگوٹھی میں نگ رہے
ان کی نگاہ پیش بیں ، طریق نو کو جادۂ راہِ عدم سمجھتی تھی :
طریق نو کو کیا سمجھا ہے تو منزل ترقی کی

نگاہِ پیش بیں میں جادۂ راہِ عدم یہ ہے
جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے، یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سماج کے مذہبی عقائد میں تبدیلی   رو نما ہو رہی تھی جو کسی خاص مذہب و ملت تک محدود نہ تھی۔1868 میں بمبئی میں ’’پرارتھنا سماج ‘‘قائم ہوئی جس کے لیڈر ایم. راناڈے اور چند راور کی تھے۔ یہ دونوں صاحبان عملی اور معاشرتی اصلاح کے علمبردار تھے۔ چنانچہ بمبئی ، پونا، مدراس، گجرات، احمد آباد وغیرہ اس تحریک سے کافی متاثر ہوئے۔ 1886 میں لاہور میں اینگلو ویدک اسکول کی بنیاد ڈالی گئی جس کا مقصد پنجاب میں برہمو سماج اصول کی تحریک چلانا تھا۔ اس کے بعد 1889 اور 1910 میں دیال سنگھ کالج اور متعدد کالج و اسکول قائم کیے گئے جہاں ان نئے مذہبی اصولوں کی تعلیم دی جانے لگی۔ جب یہ فضا دیکھی گئی تو نوجوان طبقہ کو اس وبا سے بچانے کے لیے قدیم نظام کے قائدوں نے گرو کل کا نگڑی کا ادارہ قائم کیا جس کا مقصد لوگوں کو نئی تعلیم کے اثرات سے بچانا اور پرانی روایات کو تازہ کرنا تھا۔ (3)مسلمانوں میں بھی یہ اصلاحی لہر جاگ اٹھی ۔ سر سید اور ان کا اسکول اسلامی عقائد کی تفسیر نئے سرے سے بیان کرنے لگا۔ آسمانی عقائد و روایات پر ایک ناقدانہ نظر ڈالی اور ان چیزوں کو باہر نکال پھینکنے کی کوشش کی جسے علما نے زبردستی مذہب بنا رکھا تھا۔ نتیجے کے طور پر سر سید کی پر زور مخالفت کی گئی۔ اخباروں میں ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان کے اس رویّے کو مشکوک و معتوب نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ انھیں نیچری اورملحد کا لقب دیا گیا اور ان کے متبعین کو فرقۂ نیچری میں گردانا گیا ۔علما کے طبقے نے سر سید اور ان کی تعلیم کی زبردست مخالفت کی اور لوگوں میں یہ خیال پھیلا دیا کہ سر سید اپنی تعلیم اوراپنے کالج کے وسیلے سے لوگوں کو لا مذہب بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ یہ حقیقت بھی تھی کہ بہت سارے لوگ کشمکش میں پڑ کر مذہب سے لاپروائی برت رہے تھے، اس لیے اس تبلیغ کو اور سہارا مل گیا اور یہی وجہ ہوئی کہ ہندوستانی مسلمان خاص طور سے انگریزی تعلیم کا مخالف ہو گیا۔ جس طرح یہ بات کچھ صداقت رکھتی ہے کہ ہر نئی چیزمیں کشش ہوتی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بہت جلد متوجہ کر لیتی ہے اسی طرح یہ امر بھی حقیقی ہے کہ نئی چیزوں کی مخالفت میں لوگ اکثر پرانی چیزوں کو اس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ کسی بھی حالت و قیمت پر اسے چھوڑ نے یا اس میں تبدیلی کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اس دور کی بالکل یہی حالت تھی۔ پیچھے لوٹ جانے والا طبقہ ہر نئی چیز کی مخالفت کر رہا تھااور پرانی چیزوں میں رتی برابر تغیر و تبدل کو اپنی اور اپنے آباو اجداد کی توہین سمجھتا تھا اور پھر خاص طور سے مذہب و اعتقاد کا معاملہ تو بہت نازک ہوا کرتا ہے۔ اکبر اور ان کی شاعری دونوں اس احساس کے حامل ہیں۔ اکبر کے نزدیک انسانی حیات اور اس کے تقاضے مذہب ہی کے محور پر گھومتے ہیں اور اسی کے رہین منت ہیں۔ وہ بغیر مذہب کے کسی ترقی، کسی زندگی کا تصور گناہ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انسان چاہے جتنی ترقی کرے مگر اس میں اگر مذہب کی روشنی موجود نہیں ہے تو کچھ نہیں ہے:
مذہب نے پکارا اے اکبر اللہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
یاروں نے کہا یہ بات غلط تنخواہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
نظر میں میری ہے اللہ ہی اللہ

دلیل ماسوا کیا جانے کیا ہے


قلزم کی تہ ٹٹولو یا ایر شپ میں جھولو

پھر بھی یہی کہوں گا اللہ کو نہ بھولو
وہ خدا سے انکار ہی کے مخالف نہ تھے بلکہ ان کی نظر میں مذہب میں ذرا سی بھی تبدیلی کھٹکتی تھی۔ وہ اسلام کو خاص طور سے بالکل اسی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے جس میں اسے علمائے دین نے ڈھال دیا تھا۔ وہ ان رسمی پابندیوں کو بھی چھوڑنے پر تیار نہ تھے جسے زمانے کی گردش اور ایجاد بندہ نے اکٹھا کر دیا تھااور اسی وجہ سے وہ مغرب سے پریشان رہا کرتے اور ہر اچھی، بری مغربی چیز کی مخالفت کرتے۔ سر سید سے بھی انھیں اسی لیے کد ہو گئی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ نئی تعلیم و نئی روشنی میں نہ روح مذہب رہ جائے گی نہ قلب ِ عارف ہوگا اور نہ شاعرانہ زبان و بیان ہی رہ سکتے ہیں( اس لیے کہ غیر مقفیٰ نظمیں اس وقت شروع ہو گئی تھیں)۔ وہ سائنسی تجربوں کی مخالفت بھی اسی وجہ سے کرتے تھے کہ ان سے بہت سے ایسے انکشافات وجود میں آتے ہیں جن سے وحدانیت اور مذہب کے اس تصور کو دھکا پہنچتا تھا ،جسے ایک کٹر مذہبی طبقے نے اپنے نا قابل عمل ہونے کے باعث اپنا لیا تھا اور جس کے استفسار پر صرف، ہمہ اوست، کہہ کر خاموش ہو جایا کرتا تھا۔ اکبر کا خیال بھی کچھ انھی تصور پرستوں سے میل کھاتا ہے۔ وہ خدا کے معاملے میں چوںو چرا کرنے کی طرح قدرت کے کرشموں کی تلاش اور    چھان بین کو بھی کفر سمجھتے تھے:
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خوردبین و دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے
چھٹے ہم سے بالکل وہ اگلے طریقے

کہاں کھینچ لے جائے گا ہم کو انجن
عوض قرآن کے اب ہے ڈراون کا ذکر یاروں میں
جہاں تھے حضرت آدم وہاں بندر اچھلتے ہیں
اور وہ لوگ جو اس طرح کی تحقیق و تدقیق میں جان لڑاتے تھے، جو انسان کو ارتقائے حیات کا صحیح مفہوم اور خدا کا صحیح مطلب بتانا چاہتے تھے، اکبر ان کو دہریہ، نیچری اور معلوم نہیں کیا کیا کہتے تھے۔ اکبر اضافیت کے قائل نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا کا ہر ذرّہ خدا کے حکم کا منتظر رہتا ہے اور بغیر اس کے حکم کے کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ مادی صلاحیتوں اور تجربوں کو سمجھنا اور ان کے متعلق تحقیق کرنا یا جدلیت پر یقین کرنا، اکبر اور اکبر پسند طبقے کی نظر میں دہریت (جس کا مطلب وہ خدا سے انکار سمجھتے تھے جیسا کہ آج بھی بہت سے لوگ سمجھتے ہیں) نیچریت اور لا مذہبیت تھا۔ چنانچہ جب وہ اس طرح کی باتیں سنتے تو اس کا مذاق اڑاتے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے کان ایسی ہوش اڑانے والی باتیں سننے کے لیے باقی رہیں۔ انھیں اکثر بڑا رنج ہوتا کہ افسوس دنیا لا مذہب ہوتی جاتی ہے :
مانیچری شدیم و نداریم آ گہی

بادیگراں نوشتۂ کلک قضا چہ کرد
اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زجبرئیل

احمد چہ گفت، اوچہ شنید و خدا چہ کرد
خدا کا گھر نہ رکھا دل کو، بنگلوں میں مکیں ہو کر
بھلا یا عرش کو اس قوم نے کرسی نشیں ہو کر
جو ذکر آتا ہے آخرت کا تو آپ ہوتے ہیں صاف منکر
خدا کی نسبت بھی دیکھتا ہوں، یقین رخصت گمان باقی
اکبر کی دوسری مخالفت تعلیم جدید سے تھی اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ ہر قسم کی تقلید کو ہندوستانیوں کے حق میں سم قاتل سمجھتے تھے۔ انھیں قوم کی اس حالتِ زار پر افسوس ہوتا تھا کہ وہ کالج، اسکول اور یونیورسٹیوں کے جال میں پھنس کر اپنا سب کچھ کھو بیٹھی۔ ان کے نزدیک جدید تعلیم اور جدید تہذیب سے کوئی تعمیری کام ممکن ہی نہ تھا۔ وہ ہر نئی تحریک میں تخریب کے انداز پاتے تھے۔ تہذیب قدیم ان کے نزدیک اس تنزل پذیر قوم اور دور کے ہر درد کی دوا ہے۔ اکبر کا خیال تھا کہ اگر کسی طرح وہ راستے ، وہ وضعداری پھر سے حاصل ہو جائے تو سب حالات پھر سے اپنی جگہ پر واپس آجائیں گے اور ملک و قوم کی فلاکت دور ہو جائے گی۔ جب تک لوگ قدیم تہذیب کے پابند رہے خوش حال رہے۔ حالانکہ یہی خیال و احساس اس بات کا ثبوت ہے کہ اب قوم کا تنزل شروع ہو گیا۔ اپنے اس خیال کا اظہار اکبر نے متعدد مقامات پر کیا ہے جس میں اس زوال کا اعتراف بھی پنہاں ہے : 
تہذیب قدیم کے جب ارکان تھے چست

ملکی حالات سب رہے صاف و درست
تعلیم جدید نے کیا فتنہ بپا

اے باد صبا ایں ہمہ آوردۂ تست


اس قوم سے وہ عادتِ دیرینۂ طاعت

بالکل نہیں چھوٹی ہے مگر چھوٹ رہی ہے
اور اسی خیال کے ماتحت انھوں نے جدید تعلیم کی مخالفت کی اور ساتھ ہی ساتھ سر سید پر بھی دندان تیز کیے۔
1857 کے بعد خاص طور سے مسلمانوں کی اقتصادی و معاشی حالت خراب ہونے لگی جس کا راز جدید علوم و فنون سے نا واقفیت میں مضمر تھا ۔مغل اقتدار کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ آخری کوشش کی ناکامیابی نے لوگوں کی رہی سہی ہمتیں بھی توڑ دی تھیں۔ کارواں بے سار باں اور کجا وہ بے محل تھا اور کسی کو نہ معلوم تھا کہ راستہ کدھر ہے۔ اندوختہ کہاں تک کام آتا ۔ چونکہ کمپنی نے غدر کی تحریک کا ذمے دارزیادہ تر مسلمانوں ہی کو ٹھہرایا تھا اس لیے مسلمان ہی زیادہ تر حکومت کے عتاب میں تھے۔ رد عمل کے طور پر یہ بھی حکومت اور اس کی بتائی اور بنائی چیزوں سے منحرف اور منکر ہو گئے۔ اب ان کے لیے صرف ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ نئی تعلیم حاصل کریں اور اس طرح انگریزی حکومت کے نوکر ہو کر اس کا کچھ ازالہ پیش کریں اور اپنے خیالات و ذہنیت کو وسیع کریں۔ مگر مسلمان مجموعی طور سے اس پر تیار نہ تھے۔ اس لیے کہ ان مدرسوں میں اول تو مذہبی تعلیم نہ تھی۔ پھر یہ بھی خیال تھا کہ انگریزی تعلیم سے مسلمان عیسائی ہو جائیں گے۔ بنگال میں سرکاری طور پر کچھ مدرسے کھولے گئے ہیں جن میں کچھ مسلمانوں نے تعلیم بھی حاصل کی ۔ جیسا کہ بھاگلپور وغیرہ میں ہوا۔(4)  سر سید نے اس کمزوری کو محسوس کیا جس میں تباہی کے انداز پائے جاتے تھے اور جس کی طرف مسلمان اپنی غفلت کے باعث روز بروز بڑھ رہے تھے۔ حالانکہ سر سید کی خود کی اپنی تعلیم دیسی پیمانے پر ہوئی تھی مگر انھوں نے آخری عمر میں انگریزی تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ میں ایک اینگلو اورینٹل کالج کھولنے کا مصمم ارادہ کر لیا جس میں مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو بھی لازمی قرار دیا جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کو اب انگریزی تعلیم کے حاصل کرنے میں ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہیے۔ اسی زمانے میں ایک ایجوکیشن کمیشن مقرر ہوا جس نے 1883 میں رپورٹ پیش کرتے وقت تعلیم نسواں کی ضرورت کو بھی پیش کیا اور اس پر خاص توجہ دی۔ مسلمان مردوں ہی کی تعلیم سے برا فروختہ تھے ،عورتوں کی تعلیم کا نام ان کے لیے بارود سے کم نہ تھا۔ بڑی بڑی مخالف پارٹیاں تیار ہو گئیں جو سر سید کی جانی دشمن بن گئیں۔ عورتوں کی تعلیم کی مخالفت میں مسجدوں اور دیگر دینی اداروں میں لیکچر دیے گئے۔ اکبر کی شاعری میں بھی ایک کافی حصہ موجود ہے جو عورتوں کی تعلیم اور انگریزی تعلیم کی زبردست مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس کی تلافی کبھی کبھی اکبر پسند اسکول اکبر کا ایک شعر پیش کر کے کیا کرتا ہے۔ حالانکہ یہ محض پہلو بچانا ہے ۔ صاف تو یہ ہے کہ جو شخص مردوں کی تعلیم کا مخالف ہو وہ عورتوں کی تعلیم کو کیوں کر قبول کرے گا۔ شعر یوں ہے :
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں، وہ سبھاکی پری نہ ہوں
اکبر جدید تعلیم و خیالات کے زبردست مخالف تھے اور چوں کہ اس وقت یہ دونوں چیزیں براہِ راست انگریزی زبان ہی سے حاصل ہو رہی تھیں اس لیے وہ انگریزی کے بھی مخالف ہو گئے۔ اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں میں انگریزیت چلی آ رہی تھی اور جس سے ہندوستان کی آئندہ اقتصادی و معاشی زندگی پر، آرٹ اور کلچر پر خراب اثر پڑنے والا تھا۔ یوں اکبر کی شاعری کی جس طرح چاہے ترجمانی کی جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ اکبر نہ اتنے بڑے مفکر تھے نہ مبصر اور نہ اتنی دور تک دیکھ سکتے تھے وہ محض ان لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کر رہے تھے اور کرتے رہے جن کے نزدیک تجدید ایک تباہی اور بربادی کا راستہ تھی۔ جو سمجھ رہے تھے کہ تعلیم جدید سے قدیم روایات کے پول کھلے جا رہے ہیں (اور ظاہر ہے کہ یہ ایسی جماعت تھی کہ جو زیادہ دور نہیں دیکھ سکتی تھی)۔ اکبر کے ذ ہن میں تعلیم کا مفہوم ہمیشہ مذہبی تعلیم رہا اور ایسی تعلیم جو صرف مکتب ہی میں حاصل کی جائے اور پھر اسی طریقہ پر حاصل کی جائے جس طرح کی علوم ِ مشرقیہ کی تعلیم ان مکتبوں میں اس وقت جاری تھی۔ ان کا خیال تھا کہ کالج میں مذہبی تعلیم ہوئی بھی تو کیا وہ سب فیشن اور دہریت کے سمندر میں دھو جائے گی۔ اکبر انسان کے لیے شمس و قمر و نجوم کو کافی سمجھتے تھے جن سے وہ قدرت ِ خدا کا اندازہ لگا سکتا ہے مگر انھیں یہ پسند نہ تھا کہ لوگ شمس و قمر و انجم کی تحقیق میں سر گرداں پھرتے رہیں :
ہسٹری کی کیا ضرورت دین کی تعلیم کو
انجم و شمس و قمر کافی تھے ابراہیم کو
وہ انگریزی تعلیم کی مخالفت اس وجہ سے نہ کرتے تھے کہ یہ طریقۂ تعلیم غلط ہے۔ حالانکہ اس کے لیے انھوں نے ایک شعر بھی کہہ لیا تھا جس میں اس تعلیم کو بازاری اور عقل کو سرکاری بتایا ہے (اور جسے آج یہ کہہ کر اچھالا بھی جاتا ہے کہ اکبر تعلیم کے نہیں بلکہ طریقۂ تعلیم کے مخالف تھے ) بلکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ اکبر کا خیال تھا کہ مغربی تعلیم کی وجہ سے مسلمانوں نے عربی پڑھنا چھوڑ دیا اور اسی وجہ سے وہ اخلاقیات اور دین و مذہب سے بیگانہ ہوئے جاتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ مخالف ہونے کی یہی تھی۔(5)
شیطاں عربی سے ہند میں ہے بے خوف
لاحول کا ترجمہ کر انگریزی میں
مسلمانوں کا وہ آئین طبع مستقل بدلا
گئی عربی چھٹا قرآں زباں بدلی تو دل بدلا
مگر انھوں نے عربی یا مشرقی علم و ادب کی کمزوری کو نہیں سمجھا۔نہ نماز ہے نہ روزہ نہ زکوٰۃ ہے نہ حج ہے تو خوشی پھر اس کی کیا ہے کوئی جنٹ ہے کہ جج ہے۔ وہ نہیں سمجھتے تھے کہ حیات کے تقاضے اور کشمکش ِ حیات کی روز افزوں ترقی اور ضرورتیں ہمیں نئی چیزوں کی تلاش اور نئی فکروں پر مجبور کر رہی ہیں۔ہم آج سائنس سے مدد لینے پر مجبور ہیں۔ اس لیے کہ انسان کی مادی زندگی کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے اور علوم مشرقیہ میں یہ چیزیں ناپید تھیں۔ عربی اول تو ہندوستان میں معدودے چند لوگ سمجھتے تھے باقی لوگ تو تے کی طرح رٹ لیا کرتے،نہ تو وہ زبان سمجھتے نہ اس کی خوبیاں اور نہ پھر اس زبان و ادب میں نئی کشمکشوں کا کوئی حل موجود تھا۔ ادب کی فنا و بقا کا انحصار زندگی پر ہے۔ اگر ادب زندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا ہے تو وہ بڑھتی اور پھیلتی ہوئی زندگی کا ساتھ کبھی نہیں دے سکتا۔ اس میں عربی، چینی، یونانی، اسپینی یا انگریزی کی قید نہیں ہے۔ اگر تاریخیں رہبر ہو سکتی ہیں تو عرب کلچر چند چیزوں کو چھوڑ کر کبھی بھی مغربی کلچر کے برابر ترقی نہیں کر سکا اور وہ چیزیں جن میں عرب کلچر نے ترقی کی تھی، انسان کی معاشی زندگی کے زیادہ اور بہت دنوں تک کام نہ آ سکتی تھیں۔نتیجہ جو ہوا ظاہر ہے۔ عرب کلچر وقتی طریقے سے ایک دور کا ساتھ دے کر ختم ہو گیا اس لیے کہ اس میں نئی زندگی کے لیے کچھ نہ تھا اور نہ ہی یہ کلچر اور ادب وقت کے ساتھ تبدیل ہو رہا تھا جس زمانے میں عربی تمدن و تہذیب عروج پر تھی تو یورپ، یونان ، مصر سبھوں نے اس سے یہ چیزیں حاصل کرنے کی کوشش کی جو ان کے یہاں موجود نہ تھیں مگراس دور کے لیے جس میں اکبر زندہ تھے عربی کے پاس کچھ نہ تھا۔ تہذیب کا زوال ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ ادب بھی ختم ہو گیا۔ اکبر اس نکتے سے باخبر نہ تھے وہ لوگوں کے عربی نہ پڑھنے کا سبب نئی تہذیب کے اثر میں تلاش کرتے تھے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے :
جب یہ حالت ہے تو ذکر مسجد و مکتب فضول
کہہ دو لڑکے سے خریدے ریڈر اور اسکول جائے
یہ ایک نا قابل فراموش صداقت ہے کہ جب پرانی روایا ت کے علم بلند کیے جانے لگیں، جب پرانی چیزیں بغیر کسی تنوع کے دہرائی جانے لگیں جن میں نئی زندگی کے تقاضوں کا اشارہ بھی موجود نہ ہو، جب طرز کہن کو آیات و حدیث مان کر اسی پر اڑے رہنے کا تقاضا کیا جائے ،جب کسی تہذیب، کسی ادب کے پاس نیا رخ بدلنے کے لیے کچھ نہ رہ گیا ہو یا وہ رخ بدلنے سے جان بوجھ کر انکار کر رہا ہو تو سمجھ لیجیے کہ اس کا زوال شروع ہو گیا۔ چاہے وہ دور جدید کا ہندوستان، پاکستان ہو یا قدیم زمانے کے عرب ، مصر ، یونان، بابل اور نینوا ہوں۔ زندگی کے حرکی اور عملی ہونے سے جس نے انکار کیا وہ تباہ ہوا ہے۔ اکبر تخیلی مسرتوں میں ہی ڈوبے رہنے میں نجات سمجھتے تھے۔ انھیں آئینِ نو سے ڈرنے اور طرز کہن پر اڑے رہنے میں ہی قوم کی فلاح و بہبود نظر آتی تھی۔ وہ پوری اور چپاتی دونوں کو بسکٹ سے ملائم بتاتے تھے، اس لیے نہیں کہ وہ ویسی چیزیں تھیں بلکہ اس لیے کہ وہ قدیم تھیں اور اس لیے کہ ان کا ماحول ان باتوں میں مزہ لیتا تھا۔ کالج اور سر سید سے انھیں ذاتی مخاصمت نہ تھی مگر اکبر ی طبقے کے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کا وجود خطر ناک ہو رہا ہے اس لیے اکبر بھی ان کی مخالفت پر تل گئے۔ سر سید دین کی اصلاح چاہتے تھے اور اکبر اور ان کے طبقے کے نزدیک یہ نا ممکن تھا۔ ایسی کوشش لا مذہبیت سے تعبیر کی جاتی :
طفلِ دل محوِ طلسم  رنگ کالج ہو گیا

ذہن کو تپ آ گئی مذہب کو فالج ہو گیا


بنایا تم نے چندوں کی فراوانی سے کالج کو

نئی تعلیم نے کھویا بزرگانہ مدارج کو


مسجدیں سنسان ہیں اور کالجوں کی دھوم ہے

مسئلہ قومی ترقی کا مجھے معلوم ہے


نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا


نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے

مگر یوں ہی کہ گویا آب زمزم مے میں داخل ہے


ہم تو کالج کی طرف جاتے ہیں اے مولویو

کس کو سونپیں تمھیں، اللہ نگہبان رہے


کتا جیسے بہ فکر جیفہ دوڑے

یوں دہر میں نیچری خلیفہ دوڑے
جب مر کے چلے ہیں سوئے جنت سید

لٹھ لے کے امام ابو حنیفہ دوڑے


کالج میں بگڑ جاؤگے وسواس یہی ہے

تم پاس رہو میرے ، بڑا پاس یہی ہے
اسی طرح کے اور بہت سے اشعارپیش کیے جا سکتے ہیں۔
تعلیم نسواں کے خلاف جب آواز بلند ہوئی تو اکبر اس مخالف طبقے کے ساتھ تھے۔ عورتوں کی طرف سے اکبر کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ اسکولی تعلیم حاصل کر کے پھر اس قابل نہ رہ جائیں گی کہ گھر کے کام کاج اور شوہر کی خدمت گزاری کر سکیں اور سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ عورتیں آوارہ ہو جائیں گی۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ آوارگی کے وجہ سے تعلیم نہیں ہے بلکہ کچھ جنسی تقاضے کچھ معاشی الجھنیںاور کچھ ماحول کا غلط اثر، پر داخت کی خرابی ہوا کرتی ہے۔ اس میں تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی پابندی نہیں۔ ہمارے اور آپ کے سامنے آج بھی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں مگر اکبر اسے نئی تعلیم کا اثر سمجھتے ہیں:
اپنی اسکولی بہو پر ناز ہے ان کو بہت

ہال میں ناچے کسی دن ان کی پوتی تو سہی
گھر سے جب پڑھ لکھ کے نکلیں گی کنواری لڑکیاں

باہنر، باعلم، خوش رو، ساختہ پرداختہ
مغربی تہذیب آگے بڑھ کے جو حالت دکھائے

نوجواں دکھلائی دیں گے ہر طرف دل باختہ
اگرچہ جب عورتوں کو محلوں کی چہار دیواری میں رکھا جاتا تھا جب بھی جوان بڈھے سب دل باختہ رہتے تھے۔
یہ بات آئینے کے طرح صاف ہے کہ اکبر تہذیب قدیم کے نام لیوا اور پانی دیوا تھے۔ اس میں برا ماننے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اکبر بھی اقبال کی طرح مسلمانوں کی کامیابی کا راز ماضی کی تابناکیوں میں دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر لوگوں کو طرز قدیم کا عامل بنا دیا جائے تو ان کا مستقبل یقینا درخشاں ہو جائے گا۔ وہ اس نکتے سے بے خبر تھے کہ متحرک زندگی واپس ہو کر پھر اسی نقطے پر کبھی نہیں پہنچ سکتی یا تو آگے بڑھے گی یا کشاکش میں اور پیچھے جا گرے گی۔ وہ ’’علم پدر آموز‘‘ کی آواز لگا رہے تھے حالانکہ علم پدر زمانہ کی رفتار کا ساتھ دینے سے قاصر تھا اور وارثوں کے تقاضے میراث پدر سے بھی آگے کچھ تھے۔ اکبر نے اپنے اس درس اور انداز ِ نظر کو بڑے شد و مد کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا جو ان کے خیال میں گرتی ہوئی دیوار کو روک سکتا تھا یا روکے ہوئے ہے۔ اگرچہ رجعت پسند طبقے کا خیال ہے کہ ادب کو مقصد بریت و تبلیغ سے کوئی علاقہ نہیں ہے مگر اکبر نے اپنے طبقے و ماحول کے مقصد کی تبلیغ ادب کے ذریعے کی اور اس کو سب مانتے ہیں۔ اکبر نے بجلی، پائپ، کیمپ، پمپ، ٹائپ، ہوائی جہاز، ریل گاڑی، انجن، توپ، بندوق، پاٹ، بنگلہ، صابون، اسپیچ، سرکاری نوکری، کانفرنس، پارلیمنٹ، وہسکی، لیمنڈ، سوڈا، اخبار، ڈبل روٹی، بسکٹ، اسپتال، ڈاکٹر، کالج، نئی تعلیم سب کی جی کھول کر مخالفت کی حالانکہ ان سب چیزوں میں تعمیری عنصر زیادہ تھا اور تخریبی برائے نام مگر چونکہ لوگ اسے پسند نہ کرتے تھے اس لیے کہ ان سے قدیم تہذیب اور وضعداری کو دھکا پہنچ رہا تھا اس لیے اکبر کو بھی بجلی کی روشنی میں اندھیرا نظر آتا تھا اور ان چیزوں کو محض فیشن کہہ کر ان پر استہزا کرتے تھے، ان کا مذاق اڑاتے تھے اور اس کام میں مدد دینے کے لیے’’ اودھ پنج ‘‘اور اس کا ماحول ان کے ساتھ تھا۔ کہنہ روایات کو اپنانا ایک عام رسم ہے جسے وضعداری کہا جاتا ہے۔ اکبر نے اس وضعداری کو خوب نبھایا اور اس میں اکبر کے عصری لوگ ان کے ساتھ تھے اگر شاعر اپنے وقت اور ماحول کا ترجمان ہے تو اکبر نے اپنے ماحول و وقت کی جانبدارانہ ترجمانی ضرور کی۔ وہ مفکر اور دور بیں نہ تھے کہ ہندوستان کی آئندہ زندگی پرنظر ڈال کر ان جدید انکشافات کے افادی پہلوؤں کو پیش کرتے۔ چند نقّال اور سطحی باتیں جاننے والے ، جیسا کہ ہر زمانے میں ہوا کرتے ہیں اس زمانے میں بھی تھے، اکبر نے انھی کو معیار بنا کر ہر نئی چیز کی مخالفت شروع کر دی۔ مادی ترقیاں اکبر کو نہ بھاتی تھیں۔وہ لوگوں کو ماضی کی طرف پلٹا لے جانا چاہتے تھے حالانکہ انھیں خود اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ اس قدیم خیمے کی طنابیں کٹ چکی ہیں اور انتہائی کوشش کے باوجود یہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا : 
وعظ کالج میں جودے آتے ہیں اکبر جا کر

کیا یہ گرتی ہوئی دیوار کو تھام آتے ہیں؟


شعر اکبر کو سمجھ لو یادگارِ انقلاب

یہ اسے معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی
اور اس کا ثبوت خود انھوں نے سرکاری نوکری کر کے اور اپنے بیٹے عشرت کو لندن بھیج کر دیا۔ اکبر کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ جس مشن کو وہ لے کر آگے بڑھے تھے وہ انھی کی زندگی میں ناکامیاب ہوتا ہوا انھیں خود نظر آیا۔ باوجود ان کی اس بے پایاں کوشش کے لوگ نئی روشنی کی طرف بڑھتے ہی رہے اور جنھوں نے آگے بڑھنے میں ردو کدکی وہ پامال ہو گئے ۔اکبر کا سارا زور مذہبی پابندیوں پر تھا مگر انھیں مذہبی رسم و رواج میں بھی تبدیلیاں دیکھنا پڑیں جنھیں روکنا ان کے بس کا کام نہ تھا۔بے بسی کے عالم میں ان کے طنز میں تلخی روز بروز ابھرتی آئی اور وہ فرار میں اپنا مفر سمجھنے لگے:
بچنا اگر ہے تجھ کو اس دور میں تو سورہ
بے رونقی پہ کر صبر اللہ ہی کا ہورہ
اور اسی طرح کے متعدد اشعار ہیں جنھیں ہم طوالت کے لحاظ سے نہیں پیش کر رہے ہیں جن میں ان کی حسرت و یاس کا عالم پوری طرح جھلکتا ہے۔ وہ خود اپنے ہم خیالوں کو مژدہ سناتے ہیں کہ ہمیں تمھیں ان تبدیلیوں کا غم نہ ہونا چاہیے اس لیے کہ وہ دن دور نہیں جب نہ ہم ہوں گے نہ تم ہوگے اور اس طرح ان کو اپنے مشن میں ناکامیابی کا اعتراف بھی کرنا پڑا :
غریب اکبر نے بحث پر دے کی کی بہت کچھ مگر ہوا کیا
نقاب الٹ ہی دی اس نے کہہ کر کہ کر ہی لے گا موا مرا کیا
نہ اکبر کی ظرافت سے رکے یاران خود آرا

نہ حالی کی مناجاتوں کی پروا کی زمانے نے
ان کی غزل ’’یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہوں گے‘‘ کا ایک ایک شعر ان کی شکست کا اعتراف ہے۔
آخر آخر میں تو اکبر کا یہ اعتراف پوری طرح ظاہر ہو گیا تھا۔ ایک تھکے ہوئے پیراک کی طرح ہاتھ پیر ڈال کر انھوں نے اپنے کو موجوں کے حوالے کر دیا تھا اور خود بھی انھی لہروں پر بہنے لگے جس کا ثبوت ان کے ان اشعار میں ملتا ہے : 
وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو، تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے، اطراف دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر و بر سیکھو
خدا کے واسطے اے نوجوانو ہوش میں آؤ
دلوں میں اپنے غیرت کو جگہ دو جوش میں آؤ
حواشی:
          تاریخ بغاوت ہند، مصنفہ میلیسن
           ٹیگور کی خود نوشت سوانح عمری
          انگریزی عہد میں ہندوستانی تمدن کی تاریخ، عبد اللہ یوسف علی، ص260-267
           ڈبلو آدم کی رپورٹ، کلکتہ۔ 1868 ، بحوالہ عبد اللہ یوسف علی
          شعر:
نہ نماز ہے نہ روزہ نہ زکوٰۃ ہے نہ حج ہے
تو خوشی پھر اس کی کیا ہے کوئی جنٹ ہے کہ ، حج ہے

پتہ:
سید محمد عقیل
Mahmood Manzil
Daryabad
Allahabad, U.P.

سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2009

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں