12/6/20

سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ کا غزل نمبر مضمون نگار: یوسف رامپوری





سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ کا غزل نمبر
یوسف رامپوری
عالمی سطح پر اپنی شناخت رکھنے والی زبانوںمیں اردو بھی شامل ہے۔ اس کے سمجھنے ،بولنے، پڑھنے اور لکھنے والوں کی خاصی بڑی تعداد ہے۔یہ زبان کسی ایک خطے ، ملک یاسرحدتک محدود نہیں ہے،بلکہ دنیا کے مختلف براعظموں میں اس زبان کے سمجھنے اور بولنے والے موجود ہیں۔ اسی لیے اس کی شاعری کی خوشبوسے دنیا کے مختلف خطوںکی فضائیں معطر ہورہی ہیں۔ میر، غالب، اقبال اور انیس کو پڑھنے اور چاہنے والے ہندوپاک کی سرحدسے دوریورپ، افریقہ اور امریکہ کے مختلف علاقوںمیں بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ شاعری کے علاوہ اردو کے نثری ادب نے بھی اپنی معنویت ومقبولیت کا بلاتفریق مذہب وملک مختلف اقوام وملل کو قائل کیا ہے۔اسی لیے اردو کی افسانوی اورغیر افسانوی اصناف پر مضامین وکتب کی خوب اشاعت ہورہی ہے اور ادبی وتحقیقی رسائل بھی معتد بہ تعداد میں نکل رہے ہیں۔ ہندوبیرونِ ہندسے شائع ہونے والے اردو کے تحقیقی وادبی مجلات میں سہ ماہی ’فکروتحقیق‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
سہ ماہی’ فکروتحقیق‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سے گزشتہ 23برسوں سے پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ہر تین ماہ میں نکلنے والا یہ رسالہ ’فکروتحقیق ‘اردو ادب کی مختلف اصناف پرمتعدد نمبرات بھی شائع کرتارہا ہے،مثلاًنئی غزل نمبر،نیا افسانہ نمبر، نظم نمبر،ناول نمبر، خاکہ نمبروغیرہ۔ ’فکروتحقیق‘ کے تمام نمبرات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں موضوع کے تمام اہم گوشوںکو سمیٹنے کی بھرپورکوشش کی جاتی ہے اور اس بات کا لحاظ کیاجاتاہے کہ مضامین معیاری ہوں۔یہی وجہ ہے کہ فکروتحقیق کے نمبرات کو ہاتھوں ہاتھ لیاجاتاہے اور علمی و ادبی حلقوںمیں پسند کیاجاتاہے۔متعلقہ موضوعات پرگراں قدر اور مستند مواد پیش کرنے کی وجہ سے یہ نمبرات دستاویزی حیثیت بھی رکھتے ہیں، اس لیے اردو ادب کے طالب علموں اور اسکالروں کے لیے ان کی افادیت سے انکارممکن نہیں۔متعلقہ موضوعات کے مختلف پہلوئوں پرلکھے گئے مضامین اور ان کے اندرون میں موجود مواد تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے ’فکروتحقیق‘ کے نمبرات کی وضاحتی اشاریہ سازی  ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی ضرورت کے پیش نظر فکروتحقیق کی خصوصی اشاعت’ نئی غزل نمبر‘کا توضیحی اشاریہ پیش کیاجارہا ہے۔
فکروتحقیق‘کا شمارہ جنوری، فروری، مارچ2013’نئی غزل نمبر‘ 349صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ شمارہ بحیثیت ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین کی ادارت میں شائع ہوا اور اس شمارے کی ترتیب میں اہم کردار نائب مدیر ڈاکٹر عبدالحی کا رہا۔اس شمارے کے مشمولات پرایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی پتہ چلتاہے کہ نئی غزل کے کتنے پہلوئوں کا اس میں احاطہ کیا گیا ہے اور کتنے اہم قلمکاروںکے مضامین اس میں شامل کیے گئے ہیں۔ مضامین کو دو حصوںمیں منقسم کیا گیاہے۔ (1) زبان واسلوب (2) فکروفن۔ پہلے حصے میں زبان واسلوب کے حوالے سے7 مضامین شامل اشاعت ہیں۔دوسرے حصہ میں فکروفن کے تعلق سے17مضامین ہیں۔’حرف اول‘ میںادارے کی طرف سے نئی غزل پرتمہیدی بات کرتے ہوئے خصوصی اشاعت کی ضرورت پرگفتگو کی گئی ہے۔
نئی غزل نمبر میں پہلا مضمون صدیق الرحمن قدوائی کا ہے۔انھوں نے اپنے مضمون ’ غزل اور نئے تقاضے‘ میں غزل کی اہمیت، مقبولیت،ہیئت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی خصوصیات کو بیان کیا ہے،پھر نئی غزل کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے اس کے تقاضوں پر بھی بات کی ہے۔اعجاز علی ارشد کا مضمون ’ نئی غزل کی علامتیں‘ایک اہم مضمون ہے۔ اس میںادب میں علامتوں کوتفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد غزل میں مستعمل علامتوں کا پہلوبہ پہلو جائزہ لیا گیا ہے۔بالخصوص نئے غزل گوشعرا نے کس طرح اپنی غزلوں میں علامتوں کااستعمال کیا ہے، اس پر روشنی ڈالی ہے۔’نئی غزل میں تلمیحات کی معنوی وسعت‘ منظراعجاز کاتحقیقی مضمون ہے ۔تلمیحات کو شاعری میں بہت اہمیت دی گئی ہے لیکن جدید غزل میں تلمیحات کی معنویت کیا ہے، اس سے فاضل مضمون نگار نے بحث کی ہے۔ انھوں نے مضمون کے شروع میں ہی یہ سوال قائم کیا ہے کہ نئی غزل سے کیا مراد ہے؟ اور پھر اس کے جواب کی جستجو کی ہے۔تلمیح کے حوالے سے انھوںنے لکھا ہے کہ مختلف شاعروںنے تلمیح کو مختلف معنوی تناظر میں استعمال کیا ہے۔اور پھر دلیل وثبوت میںبہت سی مثالیں پیش کی ہیں۔ شہپر رسول کا مضمون ’اردوغزل میں پیکر تراشی ‘ ہے ۔ اس مضمون میں کلاسیکی شعرا، نوکلاسیکی شعرااورترقی پسند شعراکے یہاں پیکر تراشی کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے اور جدید شاعری میں پیکر تراشی کی صورت حال سے بحث کی گئی ہے۔احمد محفوظ کا مضمون ’ نئی غزل کی لفظیات‘ وقیع مضمون ہے ۔اس میں انھوں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ نئی غزل کی لفظیات کاد ائرہ کس قدر وسیع ہے۔آخر میں نئی غزل کی لفظیات کا ماحصل بھی انھوں نے پیش کیاہے۔پریمی رومانی کا مضمون ’ریاست جموں وکشمیر میں نئی اردو غزل کا منظر نامہ ‘ ہے۔انھوں نے جموں وکشمیر میں ہونے والی اردو کی غزلیہ شاعری پر ساری توجہ صرف کی ہے۔اس کے تحت جموں وکشمیر کے تقریباً جدید غزل گوشعرا کا انھوںنے تذکرہ کیا ہے۔ کہیں کہیں مضمون میں دوسری ریاستوں کی غزلیہ شاعری کو سامنے رکھتے ہوئے تقابلی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔’پیرویِ میر اور نئی غزل‘ ظفراللہ انصاری کا مضمون ہے۔مـضمون نگار نے سارا زور اس بات پر دیاہے کہ نئی غزل کے شعرا میر کی پیروی کس حد تک کررہے ہیں اور کتنے کامیاب ہیں۔
نمبر کے دوسرے حصے ’فکروفن‘ کے تحت جن مضامین کو شامل کیا گیا ہے ، ان میں پہلا مضمون’نئی غزل نئے دورمیں : ایک ارتقائی مطالعہ ‘ہے جسے سید اختیار جعفری نے تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون 28صفحات پر مشتمل ہے۔ نئی غزل کے آغاز وارتقا پر مضمون نگار نے تحقیقی اور تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ مضمون کو چھ ادوار میں منقسم کیا گیا ہے۔ اول دور وہ ہے جو اردوکا تشکیلی دور ہے۔چھٹے دور سے نئی غزل کا آغاز ہوتاہے جس پر تحقیقی بحث کی گئی ہے۔ آخر میں ’نئی غزل ، آج‘ کے عنوان کے تحت انھوںنے فی زمانہ کہی جانے والی غزل کا جائزہ لیاہے۔اس کے بعد ساحر ستار کا مضمون ’ دکن میں اردو غزل۔ 1960‘  کے بعد شاملِ اشاعت ہے۔اس مضمون میں اول تو غزل کی محبوبیت اور ہر دلعزیزی پر بات چیت ہے، اس کے بعد دکن کے حوالے سے 1960کے بعد کی غزلیہ شاعری کا مختصر تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ عبدالاحد سازکا مضمون ’ ممبئی میںاردوغزل۔1980 کے بعد‘ ہے ۔اس مضمون میں 1960 اور 70 کی دہائی میں شاعری اور غزل گوئی پر بھی اجمالی نظر ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعد ممبئی کے حوالے سے 1980کے بعد کی غزلیہ شاعری کو زیر بحث لایاگیا ہے اور اس دور کے شعرا کی غزلیہ شاعری کے نمونے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ممبئی کی جدید شاعری کو سمجھنے کے لیے یہ مضمون اہمیت کا حامل ہے۔
غزلیہ شاعری جس طرح ہندوستان میں ہورہی ہے ، اسی طرح پاکستان میں بھی ہورہی ہے۔اس لیے پاکستان کی غزلیہ شاعری پر مضمون کی شمولیت کے بغیر نئی غزل کا منظرنامہ مکمل ہوتانظرنہیں آتا۔ چنانچہ اس حوالے سے خالد علوی کا مضمون’ پاکستان میںنئی اردوغزل‘ شامل اشاعت کیا گیا ہے۔اس مضمون کو پڑھ کر جہاںبہت سے پاکستان کے غزل گوشعرا کا پتہ چلتاہے ، وہیں اس بات کا بھی علم ہوتاہے کہ پاکستان میں غزل کس قدر مقبول ہے۔ عبدالحق کمال کا مضمون ’ نئی غزل کے بنیادی مباحث‘ ہے۔ اس مضمون میں عبدالحق کمال نے جدید شاعری اور جدید غزل کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے مشاہیر ناقدین کی آرا کو پیش کیا ہے۔نئی غزل کی خصوصیات، علائم،زبان اورصنعتی نظام کے تعلق سے بھی بات کی ہے۔’جدید غزل کا فکری وعقلی پس منظر‘ مشکورمعینی کا مضمون ہے جوایک منفرد پہلو کا احاطہ کرتاہے اور بتاتاہے کہ غزل معشوق یا گل وبلبل تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کادائرہ عقل وفکرتک پھیلاہواہے۔انسانی زندگی کا ایک اورپہلو سیاسیات اور سماجیات سے متعلق ہے ۔نئی غزل اس پہلو کابھی احاطہ کرتی ہے ۔اس حوالے سے نوشاد عالم کا مضمون ’نئی اردوغزل کا سیاسی وسماجی مطالعہ‘ نئی غزل نمبر میںشامل ہے۔یہ مضمون مختلف سیاسی وسماجی گوشوںپر روشنی ڈالتاہے۔عبدالسمیع صاحب نے ’مضمون  جدید تر غزل نئی غزل کی تنقید کا نقش اول‘ لکھاہے۔اس مضمون میں خلیل الرحمن اعظمی کے مضمون’ جدید تر غزل‘ کے حوالے سے بحث کی گئی ہے اور اسے مدلل ومحقق انداز میںنئی غزل کی تنقید کا ’نقش اول‘ ثابت کیا گیا ہے۔
ترقی پسندی ‘نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ نثری اصناف کے ساتھ اردو کی شعری اصناف پر بھی ترقی پسندتحریک کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے عمر رضاکا مضمون ’جدید اردو غزل اور ترقی پسندی ‘ قابل توجہ ہے۔نئی اردو غزل کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نئی غزل میں کچھ نئے تجربے بھی کیے گئے ۔ یہ تجربے کیا ہیں،کس نوعیت کے ہیں، کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں ،اس تعلق سے ظفرعدیم کا مضمون’نئی غزل کے تجربے‘ قابل توجہ ہے ۔غز ل کا یہ گوشہ بھی قابل توجہ ہے کہ بہت سی غزلوں میں اسلامی افکار واقدار کی ترجمانی کی گئی ہے۔بلکہ شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو جس نے اسلامی تہذیب ومعاشرت، قدروفکر کو شعری قالب میں نہ ڈھالاہو۔نئی غزل کے شعرا بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، اس تناظر میں کوثر مظہری نے ایک عمدہ اور بھرپور مضمون بعنوان’ معاصر غزل میں اسلامی افکار واقدار‘ لکھاہے۔اس حوالے سے انھوں نے ظفرعدیم، طارق متین، طاہر فراز، نوشادکریمی، شجاع خاور، شہپررسول،فرحت احساس جیسے بہت سے شعرا کے اشعار بھی پیش کیے ہیں۔فکروتحقیق کے ’نئی غزل نمبر‘ میںاس موضوع کے بالکل برعکس حقانی القاسمی کا مضمون ’ غزل میں کفرو الحادکاتصور‘ ہے۔ اس مضمون میں حقانی القاسمی نے اس نقطہ پر بحث کی ہے کہ جن اشعار سے کفروالحاد کی بو آتی ہے، ضروری نہیں کہ ان کے شعرا کوکفرکے زمرے میں رکھا جائے۔ کفروالحاد سے متعلق علامتوں اور استعاروں سے گہری واقفیت ناگزیر ہے۔ انھوںنے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ شاعری کے اعلیٰ اور ادنیٰ ہونے کا پیمانہ محض اخلاقیات نہیں۔ ’ مغربی بنگال میں نئی اردو غزل‘  نصرت جہا ں کا مضمون ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے پہلے اس بات سے بحث کی ہے نئی غزل سے کیا مراد ہے، اس کے بعد غزل کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے، اور پھر مغربی بنگال میں نئی اردو غزل کا نقشہ کھینچاہے۔’معاصراردو غزل میں عشق کا تصور‘ راشد انور راشد کا مضمون ہے۔معاصر اردو غزل سے مراد انھوںنے 1980کے بعد کی غزل لی ہے۔اس مضمون میں انھوں نے معاصر غزل کے مختلف رنگ پیش کیے ہیں۔
غزل میں تانیثیت ہر عہد میں موجود رہی ہے۔ چنانچہ نئی غزل بھی تانیثی حسیت سے خالی نہیں ہے۔ اس حوالے سے شاذیہ عمیر کا مضمون ’ نئی غزل اور تانیثی حسیت‘ شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ان کے نزدیک نئی غزل بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد کی غزل ہے۔اس مضمون میں بعض شاعرات کی شاعری کے حوالے بھی موجود ہیں ۔راحت بدر کا مضمون حالیہ غزل گوئی پر ہے ۔ان کے مضمون کا عنوان ’ 2000کے بعد کی اردو غزل کا تنقیدی جائزہ‘ہے۔اس مضمون میں ہند وبیرون ہند کے شعرا کی کی غزلیہ شاعری سے اجمالی بحث کی گئی ہے۔مجموعی طورپر سہ ماہی فکروتحقیق‘ کا ’نئی غزل نمبر ‘اپنے موضوع کے تمام اہم گوشوں کا احاطہ کرتا ہے اور نئی غزل کے حوالے سے بھرپور مواد پیش کرتاہے ۔جو یقینا نئی غزل پر تحقیقی وتنقیدی کام کرنے والوں کے لیے ایک اہم مصدر کی حیثیت رکھتاہے۔
Dr. Yusuf Rampur
Tanda
Distt: Rampur - 244925
Mob.: 9310068594


سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں