15/6/20

اردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر اکبر الہٰ آبادی کے اثرات مضمون نگار: مظہر احمد






اردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر اکبر الہٰ آبادی کے اثرات
مظہر احمد
لسان العصر اکبر الہٰ آبادی کی طنز و مزاحیہ شاعری کا آغاز’’ اودھ پنچ ‘‘کے رسم اجرا یعنی 1877 کے ساتھ ہوا۔ اکبر سے پہلے جعفر زٹلی اور مرزا محمد رفیع سودا کے یہاں اس نوع کی شاعری کے ابتدائی نمونے نظر آتے ہیں جن میں سیاسی و سماجی بصیرت کے احساس کے ساتھ ساتھ معاشرے اور افراد کی کج رویوں اور خامیوں پر طنز و مزاح کے وار کسی حد تک واضح ہیں۔ جعفر زٹلی کا سیاسی شعور انھیں اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے۔ حالانکہ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ ’’ فحشیات‘‘ کے ذیل میں آتا ہے۔ سودا نے اپنے ’’شہر آشوب ‘‘اور قصیدہ ’’تضحیک روزگار ‘‘میں طنز کاوہ مرتبہ حاصل کر لیا ہے جسے اہل نظر سماجی طنز سے تعبیر کرتے ہیں۔ مذکورہ دونوںشعرا کے یہاں طنز و مزاح ایک منفرد اسلوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ان کا شمار باقاعدہ شعرائے طنز و مزاح میں نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ اکبر الہٰ آبادی کا شمار باقاعدہ ظریف شاعر کی حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ ان کے ضخیم کلیات کا ایک بڑا حصہ طنز و مزاح پر مشتمل ہے۔
اودھ پنچ میں لکھنے والوں کی تعداد یوں تو خاصی تھی مگر نثر میں محمد حسین آزاد اور شاعری میں     اکبر الہٰ آبادی کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ ظرافت کے اعلیٰ، منفرد اور نا قابلِ فراموش نقوش ہمیں    اکبر الہٰ آبادی کے یہاں نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اکبر نے طنز و مزاح کا جو معیار قائم کیا وہ آج بھی نہ صرف یہ کہ قابلِ تقلید ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے۔ اکبر نے اپنے فن کو ایک خاص اسلوب ، آہنگ اور انداز بخشا اور ایک نہایت نازک مگر اہم موضوع کے تحت اسے پیش کر کے فن کے تقاضوں اور ادب کے مقاصد کو پورا کیا۔ اکبر کا زمانہ قدیم تہذیب کے زوال اور تہذیبِ نو کے استقبال کی کشمکش کا زمانہ تھا۔ مغرب پرستی، مغربی افکار و خیالات کی تبلیغ، یہاں تک کہ رہن سہن، تعلیم و تہذیب اور زبان و بیان پر مغرب کا اثر گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی ۔ اکبر اس بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو طنز و مزاح کی ڈھال سے روکنا چاہتے تھے۔ وہ مشرق کے دلدادہ تھے۔ انھیں مشرقی تہذیب و تمدن کی اہمیت و افادیت کا احساس تھا اور وہ اس کے خاتمے کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے مغرب پرستی کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور اپنے کلام کے ذریعے مشرقی تہذیب کی خوبیوں کو ابھار کر مغربی تہذیب کی برائیوں پر طنزیہ وار کیے۔
اکبر نے اپنے نصب العین کو پیش نظر رکھ کر نہایت درد مندانہ انداز میں اپنے فن کی آبیاری کی۔ طنز و مزاح کی شاعری کے لیے موضوع اور صورتِ حال کے تئیں ادیب کا درد مند ہونا ضروری ہے کہ اس درد مندی سے شاعر کی سنجیدگی ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کے کرب اور اضطرابی کیفیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جس سے مجبور ہو کر شاعر فرد و سماج، سیاست و معاشرے پر وار کرتا ہے۔
اکبر کے کلام کا سرسری مطالعہ ہمیں ایک حیرت انگیز مسرت سے دو چار کرتا ہے۔ زمانی اعتبار سے ان کی شاعری انیسویں صدی کے ربع آخر اور بیسویں صدی کے ربع اول پر محیط ہے۔ یہ زمانہ اردو میں نئے ادب و نظریات کی ترویج و اشاعت کا زمانہ تھا ۔ قومی سطح پر اپنے وجود کے احساس اور غلامی کے خلاف صف آرا ہونے کی کوشش نے ہمارے ادب کو نت نئے اسالیب و موضوعات بہم پہنچائے۔ مقصدی ادب کے ابتدائی نمونے بھی اسی دور کی یادگار ہیں جس میں اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو بھی رکھا جا سکتا ہے۔
ادبی اور فنی اعتبار سے اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری خاص اہمیت کی حامل ہے اور اس شاعری کے دور رس اثرات اس قدر نمایاں ہیں کہ آج بھی اس نوع کی شاعری کرنے والے اکثر انھی کے چراغ سے اپنے چراغ روشن کرتے ہیں۔
تہذیبوں کے باہم ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی مضحک صورت ِ حال اکبر کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی زوال، رہنمایانِ قوم کے قول و عمل میں تضاد، ملا و محتسب اور شیخ و برہمن کی کجیوں، سیاست کی ریشہ دوانیوں، سماج کی بے راہ روی، ریاکاری و مکاری، لسانی تعصبات اور ایسے ہی دیگر موضوعات سے اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا تانا بانا تیار ہوا ہے۔
فنی اعتبار سے اکبر کی شاعری کو اکثر ناقدین نے بذلہ سنجی یعنی WIT کی شاعری کہا ہے۔ چنانچہ وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’اکبر کی شاعری کو عام طور پر بذلہ سنجی یا وٹ کی شاعری کہا گیا ہے اور وہ اس لیے کہ بیشتر موقعوں پر انھوں نے تمثیل اور معنی آفرینی کے بجائے صرف لفظی شعبدہ بازی سے مزاح پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ ‘‘
[اردو ادب میں طنز و مزاح — وزیر آغا،ص۔120]
تخیل اور معنی آفرینی کے فقدان کے تعلق سے ہماری رائے وزیر آغا سے مختلف ہے کہ کلیات اکبر میں تخیل کی فراوانی اور معنی آفرینی کے نمونے بھی بکثرت مل جاتے ہیں۔ مگر بذلہ سنجی یا لفظی شعبدہ بازی سے مزاح پیدا کرنے کی صلاحیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ WIT کے سلسلے میں وزیر آغا مزید   و ضاحت کرتے ہیں کہ :
’’لفظی بازی گری سے پیدا ہونے والے مزاح کے سلسلے میں اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس میں بالعموم الفاظ کے بگاڑ ، رعایتِ لفظی، تضمین، تصرف، محاورہ اور دوسری لفظی شعبدہ بازیوں سے کام لے کر مزاحیہ نکتے پیش کیے جاتے ہیں اور یہ طریقِ کار بحیثیت ِ مجموعی بذلہ سنجی (WIT) کہلاتا ہے۔‘‘
[اردو ادب میں طنز و مزاح— وزیر آغا،ص۔119]
اکبر کی طنز یہ و مزاحیہ شاعری کا خمیر وزیر آغا کی بیان کردہ خصوصیات سے ہی اٹھا ہے۔ لہٰذا ان کے طنز و مزاحیہ اسلوب کو ہم مختصراً، تعریف، تضمین، لطیفہ گوئی، لفطی بازی گری، الفاظ کے ہشت پہلو استعمال، علامت و استعارہ، تقابل و تشابہ ،صنائع لفطی و معنوی وغیرہ عنوانات میں بانٹ سکتے ہیںاور یہ وہ خصوصیات ہیں کہ جو عہدِ اکبر سے لے کر تادمِ تحریر اردو طنز و مزاح کا اوڑھنا بچھونا رہی ہیں۔ آئندہ صفحات میں ہم اردو کی طنز یہ و مزاحیہ شاعری پر کلام اکبر کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
علامہ اقبال نے اکبر کے تتبع میں اپنی شاعری کے دورِ اول میں ظریفانہ شاعری کی طرف رجوع کیا۔ ’’ظریفانہ ‘‘ کے عنوان سے’’ بانگ ِ درا ‘‘میں شامل طنز یہ و مزاحیہ قطعات کی زبان و بیان ، لب و لہجہ اور موضوعات کے مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ اقبال اکبر سے کس حد تک متاثر تھے۔ اکثر قطعات اپنے اسلوب و آہنگ کے اعتبار سے اکبر کے کلام میں بہ آسانی ضم کیے جا سکتے ہیں۔ در اصل اکبر اور اقبال دونوں مبسوط فلسفیانہ فکر کے پروردہ تھے۔ مشرقی تہذیب کے یہ دلدادہ ، ذہنی اور فکری سطح پر ایک دوسرے کے مماثل نظر آتے ہیں۔ اقبال اکبر کے تصورات سے ایک ذہنی ہم آہنگی رکھتے تھے اور دور اول میں کہ جس میں وہ اپنے طرز نگارش کی تلاش میں تھے کوچۂ اکبر کی زیارت پر بھی گئے مگر اس رنگِ خاص میں کوئی خاص انفرادیت قائم نہ کر سکے اور محض اکبر کے نقال بن کر رہ گئے۔ اکبر کے مشہور قطعے جس میں انھوں نے عورتوں کی بے پردگی پر طنز کیا ہے یعنی :
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
سے متاثر ہو کر اقبال نے لڑکیوں کی انگریزی زبان سے دلچسپی پر طنزیہ واریوں کیا ہے :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

ڈھونڈھ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مد نظر

وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
مذکورہ قطعہ اپنے تیکھے تیور کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اکبر کے اسلوب نگارش سے متاثر نظر آتا ہے۔ روشِ مغربی، وضع مشرق، جیسی تراکیب اور ’ڈرامے ‘ کی اصطلاحات کے برجستہ استعمال نے اسے رنگِ اکبر سے قریب تر کر دیا ہے۔ اس قطعے کے علاوہ مندرجۂ ذیل قطعات میں بھی فیضانِ اکبر نظر آتا ہے :
یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوش مند

غیرت نہ تجھ میں ہوگی نہ زن اوٹ چاہے گی
آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض

کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی


ممبری اپسیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں

ووٹ تو مل جائیں گے پیسے بھی دلوائیں گے کیا
میرزا غالب خدا بخشے، بجا فرما گئے

ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا


اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت

بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ

نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
اقبال کی ظریفانہ شاعری کی اس ابتدائی کوشش سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ان کی سنجیدہ شاعری میں طنز کی ایک زیریں لہر شامل ہو گئی اور انھوں نے اپنے فلسفے اور پیغام کے زیر اثر مختلف عقائد اور رویوں پر طنز یہ وار کیے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’علامہ اقبال نے بھی اکبر الہٰ آبادی کی شاعری کا تتبع کیا اور اپنی قادر الکلامی کے طفیل اس خاص رنگ میں بھی اپنے جوہر دکھائے لیکن چونکہ بنیادی طور پر اقبال کی بلند نظری، ہنگامی قدروں کے مطالعے کی متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ لہٰذا یہ ظریفانہ رنگ کچھ جم نہ سکا اور وہ بہت جلد اس سے کنارہ کش ہو گئے لیکن ایسا کرنے سے طنز کی طرف اقبال کا فطری رجحان ختم نہیں ہوا بلکہ انتہائی لطیف انداز میں ان کی سنجیدہ شاعری میں سرایت کر گیا۔ نتیجتاً کلام اقبال میں سنجیدگی اور ظرافت کا ایک ایسا امتزاج پیدا ہوا جو ہر عظیم شاعر کے کلام کا طغرائے امتیاز ہوتا ہے۔‘‘
[اردو ادب میں طنز و مزاح— وزیر آغا،ص۔136-137]
چنانچہ ’’بال جبریل ‘‘کی غزلوں کے علاوہ اقبال کی نمائندہ نظموں میں طنز کی ایک زیریں لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے جس سے کلام اقبال کی نشتریت اور تاثیر میں ایک نوع کا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ سب کچھ کوچۂ اکبر کی سیر کا ہی نتیجہ ہے۔
’’اودھ پنچ‘‘ کے دوسرے دور کے اہم شاعر ظریف لکھنوی نے بھی اپنی شاعری کا چراغ اکبر کے چراغ سے ہی روشن کیا ہے۔ ان کی شاعری بھی بذلہ سنجی، لفظی الٹ پھیر، رعایت لفظی اور مخصوص لب  و لہجے کی ادائیگی جیسے طنزیہ و مزاحیہ حربوں کو بروئے کار لاتی ہے۔ مگر زبان و بیان پر حد سے زیادہ توجہ دینے کے سبب ان کی نظمیں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
احمق پھپھوندوی اپنے سیاسی عزائم کی وجہ سے اکبر سے نزدیک آ گئے ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری میں جا بجا طنز اور کہیں کہیں مزاح، ان کے لہجے کا ایک مخصوص خمیر تیار کرتے ہیں۔ انھوں نے اکبر کی مخصوص لفظیات کو بروئے کار لا کر طنز و مزاح کا ایک مانوس اور ہر دلعزیز اسلوب تیار کیا ہے۔ انگریزی الفاظ، تحریف اور سیاسی موضوعات کو اپنانے میں احمق پھپھوندوی کامیاب ہیں۔ یہاں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
قیس تو بیٹھا ہے گھر میں پاؤں اپنے توڑ کر

لیلئی آنر کے سودائی مگر چکر میں ہیں
جھوٹ لکھیں ، گالیاں کھائیں جو سچ لکھیں پٹیں

کیا مصیبت ہے جناب پا نیر چکر میں ہیں


یہ ووٹ بھی بہ خدا اک عجیب دانہ ہے

اصیل مرغ اسی پر لڑائے جاتے ہیں
ادب نوازیِ اہلِ ادب کا کیا کہنا

مشاعرے میں اب احمق بلائے جاتے ہیں


سول سروس میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
مجھے جنت کے رستوں کی خبر کیا

سنیما کی طرف آگیا ہوں
کہاں صاحب کا بنگلہ اور کہاں خلد

زبردستی ادھر لایا گیا ہوں
اکبر نے طنز و مزاح کے جن حربوں کو بکثرت استعمال کیا ہے ان میں تضمین نگاری اور پیروڈی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ کلیاتِ اکبر میں بڑی تعداد میں ایسے قطعات ہیں جن میں اکبر نے فارسی شعرا کے اشعار کی تضمین کی ہے اور انھیں بالکل نئے اور مضحک سیاق میں برت کر ان کی معنوی جہتوں میں با معنی اور پر مغز اضافے کیے ہیں۔ اکبر کا یہ بڑا کمال ہے۔ تضمین کا فن نہایت نازک اور پیچیدہ فن ہے۔ سنجیدہ شاعری کے پہلو بہ پہلو طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں تضمین کا با قاعدہ آغاز اکبر کے ہی زورِ بازو کا نتیجہ ہے۔ طویل تضمینی قطعات کے علاوہ مختصر قطعات میں بھی اکبر نے تضمین کی گل کاریاں کی ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے : 
تھی مرے پیشِ نظر وہ مسِ تہذیب پسند

کبھی وہسکی مجھے دیتی تھی کبھی شربتِ قند
ملک الموت نے نا گاہ بھری ایک زقند

پارک کو چھوڑ کے ہونا ہی پڑا قبر میں بند
حیف در چشمِ زدن صحبت یار آخر شد

روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد
اکبر کے بعد شعرا نے کثیر تعداد میں تضمین بطور حربۂ طنز و مزاح استعمال کی ہے اور اس طرح روایت سے اپنی آ گہی اور اپنی قادر الکلامی کے ثبوت فراہم کیے ہیں۔ سید محمد جعفری ، شہباز امروہوی، مجید لاہوری، شاد عارفی، رضا نقوی واہی، عاشق محمد غوری کے علاوہ متعدد شعرا نے تضمین کے ذریعے اپنے کلام کی تیزی و ترشی کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ تضمین کی روایتی ہیئت ’’مخمس‘‘ ہے جس میں شاعر اصل شعر پر تین مصرعوں کا اضافہ کرتا ہے۔ اکبر نے بھی بہادر شاہ ظفر کی غزل کی تضمین اسی ہئیت میں کی ہے۔عاشق محمد غوری تضمین و تحریف میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے غالب کی ایک مشہور غزل کی تضمین اسی روایتی انداز میں کی ہے۔ یہاں صرف ایک شعر کی تضمین ملاحظہ فرمائیں :
منہ میں ہر وقت پان رکھتا ہوں

جیب میں کیپٹان رکھتا ہوں
ناک رکھتا ہوں، کان رکھتا ہوں

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
سید محمد جعفری طنز و مزاح کی شاعری کا ایک معتبر نام ہے۔ کلاسیکی زبان کے رچاؤ ، زبان و بیان پر قدرت اور طنز و مزاح کے مروجہ حربوں کو بروئے کار لانے کی صلاحیت نے انھیں اعتبار بخشا ہے۔ جعفری نے بڑی تعداد میں اساتذہ کے اشعار اور مصرعے بطور تضمین استعمال کیے ہیں۔ اساتذہ کے اشعار ان کے یہاں مرصع سازی کے عمل سے گزرتے ہیں اور نگینوں کی طرح دمکتے نظر آتے ہیں۔ غالب ،اقبال اور نظیر کے کلام سے استفادہ کرتے ہوئے وہ زورِ بیان اور خیال بندی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کی تضمینوں کے چند نمونے :
 یو.این.او. کے پیٹ میں سارے جہاں کا درد ہے

وعدۂ فردا پہ ٹرخانے کے فن میں فرد ہے
گرچہ پٹواتا فلسطیں میں خود اپنی نرد ہے

ایسی قوموں سے خفا ہے جن کی رنگت زرد ہے
کتنا اچھا فیصلہ کرتا رہا کشمیر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
ایک نظم کا بند اور ملاحظہ فرمائیں جس میں غالب کا ایک شعر نگینے کی طرح جڑ دیا گیا ہے :
جھانکا خلا سے اس نے تو آیا اسے نظر

حوّا کی ایک بیٹی کو بھی لگ گئے ہیں پر
بولا یہاں بھی آگئی جاؤں میں اب کدھر

عالم غبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرۂ لیلیٰ کرے کوئی
واپس نہ جاؤں، دیکھوں میرا کیا کرے کوئی
شہباز امروہوی اپنی جدت ادا، موضوعات کے تنوع، زبان و بیان پر قدرت اور موضوعات کی یکسانیت کے سبب بجا طور پر اکبر ثانی کہلاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کا تا نا بانا اکبر کے فکر و فن سے ہی بنا ہے ۔ لہٰذا اکبر کے تمام تیرو نشتر شہباز کے یہاں بھی موجود ہیں۔ تضمین نگاری میں بھی وہ اکبر کے جانشیں قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ایک قطعے میں تو انھوں نے اکبر کے ایک معروف شعر کی نہایت با معنی تضمین کی ہے :
ہم طنز بھی کرتے ہیں تو کہلاتے ہیں ہزال

وہ گیت بھی گائے تو گویّا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ذیل کے قطعے میں داغ کے مصرعے کی تضمین کی آڑ میں اردو کی زبوں حالی پر طنز یہ وار کیا ہے :
شہباز جس کو کوئی سمجھتا نہیں کہیں

بولی زمین کی ہے نہ جو آسماں کی ہے
پھر بھی یہ حال ہے کہ بقولِ جنابِ داغ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مجید لاہوری نے تضمین کو مختصرکر کے ایک شعر میں سمیٹ دیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی بے ربطیوں اور کمیوں پر طنزیہ وار کیے ہیں۔ تضمین کا یہ انداز جدید بھی ہے اور با معنی بھی صرف دو اشعار :
نوٹ ہاتھوں میں وہ رشوت کے لیے پھرتے ہیں

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
معرکہ چالو ہے ووٹوں کی طلب گاری کا

امتحاں ہے ترے ایثار کا قربانی کا
مثالیں اور بھی دی جا سکتی ہیں کہ تضمین شعرائے طنز و مزاح کا ایک مخصوص حربہ رہی ہے مگر طوالت کے ڈر سے مذکورہ امثال پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
تحریف نگاری یا پیروڈی انتہائی نازک فن ہے۔ اساتذہ کے اشعار میں معمولی لفظی الٹ پھیر سے ان کی معنوی کائنات تبدیل کر کے شاعر اپنے مقصود کو پانے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ اس شاعر کی خدمت میں خراجِ عقیدت بھی پیش کر دیتا ہے کہ جس کے اشعار کا انتخاب وہ پیروڈی کے لیے کرتا ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے بھی اپنی ضرورت کے تحت  پیروڈی پر طبع آزمائی کی ہے اور اس طرح پیر وڈی کے چند ابتدائی نمونے ان کے کلام کی زینت بنے ہیں۔ مومن کے شاگرد میر حسین تسکین دہلوی کا ایک مشہور شعر ہے :
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پاکی
اکبر مغربی تہذیب کی علامت، رنجن پر اظہار خیال کے لیے اس شعر کا انتخاب برائے پیروڈی کرتے ہیں اور لفظی الٹ پھیر سے اسے کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں :
ابھی انجن گیا ہے اس طرف سے

کہے دیتی ہے تاریکی ہوا کی
غالب کے مشہور شعر کی پیروڈی ملاحظہ فرمائیں :
حسن نظامی، اکبر کا کلام سن کے بولے

میں تجھے ولی سمجھتا جو تو خرقہ پوش ہوتا
حسرت موہانی کے ایک شعر کی پیروڈی اور ملاحظہ ہو :
ڈنر سے تم کو کم فرصت، یہاں فاقے سے کم خالی
چلو اب ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی
اکبر کی انھی مثالوں کے پیشِ نظر بعد کے شعرا نے پیروڈی کو بطور ایک مضحک صنفِ سخن اپنا یا اور سیاسی و سماجی ابتری پر طنز کرنے کے لیے اس صنف کا انتخاب کیا۔ ساتھ ہی لفظی پیر وڈیوںکے ذریعے طنز و مزاح کے دامن کو وسیع کر دیا ۔کنھیا لال کپور، سید محمد جعفری، شہباز امروہوی، دلاور فگار، مستر دہلوی، عاشق محمد غوری، فرقت کاکوری، شوکت تھانوی، راجا مہدی علی خاں، مجید لاہوری، ظریف جبل پوری، رضا نقوی واہی اور سلیمان خطیب وغیرہ نے اردو کے مشہور کلام کی پیروڈیوں میں نت نئے تجربے کیے اور اکبر کے لگائے ہوئے پودے کو ایک سر سبز و شاداب شجر میں تبدیل کر دیا۔ غالب، نظیر اکبر آبادی، اقبال ، میر ، بعض ترقی پسند شعرا اور چند جدید شعرا کی تخلیقات کی پیروڈی کرتے ہوئے شعرا نے فکرو فن کے اعلیٰ نمونے پیش کیے۔ خالص لفظی پیروڈیوں کا سلسلہ اکبر کا ہی فیضان ہے کہ شعرا کے روبرو اس کے ابتدائی نمونے کلیاتِ اکبر میں ہی موجود تھے۔ مجید لاہوری کی پیروڈیاں سنجیدہ طنز کی عمدہ مثال ہیں۔ سیاست و سماج کی بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر ان کی پیروڈیاں اہمیت کی حامل ہیں۔ چند مثالیں :
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا گدا گری

کچھ لیڈری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
سیاست بے ضیافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

ڈنر چالو رہیں جس میں سیاست اس کو کہتے ہیں
مجید لاہوری کے مقابلے شوکت تھانوی نے پیروڈی میں خالص مزاحیہ اسلوب اختیار کر کے محفلوں کو زعفران زار کیا ہے :
فاقے  کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتی ہے بھوک

اس قدر فاقے پڑے ہم پر کہ لقمہ ہو گئے
اگ رہا ہے ترے رخسار پہ سبزہ غالب

تو ہے سجدے میں ترے رخ پہ بہار آئی ہے
اکبر الہٰ آبادی کے ایک مشہور شعر میں نہایت معمولی تحریف کر کے اس کی معنویت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے:
ہنگامہ ہے کیوں برپا نسبت ہی تو بھیجی ہے

ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
شہباز امروہوی نے اپنے قطعات میں جا بجا کامیاب پیروڈیاں کی ہیں۔ ذیل کے قطعے میں اقبال کے ایک شعر کی پیروڈی نہایت پر معنی اور جاندار ہے ملاحظہ فرمائیں :
فلاحِ قوم سے خالی، صلاحِ ملک سے عاری

ادھر بے سود تقریریں ادھر بے کار تحریریں
یقیں مبہم، عمل مدھم، تعصب دشمنِ عالم

جہادِ انتخابی میں یہ ہیں لیڈر کی شمشیریں
ان چند مثالوں کے علاوہ اقبال کی نظم ’’شکوہ ‘‘اور ’’جواب شکوہ‘‘، نظیر کی بعض نظموںاور غالب کی غزلوں کو ان شعرا نے بطور خاص پیروڈی کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ۔
تضمین و پیروڈی کے علاوہ اکبر الہٰ آبادی نے اپنے کلام میں انگریزی الفاظ اپنے فکرو فلسفے کی ادائیگی کے لیے بطور حربہ استعمال کیے ہیں۔ انگریزی کے ایسے الفاظ ’’ علامت‘‘ کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں جن کے ذریعے وہ مغربی تہذیب و تمدن کی بے اعتدالیوں اور خامیوں کو منظرِ عام پر لانا چاہتے ہیں۔ ریل، انجن، ٹائپ، پائپ، پانیر، مسن، نیٹو جیسے الفاظ اکبر کے فن کو نہایت بلیغ بنا دیتے ہیں۔ وہ زبان پر حاکمانہ قدرت رکھتے ہیں اور انگریزی الفاظ کو نت نئے انداز سے برتتے ہوئے صنعتوں کی خوبیوں سے بھی انھیں آراستہ کرتے ہیں ۔ سامنے کے اشعار کے علاوہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
تعلّیوں کو طبیعت رِجکٹ کرتی ہے

جو دل شکستہ ہیں ان کو سِلکٹ کرتی ہے
ملاہوں خاک میں خود اس سبب سے میری نظر

گرا کے قصر بگولے اریکٹ کرتی ہے


پارک میں ان کے دیا کرتا ہے اسپیچِ وفا

زاغ ہو جائے گا اک دن آنریری عندلیب


گو کہ وہ کھاتے پڈنگ اور کیک ہیں

پھر بھی سیدھے ہیں نہایت نیک ہیں
جب میں کہتا ہوں کہ گیومی کس ڈیر

سر جھکا کر کہتے یو مے ٹیک ہیں
اس کے علاوہ ٹائپ اور پائپ، گزٹ، نیشن، امی ٹیشن، ڈارون، کالج، اسپیچ، لیمپ، پریڈ، تھیٹر، گاؤن، کمیشن غرض بیسیوں انگریزی الفاظ ہیں جنھیں اکبر الہٰ آبادی نے اردو کی شاعری میں اس طرح  ضم کر دیا ہے کہ یہ تمام الفاظ ہمارے لیے اجنبی نہیں رہ جاتے اور خاص طور پر طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں انگریزی الفاظ کی جلوہ سامانیاں کہیں مزاح کا حق ادا کرتی ہیں تو کہیں طنز کے نشتر عملِ جرّاحی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اکبر کی ہی تقلید میں شعرا نے انگریزی الفاظ سے طنز و مزاح کے فن کو سجایا ہے اور اس میں اضافے بھی کیے ہیں۔ یہاں متفرق شعرا کے کلام سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
ہے یہ قصہ مختصر شیطان کے اخراج کا

اس قدر پبلک میں جس کا پبلی کیشن ہو گیا

تھا وہ اک ناٹی بوائے، خلد کے اسکول کا

حکمِ انسپکٹر سے اس کا رسٹی کیشن ہو گیا


    شہباز امروہوی

بوسہ تو ہے کیا وصل سے انکار نہیں

دنیا میں عجب چیز ہے انگلش لیڈی

کھل جاتی ہے رکھتے ہی سوئچ پر انگلی

کہتے ہیں اسی ٹارچ کو ایور ریڈی


    شہبازامروہوی

اک یونیورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے

میں نے کہا کہ آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ

کہنے لگے کہ آپ سے مسٹیک ہو گئی

آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ


دلاور فگار

بیٹے کو چک سمجھ لیا اسٹیٹ بینک کا

سمدھی تلاش کرنے لگے ہائی رینک کا



    رضا نقوی واہی


وہ بے وفا تھے راہ کی Turning میں رہ گئے

ہم تو اکیلے Life کی Burning میں رہ گئے

سب کی ٹرین عشق کی منزل پہ جا چکی

ہم انتظارِ یار کی Shunting میں رہ گئے



مصطفی کمال

اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا ایک بڑا وصف ان کی زبان و بیان پر قدرت اور صنائع لفظی و  معنوی پر ان کی مضبوط گرفت نیز انوکھے قافیوں کا بے محابا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے زبان اور دیگر لوازمِ شعری میں لائق توجہ اضافے بھی کیے ہیں اور صنعتوں کے استعمال سے اپنی شاعری کو وسعت دی ہے۔ وہ نت نئے قافیوں کی تلاش میں ہر وقت سر گرداں رہتے ہیں اور ان کے ذریعے لفظ و معنی کی ایک ایسی فضا تیار کرتے ہیں جو آنے والے شعرا کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہے۔ وہ سنگلاخ چٹانوں میں ہموار راستے بنا دیتے ہیں جن پر سے آنے والی نسلیں بہ آسانی گزر جاتی ہیں۔ اکبر کے نقشِ پاپر قدم بہ قدم چلنے ہی سے کئی شعرا آسما نِ ظرافت تک پہنچ گئے ہیں۔ یہاں اکبر کے کلام سے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں جن میں انھوں نے زبان و بیان کی ندرتوں کو بروئے کار لا کر طنز و مزاح کے گل کھلائے ہیں :
کہاں کے مسلم کہاں کے ہندو بھلائی ہیں سب نے اگلی رسمیں
عقیدے سب کے ہیں تین تیرہ، گیارھویں ہے نہ اشٹمی ہے
[صنعتِ سیاق الاعداد]
بے پاس کے تو ساس کی بھی اب نہیں ہے آس
موقوف شادیاں بھی ہیں اب امتحان پر
[صنتِ تجنیں]
شیخ تثلیث کی تردید تو کرتے نہیں کچھ
گھر میں بیٹھے ہوئے والتّین پڑھا کرتے ہیں
[رعایتِ لفظی]
انوکھے ہیں مشاغل حضرتِ اکبر کے ان روزوں
الم تر کیف بیٹھے پڑھ رہے ہیں فیل خانے میں
[ایہام]
دیکھ آئے قوم سنتے تھے جسے

چند لڑکے ہیں مشن اسکول کے
بار آور پارک میں یہ ہوں گے کیا

گملوں پر ہی رہ گئے ہیں پھول کے
[رعایتِ لفظی]
اس کا پسیجنا ہے اور اس کے ہیں بھپارے
یوروپ نے ایشیا کو انجن پہ رکھ لیا ہے
[محاورہ]
ہم ریش دکھاتے ہیں کہ اسلام کو دیکھو
مس زلف دکھاتی ہے کہ اس لام کو دیکھو
[تجنیس]
ہر آرزوئے دلی کو تم پچ نہ کرو

لالچ میں بہت ضرر ہے لالچ نہ کرو
سینے پہ بتوں کے دسترس مشکل ہے

پوائنٹ یہ سخت ہے اسے ٹچ نہ کرو
[قافیہ]
اکبر کی شاعری کے یہ نمونے طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اعلیٰ شاعری کے بھی عمدہ نمونے ہیں۔ ان اشعار میں رعایت ِ لفظی، صنائع لفظی و معنوی، ردیف و قوافی کی ندرت کے ساتھ لفظ و معنی کے باہمی رشتوں کو بھی نہایت فنکارانہ انداز میں نبھایا گیا ہے۔ ان اشعار کے سر سری مطالعے سے ہی اکبر کی زبان پر قدرت اور فنِ شاعری پر ان کی دسترس کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
اکبر کے بعد کی شاعری میں بھی زبان و بیان کی خوبیوں کو بروئے کار لایا گیا ہے لیکن اکبر کے سامنے کسی کا چراغ جلتا ہوا نظر نہیں آتا اور بطورِ خاص اکبر نے جس طرح اور جس کثیر تعداد میں انھیں برتا ہے وہ ہمیں بعد کے شعرا میں نظر نہیں آتا۔ صرف ایک شاعر ایسا ہے جس نے اکبر کے اس رنگ کو اپنانے کی شعوری کوشش کی ہے اور وہ ہیں شہباز امروہوی ۔ ان کے قطعات اور نظموں میں ہمیں زبان کی یہ گلکاریاں جگہ بہ جگہ نظر آتی ہیں اور غالباً اسی مناسبت سے انھیں اکبر ثانی بھی کہا گیا ہے۔ یہاں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن میں شہباز اور ان کے معاصرین نے زبان وبیان کی خصوصیات سے مضمون آفرینی کی ہے :
تم نے بھیجی چائے مجھ کو شکر ہے
دل کے کھولانے کی صورت ہو گئی
[شوکت تھانوی]
آپ مہنگے جو ہو گئے ماچس
اس لیے کم جلائے جاتے ہیں
[ماچس لکھنوی]
نشہ اترا تو بتلایا مجھے لوگوں نے آ آ کر
بہت اچھلم، بہت کودم، برہنہ وار می رقصم
[عبد السمیع جمیل]
انھیں اپنا کر لیا ہے وہ کسی طرح کیا ہو
کبھی ڈانٹ کر ڈپٹ کر کبھی پھیر کر پچارا
[ظریف جبل پوری]
مٹا دیں گے وہ خود نئے ٹیکسوں سے
شکایت بجٹ کی نہی دامنی کی
وزیر خزانہ جو چنتامنی ہیں
انھیں ہم سے بڑھ کر ہے چنتا منی کی
[شہباز امروہوی]
شیطان کو بٹھایا ہے یزداں کے تخت پر
یاروں کا انتخاب یہ کتنا حسین ہے
ارباب یونیورسٹی کیوں کر کریں نہ فخر
بے دین ایک دین کے شعبے کا ڈین ہے
[شہباز امروہوی]
طنز یہ و مزاحیہ شاعری کی مروجہ ہئیتوں کے تعلق سے بھی اکثر شعرا اکبر کے مرہون منت نظر آتے ہیں۔اکبر نے ’قطعہ‘ کی سب سے مختصر شکل یعنی دو یا تین اشعار پر مشتمل اس مختصر نظم کو بکثرت استعمال کیا ہے کہ چار یا چھ مصرعوں میں طنز کی کاٹ ،مزاح کی برجستگی اور قافیے کی بے پایاں آزادی ترسیل کے لیے ایک بہتر صورت پیدا کردیتی ہے۔ رباعی کی طرح یہاں بھی تیسرے مصرعے کی اہمیت اور چوتھے مصرعے میں بات کو مکمل کر کے قاری کو چونکا دینے کی ادا نے بھی اکبر کو اس ہیئت کی طرف متوجہ کیا ہوگا۔ اکبرنے قطعہ کو طنز و مزاح کا ایک جانا پہچانا ہتھیار بنا دیا۔ اس لیے اکبر کے بعد آنے والے شعرا کے یہاں ہمیں قطعہ کی اس ہیئت کی پابندی نظر آتی ہے اور اکثر طنزیہ و مزاحیہ شعرا اس ہیئت میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کرتے نظرآتے ہیں۔ دلاور فگار، شہباز امروہوی، انیس امرہوی کے علاوہ تقریباً ہر اہم شاعر کے یہاں قطعات کی کثرت اکبر کا ہی فیضان نظر آتا ہے۔
اکبر نے خاصی تعداد میں منظوم لطیفے بھی تخلیق کیے ہیں۔ بعد کے شعرا نے اکبر کے تتبع میں یہ سلسلہ بھی قائم رکھا ہے ۔ ایسے شعرا میں دلاور فگار اور ہلال رضوی کے نام بطور خاص اہم ہیں۔ منظوم مزاحیہ خط کی روایت بھی اکبر کے کلام سے شروع ہوتی ہے اور ان کے بعد بھی یہ سلسلہ رضا نقوی واہی اور دلاور فگار کے کلام میں در آتا ہے۔
غزل میں طنزو مزاح کی روایت کی ابتدا ’’اودھ پنچ ‘‘کے زمانے سے ہی ہو جاتی ہے۔ اکبر نے اپنی شاعری کے لیے غزل اور قطعے کا ہی انتخاب کیا۔ ایجاز و اختصار ، رمز و ایمائیت، استعاراتی اندازِ بیان اور مجازی معنوں پر انحصار کی وجہ سے غزل طنز و مزاح کے فن کو دو آتشہ کر دیتی ہے۔ غزل میں   طنز و مزاحیہ شاعری بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی کی روایت سے لے کر ہلکی پھلکی چٹکیوں اور    دشنہ و خنجر کی سی تیزی والے طنز تک پہنچی ہے۔ اکبر کی ایسی غزلیں فن کے نقطۂ عروج پر نظر آتی ہیں۔ غزل کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کی آمیزش نے اکبر کی غزل کو شعرائے طنز و مزاح کے لیے مشعلِ راہ بنا دیا اور مزاحیہ غزل گوئی کی ایک مستحکم روایت قائم ہو گئی۔ اکبر اور احمق پھپھوندوی کی روایت کا یہ سلسلہ شاد عارفی، محمد ضمیر جعفری، شوق بہرائچی، ماچس لکھنوی، سگار لکھنوی، ناظم انصاری سے ہوتا ہوا عہد حاضر کے شعرا تک پہنچ جاتا ہے۔ بالخصوص شاد عارفی کی طنزیہ غزل کی سنجیدگی اکبر کی ہی مرہون منت ہے۔ چند اشعار شاد عارفی کی غزلوں سے :
یہ جنونِ آرزو، یہ آگہی
کارواں احمق، نکمّا راہبر
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے
کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا
دیکھ لینا کہ ہر ستم کا نام
عدل ہوگا کسی زمانے میں
اکبر کے شعر یا قطعے سے متاثر ہو کر بھی شعرائے طنزو مزاح نے منظومات تخلیق کی ہیں۔اس سلسلے کی سب سے کامیاب نظم راجہ مہدی علی خاں کی بعنوان ’’ایک چہلم ‘‘پر ہے جو در اصل اکبر کے اس شعر سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے :
بتائیں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
راجہ صاحب کی مذکورہ نظم در اصل اس شعر کا تشریحی پھیلاؤ ہے جہاں ایک چہلم پر عورتوں کی گفتگو اور فاتحہ کے بجائے کھانے اور دیگر دنیاوی معلومات پر اظہارِ خیال کو موضوع طنز بنایا گیا ہے۔ چند منتخب اشعار:
رقیہ ذرا گرم چاول تو لانا

ذکیہ ذرا ٹھنڈا پانی پلانا
بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ

ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
منگاؤ پلاؤ ذرا اور خالہ

بڑھانا ذرا قورمے کا پیالہ
اری بوٹیاں تین سالن میں تیرے

یہ چھچھڑا لکھا ہے مقدر میں میرے
بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ

ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
غرض تخلیقات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو براہِ راست اکبر سے اکتسابِ فیض کے سبب وجود میں آیا ہے اور جس کا تفصیلی ذکر اس مقالے میں ممکن نہیں۔
اکبر نے اپنے مشن سے متعلق جن موضوعات پر اظہار خیال کیا وہ ہنگامی نوعیت کے توہیں مگر اکبر نے اپنی شعری اور فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انھیں آفاقیت عطا کر دی ہے۔ نیز الفاظ کے استعاراتی و علامتی اظہار نے انھیں ہنگامی اور وقتی ہوتے ہوئے بھی ایک نوع کی جاودانی عطا کر دی ہے۔ شعرائے طنز و مزاح نے اکبر کے انھی موضوعات و لفظیات کو جدید پس منظر میں بہ حسن و خوبی برتا ہے۔ لہٰذا مشرق و مغرب کی آمیزش ، مشرقی تہذیب پر زور، حکومت کی ریشہ دوانیاں ،سیاست کا کھوکھلا پن، استحصال، لوٹ کھسوٹ، لیڈرانِ قوم کے قول و عمل کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت اور اپنی تہذیب سے دلی وابستگی کے موضوعات آج بھی اس نوع کی شاعری میں عام ہیں اور اس کے پس منظر میں ہمیں اکبر کی ہی آواز سناتی دے رہی ہے۔

پتہ:

مظہر احمد
Deptt. of Urdu
Zakir Hussain College
Jawahar Lal Nehru Marg, Delhi
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2009

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں