15/2/21

حسرت جے پوری کی غزل گوئی - مضمون نگار: نذیر فتح پوری



حسرت جے پوری کا نام زبان پر آتے ہی ہندوستانی فلموں کے خوبصورت گیت کانوں میں گونجنے لگ جاتے ہیں۔فلمی دنیا کے پرانے گیتوں پر جب بھی گفتگو ہو تی ہے حسرت جے پوری کا نام ہر حال میں لیا جاتا ہے۔ آج بھی جب کہیں حسرت کے گیتوں کے ریکارڈ بجتے ہیں تو راہ چلتے لوگ بھی کچھ لمحوں کے لیے رک کر اپنی سما عتوں کو ان گیتوں سے نہا ل کرتے ہیں مثلاً      ؎

 بہارو! پھول برساؤ، مرا محبوب آیا ہے  

 تیری پیا ری پیا ری صو رت کو کسی کی نظر نہ لگے

یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم نا راض نہ ہو نا 

حسرت کے گیتوں میں تغزل کی آمیزش کو ہمیشہ اوّلیت دی جا تی تھی۔ ان کے گیت سن کر جوان دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جا یا کرتی تھیں۔ جدائی کے غم سے زیادہ ان کے گیتوں میں وصال کی لذ ت اور حسن و جمال کا تذکرہ ہوتا تھا۔ وہ جوان جذبوں کی نمائندگی کرنے والے گیت کار تھے۔ ان کے گیتوں کی شمولیت سے فلمی کہانی کو بڑا سہارا ملتا تھا۔ وہ ایسے گیت لکھتے تھے جو فلمی کہا نی کے منظرنامے کا حصہ بن کر فلم کو کامیا بی سے ہمکنار کرنے میں معاونت کرتے تھے۔

اپنے گیتوں میں امنگوں، ترنگوں، حوصلوں اور لاابالی جذبات کی عکا سی کرنے والے حسرت جے پو ری نے سب سے پہلا جو گیت لکھا تھا۔ وہ بہت ہی حزن و ملال کا عکا س تھا۔ بد حا ل زندگی کی درد بھری کیفیت کی نمائندگی کرنے والا یہ گیت راج کپور کی فلم برسا ت کے لیے لکھا گیا تھا۔ جسے اپنے وقت کے مشہور درد بھرے گیتوں کے لیے پہچانے جا نے والے گلو کار محمد رفیع نے گایا تھا۔ گیت کا مکھڑا تھا      ؎

میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں

روتا ہی رہا ہوں میں تڑپتا ہی رہا ہوں

یہ گیت راج کپور کو اس قدر پسند آیا کہ اپنی فلم برسات کے آٹھ گیت انھوں نے حسرت سے لکھوائے۔ اس طرح حسرت کا پہلا قدم ہی ’فلم نگری‘ میں کامیاب ثابت ہوا۔ اور اس کے بعد حسرت نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔

ہم اپنے مضمون میں حسرت جے پو ری کی غیر فلمی غزل گوئی پر اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے حسرت کا مختصر تعا رف ضروری ہے۔

حسرت جے پو ری کی پیدائش راجستھان کے گلا بی شہر جے پور میں 15؍ اپریل 1922 کو ہوئی۔ خود حسرت بتاتے ہیں ’’میرا نام اقبال حسین اور تخلص حسرت ہے۔ جے پور راجستھان کی پیدائش ہے اس لیے جے پوری لکھتا ہوں۔ 15؍اپریل 1922 کو میں نے اس دنیا ئے فانی میںآنکھیں کھولیں۔ مسلم اسکول جے پو ر میں اردو، فارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔

(شعری مجمو عہ: آبشارِ غزل،صفحہ نمبر9)

حسرت جے پو ری کوپہلی شعری رفاقت اپنے ناناجان فدا حسین فدا سے میسر آئی۔ نا نا کی وجہ سے گھر آنگن میں شعر  و ادب کے چراغ روشن تھے۔ جن کی روشنی سے حسرت کے معصوم ذہن اور تتلیوں کے پیچھے دوڑنے والے بچپن کو اجا لا ملا۔ حسرت خود اعتراف کرتے ہیں۔

’’ہوش سنبھا لا تو مرحوم نا نا جان فدا حسین فدا کی شعر و شاعری کے ما حول میں پروان چڑھنے لگا۔ وہ جے پو ر کے مانے ہوئے شعرا میں سے تھے اور بے حد خوددار، ان کی محفلِ شعر و سخن میں صرف چنندہ، منتخب احباب اور شعرا کے لیے جگہ تھی۔ ‘‘ ( شعری مجمو عہ: آبشارِ غزل،ص9)

حسرت کے نا نا روایتی غزل کے کامیا ب شاعر تھے۔ انھوں نے حسرت کو نصیحت فرمائی تھی کہ میر،مومن اور داغ کے نقش  قدم پر چل کر ہی وہ کا میاب غزل کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے حسرت نے عام فہم الفاظ میں اظہار خیال کواپنا یا اور مشکل الفاظ سے بچ کر اس با ت کی کو شش کی کہ آسا ن سے آسان زبان میں اپنی با ت عوام تک پہنچائی جائے۔حسرت نے 18 سال کی عمر میں جو پہلا شعر کہا تھا، وہ مندرجہ ذیل تھا      ؎

حسرت ہما رے دم سے ہے یہ سرخئی شفق

یہ چرخ خون روئے گا گر ہم نہیں رہے

اس کے بعد جو پہلی غزل حسرت جے پو ری کی غزلیہ کائنات کا سنگِ بنیاد ثا بت ہوئی وہ ملا حظہ کریں       ؎

کس ادا سے وہ جا ن لیتے ہیں

مرنے والے بھی مان لیتے ہیں

فلموں میں قدم رکھنے سے پہلے حسرت جے پو ری مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ لکھنو کے ایک مشاعرے میں مولانا حسرت موہانی نے حسرت جے پو ری کا کلام سن کر دعاؤں  سے نوازتے ہوئے کہا تھا       ؎

’’انشا اﷲ تم بہت مشہور ہو گے

محنت کیے جاؤ، منزل خود بہ خود تمھا رے سامنے ہو گی‘‘

(آبشارِ غزل ص13)

بے شمار راجستھانی با شندوں کی طرح 1940 میں حسرت جے پو ری نے بھی مہا راشٹر کے تجا رتی شہر ممبئی کے لیے رختِ سفر با ندھ لیا۔ ملا حظہ ہو، ایک تحریر          ؎

ظلمتِ شب میں بھٹکتے ہوئے را ہی کے لیے

عزم محکم ہو تو را ہیں بھی نکل آتی ہیں

اپنی منزل پہ وہ انسان پہنچ جاتا ہے

بجلیاں خود اسے قندیل سی دکھلا تی ہیں

(حسرت جے پو ری )

اور اسی عزم محکم کے کرشمے کا اثر تھا کہ ان کی جدوجہد رنگ لاتی رہی۔ ان کے نغمے گونجتے رہے۔ سننے والوں، دوستوںاور چا ہنے والوں کا حلقہ بڑھتا رہا۔ وہ گزر بسر کے لیے ادھراُدھر ملا زمت بھی کرتے رہے اور بزمِ سخن بھی سجاتے رہے اورکنڈکٹر کی حیثیت سے ملازمت کر تے ہوئے انھوں نے حسن اور زندگی کے بے شمار رنگ دیکھے، دلکش، دلنواز، پُرکیف اور روکھے پھیکے بھی۔  (آبشارِ غزل، ص12)

ممبئی کے قیام کے دوران حسرت جے پوری نے مشاعروں میں بھی حصہ لیا۔ ایک ایسے ہی مشا عرے میں فلم اداکا ر پرتھوی راج کپور مہمان تھے۔ حسرت جے پوری نے اس مشاعرے میں اپنی نظم ’مزدورکی لا ش‘سنائی تو سامعین بے حد متاثر ہوئے۔پرتھوی راج کو بھی حسرت کی نظم نے بہت متاثر کیا۔ یہی وجہ تھی کہ پرتھوی راج نے حسرت کو اپنے بڑے بیٹے راج کپو ر سے ملوایا، وہ ان دنوں اپنی فلم برسات کی تیا ری کررہے تھے۔ راج کپور نے فلم برسا ت کے گیتوں کی چابی حسرت جے پو ری کو تھما دی اور اس طرح فلمی دنیا کے دروازے ان کے لیے کھلتے چلے گئے جس کے نتیجے میں خوبصورت گیتوں کے جواہرپاروں سے فلمی دنیا کے دروبام سجتے چلے گئے۔

فلمی گیتوں کی تجارتی منڈی سے وابستگی کے با جود حسرت جے پو ری کی غزل گوئی کا مزاج قائم رہا اور وہ فرصت کے اوقا ت میں اپنے نا نا جان کی ہدایت کے مطابق غزل کہتے رہے۔ ان کے یہاں دیہی تغزل ملتا ہے جس کی روایت، میر، مومن اور داغ نے قائم کی تھی۔

حسرت جے پو ری کی غزلوں کا مجمو عہ ’آبشارِ غزل‘ کے عنوان سے نومبر 1989 میں شائع ہوا۔ جس میں 128غزلیں شامل ہیں۔ ایک ہی صفحہ پر اردو اور نا گری لپی میں غزلیں شامل ہیں۔ پیش لفظ فیاض رفعت کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ حسرت کی غزل پر گفتگو کر تے ہوئے فیاض رفعت اپنی رائے کا برملا اظہار کر تے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’حسرت کی لفظیا ت پرانی ہے۔ مگر انھوں نے ان پرانے لفظوں کو نیا رنگ و روپ دیا ہے۔ نئی طرح سے برتا ہے ۔۔۔۔خوشبو، آنسو، جا دو، چاند، پتھر، شبنم، آنچل، پائل، دھنک، نیند،تنہائی، سناٹے،مفلسی، مجبوری،درد و الم،بے کسی، فراق، تاثر، بیلا، گلاب، چمپا، چمیلی،جیسے الفاظ استعاروں کی صو رت میں غیر شعو ری طو ر پر حسرت کی شاعری میں جگہ پا تے گئے۔ ان لفظوںمیں حسرت کی شاعری کی دنیا آ باد ہے۔‘‘  (ایضاً، ص 7)

حسرت جے پوری کی غزل کے اجالے اسی کائنات سے پھوٹے ہیں جو کائنا ت میر، مو من، داغ اورجگر نے آباد کی تھی۔ وہی رنگ،  وہی آہنگ، وہی نغمگی، وہی کلاسکیت، وہی جام و سرورکی با تیں، وہی نگاہِ ناز کے اشارے کنا ئے، وہی پردہ، وہی چلمن، وہی چلمن کی اوٹ سے جھلملا تے حسن کے جلوے، وہی دل تھا م کر بیٹھے ناکام عا شق کی آہوں اور کرا ہوں کا سوز و گداز، جو غزل کو غزل بنا تے ہیں، دیا ر یا ر میں غزل کا وقار بلندکرتے ہیں۔ زندگی کی رونق بڑھا تے ہیں۔ دل کی تہوں میں سوئے ہوئے درد کو دھیرے دھیرے بیدار کر تے ہیں،  اسی کیفیت کی حا مل غزل کی تصویر وہ غزل ہی کے فریم میں یوں پیش کرتے ہیں           ؎

ہے سہا نا غزل کا سفر/ختم ہوگا نہ یہ عمر بھر

میر و غالب بھی شیدائی تھے/اسی حسینہ پہ دونوں بشر

چلتی آئی ہے صدیوں سے یہ/لکھتے آئے ہیں داغ و ظفر

ابتدا کر گئے ہیں ولی/انتہاکر گئے ہیں جگر

ہر زباں پرہے چھائی ہوئی/دشمنوں کی لگے نہ نظر

اس کے حسرت بھی شیدائی ہیں/بات اتنی سی ہے مختصر

حسرت خود ایسی ہی روایتی غزل کے شیدائی ہو نے کا اعتراف کرتے ہیں۔ پھر کیوں انھیں جدید اور ما بعدجدید غزل کے حوالے سے تلا ش کیا جائے۔ سیدھے سا دے دل کی کیفیت وہ سیدھے سا دے الفاظ کے حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ با ت دل میں اتر جا تی ہے۔ مثلاً۔ ایک غزل کے یہ اشعار         ؎

زندگی گزرتی ہے آپ کے خیالوں میں

کھوئے کھوئے رہتے ہیں حسن کے اجالوں میں

ایک ہیں وہ لا کھوں میں ان کی با ت کیا کہئے

پھول کھلتے رہتے ہیں ان کے سرخ بالوں میں

کل پسینہ پو نچھا تھا اس نے اپنے چہرے سے

آج بھی تو خوشبو ہے ریشمی روما لوں میں

غزل کا یہی رنگ ’آبشار غزل‘ کی اکثر غزلوں میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً یہ غزل         ؎

رات فرقت کی ہے تا روں کے دئیے جلتے ہیں

مری پلکوں پہ تو اشکوں کے دیے جلتے ہیں

حسن تو خوش ہے بہت گھر میں چراغاں کر کے

میرے سینے میں تو زخموں کے دیے جلتے ہیں

حسن سے تیرے ہر اک ذرہ بنا ہے سورج

ہر جگہ پر ترے جلوئوں کے دیے جلتے ہیں

حسرت غزل کے حوالے سے جب سوال اٹھا تے ہیں تو اس کا جواز بھی رکھتے ہیں۔ ایک غزل میں وہ کہتے ہیں       ؎

جب پیار نہیں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے

خط کس لیے رکھے ہیں جلا کیوں نہیں دیتے

کیوں تم نے لکھا اپنی ہتھیلی پہ مرا نام

میں حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے

کس واسطے تڑپا تے ہو معصوم مسیحا

ہا تھوں سے مجھے زہر پلا کیوں نہیں دیتے

حسرت کی محبت پہ اگر شک ہے تمھیں تو

حسرت کو نگا ہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے

حسرت کی غزل رنگا رنگ بھی ہے اور طرح دار بھی۔ یہ ٹوٹے دل کی ترجمان بھی ہے اور ضبط دل کا اظہار بھی۔  حسرت کی غزل فلسفہ طرازی سے دور ہے۔ گہرے اور بسیط تفہیمی پر دوں میں یہ چھپ کر رہنا پسند نہیں کرتی۔ جو دل پر گزرتی ہے حسرت اسے بڑی سہلتا اور سجلتا کے ساتھ اپنے اشعا ر میں ڈھال دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے چند اشعار ملا حظہ کر یں          ؎

مجھ سے خود ہے چمن کی زیبائی

میں گلوں کا کوئی سفیر نہیں

——

مری ہر خوشی میں حسرت مرادرد جلوہ گر ہے

کوئی حسن بھی ہے شامل مری شاعری کے پیچھے

——

شب فراق کی بے چینیاں ارے تو بہ

یہ اجلا چاند بھی میری ہنسی اڑاتا ہے

ایسی دردمندا نہ اور سسکیوں بھری کیفیت کے علا وہ حسرت کی غزل نے اپنے عصری اسلوب سے آنکھیں ملا نے کی جسا رت بھی کی ہے۔ اگرچہ یہ جسا رت کم کم ہی نظر آ تی ہے لیکن اس سے اس با ت کا پتا چلتا ہے کہ حسرت اگر سنجیدگی سے نئے افکا ر اور جدید اسلوبِ نگارش کے ہم سفر بن جاتے تو ان کی غزلوں کا رنگ کچھ اور ہی ہو تا۔ یہ چند اشعارمیں اپنی با ت کے جو از میں پیش کر تا ہو ں         ؎

سورج ہے بادلوں میں توکجلا رہی ہے دھوپ

آنگن میں کیسے آئے گی شرما رہی ہے دھوپ

دیکھا جو ایک شعلہ بدن سب نے یہ کہا

حسرت تمہا ری سمت ہی اب آرہی ہے دھوپ

——

وہ بے کسی ہے یہاں کون گھر پہ آتا ہے

ہوا کا جھونکا ہے دروازہ کھٹکھٹا تا ہے

کبھی وہ دور تھا ہر روز کوئی آتا تھا

اب ایسا دور ہے سناٹا کھائے جا تا ہے

——

پڑھتا ہے زما نہ تیرے ما تھے کی لکیریں

اے جانِ جہاں تو تو کتا بوں کی طرح ہے

——

وہ دور سے دریا ہے مگر پاس سے دھو کا

اک شخص زما نے میں سرابوں کی طرح ہے

یہ سچ ہے کہ اب تک غزل کی تنقید میں حسرت جے پو ری کا حوالہ نہیں آیا ہے اور آئندہ بھی اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ تنقیدی شعور رکھنے والے کسی مبصر نے بھی کبھی حسرت کی غزل پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی۔ ممکن ہے اہلِ نظر حضرات کی نظر سے’ آبشارِغزل ‘اب تک پوشیدہ رہی ہو۔


Nazir Fatehpuri

sr.no 230/B/102, 'Saira Manzil'

Sanjay Park, Viman Darshan,

Lohgaon Road.

PUNE - 411032.

Mobile : 9822516338

Email : nazir_fatehpuri2000@yahoo.com

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں