چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی
دھرا نہیں
آؤ تمھیں بتائیں کہ علوی نے
کیا کیا
محمد علوی کا یہ شعر ہی ان کے
شعری رویے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے اس عہد میں ہوش سنبھالاجب
ادبی منظرنامے پر ترقی پسندوں کا طوطی بول رہا تھا۔ کوئی تعجب خیز امر نہ ہوتا
اگروہ اس عہد کے مروجہ ادبی طریق کار پرچلتے ہوئے اشتراکیت اور رومانیت کے سنگم پر
کھڑے نظر آتے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اسی عہد میں ’میں گوتم نہیں ہوں‘ اور ’سوداگر‘
جیسی نظموں میں نئے آدمی کا ذہنی انتشار، اس کی جلاوطنی اور گھریلو زندگی میں بن
باس جیسی کیفیات کو ’گوتم‘ اور ’سوداگر‘ کی علامتوں کے ذریعے پیش کرنے والے شاعر
خلیل الرحمن اعظمی کے پہلے مجموعۂ کلام کاغذی پیرہن میں بھی ہمیں ’تذکرہ دہلی
مرحوم کا‘، ’لہو کی زنجیر‘ اور ’شامِ اودھ‘ جیسی سیاسی نوعیت کی نظمیں ملتی ہیں۔ (
خلیل الرحمن اعظمی کی مثال دینے کاجواز یہاں پر زمانی یکسانیت ہے کیونکہ خلیل
الرحمن اعظمی اور محمد علوی دونوں کا سنہ پیدائش 1927 ہے)یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ
اس قسم کی شاعری میں سیاسی و سماجی شعور کے ساتھ ترقی پسندی اور رومانی عناصر ہوتے
ہیں۔ اس شاعری کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایسی
شاعری جو ہنگامی مسائل کی پیداوار ہوتی ہے ان مسائل کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اپنی
چمک دمک بہت جلد ہی کھودیتی ہے۔ یہ شاعری خیالات کے خارجی ٹکراؤ سے وجود میں آتی
ہے جب کہ جدید نظم میں شاعر کے مشاہدات و تجربات، غور وفکر کے ایک نئے زاویے کے
ساتھ سامنے آتے ہیں اور شاعر مروجہ نظام سے بے اطمینانی کی صورت میں اپنی ہی ذات
میںجب ڈوبتا ہے تو احمد ندیم قاسمی کی ’شام‘اور فیض کی ’تنہائی‘ جیسی لازوال نظمیں
وجود میں آتی ہیں۔
محمد
علوی داخلی لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کی شعری کائنات ان کی اپنی ہے جس میں اشیا اور
مظاہریوں ترتیب پاتے ہیں کہ کسی جہان دگر کا حصہ معلوم پڑتے ہیں۔محمد علوی معاشرتی
حقیقتوں کو جدید شاعر کی زیرک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک معلوم حقیقت کی
نقاب کشائی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ زندگی کی کسی دوسری مماثل حقیقت کی غمازی
ہونے لگتی ہے۔ معرب ومفرس زبان سے کوسوں دور عام بول چال کے لہجے اور تراکیب
میںبالکل سامنے کی بات اتنے انوکھے انداز میں اور اتنی سہولت سے کہہ جاتے ہیں کہ
قاری سر دھنتا رہ جائے۔ لیکن مانوس الفاظ یا مانوس تشبیہات و استعارات کی بنیاد پر
اس نتیجے پر پہنچنا کہ محمد علوی کی شعری کائنات میں آباد دنیا انتہائی سادہ اور
مانوس ہے، انتہائی غلط اور بدمذاقی ہے کیونکہ
شاعر لفظ کا موجد نہیں بلکہ زبان کا خالق ہوتا ہے اور تخلیقی عمل جینون فنکار سے،
برتی ہوئی باتوں اور لفظوں کو ایک نئی سطح پر برتنے کا تقاضا کرتا ہے۔برتی ہوئی
باتوں اور لفظوں کو ایک نئے انداز میں برتنے کا یہ عمل محمد علوی کے یہاں بکثرت
نظر آتا ہے۔ محمد علوی کے یہاں برتے ہوئے
الفاظ اور تشبیہات کو نئی سطح پر برتنے کی ایک مثال ’ہوا‘ ہے۔ کلاسیکی شاعری میں
’ہوا‘ کا استعمال بکثرت ہوا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہواکے مختلف اشکال و مدارج ہوتے
ہیں جن کی بنا پر یہ کبھی صرصر ہے تو کبھی صبا، کبھی نسیم ہے تو کبھی سموم یعنی
ہوا کے مختلف روپ ہیں وہ کہیں تعمیر کی علامت ہے تو کبھی تخریب کی لیکن یہی ہوا جب
محمد علوی کی شعری کائنات میں داخل ہوتی ہے تو ایک الگ ہی روپ میں نظر آتی ہے۔ ان
کی نظم ’ہواؤں کے گھر‘ملاحظہ ہو:
ہوا یوں تو ہردم بھٹکتی ہے
لیکن/ ہو اکا بھی گھر ہے/ بھٹکتی ہوا / جانے کتنی دفعہ/ شہد کی مکھیوں کی طرح/گھر
میں جاتی ہے اپنے/ اگر یہ ہوا/گھر نہ جائے تو سمجھو/کہ اس کے لیے گھر کا دروازہ
وا/ پھر نہ ہوگا کبھی/ اور اسے اور ہی گھر
بنانا پڑے گا/یہ ہم اور تم / اور کچھ بھی
نہیں ہیں/ ہواؤں کے گھر ہیں/
ہواؤں کے گھر - ہواؤں کے گھر-1
ہوا کی مختلف خصوصیتوں کو اردو
کے قدیم اور جدید شعرا نے بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے۔ قدیم شعرا نے جہاں استعارہ
تشبیہ اور محاورے کے طور پر اس کی خارجی صفات کو قید کرنے کی کوششیں کیں وہیں جدید
شعرا نے ہوا کو ایک فعال علامت کے طور پر استعمال کیااور اس کے داخلی صفات کو توجہ
کا مرکز سمجھا۔ نتیجتاً فطرت کے خارج اور انسان کے داخل کے درمیان بہت سے نئے رشتے
استوار ہوگئے۔جدید شعرا میں سے ضیا جالندھری کے یہاں ’سرخ ہوا‘ (سرخ ہوا)ظلم جبر
اور استحصالی طاقتوں کا مجسم روپ دھار لیتی ہے جب کہ منیر نیازی کے یہاں (نظم صدا بصحرا)ہوا اسرار، خوف اور موت کی علامت ہے لیکن
محمد علوی نے اس نظم میں ’ہوا‘ کو سانس کی علامت بنایا ہے۔ گرچہ محمد علوی مادی
زندگی سے بلند نہیں ہوسکے تاہم انھوں نے ہوا کو ایک بالکل مختلف معنی میں پیش کیا
ہے جس کا اعتراف ضروری ہے۔ ایک اور نظم ’ہوا‘ میں ہوا کو ایک نامہ بر کا روپ عطا
کیاگیا ہے لیکن یہ نامہ بر کلاسیکی شعرا کے نامہ بر سے مختلف ہے کلاسیکی شاعری میں
نامہ بر بیش تر اوقات مونس و غمخوار، ہمدم و ہمراز ہوتا ہے تو کبھی محبوب کے حسن
کرشمہ ساز کا اسیر ہوکررقیب کا روپ بھی اختیار کرلیتا ہے لیکن محمد علوی کے یہاں
یہ قاصدہمدم و ہم ساز نہیں بلکہ ہرجائی کا روپ دھار لیتا ہے ؎
جانے تجھ تک پہنچی ظالم، تجھ
تک چٹھی لائی
یا پھر اور ہی دوارے جا کر دے
آئی ہرجائی
(ہوا)
محمد علوی کا اسلوب بہت سادہ
نظر آتا ہے۔ ان کی سیدھی سادی منطق میں کوئی الجھاؤ یا پیچیدگی نظر نہیں آتی،
ساتھ ہی ان کے شعری اظہار میں شاعر اور قاری کے مابین دوئی مٹ جاتی ہے۔ ان کی
نظموں میں کسی تہہ داری اور معنوی دبازت کی تلاش کرنا درست نہیں کیونکہ محمد علوی
کی نظمیں بیش تر ابہام کی منطق سے گریز کرتی ہیں۔ ان کے یہاں مشاہدے اور احساس کی
فراوانی ہے۔ محمد علوی کی بیش تر نظمیں متحرک فلم کی مانند ہماری نگاہوں کے سامنے
سے گزرتی ہیں وہ نظموں میں اپنے احساسات کو پیش کرتے ہوئے غیر مرئی احساسات و
کیفیات اور بے جان اشیاء کی تجسیم یوں کرتے ہیں کہ قاری خود کو ایک نئی انوکھی
دنیا کی سیر کرتے ہوئے پاتا ہے۔ نظم ’پربت ‘ ملاحظہ ہو ؎
اجلی اجلی جھیل کو پہلو میں
رکھ کر
اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے اک پربت
اپنے آپ میں گم صم کھویا
کھویا سا
جانے کب سے بیٹھا ہے آئینہ
لیے
جانے کب سے جھیل بنی ہے آئینہ
جانے کتنے موسم آئے اور گئے
جھیل نہ جانے کب کب ابھری اور
چھلکی
کب کب سمٹی، سکڑی، تہہ میں
بیٹھ گئی
کتنے پودے نکلے، جھومے، سوکھ
گئے
کتنے پھول کھلے مرجھائے ٹوٹ
گئے
کتنے پنچھی آئے ٹھہرے لوٹ گئے
پربت سب سے بے پروا کھویا
کھویا
اجلی اجلی جھیل کو پہلو میں
رکھ کر
اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے کیوں اب
تک
(پربت)2
کائنات میں نئے معانی کی تلاش
علوی کا شعری رویہ ہے۔ان کا یہی رویہ ہمارے مشاہدے اور تجربے میں ایک عام اور
ناقابل التفات سی شے کی طرح بے جان پربت میں نئی روح پھونک دیتا ہے۔ محمد علوی
بظاہر روز مرہ کی باتوں میں کوئی ایسی بات نکال لیتے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا
ہے اور اس وقت احساس ہوتا ہے کہ ان کے تجربے نہ تو عام انسان کے ہیں اور نہ کسی
عام شاعر کے۔اس نظم میں بھی ان کا یہی طریق کار ہے ہم نے دیکھا کہ پھول کھلنا،
مرجھانا اور ٹوٹ جانا، پودوں کا نکلنا اور سوکھ جانا، پنچھیوں کا آنا اور لوٹ
جانا یہ سب بظاہر عام سے مشاہدات و تجربات ہیں لیکن اجلی جھیل کو پہلو میں رکھ
کراپنا چہرہ دیکھنا اور آخری مصرعے کے ’اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے کیوں اب تک‘ کے
انشائیہ لہجے نے نظم کو معنوی دبازت سے ہمکنار کیا ہے۔اس سوال میں ایسی معصومیت
اور تحیر درآیا ہے جو ان کا ہی خاصہ ہے۔محمود ہاشمی کے خیال میں:
رلکے
(Rilke)کی طرح محمد علوی
کا مقصود معصومیت کا تحفظ ہے جو آج کے آہنی اور ایٹمی عہد میں ریاکاری، عیاری،
قوت، سیاست اور مہیب و وحشت ناک ہوش مندی کی زد میں ہے۔۔۔زندگی کی سفاک قوتوں کی
دھوپ اور اپنے معصوم خوابوں کی تتلیوں کے درمیان ایک جدلیاتی رابطہ پیدا کرنا،
اپنے خارج کی زندگی اور داخلی احساس کے درمیان ایک رابطہ کو بحال کرنا، رلکے کے
بعد محمد علوی کا کارنامہ ہے۔ ’دھوپ اور تتلیوں‘ کی یہ علامت محمد علوی کی تیسری
کتاب میں غالباً سب سے زیادہ نمایاں اور تحرک خیز علامت ہے۔ یہ علامتیں کئی نظموں
اور غزلوں کے اشعار میں بار بار نمودار ہوتی ہیں۔3
محمد علوی کے یہاں استعارات و
تشبیہات کی کارفرمائی زیادہ نظر آتی ہے تاہم ان کی کچھ نظموں میں علامتوں کا بہت
کامیاب استعمال کیا گیا ہے۔ ان کی نظموں میں علامتوں کا دائرہ مختلف ہے۔ علوی
رومان، جنس اور نفسیاتی پیچیدگیوں کے اظہار کے لیے جو شعری انداز اختیار کرتے
ہیںاس میں فلسفہ و فکر کی گہرائیاں اور ماورائیت کے عناصر کم ہیںاور موجودہ زندگی
کے عام معمولات اور واقعات کے رخ پر ان کی معصوم مگر بیباک نظر زیادہ ٹھہری ہوئی
معلوم ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے علامات و استعارات کی نئی سمتیں ان کی نظموں میں
دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ علوی کے یہاں زندگی کا خوف ڈریکولا‘ کی علامت میں ظاہر
ہوتا ہے اور’ خوشبو ‘اور ’تتلی‘کی علامتوں میں حسن اور جنس کی لطافتوں کا اظہار
ملتا ہے۔صحرائی تمدن کی وحشیانہ حرکات اور رومانی، جبلی اور نفسیاتی کیفیات کی
جانب ان کا ذہن زیادہ فعال ہے۔ یہ وہ ذہن ہے جو انسان کے وضع کردہ تمام ضابطوں کا
منکر ہی نہیں بلکہ ان میں گھٹن محسوس کرتا اور اپنی نئی آزاد دنیا کا طالب ہے
جہاں فطرت کی حسین اور سادہ آغوش میں مصنوعی اصولوں کو توڑ کر وہ دلی اور روحانی
احساسات کا جواز پاسکے۔ روشنی، جزیرہ، جھیل، پہاڑ، پیڑ کی چھاؤں، بکری کا بچہ،
معصوم لڑکی کا میمنے کو گود میں لے کرچومنا، حبشی کا سیاہ بھالا، ریت، سراب، سرد
ہوا، راستے کا چراغ،۔۔۔ علامتوں میں علوی نے رومان، جنس اور زندگی و معاشرے کی
سنگینی اور اس کے کھوکھلے پن کو واضح کیا ہے۔ محمد علوی کی نظموں کو پڑھ کر یہ
احساس ہوتا ہے گویا شاعرنے کوشش اور زور کے بغیر بہت سہج اور آسان انداز میں شعر
کہہ دیا ہو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی شاعری کرنے کے لیے خاص مشق اور تفکر
درکار ہوتاہے۔ ایک نظم ملاحظہ ہو ؎
ایک آنکھ تھی/ آدھے لب تھے/ اور اک چوٹی لمبی سی/ ایک کان میں چمک رہی تھی/ چاند سی بالی پڑی ہوئی / ایک حنائی ہاتھ تھا جس میں/ لال کانچ کی چوڑی
تھی/ ایک گلی میں دروازے سے/ جھانک رہی
تھی اک لڑکی/ جانے کون گلی تھی اب میں/چھان رہا ہوں گلی گلی -تلاش- 4
بلراج کومل کو اس پیکر حسیں
میں امید کا چہرہ یا کوئی خواب گم گشتہ نظر آتا ہے۔ لکھتے ہیں:
یہ پیکر حسیں، یہ شبیہہ، یہ
بچھڑا ہوا چہرہ کھوئی ہوئی امید کا چہرہ ہے یا خواب ہے۔ بار بار علامتوں کا روپ
اختیار کرتا ہے کبھی کسی ننھے منے معصوم بچے کا، کبھی کاگا کا کبھی نیم وا دریچے
کا، کسی روزن کا اور کبھی اندیشے کا یعنی کالی بلی کا۔ یہ گڑیوں کا گھر جانے کب
منہدم ہوجائے۔ کالی بلی رات گئے جانے کس سے ملنے آجائے۔ محمد علوی کی اکثر نظموں
میں انہدام حسن و معصومیت کا خوف لرزاں ہے اور ان کا دل حسن و معصومیت کی عمر
جاوداں کے لیے دعائیں کرتا ہے۔ بچہ ان کے ہاں مستقل امید کی علامت ہے ؎
آج مگر اک نووارد/ بچے کا
رونا سن کر/ چونک پڑے دیوارودر/ جاگ اٹھا ہے گھر میرا
آخری دن کی تلاش اور تیسری
کتاب یقینا گھر آنگن کی بچھڑی ہوئی تفصیلات کا سفر نہیں۔ اس میں تجسس پر تفکر کا
سایہ پڑنے لگا ہے تاہم اس نظم میں موجود پیکر کو امید کا چہرہ کہنا یا امید کی
علامت کہناشاید اتنا برمحل نہ ہوگا۔ نظم میں واضح طور پر کسی گوشت پوست کے پیکر کے
لیے ایک ناسٹلجیائی کیفیت ملتی ہے۔علوی نے ’ہوا‘ اور ’خوشبو‘ کی علامتوں میں جنسی
جذبات اور رومانیت کے تیز بہاؤکو گرفت میں لیا ہے اور ’سورج‘ ’رات‘ اور موسموں کے
تغیرات میں جنگلی زندگی کے وحشی آداب اور شہری مصروفیات وغیرہ کو علامتوں کے
وسیلے سے محسوس کرایا ہے۔ علوی مظاہر فطرت اور اشیا کو ذی روح بنا دیتے ہیں۔ فطرت
کے مناظر میں اپنے جذبات کا عکس تلاش کرکے آہیں بھرنارومانی شعرا کی بہت پرانی
عادت ہے لیکن فطرت کو اور خارجی اشیا کوالگ اور منفرد وجود کی حیثیت سے، جیتے
جاگتے، سوچتے اور محسوس کرتے ہوئے دیکھنے اور دکھانے کا عمل علوی سے پہلے بہت
زیادہ نہیں ہوا ہے۔ساتھ ہی روزمرہ کی زندگی میں عمل دخل رکھنے والے حیوان ان کی
علامتی کائنات میں میں موجودہیں۔ ان علامتوں میں ارضیت اور زمانے کی موجودہ واقعیت
کے پیچیدہ اور ٹیڑھے ترچھے خیالات کا شعری اظہار نمایاں ہے۔ ایک اور نظم ’اب جدھر
بھی جاتے ہیں‘ ملاحظہ ہوں ؎
گائے بھینس کا ریوڑ/ اب ادھر
نہیں آتا/ اونٹ ٹیڑھا میڑھا سا/ اب نظر
نہیں آتا/ اب نہ گھوڑے ہاتھی ہیں/ اور نہ وہ براتی ہیں/ اب گلی میں کتوں کا/ بھونکنا نہیں ہوتا/ رات
چھت پہ سوتے ہیں/بھوت دیکھ کر کوئی/چونکنا نہیں ہوتا/ اب جدھر بھی جاتے ہیں/ آدمی کو پاتے ہیں- اب
جدھر بھی جاتے ہیں- 6
بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ آدم
بیزاری ہے لیکن درحقیقت یہ آدم بیزاری نہیں بلکہ زندگی سے معصومیت اور سچائی کے
ختم ہوجانے کا نوحہ ہے۔ گائے بھینس، اونٹ، گھوڑے، ہاتھی، کتے بھوت ان تمام اشیاکے
ساتھ وابستہ کشش اور تحیر صرف ایام طفلی سے ہی مخصوص نہیں بلکہ گاؤں کی سادہ اور
معصوم زندگی کا تصور بھی ابھرتا ہے۔یہ نظم محض بچپن کی معصومیت کے چھن جانے کا
نوحہ نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی معصومیت کے مسخ ہوجانے کا ماتم ہے۔ نظم کا
ڈھانچہ اتنا پیچیدہ نہیں لیکن اس نظم میں پیش کردہ تجربہ اس سے زیادہ پیچیدہ ہے
کیوں کہ معصومیت اور خدائی تقدس سے محرومی جو علوی کی نظم کا مضمون ہے، اس کا
اظہار کرنے کے لیے بچوں کے روزمرہ کے تجربے استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود
مجموعی تاثر صرف ایک بچے یا محمد علوی یا صرف قاری کی معصومیت کا زوال نہیں بلکہ
ہم سب کی معصومیت اور پھر تمام ابن آدم کی معصومیت کے زوال کی شکل میں ظاہر ہوتا
ہے۔ یہی اس نظم کی خوبی ہے۔شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں،’’ یہ نظم جو بظاہر محمد
علوی کے اس مانوس اسلوب میں معلوم ہوتی ہے جس کے بارے میں محمود ایاز نے کہا تھاکہ
محمد علوی بچوں کی طرح شاعری کرتے ہیں، بہ باطن پیچیدہ اور کئی حیثیتوں کی مالک
ہے۔ ان چیزوں کا انتخاب قابل غور ہے جن کا نہ ہونامعصومیت اور تحیر انگیز مسرت کے
زوال کی علامت ٹھیرایا گیا ہے۔‘‘7محمد علوی کی اس قسم کی نظموں میں’چابی کا
بھالو‘، ’کاٹھ کا گھوڑا‘، ’گھوڑے پر ایک لاش‘،’کون؟‘، ’یہ تتلی میری ہے‘ اور تتلی
وغیرہ بھی ایسی نظمیں ہیں جن کا علامتی لہجہ ان میں مفاہیم کی تہہ داری کا حامل
ہے۔
محمد علوی کے یہاںجانوروں کو
علامتی سطح پر برتنے کا شعور ملتا ہے۔ان کے یہاں ’چابی کا بھالو‘، ’کاٹھ کا
گھوڑا‘’مچھلی کی بو‘، ’چیل کا سایا‘، ’بند گھر اور چڑیا گھر‘، ’گھوڑے پر ایک
لاش‘اورجانوروں سے معذرت کے ساتھ( دس نظمیں) وغیرہ نظر آتی ہیں بلکہ صبح، شام اور
رات بھی ان کو جانوروں کی شکل میں ہی نظر آتے ہیں۔ صبح ان کے یہاں ایسی کالی بلی
ہے جو منھ میں اجلا کبوتر دبائے ہوئے ہے، دوپہر سوئیوں جیسے بالوں والی سورنی ہے
جب کہ رات سانپ یا سانپ کی پھنکار جیسی ہے۔ ان کے معاصرین میں یہ رجحان ساقی
فاروقی کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ ساقی کے یہاں بھی ’ایک کتا نظم‘،’خرگوش کی سرگزشت‘
اور ’خالی بورے میں زخمی بلا‘ جیسی اہم نظمیں ہیں جو بہائم کو علامتی سطح پر برتنے
کا تسلسل ہیں۔بہائم اور حیوان ہماری داستانوں اور اساطیر کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ جدید
نظم میں یہ بہائم اور داستانوی عناصر دراصل ذات کے وہ بھولے بسرے عناصر ہیںجن کا
اب تک انسان انکار کرتایا ان سے نظریں چراتا ہوا نظر آتا تھا۔ یہ ہمارے ادب کے
ڈسکورس میں اہم مقام پاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو ان کا مقصود یہ محسوس ہوتا ہے کہ
آدمی کے آدمی سے ڈر یعنی خود سے ڈر کو مٹایا جائے، آدمی کو اپنی تقدیر کو قبول
کرنے پرمادہ کیا جائے، آدمی کو اپنی فانی حیثیت سے، اپنے داخل میں مضمرسب نور وو
ظلمت، سب ملکوتی و ابلیسی عناصرکا سامنا کرنے کی جرأت دلائی جائے۔ ساقی فاروقی کی
نظم ’مردہ خانہ‘ میں ذات کا یہ فراموش کردہ حصہ لاش کی شکل میں سامنے آتا ہے جب
کہ محمد علوی کے یہاں ’ولف مین‘ کی شکل میں۔ ساقی کے یہاںلاش اگر آدمی کے بھولے
بسرے حصے کی علامت ہے محمد علوی کی اس نظم میں بھیڑیا، ذات کے ناپسندیدہ حصے کی
علامت ہے ؎
آدھی رات ہوئی/ اور پورا چاند
نکل آیا/سوتے میں/ ہونٹ چیر کے/ اس کے دانت بڑھے/ اور ناخن نکلے/ تیز، نکیلے، بڑے
بڑے!/ پھر سارے بدن پر/ بال ہی بال اگ
آئے!/گاؤں سے باہر جنگل میں/ بھڑیے مل کے چلائے!
وہ اپنے بستر سے اٹھ کر/کھڑکی
کود گیا!/ پاس کے گھر میں/ سوتے میں کوئی
بچہ چونک اٹھا!/ دور گلی کے نکڑ پر/ اک کتابھونک اٹھا!
پھر دور/ بہت ہی دور کہیں/ اک
چیخ سنائی دی!/ پھر اس کے خالی بستر میں/
اک لاش دکھائی دی/ پھر بادل گھر آئے/ اور
سارا منظر ڈوب گیا!
سورج نے آکر دیکھا تو/ خالی
بستر چمک رہا تھا/ گہری نیند میں/ وہ اپنے بستر سے نیچے لڑھک گیا تھا!- ولف مین- 8
بہ ظاہر نظم میں کایا کلپ کا
تھیم محسوس ہوتا ہے جسے کافکا نے پیش کیا ہے یا اردو میں انتظار حسین نے، تاہم
حقیقت میں یہ کایا کلپ نہیں، خواب ہے جو لاشعور میںپوشیدہ بہائم کی نمائندگی کرتا
ہے۔ بلاشبہ اسے جدید اردو نظم کی چند اچھی مثالوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ علوی
نے ڈرامائی مناظر کی تکنیک میں آدمی کے اندر سے بھیڑیے کے برآمد ہونے اور پھر
اندر ہی چھپ جانے کا موضوع پیش کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نظم کے آخر میں پہلے تین
مناظر کوایک فنتاسی قرار دیا گیا ہے۔ نظم کے متن سے ظاہر ہے کہ آدھی رات کو گہری
نیند میں، جب آدمی کے شعور کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو ا س کے اندر کا بھیڑیا
جاگتا ہے اور ان جارحانہ خواہشوں کی تسکین کرتا ہے، جنھیں وہ بیداری کی حالت میں
دبائے رکھتا ہے۔ یہ نظم آدمی کے یہاں ایک ناپسندیدہ حصے یا انا کی موجودگی کی
کہانی سناتی ہے، یعنی یہ بتاتی ہے کہ آدمی تضادات سے عبارت زندگی بسر کرتا ہے۔ ا
س کی رات اس کے دن سے قطعی مختلف ہے نیز یہ بھی بتاتی ہے کہ بھیڑیا خود آدمی کے
وجود میں ہی مضمر ہے۔ اور اس کے ہی جبڑے چیرکر برآمد ہوتا ہے۔ علوی کی نظم میں
آدمی بھیڑیے کو نظر انداز کرتا ہے جس کی وجہ سے منقسم زندگی بسر کرتا ہے۔ آدمی
اپنے اندر جن بھیڑیوں اور بہائم کو محسوس کرتا ہے، ان سب سے آدمی کا تعلق ہے کہ انھیں
آدمی نے خود یا اس کے ہم نفسوں نے پیدا کیا ہے۔ جن بہائم کو دوسرے لوگ یعنی سماج
و سیاست پیدا کرتے ہیں، وہ دوسرے آدمیوں کا ہی خون پیتے ہیںباہر کی دنیا یا
دوسروں کے پیدا کردہ ان بہائم سے آدمی تصادم کے ذریعے ہی نجات پاسکتا ہے، لیکن جن
بہائم کا تعلق لاشعور سے ہے انھیں قبول کرنے، ان کا سامنا کرنے سے آزادی و نجات
ملتی ہے اور محمد علوی اس نظم میں ان بہائم کا سامنا کرنا سکھاتے ہیں۔
معصومیت اورتحفظ کا متلاشی و
محافظ یہ شاعر جو لاشعور سے آنکھیں چار کرنے کا ہنر سکھاتارہا اور معصومیت و تحیر
کی تلاش و حفاطت میں تاعمر سرگرداں رہا بالآخرجنوری 2018 میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر خود کو تلاش کرنے کے
کار گراں سے نجات پاگیااور اس بھری پری کائنات کو تنہا چھوڑ کر اپنے آپ کے ہمراہ
دائمی سفر پر روانہ ہوگیا ؎
چلا جاؤں گا جیسے خود کو تنہا
چھوڑ کر علوی
میں اپنے آپ کو راتوں میں اٹھ
کے دیکھ لیتا ہوں
حواشی
1 محمد علوی، خالی مکان، بنگلور؛ مکتبہ سوغات، 1963، ص68
2 ایضاً، ص22
3 محمود ہاشمی،’ تتلیوں کا محافظ‘، محمد علوی ایک مطالعہ،
(مرتبہ کمار پاشی)، نئی دہلی؛ سطور پرکاشن، اساڑھ شک سنبت1900، ص 24)
4 محمد علوی، خالی مکان، ص17
5 بلراج کومل،’ معصومیت کا نقش نامہ‘ محمد علوی ایک
مطالعہ، مرتبہ کمار پاشی، ص62
6 محمد علوی، تیسری کتاب، نئی دہلی؛ شعور پبلی کیشنز،
1978، ص 215
7 شمس الرحمن فاروقی، ’محمد علوی: دوسرا ورق اور تیسری
کتاب‘، معرفت شعر نو، حیدرآباد؛ الانصار
پبلی کیشنز، 2010، ص 179
8 محمد علوی، تیسری
کتاب، ص153
Dr. Qamar Jahan
122, Block, Yamuna Hostel, JNU
New Delhi - 110067
Mob.: 9910360096
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں