اردو دنیا، نومبر 2024
ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی،
سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب سے عاری چہرہ رکھنے
والے ایک ایسے بلند حوصلہ انسان کا نام ہے جو ضلع گورکھپور کا افتخار ہے۔
جی ہاں! ظفر گورکھپوری کی ولادت 5 مئی 1935 کو ضلع
گورکھپور کی تحصیل بانس گاؤں کے ایک موضع بیدولی بابو میں ہوئی۔ گھرانہ امیر کبیر
نہ تھا۔ہاتھ کرگھے پر کپڑا بُننے والااور کاشتکاری کرنے والا ایک افلاس زدہ خاندان
تھا۔جہاں جہالت کی تاریکی کے ساتھ ساتھ مسائل کے بے شمار ایسے اندھے کنویں بھی
تھے،جنہیں تنہا پاٹنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی تھا۔غرض کہ کئی پُشتیں جیسے تیسے
زندگی کرکے انھیں کنوؤں کو اپنا آخری قیام گاہ بنایا اور اسی مٹّی تلے دب کر سو
رہے۔ لیکن ظفر صاحب کے والد ماجد جیسے تیسے زندگی گزارنے والوں میں سے نہیں تھے۔ کیونکہ
وہ بھلی بھانتی سمجھ چُکے تھے کہ بھوک جنم کی ہوک ہے۔ چنانچہ وہ مسائل کے اندھے
کنویں سے نجات چاہتے تھے۔کافی غور و خوض کے بعد انھوں نے اس اندھے کنویں کو خیر
باد کہہ دینے کی ٹھانی اور شہر کی جانب کوچ کرنے کا تہیہ کیا۔ گاؤں گِراؤں کے دو
ایک لوگ ممبئی میں چاکری کرتے تھے۔ اِن کی آس اور ممبئی شہر کی غریب پروری انہیں
ممبئی کھینچ لے گئی۔ہفتہ عشرہ ٹھاؤں ٹھاؤں بھٹکا کیے۔ کام تو بہتیرے تھے مگر من
بھاتے نہ تھے۔ یوں بھی بے دام کی غلامی انھیں پسند نہ تھی۔ بہرحال! کافی تگ و دَو
کے بعد کُرلا کی ایک کپڑا مِل میں بحیثیت بُنکر ملازمت طے ہوگئی۔
ظفر گورکھپوری کا بچپن گاؤں کے پُر فضا ماحول میں اٹکھیلیاں
کرتے، لہلہاتے کھیتوں میں جھومتے، ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر مٹر گشتی کرتے، ہر بھری
چراگاہوں میں گائے بکریوں کے درمیان قلانچیں بھرتے، انگڑائی لیتی ندی کے بدن پر
چھپاکے مارتے گزرا ہے۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی۔ اس زمانے میں مکتب
آبادی سے دور کسی گھنے درخت کے زیر سایہ ہوا کرتا تھا۔ اطراف کے دوسرے گاؤں کے
بھی بچے وہاں اِکٹھا ہوا کرتے تھے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ معلم کی خدمت بھی گویا نصاب
میں شامِل تھی۔ مثلاً اِن کی گائے بکریاں چرانا، اِن کے کھیتوں میں کام کرنا،جنگل
سے سوکھی لکڑیاں چننا،کھیتوں سے سبزی ترکاری لاکر پکانے میں مدد کرنا، کنویں سے
پانی کھینچنا وغیرہ... یہ تمام کام دوسرے طلبہ کی بہ نسبت ظفر گورکھپوری انتہائی
خوش دِلی سے بلکہ ایک اہم فریضہ سمجھ کر انجام دیا کرتے تھے۔ انھیں اپنے کھیتوں میں
بھی کام کرنے میں خاصا لطف آتا تھا۔ بالخصوص آب پاشی کے وقت کھیت میں کیاریاں
بنانا، کیاریوں کے درمیان نالیاں بنانااور کنویں پر چل رہے رہٹ پر بیلوں کو
ہانکنا۔ انھیں رہٹ کی پر لُطف آوازیں اور بیلوں کے گلے میں بندھے گھنگروؤں کی
چھم چھم بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔وہ اِن آوازوں سے اِس قدر محظوظ ہوتے کہ اکثر دنیا
و مافیہا سے بے خبر ہوجایا کرتے تھے۔
ظفر گورکھپوری کے ساتھ گاؤں میں رہنے والے غیر مسلموں
کے بچے بھی مکتب میں اردو کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ گاؤں کی فضا میں تعصب کی بادِ
سموم نہیں بلکہ یکجہتی اور بھائی چارگی کی پروائیاں بہا کرتی تھیں۔ ہندو، مسلم سبھی
مل جل کر رہا کرتے تھے۔ہولی،دیوالی، عید اور محرم ساتھ ساتھ منایا کرتے تھے۔ ظفر
گورکھپوری بھی اپنے ہم جولیوں کے ساتھ دیوالی پر دیپ جلاتے اور ہولی پر پھاگ گاتے
ہوئے گلال اڑاتے اور رنگ کھیلتے۔ غرض کہ گاؤں کے ملے جلے نفرت و تعصّب سے پاک
ماحول کا اِن کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا حصہ رہا ہے۔اسی باعث ان کا مزاج مشترکہ
تہذیب،یکجہتی اور انسانی قدروں کا دِلدادہ ہوتا گیا۔
ظفر گورکھپوری 1944میں ممبئی آئے۔تب سے دمِ آخر تک یہیں
رہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ انھوں نے گاؤں سے بالکل ہی رشتہ توڑ دیا تھا۔ گاؤں سے
وابستگی ہی کی خاطر انھوں نے شادی وہیں کی لڑکی سے کی۔ تاکہ اِس تعلق سے کبھی
کبھار آنا جانا ہوتا رہے۔ کہتے ہیں عورت عمر کی چاہے جس منزل پر ہو وہ سب کچھ
بھول سکتی ہے لیکن اپنا میکا یعنی بابل کا دیس نہیں بھولتی۔ اگرچہ ظفر گورکھپوری
مرد تھے لیکن عورتوں والی یہ خصلت ان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ وہ اپنے اجداد کے گھر کو، کھیت کھلیان کو کبھی
بھول نہ سکے وہ ممبئی کے شہری ماحول سے بیزار تھے۔ وہ یہاں سے رہائی چاہتے تھے۔
ہزارہا کوششوں کے باوجود وہ اِس زنداں سے آزاد نہ ہوسکے۔شاید اسی لیے کہا
تھا ؎
آدھی صدی سزا کی طرح کاٹ کے ظفر
اب بمبئی سے اُٹھ کے کدھر جائیے گا آپ
سالم تھا اپنے گاؤں کی کچّی سڑک پہ میں
ٹکڑوں میں کس نے بانٹ دیا بمبئی سے پوچھ
ٹکڑوں میں بٹ جانے کے باوجود اِن کے اندر جب کبھی گاؤں
کی مٹی کلبلاتی ہے تو وہ شدتِ غم سے بے ساختہ پُکار اُٹھتے ہیں ؎
ارے خاکِ وطن، او ارضِ گورکھپور کی مٹّی
مجھے پردیس کے غم سے چھڑا لیتی تو اچھا تھا
میں اک چلتا ہوا لاشہ ہوں اِن انجان گلیوں میں
کہ اِس لاشے کو چھاتی سے لگا لیتی تو اچھا تھا
ظفر گورکھپوری سرزمین کرلا سے تقریباً چالیس برس وابستہ
رہے۔ ثانوی تعلیم انجمن اسلام کرلا ہائی اسکول سے حاصل کی۔ جیسے تیسے آٹھویں
جماعت تک پہنچ پائے اور تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔چند سال یوں ہی بیکار بھٹکا کیے۔
پھر قصائی باڑہ،کُرلا مشرق کے میونسپل اسکول میں بطور چپراسی ملازمت اختیار کرلی۔ یہی
وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک شباب پر تھی۔ اس تحریک نے ظفر گورکھپوری کو کیفی
اعظمی اور سردار جعفری سے قریب کیا۔ ظفر گورکھپوری ہی کے ایما پر 1958میں ترقی
پسند مصنفین کی بنیادکرلا میں ڈالی گئی، اور انھیں سکریٹری کا عہدہ دیا گیا۔ ظفر
گورکھپوری اپنی ذمے داری انتہائی دیانت داری اور خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔ دوسرے
بہت سے شعرا ادبا کو اس انجمن سے جوڑا۔ ہفتہ عشرہ میں کسی نہ کسی کے مکان پر نشستیں
منعقد کرتے۔ اِن نشستوں میں کبھی مجروح سلطانپوری، کبھی سردار جعفری، کبھی مہندر
ناتھ تو کبھی کیفی اعظمی مہمانِ خصوصی ہوتے۔کیفی ظفر گورکھپوری کی اس کارکردگی سے
خوش تھے مگر انھیں جب یہ پتا چلا کہ ظفراسکول میں چپراسی کی حیثیت سے ملازم ہیں تو
انہیں کافی ملال ہوا۔ انہوں نے دوسرے ہی دن اپنے جیب خاص سے ظفر گورکھپوری کی فیس
جمع کروائی اور انھیں میٹرک امتحان کی تیاری کرنے کو کہا۔ ظفر نے جیسے تیسے میٹرک
امتحان پاس کرلیا۔غلام نبی خان ان دنوں کرلا کے کارپوریٹر ہوا کرتے تھے ان سے کیفی
صاحب نے سفارش کی اور ظفر گورکھپوری کو اسی اسکول میں بحیثیت مدرس لگوا دیا جس میں
وہ چپراسی تھے۔
ظفر گورکھپوری یوں تو پندرہ برس کی عمر سے ہی مصرعے
موزوں کرنے لگے تھے،لیکن باقاعدہ شاعری کی ابتدا 1952 میں کی۔ پہلا قابلِ قبول شعر
جو کہا تھا ملاحظہ فرمائیں ؎
ماہِ لقا یہ کیسا ہے اِضطراب تیرا
ڈھلتا ہی جارہا ہے کیونکر شباب تیرا
اس کے بعد تو انھوں نے بے شمار اشعار، نظمیں، غزلیں، گیت،
دوہے،نعت،حمد غرض کہ ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور کامیاب بھی رہے۔
ظفر گورکھپوری کا پہلا شعری مجموعہ ’تیشہ‘1962 میں شائع
ہوا۔ جس نے نوجوان لکھنے والوں کے ذہن پر خاصہ خوشگوار اثر مرتب کیا۔ نتیجتاً ایک
سہ ماہی میں پہلا ایڈیشن یعنی ہزار نسخے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ ہوتا بھی کیوں
نا؟ پانچ سو نسخوں کی قیمتیں پیشگی لے لی گئی تھیں اور انھیں ایک رسید عنایت کردی
گئی تھی کہ کتاب کی اشاعت کے بعد رسید دِکھانے پر کتاب کی وصولیابی ممکن ہوگی۔ یہ
عمل کامیاب ہوا۔ بعد کو دوسرے احباب اور اہلِ کُرلا نے بھی کتابیں خریدیں۔ اس دور
میں گھر گھر کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ عوام میں ادب فہمی تھی۔معاشرے میں شعر و ادب
کا ماحول تھا۔
فراق گورکھپوری نے ’تیشہ‘ کے تعلق سے لکھا تھا کہ ؎
’’ حال میں کوئی
مجموعہ ٔ نظم مشکل سے اتنا مقبول ہوا ہوگا جتنا کہ ’تیشہ‘۔اگر ہمارا مُلک اتنا
بدنصیب نہ ہوتا تو ’تیشہ‘ کی پچاسوں ہزار کاپیاں اہلِ ذوق کے ہاتھ میں ہوتیں۔ ’تیشہ‘
کی نظمیں فن کے معیار پر پوری اُترتی ہیں جسے پڑھ کر ہزارہا آدمیوں کے دِل کی چوٹیں
اُبھر آتی ہیں ۔‘‘
’تیشہ‘
کی مقبولیت نے ایک اثر یہ دِکھایا کہ کئی شاعر (خصوصاً کُرلا میں ) ظفر گورکھپوری
کے لہجے اور اسلوب کی نقل کرنے لگے۔ یہی نہیں بلکہ اِن کے افکار کے چراغوں سے اپنے
چراغ جلانے لگے۔میرے نزدیک یہ خوش آئند امر ہے ؎
کتنی صدیوں کی آگ میں تپ کر
تیری دہلیز تک میں آیا ہوں
ایک پرچھائیں، جس کا نام اُمید
ساتھ اپنے بچا کے لایا ہوں
’تیشہ
‘ کے بعد ’وادیِ سنگ ‘، گوکھرو کے پھول، چراغِ چشمِ تر،ناچ ری گڑیا(بچوں کے لیے)اور
زمین سے قریب شائع ہوئیں۔ ’چراغِ چشمِ تر ‘اِن کے جواں سال بیٹے جاوید ظفر کی موت
پر ایک بدنصیب باپ کی آہِ جگر سوز ہے۔روح کی ایک دِلدوز پکار ہے،شاعری نہیں۔
’چراغِ چشمِ تر‘ کے تعلق سے سردار جعفری نے لکھا ہے:
’’اس
سے پہلے کسی نے کسی کی موت پر ایسی خوبصورت کتاب نہیں لکھی۔خوبصورت اور اثر انگیز...
ظفر نے ذاتی غم کو کائناتی غم بنا دیا ہے۔یہی اچھی شاعری کی خصوصیت ہے۔ اس طرح درد
کا اظہار انسان کو درد سے بلند کردیتا ہے۔‘‘
ظفر گورکھپوری جھوٹ، منافقت،ریاکاری سے کافی حد تک
محفوظ تھے۔کسی کو گرا کر یا دھکیل کر آگے بڑھنے والی سیاست کے قطعی قائل نہیں
رہے۔مزاج درویشانہ تھا۔ سادگی اِن کی شخصیت کا خاص عنصر تھی۔ اِن کی سادگی سے
متاثر ہوکر کرناٹک کے ایک شاعر برق بنگلوری نے لکھا ہے:
’’ظفر
گورکھپوری جیسے قد آوار شاعر کی سادگی دیکھ کر میں حیران رہ گیا‘‘
واقعی انھیں اچھے لباس یا سوٹ بوٹ کی زیبائش کا قطعی
شوق نہیں تھا... نمائش سے تو گناہ کی حد تک پرہیز رکھتے تھے۔بڑی بڑی فلمی اور غیر
فلمی پارٹیوں میں نہایت سادگی کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔پتلون بشرٹ یا کُرتا پاجامہ
پاؤں میں سادی چپل بس!۔ ان کی اس سادگی کے کارن لوگ باگ اِن سے بلا تکلف اپنی پریشانیاں،
دکھ تکلیف بیان کردیتے تھے اور وہ کافی حد تک اِن کی پریشانیوں کو رفع کرنے کی
کوشش بھی کرتے تھے۔ظفر گورکھپوری کی شاعری سے بہت سی سیاسی شخصیتیں بھی متاثر تھیں۔
اسی وجہ سے ہر کس وناکس کا کام وہ بڑی آسانی سے کروادیتے تھے۔ان کی اسی مقبولیت
نے انھیں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کے کوٹے سے محض دس فیصد رقم کی ادائیگی میں شہر
کے مہنگے اور پوش علاقے میں ایک شاندار فلیٹ کا مالک بنا دیا۔جس میں وہ اپنی آخری
سانس تک قیام پذیر رہے۔
کرلا مغرب میں محمود درّانی چوک کے بنیاد گزاروں میں
ظفر گورکھپوری سرفہرست رہے۔ پائپ روڈ،کرلا میں ایک چال کا نام ’اردو باغ ‘ رکھوایا۔
کرلا میں رہنے بسنے والے بہت سے احباب کے کئی سیاسی معاملات حل کروائے۔ میونسپل
اسکولوں کے بہت سے ٹیچروں کے مسائل کا ازالہ کروایا۔ اِن کے اِس طرح کے کاموں کا
ہدیہ محض آدھا کپ چائے،ایک پناما سگریٹ اور ایک پان ہوا کرتا تھا۔
کرلا اور اطراف کے بہت سے شعرا فلموں میں نغمہ نگاری کے
لیے جدوجہد کیا کرتے تھے۔ لیکن ظفر گورکھپوری نے کبھی اس جانب توجہ نہیں کی باوجود
اس کے موسیقار اور فلمساز اِن کے پاس چلے آتے اور اپنی فلم میں نغمہ لکھنے کی
گزارش کرتے۔ظفر صاحب ایسے میں اُن شعرا کا نام تجویز کرتے جو فلموں میں نغمہ نگاری
کے لیے در در بھٹکا کرتے تھے، کافی منّت سماجت کے بعد اگر راضی ہوتے تو پہلے فلم کی
کہانی سنتے۔کہانی لائقِ قدر ہوتی تب سچویشن پوچھتے۔پھر دوسرے دِن اُنہیں بُلواکر گیت
اُن کے حوالے کردیتے۔ ہاں ! معاوضے کے معاملے میں رعایت بالکل نہ کرتے۔گزشتہ صدی کی
11 ستمبر 1995کو پلس چینل کے ’سنگیت ستارہ‘ پروگرام میں دورانِ انٹر ویو جب اِن سے
پوچھا گیا کہ فلموں میں بھر پور پیسہ ملتا ہے اِس کے باوجود آپ فلموں کو وقت کم دیتے
ہیں ؟ جواب میں انھوں نے کہا تھا۔’’دُنیا میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں۔دِل کا سکون بھی
کوئی چیز ہے۔‘‘
فلموں سے کہیں زیادہ مقبولیت انھیں غزل سنگرس سے ملی۔پنکج
اُدھاس، انوپ جلوٹا، جگجیت سنگھ چترا سنگھ، بھوپیندر سنگھ،پیناز مسانی وغیرہ نے
اِن کی کئی غزلیں گائیں جو مشہور بھی ہوئیں۔ غزلوں سے قبل قوالوں نے بھی ان کے
کلام خوب گائے۔ ان کے کلام آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے
بہت سے ممالک میں مقبول ہیں۔ اتنی شہرت کے باوجود تکبر اِن کے پاس سے بھی نہیں
گزراتھا۔
ظفر گورکھپوری نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ کرلا،ممبئی کی
جھوپڑ پٹیوں میں گزارا۔ عمر کے آخری ایام میں قسمت نے اندھیری (مغرب) کے پوش
کالونی میں ایک عالیشان فلیٹ عطا کردیا تھا۔یہ فلیٹ کافی قیمتی اور کشادہ تھاتاہم
وہ اس سے مطمئن نہیں تھے۔وہ فلیٹوں کو ایک ایسے خوبصورت مقبرے کے مشابہ سمجھتے تھے،جہاں
زندگی تو ہے لیکن بے کیف ! بے رنگ !! کیونکہ فلیٹوں کے دروازے ہمہ وقت بند رہتے ہیں۔
یہاں پڑوسیوں کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ آدمی اپنے فلیٹ میں داخل ہوتا ہے اور
دروازہ بند۔ یعنی آدمی گھر کا قیدی ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ اکثر مجھ سے کہتے تھے۔’’ یار!
ممبئی میں میر ے نصیب میں گھر کہاں ؟ گھر تو میں گاؤں میں چھوڑ آیا، جہاں سردیوں
کی نرم دھوپ میں گھر کے باہر پوال پر بیٹھ کر بھنے ہوئے مٹر چبانے اور گنے کا رس پینے
کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ملتا تھا۔‘‘
ظفر گورکھپوری ہندوستانی کلچر اور ہندوستانی مزاج کے
شاعر تھے۔ ہندوستان کی مٹی اِن کی شخصیت اور شاعری دونوں میں مہک رہی ہے۔ اس تعلق
سے ڈاکٹر افضال الدین خان (ریڈر گورکھپور یونیورسٹی) نے لکھا تھاکہ ’’ ظفر کی شاعری
گاؤں اور شہر کے درمیان بس جانے والے فرد کی شاعری ہے۔ گاؤں جس کا احساس اُردو
غزل میں نہیں کے برابر ہے،ظفر صاحب کی شاعری میں ایک بڑا اور مستقل موضوع بن کر
سامنے آیا ہے۔یہ ظفر کے لیے نہیں،اردو شاعری کے لیے بھی نیک فال ہے‘‘۔
ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی بھی ظفر گورکھپوری کی شاعری میں
ہندوستانی مٹی کی مہک سے متاثر ہوکر بے ساختہ کہتی ہیں۔
’’ظفر
وہ شاعر ہیں جن کے لفظ لفظ میں ہندوستان کی مٹّی کی بو آتی ہے۔‘‘
بے شک ظفر گورکھپوری جاں نثار اختر کے بعد وہ واحد شاعر
تھے، جنھوں نے ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ جدید شاعری سے لفظ و خیال کا رشتہ جوڑ
کر اردو شاعری کو مخصوص اِزم سے نکال کر خالص ہندوستانی فضا اور ہندوستانی دھرتی
پر لانے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ وہ زندگی کی سچائیوں کے شاعر
تھے۔اس لیے اِن کی شاعری بھی سچ کی طرح ہمیشہ زندہ جاوید رہے گی،اور انھیں بھی
فراق گورکھپوری کی مانند گورکھپور کا اعتبار سمجھا جائے گا۔آج ان کی غیر موجودگی
کانوں میں سر گوشی کرتی معلوم ہورہی ہے،ایسا گمان ہوتا ہے گویا کہہ رہی ہو ؎
گاؤں،گلی،یہ کُنج،یہ سائے کل سپنے ہوجائیں گے
پل بھر اِن سے لپٹ کر رولیں،رُک جا گاڑی بان تنِک
اِس میں میری ماں کے ہاتھ مہکتے ہیں
رہنے دے مٹی کا غازہ میرے ساتھ
Ishtiyaque Saeed
B-01, New Mira Paradise
Geeta Nagar Phase-2
Mira Road-401107 (Thane) (MS)
Cell. : 9930211461
ishtiyaquesaeed@rediffmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں