کسی بھی علمی و ادبی اشاعتی
ادارے کے معیار اور وقار کا اندازہ اس کی مطبوعات سے بھی لگایا جاتا ہے۔
موضوعات کا انتخاب اس میں خاص اہمیت کا
حامل ہوتا ہے کہ جن موضوعات پر کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ موجودہ دور میں اہمیت اور
معنویت کیا ہے اور ان کتابوں کی علمی معتبریت اور حوالہ جاتی حیثیت ہے یا نہیں۔
مقام شکر ہے کہ قومی اردو کونسل نے موضوعاتی اعتبار سے بہت سی اہم کتابیں شائع کی
ہیں جن کی دستاویزی، حوالہ جاتی اور علمی و ادبی حیثیت بھی ہے۔ قومی اردو کونسل کا
اشاعتی کردار قابل ستائش ہے کہ بہت سی نئی جہتوں پر مبنی کتابیں اس ادارے سے شائع
ہوئی ہیں۔ راسخ عظیم آبادی پر یہ کتاب بھی اسی نوعیت کی ہے۔
راسخ عظیم آبادی کی شخصیت بہت
عظیم ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ان کے حوالے سے کوئی ایسا مبسوط اور مربوط تنقیدی یا
تحقیقی مقالہ شائع نہیں ہوا ہے جس میں ان کی شخصیت و فن کے تمام پہلوؤں کا
بالاستیعاب احاطہ کیا گیا ہو۔ راسخ عظیم آبادی پر پروفیسر لطف الرحمن، حمید عظیم آبادی، ڈاکٹر ممتاز احمد، ڈاکٹر
شکیب ایاز کی کتابیں موجود ہیں اور کچھ مقالے بھی اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ اس کے
باوجود راسخ عظیم آبادی جیسی متنوع شّخصیت پر ایک کتاب کی ضرورت تھی جس کی تکمیل
ثاقب فریدی جیسے نوجوان ناقد اور محقق نے کی ہے۔
’راسخ عظیم آبادی کلاسیکیت، شعریت اور انفرادیت‘ کے
عنوان سے شائع یہ کتاب 11 ابواب پر محیط ہے۔ پہلے باب میں ’راسخ کے سوانحی حالات‘
پر مبسوط گفتگو کی گئی ہے اور اس ذیل میں پیدائش، خاندان، اساتذہ، اسفار اور
تلامذہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ باب اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں تذکروں کے حوالے
سے ان کی شخصیت کے کچھ نقوش پیش کیے گئے ہیں جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ
اتنی عظیم شخصیت کے تعلق سے تذکرو ںمیں بھی عدم توجہی برتی گئی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے
معاصرین نے جو تذکرے مرتب کیے ان میں بھی راسخ کو نظرانداز کیا گیا۔ نواب علی
ابراہیم خاں نے ’گلزارِ ابراہیم‘ میں ہم وطن معاصر ہونے کے باوجود ان کا ذکر نہیں
کیا۔ اسی طرح شورش جو راسخ کے ہم وطن ہیں انھوں نے بھی اپنے تذکرے میں اتنا لکھا
کہ وہ نو مشق شاعرہیں۔ ’تذکرہ گلشن ہند‘ میں بھی راسخ کا ذکر موجود نہیں ہے مگر
گلشن بے خزاں(قطب الدین باطن)، گلشن بے خار(نواب مصطفی خاں شیفتہ)، تذکرہ خوش معرکہ
زیبا (سعادت خاں ناصر)، تذکرہ عشقی (شیخ محمد وجیہ الدین عشقی عظیم آبادی)، مدائح
الشعرا (عنایت حسین خان بہادر مہجور)، تذکرہ سخن شعرا (عبدالغفور نساخ)، خمخانہ
جاوید (لالہ سری رام)، گل رعنا (مولوی عبدالحی)، آبِ حیات (مولانا محمد حسین
آزاد)، جواہر سخن (مبین کیفی چریاکوٹی)، یادگار شعرا (طفیل احمد) میں ان کا
اجمالی ذکر ہے۔ بہار میں شعر و ادب سے
متعلق لکھی گئی کچھ کتابوں میں ان کا ذکر ضرور شامل ہے مگر راسخ کی زندگی کے بارے
میں مکمل معلومات نہیں مل پاتی ہے۔ ثاقب فریدی نے اس باب میں ان کے سوانحی کوائف
کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور تلامذہ کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ اساتذہ میں شاہ رکن
الدین عشق، مرزا شرر، نورالحق طپاں
پھلواروی،مرزا سودا وغیرہ کے نام ملتے ہیں لیکن ثاقب فریدی نے لکھا ہے کہ صرف مرزا
فدوی اور میر ہی راسخ کے اساتذہ ہیں۔ تلامذہ کے ذیل میں انھوں نے 8نام لکھے
ہیں جن سے شاید زیادہ لوگ واقف نہیں ہیں۔
دوسرے باب کا عنوان ’راسخ کے
عہد میں عظیم آباد‘ ہے۔ اس میں انھوں نے ایسے 28حضرات کا ذکر کیا ہے جو راسخ کی
پیدائش کے وقت زندہ تھے یا جنھوں نے راسخ کی وفات کے وقت تک شعرگوئی کا آغاز
کردیا تھا۔ ان میں میر محمد باقر حزیں، مہاراجہ رام نرائن موزوں، اشرف علی خاں
فغاں، ہیبت قلی خاں حسرت، محمد روشن جوشش، نواب علی خاں ابراہیم خلیل، مہاراجہ
کلیان سنگھ عاشق وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ انھوں نے ان تمام افراد کے شخصی اور
فنی امتیازات پر بھی اختصار سے گفتگو کی ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عظیم
آباد میں اس وقت شعر و ادب کی ایک خوبصورت کہکشاں تھی جن میں کئی بڑے اہم نام تھے
مگر ایک بڑا طبقہ ان کے کارناموں سے ابھی بھی ناواقف ہے۔
تیسرا باب ’راسخ کی غزل میں
تصوف‘ ہے جس میں ثاقب فریدی نے لکھا ہے کہ کہ راسخ کی غزل میں عشق حقیقی اور عشق
مجازی کے مضامین ہیں لیکن عشق مجازی کے بالمقابل عشق حقیقی کے مضامین کی کثرت ہے۔
انھوں نے اس ذیل میں ان کے کلام کے نمونے دیے ہیں اور ان کی تشریحات بھی پیش کی
ہیں جن سے ثاقب کی شعرفہمی کا بھی اندازہ ہوتا ہے مگراس طرح کی تشریحات کبھی کبھی قاری پر گراں گزرتی ہیں اور
براہِ راست شاعری سے لطف حاصل کرنے سے قاری محروم رہ جاتا ہے۔ وہ انہی معنیاتی
جہتوں میں الجھ جاتا ہے جو ایک شارح کے ذہن کی
زائیدہ ہوتی ہیں۔
چوتھے باب ’راسخ کی غزل میں
یاس اور قنوطیت‘ کے حوالے سے ثاقب نے مبسوط گفتگو کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ
راسخ کے پیش رو شعرا کے یہاں بھی قنوطیت کے مضامین ملتے ہیں اور خاص طور پر میر تو
ایک قنوطی شاعر کی حیثیت سے ہی مشہور ہیں۔ اس باب میں انھوں نے مختلف ذیلی عنوانات
کے تحت کلامِ راسخ سے ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے جس سے یاس اور قنوطیت کی
تصویریں سامنے آتی ہیں اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس مضمون کو راسخ نے عمدہ انداز
میں پیش کیا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے کلامِ راسخ کی تشریح کی ہے اور ان کے شعری
محاسن پر نظر بھی ڈالی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ثاقب فریدی کو علم بیان و بدیع
سے گہری دلچسپی ہے۔ اس لیے اس زاویے سے بھی انھوں نے شاعری کو پرکھنے کی کوشش کی
ہے ۔
پانچواں باب’راسخ کی غزل میں
عشق‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف نے پہلے
ہی جملے میں یہ واضح کردیا ہے کہ راسخ عظیم آبادی کی غزل کا عاشق میر کی غزل کے
عاشق سے مشابہ ہے اور یہ بھی تحریر کیا ہے کہ مضمون آفرینی اور معنی آفرینی کی
سطح پر میر اور راسخ میں فرق کیا جاسکتا ہے لیکن دونوں کی شعریات ایک ہے۔ تصورِ
عشق کے حوالے سے ثاقب فریدی نے راسخ کے کلام کا انتخاب بھی پیش کیا ہے اور ان کی
تشریح بھی کی ہے۔ خاص طور پر عشق کے جو اہم موضوعات ہیں مثلاً سوزشِ عشق، ہجر و
فراق، آہ و نالہ، گریہ وزاری، ضعف و ناتوانی ان عنوانات کے تحت بھی انھوں نے
کلامِ راسخ سے مثالیں پیش کی ہیں۔ ’تصور عشق‘ کے تعلق سے چند اشعار ملاحظہ
فرمائیں ؎
گرمی سے تپِ دل کی نہ ہم جل
بجھے اک بار
اس آگ نے رہ رہ کے ہمیں آہ
جلایا
ہوتی جو جسم و جاں میں جدائی
تو سہل تھی
اس رشک مہہ سے ہم کو فلک کیوں
جدا کیا
صبح تک رات اس قیامت کا سا
ہنگامہ رہا
میرے نالوں سے بہت رنجیدہ
ہمسائے ہوئے
گزرا تھا واں سے گریہ کناں میں
برنگ ابر
دامان دشت قیس کا اک عمر نم
رہا
باب ششم ’راسخ کی غزل کا
معشوق‘ کے تحت مصنف نے معشوق کے حسن ، معشوق کے چشم و ابرو، معشوق کے گیسو، معشوق
کی نزاکت، معشوق کی نگاہ، معشوق کا خرام، معشوق کی ادا، معشوق کی بے التفاتی،
معشوق کا ظلم، رقیب وغیرہ ذیلی عنوانات کے تحت بہت اچھی گفتگو کی ہے اور کلام راسخ
سے ان تمام عنوانات پر شعری شواہد بھی پیش کیے ہیں۔یہ باب بہت اہم ہے کہ غزل کے معشوق
کے حوالے سے ان سے قبل اور ان کے بعد بھی لکھا جاتا رہا ہے مگر راسخ کی غزل کا
معشوق دوسرے شاعروں سے الگ ہے۔ معشوق کے سراپے پر یہ شعر دیکھیے ؎
دیوانہ اب ایسے ہی پری چہرے کا
ہوں میں
جس کی کف پا چہرہ زیبائے پری
ہے
گیسو سے متعلق ایک شعر ملاحظہ
فرمائیں ؎
ہر شکن پر اس کے گیسو کا ہے اک
عالم جدا
جان دیتے ہیں ہزاروں مرغ دل اس
دام کا
باب ہفتم کا عنوان ہے’راسخ کی
غزل کی صنعتیں‘۔ یہ باب اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں ثاقب فریدی نے
راسخ کی غزل میں تلمیحات، تعلی، تشبیہ، مبالغہ، استعارہ، زبان و بیان کے تعلق سے
معروضی گفتگو کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ راسخ کی غزل میں جو تلمیحات ہیں ان کا
رشتہ بنیادی طور پر تصوف سے ہے۔ شیریں و کوہ کن، قیس و لیلیٰ، حضرت آدم، گریہ
یعقوب، قارون، دارا، سکندر، فریدوں، جمشید وغیرہ جیسی تلمیحات ان کے یہاں موجود
ہیں۔ تلمیح کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
کہتے ہیں مور نے وہ بار اٹھایا
جس کو
دوش پر عرش کے رکھتے تو نہ
حامل ہوتا
عاشقی میں گریہ یعقوب تب تھا
معتبر
ڈوب جاتا اس کا جب بیت حزن
کنعاں سمیت
اسی طرح انھوں نے تعلی کے
مضامین بھی باندھے ہیں اور اس طرح کے شعر بھی کہے ہیں ؎
سخن سنجان صاحب دل ہی قدر اس
کی سمجھتے ہیں
بدل ہے یہ میرا دیوان دیوان
نظیری کا
وہ بزم شعر کیا جس میں نہ
آویں حضرت راسخ
کہ آنا ان کا آنا ہے شفائی
کا نظیری کا
اور اس طرح دوسرے عنوانات کے
تحت بھی انھوں نے بڑی اچھی گفتگو کی ہے۔
باب ہشتم ’راسخ اور میر‘ اس
اعتبار سے قیمتی ہے کہ میر کو راسخ کا استاد بھی کہا جاتا ہے اور ان کی شاعری پر
ان کے اثرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ میر کی استادی کے تعلق سے کئی روایتیں ہیں۔ میر سے
شرف تلمذ حاصل ہے یا نہیں ۔ یہ بھی ایک بحث طلب موضوع ہے مگر اتنا طے ہے کہ راسخ
نے کلام میر سے استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راسخ کی غزلوں میں میر کا رنگ نظر
آتا ہے۔ثاقب فریدی نے اس باب میں زمین میر میں راسخ کی غزلیہ شاعری کے بہت عمدہ
نمونے پیش کیے ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ میر سے راسخ بہت قریب
ہیں۔
باب نہم ’راسخ کی قصیدہ نگاری‘
میں راسخ عظیم آبادی کے قصائد کا ذکر ہے۔ گو کہ راسخ کی بنیادی شناخت غزل گو اور
مثنوی نگار کی حیثیت سے ہے، مگر قصیدو ںمیں بھی انھوں نے طبع آزمائی کی ہے خاص
طور پر ان کے دیوان میں کئی مذہبی قصیدے ہیں اور کچھ درباری قصیدے بھی اور ان کے قصیدوں میں بھی غزل کی طرح روانی ہے مگرکہیں کہیں قصیدے کی زمین کی وجہ سے زبان ثقیل ہوگئی ہے۔
باب دہم’راسخ کی مثنویاں‘ میں
ثاقب فریدی نے راسخ عظیم آبادی کی مثنویوں کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور ان کی
مثنویوں کے موضوعات کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے: عشقیہ، ماحول و معاشرت، مدحیہ،
پند و نصائح۔ ثاقب نے راسخ اور میر کی مثنویوں میں مماثلت کے ساتھ ساتھ بنیادی فرق
کی بھی وضاحت کی ہے۔ جہاں تک راسخ کی مثنویوں کا سوال ہے تو ان کی مثنویوں کے
حوالے سے بہت اہم تحقیقی کام ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر ممتاز احمد نے ’مثنویاتِ
راسخ‘ کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا جس میں انھوں نے ان کی مثنویوں کا جائزہ
لیا ہے۔ راسخ کی جو مثنویاں بہت مشہور ہیں ان میں سبیل نجات، کشش عشق، نیرنگ محبت،
جذب عشق، شرح حال، عابد کہ دو زوجہ داشت، حسن و عشق، ناز و نیاز، اعجاز عشق،
نورالانظار، گنجینۂ حسن، مرأت الجمال، مکتوب الشوق شامل ہیں۔ ا س کے علاوہ انھوں
نے مدحیہ مثنویاں بھی لکھی ہیں جن پر ثاقب فریدی نے مبسوط نظرڈالی ہے اور ان
مثنویوں کے فنی اور اسلوبی امتیازات وغیرہ بھی بیان کیے ہیں۔
باب یازدہم ’راسخ کی مرثیہ
نگاری‘ ہے۔ ان کے دیوان میں بقول ’ثاقب فریدی‘ چار مرثیے شامل ہیں جن میں تین
مرثیے مسدس کے فارم میں ہیں اور ایک مرثیہ مثنوی کی ہیئت میں لکھا گیا ہے۔ مصنف نے
ان کی مرثیہ نگاری پر بھی عمدہ گفتگو کی ہے۔
راسخ عظیم آبادی جیسی شخصیت
پر ثاقب فریدی کی یہ کتاب اس لحاظ سے بہت اہم قرار پائے گی کہ یہ متن اساس مطالعے
پر مرکوز ہے۔ انھوں نے راسخ عظیم آبادی کے تخلیقی متون سے براہِ راست رشتہ قائم
کرکے راسخ کی شاعری کی انفرادیت و امتیازات کے نقوش تلاش کیے ہیں اور اس تنقیدی
اور تحقیقی مطالعے میں انھوں نے تجزیاتی طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ راسخ عظیم
آبادی پر یہ قیمتی اور مفید کتاب جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے ایک نوجوان
اسکالر کی علمی اور تحقیقی ریاضت کی ایک عمدہ مثال ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں