ہرخود نوشت سوانح حیات کی اپنی
ایک خاص ہئیت ہوتی ہے۔ مصنف اپنی داستانِ
حیات مخصوص ترتیب و تسلسل کے ساتھ خود نوشت میںمربوط انداز میں رقم کرنے کی سعی
کرتا ہے۔عام طور سے ابتدا میں مصنف اپنے خاندانی منظرنامے کو پیش کرتا ہے۔وہ اپنی
ولادت، بچپن کے اہم واقعات،بنیادی تعلیم و تربیت، نوجوانی کے دلچسپ قصے کہانیاں
اور دیگرذاتی واجتماعی اہمیت کے حامل واقعات، اپنے عہد کے عمومی احوال و عصری
افکارو رجحانات، اپنی معاشی تگ و دو سے متعلق اہم باتیںاور بعض دیگر ناقابلِ فرامو
ش حقائق اور متعلقہ افراد و ہمعصرمعاشرے
سے جُڑی ہوئی بنیادی معلومات،اپنے جذبات و خیالات و احساسات کا بیان اور اپنی
عمرعزیز کے ان ایام کا تذکرہ بھی صفحہ ٔ قرطاس پر منقش کرتا ہے، جن ایام میں کہ وہ
یہ آپ بیتی قلمبند کر رہا ہوتا ہے۔ قاری کو آپ بیتی کے مطالعے سے مصنف کے
خاندانی پس منظر سے لے کر اُس کی زندگی کے تادمِ تحریر تمام اہم واقعات و کیفیات
کا علم ہو جاتا ہے۔
اردو میں ہمیں ایسی بہت سی آپ
بیتیاں ملتی ہیں جن میں مصنف نے اپنی زندگی کے کسی مخصوص دور کو ہی پیش کیا مثلاََ
جہد ِ آزادی کے ضمن میں محض جیل میں قید و بند کی صعوبتوں ہی پر روشنی ڈالی گئی۔
ایسی محدود خودنوشتوں میں مولانا جعفر تھانیسری کی کتاب ’ کالا پانی ‘ اور حسرت موہانی کی آپ بیتی ’
قید فرنگ ‘ کے نام نمایاں ہیں۔ایسی
خودنوشتیں بھی مرتب ہوئی ہیں جنھیں خود مصنف نے نہیں بلکہ کسی اور شخص نے ترتیب
دیا ہو۔مصنف کے مکتوبات، مضامین، دیباچوں
یا مقدمات سے اخذ کر کے خودنوشت سوانح عمری کی شکل ترتیب دی گئی ہو،
ایسی سوانح عمریاں نہ صرف اُردو ہی میں بلکہ انگریزی اور دنیا کی دیگر
زبانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اُردو میں ایسی سوانح عمریوں کی مثالیں ’ مرزا غالب
کی آپ بیتی ‘ مرتبہ حفیظ بنارسی، ’ آپ بیتی :
رشید احمد صدیقی ‘ مرتبہ معین الرحمن اور ’ آزاد کی کہانی خود آزادکی
زبانی ‘ مرتبہ عبدالرزاق ملیح آبادی وغیرہ ہیں۔
آپ بیتی لکھتے وقت مصنف کو
بہت سی دشواریاں درپیش آتی ہیں جیسے خود اپنی انا کا احساس اور اپنے آپ سے محبت
کا جذبہ۔مصنف خوف ِ خلق کے سبب کئی ایسے واقعات و حالات کو تحریر کرنے سے گریز
کرتا ہے کہ جن کو پڑھنے کے بعد قارئین اُسے لعنت و ملامت کا نشانہ بنانے لگیں۔یہ
بات صحیح ہے کہ اپنا غم اوروں سے کہہ دینے سے ہلکا ہو جاتا ہے۔ مصنف اپنے تجربات و
محسوسات کو دوسروں کے سامنے پیش کر کے اپنے ذہنی تناؤ کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ ہر انسان میں اپنی زندگی
کے بُرے بھلے واقعات و تجربات دوسروں کے سامنے پیش کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ جب
یہ جذبہ قلم کار کے پاس شدت پکڑتا ہے تو اُسے خودنوشت سوانح حیات لکھنے کے لیے
اُکساتا ہے۔ مصنف اپنی ذات کا محاسبہ کرتا ہے اور اِس طرح وہ خود اپنی از سر ِ نو
دریافت بھی کر رہا ہوتا ہے۔ دیانت داری، خودشناسی، اظہار کی صلاحیت، انتخاب واقعات
وہ عوامل ہیں جو کسی بھی خودنوشت کو اعتبار بخشتے ہیں اور قاری اِنہی عوامل کی
کسوٹی پر آپ بیتی کی افہام و تفہیم کی سعی کرتا ہے۔
مصنف صداقت سے کتنا ہی کام لے
اور خودشناسی کا جذبہ اُس میں کتنا بھی موجود ہو اُس کی تحریر بے اثر رہے گی اگر
اُسے بیان پر قدرت حاصل نہ ہو۔ لہٰذا صداقت، خودشناسی اور انتخابِ
واقعات کے باوصف ایک خودنوشت سوانح نگار کے لیے اظہار و ابلاغ پر بھی مکمل
قدرت حاصل ہونا چاہیے۔ اِس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ خودنوشت نگار کے لیے اسلوب کی
دلکشی بھی بنیادی شرط ہے۔ اردو میں ایسی خودنوشت سوانحی کتابیں بھی ملتی ہیں جن
میں مصنف اپنے فن کی باریکیوں اور اسر ار و رموز کو پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے فن و
فلسفے کی گہرائیوں اور گیرائیوں کی وضاحت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص فن و
ہنر کے حوالے سے یا شعبہ ٔ حیات میں اپنے کارہائے نمایاں کا بیان شامل تحریر کرتا
ہے۔ایسی خودنوشتیں فنی خودنوشت سوانح عمریوں کے زمرے میں آتی ہیں۔
ہئیت کے نقطہ ٔ نظر سے اردو کے اہل ِ قلم نے منظوم خودنوشتیں
بھی قلمبند کی ہیں جن میں نمایاں نام حمایت علی شاعر اور رشیدہ عیاں کے ہیں،
جنھوںنے بالترتیب ’آئینہ در آئینہ ‘ اور ’ میری کہانی ‘ جیسے شاہکار خود نوشت
سوانحی فن پارے تخلیق کر کے فن ِ خودنوشت سوانح نگاری کے لیے نئی کسوٹیاں قائم
کیں۔ اُن کے علاوہ ادیب سہیل نے اپنی خودنوشت ’ غم ِزمانہ بھی سہل گزرا ‘ اور فضا
اعظمی نے ’ تیری شباہت کے دائرے میں ‘
لکھ کر اردو کی منظوم آپ بیتیوں میں اہم اضافہ کیا ہے۔ فضا
اعظمی نے اپنی ایک اور تخلیق ’
ڈوبتے جہاز کے عرشے پر ‘ کو بھی منظوم خودنوشت کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہاں یہ بات
قابل ِ ذکر ہے کہ اخترالایمان نے بھی اپنی سوانح حیات منظوم لکھنا شروع کی تھی
لیکن بعد میں انھوں نے نثر ہی میں لکھنا مناسب سمجھا جس کا ذکر انھوں نے اپنی
منثور خودنوشت ’ اِس آباد خرابے میں ‘
خاص طور پر کیا ہے۔
اُردو کے شعرا و ادبا نے اپنی داستان ِ زیست بیان کرنے کے لیے کہیں
قرۃ العین حیدر کی ناول نما سوانح حیات ’کار ِ جہا ں دراز ہے ‘ کے طرز پر شعور کی رَو کی تکنیک کا استعمال کیا
ہے۔ شعور کی رو کے مطابق تخلیقات میں ترتیب یا ربط کا ہونا ضروری نہیں بلکہ انسانی
شعور ایک سیال شے ہے جو منطقی ربط و ضبط کے بغیر زندگی کے ساتھ رواں دواں رہتا
ہے۔اردو میں قرۃالعین حیدر نے اس تکنیک کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ ناول ’آگ کا
دریا‘ میں استعمال کرنے کی سعی کی ہے۔ ان
کی خود نوشت ’ کار جہاں دراز ہے‘ میں بھی انھوں نے اس ہئیت کو اپنایا ہے۔ آپ بیتی
کے میدان میں ناول نما ہئیت اور فلسفیانہ
و اساطیری لب و لہجے میں اپنا فسانہ ٔ زندگی
پیش کر کے خودنوشت نگاری میں منفرد پیکر تراشی، ہئیتی تجربہ کاری اور جمالیاتی
اسلوب کا مظاہرہ جن دیگراہل قلم نے کیا ان میں’آشرم‘ کے مصنف پروفیسر شکیل
الرحمٰن کا نام بھی نمایاں ہے۔انھوں نے اس آپ بیتی میںاستعاراتی اور داستانوی
طرزِ نگارش اختیار کیا ہے۔ علمِ نفسیات
میںانسانی افکار و اعمال کو شعور سے زیادہ لا شعور کی پیداوار تسلیم کیا جاتا ہے
جس میں ترتیب و تہذیب اور ربط و ضبط نہیں پایا جاتا۔ علم نفسیات اور جمالیات کے
ماہرپروفیسر شکیل الرحمن نے شعوری طور پراپنی خودنوشت ’آشرم‘ میں اس تکنیک کا
ہئیتی نظریے سے تجربہ کیاہے۔ موصوف کی آپ بیتی
’آشرم ‘ ، قرۃ العین حیدر کی آپ بیتی ’کار ِ جہاں دراز ہے ‘ اور ’ ندا
فاضلی کی آپ بیتی ’ دیواروں کے بیچ ‘ کا
شمار ایسی ہی ادبی خودنوشت سوانحی کتب میں کیا جا سکتا ہے جو عام نہج سے ہٹ کرلکھی
گئیں اور جن میں ہئیتی تجربات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
خودنوشت سوانح حیات ’ آشرم‘
معروف ادیب و فنکار اور ماہرِ جمالیات پروفیسر شکیل الرحمن کی داستان ِ حیات ہے جو
1992 میں موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی نے شائع کی ہے۔شکیل الرحمن نے پٹنہ
یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ وہیں سے انھوں نے فرسٹ ڈوِیژن سے ایم اے کیا اور پھر اسی
یونیورسٹی سے انہیں ڈی لٹ کی ڈگری تفویض
کی گئی۔ ان کی پہلے اڑیسہ کے ضلع بھدرک
میں لیکچرر کے عہدے پر تقرری ہوئی۔اُس کے بعد آگے چل کر وہ کشمیر یونیورسٹی میں
اردو کے پروفیسر اورپھر صدر شعبہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ بہار کی متھلا
یونیورسٹی کے وائس چانسلربھی مقرر ہوئے۔
سیاسی میدان میں بھی مرکز میں وزیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
بقول حقانی القاسمی ’ شکیل الرحمن ان نقادوں میں سے ہیں جنھوں نے
تنقید کی نئی زمینوں کو دریافت کرکے ادب کو وسیع ترین آفاق عطا کیے۔ انھوں نے
اردو کو جمالیات کی اُس لہر سے آشنا کیا
جس کی بدولت اردو کو نئے افکار، اسالیب، تصورات او ر تخیلات نصیب ہوئے۔‘ آشرم کو نہ صرف ایک فرد کی داستان ِ حیات، ایک
خانوادے کا افسانہ اور ایک دور کی ادبی و ثقافتی فضا کا مرقع کہا جاتا ہے بلکہ اِس
خودنوشت سوانح عمری کی حیثیت غیر جانبداری اور دیانتداری سے تحریر کردہ دستاویز کی
ہے۔
یادداشت
نما کتاب ’ آشرم ‘ کو اُن کی خودنوشت سوانح بھی تسلیم کیاجا سکتا ہے، اگرچہ کہ اس
کا انداز بیان عام سوانحی ادب کے نہج سے ہٹ کر ہے۔ مصنف اس کتاب میںاپنے وجود کو
اپنی ذات سے الگ کر کے واقعات بیان کرتے ہیں۔ پروفیسر شکیل الرحمن نے اس خودنوشت
میں بنیادی طور پر1956 تک کے سوانحی حالات و کوائف کا محاسبہ کیا ہے، جبکہ اس کی
اشاعت 1992 میں ہوئی۔ یہاں انھوں نے روایتی انداز تحریر نہیں اپنایا ہے۔ حتیٰ کہ
کتاب میں نہ تو کوئی پیش لفظ ہے، نہ ہی کوئی دیباچہ یا عرض ِ حال، مگر انھوں نے
کتاب کی ابتدا میں مختصراََ ’انتساب‘ ضرور
شاملِ حال رکھا ہے۔ شکیل الرحمن کے تخلیقی
و جذباتی انداز ِ بیان اور استعاراتی لب و
لہجے کا احساس مندرجہ ذیل اقتباس سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو اس کتاب کے بلرب میں
شامل ہے۔ کتاب کے انتساب ہی میں وہ لکھتے ہیں :
’’اکثر چپکے سے نکل جاتا، اس درخت کو دیکھنے، اپنے پیارے
دوست سے باتیں کرنے کسی نہ کسی بہانے جاتا رہا، یہی دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ آم
کے اس خوبصورت درخت نے میرے نام کے پہلے حرف ’ ش ‘ کو اسی طرح سنبھالے رکھا
ہے ؎
پھر باغ اُجڑ نے لگا، درخت
کٹنے لگے
اور ایک دن جب اس باغ میں گیا
تو کانپ کر رہ گیا
میرا دوست کٹ کر زمین پر گرا
ہوا تھا
میرے نام کے پہلے حرف پر زمین
کی مٹی لگی ہوئی تھی
بے اختیار رو پڑا
جانے وہ درخت کتنے دن اُسی طرح
پڑا رہا
اور ایک دن جب ا ُسے دیکھنے
گیا تو دیکھا
اس کے کئی حصے کٹ کر الگ الگ
ہو گئے تھے
اور مزدور بیل گاڑی میں رکھ کر
انھیں لیے جا رہے تھے
مجھے اچانک
اپنی امّی کا جنازہ یاد آ گیا !‘‘
(آشرم، شکیل الرحمن، موڈرن پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی،
1992، صفحہ ٔ آخر } بلرب { )
ان کی اس خودنوشت سوانح حیات
میں انھوں نے اپنے احباب اور اساتذہ سے متعلق باتیں لکھی ہیں۔ اس میں انھوںنے
مہاتما گاندھی، راجندر پرشاد، ڈاکٹر سید محمود، فراق گورکھپوری، احتشام حسین،جمیل
مظہری، اختر اورینوی، ساحر لدھیانوی وغیرہ کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ انھوں نے
یہاںاپنے ملازم سکھاڑی اور دھوبی شکور تک کے احوال بیان کیے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف
ایک فرد کی سوانح حیات اور فلسفہ ٔ زندگی
کی کہانی بیا ن کرتی ہے بلکہ اس میں اپنے عہد کی ثقافتی و ادبی اقدار اور ماضی کی
حکایات و اساطیری نوعیت کے حوالے کی آمیزش و
عکاسی بھی کی ہے۔یہ خودنوشت سوانح حیات ہئیت کے لحاظ سے بڑی منفرد اور
مختلف ہے۔ ابتدأ میں انھوںنے زندگی سے متعلق مختلف افکار و خیالات اور فلسفوں پر
اپنے تاثرات، نکات اور نوٹس کی شکل میں درج کر دیے ہیں۔ یہ افکار و خیالات اور
فلسفیانہ نکات خالص ہندوستانی اساطیر کی افہام و تفہیم کے ساتھ عہد حاضر میں اُن
کے اطلاق کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ مثلاً وہ اس کتاب کے صفحہ پانچ پر اپنشد سے
’عدم ‘کا تصور اس طرح نقل کرتے ہیں :
ُُ ’’باپ نے بیٹے سے کہا
’’
اس درخت سے ایک پھل توڑ کر لا‘‘
بیٹا پھل لے آیا
’’
اسے توڑ کر دیکھو اس میں کیا
ہے ‘‘
’’
اس میں بیج ہیں‘‘
’’
ایک بیج توڑ کر بتائو اندر کیا
ہے ؟‘‘
’’
کچھ بھی نہیں ‘‘
’’
یہی کچھ نہیں، سب کچھ ہے، کچھ
نہیں، بیج ہے، حقیقت ہے سچائی ہے، بنیادی جوہر ہے، اِسی سے
اس درخت کا وجود قائم ہے ‘‘
(اپنشد)
(آشرم، شکیل الرحمن، موڈرن پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی،
1992، ص 5)
پروفیسر شکیل الرحمن نے مختلف
مذاہب اور فلسفوں کا خوب مطالعہ کیا ہے۔وہ مختلف فنون ِ لطیفہ سے گہری واقفیت
رکھتے تھے۔انھوں نے مختلف فنونِ لطیفہ کے جمالیاتی پہلوسے تشریح وتفسیر پیش کی۔
نروان کے فلسفے کو انھوںنے اپنی ذات کے اندر ہی جینے اور مرنے سے جوڑ دیا ہے۔
مسلسل سوچ وچار کرتے رہنے کے باعث اُن کا بنیادی مزاج تنہائی پسندبن چکا تھا۔
تنہائی پسندی کا بنیادی سبب، بچپن ہی میں ان کے والدین کی رحلت بھی رہا ہے۔ تین
چار برس کی عمر میں والدہ کا اور آٹھ برس کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا تھا۔
والدین کی شفقت و سرپرستی سے محرومی، دیگر اہل ِ خاندان کے خلوص و محبت سے پر نہیں
ہو سکتی تھی۔ لہٰذا ان کی حساس مزاجی و تنہائی پسندی ، تخیل پرستی و کم آمیزی میں
تبدیل ہو گئی۔ وہ لکھتے ہیں :
’’
تین چار سال کی عمر تھی کہ
اچانک اُس کی امّی کا انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ ہی دن پہلے وہ سخت بیمار ہوا تھا اور
اس کی امی نے اس کے سرہانے بیٹھ کر یہ دعا مانگی تھی۔ ’اللہ میرے بچے کو زندگی دے
دے۔ اس کے لیے چاہے مجھے اُٹھالے۔ یہ بات اسے خالہ امّا ںنے سنائی تھی۔ ہوا بھی
یہی،مرنے کے لیے وہ زندہ رہا اور اس کی امی اسے چھوڑ کر اچانک چلی گئیں۔ تب سے
اپنی زندگی میں ایک عجیب طرح کا خلامحسوس کرتا ہے۔اس عمر میں بھی جیسے وہ ممتا کے
آنچل کی تلاش میں ہے۔ وہ بچہ جو یتیم ہوا تھا غالباََ آج بھی اس کے وجود میں
کہیں چھپا بیٹھا ہے، جو کبھی کبھی اسے بے حد بے چین اور مضطرب کر دیتا ہے۔ ابو کے
گزر جانے کے بعد تو وہ بالکل تنہا ہو گیا۔ دونوں کی یادیں طرح طرح سے آنے لگیں۔
اکثر دونوں کو بہت قریب محسوس کرتا اور تنہائی میں ان سے باتیں کرتا۔ ‘‘ (ایضاً، ص 48)
والدین کی رحلت کا درد ان کی
رگ و پے میں تا حیات کے لیے سرایت کر گیا تھا اور اُن کے لا شعور کا حصہ بن
چکاتھا۔ اُن کا انداز ِ بیان تمثیلی ہے جس میں خود کلامی کا عنصر غالب ہے۔ وہ آم
اور ہار سنگھار کے درختوں، برف کی چوٹیوں اور موتی جھیل کے نظاروں، چڑیلوں، جنوں،
تصوراتی گھوڑوں اور اپنے استاد کے رسید کردہ تھپّڑ کے گہرے نقوش اپنے دل و دماغ
میں محفوظ پاتے ہیں۔ وہ ملی جلی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں
ان کی عقیدت مندی اور ہندو دیومالائی واقعات و کرداروں کے لیے تجسس و احترام انھیں
ورثے میں ملا تھا۔ ان کی اس خودنوشت کو بجا طور پر وجودیت کی نئی لہر قرار دیا جا
سکتا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد قاری ایک خاص قسم کے ادھورے پن کی کیفیت کو محسوس کر
سکتا ہے۔اس خالی پن کے گہرے احساس و پر تاثیر اظہار سے ہی اس خودنوشت کی قدر و
منزلت کا تعین ہوتا ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن نے اپنی
اس خودنوشت میں زندگی کے حقائق کو اشاراتی و استعاراتی پیکر عطا کیے ہیں۔ وہ مناظر
فطرت کو انسانی وجود کے ساتھ ہم آہنگ پاتے ہیں۔ جیسے درخت کو وہ اپنی والدہ کے
ساتھ مشابہت عطا کرتے ہیں اور قدیم تاریخی و مذہبی کرداروں مثلاً گوتم بدھ سے حضرت
نظام الدین اولیا، بلکہ عہد حاضر تک کے سلسلہ ٔ حیات کو ایک مسلسل شعور کی رو میں
پرونے کی سعی کرتے ہیں۔
اسی طرح پوری سوانح حیات میں
وہ زندگی کے مشاہدات و تجربات کو بیان کرتے ہوئے اکثر و بیشتر اپنے آپ کو ’ وہ‘
کہہ کر واقعہ بیان کرتے ہیں نا کہ ’ میں ‘ کہہ کر حقائق و حالات قلمبند کرتے ہیں۔اس
طرح انھوںنے اپنی روداد ِ حیات صیغہ ٔ واحد غائب میں پیش کی ہے۔ یہ وطیرہ ٔ نثر
نگاری آگے چل کر ندا فاضلی نے بھی اپنی خودنوشت سوانح عمری ’دیواروں کے بیچ‘ میں
اپنایا ہے۔ ’آشرم ‘ میں ہمیں استعاراتی اور داستانوی طرزِ تحریر کی جھلک بھی ملتی
ہے۔ پیشکش میں انھوں نے ڈرامائی تکنیک کا استعمال بھی خوب کیا ہے۔یہ آپ بیتی اُن
کے تخیل کی بلند پروازی کا مظہر ہے۔ان کی
تحریر میں شاعرانہ حلاوت نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ کہیں بھی اپنے معیار و مرتبے اور
حسن ِبیان سے غافل نہیں ہوتے۔ زندگی کے تجربات و احساسات کو انھوںنے جمالیاتی تقلیب
سے گزارنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ ہر جگہ انھوںنے آپ بیتی کی مروّجہ ہئیت کے بجائے
جدت و ندرت طرازی اختیار کی ہے جس کے باعث یہ خود نوشت جدیدیت کی تحریک اور ادب
برائے فن کے نظریے کا عجیب و غریب تجربہ کہی جا سکتی ہے۔ وہ اس خودنوشت کو ترتیب
دیتے وقت اپنی ڈائری سے بہت سی باتیں جوں کی توں درج کر دیتے ہیں مثلاً وہ تیس
مارچ 1974 کو اپنی ڈائری میں یوں لکھتے ہیں
؎
’’
میری زندگی میں جانے کتنے ایسے
لمحے آئے ہیں
جن لمحوں میں
میں نے خود کو بے حد اجنبی
پایا ہے
بھلا اُن کو میں نے
کب خلق کیا ؟
ایسے لمحے کہاں سے آتے ہیں
جو مجھے اچانک
اجنبی بنا دیتے ہیں ؟
(
ڈائری30، 74/3مطبوعہ)‘‘
(آشرم، شکیل الرحمن، موڈرن پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی،
1992،ص 13)
ان کی پیدائش 18فروری1931کو ہوئی تھی اور انتقال 9 مئی
2016کو ہوا۔ اس طرح انھوں نے 85 برس کی
عمر پائی تھی۔دیکھیے وہ کیسے اپنے آپ کے لیے تھرڈ پرسن کے جیسا رویّہ روا
رکھتے ہیں:
’’اِسی مٹی پر اُس کا جنم ہوا تھا
18 تاریخ تھی، فروری کا مہینہ تھا... اور سال 1931کا
!
صبح پانچ بجے !...
’ موتی ہاری ‘ اُس کے شہر کا نام ہے، ریاست بہار کے شمال میں، ضلع ’ چمپارن ‘
نیپال کی سرحد ہے۔ کہا جاتا ہے گوتم بدھ جب کپل وستو سے چلے تو اِس مقام پر بھی
رکے، کسی نے انہیں چمپا کا زرد خوشبو دار پھول پیش کیا اور پھر سارا علاقہ چمپا کے
مہکتے ہوئے زرد پھولوں سے لد گیا۔ اسی سے اِس کا نام ’’ چمپا۔رن ‘‘ ہوا۔
یعنی چمپا کے پھولوں کی
خوشبوؤں سے بھرا جنگل!
اسی مٹی نے اُسے دنیا کو
دیکھنے کے لیے آنکھیں بخشیں...‘‘(ایضاً، ص 18)
انھوں نے
اپنے وسیع مطالعے اور علم کے بحر بیکراں سے منتخبہ خیالات و افکار سے آپ بیتی کو
آراستہ و پیراستہ کر کے اِسے ایک جمالیاتی طرز ِ نگارش عطا کیا ہے۔ وہ مُلک میں
تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہ چکے تھے۔ جمالیات کے موضوع پر انھوںنے کئی
کتابیں لکھیں۔ 32 ابواب اور 275 صفحات پر مشتمل اُن کی اس خودنوشت سوانح حیات میں
جدید قسم کی ناول نما فضا پائی جاتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران، ہمیں شکیل
الرحمن اپنے مستحکم عزم و پیہم سعی کی قوّت سے زندگی کی تلخیوں اور آزمائشوں کا
بڑی حوصلہ مندی سے مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
شکیل الرحمن کے والد ایک معروف
وکیل تھے۔ آزادیِ وطن کی تحریک اور ملک کے دیگر مسائل سے خاطر خواہ واقف تھے۔
ڈاکٹر راجندر پرساد، ڈاکٹر شیامہ کانت ورما
اور بابو گنیشن وغیرہ سے اُن کے گہرے روابط تھے۔ خود شکیل الرحمن نے قومی
جلسوں میں شرکت کرنا شروع کر دیاتھا اور ملک کے اتحاد اور سا لمیت پر ولولہ انگیز تقریریں کرنے لگے تھے۔
آزادی کے قبل اور بعد میں فرقہ وارانہ فسادات ہر طرف ہونے لگے۔ لیکن موتی ہاری
میں لوگوں کی شعوری کوششوں کی بدولت کوئی فساد برپا نہیں ہوا۔ علاقے کے لوگ اور
عزیز و اقارب جب ہجرت کرنے لگے اور اُن سے بھی چلنے کے لیے مُصِر ہوئے تو انھوںنے
اپنے اقربأ کی جدائی کا غم برداشت کیا لیکن ملک چھوڑنے سے قطعیت کے ساتھ منع کر
دیا۔ فساد زدہ لوگوں کی مدد کی غرض سے انھوں نے رفیوجی کیمپوں میں ٹھہرے لوگوں کے
امدادی کاموں میں اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا۔
اس کتاب میں وہ اپنے والد ِ محترم سے متعلق اس طرح لکھتے ہیں
:
’’o۔۔
اس کے والد ’’ خان بہادر مولوی محمد خان ‘‘ کا شمار ریاست بہار کے معروف
ترین وکیلوں میں ہوتا تھا، چھپرہ سے موتی ہاری آ
بسے تھے، جب تک زندہ رہے، اپنے اقبال کی بلندی سے ہی پہچانے گئے۔ صوفیانہ
مزاج رکھتے تھے، آخری زمانے میں، انتقال سے کچھ عرصہ قبل، پھلواری شریف کے ایک
معروف صوفی بزرگ کے مرید ہو گئے تھے... وہ ایک پُروقار شخصیت کے مالک تھے، بڑی کشش
تھی اُن کی شخصیت میں، لوگ اُن کی جانب بس کھنچے چلے آتے، کم گو تھے، اپنی روشن
چمکتی ہوئی آنکھوں اور اپنی مسکراہٹوں سے بہت سی باتیں کہہ جاتے تھے...‘‘
(آشرم، شکیل الرحمن، موڈرن پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی،
1992، ص31)
وہ خودنوشت کے نویں باب کی
ابتدا اِن الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں :
’’
o اُس کے گھر کا ماحول صوفیانہ
رہا ہے۔ اُس کے والد پھلواری شریف کی خانقاہ سے وابستہ ہو گئے تھے، گھر پر عابدوں،
بزرگوں اور اللہ والوں کو آتے جاتے دیکھا کرتا، صوفی شعرأ کی کتابیں پڑھی جاتیں،
سماع کی محفلیں ہوتیں، جانے کہاں کہاں سے قوال آتے اور حق و مغفرت کے نغمے سناتے،
قوالی کی محفلیں بھی مقدس محفلوں جیسی ہوتیں...‘‘ (ایضاً، ص 80)
خودنوشت
میں اپنے وطن ِ عزیز ’موتی ہاری ‘ کے
ثقافتی، ادبی اور سیاسی منظر نامے کی تصویریں جھلکتی ہیں۔ اِس میں انھوں نے وہاں کی
معروف حویلی ’’ محمد جان منزل ‘‘ کی ثقافتی، ادبی و مذہبی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔
یہاں داستانِ امیر حمزہ اور طلسمِ ہوش ربا پڑھائی جاتی تھی۔ حویلی میں بچوں کے لیے
تعلیم و تربیت کا، میلاد شریف کی محفلوں کا،
محرم کی مجلسوں کا اور دیگر ادبی و علمی سرگرمیوں کا انعقاد ہوا کرتا
تھا۔اُنہوں نے یہاں کے مسلم گھرانوں میں خواتین کے مخصوص اعتقادات اور گھریلو زندگی
کا بھی مفصل حال بیان کیا ہے۔ آپ بیتی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے قدیم
داستانوں کو خوب پڑھا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے مولانا شبلی نعمانی، مولانا سید
سُلیمان ندوی اور مولانا ابو الکلام آزاد کی جملہ تصانیف کا گہرائی سے مطالعہ بھی
کیا تھا۔ موصوف نے کمیونسٹ ادب اور ترقی پسند تحریک کا بھی بھر پور جائزہ لیا تھا۔
وہ اپنی زندگی کے واقعات کو کہیں داستان ِ امیر حمزہ سے ملاتے ہیں تو کہیں سند باد
جہازی کے سفر سے جوڑ دیتے ہیں۔ تو کہیں وہ الف لیلہ ‘ کے مافوق الفطرت کرداروں سے
اپنی زندگی اور جذبات کو وابستہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح مصنف فینتاسی اور
حقیقت کو ایک دوسرے میں باہم پیوست کرنے کے ہنر سے اپنی واقفیت کا بھر پور مظاہرہ
بھی کرتے ہیں۔ اس بنا پر ان تحریروں میں پُر اسراریت کا سا ماحول اور داستانوی فضا
جھلکتی ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن کی
خودنوشت ’آشرم ‘ میں بے ساختگی کا فقدان
ہے۔ اُن کے وقیع افکار و خیالات کا پلڑا کتاب میں پیش کردہ زندگی کے سانحات اور
حقائق پر بھاری پڑتا ہے۔ لیکن یہی وصف اُن کی آپ بیتی کو منفرد ادبی مقام و مرتبہ
بھی عطا کرتا ہے۔ یہاںبچپن سے لڑکپن اور جوانی سے لے کر ساٹھ سال کی عمر تک کے
واقعات ہی کا انھوں نے احاطہ کیا ہے۔اِس طرح مصنف نے بنیادی طور پراِس میں 1954 تک
کے ادوار ِ زندگی کو شامل تحریر کیا ہے۔ یعنی مصنف کی باقی زندگی کے طویل حصے کو
جاننے کے لیے مزید ایک اور خودنوشت لکھی جانی چاہیے تھی۔اس لحاظ سے اسے ایک نا
مکمل خود نوشت سوانح حیات مانا جا سکتا ہے۔
مختصراً یہ کہ پروفیسر شکیل
الرحمن کی خود نوشت سوانح حیات ’ آشرم ‘
اپنی نوعیت کی ایک منفرد آپ بیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُنہیں اپنی زندگی کی
کہانی میں کوئی غیر معمولی بات محسوس نہیں ہوئی۔ یہ بات محض اُن کی فطرت کی انکساری
کا پتہ دیتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف نے نہایت کامیاب و کامران زندگی گزاری
اور تعلیم کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بھی فائز رہے اور سیاسی میدان میں بھی مرکزی
حکومت میں وزارت کے عہدے پر مامور رہے۔اب
تک اُن کی جمالیات، ادب، فنون ِ لطیفہ، رقص و موسیقی وغیرہ جیسے موضوعات پر کم و
بیش چالیس دقیق و عمیق اور بڑی معیاری کتابیں منظر ِ عام پر آ چکی ہیں،جن
میں’ہندوستان کا نظام جمال، امیر خسرو کی جمالیات، مولانا رومی کی جمالیات، ٖغالب
کی جمالیات،منٹو شناسی، مرزا غالب اور ہند
مغل جمالیات، فکشن کے فنکار پریم چند، ’
ہمزاد ، اخترالایمان : جمالیاتی
لیجینڈ،بے نام سمند ر کا سفر اور ابوالکلام آزاد نہایت مقبول ہوئیں۔ وہ ایک سنجیدہ طبع اور پرتکلف شخصیت کے حامل
تھے۔ انھوںنے اس خود نوشت میں اکثر و بیشتر مقامات پر اپنی ڈائری کے علاوہ تحریر
شدہ یادداشتی نوٹس سے بھی خوب کام لیا ہے۔ اس وجہ سے اس خودنوشت سوانحی کتاب میں
ایک خاص قسم کا ربط و تسلسل محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے سانحات و
واقعات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی بلکہ اپنی سعی ٔ پیہم، جذبات و احساسات کے
فنکارانہ اظہار اور اساطیری اندازِ بیان ہی کو مرکز و محور بنایا۔ اسی لیے وہ اپنے
آپ کو استعاراتی لہجے میں سند باد جہازی کہہ کر بھی مخاطب کرتے ہیں۔ اس میں انھوں
نے جا بجا تشبیہات و استعارات کا مؤثر استعمال کیا ہے۔ انھوںنے اپنی زندگی کی
کہانی بیک وقت جدیدیت و ماورائیت کی آمیزش کے ساتھ پیش کی ہے۔ قدیم ہندوستانی
اساطیراور مذ ہبی و روحانی اقدار اور جمالیاتی اسلوبِ نگارش کے ساتھ اپنے ذاتی
حالات و کوائف اور اپنے عہد کے سماجی و سیاسی افکار و اوصاف
کوہم آہنگ کرنے کی دلچسپ سعی کی ہے۔ انھوںنے آلودگی، فحاشی اور مبالغہ آرائی سے
مکمل طور پر اجتناب کیا ہے۔شاعرانہ لب و لہجہ، مفکرانہ نکات اور فلسفیانہ رموز کے
باوجود شکیل الرحمٰن کی خودنوشت ’آشرم‘ کو اپنی مخصوص ہئیتی تجربہ کاری، شفافیت
اور تاثیر جیسے اوصاف کی بدولت اردو ادب کی قابل ِ قدر تخلیق تسلیم کیا جاتا ہے
اور اس لحاظ سے بنیادی طور پر یہ خود نوشت، ادبی آپ بیتی میں شمار کی جاتی ہے۔
حوالہ جاتی کتب
.1 آشرم، شکیل الرحمن، موڈرن پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی، 1992
.2 اردو میں خودنوشت سوانح حیات، ڈاکٹر صبیحہ انور، نامی
پریس لکھنؤ، 1982
.3 دستاویز (کتابی
سلسلہ 4)، دوحہ / دہلی،2016
.4 انداز ِ بیاں (یک موضوعی مجلہ )، مدیر: حقانی القاسمی،
عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی،2016
Syed Wajahat Mazhar
T-116/1,2nd Floor
Main Market, Okhla Village
New Delhi-110025
Mob.: 7217718943
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں