ظفر احمد صدیقی کا شمارعہد
حاضر کے اہم محققین اوردانش وروں میں ہوتا ہے۔ عربی، فارسی ادبیات اوراردو زبان
وادب پر انھیں یکساں قدرت حاصل تھی۔عالم باعمل تھے، گفتگو کا انداز سلجھاہوا،مدلل
اورمنطقی تھا۔دوران گفتگو انھیں بھٹکتے /اٹکتے ہوئے شاذ ہی کبھی دیکھا گیا ہو۔ان
کی گفتگودریا کی مانند رواں دواں ہوتی تھی۔حافظہ بلا کا تھا اورمطالعہ کافی
وسیع یہی سبب ہے کہ شمس الرحمن فاروقی
جیسے قدآورعالم بھی عربی وفارسی علوم سے متعلق معاملات میں ان سے صلاح ومشورہ کیا
کرتے تھے۔فاروقی صاحب کو ظفر صاحب سے قلبی لگائو تھا۔محبت وشفقت سے اکثر انھیں
’مولوی‘ اورکبھی کبھی ’ظفر‘ کہہ کرپکاراکرتے تھے۔یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ ان کی
وفات کے صرف چار دن بعد، ظفر صاحب بھی اس دار فانی کو خیربادکہہ گئے۔ایک ماہ سے
تقریباً جواہر لال نہرو میڈیکل کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ میں ایڈمٹ
تھے۔ 29دسمبر 2020 کو دوپہر میں وہیں انتقال ہوا اور 30 دسمبر بروز بدھوار
یونیورسٹی قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
ظفر احمد صدیقی کا تعلق مشرقی
یوپی کے ایک قصبہ گھوسی، مئو کے محلہ ملک ٹولہ سے تھا۔یہیں پر 10 اگست 1955 میں پیدا
ہوئے، ندوۃ العلما لکھنؤ اور مظاہر علوم سہارنپور سے مذہبی علوم اورمشرقی فنو ن
کی تعلیم حاصل کی۔ فراغت کے بعد اپنا مستقل مسکن بنارس شہر کو بنایا۔ درس وتدریس
اورمذہبی علوم سے ذ ہنی مناسبت تھی۔اس لیے
جامعہ اسلامیہ، ریوڑی تالاب، بنارس سے منسلک ہوگئے اورقرآن وحدیث کے موضوعات پر
درس دینے لگے،لیکن طلب علم کی پیاس ابھی تک بجھی نہ تھی۔اس لیے شعبۂ اردو،بنارس
ہندو یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ بی۔ اے اورایم۔اے (اردو)امتیازی نمبرات سے پاس
ہوئے۔اس کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔موضوع: ’’شبلی کی علمی وادبی خدمات ‘‘طے
پایا اورحکم چند نیّر نگراں مقرر ہوئے،لیکن تحقیقی وتنقیدی مزاج حنیف احمدنقوی
(مرحوم)سے میل کھاتا تھا۔اس لیے موضوع سے متعلق صلاح ومشورہ زیادہ تر وہ نقوی
مرحوم سے ہی کیاکرتے تھے۔بعد میںیہ محبت عقیدت میں بدل گئی اورظفراحمد صاحب کا
شمار نقوی مرحوم کے لائق شاگردوںمیں ہونے لگا۔جلد بازی سے انھیں خدا واسطے کابیر
تھا۔ اس لیے اپنے شاگردوں کو بھی مطالعے کی ترغیب اورعجلت پسندی سے بچنے کا مشورہ
دیا کرتے تھے۔
شبلی کے محقق اورناقد کی حیثیت
سے علمی وادبی حلقوںمیں ان کا پہلا تعارف تھا۔ ارباب دارالمصنفین نے ابتداًان کی
تنقید کا برا مانا، لیکن تھوڑے ہی دنوںکے بعد ان کی شرافت، سنجیدگی اورعلمی دیو
قامتی کے وہ بھی مرید ہوگئے۔ظفراحمد صدیقی کے علمی اکتسابات پر روشنی ڈالتے ہوئے
پروفیسر قاضی جمال حسین لکھتے ہیںکہ :
’’پروفیسر ظفراحمد صدیقی کے علمی اکتسابات،سنجیدہ علمی
حلقوںمیں تعارف کے محتاج نہیں۔ علامہ شبلی پر ان کا تحقیقی کام اورنظم طباطبائی کی
شرح دیوان غالب پر ان کے عالمانہ حواشی،حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔علمی دیانت اور
اصابت رائے، ان کی تحریروں کی اہم خصوصیات ہیں۔ عربی اورفارسی ادب کے براہ راست
مطالعے کی وجہ سے زبان وبیان کے وسائل پر انھیں غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔‘‘
(ظفراحمدصدیقی،قصیدہ:اصل،ہیئت اورحدود(تاثرات،از:قاضی
جمال حسین) ص7، شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ2020)
’شبلی شناسی‘ کے علاوہ ظفر احمد صدیقی کا خاص میدان
کلاسیکی متون ہیں،جن کی درس وتدریس میں انھیں ایک خاص ملکہ حاصل
تھا۔قصیدہ،مثنوی،مرثیہ اورکلاسیکی غزلیات کے علاوہ غالب اوراقبال کے اردو اورفارسی
کلام کے وہ شناور تھے۔دوران تدریس ان کی گفتگو کا انداز ساحرانہ ہوتا تھا۔ ان کی
گفتگو بہت ہی مربوط،منظم،سلیس اوررواں ہوتی تھی۔ اشعار کی باریکیوںاورشعری محاسن
کو ظفر صاحب اس طرح بیان فرماتے تھے کہ طلبا کے ذہن پر نقش ہوجاتا تھا۔بعض ذہین
طلبا کو آج بھی ان کے پڑھائے ہوئے اسباق حرف بہ حرف یاد ہیں۔ظفراحمد صدیقی علامہ
اقبال کے اس مصرعے کا عملی نمونہ تھے۔ ع: ’نرم دم گفتگو،گرم دم جستجو‘
ظفراحمد صدیقی عربی وفارسی
تہذیب کے پروردہ اوراس کی تہذیب اورتصورات سے کما حقہ واقف تھے۔ نیز اس کا عکس بھی
ان کی تحریروںمیںبڑی حدتک نمایاں ہے۔دوسری طرف استقامت اورریاضت ان کی سرشت میں
شامل تھی۔یہی وجہ ہے کہ انھوںنے جس موضوع پر قلم اٹھایا، اس کا حق اداکردیا۔تحقیق
وتنقید جیسے خارزا ر میدان میں بھی، ان کے قلم کی جولانی قابل دید ہے۔ان کا انداز
بیان، مدلل، جامع اورعارفانہ ہے۔استدلالی اسلوب، سلاست اورروانی ان کی نثر کے خاص
جوہر ہیں۔ دقیق سے دقیق مسائل کو بھی وہ دلائل اورشگفتہ بیانی سے آسان فہم بنا
دیا کرتے تھے۔ان کی علمی وادبی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی رقم
طراز ہیں کہ:
’’عربی فارسی پڑھ لیناآسان ہے،لیکن عربی فارسی تہذیب
اورتصورات کو ذہن میںجذب کرلینا اوران کو اردو تنقید میں استعمال کرنا کہ انمل
اوربے جوڑ نہ معلوم ہو اوراس عظیم تسلسل کا احساس واضح ہوجو مشرقی ادبیات کا
سرمایہ ہے۔یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں … ظفراحمد صدیقی کی تحریریں عربی فارسی
تہذیب سے پوری طرح بہرہ ور ہیں،لیکن انھوںنے ان علوم کو تنگ نظری کی کوٹھری میں
نہیں،بلکہ تاریخی تسلسل کی خو ش گوار روشنی میں حاصل کیا ہے۔اسی طرح ان کا طریقۂ
کار بھی ادعائی نہیں،بلکہ تجزیاتی ہے۔‘‘
ظفراحمدصدیقی، تنقیدی معروضات
(سرنوشت، از:شمس الرحمن فاروقی) ص4،اسرارکریمی پریس،الہ آباد، دسمبر1983
سودا، نصرتی، ذوق، غالب، مومن،
محسن کاکوروی کے قصائد ہوں یا غزلیات یا کوئی اوردوسری صنف / موضوع، ظفراحمد صدیقی
ہمیشہ سنجیدہ اورعلمی انداز میں رواں گفتگو کرتے تھے۔نکتہ سنجی اورسخن فہمی میں وہ
کامل تھے۔
ظفراحمدصدیقی کاایک بڑااوراہم
علمی کارنامہ ’شرح دیوان اردوے غالب‘ از :سیدعلی حیدرنظم طباطبائی کی از سرنو
ترتیب وتدوین ہے۔یہ شرح پہلی مرتبہ مطبع مفید الاسلام، حیدرآباد سے سنہ 1900میں
شائع ہوئی تھی۔نیز غالب کے پورے کلام /متداول دیوان کی مکمل شرح ہے۔
نظم طباطبائی عربی وفارسی کے
متبحر عالم تھے۔علم بیان وبدیع پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔مذہبی علوم میں بھی انھیں
درک حاصل تھا۔شعری روایت اور اشعار کی باریکیوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔غالب
اورکلام غالب سے انھیں بڑی انسیت تھی۔ لہٰذا انھوںنے غالب کے متداول دیوان کی شرح
لکھنے کا ارادہ کیا اورکامران رہے۔اس میدان میں نظم طباطبائی کو کئی اعتبارسے
اولیت حاصل ہے،جس کا تفصیل سے ظفر احمد صاحب نے اس کتاب کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے۔
ظفر احمد صدیقی نے اس شرح کا
بالاستیعاب مطالعہ کیا اوردوسرے شارحین کی شرحوں کو سامنے رکھتے ہوئے تسامحات کی
نشان دہی کے علاوہ گراں قدر حواشی کااضافہ کیا۔طباطبائی کی اولیت،نکتہ سنجی اورسخن
فہمی پر روشنی ڈالتے ہوئے ظفراحمد صدیقی لکھتے ہیںکہ:
’’طباطبائی پہلے شخص ہیں،جنھوںنے غالب کے متداول دیوان کی
مکمل شرح لکھی ہے۔اس اولیت کے علاوہ کئی اورپہلوئوں کے لحاظ سے بھی یہ شرح اہمیت
کی حامل ہے۔ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ا س کے مصنف عربی وفارسی کے متبحر عالم
اوران دونوں زبانوںکی شعری روایت اوراصول نقد سے پوری طرح واقف تھے۔اس کے ساتھ ہی
نکتہ سنجی وسخن فہمی سے بھی انھیں بہرۂ وافر ملا تھا۔ اس لیے انھوںنے مشرقی شعر
یات کو ذہن میں رکھ کر یہ شرح تصنیف کی ہے۔نیز مختلف اشعار کی شرح کے دوران سخن
فہمی کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بے محل نہ ہوگی کہ مشرقی شعریات سے
واقفیت اوراس کے اطلاق وانطباق میں وہ بسا اوقات حالی وشبلی سے آگے نکل گئے ہیں۔‘‘
(ظفراحمدصدیقی(ترتیب وتدوین)شرح دیوان اردوئے غالب، از:
نظم طباطبائی،ص33، مکتبہ جامعہ، لمیٹڈ، نئی دہلی، 2012)
پروفیسرخالد محمود صاحب کے
الفاظ مستعارلیے جائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ ظفراحمد صدیقی نے نظم طباطبائی کے جن
امتیازات کا اوپر ذکر کیا ہے۔ وہ تمام بدرجۂ احسن موصوف کے اندر موجودتھیں،تو
مبالغہ نہ ہوگا!یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ بڑاکارنامہ انجام دیا اور’شرح دیوان
اردوے غالب‘، از:نظم طباطبائی کی ترتیب وتدوین کابیڑااٹھایا۔
ظفراحمدصدیقی نے تقریباًپچاس
صفحات پر مشتمل ایک طویل مقدمہ تحریر فرمایا ہے،جس میں اس شرح کی خوبیوں اور
خامیوں پر تفصیل سے بحث کی ہے۔نظم طباطبائی کی ذہانت،علمیت،شعرفہمی،معنی شناسی
اورشرح نگاری کے طریقۂ کار اورجہاں جہاں اختلاف کیا ہے،اس کی وجوہات اوراپنے
نظریے کی وضاحت بھی مقدمہ میں کردی ہے،تاکہ کسی طرح کا اشکال باقی نہ رہے۔
املا میں مرتب نے غالب کی
ترجیحات کو مقدم رکھا ہے اورجدید روش املا /کتابت کی پیروی کی ہے۔نیز املائے غالب
کے بارے میں رشیدحسن خاں کی تحریروں کو قابل اعتبار سمجھا ہے۔ ’شرح دیوان اردوے
غالب‘ از: نظم طباطبائی کے پہلے ایڈیشن میں عبارتوں میں پیراگراف کا خیال نہیں
رکھاگیا تھا۔ظفراحمد صاحب نے عبارتوںکو مضمون کے اعتبارسے تقسیم کیا اورکئی کئی
صفحات پر مشتمل عبارت کو بھی ٹکڑوںمیں بانٹا،تاکہ جدید اصول وضوابط کے مطابق عبارت
کی ترتیب ہوجائے۔ا س حوالے سے ظفراحمد صدیقی لکھتے ہیں کہ:
’’شرح طباطبائی میں اشعار کی طرح نثری اقتباسات بھی جا بہ
جانقل ہوئے ہیں،لیکن اس زمانے کے دستو ر کے مطابق پوری کتاب میں کہیں بھی جلد
وصفحہ،فصل وباب یا موضوع کا حوالہ مذکور نہیں۔اصول تدوین کے مطابق ان تمام اقتباسات
کا اصل ماخذ میں سراغ لگا کر مکمل حوالہ درج کردیا گیا ہے۔اگراقتباس اوراصل ماخذ
میں تفصیل واختصاریا کسی اور طرح کا فرق ہے تو اس کی نشان دہی کردی گئی ہے۔
شرح طباطبائی میں مختلف
مناسبتوں سے آیات قرآنی اوراحادیث نبوی اورروایات سیرت وتاریخ کے اقتباسات بھی نقل
ہوئے ہیں۔ان سب کی باقاعدہ تخریج کردی گئی ہے۔بعض اقوال جو حدیث کے طور پر منقول
ہیں،لیکن حدیث نہیں ہیں،ا ن کی حیثیت بھی متعین کردی گئی ہے۔‘‘
(ظفراحمدصدیقی(ترتیب وتدوین)شرح دیوان اردوے غالب،از: نظم
طباطبائی،ص64-65)
اشعار، اقتباسات، قرآنی
آیات، احادیث اور سیر وتواریخ کے حوالوں کی تخریج،اصل مآخذ کی نشان دہی اور
حواشی میں ان کی وضاحت جس باریکی سے ظفر احمد صدیقی نے کی ہے۔یہ ان ہی کا حصہ
تھا۔نیزحسب ضرورت دیوان غالب کی دوسری مختلف شرحوں کو بھی سامنے رکھا، تاکہ تجزیہ
وتقابل کے ذریعے درست نتائج برآمد ہوسکیں۔ ان کا یہ کارنامہ عظیم ہے۔
ظفراحمدصدیقی تقریباً چالیس
برس تک درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں، لیکن کبھی اس کی حرمت پر آنچ نہ
آنے دی۔اقبال، غالب وغیرہ کے علاوہ قصیدے کی تدریس سے انھیں خاص شغف تھا۔ ویسے
’قصیدہ: اصل،ہیئت اورحدود‘کے عنوان سے ان کا ایک مضمون نیا دور، لکھنؤ (اگست1979)
میں شائع ہوا تھا۔ علمی اورادبی حلقوںمیں اس مضمون کی خاطرخواہ پذیرائی بھی ہوئی
تھی۔اس کے بعد ظفراحمد صاحب اس موضوع اوراس کے متعلقات پر مسلسل غوروفکر کرتے
اورلکھتے رہے، جس کی شہادت ’’قصیدہ :اصل،ہیئت اور حدود‘‘ نامی کتاب ہے۔یہ کتاب
شعبۂ اردوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کی نگرانی میں2020میں شائع ہوئی۔ اس
کتاب کی عمدگی پرروشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر قاضی جمال حسین لکھتے ہیں کہ:
’’قصیدے کے موضوع پر ظفر احمدصدیقی کی پیش نظر کتاب زبان
وبیان کی صحت کے ساتھ ہی معیاری تحقیق کی عمدہ کاوش بھی ہے۔اس کتاب میں مصنف نے
قصیدہ کے بنیادی مآخذ سے بحث کی ہے اوراس صنف کی روایت کا عالمانہ اسلوب میں
تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ قصیدے کی صنفی خصوصیات…اردو کے منتخب قصائد کی تشریح وتعبیر
نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔‘‘
(ظفراحمدصدیقی، قصیدہ: اصل، ہیئت اور حدود (تاثرات، از:
قاضی جمال حسین)ص7)
ظفراحمد صدیقی کی یہ کتاب
اساتذہ اورطلبا کے لیے کئی اعتبار سے مفید ہے۔انھوںنے نہ صرف قصیدے کی تعریف،
تاریخ اوربنیادی مآخذ پر تحقیقی گفتگو کی ہے، بلکہ بعض منتخب قصائد کے متون کی
تشریح وتعبیر بھی کی ہے۔ نیز بعض قصیدہ شناسوں کے علمی کارنامے کا بیان بھی اس
کتاب میں موجود ہے۔اشاعت ثانی میں سودا کے ’قصیدہ لامیہ ‘کی شرح کے اضافے کا ارادہ
بھی رکھتے تھے،لیکن مرگِ ناگہانی نے موقع نہ دیا۔اردوقصائد سے دلچسپی رکھنے والوں
کے لیے یہ کتاب گراں قدر اور ظفر احمد صاحب
کا آخری تحفہ ہے!
ظفراحمدصدیقی کی شخصیت معاصرین
میں کئی اعتبار سے ممتاز ہے۔ وہ عالم بے بدل،متین وحلیم اورنفاست پسند تھے۔تحقیق
وتنقید کے دوران تغافل اورتساہلی کو ناقابل معافی جرم سمجھتے تھے۔ان کے علمی وادبی
اکتسابات کے اعتراف کے لیے کئی کتابیں درکار ہیں۔ان کا اس طرح اچانک رخصت
ہوجانا،اردو زبان وادب کا بڑا خسارہ ہے۔فارسی وعربی ادبیات کے ایسے غواص اب خال ہی
خال نظرآتے ہیں۔ع:خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را!
n
Dr. Mohd Akhtar
Dept of Urdu, Vasanta College for Women
Rajghat
Varanasi - 221001 (UP)
Email.: akhtarvcr@gmail.com
Mob.: 9793857521
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں