22/2/21

حنیف ترین: تیری یاد کی ہنستی رم جھم ہر سو گونجتی رہتی ہے - مضمون نگار: محمد اسلام خان

 




ڈاکٹرحنیف ترین کو بہت قریب سے مجھے دیکھنے اورسمجھنے کاموقع ملا۔ ان کے دل میں انسانیت کے لیے بہت جگہ تھی، وہ لوگوں کے درد پرتڑپ اٹھتے اور اس کے ازالے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ ان کی یہی دردمندی اور خلوص ان کی شاعری میں بھی ہے۔ ڈاکٹر حنیف ترین مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح عزیزرکھتے اور میری چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھتے۔ ان کی محبتیں اورشفقتیں مجھے ہمیشہ حاصل رہیں۔اس لیے ان کی ’لوح تربت‘ پر محبت اور عقیدت کے پھول نچھاور کرناضروری خیال کرتا ہوں۔

ڈاکٹر حنیف ترین ایک سال سے زیادہ عرصے سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے، مگر شعروسخن سے تعلق خاطر اور خوداعتمادی کے سبب ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اس کو مات دے دیں گے اور صحت یاب ہوکر جلدی ہی دہلی لوٹ آئیں گے۔ آپریشن کے بعد تبدیلیِ آب و ہوا کی غرض سے وہ کشمیرچلے گئے تھے۔لیکن وہ وہاں بھی مجھے نہیں بھولے۔ مرض کی شدت کی وجہ سے بات چیت ضرور کم ہوگئی تھی لیکن جب بھی وہ آرام محسوس کرتے، فون کرتے اور مجھے یہ احساس دلاتے کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گے ۔ لیکن جب مرض شدت اختیار کرجاتا توان کی حالت دیدنی ہوتی۔مگر اس کے باوجود بھی وہ اپنوں کو نہیں بھولتے۔ ایک دن تو انھوں نے اسپتال سے ہی مجھے فون کیا لیکن شدید نقاہت کی وجہ سے صرف’کیسے ہو‘کہہ کر فون رکھ دیا۔ ان کی تکلیف کی شدت کو محسوس کرکے میرا دل ملول ہوگیااوراس کیفیت سے نکلنے میں مجھے بہت وقت لگا۔

کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ یہ خدشہ لاحق رہتا کہ ڈاکٹرحنیف ترین سے متعلق کوئی منحوس خبرنہ آجائے، مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ 3دسمبر کو بیماری نے ان پرجان لیواحملہ کیا اور پھر اس کے بعد وہ جاں برنہ ہوسکے۔عینی شاہدین کے مطابق جسم سے جان کا رشتہ منقطع ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی اور ان کا پیکر خاکی خاموش تھا اور اس طرح سماجی انصاف اورفلاح وبہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہنے والے ڈاکٹر حنیف ترین کی روح کوقرار آگیا۔

3 دسمبر کو علی الصباح ان کے بیٹے یاسرخان نے ڈاکٹر حنیف ترین کی موت کی اطلاع دی تواس روح فرسا خبر سے میری ذات میں ایک اندھیرا سا چھا گیا اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ میراوجود منجمد ہوگیاہے۔میں اس کیفیت سے بہت دیر تک دوچار رہا۔ حنیف ترین کی شفقت سے محرومی اورجدائی کے احساس نے مجھے نڈھال کردیااور دل میںبار بار یہ خیال آ رہاتھا کہ کاش کوئی اس منحوس خبر کی تردید کردے۔ میرتقی میر کا یہ شعر اس کیفیت کاصحیح ترجمان معلوم ہوتا ہے         ؎

قافلہ قافلہ جاتے ہیں چلے کیا کیا لوگ

میر غفلت زدہ حیران سے کیا بیٹھے ہیں

دہلی جیسے بھاگم بھاگ اورمصروف ترین شہر میںحنیف ترین کی شخصیت میرے لیے ایک شجرسایہ دار کی حیثیت رکھتی تھی، لیکن موت نے میرے سر سے ان کا سایہ چھین لیا۔ مفادپرستی اور حرص وہوس کے اس ماحول میں ڈاکٹر حنیف ترین جیسی بے غرض اور بے لوث شخصیت کا ملنا بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر حنیف ترین کی موت سے حلقہ احباب میں ایک خاموشی ہے۔ مگرجب حالات بدلیں گے اور محفلیں دوبارہ آراستہ ہوں گی، کیا ڈاکٹرحنیف ترین کی وہ کھنک دار شعری آواز ہمیں سننے کو ملے گی!

ڈاکٹرحنیف ترین سے میرے تعلقات دس برسوں پر محیط ہیں۔ان سے میری پہلی ملاقات غالباً 2010 میںاس وقت ہوئی تھی، جب وہ اپنے شعری مجموعہ ’لالہ صحرائی‘کی اشاعت میں مصروف تھے۔ ان کے والہانہ انداز اور خلوص کی وجہ سے میں پہلی ملاقات میں ہی اُن کا گرویدہ ہوگیا۔ ان کی شخصیت اور ان کے اخلاق وکردار کا عکس میرے دل و دماغ پر نقش ہوگیا۔ رفتہ رفتہ میرے تعلقات بڑھتے گئے اور اس طرح مجھے ان کی ذاتی زندگی کو بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔اسی ربط خاص کی وجہ سے میں نے ان پرلکھے گئے مضامین کویکجا کرنے کاارادہ کیا، جو ابھی حال ہی میں’تنقید بھی، تحسین بھی‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ یہ کام ان کی زندگی میں شروع ہواتھااور زیادہ ترموادموصوف کی زندگی میں ہی جمع بھی کر لیے گئے تھے کہ اسی دوران وہ علیل ہوکر کشمیر چلے گئے۔ٹیلی فون پر ان سے باتیںہوتی رہیں، خبر خیریت ملتی رہی ۔ مگران کی ناگہانی وفات کے بعد بہ عجلت تمام کتاب کی اشاعت کویقینی بنانے کی سعی کی گئی۔کاش یہ کتاب ان کی زندگی میں آجاتی تو انھیں بے انتہا مسرت ہوتی!

ڈاکٹر حنیف ترین مجھ سے بھائی کی طرح محبت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی ان کے مزاج کی گرمی اور میرے دماغ کی تندی جب یکجا ہوجاتی تو سماں ہی کچھ اور ہوتا۔ وہ ناراض ہوتے تو میں بھی بگڑ جاتا۔کبھی کبھی تلخی اس قدر بڑھ جاتی کہ بیچ بچاؤ کے لیے ان کے بیٹے کو آناپڑتا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب ان کا غصہ زائل ہوتا تو وہ پھر پہلے ہی کی طرح شفقت سے پیش آتے اور محبت و اپنائیت کا اظہار کرتے، جو ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ اب اس بات کو یادکرتاہوں تو مجھے اپنے اس عمل پرندامت ہوتی ہے کہ ٹوٹ کر چاہنے والے ایک انسان پر میں اس قدر کیسے برہم ہوسکتاتھا!جب کہ ان کی خفگی میں بھی ایک اپنائیت ہوتی تھی اور میں غصے کی شدت کی وجہ سے ان کی محبت کی تپش کو محسوس نہیں کرپاتا تھا۔ اب جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیںہیں تو ان کی محبت وشفقت کامجھے شدید احساس ہوتا ہے۔مجھ میں اور ڈاکٹر حنیف ترین میں مزاج کے اعتبار سے بڑی حدتک یکسانیت اور مماثلت تھی۔وہ بھی لاگ لپٹ کے عادی نہیں تھے اور میں بھی دوٹوک انداز میں بات کرنا پسند کرتا ہوں۔وہ بہت خوددارانسان تھے اورعزت نفس کو کوئی للکارے مجھے بھی قطعی برداشت نہیں۔ ایک بار ان کے کسی دوست نے مجھے فون کیا اورسخت لہجے میں بات کی، جواباً میں نے بھی ان کو سخت سست کہا۔ جب میری ملاقات ڈاکٹر حنیف ترین سے ہوئی تو وہ میرے اس عمل پربجائے ناراض ہونے کے ،خوشی کااظہار کیا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ مجھے ایساہی آدمی پسندہے، تم نے ٹھیک کیا۔ ان کی ہمت کیسے ہوئی تمھیں سخت سست کہنے کی۔

 ڈاکٹر حنیف ترین کامجھ سے بے حدلگاؤ تھامگریہ معاملہ کوئی میرے ساتھ ہی خاص نہیں تھا،وہ ٹوٹ کر چاہنے والے اور محبت کرنے والے انسان تھے، جس سے بھی ان کی رسم و راہ ہوجاتی، اس کے لیے وہ دل نکال کر رکھ دیتے۔ بغض و کینہ ان کی شخصیت سے کوسوںدورتھے۔ اگروقتی طور پروہ کسی سے ناراض بھی ہوجاتے تو بہت جلداس کو بھلا کردوست بھی بن جاتے۔ میری اس بات کی تائید ان سے قریب رہنے والے لوگ کریں گے ۔

حنیف ترین ایک علمی وادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔شروع سے ہی ادب کی طرف ان کا میلان تھا اوراسی وجہ سے غیرادبی اورغیرتخلیقی شعبے سے وابستگی کے باوجود ادب سے ان کا بہت گہرا اور مضبوط رشتہ رہا، اس رشتے میں کسی طرح کی منفعت اور نہ ہی کسی طرح کا مفاد ان کے پیش نظر تھا۔ وہ اپنے مصروف ترین پیشے سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی شعر وادب کے لیے خاصا وقت نکال لیتے تھے بلکہ یوں کہاجائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ اکثراپنے تخلیقی عمل میں اپنے پروفیشن تک کوبھی فراموش کر جاتے تھے۔انہوں نے اپنے پیشے کی وجہ سے بہت سے ملکوں کا سفربھی کیااور بہت سے علاقوں سے ان کا ذہنی اورجذباتی رشتہ رہا اوران علاقوں کی تہذیب وثقافت، زبان وادب سے بھی ان کی آشنائی رہی۔ وہاں کے شب و روز میں وہ شامل رہے۔ مختلف علاقوں کے لوگوںکے جذبات و احساسات کو انھوں نے قریب سے محسوس کیا۔اس طرح وہ زندگی کے مختلف تجربات ومشاہدات سے گزرے اوریہی تجربات و مشاہدات ان کی شاعری کی اساس بنے۔

حنیف ترین نے نظمیہ اور غزلیہ دونوں طرح کی شاعری کی ہے اور دونوں میں دور جدید کے مسائل اور متعلقات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اس میں انہوں نے اپنے قاری کو مکمل ذہنی اور جذباتی طورپر شریک کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

حنیف ترین کی بیشتر نظمیں احتجاج کے ساتھ انسان دوستی کی بہترین مثال ہیں، کیونکہ بنیادی طور پر وہ امن پسند اور انسانیت پرست ہیں، اسی لیے انسانیت کے خلاف جہاں بھی بربریت کا ننگاناچ ہوتاہے، ان کی شعری زبان خاموش نہیں رہتی بلکہ بلند آواز میں احتجاج کرنے لگتی ہے۔

حنیف ترین نے غزلیں بھی کہی ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’رباب صحرا‘ غزلوں پر ہی مشتمل تھا اور اس میں انہوں نے غزلیہ شاعری کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں،مگر وہ صرف روایتی غزلیہ شاعری میں ہی محصورنہیں رہے بلکہ انھوں نے ’کشت غزل نما‘کے ذریعے ’غزل نما‘کا بھی تجربہ کیا۔یہاں بھی انھوں نے اپنی جدتِ طبع کے جوہر دکھائے ہیں۔

حنیف ترین نے صحرائے عرب کی تمازتوں میں بھی اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ہیں اور ان تمازتوں نے ان کے جذبات میں شدت پیداکی ہے اور ان کے ایمانی جذبے کو بھی متحرک اور رواں کیا ہے۔اسی لیے ان کی شاعری میں اسلامی تلمیحات اورعربی استعارات کثرت سے ملتے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’میں نے زلزال کو لفظوں میں اُتر کر دیکھا‘اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔

ڈاکٹر حنیف ترین نے جس عہد اور ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں وہ یقینا ادبی ماحول تھا اور انھیں بچپن ہی سے ادب سے لگاؤتھا۔ ان کے حلقہ احباب میں زیادہ تر ادب نواز تھے اور ان کے خانوادے میں بھی علم وادب سے جڑی ہوئی اہم شخصیات تھیں۔یہ تمام عوامل شعروادب سے لگاؤ اور تخلیقی عمل کامحرک بنے۔

ڈاکٹرحنیف ترین کی پیدائش اترپردیش کے مردم خیزخطہ سنبھل میں ہوئی۔ ان کی بنیادی تعلیم جماعت اسلامی ہند کے معروف ادارہ ’درس گاہ اسلامی، رام پور ‘سے ہوئی۔ پھر علی گڑھ منٹوسرکل اسکول سے انھوں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے کشمیر کا رخ کیا اوریہاں سے میڈیکل کی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ سے ایم ڈی کیا۔ 1983میں ملازمت کے لیے سعودی عرب چلے گئے اورتقریباًتین دہائی کے بعد وہیں کے شمال سرحدی علاقہ ’عرعر‘کے ’پرائمری ہیلتھ کئیر‘میں بطورڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

ڈاکٹرحنیف ترین کے ادبی سفر کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔وہ کشمیرمیں اپنے زمانۂ طالب علمی میں ہی ’آل انڈیاریڈیو‘ کے پروگراموں میں شرکت کرنے لگے تھے۔اپنے کلام سے وہ سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میںنہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ ان سے داد و تحسین بھی حاصل کی۔ سامعین کے پیار نے انھیں حوصلہ بخشا اور پھر باقاعدہ شاعری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سعودی عرب کے قیام کے دوران پاکستان کے معیاری اور مؤقررسائل وجرائد میں ان کی تخلیقات اہتمام کے ساتھ شائع ہونے لگیں،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کوپاکستانی سمجھتے رہے لیکن ان کی تخلیقات کی اشاعت کا سلسلہ صرف پاکستان اورہندوستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے اردو رسائل وجرائد میں جاری رہا اور کثرت اشاعت اورکلام کی خوبی نے ایک بڑے حلقے کو ان کا گرویدہ بنادیا۔

حنیف ترین اردوزبان کے شیدائی تھے۔ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔سعودی میں قیام کے دوران وہ ہفتہ وار اورماہانہ نشستوں کااہتمام کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوںنے ’عرعر‘ میں اردو کی کوچنگ بھی شروع کررکھی تھی، جس کے لیے وہ اپنے ذاتی اخراجات پراردو کتابوں اوراسٹیشنری کاانتظام کرتے اور اردو سے نابلد لوگوں کواردوزبان سکھانے اور پڑھانے کے لیے استادمقرر کررکھے تھے اورانھیں معقول اعزازیہ بھی دیتے رہے۔ سعودی عرب سے ہندوستان منتقل ہونے کے بعد بھی اردوسے محبت کایہ سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے دہلی میں اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے بہت سی محفلیں اور مشاعرے منعقدکیے۔

حنیف ترین نے کئی تصنیفات بطوریادگارچھوڑی ہیں جن میں رباب صحرا (1992) ، کتاب صحرا (1995)، کشت غزل نما (1999)،   زمین لاپتہ رہی (2001) ،  ابابیلیں نہیں آئیں(2004) ، میں نے زلزال کو لفظوں میں اُتر کردیکھا (2006) ، روئے شمیم سے نزہت عشق کی بہتی ہے(2011)، لالۂ صحرائی (2014) ،   پس منظر میں منظر بھیگاکرتے ہیں(2016) ،  دلت کویتاجاگ اٹھی(2018)، ستیہ میوجیتے (2018) ،  دلت آکروش (2019)، بعیداعن الوطن(2012)،  لم تنزل ابابیل (2013)، دی ٹرتھ آف ٹیررزم (2006) کافی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ کئی کتابیں طباعت کے مرحلے میں ہیں۔

ڈاکٹر حنیف ترین کو میں نے اوروں سے بہت مختلف اور منفرد پایا۔ جب ہم حنیف ترین کی تحریروں کو ان کی شخصیت سے جوڑکردیکھتے ہیں تو ان میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا،حالانکہ زیادہ تر ادیبوںکی زندگیاں تضادات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ مگر ڈاکٹرحنیف ترین کی شخصیت اس تضادسے پاک ہے۔سچی بات تویہ ہے کہ حنیف ترین کے تخلیقی اور شعری محاسن اپنی جگہ، وہ انسان دوستی، انصاف پسندی اور کردار کی بلندی کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے       ؎

جانے والے کبھی نہیں آتے

جانے والوں کی یاد آتی ہے

n

Mohd Islam Khan

D-64, 3rd Floor, Near Firdaus Masjid,

Behid Taj ApartmentShaheen Bagh,

Jamia Nagar, New Delhi - 110025

Mob.: 9910100445,  islamk22@gmail.com



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں