لفظ اسلوب انگریزی زبان کے لفظ(Style) کا
اردو مترادف ہے۔جس کے لیے یونانی میں(Stylus)، عربی اور جدید فارسی میں
’سبک‘، سنسکرت میں ’ریتی‘ اور ہندی میں ’شیلی‘ جیسے الفاظ مستعمل ہیں، جس کے
مشتقات، تعبیرات و تشریحات،مبادیات اور
انسلاکات سے متعلق بیش بہا مدلولات پیش کیے گیٔ ہیں۔تاہم ہنوز کوئی ایسی تعریف
سامنے نہیں آئی ہے۔جو حرفِ آخر کی سند حاصل کر سکے۔بہر حال لغوی اعتبار سے کہا
جاسکتا ہے کہ اسلوب سے مراد طرزِ تحریر،طر یقہ اظہار،اندازِ بیان، ڈھنگ، طور
طریقہ، زبان وبیان،لب ولہجہ،رنگ،رنگِ سخن،وغیرہ
ہیں۔اوراصطلاحی معنوںمیں زبان اور ادب کے فنی اقدار(یعنی اصوات،حروف،الفاظ،
جملوں، تشبیہ، استعارہ، علامت وغیرہ )کے منفرد استعمال کا نام اسلوب ہے۔ مختلف
لغات اور فرہنگ کے علاوہ بے شمار علماے ادب، دانشوروں،مفکروں،ماہرین لسانیات
اورنقادوں نے اسلوب کی جتنی بھی تعریفیں کی ہیں ان کوہم واضح طور پر دو زمروں (Paradigms)میں
رکھ سکتے ہیں ایک ادبی تنقید اور دوسرالسانیاتی تنقید۔یہاں ہماری مراد ادبی تنقید
کے حوالے سے اسلوب کی تفہیم و تعبیر کو زیر بحث لانا ہے۔
ادبی تنقید میں مطالعۂ اسلوب
کا سفر تاثر سے شروع ہو کر ذاتی پسندوناپسند سے گزر کر جمالیاتی اقدار کو آغازـ؍
بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔یعنی ایک قاری یا ناقد کسی فن پارے کو پڑھ کرجتنا محظوظ ہوتا
ہے وہ اسی طرح کا فیصلہ بھی صادر کرتا ہے۔علاوہ ازیں ادبی ضائقہ کو بھی ملحوظِ
خاطر رکھا جاتا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ ہر کسی قاری کا ادبی ذائقہ ایک جیسا نہیں
ہوسکتا ہے۔وجہ یہی ہے کہ ایک ہی صنف کسی کے لیے اعلیٰ اور کسی کے لیے ادنیٰ معلوم
ہوتی ہے۔ایسی مثالوں کی ہمارے ادب میں کوئی کمی نہیں ہے۔مثال کے طور پر غزل ہی کو
لیجیے جہاں یہ رشید احمد صدیقی کی نظر میں اردو شاعری کی آبرو ہے تو وہی عظمت
اللہ خان غزل کی گردن اڑانے کی بات کرتے ہیں،جہاںیہ فراق گورکھپوری کے نزدیک مختلف
پھولوں کی مالا ہے تو وہیں الطاف حسین حالی کے نزدیک غزل شاعری کا ناپاک دفتر
ہے،جہاں یہ آل احمد سرور کی نظر میں نقاب پوش آرٹ اور چاول پر قل ھواللہ لکھنے کا
آرٹ ہے تو وہیں کلیم الدین احمد اس کو نیم وحشی صنفِ سخن قرار دیتے ہے وغیرہ۔صنفِ
غزل سے متعلق یہ مختلف اور متضاد آراء دراصل ذاتی پسندوناپسند کی بنیاد پر معرضِ
وجود میں آئی ہیں۔ان میں کسی بھی نظریے کو پیش کرتے ہوئے معروضی اور سائنٹفک اصول
و ضوابط کو ملحوظِ خاطر نہیںرکھا گیا ہے۔گویا یہ آرا اپنے اندر سرِ دست جمالیاتی
تاثر رکھتی ہیں جو ادبی تنقید کا خاصہ بھی ہے
اسلوب کی بحث نے دراصل (ادبی
دائرے میں) فرانسیسی کے مشہور و معروف مصنف
بفون (Buffon)
کے اس جملے سے
کافی زور پکڑا کہ ـ"Le style,c'estl' homme
meme." جس کا
انگریزی میں ترجمہ"Style is the man himself" کیا گیا ہے۔یعنی اسلوب کے مطالعے سے ہم مصنف کی شخصیت کو
پہچان سکتے ہیں۔بہ الفاظِ دیگر ’’اسلوب ہی کسی شخص کے مزاج، ذوق، مشاہدہ، تجربہ
اور خصائص و نقائص کی آماجگاہ ہے‘‘کیونکہ بفون کے مطابق جب اسلوب ہی بذاتِ خود
آدمی؍شخص ہے، تو مذکورہ عوامل کا اس میں
ہونا پھر لازم بنتا ہے۔ جب کہ قطعی طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ پیرایۂ
بیان یا طرزِ اظہار شعوری بھی ہوتا ہے اور غیر شعوری بھی، اور کسی بھی شعوری
اظہارِ بیان میں مصنف کی ذات بہت کم ملتی ہے اور انانیت زیادہ جس کی مثال میں قاضی
عبدالودود کا یہ واقعہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ شاد عظیم آبادی کی خودنوشت پڑھنے کے
بعد انھوں نے شاد کو جھوٹوں کا بادشاہ کہا ہے۔کیونکہ پیرایہ بیان میں انھیں وہ شاد
نہیں ملا جنھیں وہ حقیقت میں جانتے تھے۔غرض مصنف کی شخصیت کے کچھ نقوش اسلوب میں
ضروری پائے جاتے ہیں لیکن مکمل مصنف نہیں۔کیونکہ اس میں اور بھی بہت کچھ ہوتاہے
ملاحظ ہوپروفیسر گوپی چند نارنگ کا یہ بیان:
’’پیرایۂ بیان کی آزادی کا استعمال شعوری بھی ہوتا ہے
اور غیر شعوری بھی،اس میں ذوق،مزاج،ذاتی پسند وناپسند، صنف یا ہیئت کے تقاضوں
وقاری کی نوعیت کے تصّور کو بھی دخل ہوسکتا ہے۔یعنی تخلیقی اظہار کے جملہ ممکنہ
امکانات جو وجود میں آچکے ہیں اور وہ جو وقوع پذیر ہوسکتے ہیں،ان میں سے کسی ایک
کا انتخاب کرنا (جس کا اختیار مصنف کو ہے) دراصل اسلوب ہے۔‘‘1
یعنی اسلوب کی تشکیل میں جہاں
مصنف کی ذات اہمیت رکھتی ہے، تو وہیں اس تشکیل شدہ صنف کے فنی لوازمات بھی اہمیت
کے حامل ہیں۔نیز ان قارئین کے تصورات کا بھی عمل دخل رہتا ہے جن کے لیے کسی بھی فن
پارے یا تخلیق کو معرضِ وجود میں لایا جاتا ہے۔یہ بات بھی بدیہی ہے کہ کسی بھی
تحریر کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے،جس کی ترسیل و ابلاغ کے لیے لکھنے والا
زبان کی تراش و خراش،کاٹ چھانٹ اور انجذاب و انحراف سے کام لیتا ہے۔اس طرح اس عمل
سے ایک منفرد انداز، طریقۂ کار اور پیرایۂ اظہارقائم ہوتا ہے،جس سے ادبی اصطلاح
میں اسلوب کا نام دیا جاتا ہے،اور اس پورے عمل کو شعریاتِ اسلوب کا نام دیا جاتا
ہے۔
مغرب ومشرق کے حوالے سے اسلوب
پر پیش کی گئی تعریفوںپر ایک سرسری نظر ڈالتے چلیں تاکہ اسلوب سے متعلق مزید
معلومات حاصل ہوکراس بات کا بھی صحیح اندازہ ہو سکے کہ یہ لوگ اسلوب کو کن معنوں
میں لیتے ہیں۔
اردو ادب کے ممتاز ومعروف ادیب
اور ناقد آل احمد سرور اسلوب سے متعلق پہلے تین نکات کوبیان کرتے ہیںـ!
بیان کا طریقہ، حسنِ بیان اور انفرادیت کا حسن اور آگے چل کر واضح الفاظ میں اسلوب
کی تعریف کرتے ہوئے یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ ’’اسلوب واضح خیال کا موزوں اور اسی لیے
منفرد اظہار ہے‘‘،بڑی حد تک جامع ہے۔‘‘
اردو زبان و ادب کے اور ایک
ناقدڈاکٹر علی رفاد فتیحی نے اپنی کتاب ’ساخت اور اسلوب:نظریہ وتجزیہ‘ میں اسلوب
اور اس کی ساخت کے بارے میں طویل گفتگو کی ہے۔اور کچھ مغربی ماہرین اسلوبیات کے
نظریات کو بھی مختصر طور پر پیش کیا ہے۔اسلوب کی تعریف کے حوالے سے اس نتیجے پر
پہنچے ہیں کہ:
’’امر واقعہ ہے کہ اسلوب کی دلکشی،فنکار کی شخصیت اور مذاق
و میلان سے ہمکنار ہو کر نئی معنویت اور اہمیت حاصل کر لیتی ہے۔اور اس میں نیا
نکھار،نئی توانائی اور نئی تابناکی پیدا ہو جاتی ہے۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے
کہ اسلوب ادیب کی شخصیت کا مظہر بھی ہے۔ ابلاغِ خیال کا وسیلہ بھی اور ادب کا اہم
تقاضا بھی۔‘‘2
اسلوب سے مراد ذاتی تجربات و
مشاہدات اور علمیت سے زبان کا وسیلہ لے کر اپنے خیالات و احساسات کو موثر انداز
میں پیش کرنا ہے۔نیز اس میں انتخاب، اجنبیت، تناسب خوبی الفاظ اور فنی اقدار کا
بھی عمل دخل رہتا ہے۔ اس نظریہ کے حوالے سے
ایک انگریزی ناقد ہولن ولز (Hulon Willis)کا بیان بھی اہمیت رکھتا ہے۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ جملوں
کی ساخت اور الفاظ کی چست بندی سے ہی اسلوب وجود میں آتا ہے۔ جس میں مصنف کی ذہنی
تربیت اور انتخابِ الفاظ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ملاحظ ہوں ان کے یہ الفاظ:
"Sentence
structure and diction make style,and just as sentence can be composed instead
of issued of thoughtlessly from the writer's mind,so words can be chosen in a
very real sense,style is choice"
’’جملے کی ساخت اورمعمول ہی اسلوب بناتے ہے۔ الفاظ کی چست
بندی اور مصنف کی ذہنی ترتیب و انتخاب سے ہی اسلوب وجود میں آتا ہے۔نہ کہ مصنف کے
بنا سوچے سمجھے خیالات سے۔لہٰذا صحیح معنوں میں الفاظ کا انتخاب ہی اسلوب ہے۔‘‘
اسلوب کوئی خارجی یا اضافی شے
نہیں ہے۔نا یہ آورد والا کوئی معاملہ ہے،بلکہ یہ ذہنِ انسانی میں ایک جزولاینفک
کی طرح ابتدا سے ہی موجود ہوتا ہے، اور ہر عمل میں کارفرما رہتا ہے۔اسی طرح یہ
زبان کے وجود کا بھی حصّہ ہے۔جو کسی بھی صورت میں زبان سے الگ نہیں کیا جاسکتا
ہے۔وجہ یہی ہے کہ ابتدا میں کسی بھی ادیب یا شاعر کا ذہن زبان کی باریکیوں سے
زیادہ روشناس نہیں ہوتا ہے،اور اکثر بیشتر اسلوب میں بھی زیادہ جاذبیت اور نکھار و
ندرت نہیں ہوتی ہے۔جیسے جیسے مصنف کا ذہن اصناف کے فنی لوازمات،زبان کی باریکیوں
اور الفاظ کے ذخیرے سے واقفیت حاصل کرتا ہے تو اس کے اسلوب میں بھی
نکھار،انوکھاپن،جدّت اور ندرت جیسی خصوصیات کامیابی کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔بہ
الفاظِ دیگر اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً: سیکھنے کے عمل میں جب مصنف عہدِ
طفلی میں ہوتا ہے تو اس سے یہ پتا نہیں ہوتا ہے کہ مسرت، انبساط، نشاط، سسرور، عشرت،عیش،وغیرہ
قریب المعنی الفاظ ہیں لیکن جیسے ہی یہ اس امر سے واقف ہوتا ہے تو وہ ان کے
استعمال میں بھی طرح طرح کی بوقلمونی طبعِ فطرت سے ہی اجاگر کرتا ہے۔یوں ایک ہی
خیال کو پیش کرنے میں مصنف الفاظ کی تکرارسے دامن بچا کر مختلف قریب المعنی الفاظ
کے استعمال میں مکمل دسترس حاصل کرتا ہے۔اس میں مصنف کے تجربات،مشاہدات اورعلمیت
کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کا یہ عمدہ خیال ملاحظ
فرمایئے:
’’یہ(اسلوب)ایک ارتقائی عمل سے عبارت ہے، جیسے جیسے
تجربات،مشاہدات اور مطالعے میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسلوب میں بھی اسی نسبت سے گہرائی
نکھار اور جاذبیت در آتی ہے،بلکہ ایک لحاظ سے اسلوب کا سفر،سفرِ حیات سے مماثل
ہے۔‘‘4
زبان کے منفرد استعمال سے بھی
ہم اسلوب کی تخصیص کرتے ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی درجہ بندی کی
جاسکتی ہے۔ہر کسی شاعر یا ادیب،دور،عہد،تحریک،دبستان، وغیرہ کے استعمال زبان کا
عمل مختلف ہوتاہے جو اپنے اندرمتنوع ومختلف خصائص بھی رکھتا ہے۔ان خصوصیت کی وجہ
سے ہم اسلوب کی تخصیص بھی کرتے ہیں۔ غرض زبان اور اس کے منفرد استعمال سے بھی
اسلوب وجود میں آتا ہے۔اس زمرے میں پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں:
’’اسلوب سے زبان کے برتے جانے کا انداز یا زبان کا مخصوص و
منفرد استعمال مراد ہے،لیکن زبان سے اسلوب مرادلے جانے کی مثالیں بھی ملتی
ہیں،مثلاً حکیم آغا جان عیش نے غالب کی مشکل پسندی سے تنگ آکر جب یہ کہا تھا
کہا ؎
زبانِ میر سمجھے اور کلامِ
مرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں
یاخدا سمجھے
تو ’زبان ِمیر‘ سے ان کی مراد
میر تقی میر کا اسلوب تھا جو غالب کے مشکل اور پیچیدہ اسلوب کے مقابلے میں سہل اور
آسان اسلوب تھا۔‘‘5
اسلوب
کی تشکیل میں جہاں زبان اور شخصیت کو اہمیت حاصل ہے۔تو وہیں ترسیل و ابلاغ کو بھی
دائرہ اہمیت سے مستثنیٰ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔کیونکہ کوئی واقعہ، حادثہ، سانحہ
وغیرہ دیکھنے سے ایک شاعر یا ادیب( جو زیادہ حساس ہوتے ہیں )کے اذہان پر ایک کیفیت
طاری ہوتی ہے۔جس کے ردِ عمل میں یہ سوچتے ہیں کہ کیا کہا جائے۔یہ کہنا یا بولنا یا
لکھناجس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں، ترسیل و ابلاغ کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔جس کے
ساتھ ساتھ مصنف کے ذہن میں اور ایک پہلو اساسی اہمیت رکھتا ہے جس سے ہم مختصر
الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پہلو کہنے کو کس طرح کہا جائے! کا ہے۔یہی وہ عمل
ہے جو اجتناب،انتخاب،موثر اور انفراد کے پہلوؤں کو سینے سے لگاتا ہے۔غرض خارج و
داخل کا حسین امتزاج اور زبان و جمالیاتی پہلوؤں کی رنگارنگی اسلوب کی تشکیل میں
اہم اور کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔
اسلوب ادب کے حوالے سے کسی بھی
صنف کی خارجی ہیئت اور فنی لوازمات کو نظر انداز کر کے کوئی وجود نہیں رکھتا ہے۔ایک
اسلوب کی تشکیل میں ہیئت اور فنی اقدار جسم میں خون کی مانند کام انجام دیتے
ہیں۔جو اسلوب کی شکل و صورت اور انفرادیت میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔جس کو اس طرح
بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو تب تک اس کی شاعری کو کسی
صنفِ سخن کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا ہے جب تک کہ انہوں نے کسی صنفِ سخن کی ہیئت
اور فنی لوازمات کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا ہو۔جب شاعر کا منشا غزل کہنے کا ہو گا تو
وہ غزل کے فنی لوازمات کو ضرور ذہن میں رکھے گا مثلاً،قافیہ،ردیف،وزن،بحر وغیرہ اس
طرح اگر یہ اپنے خیالات،احساسات اور جذبات کو اور کسی صنفِ سخن کی شکل دینا چاہتا
ہے تو اسی صنفِ سخن کی ہیئت کو خاطر میں لائے گا۔کیونکہ ادب کی بیشتر اصناف کی
زمرہ بندی ہیئت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔مثلاً غزل، مثنوی، رباعی، مسدس، وغیرہ اصنافِ
نثر میں ناول،افسانہ،ڈراما،وغیرہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مصنف تحریر رقم کرتے ہوئے کس
انداز سے اپنی اپچ کو بروئے کار لاتا ہے یہ سب مل کر ان کے اسلوب کی انفرادیت کو
قائم کرتے ہیں۔اور کسی بھی اسلوب کی تشکیل میں ہیئت،فنی لوازمات اور ان کا استعمال
خودبخود ساتھ ساتھ اپنی شمولیت یقینی اور ضروری بناتے ہیں۔جس کا پرتو ہمیں متن یا فن
پارے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایک وسیع تر تناظر میں ہائے
زندگی تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں اسلوب کی شمولیت ناگزیر ہے۔اور ہر دور میں
تغّیر کی دھار سے گزر کر اسلوب بھی متغائر ہوتا ہے۔مثلاً بول چال کا ڈھنگ،رہن سہن
کا طریقہ،سوچنے کا طریقہ، رسوم و راج کا طریقہ،سج دھج کا انداز،کھانے پینے کا طور
طریقہ،لب و لہجہ کا انداز وغیرہ ان تمام اسالیب کو سماجی اسلوب(Social Style) میں
شامل کیا جاتا ہے۔اور مختلف علاقوں،لوگوں اور ادوار سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اس
حوالے سے نکولس کوپلینڈ (Nikolas Coupland) نے اپنی کتاب "Style Language Variation and
Identity" میں وضاحت کے
ساتھ بحث کی ہیں ان کے خیال میں تہذیب و تمدّن کے تمام تر جہات میں اسلوب ایک اہم
کردار ادا کرتا ہے اس لیے اسلوب کی ایک سماجی معنویت بھی ہے:
"It(style)
has a social meaning.The same is tru e for styles in all other life-domains.Culture
resonances of time place and people attach to styles of dress and personal
appearance in general, to styles in the making of material goods, to styles of
social and institutional practice, perhapes even to styles of thinking."
’’اسلوب کی ایک سماجی معنویت بھی ہے۔جس کی اہمیت تمام تر
شعبہ حیات میں بھی ہے۔ایک مخصوص ثقافتی تناظرمیں لوگوں کے رہن سہن،کھانے
پینے،عادات واطوار،کام کاج اور سماجی وثقافتی انسلاکات میں!یہاں تک کہ سوچنے کے
عمل میں بھی اسلو ب کی جلوہ گری کار فرما رہتی ہے۔‘‘
الغرض ادبی تنقید (Literary Criticism) کے زمرے میں اسلوب کی تشکیل میں کسی مصنف، عہد، دور، اور
ہیئت کو اہمیت حاصل ہے جن کے توسط سے ایک فن پارہ وجود میں آتا ہے۔نیز یہ کہ
اسلوب سے مراد منفرد اظہارِ بیان یا پیرایہ ہے،اسلوب شاعر یا ادیب کی شخصیت کا
غماز ہوتا ہے،اسلوب کی پرورش میں جمالیاتی حظ اور فنی اقدار کوبھی بڑی اہمیت حاصل
ہے۔یہاں اسلوب کا تصّور زیادہ تر داخلی تاثرات اور ذاتی پسند و ناپسند پر
منحصرہوتا ہے۔اور ایک ہی صنف کو کافر،عطر،آبرو،بدبو وغیرہ کہنے کی کمی بھی نہیں
دکھائی دیتی ہے۔بہر حال مطالعۂ اسلوب کے سلسلے میں ادبی تنقید سے جڑے بیشتر
مفروضات؍مبادیات کو صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
حواشی
1 بحوالہ پروفیسر گوپی چند نارنگ، ادبی تنقید اور
اسلوبیات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1989، ص 15
2 بحوالہ:ڈاکٹر علی رفاد فتیحی: ساخت اور اسلوب: نظریہ و
تجزیہ، بک کار پوریشن،دہلی، 2016، ص 132
3 Structure,Style and usage Rhetorical
and Reaoning,third edt, 1973, Holt,
Rinehort and Winston.inc. P 209
4 بحوالہ:ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش: جدید افسانے کے رجحانات،
اشاعت اوّل، انجمن ترقی اردو،کراچی،2000،ص 531
5 بحوالہ:پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ:زبان، اسلوب اور
اسلوبیات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2011، ص 18
6 (Nikolas Coupland, Style (Language,
Variation, and Identity), Cambridge University Press, 2007, P 1
Mohd Lateef Shah
Research Scholar, Dept of Urdu
Kashmir University
Kashmir - 190006 (J&K)
Mob.: 9797130907
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں