23/2/21

سید اکبر علی ترمذی کی غالب پسندی - مضمون نگار: صغیر افراہیم

 



ممتاز مؤرخ اور معروف آرکایولوجسٹ پروفیسر سید اکبرعلی ترمذی 8؍جون 1924 کو ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1948 میں بمبئی یونیورسٹی سے فارسی، اردو اور انگریزی کے ساتھ بی اے کیا۔ 1950 بمبئی ہی سے فارسی میں ایم اے کرنے کے بعد سرکاری ملازم ہوگئے۔ 1962میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا۔ رحم علی الہاشمی نے اپنی کتاب’یادیں‘ مطبوعہ اکتوبر 1976 (کتاب کار علی گڑھ) میں لکھا ہے:

’’... نیشنل آرکائیوز میں ترمذی صاحب کا میرا بہت دن ساتھ رہا۔ اور وہ ہمیشہ مجھ سے خلوص اور محبت کا برتاؤ کرتے تھے۔ وہ آرکائیوز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ اور پبلک سروس کمیشن نے ان کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے پیشتر یہ اجمیر کالج میں تاریخ کے اُستاد تھے۔ تاریخی معلومات اور تاریخی مواد سے کافی واقفیت رکھتے ہیں اور تاریخی تحقیق کے شائق ہیں...‘‘

موصوف جون 1982 کونیشنل آرکائیوز آف انڈیا سے بحیثیت ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں تاریخ کے وزیٹنگ پروفیسر مقرر ہوئے۔سرینگر سے نکلنے والے مجلہ ’گزیٹیر‘ کے چیف ایڈیٹر رہے۔ اس سے قبل ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل ریسرچ کے اعزازی ڈائریکٹر ہوئے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ ڈولپمنٹ اسٹڈیز میں مشیر رہے۔ قدیم وجدید تاریخ اور ثقافت وتمدن سے خصوصی دلچسپی کی بنا پر تقریباً آٹھ برس یونیسکو میں ایشین اسٹڈیز کے شعبے سے بھی تعلق رہا۔ موصوف نے حکومتِ ہند کے نمائندے کی حیثیت سے امریکہ، افریقہ اوریورپ کے ملکوں بشمول اسپین کے علاوہ مختلف ایشیائی ممالک میں محکمۂ آثار قدیمہ کے تعلق سے منعقد ہونے والے سمیناروںمیں شرکت کی، اُن کا معرکۃ الآرا مضمون ’ہندوستانی دفتر خانوں میں فارسی دستاویزیں‘ عِلمی مجلسِ دلّی کے سہ ماہی رسالہ ’تحریر‘ میں جولائی تا ستمبر 1971 میں شائع ہوا، جس کے مرتب مالک رام تھے۔

تاریخ، تحقیق اور تدوین سے انھیں خصوصی شغف تھا اور انگریزی، فارسی اور اردو کے ادیب کی حیثیت سے وہ اپنی ایک پہچان رکھتے تھے۔ ساٹھ سے زیادہ تحقیقی مضامین دنیا کے مختلف رسائل وجرائد کی زینت بنے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ یہ کتابیں ہندوستانی تاریخ کے ماخذ، مغل دستاویز کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد اور جدید ہندوستان، نیز یونیسکو گائڈ ادبی حلقوںمیں اعتبارکا درجہ رکھتی ہیں۔

نامہ ہائے فارسی غالب‘ (Persian Letters of Ghalib) ان کی زبردست دریافت ہے۔ دو سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب فروری 1969 میں غالب اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب پر پچاس صفحات پر مبنی انگریزی میں ان کا تعارف نامہ بیحد وقیع ہے۔ اس میں مسودہ میں شامل تمام فارسی خطوط کا احاطہ کیا گیاہے۔ مدلل اور موثر مقدمہ قائم کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’غالب کے فارسی خطوط کا ایک بے یارومددگار مسودہ محفوظ رہ گیا ہے جسے شائع کیا جارہا ہے۔ یہ خطوط بہت اہم ریکارڈ فراہم کرتے ہیں۔ شاعر کے سفرِ کلکتہ کے بارے میں یہ تفصیلات اب تک سامنے نہیں آئی تھیں۔‘‘

سید اکبر علی ترمذی تفہیمِ غالب میں اِن مکاتیب کی حوالہ جاتی حیثیت اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان خطوط سے شاعر کی زندگی اور فن کے بارے میں نئے حقائق پر روشنی پڑتی ہے۔ نیزان خطوط اور ضمیموں سے جو اس مجموعے میں پیش کیے جارہے ہیں، ایک ایسا مرقع تشکیل پاتا ہے، جس سے شاعر کی دہلی سے غیر حاضری اور کلکتہ کے عارضی قیام کی تصویریں سامنے آتی ہیں۔‘‘

اِس مجموعۂ مکاتیب کی نیرنگی اور انفرادیت کے تعلق سے وہ ’دیباچہ‘ میں رقم طراز ہیں:

’’1960 میں میرے اِیما پر نیشنل آرکائیوز آف انڈیا سے یہ مجموعہ حاصل کیاگیا اور چونکہ اس کا موضوع میرا میدان نہیں تھا، میں نے اپنے دوست قاضی عبدالودود صاحب سے،جو ایک مسلمہ غالب شناس ہیں، درخواست کی کہ ان خطوط کو مرتب فرمائیں۔ انھوں نے میری درخواست کو قبول فرمایا اور 1961 میں چھ خطوط علمی رسالہ ’تحقیق‘ میں شائع فرمائے۔ لیکن بعض اور کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے اُنھیں اس کام کے لیے وقت نہ ملا اور گزشتہ اکتوبر میں انھوں نے رائے دی کہ میں خود اس کام کو سرانجام دوں۔‘‘1

ترمذی صاحب اُس وقت شعبۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے اہم کاغذات کی ترتیب وتدوین میں بے حد مصروف چل رہے تھے لیکن قاضی عبدالودود صاحب کے مشوروں اور حوصلہ افزائی سے وہ اس جانب یکسوئی سے متوجہ ہوئے۔ لکھتے ہیں:

’’جب میں نے اس مجموعہ کو باریک بینی سے پرکھا تو اس کام کو بے شمار مشکلات سے پُر پایا... اول یہ کہ میرے پاس صرف ایک مسودہ تھا جس سے مجھے تدوین کا کام کرنا تھا۔دوسرے، یہ قلم برداشتہ غیر دوستانہ اُسلوب میں لکھا ہوا تھا۔تیسرے، اسے کئی مقامات پر کیڑوں نے کھالیا تھا...  مگر ان سب مشکلات کے باوجود میں نے انتہائی کوشش کی ہے کہ متن کو برقرار رکھوں تاہم جو چند خلا رہ گئے ہیں، ان کی جانب فنِ طباعت کی مختلف اِختراعات سے اشارہ کردیا گیا ہے‘‘۔ (مکتوباتِ غالب، ص10)

غالب صدی (1969) کے موقع پر شائع ہونے والی کتابوں میں شاید سیداکبر علی ترمذی کی یہ کتاب سب سے اہم ہے جو مزید تحقیق کے در وا کرتی ہے۔ لطیف الزماں خان اِس کی خوبیوں کو گنواتے ہوئے ’مکتوباتِ غالب‘ (مطبوعہ دسمبر1995)میںلکھتے ہیں:

(i)       تعارف، دیباچہ اور مقدمہ انگریزی میں ہے جو ہر اعتبار سے معتبر اور مستند ہے۔ مذکورہ کتاب اُس توجہ سے محروم رہی جس کی یہ مستحق تھی۔

(ii)      غالب نے چار سال کے عرصہ میں اپنے احباب خصوصاًمحمدعلی، صدر امین باندہ کو جو خطوط لکھے، وہ انتہائی اہم ہیں۔ یہ خطوط نہ صرف سفرِ کلکتہ کے تعلق سے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اُس پورے عہد کو سمجھنے میں معاون ہیں۔

(iii)     یہ مکتوبات اس اعتبار سے بھی نہایت قیمتی ہیں کہ سیداکبرعلی ترمذی نے مسودہ کی خستگی کو باریک بینی سے دیکھتے ہوئے بعض مقامات پر جو اشعار، مصرعے وغیرہ غائب ہورہے تھے اُنھیں دیگر کلیات سے نقل کرتے ہوئے ماہرین غالب کی مدد لی ہے۔

خوبیوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ دانشورانِ ادب سے یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ مذکورہ کتاب اُس توجہ سے محروم رہی جس کی یہ مستحق تھی۔

قاضی عبدالودودنے لطیف الزماں کی کتاب ’مکتوباتِ غالب‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے:

’’جنابِ سید اکبر علی ترمذی نے غالب کے فارسی خطوط دریافت کیے ہیں جو غالب کے سفر کلکتہ کے بارے میں ہمارے علم میں اہم اور حقیقی اضافہ کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک جامع تعارف کے ساتھ ان خطوط کو مرتب کیا ہے اور بڑی محنت سے شاعر کے بیانات کا تقابلی مطالعہ اُس خارجی شہادت سے کیا ہے جو حکومتِ ہند کے سرکاری رکارڈ میں موجود ہے۔ اُن کی یہ کوشش قابل تعریف ہے کہ مختلف اثرات جو شاعر کے ذہن پر مرتب ہورہے تھے اُن پر تحقیق کی ہے۔۔۔ اِن خطوط کوتاریخی ترتیب دینے میں بڑی باریک بینی سے کام لیا ہے۔ اصل عبارت کے استقرار، اشخاص اور مقامات کے نام جو اُن خطوط میں آئے ہیں ان کے تعین کے سلسلہ میں بڑی ژرف نگاہی سے کام لیا ہے...‘‘

نامہ ہائے فارسی غالب یعنی Persian Letters of Ghalib کا مسودہ کس طرح محفوظ رہ گیا، اس پر سید اکبر علی ترمذی بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’... مجموعہ کا مسودہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا نے 1960 کے لگ بھگ سید محمدرفیع نقوی سے حاصل کیا جو کاراکے رہنے والے ہیں۔ کارا اُترپردیش ضلع الٰہ آباد کا ایک تاریخی قصبہ ہے، سید علی حسن خاں اسی قصبہ کے رہنے والے تھے جنھوں نے ان خطوط کو نقل کیا تھا۔ مسودہ کے اختتام پر بہ زبانِ انگریزی یہی لکھا گیا ہے۔ بہر کیف اس بات کا علم قطعیت کے ساتھ نہیں ہوسکا کہ یہ مجموعہ کب مرتّب ہوا اور کب نقل کیا گیا لیکن اس کا امکان ہے کہ یہ 1839میں لکھا گیا۔ یہ بات ضلع باندہ پرگنہ بادوس اورکالنجر کے تحصیل دار سید افضل علی کے ایک خط سے معلوم ہوتی ہے جو 5؍اگست 1839 کو منشی سید علی حسن خاں کو ان کے باندہ کے پتہ پر لکھا گیا (خط نمبر33)۔ منشی سید علی حسن خاں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا لیکن بادؤسا2 اورکالنجر3 کے تحصیل دار نے جس عزّت وتکریم کے ساتھ اُنھیں مخاطب کیا ہے، ا س سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باندہ کی انتظامیہ کے تحت خاصے بڑے عہدے پر فائز رہے ہوں گے۔ امکان ہے کہ ان خطوط کو وہیں نقل کیا گیا۔ اس مفروضہ کی اضافی تصدیق اِس حقیقت سے ہوتی ہے کہ اس مجموعہ میں غالب کے خطوط کی بڑی تعداد باندا کے صدر امین یا سول جج مولوی محمد علی صاحب کو لکھے گئے ہیں۔‘‘

نامہ ہائے فارسی غالب ‘ کی اشاعت کے بعد ہی سفرِ کلکتہ کی مکمل تصویر اُبھرتی ہے اور اِس تصویر کے کینوس پر جو منظر نامہ چھاتا ہے وہ محمدعلی صدر امین باندہ کاہے۔ یہ بیش قیمت مسودہ 33؍ اوراق پر مشتمل ہے۔ ہر صفحے پر اٹھارہ سطور ہیں جن کی پیمائش7'x10' ہے۔ چونتیس خطوںمیں سے بتیس خط غالب کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں باقی دو خط منشی سید علی حسن کو اُن کے احباب نے لکھے ہیں۔ ان بتیس خطوط کے علاوہ جن میں خط نمبر 5، خط نمبر 2 کی نقل ہے۔ مسوّدہ میں دونثر پارے، کلکتہ میں غالب کی ادبی محاذ آ رائی کے بارے میں ہیں۔ یہ نثر پارے اس کتاب کے ضمیمے 1-2 کی شکل میں پیش کیے گئے ہیں۔ مسوّدہ خطِ شکست میں ہاتھ سے بنے ہوئے کاغذ پر سیاہ کاربن روشنائی سے لکھا گیا ہے۔ بہت سے مقامات پر اسے کیڑوں نے کھالیا ہے، جگہ جگہ سوراخ ہوگئے ہیں جن میں سے اکثر کو میں نے کلیاتِ نثر غالب4 یا کلیات5 غالب کی مدد سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ان دو کتابوں سے مجھے مدد نہیں ملی، وہاںمیں نے قوسین میں اپنی قیاسی عبارت لکھی ہے۔ بہ صورتِ دیگر ان مقامات کو جنھیں کیڑوں نے چاٹ لیا ہے، نقطوں کے ذریعہ ظاہر کیا گیا ہے۔ مسوّدہ میں کرم خوردگی کے علاوہ ایک ستم یہ ہے کہ اس میںتاریخ درج نہیں کی گئی ہے۔ جن خطوط میں تاریخ لکھی ہے وہاں سال نہیں دیا گیا ہے۔ نہ ہی خطوط کو کسی خاص تسلسل سے ترتیب دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اِن کے مطالعہ سے انتشار،ابتری اور بے ترتیبی کا احساس ہوتاہے۔ دنوں اور تاریخوں کو مقابلہ اور اندرونی شہادت کی مدد سے میں نے تاریخی اعتبار سے ترتیب دیا ہے۔ ہر خط کے اوپری سرے پر شمار کنندہ تاریخی ترتیب کا تعین کرتاہے اور نسب نما مسودہ میں پائے جانے والے خط کے مقام کو ظاہر کرتاہے۔

اوّل تو اِن خطوط کی تاریخی ترتیب غلط ہے دوسرے یہ کہ مکتوب الیہ حضرات کے نام نہیں ہیں۔ سوائے خط نمبر 31 ؍کے جہاں مکتوب الیہ کا نام ہگلی کے نواب اکبر علی خاں دیا گیا ہے۔ یہ خط ذرا سی تبدیلی کے ساتھ پنج آہنگ کی ابتدا6میں ملتا ہے۔ اس مجموعہ میں سات خطوط اور ہیں جو پنج آہنگ میں موجود ہیں۔اگرچہ کہ ان سات خطوط کی عبارت ذرا مختلف ہے لیکن پنج آہنگ میں ان کے مکتوب الیہ کا نام مولوی محمد علی خاں باندہ دیا گیا ہے۔7

     اس مشابہت سے مجھے ہمّت ملی۔ میں نے عبارت کا غور سے مطالعہ کیا اور قوی باطنی شہادت کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا کہ باقی ماندہ 31؍خطوط میں سے 27؍خط باندہ کے مولوی محمد علی خاں کو لکھے گئے ہیں۔ ایک خط ہُگلی کے نواب سید علی اکبر خاں طباطبائی کو لکھا گیا ہے۔ دو خطوط کے مکتوب الیہ اور ان کے پتوں کی شناخت نہیں ہوسکی۔‘‘

سید اکبر علی ترمذی کے اِس طویل اقتباس کی کئی باتیں مرتب کے لیے پریشان کن تھیں۔ مثلاً مسودہ کے اُن حصوں کو جنھیں کیڑوں نے کھالیا تھا، اُس سے پیدا ہونے والے خلا کو انھوں نے مستند اور معتبر حوالوں سے پُرکرنے کی امکانی کوشش کی۔ مکتوب الیہ سے قاری کو ممکن حد تک متعارف کرایا۔ ابتری اور بے ترتیبی کو دُرست کیا۔ تاریخی ترتیب کو بھی ماہ وسال کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

نمبر1- ’’ان خطوط کے مکتوب الیہ مولوی محمد علی خاں، اُترپردیش ضلع اُناؤ کے قصبہ موہان کے رہنے والے تھے اور کلکتہ کی صدر عدالت کے قاضی القضاۃ یا قاضی اعظم سراج الدین علی خاں کے چھوٹے بھائی تھے۔ محمدعلی خاں، برطانوی انتظامیہ کے زیرِ انصرام بندیل کھنڈ میں مفتی کے بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا کام اسلامی قوانین کی تفسیر وتشریح کرنا تھا، بعد  میں وہ ترقی پاکر باندہ میں صدر امین یا سول جج ہوگئے۔ یہ بڑا اہم عہدہ تھا۔ یہ منصب اس وقت بھی ان کے پاس تھا جب غالب 1234ھ/1827 میں باندہ سے گزر کر کلکتہ جارہے تھے۔ یہ عہدہ انتقال تک ان کے پاس رہا۔ اُن کا انتقال 1247ھ/1831-32 میں ہوا۔ وہ مختلف اصناف میں شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی بغیر کسی تخلص کے شاعری کرتے تھے‘‘۔

(بحوالہ علی حسن خاں، صبح گلشن ص379، کلیات نثر، ص164، قاضی عبدالودود، مآثر غالب، ص39)

نمبر2-’’علی اکبر خاں سے ملنے کے فوراً بعد باندہ کے مولوی محمد علی خاں کی ہدایت کے مطابق غالب قاضی القضاۃ کی قبر پر پہنچے۔ 20؍رمضان 1243ھ مطابق اتوار 6؍اپریل 1828 کو مرحوم قاضی صاحب کی بیوہ کے ہاں اُن کی رہائش اینٹلی میں مولوی محمدعلی خاں کا تعارفی خط لے کر پہنچے۔ مولوی غلام علی نے بیگم صاحب سے غالب کا تعارف کرایا۔ انھوں نے پس پردہ رہ کر نہایت لطف اور گرم جوشی سے گفتگو کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ شملہ بازار شہر سے بہت دور ہے۔ اپنے بھانجے ولایت حسین کے سفر سے آنے کے بعد غالب کو اپنے گھر میں قیام گاہ فراہم کریں گی‘‘۔ (خط6-7)

(کچھ محققین نے لکھا ہے کہ غالب کلکتہ پہنچنے کے تیسرے دن یعنی 22؍فروری کو مذکورہ خط لے کر علی اکبر خاں کے گھر گئے تھے اور دو ڈھائی گھنٹہ قیام کرکے واپس آگئے تھے۔ دو دن بعد دوبارہ گئے اور رات قیام بھی کیا۔ تیسری بار دہلی روانگی سے قبل وہاں گئے اور پانچ دن قیام کیا۔)

نمبر3-’’20؍جون 1828 کو غالب نے باندہ کے مولوی محمدعلی خاں کو خط بھیجا اور یہ درخواست کی کہ ان کے لیے مزید ایک ہزار روپے قرض حاصل کیے جائیں...‘‘  (خط نمبر9)

نمبر4-’’... 9؍اکتوبر 1828 کو غالب کے پاس سو روپے رہ گئے تھے کہ باندہ کے مولوی محمدعلی خاں کی جانب سے مولوی ولایت حسین کے توسط سے ایک ہنڈوی ملی۔ غالب خوشی سے پھولے نہ سمائے اور خود بازار گئے تاکہ مالک اور ہنڈوی کی رقم کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں‘‘۔ (خط نمبر11)

نمبر5-’’10؍مارچ 1829 کو انھوں نے باندہ کے مولوی محمدعلی خاں کو خط بھیجا کہ وہ نواب ذوالفقار علی خاں سے درخواست کریں کہ باندہ کے امین (امی) کرن سے مزید ایک ہزار روپیہ قرض حاصل کریں۔ مرزا مغل کے چھوٹے بھائی مرزا ازبک جان کے لیے انھوں نے ایک خط لفافہ میں رکھ دیا۔ لکھا تھا کہ نواب صاحب کو ترغیب دلایئے کہ اُن کی درخواست مان لی جائے‘‘۔ (خط نمبر18)

نمبر6- ’’... اِن گزارشات کے نتیجے میں شوال 1244ھ مطابق 2؍مئی 1829 کے آخر میں باندہ کے مولوی محمدعلی نے انھیں ایک شاہ جوگ ہنڈوی بھیجی۔ غالب نے ہنڈوی مولوی ولایت حسین کو دی اور وہ اُس کے عوض دوسو روپے لے آئے‘‘۔ (خط نمبر20)

نمبر7- ’’غالب نے باندہ کے مولوی محمدعلی کو 8؍محرم 1245ھ مطابق 10؍جولائی 1829 کولکھا کہ دلّی میں منشی محمد محسن کو تاکید کریں کہ ان کے کاغذات جس قدر جلد ممکن ہو روانہ کردیں۔ اسی خط میں اُنھوں نے دو مادّہ ہائے تاریخ بھی لکھے‘‘۔ (خط نمبر22)

نمبر8- ’’13؍صفر 1245ھ مطابق 4؍اگست 1829 کو انھوں نے اپنا سامان کشتی کے ذریعے باندہ روانہ کردیا اور خود پنج شنبہ یا جمعہ 19؍یا 20؍صفر 1245ھ مطابق 20؍ 21؍اگست 1829 کوروانہ ہوئے…  30؍ اکتوبر 1829 کو باندہ پہنچے… ہفتہ یکم جمادی الاول 1245ھ مطابق 7؍نومبر 1829 کو باندہ سے دہلی کے لیے روانہ ہوئے… اتوار 29؍نومبر 1829 کو دہلی واپس پہنچے‘‘۔ (خطوط 24-28)

 نہایت دیانت دارانہ ترتیب وتنظیم اور ممکن وضاحتوں کے باوجود مسوّدہ کی خستگی سے پیدا ہونے والی قباحتیں، اور خطوط کی صحیح تعداد کے تعین میں جو ضمنی کمیاں رہ گئیں، انھیں پہلے لطیف الزماں خاں نے دُور کرنے کا جتن کیا پھر نہایت یکسوئی اور دلجمعی سے پرتوروہیلہ نے اِسے سرانجام دیا۔ انھوں نے غالب کے منتخب فارسی مکتوبات (اردو ترجمہ 2006، دوسرے ایڈیشن 2009 اور ’کلیاتِ مکتوباتِ فارسی غالب‘ مطبوعہ 2010 کے پیش لفظ میں جووضاحت درج کی ہے اس سے قاری بڑی حد تک مطمئن ہوجاتاہے۔ پہلا اقتباس:

’’نامہ ہائے فارسی غالب کے ترجمے کے لیے میرے پیش نظر سید اکبر علی ترمذی کا وہ مرتبہ نسخہ تھا جو پہلی بار غالب اکیڈمی نظام الدین-نئی دہلی 13، انڈیا سے 1969 میں طبع ہوا۔ اس نسخہ کی اہم چیز مرتب کا وہ انگریزی کا 54 صفحے کا دیباچہ ہے جو اس کی اہمیت کو بڑھاتا اور متن کے سیکڑوں حقائق کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن اصل متن میں کاتب کی بدخطی اور حیران وپریشان کن تحریفات کے علاوہ سب سے بڑی قباحت اس مخطوطہ کی کرم خوردگی تھی جس کے سبب نثر کے اس شاہکار میں قدم قدم پر شدید بدمزگی اور بے لطفی درآتی تھی۔ مرتب کے لیے اس مشکل سے گلو خاصی بہت آسان تھی کہ کرم خوردہ جگہوں پر نقطے ڈالے اور آگے بڑھ گئے لیکن مترجم کو جملے اور عبارت کے سیاق وسباق کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ بھی متعین کرنا تھا کہ نقطہ زدہ جگہ سے ایک لفظ غائب ہے یا ایک جملہ یا کئی سطریں کہ ترجمے کی روانی قائم رکھنے کے لیے اس کو اپنے طور پر قیاسی الفاظ سے خالی جگہ کو پُرکرنا بھی ہوتا تھا۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے میں نے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل نیشنل آرکایوز (Archaives) اسلام آباد سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ وہ اپنے ہندوستانی ہم منصب سے اگر اس مخطوطے کی مائیکرو فلم منگواسکیں تو ہماری مشکل قدرے کم ہوجائے گی لیکن یہ نہ ہوسکا۔ نتیجتاً یہ ساری خالی جگہیں اس طرح رہ گئیں اور ہماری زندگی کے سیکڑوں توجہ طلب شعبوں کی طرح اس منصوبے پر بھی بدنما داغ کی طرح باقی ہیں۔ مترجم نے البتہ حتی المقدور اپنے قیاسی الفاظ سے ان جگہوں کو پُرکیا ہے اور بریکٹ میں لفظ قیاسی لکھ بھی دیا ہے۔ لیکن جہاں ترتیب ٹوٹ جاتی ہے اور مفہوم بھی ساتھ نہیں دیتا اور ظاہر ہوتا ہے کہ خلا وسیع ہے وہاں نثر کے متعلقہ ٹکڑے کا اسی طرح ترجمہ کرکے بریکٹ میں لفظ ’نامکمل‘ لکھ دیا گیا ہے‘‘۔

پرتوروہیلہ کا یہ دوسرا اقتباس بھی ملاحظہ ہو:

’’نامہ ہائے فارسی غالب میں نمبر شمار کے مطابق 31؍خطوط ہیں ترمذی صاحب کے دیباچہ کے مطابق اس میں 27؍خطوط باندے کے محمدعلی خان کے نام ہیں۔ ایک خط نواب سید علی اکبر خان طباطبائی کے نام ہے اور دو خطوط کے مکتوبہ الیہ ’مردمان معین‘ ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر شروع میں فہرست کے آخر میں ’مردمان نامعین‘ کا ایک علیحدہ عنوان دے کر خطوط نمبر28، 29 اور 30 کو اسی میں ڈالا گیا تھا لیکن فاضل محقق وغالب شناس ڈاکٹر حنیف احمد نقوی سابق پروفیسر اردو ڈپارٹمنٹ بنارس ہندو یونیورسٹی وارانسی ہندوستان کی تحریری ہدایت پر کہ اس مجموعہ میں صرف دو خط 28-29 ص:90 اور 13-32، ص:100 نواب علی اکبر خاں طباطبائی کے نام جب کہ باقی تمام خطوط محمد علی خان صدر امین باندہ کے نام ہیں۔ فہرست مکتوبہ الیہم میں ضروری تبدیلی کرلی گئی ہے اور اب ’مردمانِ نامعین‘ کو فہرستِ مکتوب الیہم سے خارج کردیا گیا ہے۔ میرے لیے یہ سعادت ہے کہ مجھے موصوف کی اس مستند رائے سے بروقت آگاہی مل گئی اور نتیجتاً ترتیب کا ایک بڑا سقم دور ہوگیا‘‘۔

سید اکبرعلی ترمذی کے دریافت شدہ مسودے کی بدولت یہ بات بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ کلکتہ میں غالب کو جو مخلص اور قابل اعتبار دوست مثلاً مولوی سراج الدین احمد، مولوی عبدالکریم، منشی عاشق علی خاں، آغا محمدحسین، مرزا احمد بیگ تپاں میسر آئے، وہ باندہ اور وہاں کے لائق صد احترام دوست محمدعلی صاحب کی بدولت ملے۔ اِس گراں قدر کام کی وجہ سے پرتوروہیلہ، لطیف الزماں، قاضی عبدالودود ہی نہیں عصرِ حاضر کے غالب کے شیدائی ادیب  بھی سید اکبر علی ترمذی کو غالبیات کے مطالعات کی فہرست میں بخوشی شامل کرتے ہیں۔ بلاشبہ انھوں نے نہایت توجہ، محنت اور لگن سے دیوان محمدعلی کے نام لکھے گئے غالب کے خطوط دریافت کیے ہیں۔ اور مکتوب الیہ پر جس طرح روشنی ڈالی ہے وہ لائقِ تحسین وستائش ہے۔

حواشی

1          نامہ ہائے فارسی غالب‘ کے فارسی متن اور طویل انگریزی مقدمہ کا اردو ترجمہ لطیف الزماں خاں نے ’مکتوباتِ غالب‘ کے نام سے دسمبر 1995 میں شائع کیا۔

2          ضع باندہ میں تحصیل اور پرگنہ ڈی۔ایل ڈریک بروخ مین، باندہ اے گزیٹر(الٰہ آباد 1909) صفحات، 7-203

3          مشہور پہاڑی قلعہ اور قصبہ تحصیل گردان باندہ ایضاً،ص: 234-47

4          کانپور ایڈیشن 1875

5          مرتبہ امیر حسن نورانی، لکھنؤ، 1968

6          کلیاتِ نثر غالب، ص96

7          کلیاتِ نثر غالب، ص71-164

 

Sagheer Afrahim

Ex. Head: Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

Email.: s.afraheim@yahoo.in

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں