ناول ادب کی ایک مقبول عام صنف
ہے۔ اردو ادب میں اس کی تاریخ تقریباََ ڈیڑھ سوسال سے ذیادہ عرصے کو محیط ہے
اورمغرب میں ناول کی تاریخ کم و بیش تین سو سال پر مشتمل ہے۔ چنانچہ جب اٹھارہویں
صدی کے وسط میں یورپ میں سائنس اور تکنالوجی نے ترقی کی اور نتیجتاََ صنعتی انقلاب
آیا، بہت سارے عقائد و توہمات باطل قرار پائے تو ایسے وقت میںناول نے جنم
لیا۔بقول فاروقی ’’اٹھا رہویں صدی ہی ہے جس میں ناول پیدا ہوا اور پروان
چڑھا...ناول دراصل ڈرامے کا ایک محدود اور نسبتاً بے جان بدل ہی ـ۔1
صنعتی انقلاب نے نوآبادیاتی ہندوستان پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں اور غدر کے
ناخوشگوار اور دوررس نتائج نے کولونیل ہندوستان میں زندگی کے دیگر شعبہ جات کی طرح
ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔اسی دوران میں اردو ناول معرض وجود میں آیا اور بہت کم
عرصے میں ناول نے اردو ادب میں اپنا ایک مقام بنالیا۔ جب ہم ادب کا مطالعہ کرتے
ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ادب کی جتنی بھی اصناف ہیں سب میں عہد بہ عہد،مسائل اور
فکر وفن کے اعتبارسے تبدیلی ہوتی رہی ہے۔سماجی اور ثقافتی رجحانات نے ادب وفن میں
بھی خارجی اور داخلی سطحوں پر تبدیلی کا عمل شروع کیا جن کے نتیجے میں نظم و
نثرمیں موضوعاتی اور ہیئتی تبدیلی واقع ہوئی جس کا ایک مظہر ناول ہے۔ناول کی ساخت
اور ہیئت پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر عتیق اللہ لکھتے ہیں:
’
’ہر صنف دوسری بہت سی روایتی
اصناف کے آثار کامجموعہ ہوتی ہے اور ناول بھی ایک ایسی ہی نئی صنف،نئی ساخت،نئی
ہیئت ہے جس کی نہ کوئی معین ساخت ہے نہ معین ہیئت اور نہ کوئی معین خاکہ۔یہی وجہ
ہے کہ ہر ناول کا خاکہ دوسرے ناول سے مختلف ہوتا ہے۔.........ناول کو ایک صنف کا
درجہ دینے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی ساخت و ہیئت کے ایسے قاعدے تشکیل دیے
جائیں جیسے مسلمہ اصناف (Canonic genres) کے ساتھ مختص ہیں۔اسی لیے ناول کا فن بہت سی آزادیاں
فراہم کرتا ہے جن سے عہدہ برآہونے کے لیے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کرنی پڑتی
ہیں۔بے اصولے پن میں بھی کسی نہ کسی اصول کی تلاش کو اپنا منصب بنانا پڑتا ہے۔یہ
ایک وسیع کھیل کا میدان ہے جہاں کھلنڈرے پن،تفریح،دل بہلاوے،دماغ سوزی،ٹہوکہ لگانے
اور چھیڑ چھاڑ کرنے کی کافی گنجائش ہے۔ناول نگار کوایک وسیع تر دنیا آباد کرنی
پڑتی ہے۔‘‘2
ناول ادب کی واحد صنف ہے جو
ایک مکمل کتاب کی صورت و ہیئت میں ہوتی ہے۔دراصل ناول وہ صنف ہے جس میں حقیقی
زندگی کے گوناگوں جذبات کو کبھی اسرار کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب میں کبھی
رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا۔اس میں پوری
زندگی پر لکھا جاتا ہے یعنی ناول زندگی کی
مکمل تصویر ہے جس میں زندگی کے مختلف واقعات و حادثات کو دلچسپ پیرائے میں پیش کیا
جاتا ہے۔اگر غور کیا جائے تو جس طرح زندگی مختلف نشیب و فراز اور وسیع سے وسیع
ترین تجربات و مشاہدات سے عبارت ہے اور اس کی کلی اور جامع تعریف قلم و قرطاس کے
دائرے سے باہر ہے، اسی طرح ناول کا فن یا اس کی شعریات کی تعریف و توضیح کے بارے
میں کوئی حتمی حکم لگانا بہت دشوار ہے۔ناول کی شعریات کے بارے میں معروف نقاد علی
احمد فاطمی لکھتے ہیں:
’’ ناول کے فن یا اس کی شعریات کی حتمی شکل پیش کرنا بھی مشکل بلکہ ناممکن
ہے،جس طرح زندگی کی ٹھوس تعریف نہیں کی جاسکتی۔لیکن زندگی کی تعریف نہ کیا جانا ہی
زندگی کی تعریف ہے۔اسی طرح ناول کی عدم شعریات ہی ناول کی شعریات ہے کیونکہ زندگی
ناہموار ہے،اس لیے ادب بھی ناہموار اور فکشن اس سے بھی زیادہ نا ہموار۔‘‘3
ناول ایک ایسا آئینہ خانہ ہے
جس میں انفرادی و اجتماعی زندگی کے اندرونی و بیرونی سارے روپ دیکھے جاسکتے
ہیں۔زندگی کی تفسیر،فطرت کی عکاسی وترجمانی اور حقائق کی تصویر کشی وغیرہ ناول کی
بنیادی شعریات قرار پائے۔ علی عباس حسینی،وقار عظیم،یوسف سرمست،احسن فاروقی اور
پروفیسر حسن جیسے ناول کے ناقدین نے انھیں روایتی پیمانوںا ور اصولوں پر اردو ناول
کی تعیین قدر کی۔ اس دوران عالمی ادب میں ناول تنقید کے ماہرین نے
زبان،بیانیہ،تھیم،آئیڈیو لوجی وغیرہ کو ناول کی شعریات قرار دیا جس میں نارتھرو پ
فرائی،رومن جیکب سن، کلاڈ لیوی اسٹراس،اے جے گریما،زیر ار زینت،زویتاں تودرف وغیرہ
کے نظریات و خیالات نے مزید وضاحت و صراحت کی۔اردو ادب میں بھی ان نظریات و افکار
کی گونج سنائی دی اور1980 کے بعد ناول کو ان نظریات و افکار کے پیمانوں پر بھی
پرکھا جانے لگا اور یہ نئے اصول پرانے اصولوں کی توسیع کے بطور ابھرے۔لہذا نئے
ناولوں کا تعین قدر توسیع شدہ اصولوں پر ہونے لگا جس سے فنکار اور فن پارے کی قدر
شناسی اور قدر سنجی کے معیار و منہاج مضبوط ترہوگئے۔گویا اب موضوع، پلاٹ، واقعات،
کردار، زندگی اور زمانے سے متعلق نظریات زبان کا برتاو، اسلوب،حقیقت کی نقاب
کشائی، معاصر یا مابعد جدید تہذیب کی عقدہ کشائی،بیانیہ،تھیم،آئیڈ یولوجی وغیرہ
ناول کی شعریات قرار پائے۔
زیر نظر مقالے میں ناول کی شعریات کے بارے میں اردو کے قدآور نقاد شمس
الرحمن فاروقی کے نظریات و خیالات کو جاننے کی کوشش کی جائے گی۔یہاں پر اس بات کی
وضا حت ضروری ہے کہ فاروقی نے اردو کی تقریبا ہر صنف کی ہیئت،تکنیک اور تعریف و
توضیح اور اس کے حدود اربعہ کے بارے خوب صراحت کی۔لیکن ناول واحد صنف ہے جس کی
نظری اور عملی تنقیدکے حوالے سے انھوں نے حیرت انگیز طور پر بہت کم لکھا ہے۔
فاروقی نے سب سے پہلے اس
موضوع (آج کا مغربی ناول) پر ہنری جیمس
کے مضمون ’ناول کا مستقبل ‘ کا ذکر کیا ہے۔ہنری جیمس ناول کو انعکاس کا بہترین
ذریعہ سمجھتا ہے۔اس کا یہ بھی خیال ہے کہ جب تک موضوعات باقی ہیں ناول برقراررہے
گا لیکن فاروقی یہ دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی میں ناول کی جدید تنقید اس نظرے سے
انکار کرتی ہے۔ فاروقی نے ناول پر بحث کرتے ہوئے مغربی مفکرین اور ناول نگاروں کو
موضوع بنایا ہے اور مغربی ناول کا منظر نامہ اردو دنیا کے سامنے غالباً پہلی بار
پیش کیا ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے ناول کی شعریات کے حوالے سے کئی مفید اور
بنیادی باتیں کیں۔ بحوالہ کامیو، فاروقی
ناول کے متعلق یوں فرماتے ہیں:
’’ناول دراصل کیا ہے ؟ یہ ایک کا ئنات ہے جس میں واقعہ یا
عمل کو ہیئت بخش دی گئی ہو،جہاں آخری
الفاظ کہے جائیں،جہاں لوگ ایک دوسرے کو پوری طرح اپنا لیں،اورجہاں زندگی تقدیر کی
شکل اختیار کرلے۔ناول کی دنیا اس دنیا کی محض تطہیر ہے۔جس میں ہم انسان کی عمیق
ترین خواہشات کی تکمیل کے لیے جیتے ہیں۔کیونکہ دنیا بلاشبہ وہی ہے جسے ہم دنیا
سمجھتے ہیں۔وہ دکھ،وہ فریب،وہ محبت،سب وہی ہیں۔ناول کے ہیرووہی زبان بولتے ہیں جو
ہم بولتے ہیں۔ان کی کمزوریاں ہماری کمزوریاں ہیں... ان کی قوت ہماری قوت ہے‘‘4
شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے
کہ ناول کے بارے میں کوئی ایک تھیوری قائم نہیں ہوسکتی ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ناول
عہد انقلاب کی پیداوار ہے اور عہد انقلاب میں پورے یورپ میں تبدیلیاں پیدا ہورہی
تھیں جس کے نتیجے میں روشن فکری کا زمانہ آیا اور روشن فکری کی بنیاد ہی ان باتوں
پر قائم ہوتی ہے کہ ہر چیز کو سوال میں لایا جائے۔ایسے وقت میں ناول نے جنم لیا
لہذا ناول میںاس وقت کی تبدیلیوں کا احاطہ کیا گیا۔اسی لیے ہم زمانے کے زمینی
حقائق اور دنیا و مافیھا کے حالات کا عکس ناول میں دیکھتے ہیں۔ ناول زندگی اور اس
سے منسلک تمام پہلووں کااحاطہ کرتا ہے یعنی انسانی زندگی کے مختلف نشیب و فراز،پیچ
و خم اور طرح طرح کے واقعات و حوادث سے عبارت ہے اور زندگی وقت کے کٹہرے میں قید
ہے۔ جب ناول کو زندگی کی عکاسی و ترجمانی پر محمول کیا جاتاہے تو اس میں ان عوامل
کا در آنا ایک فطری امر ہے۔ اس تناظرمیں فاروقی مغربی مفکرین کے حوالے سے ناول
میں واقعیت اور وقت کے تعلق سے کچھ اہم نکتوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتے ہیں۔
ان کے بقول ـ’’ناول زندگی کا احاطہ کس طرح اور کس حد تک کرتا ہے۔لہذا ناول کے اخلاقی اور فنی
مسائل کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔بنیادی مسئلہ واقعیت کا ہے۔۔۔چونکہ واقعیت کا انعکاس
وقت کے دائرے ہی میں ممکن ہے،اس لیے ناول اپنا فنی اظہار کس طرح کرے ؟اس سوال کا
جواب بیک وقت واقعیت اور فنکارانہ اسالیب کا احاطہ کرتا ہے۔‘‘5
ناول سے متعلق شمس الرحمن
فاروقی ان لوگوں کے نظریات کو غلط ٹھہراتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ناول ترقی یافتہ
صنف ہے اور داستان غیرترقی یافتہ۔اس سلسلے میں فاروقی نے جو کچھ کہا ہے اس کا
خلاصہ یہ ہے کہ اب تک جو روایت ہے وہ قصہ کہنے کی ہے اور جو ناول کی روایت ہے قصہ
لکھنے کی ہے۔قصہ لکھنے اور کہنے میں فرق ہوتا ہے۔دونوں کی حرکیات الگ الگ ہوتی
ہیں۔لہذا دونوں کو الگ الگ رکھا جائے اور یہ گمان ہرگز نہ کیا جائے کہ داستان غیر
ترقی یافتہ اور ناول ترقی یافتہ صنف ہے۔ناول کی شعریات کے بارے میں فاروقی بنیادی
بات یہ کہتے ہیں کہ جب ناول روشن فکری کے زمانے کی پیداوار ہے اور روشن فکری کی
اساس کئی سولات پر قائم ہے۔مثلاًیہ کہ انسان کی ضرورت اندر سے کیا ہے ؟ نفسیات کسے
کہتے ہیں کردار کسی چیز سے محبت یا نفرت کیوں کرتا ہے ؟تو ناول کے لیے یہ بات
ضروری ٹھہری کہ ناول کے جو کردار ہیں ان کو صرف اوپر سے نہ بیان کیا جائے بلکہ اس
کے اندر جو کچھ ہورہا ہے اس کو پڑھا جائے اور پڑ ھ کر لوگوں کو بتایا جائے۔اس لیے
ناول نگار سے یہ توقع رہتی ہے کہ وہ زندگی کے بارے میں کچھ بتائے۔چنانچہ پریم چند
کا ناول اس لیے نہیں پڑھتے ہیں کہ کسانوں اور غریبوں کے حالات معلوم ہوں بلکہ یہ
چیزیں تو ہمیں تاریخ میں مل جاتی ہیں۔اس لیے پڑھتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگ اندر سے
کیسے تھے ان کے احساسات کیسے تھے اور وہ زندگی میں کیسے لگتے رہے ہوں گے۔ان تمام
پہلوؤں کے لیے ہم پریم چند کا ناول یا کسی اور ناول نگار کوپڑھتے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے
کہ مغربی ناول نگار اور ناقد کو کئی مسائل درپیش ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہی کہا گیا ہے
کہ فاروقی زیادہ ترمغربی ناول نگاروں اور ناقد ین کے حوالے سے اپنی بات رکھتے
ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ناول مغرب کی دین ہے۔اس لیے اردوناول کی شعریات پر وہی
اصول و قوانین اور قواعد و ضوابط منطبق ہوں گے جو اس کی اصل شعریا ت کا خاصہ ہے۔
مغربی ناول نگاراور نقاد ناول کے تناظر میں جن مسائل سے دوچار ہیں۔موصوف اس طرح
بیان کرتے ہیں :
’’ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے زمانے کا مغربی ناول نگاراور ناول کا نقاد جن
مسائل سے دوچار ہے ان کو تین عنوانات کے تحت رکھا جاسکتا ہے :(1)اخلاقی،یعنی ناول
میں کیا کہاجائے ؟ناول فرد کا اظہار ہے کہ سماج کا؟ کیا ناول خیر و شر کے مسئلے سے
بحث کرتا ہے یا محض زندگی سے،یعنی کیا ناول مسائل سے عبارت ہے یا زندگی کی مکمل
معنویت یا بے معنویت سے ؟(2) فلسفیانہ،یعنی کیا ناول نگار وابستگی میں یقین رکھتا
ہے؟ اگر ہاں تو کس حد تک ؟ اور(3) فنی،یعنی ناول کس طرح اپنے قیود سے آزاد ہوسکتا
ہے ؟ اور وہ قیود کیا ہیں؟ موجودہ مغربی ناول (…) اور اس کی تنقید گھوم پھر کر
انھیں باتوں پر مراجعت کرتی ہے‘‘6
ناول سے متعلق شمس الرحمن فاروقی کا ایک تصور یہ ہے کہ جہاں ناول نے کچھ
چیزیں حاصل کی ہیں تو وہیں پر کچھ چیزیں
کھوئی بھی ہیں۔بڑی چیز تو یہ کھوئی ہے کہ ناول نگار اور اس کے قاری کے درمیان کوئی
ربط نہیں،پتہ نہیں وہ قاری کہاں ہے لندن میں ہے یا دہلی میں۔اس بنا پر جو وہ قصہ
لکھتا ہے اس کو احساس ہوتا ہے کہ میں اپنے لیے قصہ لکھتا ہوں۔اس وجہ سے ناول نگار
کی ذمہ داریاں کچھ اور ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنے قاری کو اپنے ناول سے ہم آہنگ کرنے کے
لیے قصے کو اتنا وثوق انگیز بناتا ہے یعنی ایسا قصہ بناتا ہے گویا ممکنات سے تعلق
رکھتا ہے،وہ اپنے قصے میں غیر امکانی بات بیان کرنے سے پرہیزکرتا ہے۔ شمس الرحمن
فاروقی کی نظر میں ناول کی شعریات اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ناول کسی نہ کسی
صورت سے داخلی یا خارجی دنیا کی حقیقت سے روشناس کرے۔ جدید ناول تو فرد کی داخلی
یا خارجی دنیا کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر پوری زندگی کامفہوم و ماحصل کا تقاضا
کرتا ہے۔اس تناظر میں فاروقی بہ حوالہ سول
بیلو Sual Bellow لکھتے ہیں۔’’کہ جدید ناول نے فرد کی داخلی کشمکش کا
اخراج کردیا ہے،کیونکہ یہ داخلی کشمکش محض ایک نقطہ ہے،جب کہ میں ساری زندگی کا
خلاصہ اور نچوڑ مانگتا ہوں... ناول میں شکایت،احتجاج،عدمیت سے بھرپور غصہ،واقعیت
اور ماحول کی شدیداحساس کی کارفرمائی
ہے‘‘7 یعنی جدید زندگی میں ناول سے ہم یہ توقع کریں جس کی توقع میر کو اپنے دل سے
تھی ؎
دل ہم نے کو مثال آئینہ
ایک عالم روشناس کیا
شمس الرحمن فاروقی کا واضح موقف ہے کہ ناول نگار اس بات کا پابند نہیں ہے
کہ وہ وہی کہے جو اس سے متوقع ہو بلکہ اسے وہی بات کہنی ہے جووہ خود کہنا چاہتا
ہے۔ یعنی ناول نگار کسی بھی طرح اپنے خیالات و احساسات یا اپنا تجربہ یا vision کو
بیان کرنے میں خود مختاراور آزاد ہے جو چیز اسے جیسی نظرآئے اس کو وہ ویسی ہی
پیش کرنے کا مجاز ہے۔مگر انسانی نفسیات اور کرداروں کے مزاج کو ملحوظ رکھنا بہرحال
اس کی مہارت اور ہنر مندی پر دال ہے۔ مزیدناولاتی بیان کے تعلق سے فاروقی یوں
رقمطراز ہیں:
’’ناولاتی بیانیہ میں کردار کے ذریعے واقعات کو Focalise کرتے
ہیں یعنی واقعات کے اندر معنویت کردار کے نقطہ نظر پر منحصر ہوتی ہے یا اس نقطہ
نظر پر جسے بیانیہ نگار بیانیہ پر حاوی کرتا ہے۔‘‘8
شمس الرحمن فاروقی کے مطابق
ناول کے ارتقا میں داستان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔سہیل بخاری کی رائے میں بھی ناول
داستان کی ارتقائی شکل نہیں ہے۔یہ بات اردو فکشن کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے
قابل قبول نہیں لگتی۔کیونکہ ہمارے اردو ادب میں 1869میں جب مولوی نذیر احمد کے
ہاتھوں ناول کا آغاز ہوا تو اس سے پہلے داستان کا ہر طرف چرچا تھا۔میر امن کی باغ
و بہار منظر عام پر آچکی تھی اور اس کے جواب میں رجب علی بیگ سرور فسانۂ عجائب
نامی ایک داستان پیش کرچکے تھے۔لوگ داستان پڑھتے اور سناتے تھے۔ایسے میں مولوی
نذیر احمد اور ان کے بعد ناول نگاروںنے ضرور ان داستانوں کو پڑھاہوگا اور ان سے متاثر ہوکر ناول لکھنے کا قصد کیا
ہوگا۔ہمارا دعویٰ اس طرح مدلل ہوجاتا ہے کہ جیسے داستان میں پلاٹ اور کردار وغیرہ
ہوتے ہیں،اسی طرح ناول میں بھی پائے جاتے ہیں۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول کے
ارتقا میں داستانوں کا بھی کم و بیش اور کم سے کم بالواسطہ حصہ ضرور رہا ہے۔ ناول
ہمارے ہاں براہ راست مغرب سے آیا،جبکہ مغرب میںیہ رومان کی ارتقا یافتہ صورت
ہے۔لہذا ناول داستان کے زوال کا سبب اور وجہ نہیں ہے بلکہ اس کے وجوہ الگ ہیں۔ فاروقی
اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہتے ہیں:
’’ناول یا ناول نماتحریریں جو اس وقت بازار میں آرہی تھیں
وہ داستان کی جگہ نہیں لے رہی تھیں۔ان کے پڑھنے والے عام طور پر کچھ اور طرح کے
لوگ تھے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں داستا ن پڑھنے والے لوگ
ناول پڑھنے والوں سے زیادہ تھے،اور ان میں کم لوگ ایسے رہے ہوں گے جو نئے زمانے کا
ناول بھی پڑھتے ہوں۔لہذا ناول کی مقبولیت کو داستان کے زوال کا سبب قرار دینا درست
نہ ہوگا۔‘‘9
ناول کی جدیدنظری تنقید کے
تعلق سے شمس الرحمن فاروقی کا یہ تصورہے کہ ناول کی جدید نظری تنقید سے ہم اردو
والوں کی ملاقات بس واجبی سی ہے۔ناول کے اصولوں سے ہماری ملاقات ان کتابوں کی بنا
پر جو آج سے ساٹھ ستر برس پہلے لکھی گئی تھیں۔بلکہ ہنری جیمس کے مضامین،جن پر
ناول کی زیادہ تر تنقید ہمارے یہاں تکیہ کرتی رہی ہے، اب سو برس سے بھی اوپر کی عمر
پہنچ چکی ہیں، ای ایم فارسٹر کی چھوٹی سی کتاب جس کے بغیر ہمارے اکثر نقاد لقمہ
نہیں توڑتے ہیں۔یہ کتاب ’ناول کا فن‘ 1927 کی ہے۔اس کتاب میںکردار اور پلاٹ کے
بارے میں جو کچھ کہہ دیا گیا ہے۔ دشت تنقید میں ہمارا زاد سفر اب بھی وہی ہے۔ہنری
جیمس کے پہلے ناول کی نظری تنقید میں کیا مسائل تھے اور تیس پنتیس برس میں جو
باتیں ہوئی ہیں ہمیں ان دونوں سے کوئی سروکا ر نہیں۔جیمس کے بعدناول کی تکنیک بہت
جلد بدلی اور بیانیہ کے ایسے اسلوب کی جگہ جس میں ناول نگار ایک ایسے شخص کے روپ
میںسامنے آتا ہے جسے تمام کرداروں پر گزرنے والے تمام واقعات کا علم ہے۔اس کے بعد
کچھ ناول نگاروں کے یہاں بیانیے کا وہ اسلوب نظر آتا ہے جس میں ناول نگار صرف ایک
یا چند کرداروں کے شعور و لاشعور میں غرق ہو کر کائنات یا خود ان کرداروں کو اپنے
تخیل کی گرفت میں لاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی اپنے ایک فکر انگیز مضمون بعنوان
’’آج کا مغربی ناول... نظریات و تصورات ‘‘ میں ناول کے فن کے تغیر وتبدل کے حوالے
سے یوں رقمطراز ہیں:
’’آج سے تیس چالیس برس پہلے تک ناول ایک روایتی قسم کی
صنف سخن تھا،جس میں پیچیدہ ادبی اور فنی مسائل کو گھسیٹ لانے کی ضرورت نہ تھی،لیکن
جدید ناول نگاروں کے ہاتھ میں ناول ایک مخصوص،کم انتخاب
Exclusive اور پیچیدہ صنف کی
شکل میں سامنے آیا۔اس کی توجیہہ اور پچھلے ناول سے انکار کا کام لامحالہ نئے ناول
نگاروں نے ہی کیا۔‘‘10
شمس الرحمن فاروقی جہاں مغرب
میں ناول نگاری میں شاندارادبی روایت اور سرمایے کا تذکرہ کرتے ہیں اوراس کی ترتیب
و تشکیل اور ارتقائی مراحل کو مدلل اور
مفصل انداز میں پیش کرتے ہیں۔وہیں موصوف آ ج مغربی ناول کی صورت حال پریہ تاثر
پیش کرتے ہیںکہ آج کا ناول نگار Idenitity crisis کے دور سے گزر رہا ہے۔ و ہ لکھتے ہیں:
’’آج کا ناول تاثر کے اعتبار سے اتنا متنوع ہے کہ اس پر کوئی ایک حکم لگانا
مشکل ہے۔صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاعری کی طرح آج کا ناول نگار بھی Identity Crisis سے گزررہا ہے اور اس کی تحر یروں پر بے چینی کی فضا حاوی
ہے‘‘11
شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے کہ جد ید ناول عصری حقیقت کو گرفت میں لانے
کا عمل مشکل سے ہی انجام دے پا تا ہے یا
یوں کہیں کہ عصری مسائل اور تقاضوں کا مکمل احاطہ اورموثر ابلاغ
وترسیل ناول سے نہیںہوپاتا ہے۔ اس
کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں اور ناول کے وجود کا مستقبل دراصل قومی نہیں بلکہ عالمی
ناولوں سے وابستہ ہے۔ فاروقی معروف مغربی ناول نگار میری مک
کارتھی کے حوالے سے یوں گویا ہیں۔’’موجودہ
ناول نگار کی مشکل یہ ہے کہ وہ مستقبل کی تعمیر نہیں کرپاتا بلکہ یہ ہے کہ وہ حال کی تشکیل و تعمیر سے مجبور
ہے۔‘‘12
شمس الرحمن فاروقی داستان اور
ناول پر بحث کرتے ہوئے ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں ناول کی
کوئی مستقل روایت نہیںہے جس کی بنا پر ایک ناول نگار کے فن کو دوسرے کے مقابلے میں
رکھاجائے اب اگر کوئی کہے کہ ناول کو داستان کی روایت سے جوڑ کر آگے بڑھایا
جاسکتا ہے۔کیونکہ دونوں بیانیہ کے اقسام میں سے ہیں۔اس تعلق سے فاروقی کا خیال ہے
کہ ناول کو داستان کی روایت سے نہیں جوڑ سکتے۔کیونکہ داستان کی جو طرز وجود ہے وہ
فکشن کے طرز وجو د سے بالکل مختلف ہے،مثال کے طور پر داستان میں داستان گو اور
سامعین کے درمیان ایسا ربط ہوتا ہے کہ دونوں فوری طور پر آمنے سامنے ہوتے ہیں اور
ناول میں ایسا نہیں ہوتا۔باختن کے لفظوں میں ناول نگار سے زیادہ دنیا میں کوئی
تنہا آدمی نہیں ہے وہ اکیلا بیٹھالکھ رہا ہے۔ اس کے پڑھنے والے کہاںہوںگے اور اس
کو کس طرح پڑھیں گے ؟یا ردعمل ہوگا۔پڑھیں گے کہ نہیں یا پھاڑ کے پھینک دیں گے اس
کوکچھ نہیںمعلوم۔وہ تو صحیح معنوںمیں اپنے دل کو اتارکرکاغذ پررکھ دے رہا ہے،اس کے
بعد چُپ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ داستان سنائی جاتی ہے اور ناول لکھا جاتا ہے۔زبانی
سنانے کی حرکیات الگ ہوتی ہے اور لکھی جانے کی حرکیات الگ ہوتی ہے،تو فاروقی اس
ضمن میں لکھتے ہیں:
’’ان دونوں کے درمیاں وہی رشتہ ہے جو نارنگی اور آم میں
ہے کہ دونوں میٹھے ہیں۔دونوں ایک رنگ کے ہوتے ہیں۔پھر بھی دونوں الگ الگ ہیں۔ان
اسباب کی بنیاد پر آپ ناول کی روایت کو آگے بڑھانے کے لیے داستان سے نہیں جوڑ
سکتے ‘13
بعض نقادوں کا کہنا ہے کہ ناول
جدید عہد کی پیدوار ہے لہٰذا ناول کے تعلق سے بات جدید خیالات کی روشنی میں ہی
کرنی چاہیے۔شمس الرحمن فاروقی اس بات کی تردید کرتے ہیں اوراپنے نقطۂ نظر کا
اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’یہ کہنا غلط ہے کہ ناول چونکہ جدید صنف ہے اس لیے اس پر جدید خیالات کی ہی
روشنی میں بات ہوگی۔ناول تو ہنری جیمس سے پہلے بھی موجود تھا بلکہ دنیا کے سب سے
بڑے ناول نگاروں میں سے کم سے کم تین یعنی ڈکنس،بالزاک اور فلوبئیرتینوں ہی ہنری
جیمس سے پہلے تھے اور دو یعنی دستوفسکی اور ٹالسٹائی بھی جیمس کے بزرگ ہم عصر
تھے۔لہذا ہنری جیمس ( ٹالسٹائی) دستوفسکی اور ڈکنس ان تینوں میں سے کسی کو پسند
نہیں کرتا تھاکہاں کا ارسطو ہے کہ ہم ناول کے بارے میں اس کی بات مان لیں‘‘14
ناول
کی ایک تکنیک یہ بھی ہے کہ اس میں واقعات و حقائق کو بیانیہ کے انداز میں پیش
کیاجائے۔یہاں یہ سوال ہے کہ اگر بیانیہ کا کوئی راوی ایسا ہو جو زمانۂ قدیم سے
تعلق رکھتا ہے تو اس صورت میں وہ اس عہد کی زبان استعمال کرے گا یا اس عہد کی جس
میں بیانیہ استعمال ہورہا ہے۔شمس الرحمن فاروقی کا اس سلسلے میں نظریہ یہ ہے کہ
راوی اس عہد کی زبان استعمال کرے جس عہد سے اس کا تعلق ہے۔یہاں پر اس بات کا تذکرہ
لازمی ہے کہ فاروقی کا نظریہ ان کے ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘کو سامنے رکھ کر
اخذ کرنے کی کوشش کی گئی۔چنانچہ انھوں نے اپنے ناول میں ا س بات کا پورا اہتمام
کیاہے،ناول کے اخیر صفحات میں خود فاروقی لکھتے ہیں:
’’میں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ مکالموں میں، اور اگر
بیانیہ کسی قدیم کردار کی،زبانی،یا کسی کردار کے نقطہ نظر سے بیان کیا جارہا ہے تو
بیانیہ میں بھی کوئی ایسا لفظ نہ آنے پائے جو اس زمانے میں مستعمل نہ تھا۔‘‘15
ادب کی ہر صنف میں کچھ نہ کچھ
مشترک چیزیں ہیں یعنی شاعری اور نثر کی اصناف میں بھی مشترک عناصر ہوں گے،خواہ وہ
بیانیہ زبانی ہو یا تحریری۔لیکن مشترک عناصر کے باوجود ہر صنف کی شعریات اور حرکیات جدا ہے اور ایک صنف کا مطالعہ اس کی
شعریات،حرکیات اور روایت کی روشنی میں ہی کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح زبانی اور تحریری
روایت کے تقاضے مختلف ہیں جن کو مدنظر رکھا جانا نہایت ضروری ہے۔یہ ایسا ہی ہے
جیسے جمادات،نباتات اور حیوانات کی دنیا میں کچھ نہ کچھ ضرور مشترک ہے کیونکہ ایک
سطح پر سب مخلوق ایک درجے میں ہیں،لیکن جوں جوں اوپر اٹھا جائے اختلاف کی شدت میں
اضافہ ناگزیر امر ہوجاتا ہے۔یہاں تک کہ ہر اکائی اپنے ہی کل سے مختلف ہوجاتی ہے۔کل
کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس پر کل کے ہر اصول کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔بعینہ بڑی تخلیق
اپنی صنف کی روایت کا حصہ ہونے کے باوجود بھی اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔اس لیے تخلیق
کو محض چند تنقیدی اصولوں کی روشنی میں پوری طرح گرفت میںنہیںلیا جاسکتا۔
چونکہ اردو ناول کے ظہور
میںآنے کے بعد ناول کی رسومیات اور شعریات مثلاً واقعیت،کردار،پلاٹ وغیرہ کا
اطلاق داستان پر کیا جانے لگا۔موازنے کی حد تک تو یہ بات گوارا ہے مگر ناول کو حسن
وعیب کا پیمانہ قرار دینا غلط ہے ذیل میں داستان اور ناول کی رسومیات و شعریات سے
متعلق فاروقی کے موقف کو ’ساحری شاہی صاحب قرانی‘ کی جلد اول سے کشید کرکے پیش کیا
جارہا ہے:
1 ناول کے بیانیہ میں کردار کے ذریعے واقعات کو ظاہر کیا
جاتا ہے یعنی واقعات کی معنویت کردار یا بیانیہ نگار کی نظر پر منحصرہوتی ہے،اس کے
برعکس داستان میں واقعہ براہ راست اہمیت رکھتا ہے،وہ کردار پر منحصر نہیں ہوتا۔
2 داستان کی دنیا کے قاعدے قانون ہیں، جنھیں جاناجاسکتا
ہے۔کائنات کے اٹل اصول ہیں۔دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ بظاہر دکھائی دینے والی
دنیا اور نہ دکھائی دینے والی دنیا،یعنی طلسم کی دنیا، Inter-penetrate کرتی ہیں۔ناول کی دنیا پیچیدہ ہوتی ہے۔اصول و ضوابط کو سمجھا نہیں
جاسکتا۔بلکہ بعض اوقات ان کا سر ے سے وجود ہی نہیںہوتا۔
3 داستان کی تصنیف کا مقصد سماجی معلومات فراہم کرنا نہیں
ہوتا،جبکہ ناول کسی نہ کسی درجے میں ہمیں خارجی دنیا کی حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔
4 داستان اور ناول کی شعریات میں ایک لطیف فرق انسان
اورانسان کے علم کی حد اور نوعیت کے بارے میں ہے۔داستان میں علم دو طرح ظاہر ہوتا
ہے۔ایک خدا کی ہدایت ہے،جو لوح ،خواب،بشارت وغیرہ کے ذریعے ہوتاہے اور دوسری طرح
کا علم کہانت کے علوم کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔مثلاًرمل،جعفر،نجوم،ارواح وغیرہ۔ علم
ِکہانت کے ذریعے سے تو معلوم کرسکتے ہیں کہ مثلاًکسی بات کا انجام کس طرح ہوگا،مگر
یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ انجام کس طرح عمل میں آئے گا۔خدائی کا دعویٰ رکھنے
والوں اور ساحروں وغیرہ پر خدائی ہدایت کے ذریعے نصیب ہونے والے علم کے دروازے بند
ہوتے ہیں۔علم کی ان دونوں صورتوں میں یہ قدرِمشترک ہے کہ انسان جو کچھ جانتا ہے یا
جان سکتا ہے اس کے لیے کسی قسم کی امداد ضروری
ہوتی ہے،یعنی ہمیں داستان میں انسانی علم کے محدود اور ناقص ہونے کا تصور
ملتا ہے اسی لیے داستان میں ذہنی وقوعے بیان نہیں ہوتے۔کسی کے دل پر کیا گزررہی
ہے۔یہ ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ شخص ہمیں خود نہ بتائے۔جبکہ ناول اپنے
کرداروں کے ذہنی کوائف جاننے اور بیان کرنے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ ناول نگار تو ’عالم
الغیب‘ ہوتا ہے،اس طرح ناول نگار/ راوی کو بہت بڑا منصب دیا گیا ہے کہ وہ ہر ڈھکی
چھپی بات جانتا ہے۔ایک طرح سے ہم اپنی قوت فیصلہ اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ناول
سے ہمیں یہ توقع ہے کہ وہ انسانی صورت حال کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ کرے
گا۔ناول کو دعویٰ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کی اصل شخصیت کو شکار کرے گا۔داستان کے
راوی کو مکمل عالم الغیب ہونے کی غلط فہمی نہیں ہوتی۔داستان میں انسانی علم صرف
صورت ( (Appearance کو جان سکتا ہے، معنی
((Reality کو نہیں جبکہ ناول
معنی تک پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
5 داستان اور ناول کی تشکیل کی نوعیت میں بنیادی فرق
ہے۔داستان ناول کی طرح ’تصنیف‘ نہیں ہے۔ ناول کی تصنیف غور و خوض کرنے اور آہستہ
آہستہ لکھنے اور لکھے ہوئے پر نظر ثانی کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔داستان کے ساتھ
فوری پن کا تصور وابستہ ہے۔ناول نگار کے پاس ایک معقول وقت ہوتا ہے اور اس کے قاری
یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔داستان گو داستان کا غلام بن جاتا ہے۔اسے طے شدہ وقت،ہر
روز یامقر رہ وقفہ،پر داستان سناناہی پڑتی ہے۔اس طرح جتنی بارداستان سنائی جاتی ہے
گویا اسے ہر مرتبہ ’تصنیف‘کرنا پڑتا ہے۔اگر چہ داستان گو کے پاس ایک بنیادی قصہ
موجود ہوتا ہے،لیکن وہ اس میں کمی بیشی اور رنگ آمیزی کرتا رہتا ہے اور داستان کا
سلسلہ دراز ہوتا رہتا ہے۔
6 رتن ناتھ سرشار کہتے ہیں کہ ناول کے ساتھ انسان ذاتی
تعلق قائم کرسکتا ہے،جب چاہا اٹھاکر پڑھ لیا،جبکہ داستان کو اس وقت سننا پڑتا ہے
جب داستان گو سنارہاہو۔ لیکن فاروقی ا س کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ داستان کی
فطرت ہی ایسی ہے کہ اس میں کہیں سے بھی داخل ہوا جاسکتا ہے۔کتاب کے معاملے میں
مصنف کو کچھ اختیار نہیں،جبکہ داستان گو اور اس کے سامعین میں ہم آہنگی کا رشتہ
ہوتا ہے۔
7 اسطور اورداستان ’تصنیف بے مصنف‘ ہوتی ہیں۔ یہ اجتماعی
حافظے کی پیداوار اور اس کا اظہار ہوتی ہیں۔ ناول اپنے مصنف اور عصر کے شعور کا
اظہار کرتا ہے۔جبکہ داستان بھی بطور زبانی بیانیہ اپنی تہذیب میں رائج تصورات حیات
و موت،قضا و قدر وغیرہ کو زبان دیتی ہے اور تہذیب میں جاری تصورات کو ہم تک
پہنچاتی ہے۔
8 واقعیت پر مبنی بیانیہ مثلاًناول،بیانیہ کاایک اسلوب ہے۔
اسی طرح فوق الفطرت باتوں پر بیانیہ بھی بیانیہ کا اسلوب ہے۔دونوں اسلوب اپنی اپنی
جگہ معتبر اور مکمل ہیں۔کسی ایک کا اطلاق دوسرے پر کرنا غلط تصور ہے۔
9 ناول کی ایک بڑی خوبی واقعات اور مناظرکی ندرت ہے۔نئی صورت
حال اور نیا منظر دکھانے کے لیے ناول نگار مجبور ہے جبکہ زبانی بیانیہ کی ضرورت
واقعات اورمناظر کی ندرت نہیںبلکہ ان کے بیان کی ندرت ہے ایک ہی طرح کے واقعات میں
تنوع پیدا کرنا کما ل ہے۔
مختصراً ناول کی شعریات کے
متعلق یہ معروضات اور خیالات و نظریات شمس الرحمن فاروقی نے وقتاً فوقتاً پیش کیے
ہیں جن کو راقم نے فاروقی کی تصانیف (ساحری،
شاہی اور صاحب قرانی اور افسانے کی حمایت میں) اور دیگر ذرائع (مضامین،مکالمے اور انٹرویوز)
سے کشیدکرکے حتی الوسع مربوط پیرایہ میںترتیب دینے کی کوشش کی ہے تاکہ ناول کی
شعریات کے حوالے سے ان کا موقف سامنے آئے اور ساتھ ہی ناول اور داستان کی شعریات
کے فرق وامتیاز کو فاروقی کے نقطہ ٔ نظر
سے پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔آخر میں شمس الرحمن فاروقی کے اس قول سے (جو انھوں نے بہ حوالہ روب گریے
لکھا ہے ) اس بحث کو سمیٹتا ہوں:
’’
شعور کی داخلی حقیقت صرف ان
اشیا کے سیاق و سباق میں وجود رکھتی ہے جن سے کہ شعور ٹکر اتا ہے یا جن کا وہ
سامنا کرتا ہے۔لہٰذا شعور ولاشعور کی پیچ در پیچ جگر کاوی کی اصل اس ماحول کے
ذریعے ظاہر ہوسکتی ہے جس میں کوئی شخص یا وجود خود کو موجود پاتا ہے... کسی ناول
کے مواد یا موضوع کا ذکر کرنا ناول کو اصناف فن کی فہرست سے خارج کرنے کے علاوہ
کچھ نہیں ہے۔کیونکہ فن نہ کسی چیز کا اظہار کرتا ہے،نہ کسی چیز کا مظروف ہوتا
ہے۔فن اپنا توازن اور مفہوم آپ پیدا کرتا ہے۔‘‘ 16
حوالے
1 شمس الرحمن فاروقی،شعر،غیر شعراور نثر،ص 260
2
سید علی کریم(مدیر)۔فکر
وتحقیق(سہ ماہی ناول نمبر )قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی2-16،صفحہ
9-10
3 علی احمد فاطمی، ناول کی شعریات، ص18،عرشیہ پبلی
کیشنز،نئی دہلی
4 شعر،غیر شعراور نثر۔ص263
5 ایضاً، ص265
6 ایضاً، ص 263
7 ایضاً، ص266
8 شمس الرحمن فاروقی،ساحری،شاہی،صاحب قرانی،داستان امیر
حمزہ کا مطالعہ،جلد اول،ص85
9 شمس الرحمن فاروقی،ساحری،شاہی،صاحب قرانی،داستان امیر
حمزہ کا مطالعہ،جلد اول،ص21-22
10 ایضاً، ص264
11 ایضاً، ص282
12 ایضاً، ص261
13 ساحری،شاہی،صاحب قرانی جلد اول،ص87
14 شمس الرحمن فاروقی،افسانے کی حمایت میں،ص 165
15 شمس الرحمن فاروقی،کئی چاند تھے سر آسماں،ص853
16 شعر،غیر شعراور نثر،ص 270
n
Mohd Iqbal Lone
Urdu Section, Jammun & Kashmir Cultural
Academy, Lalmandi
Srinagar- 190008 (J&K)
Mob.: 7006538941
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں