26/2/21

ناول ’قبض زماں‘ ایک ماحولیاتی قرأت - مضمون نگار: توصیف بریلوی


 


شمس الرحمن فاروقی ناول نگار سے زیادہ نقاد کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن ان کی ناول نگاری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ زوال پذیر مغلیہ عہد کی داستان سناتا ہے۔ اس وقت کے رہن سہن، کھان پان،  پہناوے اور زیورات پر خاصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔موصوف کا دوسرا ناول ’قبض زماں‘ 2012 میں پہلی بار پاکستان میں منظر عام پر آیا اور اب 2020 تک اس کے متعدد ایڈیشن آ چکے ہیں۔’قبض زماں‘ کے متعلق ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے ناول کی صف میں رکھیں یا داستان کی صف میں یا پھر طویل افسانے کی؟ کیوں کہ اس میں ناول اور افسانے والے تمام اجزا تو ہیں لیکن Time Travel بھی اس کا خاص وصف ہے جس کی وجہ سے داستان کا شائبہ  گزرتا ہے۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر مذاہب کی کتابوں میں اس طرح کے واقعات درج ہیں پھر بھی ایسی باتوں پر یقین کرنا آسان نہیں۔ مذکورہ ناول ’قبض زماں‘سے مراد بھی یہی بات ہے کہ وقت کو قبضے میں کر لینا یا یوں سمجھیں کہ وقت کی قید سے آزاد ہو جانا۔ ’قبض زماں‘ کی کہانی یہ ہے کہ ایک سپاہی جو سکندر سلطان لودی کی حکومت کے آخری سال یعنی 1517  سے مغلیہ حکومت کے زوال کے وقت یعنی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں پہنچ جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ سکندر سلطان لودی کا ایک سپاہی ڈاکوؤں سے لٹ جانے کے بعد اپنی بیٹی کے بیاہ کے لیے ایک طوائف سے قرض لیتا ہے اور اپنی بیٹی کی شادی کر دیتا ہے۔کچھ سال کے بعد جب وہ قرض واپس کرنے جاتا ہے تو اس طوائف کا انتقال ہو چکا تھا۔ وہ اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتا ہے تو اسی قبر سے ہوتے ہوئے ایک ایسی دہلی میں پہنچ جاتا ہے کہ جس کا زمانہ اورنگ زیب کے بعد کا ہے۔جو رقم وہ اپنا قرض اتارنے کے لیے لایا تھا وہ تو اس زمانے میں رائج ہی نہ تھی جس کی وجہ سے وہ بہت حیران و پریشان بھی ہوتا ہے۔اُس موقعے پر اصحاب کہف کا واقعہ بے ساختہ یاد آ جاتا ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیکڑوں برس گزار آیا ہے تو اس کی کیفیت مجنونانہ ہو جاتی ہے اور ذہن کچھ سوچنے کے لائق بھی نہیں رہتاہے۔

راقم کو ناول کی کہانی بیان کرنا مقصود نہیں تھا پھر بھی ناول کے تعارف میں اختصار سے کام لیتے ہوئے اب اصل موقف کی طرف بڑھا جائے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ناول میں جو زبان(بلکہ املا بھی) استعمال کی ہے وہ واقعی قدیم اردو کی یاد دلاتی ہے اور تاریخی نقطہ نظر سے بھی ناول اہمیت کا حامل ہے۔ ادبی ماحول کا جو تانا بانا مغلیہ حکومت کے آخری وقتوں میں اردو ادب کے عظیم شاعروں پر مبنی ہے مثلاً میر تقی میر، سودا، درد اور ان کے معاصرین کا تذکرہ، ان کی صحبتیں اور ان کی ادبی محفلیں ان سب کا تفصیلی تذکرہ ایک عہد آنکھوں کے سامنے Visualize کر دینے کی قوت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں مغل حکومت سے بھی پہلے دہلی اور اطراف دہلی میں آب و ہوا کیسی تھی؟ کون کون سے جانور، چرند اور پرند انسانی بستیوں اور جنگلوں میں پھرتے تھے۔ ان کے بارے میں بہت سی معلومات ناول میں مہیا کی گئی ہیں۔جس سے اس وقت کے ماحولیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ آگرہ جب بسایا جا رہا تھااس وقت سے لے کر روہیل کھنڈ میں دھام پور کے نزدیک مغل اور روہیلوں کی جنگ تک تکنیکی اسلحوں کا ارتقا، ایسی بہت سی باتیں ناول کو معنی خیزبناتی ہیں اورقاری کو پرانے عہد میں لے جاتی ہیں۔

ماحولیات اپنے آپ میں زندگی کی علامت ہے۔ اگر ماحولیاتی نظام ہی درہم برہم ہو جائے تو زندگی اجیرن ہو جائے۔ مختلف قسم کی آلودگی، جانوروں اور پرندوں کا حد سے زیادہ شکار اور جنگلوں کا بے تحاشا کاٹا جانا ماحولیات کے لیے سم قاتل ہے۔ ماحولیات کو بچائے رکھنے  کے لیے چھوٹے سے چھوٹے جرثومے سے لے کر بڑے بڑے جانوروں تک کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے لیکن انسان نے اپنی ضرورت کے مطابق نہ صرف جانوروں کا شکار کیا بلکہ جنگلوں کو کاٹ کر کھیت اور اب ان کھیتوں کو ختم کرکے بستیاں بسانے اور فیکٹریاں لگانے میں منہمک ہے۔یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے جس سے جانوروں اور پیڑوں کا تناسب روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے اور یہ سیارہ ہمہ وقت ایک عجیب و غریب خطرے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چونکہ ناول کی قرأت ماحولیات کے حوالے سے کی گئی ہے تو اس میں ان اقتباسات پر گفتگو کی جائے گی کہ جہاں پر ماحولیات سے متعلق کوئی پہلو سامنے آتا ہوگا۔

راوی جب رات کو اپنے گاؤں کے گھر میں رات کو سونا چاہتا ہے اور اسے پرانی باتیں یاد آتی ہیں جو اس کے بچپن کی یادوں میں سے ہیں، اس میں سے ایک جگہ تالاب اور اس میں رہنے والے چیونٹوں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کا تذکرہ بڑی باریکی سے کیا گیا ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: 

’’بہر حال ہماری گڑھی میں مچھلیاں نہیں، لیکن جونکیں، گھونگے اور پانی کے چیونٹے بے شمار تھے۔ یہ پانی کے چیونٹے بھی خوب تھے، نہایت دبلے پتلے،بالکل جیسے وہ تنگ اور پتلی اور لمبی ہلکی بادبانی کشتیاں جنھیں Pinnace کہتے ہیں، یا جیسے کشمیری شکارے، بے حد ہلکے پھلکے۔ سیاہ بھورا رنگ، جسے Steel Grey کہیے، اور اس قدر لمبی لمبی ٹانگیں جیسے وہ سرکس کے جوکروں کی طرح پاؤں میں بانس باندھے ہوئے ہوں۔وہ پانی کی سطح پر اس قدر تیز دوڑتے جیسے دوڑ کے میدان میں گرے ہاؤنڈ کتے دوڑتے ہیں۔ مجھے اب یہ تو نہیں یاد کہ وہ کتنی دور تک دوڑتے نکل جاتے تھے(گڑھی خاصی چوڑی تھی، یا مجھے وہ چوڑی لگتی تھی۔) مجھے یاد نہیں کہ کوئی چیونٹا کبھی اس پار سے اس پار پہنچتا ہوا دکھائی دیا ہو۔ لیکن وہ جانور بالکل ننھے منے اور ہلکے پھلکے تھے اور گڑھی کا پانی بھی کچھ بہت روشن نہ تھا، اس لیے اگر وہ اس پار نکل بھی گئے ہوتے تو مجھے نظر نہ آ سکتا تھا کہ وہ اس کنارے پر پہنچ ہی گئے ہیں۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ان کی دوڑ یہی کوئی دو ڈھائی فٹ کی ہوتی تھی اور مجھے ایک چھوٹے سے آبی منطقے میں دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے،اپنے تئیں ایک عجب اہمیت کا احساس اور خودنگری کا رنگ لیے ہوئے، گویا وہ سارا پانی انھیں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اکثر میں دیکھتا کہ وہ ایک طرف دوڑتے ہوئے گئے، پھر دفعتاً کنی کاٹ کر کسی اور طرف نکل گئے۔چراگاہوں میں کلیلیاں کرتے ہوئے آہو بچوں اور الل بچھیروں کی طرح انھیں ایک دم قرار نہ تھا۔‘‘ 

(شمس الرحمن فاروقی، قبض زماں، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی2020(چھٹا ایڈیشن) ص35-36)

مندرجہ بالا اقتباس میں فاروقی صاحب نے گاؤں کے چھوٹے سے تالاب جسے گڑھی کہا جاتا تھا اس میں چیونٹوں جیسے کیڑوں کا ذکر نیز ان کی جسمانی ساخت اور ان کی دوڑ بھاگ کے متعلق تفصیلی ذکر کیا ہے۔ تالاب کے کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے۔ یہ چیونٹے نما کیڑے اسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں جو اپنے اپنے طور پر ماحولیات کو بنائے رکھنے میں اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔ یہاں اختصار کی وجہ سے یہ اقتباس مختصر کرنا پڑا ورنہ آگے چل کر گھونگوں اور جونکوں کا ذکر بھی مصنف نے دلچسپ انداز میں قلم بند کیا ہے۔

راوی جب سونے کی کوشش میں ناکام ہو جاتا ہے تو اپنے گاؤں کے وہ دن بھی یاد کرتا ہے جب اس کے دادا کے دروازے پر نیم کا پیڑ تھا۔ اصل میں درخت ہندوستانی تہذیب کا بہت اٹوٹ حصہ رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ درخت انسانی تاریخ اور زندگی کا اہم حصہ ابھی بھی ہیں۔ درختوں نے ہی انسان کو شروع میں سر چھپانے کو اور جنگلی جانوروں سے بچنے کے لیے اپنی شاخوں کو آغوش کی طرح پھیلا دیا تھا۔ بہر کیف آج درختوں کی کٹائی جس بے حسی کی ساتھ ہو رہی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ نقصانات کے طور پر پوری دنیا میں آکسیجن کو صاف رکھنے کے لیے پیڑ پودے دن بہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے اسی طرح کے ایک عزیز نیم کے درخت کے نہ ہونے پر مصنف جن لفظوں میں افسوس کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں:

’’دادا کے دروازے پر نیم کا پیڑ، جس کے نیچے خاندان کے لوگوں کے ساتھ گاؤں کا ہر اجنبی مسافر کھانا کھاتا تھا، اب نہیں ہے۔ جس درخت کے سائے میں اس وقت میں لیٹا ہوا سونے کی کوشش کر رہا ہوں، اس کی عمر بمشکل تیس چالیس برس ہوگی۔ وہ گڑھی اور وہ پیپل تو اس طرح صفحۂ وجود سے محو ہو چکے ہیں گویا کبھی تھے ہی نہیں         ؎

ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں

خاک تھے آسماں کے تھے ہی نہیں

جو ن ایلیا نے ہجرت کے پس منظر میں کہا تھا۔ ان بچاروں کو کیا معلوم کہ ہم لوگ جو یہیں کے تھے اور کہیں نہ گئے، ہم لوگوں کا سارا بچپن، سارا لڑکپن، تمام اٹھتی ہوئی جوانیاں، تمام دوستیاں اور رقابتیں ان اشجار کے ساتھ گئیں جو کٹ گئے، ان تال تلیوں کے ساتھ ڈوب گئیں جو سوکھ گئے، ان راہوں سے اٹھا لی گئیں جن پر گھر بن گئے۔‘‘(ایضاً، ص39) 

محولہ بالا عبارت سے اُس افسوس کا انکشاف ہو جاتا ہے جو ایک طویل عرصے بعد مصنف کو اس کے ماضی کی یاد ہی نہیں دلاتا بلکہ بچپن، جوانیاں، دوستیاں اور رقابتوں سے متعلق بہت سے واقعات تازہ کر دیتا ہے جن کا تعلق گاؤں کے متعدد اشجار کے ساتھ تھا اور وہ اشجار ان کے گواہ تھے۔

راوی اپنے گاؤں میں رات کے وقت نیند سے عاری ہے اور اپنے بچپن کے قصے یاد کرتا ہے پھر اسے بھوت، چڑیل، جنات وغیرہ سبھی کے واقعات یاد آتے چلے جاتے ہیں۔ پیپل کے درخت کا برم بھی اسے یاد آتا ہے اور پھر اسے ایسا لگتا ہے کہ کوئی روح اس کے قریب آکر اپنا واقعہ سنانا چاہتی ہے۔ اسی واقعے پر اصل ناول مبنی ہے۔ سکندر سلطان لودی کی حکومت میں ایک سپاہی جب جنگل میں لٹ جاتا ہے اور وہ لٹیرے اسے باندھ کر ڈال جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اسے خیال آتا ہے کہ کہیں جنگلی جانور اسے اپنا نوالہ نہ بنا لیں۔ اس موقعے پر اس کے ذہن میں نقصان پہچانے والے جانوروں اور ان کے مناسب ماحولیات کی باتیں گردش کرتی ہیں۔اس ذیل میں ناول سے ایک عبارت یہاں رقم کی جاتی ہے:

’’کیا بہت دیر ہو گئی تھی؟ کیا اب کوئی آنے والا نہیں ہے؟ ابھی ابھی میں نے شیر کی دہاڑ سنی تھی کیا؟ شیر تو اس علاقے میں تھے نہیں، ہاں گلدار بہت تھے۔ گلدار تو جمنا کے کنار ے کی کچھاروں میں دہلی سے کرنال تک چھوٹے ہوئے سانڈوں کی طرح بے روک ٹوک گھومتے تھے اور بھیڑیے بھی۔گلداروں کی تو ہمتیں اس قدر کھلی ہوئی تھیں کہ دہلی کے مضافات میں جو آبادیاں بوجہ نقل مکانی کے ذرا چھدری ہو جاتیں، ان کے خالی گھروں میں گلدار آباد ہو جایا کرتے تھے۔ یہاں تو میں جمنا کے کنارے سے دور تھا۔ سلطان فیروز شاہ خلد مکانی نے یہ نہر بنوائی ہی اسی لیے تھی کہ جمنا کا پانی جن علاقوں میں پہنچتا نہیں ہے وہاں بذریعہ اس نہر کے پہنچ جائے۔ لیکن یہاں بھی اب درختوں کے گھنے اور نہر کی رطوبت نے کچھار جیسا سماں پیدا کر دیا تھا۔ سلطان فیروز کو اللہ نے جنت میں اونچا مقام ضرور دیا ہوگا۔‘‘  (ایضاً، ص53)

مذکورہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سپاہی جسے ڈاکو باندھ کر چلے جاتے ہیں وہ دل ہی دل سوچتا ہے کہ اس علاقے میں شیر تو ہیں نہیں ہاں گلدار بہت ہیں بلکہ ان کی اتنی بہتات ہے کہ وہ جمنا کے کنارے کنارے کچھاروں میں دہلی سے کرنال تک پھیلے ہوئے ہیں یہاں تک کہ یہ گلدار دہلی کے مضافات میں بسی بستیوں کے خالی گھروں میں بھی رہنے لگتے تھے۔علاوہ ازیں اس اقتباس میں ایک نہر کا بھی ذکر ہے جو اپنی رطوبت سے کچھار جیسا ماحول بناتی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے قدیم زمانے کی دہلی کی ماحولیات میں پائے جانے والے جانوروں کا بھی خاصا مطالعہ کیا ہوگا۔

سپاہی جب اپنے گاؤں میں بیٹی کی شادی کے بعد کچھ برس گزارتا ہے تو سردیوں کی آمد پر جانوروں اور پرندوں کی بہتات گاؤں کے آس پاس اور باغ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’چیل کوے گوریاں درختوں اور آسمانوں میں شور مچاتے پھرتے کہ سردیاں اب واپس آنے والی ہیں۔ باغوں میں موروں کی کثرت تھی۔ کالے تیتر اپنے اپنے بھٹ سے نکل کر اتراتے پھر رہے تھے۔ تنو مند، بلند و بالا نیل گائیں، بارہ سنگھے، چھریرے چیتل، کانکر، لمبی پیچ دار سینگوں والے کالے، ٹھگنے چو سنگھے، سبھی طرح کے ہرن ہر موڑ پر اور ہر کھلی جگہ پر دکھائی دیتے اور آنکھوںکو ٹھنڈک پہنچاتے۔‘‘ ایضاً، ص72)

مندرجہ بالا اقتباس میں ناول نگار نے موسم کا ذکر کیا ہے اور اسی کی مناسبت سے مختلف جانوروں اور پرندوں کا بھی ذکر آیا ہے۔ جانور انسانوں سے بھی زیادہ حساس ہوتے ہیں انھیں موسم کی تبدیلیوں کا اندازہ ہم انسانوں سے پیشتر ہی ہو جاتا ہے۔ اقتباس کے شروع ہی میں بتا دیا گیا ہے کہ سردیوں کا موسم آنے کو تھا اس لیے سپاہی کے گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں پائے جانے والے مختلف قسم کے جانوروں اور پرندوں کے جھنڈ اور غول دیکھنے میں آنے لگے تھے جو کہ آنکھوں کو سکون بخشتے تھے۔ یہ جس زمانے کی کہانی ہے اس زمانے میں مور، نیل گائے، مختلف قسم کے ہرن، چیتل اور کانکر جیسے جانوروں کی بہتات تھی جو ماحولیات کو بنائے رکھنے میں ظاہر ہے اپنا تعاون پیش کرتے رہے ہوں گے۔اب ان میں سے کچھ جانور ناپید ہیں اور کچھ اختتام کی دہلیز پر ہیں۔آج جب جنگل ہی ختم ہو رہے ہیں تو ان جانوروں کے لیے کوئی جائے رہائش ہی کہاں ہے۔ یہ آج کے وقت کا بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے۔

سپاہی جب امیر جان نامی طوائف کا قرض ادا کرنے جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہے اور اس کی محل نما حویلی بھی اب کھنڈر ہوئی جاتی ہے تو اس نے سوچا کہ اب امیر جان کی قبر پر فاتحہ پڑھنا اس کا فرض ہے۔ اسی غرض سے وہ قبرستان کا رخ کرتا ہے اور اس موقعے پر قبرستان میں کھلے پھولوں، پرند اور جانوروں کی وجہ سے وہاں کا ماحول خاصا پر فضا دکھائی دیتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’پھولوں اور پیڑوں کے باعث قبرستان خاصا پر فضا تھا۔ قمریاں اور کبوتروں اور فاختائیں غول کے غول ہر طرف یاہو اور غٹر غوں کرتے دانہ چنتے نظر آتے تھے۔ مور بھی کثرت سے تھے۔ کبھی کبھی تیتر، لومڑیاں اور خرگوش بھی دکھائی دے جاتے۔ ‘‘ (ایضاً، ص75)

مذکورہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پھول، پیڑ، پرندے اور دیگر جانور اپنے طور پر ماحولیات میں توازن برقرار رکھتے ہی ہیں ساتھ ہی ان کے دم سے فضا میں بہار محسوس کی جاتی ہے۔ تصور ہی نہیںکیا جا سکتا کہ کوئی بھی چمن صرف پیڑ پودوں کی وجہ سے مکمل ہو، تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ مختلف قسم کے جانور بغیر جنگل اور پیڑ پودوں کی شوخیوں کے ساتھ گھومیں پھریں۔ان سب سے مل کر ہی ماحولیات تیار ہوتا ہے جو سب کے لیے مفید ہے۔ ناول نگار نے مذکورہ بالا حصے میں قبرستان کے پر فضا ہونے کی بات کہی ہے جب کہ قبرستان میں جاکر اداسی چھا سکتی ہے، لواحقین کی یاد تازہ ہو سکتی ہے لیکن مختلف قسم کے خوبصورت پرندے مثلاً مور، فاختائیں اور کبوتر اور جانور مثلاً خرگوش یہ سب مل کر اس اداس ماحول کو بھی تر و تازہ بنانے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہیں ماحولیات کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اُس کا صحت مند ہونا انسانوں کے لیے بھی کتنا ناگزیر ہے۔

سپاہی جب امیر جان کی قبر میں راستہ دیکھتا ہے تو پس و پیش کے بعد اس میں اتر جاتا ہے اور ایک الگ ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے سامان بہت تھے۔ امیر جان نے اس سے وہ رقم تو واپس لی نہیں اور منہ پھیرتے ہوئے اسے باہر نکل جانے کو کہا بلکہ اپنی اردابیگنی( محافظ لڑکی) سے کہہ کر اسے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ باغ سے باہر آکر سامنے ہی ایک بازار تھا جو مختلف قسم کی جنس، میوہ جات اوردیگر سامان سے بھرا پڑا تھا۔حسینوں کا جمال بھی بازار میں جا بجا نظر آتا تھا۔ بیچ بازار کے ایک نہر تھی، آئینے کی طرح شفاف جس کے دونوں طرف پھل پھول والے درخت تھے۔ اس نہر کو کوئی بھی شخص گندا نہیں کر سکتا تھا۔ شاہی ملازمین اس کام پر بھی مامور تھے اور جو نہر کو گندا کرتا تو اسے لہو لہان کر دیا جاتا۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’بیچ میں بازار کے ایک نہر، تازہ خوش گوار پانی کی رواں، اس کے دو رویہ درخت پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے۔ مگر کسی کو یاراے گل چینی نہیں۔ ثمر ہائے شیرین و پختہ کو ملازمان شاہی چن چن کر توڑتے اور مونج کی سبد میں اکٹھا کرتے ہوئے۔ نہر کا پانی خس وخاشاک سے پاک آئینے کی مانند۔ باغبانیاں، گری ہوئی پتیوں اور پنکھڑیوں کو جال سے سمیٹتی ہوئی۔کیا مجال جو کوئی بے خیالی میں بھی کوئی تنکا، کوئی خاش، کوئی دھجی، نہر میں ڈال دے۔ محتسبان بازار کا یہ بھی ایک کام ہے۔ سونٹے لیے ہوئے پھرتے ہیں۔ جہاں کسی نے ایک دھج بھی گرائی، سونٹا لہرا کے اس سے کہا کہ اٹھا، ورنہ پیٹھ لہو لہان کر دوں گا۔ ‘‘

(ایضاً، ص87)

مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے شاہی انتظامات نہر کے لیے بھی کتنے سخت تھے۔ نہروں کو صاف رکھنے کے پیچھے وجہ یہ بھی تھی کہ انھیں نہروں سے کارو بار زمانہ چلتا تھا۔ ان نہروں کی صفائی اور خوبصورتی کاذکر پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صاف و شفاف نہریں اس وقت ماحولیاتی نظام میں بڑی معاون ثابت ہوئی ہوں گی۔ ہاں بے شک اس زمانے میں فیکٹریوں سے نکلنے والی گندگی کا رخ نہروں کی طرف نہیں موڑا جاتا ہوگا، نہ ہی برسات میںکھیتوں سے بہہ کر مہلک کیمکل نہروں میں شامل ہوتے ہوں گے۔ پھر بھی ان کی صفائی کا کیسا خیال رکھا جاتا تھا۔ مندرجہ بالا اقتباس میں نہر کی صفائی کا جو نظام پیش کیا گیا ہے وہ متاثر کن ہے۔

وہ سپاہی جب خواب جیسی زندگی سے نکل کر اپنے گاؤں کا تصور کرتا ہے تو اسے اپنے بیوی بچوں کے پیکر تو نظر آتے ہی ہیںساتھ ہی اپنے باغ اور وہاں کے چرند پرند بھی یاد آتے ہیں۔ باغ کے ختم ہونے کا افسوس بھی وہ کرتا ہے اور پھر یہ بھی سوچتا ہے کہ نیا باغ کسی نے لگا لیا ہوگا۔

’’کچھ نہ ہوگا تو میرا گاؤں تو ہوگا۔ کوئی تو میری زمینوں کو کاشت کر رہا ہوگا۔ میرا اپنا باغ سوکھ گیا ہوگا، دیمک کھا گئے ہوں گے لیکن اس کی جگہ نیا باغ تو کسی نے لگا لیا ہوگا۔ اس میں پپیہے اور کوئلیں تو کوکتی ہوں گی۔ اس پر بارش کی پہلی پھوار سے گرد آلود آم کا منھ تو اب بھی دھل جاتا ہوگا؟‘‘(ایضاً، ص142)

محولہ بالا اقتباس میں مصنف نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ سپاہی اپنے گاؤں کو اور اپنے کنبے کو یاد کرتا ہے ساتھ ہی اپنے کھیت کھلیان، باغ اور اس میں رہنے والے پپیہے اور کویلوں کوبھی یاد کرتا ہے۔ پیڑ پودے روز اول ہی سے انسان کو سہارا دئے ہوئے ہیں۔ اس کی یادوں کے مسکن اور زندگی میں اہم ستون کی اہمیت رکھتے ہیں۔وہ سپاہی ایک الگ ہی دنیا میں پہنچنے کے بعد بھی اپنے کنبے کے ساتھ ساتھ اپنے کھیت کھلیان اور باغ کو بھلا نہ سکا۔اس حصے سے انسان کا قدرت کے ساتھ اہم رشتے کی وضاحت ہوتی ہے۔

زیر نظر مضمون میں حتی المقدور ان عبارتوں اور اقتباسات کو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے جن میں ماحولیات یا ماحولیات کو بنائے رکھنے میں معاون چرند، پرند، موسم، ندی نہر، فصلیں، پھل پھول، باغات اور کھیت کھلیان کا تذکرہ کیا گیاہے۔ ناول کا مطالعہ کرنے پر مصنف کی باریک نظر، عمیق فکر اور ماحولیاتی حسیات کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے ’قبض زماں‘ میں ایسے کئی مواقع پر ماحولیاتی مسائل کو بڑی حسیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سب سے زیادہ باریکی سے ص 35 سے 38 تک مختلف قسم کے آبی کیڑے مکوروں کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ ان کی عادات و اطوار کو بھی پیش کیا ہے جس سے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ صاف جھلکتا ہے۔ضرور موصوف نے Animal Behaviour اور Entomology کا بڑی دلچسپی سے اور تادیر مطالعہ کیا ہوگا۔ اس ضمن میں طوالت سے بچنے کے لیے ص 35 تا 36 تک ہی اقتباس دیا جا سکا ہے۔

علاوہ ازیں ناول میں کئی جگہوں پر پیڑوں کے کٹنے یا وقت کی آندھیوں میں کھو جانے پرشدید اظہار افسوس ملتا ہے۔بہت سے جانوروںاور پرندوں کا ذکر پر فضا ماحول اور زندگی کی علامت کے طور پر کیا گیا ہے۔  مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ناول ’’قبض زماں‘‘ میں تاریخی، جغرافیائی اور Time Travel جیسے نکات سموئے ہوئے ہے لیکن اس کا ماحولیاتی پہلو بھی قابل غور و فکر ہے۔

 

Tauseef  Barelvi

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

Mob.: 7302702087

Email.: venuseefvi@gmail.com

 


 


 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں