کرشن چندر کی پیدائش بھرت پور
راجستھان میں ہوئی مگر ان کا بچپن جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں گزرا۔ وہیں انھوں
نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔وہ بچپن سے لے کر 1929 تک پونچھ میں رہے۔کرشن چندر کے
والد ملازمت کے سلسلے میں پونچھ میں رہے اور اس کے بعد دہلی آگئے۔ اس طرح کرشن
چندر کا ناطہ کشمیر سے ٹوٹ گیا۔مگر تاحیات وہ کشمیر کے گیت گاتے رہے۔ ان کی ادبی
زندگی کا آغاز بھی پونچھ میں ہوااور پہلی تین چار کہانیوں کا پس منظر بھی پونچھ
ہی رہا۔ کشمیر سے نکلنے کے بعد اگرچہ وہ اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے مگر اس کے
باوجود ان کی یادوں اور تحریروں میں کشمیر زندہ رہا۔ انھوں نے ’’ کشمیر کی کہانیاں
‘‘ کے دیپاچہ میں لکھا ہے کہ ’’ میرے بچپن کی حسین ترین یادیں اور جوانی کے بیش
قیمت لمحے کشمیر سے وابستہ ہیں‘‘۔ اردو نثر میں کرشن چندر کے اسلوب کو ہرکسی نے
سراہا ہے اور ناقدین کا ماننا ہے کہ ان کا یہ شاعرانہ اسلوب کشمیر کی ہی دین ہے۔
کشمیر کے حوالے سے انھوں نے کئی افسانے اور ناول یاد گار چھوڑے ہیں۔
کرشن چندر کا شمار اردو کے بڑے
ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کوئی تیس سے زائد ناول لکھے ہیں۔ ان کے ناولوں
میں شکست ، میری یادوں کے چنار اور ’ مٹی
کے صنم ‘ پونچھ کے حوالے سے کافی اہم ہیں۔ انھوں نے ناول نگاری کا آغاز ’ شکست ‘
سے کیا۔ناول ’شکست ‘ ترقی پسند نظریہ کا حامل ہے جبکہ ’ مٹی کے صنم ‘ ایک سوانحی
ناول ہے۔کرشن چندر نے افسانہ نگاری کے میدان میں بھی اپنا ایک منفرد مقام حاصل کیا
اور آج بھی افسانہ نگاری کی تاریخ میں ان کا نام سر فہرست ہے۔ انھوں نے کشمیر کے
متعلق کافی تعداد میں افسانے لکھے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے جنت اور جہنم،
بند والی، کفارہ، سڑک کے کنارے، کشمیر کو سلام، جیل سے پہلے اور جیل کے
بعد، لاہور سے بہرام گلہ تک، چاند کی رات،’ گرجن کی ایک شام وغیرہ اہم افسانے ہیں۔
’
میری یادوں کے چنار ‘ کا براہ
راست تعلق پونچھ سے ہے کیونکہ اس میں کرشن چندر نے وہی زندگی پیش کی ہے جو انھوں
نے پونچھ میں گزاری ہے۔ ناول ’’ میری یادوں کے چنار ‘‘ ان کی ابتدائی زندگی پر
مبنی ہے اور ان کی ابتدائی زندگی پونچھ میں گزری ہے اس لیے وہاں کی تہذیب، سماج
اور علاقائی منظر کشی فطری ہے۔ ناول ’میری یادوں کے چنار‘1962میں شائع ہوا۔۔یہ
ناول کرشن چندر کا سوانحی ناول ہے۔بیشک اس ناول میں تاریخی ربط نہیں پایا جاتا جو
سوانح عمری میں ملتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ناول سوانحی خصوصیات کا حامل ہے۔یاد
رہے کہ ’ مٹی کے صنم‘ اور ’ آدھے سفر کی پوری کہانی‘ بھی ان کے سوانحی ناول
ہیں۔’میری یادوں کے چنار‘ میںکرشن چندر نے اپنے بچپن کے سوانحی کوائف کو افسانوی
رنگ دے کر پیش کیاہے۔اس ناول کے متعلق جگدیش چندر ودھاون لکھتے ہیں ؛
’میری یادوں کے چنار ‘ کا کینوس بہت محدود ہے۔ زیادہ تر
اس کا تعلق کرشن چندر کے لڑکپن اور ان کے والدین کی خانگی زندگی سے ہے۔ مختلف ابواب
کے موضوعات کی نوعیت اس امر کو واضح کردے گی۔ ملاحظہ ہو: کرشن چندر کے والد کا
مچھلی کے شکار کے لیے کرمان جانا اور وہاں کے ناخوشگوار واقعات کا کرشن چندر پر
دائمی اثر... کرشن چندر کی اچھوت لڑکی تاراں سے دوستی اور ڈاب پر ننگا
نہانا...پونچھ کے مختلف علاقوں میں امیر اور غریب لوگوں کی زندگی کا گھنائونا تضاد ‘‘
(کرشن چندر شخصیت اور فن، جگدیش چندر ودھاون،2003، ص634)
کرشن چندر نے اس ناول میں اپنے
بچپن کے وہ ایام جو وادی کشمیر کے حسین ترین خطے میں گذارے تھے ان کو ہو بہو پیش
کیا ہے ۔ایک بچہ کس طرح اپنا بچپن وادی کے پہاڑی علاقوں میں گزارتا ہے اور کس طرح
ان پہاڑی علاقوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ان تمام حرکات و سکنات کو انھوں نے
خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اس حوالے سے ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ اس پگڈنڈی کے راستہ میں دھان کے کھیت آتے تھے۔ اور چھوٹے چھوٹے جنگلی مر غز
ار آتے تھے۔ اور نیچے نیچے ٹیلے آتے تھے۔ اور لکڑی کے دو پل آتے تھے۔ جن کے
نیچے شور مچاتے ہوئے خطرناک نالے بہتے تھے۔ اور جن کے دونوں طرف چیل کے چھتنارے
پھیلائے ہوئے درخت کھڑے تھے جن میں سے جب ہوا چلتی تھی تو درخت اس طرح شائیں شائیں
کرتے جیسے دور کہیں بارش ہو رہی ہے۔ ‘‘
کرشن
چندر، میری یادوں کے چنار، ص51)
یہ ناول پڑھتے وقت اختر
الایمان کی نظم ’ایک لڑکا‘ کے تما م مناظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ جس طرح نظم ’ ایک لڑکا ‘ اختر الایمان کے
ماضی کی یادوں کی عکاسی کرتی ہے اسی طرح ’ میری یادوں کے چنار ‘ کرشن چندر کے ماضی
کا عکاس ہے۔کرشن چندر نے اپنے بچپن کے حالات و و اقعات نہایت ہی حقیقی اور فطری
طور پر پیش کیے ہیں اور ساتھ ہی اپنے والدین کا تعارف،ان کا مزاج،ان کے آپسی
تعلقات و نظریات نیز اپنے گھر کے ماحول کو اس ناول میں پیش کیا ہے۔کرشن چندر کی
والدہ اپنے مذہبی نظریات میںشدت کی حامل تھیں۔وہ اونچ نیچ اور ذات پات کی پابند
تھیں۔ لیکن ان کے والد آریہ سماج کو ماننے والے تھے اور کھلے اشتراکی ذہن کے مالک
تھے۔ وہ مہاتما گاندھی کے عقیدہ کے قائل تھے۔ کرشن چندر نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ
ان کے والد نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ کبھی اپنی ذات پر فخر نہیں کریں گے اور
کبھی اپنے نام کے ساتھ ذات کا نام نہیں لکھیں گے۔کرشن چندر کی بچپن کی دوست
’’تاراں ‘‘ہے جو کہ ایک اچھوت کنبے سے تعلق رکھتی ہے۔ کرشن چندر نے اس ناول میں
تاراں کو یوں متعارف کروایا ہے :
’’
لیکن تاراں مجھے پسند ہے۔ اس
کا چہرہ بالکل گول ہے چاند کی طرح اور جب وہ اپنے چھوٹے چھوٹے لب کھول کر ہنستی ہے
تو مجھے بہت پیاری لگتی ہے۔ میں نے طے کر
لیا کہ میں بڑا ہوکر تاراں سے شادی کرلوں گا۔ مگر ابھی اس میں بہت عرصہ باقی ہے
کیونکہ میری عمر آٹھ سال کی ہے۔ اور تاراں چھ سال کی ہے۔ اور ہم لوگوں کو اپنے
ماں باپ کی طرح بڑے ہونے میں بہت سال لگ جائیں گے۔ نہ جانے یہ بڑی عمر کے لوگ ہم
چھوٹے بچوں کو شادی کیوں نہیں کرنے دیتے۔
‘‘
(
کرشن چندر، میری یادوں کے
چنار، ص7)
یہ وہ زمانہ تھا جہاں چھوت
چھات عام اور ذات پات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ کرشن چندر کی والدہ کا تاراں کے
تئیں نظریہ ملاحظہ ہوں :
’’میری ما ں نے تاراں کو پکڑ لیا تھا۔اور اسے زور زورسے
طمانچے اور مکے مار مار کر کہہ رہی تھی۔کمبخت اچھوت کم ذات لڑکی۔آج پورن ماشی کے
شبھ دن بھی میرے بچے کے ساتھ کھیلتی ہے !جبھی تو وہ اچھا نہیں ہوتا !دیکھ تو
سہی۔آج میں تیری ہڈیاں توڑ کر رہوں گی... میرے پتا جی نے روتی ہوئی تاراںکواپنی
گود میں اٹھا لیا اور اسے باغیچے میںلے گئے۔اور اس کی جھولی سرخ سرخ سیبوں سے
بھردی اور ان خوبصورت سیبوں کو دیکھ کر روتی ہوئی تاراں ساری مار بھول گئی۔اور
اپنے آنسوئوں میں مسکرانے لگی۔‘‘
اس اقتباس سے کرشن چندر کے
والدین کو بخوبی جانا جا سکتا ہے۔ دونوں مزاج کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد
تھے۔کرشن چندر نے ناول میں جگہ جگہ ذکر کیا ہے کہ ان کی ماں کے اندر چڑچڑاپن بہت
تھا اور شکی مزاج تھیں جبکہ ان کے والد ایک سنجیدہ ذہن انسان پرست اور عاشق مزاج
انسان تھے۔یہی عاشق مزاجی انھوں نے اپنے بیٹے کرشن چندر کو بخشی تھی۔کرشن چندر
اپنے والد سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے اپنے والد کے کردار کو اس ناول میں بڑی خوبی
سے پیش کیا ہے۔ جہاں ایک طرف ان کی ماں کٹر اور تنگ ذہن رکھتی تھیں وہیں ان کے باپ
آزاد طبیعت کے مالک تھے۔ ان کے والد نہایت ایماندار اور کھلا ذہن رکھنے والے
انسان تھے۔ اور اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فجے کی موت پر افسوس
کرتا ہے اور خانم کو آخری بار فجے کا
چہرہ دیکھنے میں مدد کرتا ہے،وہ نیاز احمد کا اچھا دوست ہے اور جب نیاز
احمد کے خلاف گرفتاری کا حکم جاری ہوتا ہے اور اس کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے
انعام کا اعلان ہوتا ہے تب کرشن چندر کے والد اس کی مدد کے لیے آگے نکلتے ہیں اور
اپنے گھر میں چھپائے رکھتے ہیں۔ اور آخر میں جب ایک مسلمان ہیڈ ماسٹر زخمی حالت
میں اسپتال میں پڑا ہوا تھا اور راجہ کی طرف سے حکم ہوا تھا کہ وہ زندہ نہیں رہنا
چاہئے۔ لیکن اس کے باوجود کرشن چندر کے والد نے اپنے انجام کی پرواہ کیے بغیر
ایمانداری سے ہیڈ ماسٹر کا علاج کیا۔ اسی وجہ سے بعد میں انھیں ریاست بدر کیا گیا۔
اس کے علاوہ اس ناول میں کرشن
چندر نے پونچھ کے مختلف علاقوں میں امیر اور غریب لوگوں کی زندگی کے رہن سہن کا
بھی ذکر کیا ہے۔ خانم سے فیض محمد( فجے) کی محبت،فجے کی موت اور کرشن چندر کے والد
کا کردار بھی اس ناول میں خوبی سے پیش کیا ہے۔ریاست پونچھ جو آج جموں و کشمیر کا
ایک ضلع ہے آج بھی ایک پچھڑا ہوا علاقہ مانا جاتا ہے۔ کرشن چندر نے اپنے ناول ’’
میری یادوں کے چنار ‘‘ کے ذریعے پونچھ کی تہذیبی، سیاسی اور معاشی زندگی کی بھی
بڑی عمدہ عکاسی کی ہے۔ اس ناول میں انھوں نے فجے اور موسیٰ خان کے ذریعے وہاں کے
نظام، غریب اور امیر طبقے کے درمیان مسائل اور پھر حکومت کے رویے کو بڑی سنجیدگی
سے پیش کیا ہے۔ فجے ایک ڈاکو ہے جو غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ غریبوں پر حکمران
اور امیر طبقے کے مظالم برداشت نہیں کرپایا اس لیے ڈاکو بن گیا۔ ان دنوں ریاست
پونچھ میں وہاں کے راجہ کی حکمرانی الگ ہوا کرتی تھی اور انگریزوں کی حکومت الگ۔
اور ان کا بے رحمانہ راج عوام پر تھا جو امیر اور غریب دو طبقے میں بٹی ہوئی
تھی۔اس سارے نظام کی پیداوار فجے ڈاکو تھا جس کے ساتھ پورے غریب طبقے کی ہمدردی
تھی۔ یہاں تک کہ لڑکیاںاس کے نام کا گیت گایا کرتی تھیں۔ فجے موسیٰ خان کی بیٹی
خانم سے پیار کرتا تھا۔دوسری طرف حکومت نے فجے کے پکڑنے پر انعام رکھا ہوا تھا۔
موسیٰ خان خانم کی خالہ کے ذریعے فجے تک پہنچ جاتا ہے اور نہتے فجے کو گولیوں سے
بھون ڈالتا ہے۔ اس پر راجہ اور امیر طبقہ چین کی سانس لیتا ہے جبکہ غریب طبقہ مزید
دب جاتا ہے۔ اس طرح غریب طبقے کو اٹھنے نہیں دیا جاتا تھا اور جو کوئی سر اٹھاتا
اس کا سر کچل دیا جاتا۔ وہاں ذات پات اور اونچ نیچ کا مسئلہ عام تھا اور اس حوالے
سے اس ناول میںکرشن چندر ایک جگہ لکھتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو :
’’
گو کسی طرح کا ایسا قانون نہ
تھا اور کوئی تحریری ممانعت بھی نہ تھی۔ مگر بس ایک غیر تحریری سا معاہدہ تھا جس
کی پابندی دونوں دنیائوں میں ہوتی تھی۔ ہماری دنیا الگ تھی۔ ان کی دنیا الگ تھی۔
دونوں کے درمیان ایک اوپری قسم کی مفاہمت تھی۔ جس کی وجہ سے آفیسر لوگ مقامی
باشندوں پر اعتماد نہ کر سکتے تھے۔ نہ مقامی باشندوں کو آفیسروں پر پورا بھروسہ
تھا۔ یوں بھی نشیب و فراز میں تضاد تو ہوسکتا ہے۔ اعتماد کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک حکم
دیتا ہے۔ دوسرا اس حکم کو برداشت کرتا ہے۔ اس رشتہ میں محبت کہاں سے آئے گی۔ ؟ ‘‘
(
کرشن چندر، میری یادوں کے
چنار، ص69)
اس ناول کے ذریعے کرشن چندر نے
پونچھ کے راجہ کی بد نظامی کو بھی ظاہر کیا ہے جو اپنے فائدے کے لیے کسی کو بھی
موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ اس ناول میں فجے اور تھانیدار نیاز احمد کا قتل راجہ
کے حکم سے ہوا۔اور راجہ نے ہیڈ ماسٹر کے قتل کا بھی حکم دے دیا تھا۔جسے کرشن چندر
کے والد نے ناکام بنا دیا۔ تھانیدار نیاز احمد ایک بہادر اور ایماندار سپاہی تھا۔
اور فوجی افسران میں کافی مشہور ہوچکا تھا۔ ایک دن اچانک راجہ اس کی گرفتاری کا
حکم جاری کر دیتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ حکم بھی جاری کیا کہ جو کوئی نیاز احمد
کو زندہ یا مردہ راجہ کے سامنے پیش کرے گا اسے راجہ کی طرف سے دس ہزار کا انعام
دیا جائے گا۔ نیاز احمد کرشن چندر کے والد کا اچھا دوست تھا اس لیے اسی کے گھر چھپ
کے رہنے لگا۔ مگر ایک دن نیاز احمد وہاں سے بھی غائب ہوگیا اور بعد میں اس کی لاش
کے چار ٹکڑے ملے۔
اس
کے علاوہ کرشن چندر کے والد کے معاشقے شانو اور پیرن کے ساتھ اور ان کی والدہ کا
شدید ردعمل کا مظاہرہ بھی اس ناول میں کرشن چندر نے بڑی بے باکی اور خوبی سے پیش
کیا ہے۔معاشقے کی ایک کہانی یہ ہے کہ شانو دق کا مرض لے کر اسپتال میں داخل ہوئی۔
وہ بہت خوبصورت تھی۔ وہ بے سہارا اور بیوہ تھی جس کا شوہر منڈپ میں ہی مر گیا تھا۔
کرشن چندر کے والد گوری شنکر اسے دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگئے۔ انھوں نے بڑے پیار
اور احترام کے ساتھ اس کا علاج کیا۔ دن کو چار چار دفعہ اس کے پاس آتے اور گھنٹوں
اس کے پاس بیٹھے رہتے۔ شانو جو بیوہ ہونے کے سبب گھر سے بے سہارا تھی، جس کی
امیدیں مر چکی تھیں، گوری شنکر کی وجہ سے اس کی امیدیں پھر سے زندہ ہوگئیں۔ اس کی
مرجھائی ہوئی زندگی پھر سے کھلنے لگ گئی۔ مگر یہ معاملہ زیادہ عرصہ نہ چل پایا۔
کرشن چندر کی ماں کو پتہ چل گیا اور شانو غائب ہوگئی۔جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ ناول
کرشن چندر کے گھریلو حالات پر مبنی ہے اس لیے مذکورہ بیرونی تمام واقعات کا تعلق
کرشن چندر کے گھر سے ہے۔ کرشن چندر کے والد جب بیمار ہوتے ہیں تو ان کی بیماری کا
ذکرکرشن چندر نے بڑی فنکاری سے کیا ہے، اسی طرح جب ان کی والدہ کو سانپ ڈس لیتا ہے
اور اس کے بعد وہ جن حالات سے گزرتے ہیں ان کی منظر کشی کرشن چندر کا ہی کمال ہے۔
’میری یادوں کے چنار‘ ان کی اس زندگی کی عکاسی کرتا ہے جو
انھوں نے پونچھ میں گزاری۔مختصراًیہ کہ یہ ناول کرشن چندر کے لڑکپن اور ان کے
والدین کی گھریلو زندگی کے ساتھ جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس ناول میں کرشن چندر نے
ہر واقعہ کو اسی طرح بیان کیا ہے کہ طبیعت کھل اٹھتی ہے۔وہ خود نوشت تو نہیں لکھ
پائے مگر ’ مٹی کے صنم ‘، ’ میری یادوں کے چنار‘ اور ’ آدھے سفر کی پوری کہانی‘
کی صورت میں اپنی زندگی کا کچھ حصہ منظر عام پر لے ہی آئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں