اردو دنیا، مارچ 2025
اخروٹ
شناخت: ایک درخت کا پھل ہے۔ یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک
اصلی دوسرا صحرائی۔ اصلی میں دو قسمیں ہیں۔ ایک کا درخت بویا جاتا ہے اور دوسرا
اپنے آپ لگتا ہے۔ بوئے ہوئے کا چھلکا پتلا ہوتا ہے، اس کو کاغذی اخروٹ کہتے ہیں۔
اپنے آپ اگنے والے کا چھلکا موٹا ہوتا ہے۔ اس کا درخت ہمالیہ میں کشمیر سے لے کر
منی پور تک اور دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا ہے۔ یہ درخت ایک سو فٹ سے ایک سو بیس فٹ
تک اونچا ہوتا ہے۔ اس پیڑ کی گولائی بارہ فٹ سے اٹھائیس فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کے پتے
گول اور کچھ کچھ لمبائی لیے ہوتے ہیں جن کی وضع ساذج ہندی کے پتوں جیسی ہوتی ہے۔
لکڑی سیاہی مائل بے ریشہ اور جوہر دار ہوتی ہے۔ اس کے پتے جاڑوں میں گر جاتے ہیں
اور ماگھ کے مہینے سے چیت تک دوسرے پتے نکل آتے ہیں۔ اس میں سفید پھولوں میں گچھے
لگتے ہیں جن کی شکل مدن پھل کے پھولو ںکی سی ہوتی ہے۔ یہ درخت جب تیس چالیس برس کا
ہوجاتا ہے تب اس میں پھل آنے لگتے ہیں۔ پھلوںکو اکٹھا کرنے کے تین مہینوں کے بعد
ان میں سے تیل نکالا جاتا ہے کیونکہ اس زمانے تک اس میں دودھ کی طرح ایک رطوبت رہتی
ہے، بعد اس کے وہ جم کر مینگ بن جاتی ہے۔ چیت بیساکھ میں اس کے پھول لگ جاتے ہیں
اور اساڑھ آنے تک پھل پک جاتے ہیں۔
مزاج: گرم دوسرے درجہ میں، خشک تیسرے درجہ میں۔
فوائد: اس کی مینگ لطیف ہے۔ اجابت خلاصہ لاتی ہے۔ اعضاء
رئیسہ کو قوت پہنچاتی ہے۔ خصوصاً دماغ کو قوت دیتی ہے۔ حواس کو روشن کرتی ہے،
بوڑھوں کے موافق ہے، تازہ کھانا چاہیے۔ خون صالح پیدا کرتی ہے۔ انزروت کے ساتھ
معدے کے کیڑے نکالتی ہے۔ چوٹ کے نشان پر تازہ مینگ کا لیپ کرنے سے نشان جاتا رہتا
ہے۔ اس کے لگانے سے جھائیں جاتی رہتی ہے، اس کا لیپ سداب اور شہد کے ساتھ پٹھے کے
التوا کے لیے مفید ہے، اس کی مینگ نہار نہ چاب کرداد پر لگانے سے جاتا رہتا ہے، اس
کی مقشر مینگ بادام کی مینگ سے معدے کے زیادہ موافق ہے۔ پرانی مینگ معدے کے لیے ردی
ہے، خاص کر پرانا جلدی فاسد ہوجاتا ہے۔ خلط صفراوی اور دخانیت کی طرف مستحیل
ہوجاتا ہے، اخروٹ کی مینگ باہ اور حافظہ کو قوت دیتی ہے۔ آتشک کی بیماریوں کو مفید
ہے، ریاح دور کرتی ہے، مادہ ردی کو تحلیل کرتی ہے، بدہضمی کو مانع ہے، بھنی ہوئی مینگ
کھانسی کو فائدہ مند ہے۔ اس کو پیس کر ناف پر لیپ کیا جائے تو مروڑ جاتی رہتی ہے۔
اس کو پانی میں جوش دے کر پانچ روز تک پینے سے سر کا
تنقیہ ہوجاتا ہے، ذہن اور فکر میں تیزی آجاتی ہے، سر کے میں پرورش کی ہوئی مینگ
ضعف معدے کے لیے تریاق کا حکم رکھتی ہے۔ سیل اور دمہ میں مفید ہے۔ اخروٹ کی پرانی
مینگ کو چاب کر گوشہ چشم کے ناسور پر لگانا فائدہ مند ہے۔ اخروٹ کی مینگ کو منھ پر
ملنے سے منھ کا تشنج دور ہوجاتا ہے۔ ساڑھے دس گرام اخروٹ کی مینگ ہم وزن مصری کے
ساتھ سات روز تک کھانے سے وجع الورک کو فائدہ ہوتا ہے، انجیر خشک اور سداب اور نمک
کے ساتھ کھانے سے ہر قسم کے زہر کو نفع دیتی ہے، خاص کر کسی زہر سے قبل اسے کھا لیا
جائے تو زہر اثر انداز نہیں ہوتا ہے کیونکہ اخروٹ میں ایک قسم کی تریاقیت ہے، ابن
زہر کہتا ہے کہ انجیر کے ساتھ کھانے سے زہر اثر نہیں کرتا۔ اگر شہد نمک اور پیاز
کے ساتھ دیوانے کتے کے کاٹے ہوئے مقام پر لگائیں تو نفع دیتا ہے۔ اخروٹ کی مینگ
قابض نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں خشونت پائی جاتی ہے، البتہ اس کے اندرونی
چھلکے میں جو مینگ پر ہوتا ہے، تھوڑا سا قبض ہے لیکن وہ بھون لینے سے زیادہ قابض
ہوجاتا ہے۔
علامہ گیلانی رقمطراز ہیں کہ اس درخت کے تمام اجزا میں
قوت قابضہ پائی جاتی ہے اور اگر اخروٹ کے سب سے اوپر ہوئے چھلکے میں قبض ظاہر ہے
اور تمام اجزا میں تلخی ہے، پرانی مینگ میں قوت جلا قوی ہوتی ہے۔ اس کی مینگ کڑوی
جلدی ہوجاتی ہے۔
ادرک
شناخت: اک جڑ ہے، مزہ چرپرہ ہوتا ہے، زمین کے اندر پائی
جاتی ہے، تر و تازہ کو ادرک اور خشک کو سونٹھ کہتے ہیں، اس لیے اطبا اسے زنجبیل
رطب بولتے ہیں اور بعض نے سونٹھ کی قسم سے بتایا ہے اوربعض کے قول سے ظاہر ہے کہ
سونٹھ سے غیر بحالت تری مشابہ سونٹھ کے اور خشک ہونے پر اس کے مغائر ہوتی ہے اور
تر اپنے تک کامل ابحواص ہے، خشک ہونے پر خفیف مگر یہ قول تحقیق کا محتاج ہے، کوہی
ادرک زیادہ قوی ہوتی ہے، ادرک میں سے ڈالیاں نکلتی ہیں، ہر ڈالی ہری اور سیدھی اور
ہاتھ دو ہاتھ تک لمبی اور چھنگلیاں کے برابر پتلی ہوتی ہے، جڑ کے قریب اوپر کا رنگ
سرخ ہوتا ہے، اس پر گنوں کے پتوں کی طرح پتے لپٹے ہوتے ہیں، جوگنوں کے پتوں کی طرح
ملائم اور بہت سبز ہوتے ہیں، ہر پتہ بالشت دو بالشت لمبا اور اس سے چھوٹا بھی ہوتا
ہے۔
مزاج: گرم و گراں ہے۔
فوائد: ادرک ملین ہے، دماغ کو گرم کرتی ہے، ہاضم ہے اگر
تحلیل غذا کے وقت کھائیں تو جلدی ہضم ہوجاتی ہے اور اگر کھانے سے قبل نمک لاہوری
کے ساتھ کھائیں تو نفخ دور کردیتی ہے، ہاضمہ کو قوت دیتی ہے، ریاح کو تحلیل کرتی
ہے، بھوک کو بڑھاتی ہے، بلغم اور رطوبت معدہ کو دفع کرتی ہے، معدہ اور جگر کی قوت
کو بڑھاتی ہے، اس کے رس میں شہد ملا کر چاٹنا بلغمی کھانسی کو مفید ہے اور ارد کی
دال میں ڈالنا اس کی اصلاح کرتا ہے، سرد مزاج والوں کے لیے بے حد مفید ہے۔ وید
کہتے ہیں کہ گرمی بدن کے موافق گرم ہے، طبیعت کو خوش کرتی ہے، ورم اعضا سقوط اشتہا
لاغری بلغم سینے کان اور ناک کے امراض کے لیے نافع ہے، بواسیر گٹھیا اور استسقا کو
دور کرتی ہے، کھانسی دمہ، ثقل، سمع اور خروج مقعدکو مفید ہے، مدر ہے داء الثعلب کو
مفید ہے اورام ریحی بارد اور بائے کے لیے بے حد مفید ہے۔ اس کا مربہ سونٹھ کے مربے
سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ اس میں بمقابلہ اس کے گرمی بھی کم ہے۔ ادرک ساڑھے دس ماشہ
پرانا گڑ ساڑھے سترہ ماشہ دونوں کو نہار منھ کئی دن استعمال کرنے سے بند آواز کھل
جاتی ہے۔ ادرک کا دو سیرپانی پاؤ بھر تل کے تیل میں ملا کر یہاں تک جوش دیں کہ
پانی خشک ہوجائے اور روغن باقی رہ جائے تو اس کی مالش درد ریاحی کے لیے اور جوڑوں
کا درد اور جوڑوں کی سختی کے لیے سودمند ہے، کھانا کھانے سے پہلے ادرک کے ٹکڑوں پر
نمک چھڑک کر کھانے سے کھانے کی طرف سے نفرت اور اشتہا کا نہ ہونا موقوف ہوجاتا ہے۔
بعض کا بیان ہے کہ ادرک مضعف باہ ہے مگر یہ قول تحقیق طلب ہے کیونکہ سونٹھ مقوی
باہ ہے اور وہ ادرک سے بنتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ ادرک مقوی باہ نے ہو او ریہ تو
نہایت تعجب کی بات ہے کہ مضعف باہ ہو ادرک کے رس میں دودھ ملا کر سونگھنے سے ماتھے
کا درد اور دوسرے امراض دفع ہوجاتے ہیں، ادرک کے رس میں شہد ملا کر چاٹنے سے قوت
ہاضمہ درستی پر آجاتا ہے، لیکن جس کا سبب صفرا ہو اس کے رس کی دو تین بوندیں
آنکھ میں ٹپکانے سے آنکھوں کا درد رفع ہوجاتا ہے، اس رس کوسونگھانے سے تپ کی بے
ہوشی رفع ہوجاتی ہے۔
ادرک کے ٹکڑوں کو نمک میں لپیٹ کر دانت میں دبانے سے
سردی کی وجہ سے جو دانتوں میں درد ہوتے ہیں جاتے رہتے ہیں، ادرک تر پھلا اور گڑ کو
اکٹھا کرکے دینے سے یرقان کو نفع ہوتا ہے، اس کو نمک کے ساتھ کھانے سے ضعف اشتہا
جاتا رہتا ہے۔ اس کے رس میں شہد ملا کے چٹانے سے دمہ کھانسی زکام اور بلغم مٹتے ہیں،
اس کے رس میں اجوائن کو پیس کر بدن پر مالش کرنے سے بادی کا درد دفع ہوجاتا ہے، اس
کے خالص رس میں پرانا گڑ ملا کرپلانے سے سب بدن کی سوجن اترتی ہے مگر اس کے
استعمال کے وقت مریض کو بکری کا دودھ استعمال کرانا چاہیے، اس کا رس نیم گرم کرکے
ٹپکانے سے کان کے بادی کا درد ٹھیک ہوجاتا ہے۔
اس کا اچار کھانے سے بھوک لگتی ہے، غرض خلاصہ یہ ہے کہ
ادرک اپنے اندر صدہا خصوصیات لیے ہوئے ہے۔
السی
شناخت: السی کے پودے کی ساق پتلی اور قریب ایک ہاتھ کی
لمبی، پھول لاجوردی ہوتا ہے، اس کی گھنڈی جس میں بیج ہوتے ہیں چنے کے دانے کے
برابر ہوتی ہے۔ اس میں بیج بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ بیج چکنے ہوتے ہیں۔ بعض کا رنگ زردی
ویزگی مائل اور بعض کا سرخی مائل اور بعض کا سیاہی مائل اور بعض کا سفید ہوتا ہے۔
اس پودے کی چھال سے ایران وغیرہ میں کپڑے بنتے ہیں اور کپڑے کو کتاں کہتے ہیں۔ جب
مطلق السی بولتے ہیں تو بیج مراد ہوتے ہیں۔ گیلانی کہتے ہیں کہ طبیبوں کی یہ عادت
پڑگئی ہے کہ جب مطلق بزر بولتے ہیں تو بزرکتاں یعنی السی مراد ہوتی ہے۔ بعد اس کے یہ
اصطلاح مقرر کرلی ہے کہ جب مطلق بزر بولیں تو اس سے السی کا تیل مراد ہوتی ہے بہتر
وہ بیج ہیں جو تازہ اور بھاری اور موٹے ہوں۔
مزاج: پہلے درجہ میں گرم و خشک۔
فوائد: السی کا
کپڑا پہننا حرارت کو دور کرتا ہے، پسینہ کم کرتا ہے، خارش اور ورم سخت کو بہت نافع
ہے۔ اس میں جوئیں کم پڑتی ہیں، شریف نے لکھا ہے کہ اگر یہ چاہیں کہ بدن دبلا
ہوجائے تو جاڑوں میں کتاں کا کورا کپڑا بغیر دھلا ہوا پہنیں اور گرمیوں میں کورا
پہنیں، اس کا پودا دماغ کا سدہ کھولتا ہے، زکام کو بے حد نفع بخش ہے، دھواں خرابیِ
رحم کی اصلاح کرتا ہے، اس کو جلا کر راکھ تازہ زخموں پر چھڑکنے سے خون بند ہوجاتا
ہے۔ سوزش اور درد بھی بند ہوجاتے ہیں۔ زخموں میں اس کا کپڑا بھرنا مفید ہے، زخم کو
بھر دیتا ہے، اس کا پھول مفرح و مقوی دل ہے۔ اس کے بیجوں کا لعوق بلغم کھانسی کو
دور کرتا ہے اور سینے کی رطوبت پاک کرتا ہے۔ اس کے بیج قبض رفع کرتے ہیں اور سینے
کو جلا دیتے ہیں اور درم کو تحلیل کرتے ہیں۔ گردے اور مثانے کے زخم بھرتے ہیں۔پیشاب
آور ہیں، قوت باہ بڑھاتے ہیں، مغلظ منی ہیں مثانے اور گردے کی پتھری توڑ کر نکال
دیتے ہیں، تخم کتاں پیس کر مصری یا شہد کے ساتھ قوام میں ملا کر چاٹنے سے بلغمی
کھانسی دور ہوجاتی ہے۔ تخم کتاں میں رطوبت فضلیہ ضرور ہے۔ خاص کر تازہ السی میں اسی
وجہ سے نفخ پیدا کرتے ہیں۔ ان کے لیپ سے جھائیں اور داد جاتے رہتے ہیں۔ ناخنوں میں
خشکی آجائے اور پھٹنے اور چھلکے اترنے لگیں تو ان کو پیس کر شہد کے ساتھ لگانا
چاہیے۔ صحت کاملہ ہوگی اسے پیس کر تل کے تیل میں ملا کر لگانے سے ہر قسم کے ورم کو
نفع دیتے ہیں۔ درد اور سوزش دفع ہوجاتی ہے۔ گرم پانی میں پیس کردرد سردائمی کے لیے
لگانا مفید ہے۔ تین بار لگانے سے بالکل جاتا رہتا ہے۔ سر کے درد اور گنج کو دفع
کرتا ہے۔ اس کی دھونی سے گرم زکام جاتا رہتا ہے۔ ناک کا سدہ کھل جاتا ہے۔ اس کا
لعاب آنکھ میں ٹپکانے اور لیپ کرنے سے اس کی سرخی دفع ہوجاتی ہے۔ ان کا استعمال
تھوک میں خون آنے کو روکتا ہے۔ تر کھانسی کو مفید ہے۔ روغن گل ملا کر حقنہ کرنے
سے آنتوں کے پھوڑوں کو بہت نفع ہوتا ہے۔ ان کا لعاب روغن کے ساتھ پینے سے بھی
گردے اور مثانے اور رحم کے زخموں کو نفع پہنچاتا ہے۔ ہر روز سوا دو ماشہ السی کے بیج
کھانے سے آنتوں کا درد جاتا رہتا ہے۔ پیشاب اور پسینہ اور دودھ اور حیض جاری
ہوجاتا ہے۔ قبض رفع ہوجاتا ہے، منی بڑھتی ہے، گردے اور مثانے کے زخم اور پھورے کو
نفع پہنچاتا ہے، لیکن پیشاب جاری کرنے کے بارے میں ان کی طاقت ضعیف ہے، البتہ
بھوننے سے طاقت آجاتی ہے۔ اس لیے کہ قبض شکم ہوکر مثانے کی طرف رطوبات رجوع
ہوجاتے ہیں۔ ایک تولہ السی کے بیج پانی میں جوش دے کر پیس لیں اور پی لیں کئی دن ایسا
کرنے سے مثانے کی پتھری خارج ہوجاتی ہے اور اگر اسے کوٹ کر تھوڑی سی کالی مرچ کے
ساتھ شہد میں چاٹا کریں توباہ کو بے حد فائدہ ہوتا ہے۔ کیسی بھی کمزوری ہوجاتی رہتی
ہے اور تنہا بھی پونے دو ماشہ روز کھانے سے منی بڑھتی ہے ۔ ان میں عجیب خوبی ہے کہ
سرد اور گرم دونوں قسم کے ورموں کو خواہ وہ اعضائے ظاہری میں ہو ںیا باطنی میں تحلیل
کرتے ہیں۔ ڈاکٹر السی کے بیجوں کا جوشاندہ کھانسی اور زکام اور دستوں اور پیچش میں
مفید بتاتے ہیں اور اس کی کھلی کی پلٹس بناتے ہیں۔
امڑہ
شناخت: اس کے درخت ہندوستان میں اکثر سب جگہ بوئے جاتے
ہیں اور اپنے آپ بھی اگتے ہیں۔ یہ درخت پچیس فٹ اونچا ہوتا ہے۔ اس کے تنے کی
گولائی چار فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کے پتے شاخ کے دونوں طرف برابر لگتے رہتے ہیں۔ پکنے
پر ہرے اور چمکدار ہوجاتے ہیں اور ان کو ملنے سے ایک خاص طرح کی بو آتی ہے، یہ
پتے چھوٹے چھوٹے نرم اور باریک ہوتے ہیں، پہلے اس میں پھول پھل لگتے ہیں۔ اس میں
آم کی بور کی طرح بور آتا ہے او رپھل کندوری کی طرح چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں، ان کے
چھلکے پر پیلے اور کالے داغ ہوتے ہیں، چھلکوں کے پاس کا گودا بہت کھٹا ہوتا ہے اور
گٹھلی کے پاس کا گودا بہت میٹھا ہوتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ پھل جب تک کچا ہوتا ہے
سبز و ترش اور تھوڑا تلخ ہوتا ہے اور جتنا پکتا جاتا ہے زرد اور قدرے کھٹ مٹھا
ہوتا جاتا ہے، اخروٹ سے ذرا چھوٹا ہوتا ہے، چیت میں اس کے پھول لگتے ہیں اور جاڑوں
کے شروع میں اس کے پھل پکتے ہیں، اس کے درخت میں ایک قسم کا گوند لگتا ہے، پتوں کا
مزہ ترش اور نہایت بکسا ہوتا ہے، پھول بھی ترش مزہ ہوتے ہیں، کونپلوں اور پھولوں
کو پکا کر کھاتے ہیں، مچھلی میں ڈالنے سے نہایت خوش ذائقہ معلوم ہوتے ہیں، امڑے کا
درخت بنگال میں کثرت سے ہوتا ہے۔
مزاج: سرد دوسرے درجہ میں خشک پہلے درجہ میں۔
فوائد: امڑہ صفراوی دستوں کو نافع ہے اور صفراوی بیماریوں
کو کھوتا ہے، گرم مزاج والو ںکے موافق ہے، اس کے پھل کی مینگ کھلانے سے وہ ضعف
ہاضمہ دفع ہوجاتا ہے،جو صفرا کی وجہ سے ہوتا ہے، پتوں کا سفوف اور چھال کا
جوچاشاندہ ستوں میں اگر آنوں آتی ہے تو اسے دینے سے فائدہ ہوتا ہے، اس کا گوند
دوا کی تیزی کو کم کرنے کے لیے اس میں ملایا جاتا ہے۔ اگر کان میں بادی کی وجہ سے
درد ہو تو اس کے پتو ںکا رس باہر کی طرف لگانا چاہیے اور اندر بھی ڈالنا چاہیے، اس
کے پھل کو پیس کر زہر میں بجھے ہوئے تیر کے زخم پر لگانے سے فائدہ ہوتا ہے، اس کے
زہر کو اتارنے کے لیے سوکھا یا تر و تازہ
پھل کھلاتے ہیں۔ اگر اس کا پھل نہ ملے تو اس کی جگہ پھٹکری کام میں لاتے ہیں۔ اس
سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بدن پر ایسے زخموں
کو کسیلی چیزیں فائدہ پہنچاتی ہیں، مسوڑھوں کا درد دور کرنے کے لیے اس کے پھل کو
جوش دے کر مل کر چھان کر یا سرد پانی میں بھگو کر مل کر چھان کر یا گرم پانی میں
بھگو کر مل کر چھان کر اس سے کلیاں کرانا چاہیے۔ اس کے پھل کی چٹنی بنائی جاتی ہے،
اس کا کچا پھل کھانے کے کام آتا ہے، اس کی گٹھلی کی مینگ خون حیض بند کرتی ہے، اس
پھل کے زیادہ کھانے سے بدن میں خراش پیدا ہوتی ہے۔
بعض وید کہتے ہیں کہ دودھ بڑھاتا ہے، معدے کوقوت دیتا
ہے، بھوک زیادہ کرتا ہے، بعض ویدوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ امڑے کا پھل صفرا پیدا
کرتا ہے۔
اس کے درخت کی دو تولہ چھال پیس کر بکری کے دودھ کے
ساتھ کھانا تین روز تک مرض اہوہ کو مٹاتا ہے اور ایسے مریض کے سر اور ہتھیلی اور
تلوؤں پر بھی ملتے ہیں، اہوہ ایک مرض ہے جو بنگال میں پیدا ہوتا ہے، ناک میں پھنسی
پیدا ہوکر بہت درد اور تیز تپ ہوتی ہے۔
ماخذ: علاج بذریعہ غذا، مصنف: حکیم احتشام الحق قریشی، دوسرا ایڈیشن: 2006، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں